Tag: آگ

  • امریکا: 8 بچوں سمیت 12 افراد جل کر ہلاک

    امریکا: 8 بچوں سمیت 12 افراد جل کر ہلاک

    پینسلوینیا: امریکی شہر فلاڈیلفیا میں خوف ناک آتش زدگی میں 8 بچوں سمیت 12 افراد جل کر ہلاک ہو گئے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی ریاست پینسلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا میں واقع ایک عمارت میں آگ لگنے کے باعث آٹھ بچوں سمیت بارہ افراد ہلاک ہو گئے۔

    فائر حکام کے مطابق آگ بدھ کی صبح فلاڈیلفیا کے علاقے فیئرماؤنٹ میں این 23 اسٹریٹ پر ایک رہائشی اپارٹمنٹ میں لگی، مرنے والوں کی عمریں 2 سے 33 سال کے درمیان بتائی گئی ہے۔

    فائر فائٹرز کو عمارت میں داخل ہونے پر تمام منزلوں پر شدید دھوئیں اور تپش کا سامنا کرنا پڑا، اور وہ ایک بچے کو بچانے میں کامیاب رہے لیکن بعد ازاں وہ بھی جاں بر نہ ہو سکا۔

    فائر حکام کے مطابق گھر کو آگ لگنے کے بارے میں آگاہ کرنے والا الارم کام نہیں کر رہا تھا، بدھ کی علی الصبح لگنے والی آگ کی وجہ بھی معلوم نہیں ہو سکی ہے، لیکن یہ شہر میں اب تک کا سب سے بڑا حادثہ ہے جس میں آگ لگنے سے اتنے لوگ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

    فائر محکمے کے پہلے ڈپٹی کمشنر کریگ مرفی نے کہا، یہ اب تک کا بدترین حادثہ ہے، میں نے اپنی زندگی میں ایسا حادثہ نہیں دیکھا تھا۔

    صدر جو بائیڈن اور خاتون اول جِل بائیڈن کا اس جگہ سے گہرا تعلق رہا ہے، اس واقعے پر تعزیت کرتے ہوئے جل بائیڈن نے ٹویٹ کیا، فلاڈیلفیا میں آتش زدگی میں ہلاک ہونے والوں کے اہل خانہ اور پیاروں سے میری تعزیت۔

  • جلتی ہوئی عمارت کی پانچویں منزل سے لڑکوں نے اپنی جان کیسے بچائی؟ دل دہلا دینے والی ویڈیو

    جلتی ہوئی عمارت کی پانچویں منزل سے لڑکوں نے اپنی جان کیسے بچائی؟ دل دہلا دینے والی ویڈیو

    امریکی شہر نیویارک میں آتشزدگی کا شکار عمارت سے 2 نوجوان لڑکوں نے پائپ کے ذریعے چھلانگ لگا کر اپنی جانیں بچائیں، دونوں لڑکے معمولی طور پر زخمی بھی ہوئے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق نیویارک کے علاقے مین ہٹن میں واقع اس عمارت میں الیکٹرک بائیک کی بیٹریز کی وجہ سے آگ بھڑکی۔

    نیویارک فائر ڈپارٹمنٹ کے مطابق آتشزدگی سے 1 شخص ہلاک جبکہ 1 خاتون زخمی ہوئیں جنہیں اسپتال منتقل کردیا گیا، جلتی ہوئی منزل پر 2 لڑکے بھی پھنس گئے جو اپنی جان بچاتے ہوئے زخمی ہوئے۔

    سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو میں دیکھا جاسکتا ہے کہ ایک لڑکا پانچویں منزل کی کھڑکی سے لٹک رہا ہے، مذکورہ فلور پر گہرا سیاہ دھواں پھیلا ہوا ہے۔

    لڑکا برابر میں موجود پائپ تک پہنچ جاتا ہے اور اسی دوران دوسرا لڑکا کھڑکی تک آتا ہے۔ اسی دوران کھڑکی میں آگ بھڑکتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔

    دونوں لڑکے پائپ کے ذریعے پھسلتے ہوئے نیچے تک آتے ہیں جہاں ریسکیو عملہ فوری طور پر انہیں اپنی نگرانی میں لے لیتا ہے۔

    پائپ سے نیچے اترنے کی وجہ دونوں لڑکے معمولی طور پر زخمی بھی ہوئے ہیں جنہیں اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

  • باس سے تنگ خاتون ملازم نے تیل کے گودام کو آگ لگا دی

    باس سے تنگ خاتون ملازم نے تیل کے گودام کو آگ لگا دی

    بینکاک: تھائی لینڈ میں ایک خاتون نے اپنے باس کے ڈانٹنے پر دلبرداشتہ ہو کر اس تیل کے گودام کو آگ لگادی جہاں وہ کام کرتی تھیں، خاتون کے غصے کے سبب 9 لاکھ یورو کا نقصان ہوگیا۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق این سریا نامی خاتون نے پولیس کو بیان دیا ہے کہ اس نے یہ حرکت اپنے باس پر غصے کی وجہ سے کی، کیونکہ ان کے باس نے انہیں ڈانٹا اور ان کے کام کے طریقہ کار پر تنقید کی تھی۔

    گودام کی سی سی ٹی وی فوٹیجز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ خاتون کاغذ کے ٹکڑے لیے گودام میں داخل ہوتی ہیں اور لائٹر سے کاغذ کو شعلہ دکھا کر تیل کے کنٹینرز پر پھینک دیتی ہیں۔

    ان کے نکلنے کے بعد وہاں سیاہ دھواں دکھائی دیتا ہے، آگ جلد ہی عمارت میں پھیل گئی جس میں ہزاروں لیٹر تیل ذخیرہ کیا جاتا تھا۔

    پولیس نے خاتون کے ان کے گھر سے گرفتار کرلیا جس کے بعد انہوں نے گودام کو آگ لگانے کا اعتراف بھی کرلیا۔

    خاتون کا کہنا ہے کہ وہ اس گودام میں گزشتہ 9 سال سے کام کر رہی ہیں، ان کے مینیجر ہر روز ان کی شکایت کرتے تھے جس کی وجہ سے وہ ذہنی تناؤ کا شکار تھیں، تاہم انہیں اندازہ نہیں تھا کہ ان کی لگائی معمولی سی آگ سے اتنا نقصان ہوگا۔

    گودام کی آگ پر 4 گھنٹے بعد قابو پالیا گیا، پولیس کے مطابق خاتون کی حرکت سے 9 لاکھ یورو (18 کروڑ سے زائد پاکستانی روپے) کا نقصان ہوا ہے۔

  • سرگودھا: بھتہ نہ دینے پر خاتون کو آگ لگا دی گئی

    سرگودھا: بھتہ نہ دینے پر خاتون کو آگ لگا دی گئی

    لاہور: صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا میں منگل بازار میں اسٹال لگانے والی خاتون سے بھتہ طلب کیا گیا اور ان کے انکار پر انہیں آگ لگا دی گئی، خاتون کو تشویشناک حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق صوبہ پنجاب کے شہر سرگودھا میں بھتہ نہ دینے پر خاتون کو جلا دیا گیا، پولیس کا کہنا ہے کہ خاتون منگل بازار میں اسٹال لگاتی تھیں جہاں بااثر افراد نے ان سے بھتہ طلب کیا۔

    خاتون کے انکار کرنے پر ملزمان نے انہیں آگ لگا دی، خاتون کو تشویشناک حالت میں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ٹیچنگ اسپتال منتقل کیا گیا ہے۔

    متاثرہ خاتون نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ بااثر افراد منگل بازار میں اسٹال لگانے کے زبردستی پیسے لیتے ہیں۔ ان کے انکار کرنے پر انہیں آگ لگائی گئی۔

    خیال رہے کہ دو روز قبل ہی فیصل آباد میں دکانداروں کی جانب سے 4 گاہک خواتین پر تشدد کا واقعہ پیش آیا ہے۔

    ایک دکاندار نے خواتین پر چوری کا الزام لگا کر دیگر دکانداروں کے ساتھ مل کر ان پر بہیمانہ تشدد کیا، بعد ازاں خواتین کو برہنہ کر کے ان کی ویڈیو بھی بنائی گئی۔

    واقعے میں ملوث 5 ملزمان کو گرفتار کرلیا گیا جبکہ مزید کی تلاش جاری ہے۔

  • لاش میں خودبخود آگ بھڑک اٹھی، دل دہلا دینے والا کیس

    لاش میں خودبخود آگ بھڑک اٹھی، دل دہلا دینے والا کیس

    دنیا بھر کی پولیس کو بعض اوقات ایسے کیسز سے واسطہ پڑتا ہے جو ان کا ذہن گھما کر رکھ دیتے ہیں، ایسا ہی ایک کیس فلوریڈا پولیس کے سامنے آیا جس میں لاش گھر کے اندر پڑی جل کر راکھ ہوگئی مگر گھر کے کسی سامان کو کچھ نہیں ہوا۔

    یہ جولائی 1951 کی ایک صبح کی بات ہے جب فلوریڈا کے علاقے ٹمپا بے کے ایک اپارٹمنٹ کی مالکہ پنسی کارپینٹر کو ایک ٹیلی گرام موصول ہوا جو ان کی ایک کرائے دار کے لیے تھا۔ وہ ٹیلی گرام لے کر اپارٹمنٹ میں گئیں اور دروازہ کھٹکھٹایا تو کوئی جواب نہیں ملا، جس پر انہوں نے دروازہ کھولنے کا فیصلہ کیا۔

    جب انہوں نے دروازے کی ناب کو چھوا تو وہ ناقابل برادشت حد تک گرم ہورہی تھی، پنسی کارپنٹر کو معاملہ مشکوک لگا تو وہ اپنے اپارٹمنٹ واپس گئیں اور پولیس سے رابطہ کیا۔

    جب پولیس اہلکار وہاں پہنچے اور 67 سالہ میری ریسیر کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئے تو ان کا سامنا اپنی زندگیوں کے سب سے پراسرار کیس سے ہوا۔

    معمر خاتون کرسی پر تھیں بس ہوا یہ تھا کہ زندہ یا لاش کی شکل میں نہیں بلکہ راکھ کی صورت میں، اگر بایاں پیر، کھوپڑی اور ریڑھ کی ہڈی کا کچھ حصہ باقی نہیں بچتا تو کوئی بھی یہ بتا نہیں پاتا کہ یہ کسی انسان کی راکھ ہے۔

    اس خاتون کا لگ بھگ پورا جسم جل کر خاک ہو گیا تھا مگر حیران کن طور پر ان کی کرسی کے باقی بچ جانے والے اسپرنگز کے برابر میں اخبارات کا ڈھیر بالکل ٹھیک حالت میں موجود تھا۔

    اپارٹمنٹ کا تمام فرنیچر، قالین، دیواریں درست حالت میں تھے، آتشزدگی کی واحد نشانی کچھ پلاسٹک مصنوعات کے نرم ہونے اور چھت پر حرارت اور دھوئیں سے بننے والے کچھ نشانات تھے۔ یعنی میری ریسیر اپنی نشست گاہ کے وسط میں راکھ کا ڈھیر بن گئیں۔

    میری ریسیر کی پیدائش 8 مارچ 1884 کو ریاست پنسلوانیا کے علاقے کولمبیا میں ہوئی اور اپنے شوہر کی موت کے بعد وہ سینٹ پیٹرز برگ، فلوریڈا منتقل ہوکر اپنے بیٹے اور اس کے خاندان کے قریب مقیم ہوگئیں۔

    میری کو فلوریڈا کا گرم موسم پسند نہیں تھا، وہ تمباکو نوشی کرتی تھیں اور نیند کی گولیاں بھی کھاتی ہیں۔ اپنی موت سے پہلے بیٹے سے ملاقات میں انہوں نے اپنی شکایات بیان کیں اور واپس پنسلوانیا جانے کا ارادہ ظاہر کیا۔

    وہ فلوریڈا کے گرم موسم سے بھاگنے کی خواہشمند تھیں اور ان کے لیے جو ٹیلی گرام بھیجا گیا تھا وہ پنسلوانیا کے ٹرپ کے انتظامات مکمل ہونے کے بارے میں ہی تھا۔

    سینٹ پیٹرز برگ کی پولیس نے اس کیس میں 5 دن میں اپنی شکست تسلیم کرلی۔

    یہ خاتون یقیناً جل کر خاک ہوئی تھیں جس کے لیے 3 ہزار ڈگری سینٹی گریڈ درجہ حرارت کی ضرورت ہوتی ہے مگر اس کے باوجود کمرے میں آتشزدگی کے لگ بھگ کوئی شواہد نہیں تھے۔

    جلنے کے بعد میری ریسیر کی کھوپڑی سکڑ کر بہت مختصر ہوگئی تھی جس نے تحقیقات کو مزید پیچیدہ بنادیا، کیونکہ شدید درجہ حرارت سے کھوپڑی سکڑنے کے بجائے پھیلتی ہے بلکہ پھیل کر پھٹ جاتی ہے۔

    عمارت میں کسی کو بھی آگ کا علم نہیں ہوا بس پنسی کارپینٹر کو صبح 5 بجے کے قریب دھوئیں کی بو محسوس ہوئی تھی مگر وہ انہیں اپنی ناقص برقی مصنوعات کا نتیجہ لگا۔

    پولیس اس موت کے حوالے سے بس ایک بات کی تصدیق کر سکی اور وہ تھا موت کا وقت صبح ساڑھے 4 بجے، وہ بھی اس وجہ سے کیونکہ گھڑی پر وقت ساکٹ پگھلنے کی وجہ رک گیا تھا۔

    7 جولائی کو پولیس کے سربراہ نے میری ریسیر کے باقی بچے جانے والے پیر، 6 چھوٹی چیزیں جن کو دانت خیال کیا گیا، قالین کا ٹکڑا اور راکھ میں ملنے والے شیشے کے ذرات ڈبے میں ڈال کر ایف بی آئی ڈائریکٹر ایڈگر ہوور کو بھیج دیے۔

    اس ڈبے کے ساتھ انہوں نے مراسلے میں لکھا کہ ہمیں ایسی تفصیلات یا خیالات جاننا ہیں جن سے وضاحت ہوسکے کہ ایک چھوٹی سی بند جگہ میں انسانی جسم جل کر خاک ہوجائے مگر اس سے ہٹ کر عمارت کے اسٹرکچر اور فرنیچر کو کوئی بھی نقصان نہ ہو، یہاں تک دھوئیں کے بھی آثار نہ ہونے کے برابر ہوں۔

    متعدد ہفتوں بعد ایف بی آئی نے اس کیس کو وک افیکٹ کا نتیجہ قرار دیا، جس کی وجہ خاتون کے آگ پکڑنے والے نائٹ گاؤن، ان کی سگریٹ اور نیند کی گولیوں کا امتزاج تھا۔

    ایف بی آئی رپورٹ کے مطابق ایک بار جب جسم جلنا شروع ہوتا ہے تو اس میں اتنی چربی اور دیگر آگ پکڑنے والے اجزا ہوتے ہیں جو کئی طرح کی تباہی کا باعث بن سکتے ہیں، کئی بار یہ جلنے سے ہونے والی تباہی اس درجے کی ہوتی ہے کہ انسانی جسم لگ بھگ مکمل طور پر جل کر خاک ہوجاتا ہے۔

    پولیس سربراہ جے آر راکیرٹ نے انسانی جسم کے ایک ماہر ولٹن کروگمین سے بھی تحقیقات کی درخواست کی اور انہوں نے ایف بی آئی کے نتائج کو مسترد کردیا۔

    انہوں نے کہا کہ ہمارے لیے یہ تسلیم کرنا مشکل ہے کہ ایک بار انسانی جسم جلنے لگے تو وہ خود کو مکمل طور پر راکھ بنالے، جیسے کوئی شمع جل کر پگھل جاتی ہے اور بس پگھلے ہوئے موم کے کچھ ذرات ہی بچتے ہیں۔

    راکیرٹ کا کہنا تھا کہ اس رات جو کچھ بھی ہوا اس کے بارے میں ہوسکتا ہے کہ ہم کبھی کچھ نہ جان سکیں مگر یہ کیس اب بھی مجھے ڈراتا ہے، یعنی ایک انسان مکمل طور پر جل کر راکھ ہوجائے اور اس کے اپارٹمنٹ کو کچھ بھی نہ ہو، ایسی صورت میں تو اس پوری جگہ کو جل جانا چاہیئے تھا۔

    یہ رپورٹ 1961 میں شائع ہوئی تھی اور اس کیس کے بارے میں مزید جوابات سامنے نہیں آئے۔ پولیس چیف نے ایک بیان میں اسے اپنے 25 سالہ کیریئر کا سب سے غیر معمولی کیس قرار دیا۔

    اس کیس کے بارے میں مختلف نظریات پیش کیے جاتے ہیں۔

    ایک نظریہ تو یہ سامنے آیا کہ یہ واقعہ کسی وجہ کے بغیر انسانی جسم کے خود جل کر راکھ ہونے کا نتیجہ ہے اور 70 سال بعد بھی اس کیس کے حوالے سے اس خیال کا اظہار کیا جاتا ہے۔

    ایسے کیسز میں ہوتا یہ ہے کہ کوئی بھی شے آگ بھڑکنے کے باہری ذریعے کے بغیر جل کر خاک ہوجائے۔

    میری ریسیر سے ہٹ کر بھی اس طرح کے کیسز سامنے آئے ہیں اور ان کیسز کی تحقیقات بھی کوئی ٹھوس جواب دینے میں ناکام رہی، یعنی یہ ہضم کرنا ہی مشکل ہے کہ کوئی انسان اچانک ہی کسی وجہ سے جلنا شروع ہوجائے۔

    مگر ایف بی آئی نے میری ریسیر کے کیس میں اس خیال کو ٹھوس انداز سے مسترد کردیا تھا۔

    ایف بی آئی نے جو خیال پیش کیا وہ زیادہ دہشت زدہ کردینے والا ہے یعنی وہ خاتون کسی موم بتی یا شمع کی طرح آہستہ آہستہ جل کر راکھ بن گئی۔

    اگر آگ لگنے پر وہ پہلے ہی مر چکی تھیں (فالج یا ہارٹ اٹیک کی وجہ سے) یا بے ہوش یا حرکت کرنے سے قاصر تھیں (نیند کی ادویات کے اثر کے باعث)، تو یہ آسانی سے خیال کیا جاسکتا ہے کہ جلتا ہوا سگریٹ گرا ہو اور ان کو جلانا شروع کردیا ہو۔

    مگر اس نظریے کے درست ہونے میں مسئلہ یہ ہے کہ آخر اپارٹمنٹ اور پوری عمارت اتنی زیادہ حرارت (3 ہزار سینٹی گریڈ سے زیادہ) سے متاثر کیوں نہیں ہوئی اور کھوپڑی کیوں سکڑ گئی؟

    اس موت کے ایک دہائی سے زائد عرصے بعد ولٹن کروگمین نے ایک متبادل تھیوری پیش کی اور وہ یہ تھی کہ ہوسکتا ہے کہ خاتون کو کسی اور جگہ قتل کر کے جلایا گیا ہو اور پھر راکھ واپس اپارٹمنٹ میں پہنچا دی گئی ہو؟

    ان کے مطابق مبینہ قاتل کو انسانی جسم جلانے والے آلات تک رسائی ہو اور خاتون کو راکھ بنانے کے بعد باقیات کو واپس اپارٹمنٹ تک پہنچا دیا ہو۔ مگر اس خیال پر بھی متعدد سوال سامنے آئے جیسے اپارٹمنٹ میں پلاسٹک کا کچھ سامان نرم کیوں ہوگیا اور دروازے کی ناب بہت زیادہ گرم کیوں تھی۔

    اب تک اس کیس سے جڑے سوالات کا کوئی تشفی بخش جواب سامنے نہیں آیا اور اتنے برسوں بعد بھی یہ کیس جدید تاریخ کے چند حل طلب اسرار میں سے ایک سمجھا جاتا ہے۔

  • مظفر گڑھ میں گھر میں آگ لگنے سے 7 افراد جاں بحق

    مظفر گڑھ میں گھر میں آگ لگنے سے 7 افراد جاں بحق

    لاہور: صوبہ پنجاب کے شہر مظفر گڑھ میں گھر میں آگ لگنے سے 7 افراد جاں بحق ہوگئے جن میں شیر خوار بچہ بھی شامل ہے۔

    تفصیلات کے مطابق مظفر گڑھ کے علاقے جہانیاں میں گھر میں آگ لگنے سے 7 افراد جاں بحق ہوگئے، ڈسٹرکٹ ایمرجنسی افسر نے اموات کی تصدیق کردی۔

    ریسکیو ذرائع کا کہنا ہے کہ جاں بحق افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے، جاں بحق افراد میں 4 بچے، 2 خواتین اور 1 مرد شامل ہے۔ مرنے والوں میں 65 سالہ محمد نواز، 35 سالہ خورشید مائی، 19 سالہ فوزیہ مائی، 10، 12، اور ڈھائی سال کے بچے جبکہ 2 ماہ کا شیر خوار بچہ شامل ہے۔

    ریسکیو ذرائع کے مطابق آگ لگنے کی وجہ تاحال معلوم نہیں ہوسکی۔

    دوسری جانب خاندان کے واحد بچ جانے والے شخص کالا خآن نے اسے انتقامی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ڈیڑھ سال قبل پسند کی شادی کی تھی، پسند کی شادی پر میرے سسرالی رشتہ دار خوش نہیں تھے

    کالا خان نے الزام عائد کیا ہے کہ میرے خاندان کو جلا کر قتل کیا گیا ہے۔

    پولیس کے مطابق مرنے والوں میں کالا خان کی بیوی اور شیر خوار بچی بھی شامل ہے، خاندان کو جلائے جانے کے الزام کی بھی تفتیش کی جارہی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ واقعے کا ہر پہلو سے جائزہ لیا جارہا ہے۔

  • چترال: سینگور کے جنگلات میں آگ لگ گئی

    چترال: سینگور کے جنگلات میں آگ لگ گئی

    چترال: صوبہ خیبر پختونخواہ کے شہر چترال میں سینگور کے جنگلات میں آگ لگ گئی، جنگل میں چلغوزے کے درخت بڑی تعداد میں ہیں جو آگ کی لپیٹ میں ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق چترال کے علاقے سینگور کے جنگلات میں آگ لگ گئی، آگ نے چلغوزے کے درختوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

    ڈویژنل فارسٹ آفیسر چترال کا کہنا ہے کہ فارسٹ ڈپارٹمنٹ، ریسکیو اور مقامی افراد آگ بجھانے میں مصروف ہیں، آگ پر جلد قابوں پانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

    ڈی ایف او کا کہنا ہے کہ پہاڑی علاقہ ہونے کی وجہ سے آگ بھجانے میں مشکلات پیش آرہی ہیں، آگ نے 5 ہیکٹر رقبے کو لپیٹ میں لے لیا ہے، سینگور کے جنگلات میں چلغوزے کے درخت بڑی تعداد میں ہیں۔

    حکام کے مطابق آگ لگنے کی وجوہات کی بھی انکوائری کی جارہی ہے۔

    یاد رہے کہ کل رات گول نیشنل پارک کے جنگل میں بھی آگ لگی تھی جس پر قابو پالیا گیا تھا، سینگور کے جنگلات بھی گول نیشنل پارک کے جنگلات سے منسلک ہیں۔

  • انڈونیشیا کی جیل میں ہولناک آتشزدگی، 41 قیدی ہلاک

    انڈونیشیا کی جیل میں ہولناک آتشزدگی، 41 قیدی ہلاک

    جکارتہ: انڈونیشیا کی جیل میں آگ لگنے سے 41 قیدی ہلاک اور درجنوں زخمی ہوگئے، آگ ممکنہ طور پر شارٹ سرکٹ کے باعث لگی۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق جکارتہ پولیس چیف نے بتایا کہ جکارتہ کے قریب واقع تانگیر انگ جیل میں رات گئے آگ لگنے سے 41 قیدی ہلاک ہوئے، 8 شدید زخمی اور 72 معمولی زخمی ہوئے۔

    حکام کا کہنا ہے کہ جیل میں آگ ممکنہ طور پر شارٹ سرکٹ سے لگی جس پر فائر فائٹرز نے صبح تک قابو پالیا۔ جب آگ لگی اس وقت زیادہ تر قیدی سو رہے تھے۔

    پولیس کے مطابق آگ سے متاثرہ جیل کے 40 قیدیوں کی گنجائش والے بلاک میں 120 قیدی رکھے گئے تھے، اس بلاک میں منشیات سے متعلق جرائم کی سزا کاٹنے والے قیدیوں کو رکھا جاتا ہے۔

  • جلنے والی فیکٹری سے متعلق بڑا انکشاف، جاں بحق مزدوروں کے ناموں کی فہرست بھی جاری

    جلنے والی فیکٹری سے متعلق بڑا انکشاف، جاں بحق مزدوروں کے ناموں کی فہرست بھی جاری

    کراچی: کورنگی مہران ٹاؤن میں فیکٹری میں آتش زدگی سے جاں بحق ہونے والے تمام 16 ورکرز کی فہرست جاری کر دی گئی ہے، جب کہ کے ڈی اے حکام نے فیکٹری سے متعلق غیر قانونی ہونے کا انکشاف کر دیا ہے، پلاٹ پر اوورسیز پاکستانیوں کے لیے سوسائٹی قائم کی گئی تھی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق کورنگی میں واقع کیمیکل فیکٹری میں آگ سے جھلس کر جاں بحق ہونے والے 16 افراد کی عمریں 18 سے 40 کے درمیان ہیں، جن میں 4 افراد کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہے،  اور ان میں دو بھائی بھی شامل ہیں۔

    ایک ہی خاندان کے افراد میں دو بھائیوں کے علاوہ چچا اور بہنوئی شامل ہیں، سگے بھائیوں میں فرمان اور فرحان کی لاشیں جناح اسپتال میں موجود ہیں، چچا علی اور بہنوئی حسن کی لاشیں بھی لائی گئیں، ان میں سے ایک نوجوان کی شادی دو ماہ پہلے ہوئی تھی، ایک مزدور کی پندرہ دن پہلے ملازمت لگی تھی۔

    سولہ میں سے 15 مزدوروں کی لاشوں کی شناخت کر لی گئی ہے، حادثے میں جاں بحق ہونے والے ایک مزدور کی تاحال شناخت نہیں ہو سکی ہے، جس کی شناخت کے لیے ڈی این اے ٹیسٹ کیا جائے گا، جاں بحق ہونے والوں میں 19 سالہ حسن، 23 سالہ علی، 29 سالہ فراز، 30 سالہ فرمان، 30 سالہ ریحان، 40 سالہ راشد حسین، 37 سالہ صابر، محمد عدنان، فرحان اور ریحان شامل ہیں۔

    واضح رہے کہ 6 گھنٹے تک لگی رہنے والی آگ میں جھلس کر 16 مزدور جاں بحق ہوئے ہیں، جناح اسپتال ایمرجنسی انچارج ڈاکٹر صائمہ نے اے آر وائی نیوز کو بتایا کہ جناح اسپتال 13 لاشیں لائی گئی ہیں، زخمیوں میں 2 ریسکیو رضا کار اسپتال لائے گئے۔

    کورنگی : کمیکل فیکٹری میں خوفناک آتشزدگی، 16مزدور جاں بحق

    ایس ایس پی کورنگی نے اس واقعے سے متعلق بتایا کہ فیکٹری کا مالک علی مرتضیٰ لاہور کا رہائشی ہے، اس فیکٹری میں بیگ تیار کیے جاتے ہیں، آتش زدگی کے وقت فیکٹری کا سپروائزر جائے وقوع پر موجود تھا، اس نے بتایا کہ فیکٹری میں 25 سے زائد افراد موجود تھے، اور فیکٹری میں ایک کچن بھی ہے جہاں واقعے کے وقت چائے بنائی جا رہی تھی، ایس ایس پی شاہجہان خان نے کہا کہ تمام پہلوؤں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔

    فائر بریگیڈ حکام نے بتایا کہ فیکٹری میں آگ مزید بھڑکنے کی وجہ کیمیکل ڈرم تھے، واقعے کے وقت بڑی تعداد میں کیمیکل کے ڈرم فیکٹری سے باہر نکالے گئے ہیں۔ فائر افسر نے بتایا کہ ریکسیو آپریشن اور کولنگ کا عمل مکمل کیا جا چکا ہے، اور فیکٹری بھی سیل کر دی گئی ہے۔

    ادھر انکشاف ہوا ہے کہ مہران ٹاؤن میں متاثرہ فیکٹری غیر قانونی نکلی ہے، کے ڈی اے حکام کا کہنا ہے کہ فیکٹری رہائشی پلاٹ نمبر سی 40 پر قائم ہے، رہائشی پلاٹ پر کمرشل تعمیرات نہیں کی جا سکتیں، یہاں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کے لیے سوسائٹی قائم کی گئی تھی۔

    کے ڈی اے کے مطابق متاثرہ فیکٹری رہائشی پلاٹ پر قائم تھی، 600 گز پر قائم 2 منزلہ فیکٹری کا مالک علی نامی شخص ہے، اور وہ طارق روڈ پر رہائش پذیر ہے۔

    یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ واقعے کے فوراً بعد فیکٹری کا چوکیدار حاضری رجسٹر لے کر فرار ہوگیا ہے، رجسٹر میں 25 افراد کی حاضریاں لگی ہوئی تھیں۔

  • چترال: درختوں کو آگ سے بچانے والا خود زندگی ہار گیا، ٹیم آگ بجھانے میں کامیاب

    چترال: درختوں کو آگ سے بچانے والا خود زندگی ہار گیا، ٹیم آگ بجھانے میں کامیاب

    چترال: خیبر پختون خوا کے شہر چترال میں واقع جنگلات میں لگی آگ بجھانے کے آپریشن کے دوران ایک اہل کار پاؤں پھسلنے کے باعث زندگی کی بازی ہار گئے۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق چترال کے چمرکن کے جنگلات میں لگی آگ بجھانے میں مصروف محکمہ جنگلات کے اہل کار جمشید اقبال درختوں کو آگ سے بچاتے بچاتے خود زندگی کی بازی ہار گئے۔

    محکمہ جنگلات کے اہل کار جمشید اقبال لوئر چترال کے جنگلات میں لگی آگ کو بجھانے میں دیگر ساتھوں کے ساتھ موجود تھے، کہ اچانک پاؤں پھسل جانے کی وجہ سے اونچائی سے گرگئے۔

    جمشید کو زخمی حالت میں ریسکیو کیا گیا، اور قریبی اسپتال لے جایا گیا، لیکن وہ جاں بر نہ ہو سکے۔

    ڈی ایف او لوئر چترال فریاد علی نے بتایا کہ جمشید اقبال جان کی پرواہ کیے بغیر جنگل میں آگ بجھانے میں مصروف رہے، پہاڑی سے گرنے کی وجہ سے جمشید کو سر پر گہری چوٹیں آئی تھیں، جن کی وجہ سے ان کی شہادت ہوئی۔

    ڈی ایف او فرہاد علی نے بتایا کہ آگ پر قابو پا لیا گیا ہے، تاہم اس بات کا صحیح اندازہ رپورٹ آنے کے بعد ہوگا کہ آگ کی وجہ سے جنگل کا کتنا رقبہ اور درخت متاثر ہوئے ہیں۔

    محکمہ جنگلات کے اہل کار جمشید اقبال کی شہادت پر وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان نے بھی شہید کی فیملی کے ساتھ اظہار تعزیت اور ہمدردی کیا ہے، وزیر اعلیٰ محمود خان کا کہنا ہے کہ جمشید اقبال نے فرائض کی ادائیگی کے دوران جان دے کر فرض شناسی کی اعلیٰ مثال قائم کی ہے۔

    انھوں نے کہا جمشید کی فرض شناسی سب کے لیے قابل تقلید ہے، اللہ تعالی ان کی شہادت قبول فرمائے، صوبائی حکومت شہید کے اہل خانہ کے ساتھ ہے، انھیں تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔