Tag: ابتدائی طبی امداد

  • حادثاتی صورت میں ابتدائی طبی امداد دینے کا طریقہ

    حادثاتی صورت میں ابتدائی طبی امداد دینے کا طریقہ

    ناگہانی آفت کبھی بھی اور کسی پر بھی آسکتی ہے لہٰذا کسی بھی حادثہ کی صورت میں گھبرانے کے بجائے فوری طور پر ابتدائی طبی امداد (فرسٹ ایڈ) بہت سی پیچیدگیوں سے محفوظ رکھ سکتی ہے۔

    ایسے میں اگر عمومی نوعیت کی آسان اور سادہ تدابیر اختیار کی جائیں تو بہت سی قیمتی جانیں بچائی جاسکتی ہیں فرسٹ ایڈ کی تربیت حاصل کرنا ہر شہری کیلئے ضروری ہے۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں پاکستان میں ہنگامی حالات میں ریسپانس دینے کے ادارے ریسکیو 1122کے اہلکاروں نے ناظرین کو بتایا کہ آگ لگنے کی صورت میں متاثرہ شخص کو کیسے بچایا جاسکتا ہے؟

    اس موقع پر ریسکیو 1122 کی رضاکار ریحانہ یاسمین نے ابتدائی طبی امداد دینے کے طریقہ کار سے متعلق ایک عملی نمونہ پیش کیا جسے متاثرہ شخص کو اسپتال پہنچنے سے قبل دینا بہت ضروری ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ سب سے پہلے زخمی شخص کے دونوں کندھوں کو تھپتھپا کر اس سے بات کرنے کی کوشش کریں یا اس کا ردعمل محسوس کریں، اگر اس نے کوئی رسپانس نہیں دیا تو فوری طور پر 1122کو کال کریں اور اگر زخمی کا سانس نہیں چل رہا تو فوراً سی پی آر شروع کردیں۔

    اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ پہلے مریض کے سینے کے درمیان اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی رکھیں اور اسی کے اوپر بائیں ہاتھ کو رکھ کر مظبوطی سے پکڑلیں جس کے بعد تقریباً ایک منٹ میں 10سے 120مرتبہ طاقت سے دباؤ ڈالیں اس کے بعد مریض کے منہ پر منہ رکھ کر اس کے پھیپھڑوں میں ہوا بھریں تاکہ اس کی سانس بحال ہوسکے۔

    یاد رہے کہ دنیا بھر میں ایمرجنسی سروسز کے اداروں کے مخصوص نمبرز ہوتے ہیں اسی طرح پاکستان میں ہنگامی حالات میں ریسپانس دینے کا ریسکیو 1122 نظام 2004 میں لاہور سے شروع ہوا، جس کے بعد رفتہ رفتہ یہ نظام پورے پاکستان میں پھیل گیا۔

  • وہ مدد جو کسی کی جان بچا سکتی ہے

    وہ مدد جو کسی کی جان بچا سکتی ہے

    آج دنیا بھر میں ابتدائی طبی امداد کا عالمی دن منایا جارہا ہے، اس دن کو منانے کا مقصد ابتدائی طبی امداد دینے کی اہمیت اجاگر کرنا ہے تاکہ کسی کی جان بچائی جاسکے۔

    ابتدائی طبی امداد وہ ہے جو کسی طبی ایمرجنسی کا شکار شخص کو دی جائے اور اسے اتنا سنبھالا جاسکے کہ ڈاکٹر یا طبی عملے کے آنے تک وہ بچ سکے، ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہمیں ابتدائی طبی امداد دینی آتی ہو تو ہم کسی کی جان بچانے کا سبب بن سکتے ہیں۔

    اکثر اوقات کسی بھی حادثے کے بعد یا اچانک طبیعت خرابی کی صورت میں ڈاکٹر کے پاس جاتے ہوئے راستے میں ہی اکثر افراد انتقال کرجاتے ہیں، ایسے میں ابتدائی طبی امداد ہی ان کی جان بچا سکتی ہے۔

    تاہم ابتدائی طبی امداد کو درست طور پر سیکھنا اور آزمانا ضروری ہے ورنہ ہماری مدد متاثرہ شخص کی تکلیف کو کم کرنے کے بجائے اور بڑھا سکتی ہے۔

    طبی ماہرین کے مطابق کسی ایمرجنسی کی صورت میں ابتدائی امداد فراہم کرتے ہوئے ان غلطیوں سے بچنا چاہیئے۔

    مرگی کا دورہ

    مرگی کا دورہ پڑنے کی صورت میں مریض کا جسم اکڑ جاتا ہے اور اس کے قریب موجود افراد کو یہ خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں اس کی زبان دانتوں تلے آ کر کٹ نہ جائے۔ لہٰذا وہ زبردستی اس کا منہ کھول کر دانتوں کے درمیان کوئی چیز رکھ دیتے ہیں۔

    یاد رکھیں، مرگی کے مریض کے ساتھ زور آزمائی کرنا یا زبردستی اس کا منہ کھلوانا اس کے دانتوں کو توڑنے کا سبب بن سکتا ہے۔

    یہ خیال دل سے نکال دیں کہ اس کی زبان دانتوں کے درمیان آکر کٹ سکتی ہے کیونکہ جسم کے دیگر حصوں کی طرح مریض کی زبان بھی اکڑ جاتی ہے لہٰذا وہ اپنی جگہ پر ہی رہتی ہے۔

    جلنے کی صورت میں

    اگر آپ کے قریب موجود کسی شخص کے جسم کا کوئی حصہ جل جائے تو فوراً اس پر کوئی کریم لگانے سے گریز کریں۔ جلے ہوئے حصے کو 10 سے 15 منٹ کے لیے ٹھنڈے پانی میں رکھیں یا ٹھنڈے پانی کی دھار دیں۔ جلنے کے 20 منٹ بعد کریم لگانا بہتر ہے۔

    ایکسیڈنٹ کی صورت میں

    اگر خدانخواستہ آپ کا سامنا سڑک پر کسی حادثے سے ہو تو متاثرین کی سب سے بہترین مدد یہ ہے کہ آپ جلد سے جلد ایمبولینس کو بلوائیں۔

    الٹی ہوئی گاڑیوں سے زخمی افراد کو کھینچ کھانچ کر نکالنا نہایت خطرناک ہے کیونکہ آپ کو نہیں معلوم کہ اندر موجود شخص کس طرح کا زخمی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو آپ اس کی مدد کرنے کے بجائے اسے مزید نقصان پہنچا دیں۔

    ایمبولینس کا تربیت یافہ عملہ جانتا ہے کہ گاڑیوں میں پھنسے افراد کو کس طرح نکالنا ہے لہٰذا انہیں ان کا کام سر انجام دینے دیں۔ آپ صرف اتنا کریں کہ گاڑی سے باہر موجود جسم کے حصے سے خون کو (اگر بہہ رہا ہو تو) روکنے کی کوشش کریں۔

    چوکنگ کی صورت میں

    کھانا کھاتے یا پانی پیتے ہوئے کسی کو یکدم جھٹکا لگے اور کھانا اس کی سانس کی نالی میں پھنس جائے تو پیٹھ پر مارنا ایک غلط عمل ہے۔ اس کے برعکس پیٹھ کو سہلایا جائے۔

    فروسٹ بائٹ کی صورت میں

    سرد علاقوں میں رہنے والے افراد اکثر فروسٹ بائٹ کا شکار ہوجاتے ہیں یعنی سخت سردی کے باعث ان کے جسم کے کسی حصہ میں خون جم جاتا ہے۔ اگر اسے فوری بحال نہ کیا جائے تو جسم کا یہ حصہ ناکارہ بھی ہوسکتا ہے۔

    فروسٹ بائٹ کی صورت میں اس حصے کو رگڑنے یا تیز گرم پانی میں ڈالنے سے گریز کریں۔ متاثرہ حصے کو نیم گرم پانی میں ڈبوئیں اور آہستہ آہستہ خون کی روانی بحال ہونے دیں۔

    بخار کی صورت میں

    ایک عام خیال یہ ہے کہ بخار ہونے کی صورت میں مریض کو گرم کپڑوں سے ڈھانپ دیا جائے تاکہ اسے پسینہ آئے اور اس سے بخار اتر جائے۔

    درحقیقت بخار کے مریض کو معمول کے مطابق رہنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کے جسم کا زائد درجہ حرات باہر نکل جائے۔

    سب سے اہم بات

    کسی کی مدد کرتے ہوئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ حواس بحال رکھتے ہوئے منطقی تدابیر اپنائیں۔ اچانک، بغیر سوچے سمجھے مدد کے لیے دوڑ پڑنے اور جو سمجھ آئے وہ کرنے سے گریز کریں۔

  • سی پی آر: زندگی بچانے کی یہ کوشش کم ہی کام یاب ہوتی ہے

    سی پی آر: زندگی بچانے کی یہ کوشش کم ہی کام یاب ہوتی ہے

    کارڈیو پلمونری ریسسیٹیشن (cardiopulmonary resuscitation) جسے مختصراً "سی پی آر” بھی کہتے ہیں، کسی انسان کی جان بچانے کے لیے اپنایا جانے والی ہنگامی طبی امداد ہوتی ہے۔

    یہ دراصل کسی وجہ سے اپنا کام انجام نہ دینے والے دل اور پھیپھڑوں کو دوبارہ فعال کرنے کے لیے کی جانے والی کوشش ہوتی ہے۔ تاہم اس کا انحصار حادثے یا بیماری کی نوعیت پر ہوتا ہے۔

    یہ عمل کارڈیو پلمونری اریسٹ کی صورت میں انجام دیا جاتا ہے، جس کا سادہ سا مطلب یہ ہوتا ہے کہ کسی فرد کا دل بند اور اس کا سانس لینے کا عمل رک گیا ہے۔

    اگر معالج محسوس کرے کہ وہ ہنگامی طبی امداد کے ذریعے کسی فرد کے دل کی دھڑکن اور سانس بحال کرسکتا ہے تو وہ یہ طریقہ اپنا سکتا ہے۔

    سی پی آر کے دوران معالج متاثرہ فرد کے سینے کو زور زور سے نیچے کی طرف دباتا ہے۔

    ایسے فرد کے دل کو بجلی کے جھٹکے دیے جاسکتے ہیں جس سے اس کی دھڑکن بحال ہونے کے امکانات ہوتے ہیں۔

    منہ کے ذریعے متاثرہ فرد کی سانس کی نالی کو ہوا پہنچانا یا پھیپھڑوں تک سانس پہنچانے کی کوشش کرنا۔

    سی پی آر کا طریقہ اس وقت اپنایا جاتا ہے جب کسی کو شدید چوٹ لگی ہو یا دل کا دورہ پڑا ہو اور اس کی دھڑکن بند ہو اور پھیپھڑوں نے کام کرنا چھوڑ دیا ہو۔ یہ بھی ضروری ہے کہ ایسے مریض کو بروقت اسپتال لایا گیا ہو۔ تاہم سی پی آر مریض کی حاالت اور ڈاکٹر کی صوابدید پر منحصر ہے۔ معالج یہ بہتر بتا سکتا ہے کہ اس طریقے سے دل اور سانس کی بحالی کے کتنے امکان ہیں۔

    طبی محققین کے مطابق دل اور سانس کو بحال کرنے کی اس کوشش کے کبھی ضمنی اثرات بھی سامنے آسکتے ہیں جن میں سینے پر نیل پڑجانا، پسلیوں کا ٹوٹ جانا یا پھیپھڑوں میں سوراخ ہو جانا شامل ہیں۔ اسی طرح بعض مریض طبی امداد میں کام یابی کے بعد کوما میں جاسکتے ہیں یا ان کی ذہنی حالت کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اسی طرح بعض دوسری طبی پیچیدگیاں بھی سر اٹھا سکتی جو کسی کو چند گھنٹوں یا چند دنوں بعد موت کے منہ میں دھکیل دیتی ہیں۔

    ماہرین کہتے ہیں کہ سی پی آر کا سہارا لینے کے باوجود دل کی دھڑکن یا سانس بحال کرنے میں اکثر کام یابی نہیں ہوتی بلکہ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کسی کا دل اور سانس لینے کا عمل کیوں بند ہوا تھا اور متاثرہ فرد کی عام صحت کیسی ہے۔

  • ابتدائی طبی امداد دیتے ہوئے ان غلطیوں سے بچیں

    ابتدائی طبی امداد دیتے ہوئے ان غلطیوں سے بچیں

    ہم میں سے ہر شخص کسی چھوٹی موٹی بیماری یا جسمانی تکلیف کی صورت میں کچھ احتیاطی تدابیر پر عمل کرتا ہے جو ہم اپنے بچپن سے سنتے آرہے ہیں۔

    اسی طرح جب ہم کسی دوسرے کو تکلیف یا طبی ایمرجنسی کی صورتحال میں دیکھتے ہیں تو فوری طور پر ان کی مدد کرنا چاہتے ہیں، جو اخلاقی طور پر ہمارا فرض بھی ہے، لیکن بعض اوقات ہمیں علم نہیں ہوتا کہ ہماری مدد متاثرہ شخص کی تکلیف کو کم کرنے کے بجائے اور بڑھا دے گی۔

    طبی ماہرین کے مطابق کسی ایمرجنسی کی صورت میں ابتدائی امداد فراہم کرتے ہوئے ان غلطیوں سے بچنا چاہیئے۔

    مرگی کا دورہ

    مرگی کا دورہ پڑنے کی صورت میں مریض کا جسم اکڑ جاتا ہے اور اس کے قریب موجود افراد کو یہ خدشہ ہوتا ہے کہ کہیں اس کی زبان دانتوں تلے آ کر کٹ نہ جائے۔ لہٰذا وہ زبردستی اس کا منہ کھول کر دانتوں کے درمیان کوئی چیز رکھ دیتے ہیں۔

    یاد رکھیں، مرگی کے مریض کے ساتھ زور آزمائی کرنا یا زبردستی اس کا منہ کھلوانا اس کے دانتوں کو توڑنے کا سبب بن سکتا ہے۔

    یہ خیال دل سے نکال دیں کہ اس کی زبان دانتوں کے درمیان آکر کٹ سکتی ہے کیونکہ جسم کے دیگر حصوں کی طرح مریض کی زبان بھی اکڑ جاتی ہے لہٰذا وہ اپنی جگہ پر ہی رہتی ہے۔

    جلنے کی صورت میں

    اگر آپ کے قریب موجود کسی شخص کے جسم کا کوئی حصہ جل جائے تو فوراً اس پر کوئی کریم لگانے سے گریز کریں۔

    جلے ہوئے حصے کو 10 سے 15 منٹ کے لیے ٹھنڈے پانی میں رکھیں یا ٹھنڈے پانی کی دھار دیں۔ جلنے کے 20 منٹ بعد کریم لگانا بہتر ہے۔

    ایکسیڈنٹ کی صورت میں

    اگر خدانخواستہ آپ کا سامنا سڑک پر کسی حادثے سے ہو تو متاثرین کی سب سے بہترین مدد یہ ہے کہ آپ جلد سے جلد ایمبولینس کو بلوائیں۔

    الٹی ہوئی گاڑیوں سے زخمی افراد کو کھینچ کھانچ کر نکالنا نہایت خطرناک ہے کیونکہ آپ کو نہیں معلوم کہ اندر موجود شخص کس طرح کا زخمی ہے۔ کہیں ایسا نہ ہو آپ اس کی مدد کرنے کے بجائے اسے مزید نقصان پہنچا دیں۔

    ایمبولینس کا تربیت یافہ عملہ جانتا ہے کہ گاڑیوں میں پھنسے افراد کو کس طرح نکالنا ہے لہٰذا انہیں ان کا کام سر انجام دینے دیں۔ آپ صرف اتنا کریں کہ گاڑی سے باہر موجود جسم کے حصے سے خون کو (اگر بہہ رہا ہو تو) روکنے کی کوشش کریں۔

    چوکنگ کی صورت میں

    کھانا کھاتے یا پانی پیتے ہوئے کسی کو یکدم جھٹکا لگے اور کھانا اس کی سانس کی نالی میں پھنس جائے تو پیٹھ پر مارنا ایک غلط عمل ہے۔ اس کے برعکس پیٹھ کو سہلایا جائے۔

    فروسٹ بائٹ کی صورت میں

    سرد علاقوں میں رہنے والے افراد اکثر فروسٹ بائٹ کا شکار ہوجاتے ہیں یعنی سخت سردی کے باعث ان کے جسم کے کسی حصہ میں خون جم جاتا ہے۔ اگر اسے فوری بحال نہ کیا جائے تو جسم کا یہ حصہ ناکارہ بھی ہوسکتا ہے۔

    فروسٹ بائٹ کی صورت میں اس حصے کو رگڑنے یا تیز گرم پانی میں ڈالنے سے گریز کریں۔ متاثرہ حصے کو نیم گرم پانی میں ڈبوئیں اور آہستہ آہستہ خون کی روانی بحال ہونے دیں۔

    بخار کی صورت میں

    ایک عام خیال یہ ہے کہ بخار ہونے کی صورت میں مریض کو گرم کپڑوں سے ڈھانپ دیا جائے تاکہ اسے پسینہ آئے اور اس سے بخار اتر جائے۔

    درحققیت بخار کے مریض کو معمول کے مطابق رہنے کی ضرورت ہوتی ہے تاکہ اس کے جسم کا زائد درجہ حرات باہر نکل جائے۔

    سب سے اہم بات

    کسی کی مدد کرتے ہوئے سب سے اہم بات یہ ہے کہ حواس بحال رکھتے ہوئے منطقی تدابیر اپنائیں۔ اچانک، بغیر سوچے سمجھے مدد کے لیے دوڑ پڑنے اور جو سمجھ آئے وہ کرنے سے گریز کریں۔

  • فالج کے دورے کی تشخیص کیسے کی جائے؟

    فالج کے دورے کی تشخیص کیسے کی جائے؟

    فالج ایک ایسا مرض ہے جو دماغ میں خون کی شریانوں کے بند ہونے یا ان کے پھٹنے سے ہوتا ہے۔ جب فالج کا اٹیک ہوتا ہے تو دماغ کے متاثرہ حصوں میں موجود خلیات آکسیجن اور خون کی فراہمی بند ہونے کی وجہ سے مرنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کے نتیجہ میں جسم کی کمزوری اور بولنے، دیکھنے میں دشواری سمیت اور بہت سی اور علامات ظاہر ہوتی ہیں۔ اس سے جسم کا پورا، آدھا یا کچھ حصہ ہمیشہ کے لیے مفلوج ہوسکتا ہے۔

    فالج دنیا بھر میں اموات کی تیسری بڑی اور طویل مدتی معذوری کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ اگر کسی شخص کو فالج کا اٹیک ہو اور اس کے 3 گھنٹے کے اندر اسے طبی امداد فراہم کردی جائے تو اس شخص کو عمر بھر کی معذوری سے بچایا جاسکتا ہے۔ لیکن اکثر افراد کو علم نہیں ہو پاتا کہ انہیں یا ان کے قریب بیٹھے شخص کو فالج کا اٹیک ہوا ہے۔

    مزید پڑھیں: دفتری کام کی زیادتی فالج کا سبب

    مزید پڑھیں: دن بھر میں 10 منٹ کی ورزش فالج سے بچائے

    اس سلسلے میں ماہرین کچھ طریقہ تجویز کرتے ہیں جن کو اپنا کر فالج کی تشخیص کی جاسکتی ہے اور فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔

    فالج کی پہچان کرنے کے لیے 4 آسان طریقوں پر عمل کریں۔

    اگر آپ کو کسی شخص پر گمان ہو کہ اسے فالج کا اٹیک ہوا ہے تو اسے مسکرانے کے لیے کہیں۔ فالج کا شکار شخص مسکرا نہیں سکے گا کیونکہ اس کے چہرے کے عضلات مفلوج ہوچکے ہوں گے۔

    ایسے شخص سے کوئی عام سا جملہ ادا کرنے کے لیے کہیں، جیسے آج موسم اچھا ہے یا سب ٹھیک ہے۔ اگر اسے یہ بھی ادا کرنے میں مشکل ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ اسے فالج کا اٹیک ہوا ہے۔

    اٹیک کے شکار شخص سے دونوں ہاتھ اٹھانے کے لیے کہیں۔ ایسی صورت میں فالج کا شکار شخص مکمل طور پر اپنے ہاتھ نہیں اٹھا سکے گا۔

    فالج کے اٹیک کا شکار شخص اپنی زبان کو سیدھا نہیں رکھ سکے گا اور اس کی زبان دائیں یا بائیں جانب ٹیڑھی ہوجائے گی۔

    یہ تمام کیفیات فالج کی واضح علامات ہیں، اگر آپ اپنے یا کسی دوسرے شخص کے اندر یہ کیفیات دیکھیں تو فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کریں۔