Tag: ابراہیم جلیس

  • ابراہیم جلیس: باکمال ادیب، بے باک صحافی اور درد مند انسان

    ابراہیم جلیس: باکمال ادیب، بے باک صحافی اور درد مند انسان

    ابراہیم جلیس طنز و مزاح پر مبنی اپنی تحریروں اور فکاہیہ کالموں کی بدولت اردو ادب کے قارئین میں خاصے مقبول تھے، لیکن ادبی حلقوں میں بطور افسانہ نگار اور صحافی بھی پہچانے جاتے تھے۔ ابراہیم جلیس اپنے دور کے مشہور اہلِ‌ قلم تھے جن کا انتقال 26 اکتوبر 1977ء کو ہوا۔

    ادیب اور صحافی ابراہیم جلیس کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ لیکن ان کی جائے پیدائش بنگلور ہے۔ انھوں نے بنگلور میں‌ 11 اگست 1922ء کو آنکھ کھولی۔ ابراہیم جلیس کا خاندان بعد میں‌ نقل مکانی کر کے دکن چلا آیا، اور وہاں گلبرگہ میں ابراہیم جلیس نے تعلیم و تربیت پائی۔ 1942ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن کرنے کے بعد ابراہیم جلیس نے قلم کار کی حیثیت سے خود کو متعارف کروایا۔

    1948ء میں ابراہیم جلیس پاکستان چلے آئے اور یہاں ادبی مشاغل کے ساتھ مختلف اخبارات سے منسلک رہے اور صحافت میں اداریہ نویسی کے علاوہ اپنے کالموں سے قارئین کو اپنا مداح بنا لیا۔ ابراہیم جلیس رونامہ امروز، حریت اور مساوات سے وابستہ رہے۔ بحیثیت مدیر روزنامہ مساوات میں کام کرتے ہوئے انھوں نے مارشل لاء کا دور بھی دیکھا اور اس دوران طرح‌ طرح کے جبر اور سنسر شپ کے خلاف آواز بلند کی۔

    ابراہیم جلیس کا افسانہ پہلی بار 1943ء میں ’’ساقی‘‘ کے شمارے میں شایع ہوا۔ وہ طنز و مزاح کی طرف آئے تو ان کی تحریریں کئی مؤقر روزناموں اور معتبر رسائل میں شایع ہوئیں اور خاص طور پر ان کے کالم قارئین میں بہت پسند کیے گئے۔ ابراہیم جلیس نے بیرونِ ملک سفر کیا تو وہاں‌ جو کچھ دیکھا اور واقعات پیش آئے ان کو اپنے سفر نامے کی صورت میں شایع کروایا، اس کے علاوہ ان کے مضامین، رپورتاژ، شخصی خاکے، یادیں اور تذکرے بھی کتابی شکل میں سامنے آئے۔ ابراہیم جلیس نے فلم اور ریڈیو کے لیے اسکرپٹ اور ڈرامے بھی لکھے۔ مارشل لاء کے دور میں‌ انھیں مختصر عرصہ قید و بند کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا اور اس کی روداد بھی انھوں نے رقم کی ہے۔ ان کی یادگار کتابوں میں چالیس کروڑ بھکاری، دو ملک ایک کہانی، الٹی قبر، آسمان کے باشندے، جیل کے دن جیل کی راتیں، نیکی کر تھانے جا، ہنسے اور پھنسے کے علاوہ روس، امریکا اور ایران کے سفرنامے خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔ ابراہیم جلیس نے انشائیے بھی لکھے۔

    پاکستان کے اس ممتاز قلم کار کی وفات کے بعد ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری نے ان پر ایک مضمون سپردِ‌ قلم کیا جس میں وہ لکھتے ہیں:‌”ابراہیم جلیس ایک دل نواز اور بے تاب روح کا نام تھا۔ اس کے سینے میں آزادئ انسان کی تڑپ تھی جو لفظوں کی صورت میں اس کے قلم سے کاغذ پر کبھی اشکوں کی طرح ٹپکتی تھی اور کبھی تلخ تبسم کی طرح بکھرتی تھی۔ اس نے برطانوی سامراج کے زمانے میں انسان کی تذلیل دیکھی تھی جس نے اس کے دل میں انسانی وقار کی آرزو پیدا کر دی تھی۔

    وہ اس وقت حیدرآباد دکن میں رہتا تھا۔ نوعمری کا زمانہ تھا۔ تلوار اور بندوق اس کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ وہ صرف قلم تک پہنچ سکتا تھا۔ اور اس نے قلم کو اٹھایا اور آخری سانس تک اس قلم سے جہاد کرتا رہا۔ اس کا میدانِ جنگ ہندوستان سے لے کر پاکستان تک پھیلا ہوا تھا۔ اس نے شروع میں افسانہ نگاری اور ناول نگاری کی۔ لیکن اس کی جلد باز طبعیت نے یہ محسوس کیا کہ شاید افسانہ اور ناول کی دھار اتنی تیز نہیں ہے جتنی صحافت کی دھار تیز ہوتی ہے یا شاید اس کے مزاج میں صحافت زیادہ تھی اس لیے جب اس نے اپنا قلم اٹھایا تو وہ ایک افسانہ نگار تھا اور جب اس نے اپنا قلم ہمیشہ کے لیے رکھ دیا تو وہ ایک بے باک صحافی تھا۔ صحافت میں اس کے جوہر بہت چلے لیکن اس کی قبل از وقت موت نے ان جوہروں کی تابناکی کو بجلی کی چمک حاصل کرنے نہیں دی۔ ہم، اب اس کے لیے سوگوار ہیں۔ وہ جو ہماری محفل کو چھوڑ کر چلا گیا لیکن اس کا قلم، اس کی وراثت ہے۔ کوئی نہ کوئی بے باک صحافی اس کو اٹھا لے گا اور ابراہیم جلیس کی روایت آگے بڑھ جائے گی۔”

    مارشل لاء کے دوران 1977ء میں عائد کی جانے والی پابندیوں کے نتیجے میں‌ صحافیوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ابراہیم جلیس صحافیوں کے حق میں آواز بلند کررہے تھے۔ انھوں نے اس زمانے میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی ملاقات کی تھی جو حالات بگڑنے کے بعد پارٹی کی جانب سے میدانِ عمل قدم رکھ رہی تھیں۔ ابراہیم جلیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسی زمانے میں وہ دباؤ کا شکار تھے اور ایک روز دماغ کی شریان پھٹنے سے ان کا انتقال ہوگیا۔ حکومتِ پاکستان نے ابراہیم جلیس کو تمغائے حسنِ کارکردگی سے نوازا تھا۔

  • ابراہیم جلیس:‌ ایک دل نواز اور بے تاب روح

    ابراہیم جلیس:‌ ایک دل نواز اور بے تاب روح

    ابراہیم جلیس کی عام قارئین میں وجہِ شہرت طنز و مزاح پر مبنی اُن کی تحریریں اور فکاہیہ کالم تھے لیکن بطور افسانہ نگار اور صحافی بھی ابراہیم جلیس علمی و ادبی حلقوں‌ میں‌ ممتاز تھے۔ آج اردو کے اس معروف ادیب اور صحافی کی برسی ہے۔

    ابراہیم جلیس کا شمار اپنے دور کی ممتاز اہلِ‌ قلم شخصیات میں‌ ہوتا تھا۔ 26 اکتوبر 1977ء کو وفات پانے والے ابراہیم جلیس کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ ان کی جائے پیدائش بنگلور ہے، جہاں 11 اگست 1922ء کو آنکھ کھولنے والے ابراہیم جلیس کا خاندان بعد میں‌ نقل مکانی کرکے دکن چلا آیا، اور یہاں گلبرگہ میں ابراہیم جلیس نے تعلیم و تربیت پائی۔ 1942ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن کرنے کے بعد ابراہیم جلیس نے قلم کار کی حیثیت سے خود کو متعارف کروایا۔

    1948ء میں ابراہیم جلیس پاکستان چلے آئے اور یہاں ادبی مشاغل کے ساتھ مختلف اخبارات سے منسلک رہے اور صحافت میں اداریہ نویسی کے علاوہ اپنے کالموں سے قارئین کو اپنا مداح بنا لیا۔ ابراہیم جلیس رونامہ امروز، حریت اور مساوات سے وابستہ رہے۔ بحیثیت مدیر روزنامہ مساوات میں کام کرتے ہوئے انھوں نے مارشل لاء کا دور بھی دیکھا اور اس دوران طرح‌ طرح کے جبر اور سنسر شپ کے خلاف آواز بلند کی۔

    ابراہیم جلیس کا افسانہ پہلی بار 1943ء میں ’’ساقی‘‘ کے شمارے میں شایع ہوا۔ وہ طنز و مزاح کی طرف آئے تو ان کی تحریریں کئی مؤقر روزناموں اور معتبر رسائل میں شایع ہوئیں اور خاص طور پر ان کے کالم قارئین میں بہت پسند کیے گئے۔ ابراہیم جلیس نے بیرونِ ملک سفر کیا تو وہاں‌ جو کچھ دیکھا اور واقعات پیش آئے ان کو اپنے سفر نامے کی صورت میں شایع کروایا، اس کے علاوہ ان کے مضامین، رپورتاژ، شخصی خاکے، یادیں اور تذکرے بھی کتابی شکل میں سامنے آئے۔ ابراہیم جلیس نے فلم اور ریڈیو کے لیے اسکرپٹ اور ڈرامے بھی لکھے۔ مارشل لاء کے دور میں‌ انھیں مختصر عرصہ قید و بند کا سامنا بھی کرنا پڑا تھا اور اس کی روداد بھی انھوں نے رقم کی ہے۔ ان کی یادگار کتابوں میں چالیس کروڑ بھکاری، دو ملک ایک کہانی، الٹی قبر، آسمان کے باشندے، جیل کے دن جیل کی راتیں، نیکی کر تھانے جا، ہنسے اور پھنسے کے علاوہ روس، امریکا اور ایران کے سفرنامے خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔ ابراہیم جلیس نے انشائیے بھی لکھے۔

    پاکستان کے اس ممتاز قلم کار کی وفات کے بعد ترقی پسند شاعر علی سردار جعفری نے ان پر ایک مضمون سپردِ‌ قلم کیا جس میں وہ لکھتے ہیں:‌”ابراہیم جلیس ایک دل نواز اور بے تاب روح کا نام تھا۔ اس کے سینے میں آزادئ انسان کی تڑپ تھی جو لفظوں کی صورت میں اس کے قلم سے کاغذ پر کبھی اشکوں کی طرح ٹپکتی تھی اور کبھی تلخ تبسم کی طرح بکھرتی تھی۔ اس نے برطانوی سامراج کے زمانے میں انسان کی تذلیل دیکھی تھی جس نے اس کے دل میں انسانی وقار کی آرزو پیدا کر دی تھی۔

    وہ اس وقت حیدرآباد دکن میں رہتا تھا۔ نوعمری کا زمانہ تھا۔ تلوار اور بندوق اس کے ہاتھ میں نہیں تھی۔ وہ صرف قلم تک پہنچ سکتا تھا۔ اور اس نے قلم کو اٹھایا اور آخری سانس تک اس قلم سے جہاد کرتا رہا۔

    اس کا میدانِ جنگ ہندوستان سے لے کر پاکستان تک پھیلا ہوا تھا۔ اس نے شروع میں افسانہ نگاری اور ناول نگاری کی۔ لیکن اس کی جلد باز طبعیت نے یہ محسوس کیا کہ شاید افسانہ اور ناول کی دھار اتنی تیز نہیں ہے جتنی صحافت کی دھار تیز ہوتی ہے یا شاید اس کے مزاج میں صحافت زیادہ تھی اس لیے جب اس نے اپنا قلم اٹھایا تو وہ ایک افسانہ نگار تھا اور جب اس نے اپنا قلم ہمیشہ کے لیے رکھ دیا تو وہ ایک بے باک صحافی تھا۔ صحافت میں اس کے جوہر بہت چلے لیکن اس کی قبل از وقت موت نے ان جوہروں کی تابناکی کو بجلی کی چمک حاصل کرنے نہیں دی۔

    ہم، اب اس کے لیے سوگوار ہیں۔ وہ جو ہماری محفل کو چھوڑ کر چلا گیا لیکن اس کا قلم، اس کی وراثت ہے۔ کوئی نہ کوئی بے باک صحافی اس کو اٹھا لے گا اور ابراہیم جلیس کی روایت آگے بڑھ جائے گی۔”

    مارشل لاء کے دوران 1977ء میں عائد کی جانے والی پابندیوں کے نتیجے میں‌ صحافیوں کو کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا اور ابراہیم جلیس صحافیوں کے حق میں آواز بلند کررہے تھے۔ انھوں نے اس زمانے میں محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھی ملاقات کی تھی جو حالات بگڑنے کے بعد پارٹی کی جانب سے میدانِ عمل قدم رکھ رہی تھیں۔ ابراہیم جلیس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسی زمانے میں وہ دباؤ کا شکار تھے اور ایک روز دماغ کی شریان پھٹنے سے ان کا انتقال ہوگیا۔

    انھیں حکومتِ پاکستان نے تمغائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔ یہاں ہم ابراہیم جلیس سے متعلق ایک مشہور قصّہ نقل کررہے ہیں۔

    ایک محفل میں مشہور صحافی احمد علی اور ان کی اہلیہ ہاجرہ مسرور( جو ایک نام ور ادیبہ تھیں)، ابراہیم جلیس اور دیگر قلم کار جمع تھے۔ اچانک ایک صاحب نے ابراہیم جلیس سے سوال کیا:’’صاحب یہ بتائیے کہ صحافت اور ادب میں کیا رشتہ ہے؟‘‘ اس پر جلیس مسکرائے اور احمد علی اور ان کی اہلیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’جو احمد علی اور ہاجرہ مسرور میں ہے۔‘‘

  • شوٹنگ سے پہلے ہیروئن!

    شوٹنگ سے پہلے ہیروئن!

    کہا جاتا ہے کہ دنیا کی ہر زبان کے ادب بالخصوص اردو ادب میں عورت کے ساتھ ادیب اور شاعر بڑا ظلم کرتے ہیں۔ اس کی وہ درگت بناتے ہیں کہ عورت کے سوائے دنیا میں کوئی مخلوق مظلوم نظر نہیں آتی۔

    میں جیسے جیسے دنیا کے ہر ادب بالخصوص اردو ادب کا گہرا مطالعہ کرتا گیا، اس کہاوت پر ایمان لاتا گیا لیکن جس دن میں نے پہلی بار فلمی دنیا میں قدم رکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ ادب کی اس مظلوم عورت سے بھی زیادہ مظلوم ایک مخلوق اس دنیا میں موجود ہے اور وہ ہے فلمی مخلوق، یعنی فلم کے ہیرو، ہیروئن، ولن اور دوسرے فلمی کردار اور ان میں بھی ادب کی طرح ہیروئن ہی سب سے زیادہ مظلوم ہے۔

    آپ اور ہم تو فلمی عورت کو دیکھ کر صرف آنکھیں سینک لیتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتے لیکن آپ کو یہ معلوم نہیں کہ اسی پردۂ سیمیں کے پیچھے ایسی فلمی عورت کے ساتھ فلمی کہانی نویس مکالمہ نگار، فوٹو گرافر، میک اپ ماسٹر، میوزک ڈائریکٹر، ڈانس انسٹرکٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کہانی کے آغاز سے کہانی کے اختتام تک کیسا بُرا سلوک کرتے ہیں اور اس بے چاری کو ان کے کیسے کیسے مظالم کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اس سلسلہ میں میرا پہلا تجربہ بڑا دل چسپ ہے۔

    بمبئی میں ایک فلم کمپنی نے ایک فلم بنانے کا اعلان کیا۔ اس کی فلمی کہانی بھی کسی منشی سے لکھوا لی لیکن ایک دن مجھے اس فلم کمپنی کے پروڈیوسر کا خط ملا کہ میں ان سے دفتر کے اوقات میں فلاں تاریخ کو ملوں۔

    چنانچہ میں فلاں تاریخ کو اس دفتر میں پہنچ گیا۔ تعارف کے بعد فلم پروڈیوسر نے کہا،

    ’’ابی سالا ابرام بھائی! ہم آپ کو اس لیے تکلیپھ دیا کہ سالا ہمارا ہیروئین پانچویں سین میں پھنسیلا ہے اس کو بھار نکالنا ہے۔‘‘

    میں نے دل ہی دل میں کہا، واہ میاں ابراہیم جلیس، خدا نے بھی کیا دن دکھایا ہے، کیا خدا نے اسی لیے پیدا کیا ہے کہ پھنسی ہوئی ہیروئنوں کو باہر نکالا کرو۔

    میں نے پروڈیوسر سے کہا، ’’مجھے ذرا کہانی دکھائیے۔ میں کوشش کرتا ہوں۔‘‘

    میں نے کہانی پڑھی جہاں ہیروئن پھنسی ہوئی تھی، وہ منظر یہ تھا۔

    مال دار ولن (یعنی رقیب) نے ہیروئن کے غریب باپ کو کبھی پانچ سو روپے قرض دیے تھے، مدّت گزر گئی، ہیروئن کے باپ نے قرض ادا نہیں کیا تھا، اصل اور سود ملا کر پانچ سو روپے دو ہزار بن گئے تھے۔ ہیروئن بڑی خوب صورت تھی اور مال دار ولن اس کے باپ کا قرض اس شرط پر معاف کرنا چاہتا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کا بیاہ ولن سے کر دے، لیکن ہیروئن اپنے جیسے غریب خوب صورت نوجوان لڑکے سے پیار کرتی تھی، اس کے علاوہ مال دار ولن پچاس پچپن برس کا بوڑھا نہایت بدشکل اور کانا تھا۔ اس لیے نہ صرف ہیروئن بلکہ اس کے غریب اور خوددار باپ نے بھی یہ رشتہ ٹھکرا دیا تھا۔ اس لیے مال دار ولن نے ہیروئن کو قرض کے عوض زبردستی حاصل کر کے اپنے گھر میں قید رکھا تھا۔ اب اسی ہیروئن کو دولت مند ولن کی قید سے آزاد کرانا تھا۔

    میں نے فلم پروڈیوسر کو رائے دی۔ اس موقع پر آپ فلم کے ہیرو سے کام لے سکتے ہیں، وہی اس کو اس قید سے آزاد کرا سکتا ہے۔

    پروڈیوسر نے کہا،’’ہم سالا بھی یہی منگتا تھا لیکن مُصیبت یہ ہوگئی ہے کہ پچھلے سین میں ولن نے ہیرو کو اپنے نوکروں سے خوب پٹوایا ہے اور وہ سالا اسپتال میں پڑا ہے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’اچھا تو پھر ایسا کرتے ہیں ولن کے گھر میں کوئی بوڑھی عورت نوکر رکھواؤ، اس سے آپ کا کچھ نہیں خرچ ہوگا۔ یہ فلمی کہانی ہے اس لیے تنخواہ کا کوئی سوال نہیں۔‘‘

    پروڈیوسر بولا، ’’اپن سالا ایسا بھی کیا لیکن ولن کو کچھ سک ہوا تو اُس نے نوکرانی کو بھی گھر سے نکال دیا۔‘‘

    میں نے سوچتے ہوئے کہا، ’’پھر تو بڑی مصیبت ہے۔‘‘

    پروڈیوسر بولا، ’’مصیبت تو ہے پر اُس کو نکالنا ضرور ہے، ورنہ سالا اسٹوری آگے نہیں بڑھیں گا۔‘‘

    میں نے جل کر پوچھا، ’’لیکن تم نے اسے گرفتار کیوں نہیں کرایا، ولن کے ہتھے چڑھنے سے پہلے ہی ہیرو کے ساتھ کہیں بھگا کیوں نہیں دیا؟ یہ کوئی سچ مچ کی زندگی تو نہیں، فلمی کہانی ہے۔ اس میں سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔‘‘

    پروڈیوسر بولا، ’’جو ہوگیا سو ہوگیا، اب بولو ہیروئن کو کس طراں آجاد (آزاد) کیا جائے؟‘‘

    مجھے غصّہ آیا، ’’تو پھر فلم ختم ہونے تک پڑی رہنے دو سالی کو اس قید میں۔‘‘

    پروڈیوسر بولا، ’’واہ منسی ابرام بھائی۔ یہ کیا بات کرتا ہے سالا تم۔ پبلک سالا ہیروئن کو دیکھنا منگتا ہے اور تم بولتا ہے کہ اس کو فلم میں قید رکھو۔ یہ نہیں ہوسکتا اور ترکیب بتاؤ۔‘‘

    میں نے کہا، ’’اچھا تو سنو۔ اس کی رہائی کی صرف ایک ترکیب ہے۔ کہانی میں یہ ہے کہ ولن ہر روز ایک بار ہیروئن سے ملتا ہے اور پوچھتا ہے کہ وہ اگر شادی کے لیے تیار ہے تو وہ اس کو ابھی قید سے نکال لے گا۔ ہیروئن کو اب یہ چاہیے کہ وہ اس سے شادی کا بہانہ کرلے اور آزاد ہو کر اس کے مکان میں رہے اور کسی دن موقع پا کر بھاگ نکلے۔‘‘

    پروڈیوسر نے اُچھل کر کہا، ’’ہاں یہ ترکیب ٹھیک ہے، چلو فر جلدی اُس کو آجاد کراؤ۔‘‘

    میں نے فونٹن پن نکالا اور ہیروئن کو آجاد کرا دیا، اس کے بعد پروڈیوسر نے پوچھا، ’’اب کیا ہوگا؟‘‘

    میں نے بتایا، اب ولن شادی کی تیاریاں کرے گا اور عین شادی کے دن ہیروئن کو ولن کے گھر سے بھگا دو۔ پروڈیوسر نے پوچھا،

    ’’بھگا کر کہاں لے جائیں؟‘‘

    میں نے جی کڑا کر کے جواب دیا، ’’اپنے گھر میں ڈال لو۔‘‘

    پروڈیوسر زور سے قہقہہ لگا کر ہنس پڑا اور بولا، ’’اجی اس سے تو ہمیں پیسہ کمانا ہے، اگر اپنے گھر میں ڈال لوں تو کمانے کے بجائے اُلٹا خرچ کرنا پڑے گا۔‘‘

    میں نے کہا، ’’سیٹھ جی اس کی فکر کیا کرتے ہو کہ وہ کہاں جائے گی؟ پہلے اسے ولن کے گھر سے بھگاؤ تو سہی۔‘‘

    چنانچہ عین شادی کے دن ہیروئن کو ولن کے گھر سے بھگا دیا گیا اور ہیروئن سیدھا اسپتال پہنچی جہاں ہیرو زخمی پڑا ہے۔

    پروڈیوسر نے پوچھا، ’’لیکن اس کے رہنے ٹھہرنے کھانے پینے کا کیا بندوبست ہوگا کیونکہ اسپتال میں ٹھہرنے کی تو اجازت نہیں ہوتی۔‘‘

    میں نے کہا، ’’سیٹھ جی! فلمی کردار کے بارے میں کچھ یہ نہ سوچو کہ اس کے کھانے پینے کا کیا انتظام ہو گا۔ فلمی کردار کو نہ بھوک لگتی ہے نہ پیاس اور اگر لگتی ہے تو صرف محبت کی بھوک پیاس۔ رہا ٹھہرنے کا بندوبست تو سیٹھ جی فلمی ہیروئن اتنی خوب صورت ہوتی ہے کہ اگر وہ پردۂ سیمیں سے اس طرح اکیلی باہر نکل آئے تو اس کو اپنے گھر ٹھہرانے کے لیے ساری بمبئی کے لوگ ایک دوسرے سے لڑ پڑیں۔ اب فی الحال تم اس کو اسپتال کے کنوارے ڈاکٹر کے گھر ٹھہراؤ۔‘‘

    پروڈیوسر نے کہا، ’’کیوں نہ کسی شادی شدہ ڈاکٹر کے گھر ٹھہرایا جائے؟ یہ کنوارا ڈاکٹر تو اس کو اکیلی دیکھ کر کہیں کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کر بیٹھے۔‘‘

    میں نے جواب دیا، ’’سیٹھ صاحب! آپ بھول رہے ہیں کہ کوئی شادہ شدہ مرد ایک اجنبی اکیلی عورت کو اپنے گھر نہیں ٹھہرا سکتا۔ اس کی بیوی یا تو طلاق لے لے گی یا پھر اس کی وہ مرمت کرے گی کہ وہ زندگی بھر یاد کرے گا۔ صرف کنوارا ہی اکیلی عورت کو سہارا دے سکتا ہے اور وہ چھیڑے گا کس طرح میں بیٹھا ہوں، آپ بیٹھے ہیں، ڈائریکٹر صاحب بیٹھے ہیں۔ ہاں اگر ہم تینوں یہ فیصلہ کر لیں کہ ہیروئن کو چِھڑوایا جائے تب کہیں وہ چھیڑنے کی جرأت کرسکتا ہے۔‘‘

    خیر صاحب! ہیروئن کو کنوارے ڈاکٹر کے پاس ٹھہرایا گیا۔ کنوارے ڈاکٹر نے اپنے گھر ہیروئن کو پناہ دینے کے بعد اس کا حسن وجمال دیکھا تو فوراً عاشق ہوگیا۔ اس وقت میری، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی خواہش بھی یہی تھی کہ کنوارے ڈاکٹر کو ہیروئن پر عاشق کرایا جائے۔ اس سے کہانی میں ذرا لطف پیدا ہوسکتا تھا، چنانچہ کنوارا ڈاکٹر ہیروئن سے کہتا ہے،

    ’’تم جس کے عشق میں مبتلا ہو فضول مبتلا ہو، اس مریض کی نہ صرف دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں بلکہ اب وہ محبت کے بعد والے معاملے کے قابل بھی نہیں رہا۔‘‘

    یہ خبر سنتے ہی ہیروئن بے ہوش ہو کر گر پڑی، حالانکہ ڈائریکٹر یہ چاہتا تھا کہ وہ ایک دم پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دے، لیکن میں اور پروڈیوسر اس معاملے میں متفق الرّائے تھے کہ ہیروئن کو بے ہوش کرایا جائے۔ اسے جب ہوش آتا ہے تو پھر وہ ڈاکٹر سے شادی کر لیتی ہے۔ اس کے اصلی عاشق کو جب یہ خبر ملتی ہے تو وہ اپنی محبوبہ کو بلا کر اصلی حقیقتِ حال سے واقف کراتا ہے یعنی اُسے بتاتا ہے کہ ڈاکٹر نے اسے غلط باور کرایا ہے، وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ ہیروئن دھاڑیں مارمار کر روتی ہے اور پچھتاتی ہے۔ ہیرو اس پر ایک درد بھرا گیت گاتا ہے جس کے بول ہیں؛

    اب پچھتائے کیا ہووت ہے جب چڑا چُگ گیا کھیت….

    اور اس کے بعد وہ خودکشی کرلیتا ہے لیکن ہیروئن بڑی غمگین ہے، وِلن کی قید سے آزاد ہونے کے باوجود وہ اپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھتی۔

    اس کے بعد ہیروئن ہر روز شام کے ساڑھے پانچ بجے رات کے ساڑھے آٹھ بجے اور ساڑھے گیارہ بجے تک غمگین رہتی ہے اور چھ سات ہفتوں بعد وہ ازسرِ نو کنواری بن کر دلیپ کمار سے پینگیں بڑھانے لگتی ہے اور جب دوبارہ وہ ولن کے چنگل میں پھنس جاتی ہے تو پروڈیوسر لوگ سالا منسی ابرام بھائی کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ اب سالا منسی ابرام بھائی یہ سوچ رہا ہے کہ فلموں کا دی اینڈ ہو یا نہ ہو اس کا اپنا دی اینڈ ہوجائے تو اچھا ہے، کیونکہ اس طرح ہیروئنوں کو رقیبوں کے پنجوں سے چھڑاتے چھڑاتے وہ تنگ آگیا ہے۔

    (ممتاز ادیب، صحافی اور مزاح نگار ابراہیم جلیس کے قلم سے)

  • نام وَر ادیب، افسانہ نگار اور صحافی ابراہیم جلیس کی برسی

    نام وَر ادیب، افسانہ نگار اور صحافی ابراہیم جلیس کی برسی

    26 اکتوبر 1977ء کو اردو کے نام ور ادیب، کالم نگار اور صحافی ابراہیم جلیس کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ ابراہیم جلیس 1922ء میں بنگلور میں پیدا ہوئے تھے، لیکن ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت گلبرگہ حیدرآباد دکن میں ہوئی تھی۔

    1942ء میں انھوں نے مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن کیا اور تقریباً اسی زمانے میں لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔ ان کی صحافتی زندگی کا آغاز حیدرآباد دکن سے ہی ہوا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں مختلف اخبارات سے وابستہ رہے جن میں امروز، انجام، جنگ، حریت اور مساوات شامل تھے۔ انھوں نے ایک ہفت روزہ بھی عوامی عدالت کے نام سے جاری کیا۔ وہ پاکستان پیپلز پارٹی کے روزنامہ مساوات کے مدیر بھی رہے جو مارشل لاء کے زمانے میں زیرِ عتاب آگیا۔

    ابراہیم جلیس ایک بہت اچھے افسانہ نگار بھی تھے۔ انھوں نے سنجیدہ و فکاہیہ مضامین تحریر کیے اور کالم لکھے جو بہت مقبول ہوئے۔ ان کا طنز و مزاح اور فکاہیے بہت پسند کیے گئے۔ ابراہیم جلیس نے متعدد کتابیں یادگار چھوڑیں جن میں زرد چہرے، چالیس کروڑ بھکاری، دو ملک ایک کہانی، الٹی قبر، آسمان کے باشندے، جیل کے دن جیل کی راتیں، نیکی کر تھانے جا، ہنسے اور پھنسے کے علاوہ روس، امریکا اور ایران کے سفرنامے خصوصاً قابل ذکر ہیں۔

    ابراہیم جلیس کو حکومتِ پاکستان نے بعدازمرگ تمغہ حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • یومِ وفات:‌حمید اختر کا تذکرہ جنھوں نے "آٹو میٹک” قسم کی تنہائی کاٹی

    یومِ وفات:‌حمید اختر کا تذکرہ جنھوں نے "آٹو میٹک” قسم کی تنہائی کاٹی

    دراز قد اور خوب رُو حمید اختر کی آواز بھی جان دار تھی۔ انھیں اداکاری کا شوق ہوا تو قسمت آزمانے بمبئی کی فلم نگری کا رخ کیا جہاں انھیں کسی طرح ’آزادی کی راہ پر‘ نامی ایک فلم میں سائیڈ ہیرو کا رول بھی مل گیا، لیکن یہ سفر یہیں تمام ہوا اور حمید اختر نے ایک صحافی، ادیب، فلم ساز اور ترقی پسند تحریک کے کارکن کی حیثیت سے نام و مقام بنایا۔

    آج حمید اختر کا یومِ وفات ہے۔ 2011ء میں ان کی زندگی کا آخری سال ثابت ہوا۔ انھیں کینسر کا مرض لاحق تھا۔

    1924ء میں ضلع لدھیانہ میں پیدا ہونے والے حمید اختر مشہور شاعر ساحر لدھیانوی کے بچپن کے دوست تھے۔ انھیں نوجوانی میں اردو کے ممتاز ادیب اور شاعر ابن انشاء کی رفاقت بھی نصیب ہوئی اور یوں فکروفن اور علم و ادب سے تعلق گہرا ہوتا چلا گیا۔ اسی ذوق و شوق اور ترقی پسند رجحانات نے حمید اختر کو انجمن ترقی پسند مصنفیں سے ناتا جوڑنے پر آمادہ کر لیا۔

    جن دنوں وہ بمبئی میں مقیم تھے، وہاں انھیں کرشن چندر، سجاد ظہیر، سبطِ حسن اور ابراہیم جلیس جیسے ترقی پسندوں سے ملنے کا موقع ملا اور بعد میں ان سے گہری شناسائی ہوگئی۔

    تقسیمِ ہند کے بعد حمید اختر پاکستان آئے جہاں ان دنوں اشتراکی فکر کے حامل دانش وروں پر کڑا وقت آیا ہوا تھا۔ حمید اختر بھی گرفتار ہوئے اور دو سال کے لیے زنداں میں رہنا پڑا۔

    ’کال کوٹھڑی‘ حمید اختر کے انہی ایامِ اسیری کی روداد ہے۔ 1970ء میں انھوں نے آئی اے رحمان اور عبداللہ ملک کے ساتھ مل کر روزنامہ ’آزاد‘ جاری کیا جو بائیں بازو کے آزاد خیال گروپ کا ترجمان تھا۔ یہ اخبار بعد میں اپنی پالیسیوں کی وجہ سے مالی مشکلات کے بعد بند ہوگیا۔

    حمید اختر نے اپنے ترقی پسند ساتھیوں کے خاکے بھی احوالِ دوستاں کے نام سے لکھے ہیں۔ ان کی اسیری کے دنوں کی ایک یاد ہم یہاں نقل کررہے ہیں۔

    ” ایک روز میں تنہائی سے تنگ آکر بوکھلا گیا، شام کو ڈپٹی صاحب آئے تو میں نے ان سے کہا، ”جناب عالی! میں اس تنہائی سے پاگل ہو جاﺅں گا۔ میں نے کوئی سنگین جرم نہیں کیا، میرے وارنٹ پر قیدِ تنہائی کی سزا نہیں لکھی۔ مجھے سیفٹی ایکٹ میں نظر بند کرنے کا وارنٹ ہے، قیدِ تنہائی میں ڈالنے کے لیے نہیں لکھا ہوا، اگر مجھے مارنا ہی ہے تو ایک ہی دن مار کر قصہ ختم کر دیجیے۔

    ڈپٹی صاحب نے بہت سوچ بچار کے بعد بظاہر ہمدردانہ لہجے میں کہا: ” تمہارے وارنٹ پر تنہائی کی قید نہیں لکھی ہوئی، مگر تمہاری تنہائی آٹو میٹک قسم کی ہے، کیونکہ نظر بندوں کے قانون میں یہ لکھا ہوا ہے کہ انھیں دوسرے قیدیوں سے نہ ملنے دیا جائے، اب کوئی اور سیاسی قیدی آجائے تو اسے تمہارے ساتھ رکھا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ تو اور کچھ نہیں ہو سکتا۔

    میں نے کہا: ”خدا کے لیے کسی اور کو گرفتار کرائیے یہ اہلِ ملتان اس قدر مردہ دل کیوں ہو گئے ہیں؟ کوئی صاحبِ دل اس شہر میں ایسا نہیں ہے کہ جو ایک تقریر کر کے گرفتار ہو جائے۔ مولوی مودودی کے کسی چیلے کو ہی پکڑ لائیے، کوئی انسان تو ہو جس سے بات کر سکوں، مگر افسوس کہ نہ ڈپٹی صاحب میری بات مانے اور نہ ملتان شہر نے کوئی ایسا صاحبِ دل پیدا کیا۔

  • فحاشی پر سزا اور جرمانہ

    فحاشی پر سزا اور جرمانہ

    ایک دور میں ملک میں قلم کی آزادی طرح طرح کی پابندیوں اور مختلف بندشوں کے ساتھ سنسر شپ کی وجہ سے متاثر تھی۔

    ادیب، فلم ساز اور صحافی موضوعات کے چناؤ میں محتاط رہتے تھے۔ اس وقت علامتی افسانے اور کہانیاں لکھی جاتی تھیں جب کہ مضمون نگار مخصوص طبقات کی ناراضی اور برہمی اور قانون کی گرفت سے بچنے کے لیے احتیاط سے کام لیتے تھے۔ یہاں ہم ایک ایسا ہی ادبی قصّہ آپ کی نذر کررہے ہیں‌ جس کا تعلق آزادیِ اظہار سے ہے اور اس کے نتیجے میں‌ اردو زبان و ادب کی دو مشہور شخصیات کو قید و جرمانہ ہوا۔

    علم و ادب کا شوق رکھنے والے قارئین ابراہیم جلیس کے نام سے ضرور واقف ہوں گے جو پاکستان کے مشہور ادیب اور صحافی تھے۔ ان کا قلم طنز و مزاح خوب لکھتا تھا، وہ اپنے فکاہیہ مضامین اور کالم کے ذریعے مختلف معاشرتی مسائل اور سماجی برائیوں کی نشان دہی کرتے رہتے تھے۔ ابراہیم جلیس کے ایک قلم کار دوست اور افسانہ نگار کا نام رفیق چوہدری تھا۔

    رفیق چوہدری نے اپنے افسانوں کو کتابی شکل میں شایع کروانے کا فیصلہ کیا اور جب انتخاب اور ترتیب و تدوین کے مراحل طے پاگئے تو انھوں نے ابراہیم جلیس سے دیباچہ لکھنے کو کہا۔

    اس افسانوی مجموعہ کا نام ’’محبتوں کے چراغ‘‘ تھا جو ابراہیم جلیس کی تحریر (دیباچہ) کے ساتھ شایع ہوگیا، لیکن اشاعت کے بعد معلوم ہوا کہ مصنّف کی کہانیاں بے حیائی اور فحاشی کے فروغ کا سبب بنی ہیں اور دیباچہ لکھنے والے نے گویا مصنّف کا ساتھ نبھایا ہے اور یوں وہ بھی لائقِ‌ گرفتِ قانون ہے۔

    افسانہ نگار اور دیباچہ نویس دونوں کو سرکارِ وقت نے فحاشی کے الزام میں گرفتار کرلیا۔ ان پر مقدّمہ چلا اور تین ماہ قید اور تین ہزار جرمانہ کی سزا سنائی دی گئی۔ مشہور ہے کہ اس واقعہ کے بعد ابراہیم جلیس نے چوہدری رفیق سے کہا:

    ’’اب تم ناول لکھنا بند کر دو اور میں تمھاری کہانیوں کے دیباچے لکھنا تا کہ دوبارہ یہ دن نہ دیکھنا پڑے۔‘‘

  • گھر داماد

    گھر داماد

    ہمارے ایک دوست ’’بی۔ اے۔ پاس‘‘ ہیں، لیکن ’’بی بی پاس‘‘ نہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے بی اے پاس دوست بے روزگار ہونے کے علاوہ خود دار آدمی بھی ہیں، لہٰذا ’’گھر داماد‘‘ بننے کے لیے کسی طرح بھی تیار نہیں۔

    چنانچہ ’’بی بی پاس‘‘ ہونے کا نہ سوال ہی پیدا ہوتا ہے اور نہ بچّہ۔ اب وہ اس انتظار میں ہیں کہ کوئی اچھی سی نوکری ملے اور کوئی اچھا سا مکان کرائے پر لیں تاکہ بی بی پاس ہو۔

    ہم نے ان بی اے پاس دوست کو بہتیرا سمجھایا کہ ’’میاں، یہ خود داری چھوڑو۔ بی اے پاس ہو تو اب بی بی پاس بھی ہوجاؤ۔ تمہاری بی بی تو سچ مچ کی ’’گھر والی‘‘ ہے۔ ہماری بیویوں کی طرح ’’گھر والی‘‘ تو نہیں کہ گھر کے مالک ہم، گھر کا کرایہ ہم دیں اور ہماری بی بی صاحبہ مفت میں گھر والی کہلائیں۔

    مگر وہ جھکّی، خواہ مخواہ کے خود دار بی اے پاس دوست بی بی پاس ہونے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔

    حالاں کہ ان کے ’’خسر‘‘ صاحب ’’مُصِر‘‘ کہ ’’داماد‘‘ ان پر ’’اعتماد‘‘ کریں کہ ان کے ساتھ ’’روایتی بدنام گھر داماد‘‘ جیسا سلوک نہیں کیا جائے گا۔

    ’’ساس‘‘ بے چاری ’’آس‘‘ لگائے بیٹھی ہیں کہ داماد کب ’’بی بی پاس‘‘ ہوگا۔

    ایک دن ہمارے بی اے پاس دوست حسبِ معمول ہمارے پاس بیٹھے بی بی کی یاد میں ٹسر ٹسر روتے ہوئے ساس سُسر کو کوس رہے تھے، تو ہمیں بڑا غصّہ آیا اور ہم پھٹ پڑے۔

    ’’ارے کم بخت۔ جب تو کہیں نوکر نہیں ہوا تھا اور تیرے پاس رہنے کے لیے گھر تک نہیں تھا، تو تُو نے آخر شادی کی کیوں تھی؟‘‘

    بی اے پاس دوست تنک کر بولا، ’’میں نے کب کی تھی۔ میرے سُسرال والوں نے مجھے دھوکہ دیا۔ شادی سے پہلے وہ کہتے تھے کہ مجھے ایک الگ گھر لے کر دیں گے، اور ایک دکان بھی لگا کر دیں گے لیکن شادی کے بعد سے میرے سسر صاحب بالکل انجان ہوگئے، اب وہ اسی بات پر مُصر ہیں کہ علیحدہ گھر خریدنا تو مشکل ہے اسی گھر کا ایک علیحدہ کمرہ دے دیں گے۔ یقین نہ آئے تو تم خود ان سے پوچھ لو۔‘‘

    اتفاق سے اسی شام ایک اور ’’لڑکی کے نیلام‘‘ یعنی شادی کی تقریب میں ہمارے دوست کے خسر صاحب سے ملاقات ہوگئی۔ ہم نے اپنے دوست کا ذکر چھیڑ کر پوچھا، ’’کیوں صاحب، کیا یہ صحیح ہے کہ آپ نے میرے دوست سے یہ وعدہ کیا تھا کہ شادی کے بعد اسے ایک علیحدہ گھر لے کر دیں گے اور ایک دکان بھی لگا کر دیں گے۔‘‘

    یہ سُن کر بے چارے خسر صاحب کا چہرہ ایک دم مرجھا سا گیا اور وہ جیسے اپنے آنسو روک کر بولے، ’’ہائے، کیا مصیبت ہے۔ سترہ اٹھارہ برس تک بیٹی کو پال پوس کر پڑھا لکھا کر بڑا کیجیے اور شادی کے موقع پر بیٹی کے علاوہ ایک مکان، دکان اور روپیہ بھی دیجیے۔‘‘

    اور پھر انہوں نے آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، ’’اللہ، موجودہ لالچی زمانے میں کسی غیرت مند آدمی کو بیٹی کا باپ نہ بنا۔‘‘ ہمیں ان پر ترس تو آیا لیکن ہم یہ پوچھنے میں پھر بھی حق بجانب تھے کہ’’قبلہ، جب آپ مکان، دکان دینے کا وعدہ پورا نہ کرسکتے تھے تو آپ کو وعدہ کرنا ہی نہیں چاہیے تھا۔‘‘

    بے چارے بڑے آزردہ اور آب دیدہ ہوکر بولے، ’’آپ سچ کہتے ہیں۔ واقعی مجھے وعدہ نہیں کرنا چاہیے تھا لیکن میں اپنے وعدے پر اب بھی قائم ہوں مگر کیا کروں لالچ ہر جگہ ہے، جو مکان چار ہزار کی لاگت میں میرے سامنے تعمیر ہوا، اس کے اب بیس بیس، پچاس پچاس ہزار روپے مانگے جا رہے ہیں۔

    میں نے صاحبزادے سے اب بھی وعدہ کیا ہے کہ چھ مہینے اور انتظار کریں۔ میری ایک بڑی رقم ایک محکمہ میں پھنسی ہے وہ مل جائے تو تمہیں خدا کی قسم ایک مکان لے دوں گا۔ جب تک تم میرے گھر کو اپنا گھر سمجھو لیکن میں حیران ہوں کہ ایک انسان بیک وقت لالچی اور خود دار کیسے ہو سکتا ہے؟‘‘

    یہ درد ناک باتیں سن کر ہمیں ان بزرگ سے واقعی بڑی ہم دردی ہوگئی اور ہم نے وعدہ کیا کہ ہم ان کے نامعقول داماد کو آج ہی شام ان کے پاس پکڑ کر لائیں گے اور اسے گھر داماد بنائے بغیر نہ چھوڑیں گے۔ چنانچہ ہم بڑی ترکیب سے بہلا پھُسلا کر ان کے داماد کو گھر لے گئے۔ صلح صفائی کی باتوں میں جب داماد نے کہا، ’’لیکن اگر میں گھر داماد بن گیا تو لوگ کیا کہیں گے؟‘‘

    خُسر صاحب نے بڑے تلخ لہجے میں کہا، ’’برخوردار، میں پوچھتا ہوں کہ موجودہ زمانے میں کون گھر داماد نہیں ہے۔ ہر جہیز میں ایک مکان یا کوٹھی جو دی جاتی ہے، وہ کوئی داماد کے باپ کا گھر ہے؟‘‘

    فرق صرف یہ ہوگیا ہے کہ پُرانے زمانے میں لڑکی کے والدین داماد کو گھر داماد بنالیا کرتے تھے اور موجودہ زمانے میں وہ داماد کے لیے جہیز میں ایک الگ ’’داماد گھر‘‘ خرید کردیتے ہیں۔

    ’’گھر داماد‘‘ نہ سہی…….. ’’داماد گھر‘‘ سہی۔ بات تو ایک ہی ہے اور میں پوچھتا ہوں کہ زمانے میں کون شخص کسی نہ کسی شکل میں گھر داماد نہیں ہے؟‘‘

    اور یہ کہہ کر خسر صاحب نے رازدارانہ لہجے میں اِدھر اُدھر دیکھ کر سَر جھکا لیا اور مَری ہوئی آواز میں بولے، ’’برخوردار، میں خود بھی گھر داماد ہوں۔‘‘

    (معروف ادیب، طنز و مزاح نگار اور صحافی ابراہیم جلیس کے قلم سے)

  • ہر محفل میں جچنے والے ابراہیم جلیس کی برسی

    ہر محفل میں جچنے والے ابراہیم جلیس کی برسی

    اردو کے ممتاز ادیب اور نام وَر صحافی ابراہیم جلیس 26 اکتوبر 1977ء کو دنیائے فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔ طنز و مزاح پر مبنی کالم، ادبی مضامین اور افسانے ان کی پہچان ہیں، صحافت ابراہیم جلیس کا پیشہ تھا۔

    ابراہیم جلیس کا تعلق حیدرآباد دکن سے تھا۔ وہ 11 اگست 1922ء کو بنگلور میں پیدا ہوئے لیکن ابتدائی تعلیم و تربیت گلبرگہ، حیدرآباد دکن میں ہوئی۔ 1942ء میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ سے گریجویشن کے بعد لکھنے لکھانے کا سلسلہ شروع کیا۔

    1948ء میں پاکستان آنے کے بعد یہاں مختلف اخبارات سے وابستہ رہے جن میں امروز، حریت اور مساوات شامل تھے۔ وہ روزنامہ ’’مساوات‘‘ کے مدیر بنے اور جب 1977ء میں مارشل کے دوران پابندیاں عائد کی گئیں تو انھوں نے اس کے خلاف آواز بلند کی اور اسی زمانے میں دماغ کی شریان پھٹنے سے ان کی موت ہوئی۔ 1989ء میں حکومتِ پاکستان نے ان کی ادبی اور صحافتی خدمات کے اعتراف میں انھیں تمغہ حسنِ کارکردگی دینے کا اعلان کیا تھا۔

    ابراہیم جلیس کی افسانہ نگاری کا سفر شروع ہوا تو پہلی بار 1943ء میں ’’ساقی‘‘ نے انھیں‌ اپنے شمارے میں جگہ دی۔ انھوں نے طنز و مزاح لکھنے کا سلسلہ شروع کیا تو اس زمانے کے اہم اور معتبر اخبار اور رسائل میں ان کے کالم شایع ہوئے جنھیں قارئین نے بہت پسند کیا۔ ابراہیم جلیس نے کئی مضامین سپردِ قلم کیے، سفر نامے، رپورتاژ، شخصی خاکے، یادیں اور تذکرے بھی ان کے قلم سے نکلے تو یادگار ٹھہرے۔ فلمی دنیا اور ریڈیو کے لیے بھی انھوں نے اسکرپٹ اور ڈراما تحریر کیا اور اپنے قلم کو مختلف اصنافِ ادب میں آزمایا۔

    اردو زبان کے اس نام ور ادیب کی یادگار کتابوں میں چالیس کروڑ بھکاری، دو ملک ایک کہانی، الٹی قبر، آسمان کے باشندے، جیل کے دن جیل کی راتیں، نیکی کر تھانے جا، ہنسے اور پھنسے کے علاوہ روس، امریکا اور ایران کے سفرنامے خصوصاً قابلِ ذکر ہیں۔ ابراہیم جلیس نے انشائیے بھی لکھے اور اپنے ہم عصروں میں ممتاز ہوئے۔

    ڈاکٹر ہارون الرشید تبسم لکھتے ہیں: ’’ابراہیم جلیس ہر محفل میں جچتے تھے۔ بچوں کی محفل میں بچوں کی سی باتیں، ادیبوں اور شاعروں میں ادب اور شاعری کی باتیں، صحافیوں میں صحافت کی باتیں۔ سنجیدہ محفل میں سنجیدہ باتیں اور محفل طرب میں شگفتہ باتیں کرتے تھے۔ وہ بڑوں کا احترام اور چھوٹوں سے شفقت کرتے تھے، درد مند انسان تھے، رنگ و نسل سے بالاتر ہو کر انسان اور انسانیت کا احترام کرتے تھے۔ انھوں نے کبھی غلط راستے کا انتخاب نہیں کیا، مظلوموں کا ساتھ دیا، ان کی زندگی سادگی سے عبارت تھی۔‘‘

  • ابراہیم جلیس کی شگفتہ بیانی

    ابراہیم جلیس کی شگفتہ بیانی

    ابراہیم جلیس کا تعلق حیدرآباد دکن کی مردم خیز سرزمین سے تھا۔ ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت گلبرگہ میں ہوئی اور دکن ہی سے صحافتی زندگی کا آغاز کیا۔

    1948 میں وہ پاکستان چلے آئے اور یہاں مختلف اخبارات سے وابستہ رہے۔ انھوں نے مختلف موضوعات کو اپنی تحریروں میں برتا اور سنجیدہ نثر کے ساتھ ان کے فکاہیے اور طنز و مزاح پر مبنی تحاریر بھی قارئین کے سامنے آئیں۔

    ابراہیم جلیس سے متعلق ایک مشہور واقعہ کچھ یوں ہے۔

    ایک محفل میں مشہور صحافی احمد علی اور ان کی اہلیہ ہاجرہ مسرور( جو ایک نام ور ادیبہ تھیں)، ابراہیم جلیس اور دیگر قلم کار جمع تھے۔

    اچانک ایک صاحب نے ابراہیم جلیس سے سوال کیا: ’’صاحب یہ بتائیے کہ صحافت اور ادب میں کیا رشتہ ہے؟‘‘

    اس پر جلیس مسکرائے اور احمد علی اور ان کی اہلیہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ’’جو احمد علی اور ہاجرہ مسرور میں ہے۔‘‘

  • ٹیلی فون پر عشق لڑانے والا منیجر اور ایک کرم فرما

    ٹیلی فون پر عشق لڑانے والا منیجر اور ایک کرم فرما

    مشہور ادیب، مزاح نگار اور صحافی ابراہیم جلیس عوامی عدالت کے نام سے ایک ہفت روزہ نکالتے تھے۔

    اس ہفت روزہ سے متعلق مختلف امور نمٹانے، اس کی تشہیر کرنے اور اشاعت بڑھانے کے لیے انھوں نے ایک صاحب کو منیجر رکھا۔ ابراہیم جلیس پر چند ہفتوں کے دوران ہی یہ کھل گیا کہ ان صاحب کا زیادہ تر وقت ٹیلی فون پر کسی لیڈی ڈاکٹر سے "اشاعت بڑھانے کے مشورے” کرتے گزر جاتا ہے۔ وہ فون پر خاتون سے عشق لڑاتا رہتا جس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ جتنی کاپیاں بازار میں جاتیں، "خیریت” کے ساتھ واپس آجاتیں۔

    اس پر جلیس صاحب نے ان صاحب کو منیجر برائے تخفیفِ اشاعت کہنا شروع کر دیا۔

    ابراہیم جلیس اس صورتِ حال سے پریشان تھے۔ اس دوران دفتر میں احباب اور عام ملاقاتی بھی آتے جاتے رہتے تھے۔

    ایک روز جلیس صاحب کے ایک پرانے واقف کار دفتر تشریف لے آئے اور آتے ہی پرچے کی تعریف میں زمین آسمان ایک کر دیا۔ خوب تعریف کرنے کے بعد اس واقف کار نے کہا۔

    جلیس صاحب میں نے آپ کے ہفت روزہ کے تازہ شمارے کی دس کاپیاں اپنے اور اپنے دوستوں کے لیے خریدی بھی ہیں۔ یہ سن کر جلیس صاحب چونکے اور نہایت آرام سے کہا۔

    اچھا تو آپ نے دس کاپیاں خریدی ہیں، مگر کہاں سے؟ بھائی ہم نے تو جتنی کاپیاں بازار بھیجی تھیں، وہ پوری کی پوری واپس آگئی ہیں۔ یہ ہمارے سامنے رکھی ہیں، یقین نہ ہو تو گن لیجیے، میں پرنٹنگ بل ابھی نکلوا کر دکھا دیتا ہوں۔

    سوچیے، اپنے منیجر کے عشق لڑانے کی وجہ سے پہلے ہی پریشان ابراہیم جلیس کا اس نام نہاد خریدار کی وجہ سے کتنا جلا ہو گا۔