Tag: ابراہم لنکن

  • ابراہم لنکن: ایک موچی کا بیٹا جو دنیا بھر میں مشہور ہوا

    ابراہم لنکن: ایک موچی کا بیٹا جو دنیا بھر میں مشہور ہوا

    ابراہم لنکن کو امریکا کی تاریخ کا عظیم ترین صدر ہی نہیں بلکہ اس ملک کا غریب صدر بھی کہا جاتا ہے جو غربت اور تنگ دستی کے باوجود حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اس مقام تک پہنچے اور دنیا بھر میں شہرت پائی۔ ابراہم لنکن کو 1865ء میں‌ آج ہی کے دن قتل کر دیا گیا تھا۔

    سیاسیات کے طالبِ علم اور اہم شخصیات کے سوانح عمریوں میں دل چسپی رکھنے والے ضرور ابراہم لنکن کے نام و مرتبے سے واقف ہوں گے۔ وہ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے پہلے سیاہ فام صدر تھے جن کی زندگی محنت اور جدوجہد سے عبارت ہے۔

    امریکی قوم کے نزدیک ان کا ایک بڑا سیاسی کارنامہ سیاہ فام افراد کی آزادی اور اس معاملے پر ہونے والی خانہ جنگی سے ملک کو ٹوٹنے سے بچانا تھا۔ ابراہم لنکن نے ذاتی زندگی کے نشیب و فراز اور سیاست کے میدان میں اپنی مخالفت کے باوجود زبردست کام یابیاں سمیٹیں۔ وہ 12 فروری 1809ء کو کینٹکی، امریکا کے ایک چھوٹے کاشت کار کے گھر پیدا ہوئے۔ ابراہم لنکن دو سال کے تھے جب ان کے والد ایک مقدمہ میں اپنی زمین ہار گئے اور اس گھرانے کے لیے مشکلات کا آغاز ہوگیا۔ یہ خاندان ریاست انڈیانا منتقل ہوگیا جہاں وہ ایک سرکاری زمین پر کیبن بنا کر اس میں رہنے لگے۔ اسی گھر میں لنکن بڑے ہوئے۔ وہ صرف ایک سال ہی اسکول جاسکے اور بعد میں اپنی سوتیلی ماں سے پڑھا۔

    لنکن کا بچپن اور نوجوانی کا عرصہ بھی غربت اور تکالیف جھیلتے اور محنت کرتے ہوئے گزرا۔ انھوں نے نوجوانی میں کئی چھوٹے کاروبار کرنے کی کوشش کی، لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا، مگر نوجوان لنکن نے مشکلوں سے لڑنا سیکھ لیا تھا۔ انھوں نے معاش کے لیے بھاگ دوڑ کے ساتھ وکالت بھی پڑھنا شروع کر دی۔ ابراہم لنکن کام سے فارغ ہو کر کتابوں میں سَر دیے بیٹھے رہتے اور پھر وہ وقت آیا جب ان کا شمار شہر کے کام یاب وکلا میں ہونے لگا۔

    ابراہم لنکن نے زندگی جینے کا گُر اپنے والد سے سیکھا تھا جو اپنی زمین سے محروم ہونے کے بعد محنت مشقّت کر کے کنبے کا پیٹ بھرتے رہے۔ انھوں نے زرعی زمین پر، جولاہے کے پاس کام کیا، اور جوتے کی مرمّت کرنا بھی سیکھا اور پھر لوگوں کے جوتے سیتے اور مرمت کر کے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتے رہے۔ اسی نے ابراہم لنکن کو جینا سکھایا۔ 1861ء میں ابراہم لنکن امریکا کے صدر بنے۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکی سینیٹ میں جاگیرداروں، تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ تھا، جو سینیٹ میں اپنی کمیونٹی کے مفادات کی حفاظت کرتے تھے۔ ابراہام لنکن نے صدر بننے کے بعد امریکا میں غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا، اور ایک حکم نامے کے ذریعے باغی ریاستوں کے غلاموں کو آزاد کرکے فوج میں شامل کر لیا، امریکی اشرافیہ ان اصلاحات سے براہِ راست متاثر ہو رہی تھی، چنانچہ یہ سب ابراہم لنکن کے خلاف ہو گئے۔ انھوں نے صدر کی کردار کشی کا سلسلہ شروع کر دیا۔ سینیٹ کے اجلاس میں عموماً ابراہم لنکن کا مذاق اڑایا جاتا اور ان کا حوصلہ پست اور ہمّت توڑنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ لیکن وہ ڈٹے رہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ پڑھیے۔

    ابراہم لنکن اپنے پہلے صدارتی خطاب کے لیے سینیٹ پہنچے اور صدر کے لیے مخصوص نشست کی طرف بڑھے تو ایک سینیٹر نے اپنی نشست سے ابراہم لنکن کو مخاطب کیا اور بولا، ”لنکن صدر بن کر بعد یہ مت بھولنا کہ ”تمہارا والد میرے خاندان کے جوتے سیتا تھا۔ “ اس پر ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ ‎لنکن نے اس سینیٹر سے مخاطب ہو کر کہا۔ ‎”سر! میں جانتا ہوں میرا والد آپ کے گھر میں آپ کے خاندان کے جوتے سیتا تھا اور آپ کے علاوہ اس ہال میں موجود دوسرے امراء کے بھی جوتے سیتا رہا لیکن آپ نے کبھی سوچا کہ امریکا میں ہزاروں موچی تھے مگر آپ کے بزرگ ہمیشہ میرے باپ سے جوتے بنواتے تھے، کیوں؟ اس لیے کہ پورے امریکا میں کوئی موچی میرے والد سے اچھا جوتا نہیں بنا سکتا تھا، میرا باپ ایک موجد تھا، وہ اپنے بنائے ہوئے جوتوں میں اپنی روح ڈال دیتا تھا۔ آپ کو آج بھی میرے والد کا بنایا جوتا تنگ کرے تو میں حاضر ہوں، میں بھی جوتے بنانا جانتا ہوں، میں آپ کو اپنے ہاتھوں سے نیا جوتا بنا کر دوں گا، مجھے اس عظیم موچی کا بیٹا ہونے پر فخر ہے۔“ ‎ابراہم لنکن کی تقریر ختم ہوئی تو پورے ہال میں خاموشی تھی۔

    امریکی صدر ابراہم لنکن کو ایک شخص نے اس وقت گولی مار دی تھی جب وہ فورڈ تھیٹر میں ڈراما دیکھ رہا تھے۔ ابراہم لنکن کی زندگی سے دنیا کے دوسرے لوگ بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ان کی زندگی سے ہمیں ایک بڑا سبق یہ ملتا ہے کہ مفلسی کسی کے لیے نام و مرتبہ پانے میں رکاوٹ نہیں بن سکتی اور محنت، لگن اور نیک ارادے کے ساتھ اپنی منزل کا تعین کرکے آگے بڑھتے رہنے سے کام یابی ضرور ملتی ہے۔

  • ابراہم لنکن: ایک موچی کا بیٹا جسے امریکا کا غریب ترین صدر کہا جاتا ہے

    ابراہم لنکن: ایک موچی کا بیٹا جسے امریکا کا غریب ترین صدر کہا جاتا ہے

    ابراہم لنکن کو امریکہ کے غریب ترین صدور میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ انھیں امریکا کی تاریخ کا عظیم ترین صدر بھی کہا جاتا ہے جس نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور ہمّت سے حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے دنیا میں نام و مقام پایا۔ اس امریکی صدر کو 1865ء میں‌ آج ہی کے دن قتل کر دیا گیا تھا۔

    امریکا میں ان کا ایک بڑا سیاسی کارنامہ سیاہ فام افراد کی آزادی اور اس معاملے پر ہونے والی خانہ جنگی سے ملک کو ٹوٹنے سے بچانا تھا۔ ابراہم لنکن کی ذاتی زندگی کے نشیب و فراز اور سیاست کے میدان میں مخالفت کے باوجود ان کی کام یابیوں کی داستان لائقِ توجہ ہے۔ وہ 12 فروری 1809ء کو کینٹکی، امریکا کے ایک چھوٹے کاشت کار کے گھر پیدا ہوئے۔ ابراہم لنکن دو سال کے تھے جب ان کے والد ایک مقدمہ میں اپنی زمین ہار گئے اور اس گھرانے کے لیے مشکلات کا آغاز ہوگیا۔ یہ خاندان ریاست انڈیانا منتقل ہوگیا جہاں وہ ایک سرکاری زمین پر کیبن بنا کر اس میں رہنے لگے۔ اسی گھر میں لنکن بڑے ہوئے۔ وہ صرف ایک سال ہی اسکول جاسکے اور بعد میں اپنی سوتیلی ماں سے پڑھا۔

    لنکن کا بچپن اور نوجوانی کا عرصہ بھی غربت اور تکالیف جھیلتے اور محنت کرتے ہوئے گزرا۔ انھوں نے نوجوانی میں کئی چھوٹے کاروبار کرنے کی کوشش کی، لیکن کچھ ہاتھ نہ آیا، مگر انھوں نے مشکلوں سے لڑنا سیکھ لیا تھا۔

    نوجوان لنکن نے معاش کی تگ و دو کے ساتھ وکالت بھی پڑھنا شروع کردی۔ وہ کام سے فارغ ہو کر کتابوں میں سَر دیے بیٹھے رہتے اور پھر وہ وقت آیا جب ان کا شمار شہر کے کام یاب وکلا میں ہونے لگا۔

    ابراہم لنکن نے زندگی جینے کا گُر اپنے والد سے سیکھا تھا جو اپنی زمین سے محروم ہونے کے بعد محنت مشقّت کر کے کنبے کا پیٹ بھرتے رہے۔ انھوں نے زرعی زمین پر، جولاہے کے پاس کام کیا، اور جوتے کی مرمّت کرنا بھی سیکھا اور پھر لوگوں کے جوتے سیتے اور مرمت کرکے دو وقت کی روٹی کا انتظام کرتے رہے۔ اسی نے ابراہم لنکن کو جینا سکھایا۔

    1861ء میں ابراہم لنکن امریکا کے صدر بن گئے۔ یہ وہ وقت تھا جب امریکی سینیٹ میں جاگیرداروں، تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ تھا، جو سینیٹ میں اپنی کمیونٹی کے مفادات کی حفاظت کرتے تھے۔

    ابراہام لنکن صدر بنے تو انھوں نے امریکہ میں غلامی کے خاتمے کا اعلان کردیا، اور ایک حکم نامے کے ذریعے باغی ریاستوں کے غلاموں کو آزاد کرکے فوج میں شامل کر لیا، امریکی اشرافیہ ان اصلاحات سے براہِ راست متاثر ہو رہی تھی، چنانچہ یہ سب ابراہم لنکن کے خلاف ہو گئے۔ انھوں نے صدر کی کردار کشی کا سلسلہ شروع کردیا۔

    سینیٹ کے اجلاس میں عموماً ابراہم لنکن کا مذاق اڑایا جاتا اور ان کا حوصلہ پست اور ہمّت توڑنے کی کوشش کی جاتی تھی۔ لیکن وہ ڈٹے رہے۔ اس ضمن میں ایک واقعہ پڑھیے۔

    وہ اپنے پہلے صدارتی خطاب کے لیے سینیٹ پہنچے اور صدر کے لیے مخصوص نشست کی طرف بڑھے تو ایک سینیٹر نے اپنی نشست سے ابراہم لنکن کو مخاطب کیا اور بولا، ”لنکن صدر بن کر بعد یہ مت بھولنا کہ ”تمہارا والد میرے خاندان کے جوتے سیتا تھا“۔

    اس پر ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔ ‎لنکن نے اس سینیٹر سے مخاطب ہو کر کہا۔ ‎”سر! میں جانتا ہوں میرا والد آپ کے گھر میں آپ کے خاندان کے جوتے سیتا تھا اور آپ کے علاوہ اس ہال میں موجود دوسرے امراء کے بھی جوتے سیتا رہا لیکن آپ نے کبھی سوچا کہ امریکا میں ہزاروں موچی تھے مگر آپ کے بزرگ ہمیشہ میرے باپ سے جوتے بنواتے تھے، کیوں؟ اس لیے کہ پورے امریکا میں کوئی موچی میرے والد سے اچھا جوتا نہیں بنا سکتا تھا، میرا باپ ایک موجد تھا، وہ اپنے بنائے ہوئے جوتوں میں اپنی روح ڈال دیتا تھا۔ آپ کو آج بھی میرے والد کا بنایا جوتا تنگ کرے تو میں حاضر ہوں، میں بھی جوتے بنانا جانتا ہوں، میں آپ کو اپنے ہاتھوں سے نیا جوتا بنا کر دوں گا، مجھے اس عظیم موچی کا بیٹا ہونے پر فخر ہے۔“ ‎ابراہم لنکن کی تقریر ختم ہوئی تو پورے ہال میں خاموشی تھی۔

    امریکی صدر کو ایک شخص نے اس وقت گولی مار دی تھی جب وہ فورڈ تھیٹر میں ڈراما دیکھ رہا تھا۔

  • موچی کا بیٹا جس کی ہمّت، محنت اور جدوجہد کی مثال دی جاتی ہے!

    موچی کا بیٹا جس کی ہمّت، محنت اور جدوجہد کی مثال دی جاتی ہے!

    ریاست ہائے متحدہ امریکا کے سولہویں صدر ابراہم لنکن 1865ء میں آج ہی کے روز ایک قاتلانہ حملے میں اپنی زندگی سے محروم ہوگئے تھے۔

    ابراہم لنکن کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں۔ سیاست اور بین الاقوامی تعلقاتِ عامّہ کے ادنیٰ طالبِ علم سے لے کر دنیا کی اہم اور کام یاب شخصیات کے بارے میں جاننے کا شوق رکھنے والے ہر فرد نے ابراہم لنکن کا نام سنا اور ان کے بارے میں پڑھا ہوگا۔

    ابراہم لنکن کی زندگی محنت اور جدوجہد سے عبارت تھی اور یہی وجہ ہے کہ وہ آج بھی دنیا بھر میں مقبول ہیں۔ قانون کی حکم رانی سے غلامی کے خاتمے کی کوششوں اور عوام کے لیے سہولیات کی فراہمی، قانون سازی اور اپنے اہم فیصلوں کی وجہ سے انھیں امریکا میں‌ بڑا مقام و مرتبہ حاصل ہے۔

    ابراہم لنکن کی زندگی پر نظر ڈالیں تو ایک عام گھرانے میں‌ آنکھ کھولنے والے اس بچّے نے محنت مزدوری کرکے، سخت حالات اور بیماریوں سے لڑ کر، عملی زندگی کی ناکامیوں کو جھیلتے ہوئے اپنی ذہانت، قابلیت اور صلاحیت کی بدولت خود کو امریکا کے منصبِ صدرات کا اہل ثابت کیا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا ابراہم لنکن کی زندگی اور جہدِ مسلسل سے سبق حاصل کرتی ہے اور باہمّت و بلند حوصلہ شخصیت کے طور پر ان کی مثال دی جاتی ہے۔

    امریکا کی تاریخ کا عظیم ترین صدر بھی ابراہم لنکن کو کہا جاتا ہے۔ امریکا میں سیاہ فام افراد کی آزادی اور خانہ جنگی کا خاتمہ ان کا بڑا کارنامہ ہیں۔ 1809 میں پیدا ہونے والے اسی ابراہم لنکن کا بچپن غربت میں گزرا۔ ان کے والد ایک چھوٹے کاشت کار تھے جو اپنی زمین کے حوالے سے ایک مقدمہ ہارنے کے بعد مشکل اور تنگ دستی کا شکار ہوگئے تھے۔

    لنکن اپنے والد کے ساتھ محنت مزدوری کرتے تھے۔ انھوں نے نوجوانی میں کئی چھوٹے کاروبار کرنے کی کوشش کی۔ لیکن اس میں ناکامی ہوئی۔ مگر انھوں نے ہمّت نہ ہاری۔ لنکن نے وکالت پڑھنا شروع کی اور خود کو غربت سے نکالا۔ وہ سیاست میں‌ حصّہ لینے لگے اور یہاں‌ بھی انتخابی میدان میں ناکامیوں کے بعد بالآخر امریکا کے صدر بنے۔

  • امریکا میں آج رات ابراہم لنکن کا مجسمہ توڑنے کا منصوبہ، صدر ٹرمپ کا بڑا قدم

    امریکا میں آج رات ابراہم لنکن کا مجسمہ توڑنے کا منصوبہ، صدر ٹرمپ کا بڑا قدم

    واشنگٹن: امریکا میں عوامی یادگاروں اور مجسموں کے تحفظ کے لیے صدر ٹرمپ نے اہم قدم اٹھاتے ہوئے ایک ایگزیکٹو حکم نامے پر دستخط کر دیے۔

    امریکی میڈیا کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یادگاروں کے تحفظ کے لیے ایگزیکٹو حکم نامے پر دستخط کر دیے، حکم نامے میں عوامی یادگاروں اور سرکاری املاک کی توڑ پھوڑ غیر قانونی قرار دی گئی ہے۔

    حکم نامے کے مطابق یادگاروں کی حفاظت میں ناکام ریاستوں کی فیڈرل گرانٹ بند کر دی جائے گی، یادگاروں پر حملہ کرنے والوں کو لمبی جیل ہوگی۔ امریکی صدر نے میڈیا بریفنگ میں کہا کہ نیا ایگزیکٹو حکم نامہ مجسموں اور یادگاروں کو محفوظ بنائے گا۔

    ادھر سفید فام پولیس کی جانب سے سیاہ فام امریکیوں کے خلاف تعصب کے متعدد افسوس ناک واقعات سامنے آنے کے بعد ملک بھر میں احتجاج بدستور جاری ہے، مظاہرین نے آج رات سابق امریکی صدر ابراہم لنکن کا مجسمہ توڑنے کا منصوبہ بنا لیا ہے، جس کے بعد مجسمے کی حفاظت کے پیش نظر یادگار لنکن پارک کے باہر سیکورٹی تعینات کر دی گئی ہے۔

    مظاہرین امریکی سفید فام فوقیت والی یادگار مٹانے لگے

    واضح رہے کہ امریکا کی کئی ریاستوں میں غلاموں سے متعلق مجسمے اور یادگاریں توڑی جا چکی ہیں، جن مجسموں اور یادگاروں پر حملے کیے گئے وہ متنازعہ تھے کیوں کہ ان کے ذریعے سیاہ فام شہریوں کو غلام بنانے کی امریکی تاریخ اور سفید فام امریکیوں کی بالادستی کی منظر کشی کی گئی تھی۔

    واضح رہے امریکا میں یہ ہنگامے 25 مئی کو 46 سالہ سیاہ فام غیر مسلح شخص جارج فلائیڈ کی پولیس افسر کے ہاتھوں تکلیف دہ موت کے بعد شروع ہوئے ہیں، اور اس وقت پورا امریکا نسلی تعصب کے خلاف ردِ عمل سے گونج رہا ہے۔

  • ابراہم لنکن‘ موچی سے امریکا کے سولہویں صدر کےعہدے تک

    ابراہم لنکن‘ موچی سے امریکا کے سولہویں صدر کےعہدے تک

    امریکا کے سولہویں صدر ابراہم لنکن آہنی عزم کی ایک شاندار مثال ہیں، وہ 12 فروری 1809 کو امریکا میں ایک جوتے بنانے والے شخص کے گھر میں پیدا ہوئے، ان کی قیادت میں امریکا خانہ جنگی سے باہر نکلا۔

    ابراہم لنکن نے اپنی زندگی کی ابتدا سے لےکر آخری لمحے تک جاں توڑ محنت کی تھی ، انہوں نے اپنے والد کے ہمراہ امریکی امراء کے لیےجوتے بھی تیار کیے، بطور ڈاکیا اور کلرک انتھک محنت کی، اپنی ذاتی کاوشوں سے قانون کا امتحان پاس کیا اور وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔

    آہستہ آہستہ اپنی منزل کی جانب قدم بڑھاتے ابراہم لنکن ایک دن امریکی کانگریس کے رکن بھی منتخب ہوگئے۔ سنہ 1856ء میں وہ امریکا کی ڈیموکریٹس پارٹی میں شامل ہو ئے اور سنہ 1860ء میں امریکا کے سولہویں صدر منتخب ہوئے ۔ ان کی قیادت میں امریکا خانہ جنگی سے باہر آیا اور ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہوا، 1864ء میں وہ دوبارہ امریکی صدر منتخب ہوئے ، تاہم 15 اپریل سنہ 1865 کو انہیں قتل کردیا گیا۔

    اس وقت امریکی سینٹ میں جاگیرداروں، تاجروں ، صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں کا قبضہ تھا، یہ لوگ سینٹ میں اپنی کمیونٹی کے مفادات کی حفاظت کرتے تھے۔ ابراہم لنکن صدر بنے تو انہوں نے امریکہ میں غلامی کا خاتمہ کر دیا، اس کے لیے انہوں نے ایک صدارتی ایک فرمان کے ذریعے باغی ریاستوں کے غلاموں کو آزادکر کے فوج میں شامل کیا جس کے دو ررس اثرات مرتب ہوئے۔

    امریکی اشرافیہ لنکن کی اصلاحات سے براہ راست متاثر ہو رہی تھیں چنانچہ یہ لوگ ابراہم لنکن کیخلاف ہو گئے تھے اور مضحکہ اڑانے سے بالکل نہیں چوکتے تھے، ان کی صدارت سے متعلق ایک واقعہ ریکارڈ کا حصہ ہے کہ جب وہ بطور صدر حلف اٹھانے کےبعد پہلے صدارتی خطاب کے لیے آئے تو ایک سینیٹر اپنی نشست سے اٹھا اور ابراہم لنکن سے مخاطب ہو کر بولا، ’’لنکن! صدر بننے کے بعد یہ مت بھولنا تمہارا والد میرے خاندان کے جوتے سیتا تھا‘‘۔ یہ فقرہ سن کر پورے سینٹ نے قہقہ لگایا۔ لنکن مسکرائے اور سیدھے ڈائس پرآگئے اور اس رئیس سنیٹر سے مخاطب ہو کر کہا کہ۔۔

    ’’سر! میں جانتا ہوں میرا والد آپ کے گھر میں آپ کے خاندان کے جوتے سیتا تھا اور آپ کے علاوہ اس ہال میں موجود دوسرے امراء کے جوتے بھی سیتا رہا لیکن آپ نے کبھی سوچا امریکہ میں ہزاروں موچی تھے مگر آپ کے بزرگ ہمیشہ میرے والد سے جوتے بنواتے تھے کیوں؟ اس لئے کہ پورے امریکہ میں کوئی موچی میرے والد سے اچھا جوتا نہیں بنا سکتا تھا، میرا والد ایک عظیم فنکار تھا، اس کے بنائے ہوئے جوتے محض جوتے نہیں ہوتے تھے، وہ ان جوتوں میں اپنی روح ڈال دیتا تھا، میرے والد کے پورے کیریئر میں کسی نے ان کے بنائے ہوئے جوتے کی شکایت نہیں کی، آپ کو آج بھی میرے والد کا بنایا جو تا تنگ کرے تو میں حاضر ہوں، میں بھی جو تا بنانا جانتا ہوں، میں آپ کو اپنے ہاتھوں سے نیا جوتا بنا کر دوں گا لیکن مجھے یقین ہے کہ آپ میں سے کوئی میرے والد کے کا م کی شکایت نہیں کرے گا کیونکہ پورے امریکہ میں میرے والد سے اچھا موچی کوئی نہیں تھا۔ وہ ایک عظیم فنکار، ایک جینئس اور ایک عظیم کاریگر تھا اور مجھے اس عظیم موچی کا بیٹا ہونے پر فخر ہے‘‘۔

    امریکی صدر ابراہم لنکن نے حبشیوں کو غلامی سے آزاد کرانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کیں ، اور بالاخر سنہ 1863 میں ایک صدارتی فرمان کے ذریعے انہیں آزاد قرارد یا۔ ان کا ماننا تھا کہ انسان کا اپنےجیسے انسان کی غلامی میں ہونا غیر فطری ہے۔

    ان کے کارناموں میں نہ صرف غلامی کا خاتمہ شامل ہےبلکہ انہوں نے امریکی تاریخ کےمشکل ترین دور یعنی خانہ جنگی کے دور میں مرکز کو سنبھالے رکھا اور خانہ جنگی کو خاتمے کی جانب لے کر گئے، یاد رہے کہ اس جنگ کا شمار تاریخ کے خونی ترین خانہ جنگیوں میں ہوتا ہے۔

    دریں اثناء جنگ کے ساتھ ساتھ انہوں نے آئینی اور سیاسی بحرانوں کا بھی سامنا کیا اور مدبرانہ انداز میں ان کا حل نکالا۔ ان کی دانشمندانہ قیادت کے سبب امریکی یونین ( ریاست ہائے متحدہ امریکا) اپنا وجود برقرار رکھ سکی، غلامی کا خاتمہ ہوا اور وفاق کو استحکام ملا۔

    بات یہی نہیں ختم ہوتی بلکہ امریکا کے صدر کی حیثیت سے انہوں نے ملکی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کیا، جن کی مدد سےامریکا آنے والی چند دہائیوں میں سپر پاور کے رتبے پر فائز ہوگیا، اور آج تک اس اسٹیٹس کو برقرار رکھنے میں کامیاب ہے۔

    15 اپریل 1865 ، امریکی صدر ابراہم لنکن کو واشنگٹن میں اس وقت گولی مار دی گئی جب وہ ایک تھیٹر میں ڈرامہ دیکھ رہے تھے۔ وہ موقع پر ہلاک ہو گئے اور امریکہ میں ایک ہلچل مچ گئی۔

    غالب امکان یہی کیا گیا کہ صدر کا قاتل ایک امریکی اداکار جان بوتھ تھا جس نے یہ حرکت اکیلے ہی کی تھی لیکن بعد میں پتہ چلا کہ یہ قتل ایک باقاعدہ سازش کے تحت کیا گیا تھا جس میں 8 افراد شامل تھے اور صرف صدر ہی نہیں بلکہ نائب صدر اور سیکرٹری آف سٹیٹ کو بھی مارنے کی سازش تیار کی گئی تھی۔

    کوہ رشمور پر تراشا گیا ابراہم لنکن کا مجسمہ

    ابراہم لنکن ان چارامریکی صدورمیں شامل ہیں جنہیں اپنے عہدہ صدارت کے دوران قتل کردیا گیاتھا۔ ابراہم لنکن کے قاتل جان ولکس بوتھ نامی کواس قتل کے بارہ روز بعد امریکی اہلکاروں نے ہلاک کر دیا تھا۔

    اس سازش میں شریک افراد میں سے چار کو سزائے موت اور دوسرے چار افراد کو مختلف میعاد کی سزائیں دی گئی تھیں۔لنکن کے قتل کی سازش پر ایک فلم’دی کانسپریٹر‘ کے نام سے بنائی گئی تھی جس کا افتتاحی شو اسی تھیٹر میں منعقد کیا گیا جہاں ابراہم کا قتل ہوا تھا۔ لنکن ان چند افراد میں شامل ہیں جن پر بلاشبہ ہزار سے زائد کتب تحریر کی گئی ہیں۔

  • امریکی سابق صدر ابراہم لنکن کے قتل کے150 برس مکمل

    امریکی سابق صدر ابراہم لنکن کے قتل کے150 برس مکمل

    واشنگٹن: سابق امریکی صدر ابراھم لنکن کے قتل کی ایک سو پچاسویں برسی پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے ان کے زیراستعمال اشیاء کی نمائش جاری ہے۔

    ابراہم لنکن کو اٹھارہ سو پینٹس میں فورڈ تھیٹر میں قتل کردیا گیا تھا،ان کے قتل کے ایک سو پچاس سال مکمل ہونے پر واشنگٹن سمیت دیگرریاستوں میں انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے مختلف تقریبات جاری ہیں ۔

    فورڈ تھیٹر میں ابراہم لنکن کے زیرِاستعمال اشیاء کو نمائش کیلئے پیش کیا گیا اور اس پستول کو خصوصی طور پر رکھا گیا، جس سے لنکن کو قتل کیا گیا تھا۔

    نمائش میں لنکن کے ہم شکل عوام کے توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں اور لوگ ان کے ساتھ سیلفی بناکر خوشی کا اظہار کررہے ہیں ۔