Tag: ابراہیم جلیس کی تحریریں

  • جواب اس کا کون دے؟

    جواب اس کا کون دے؟

    تقسیمِ ہندوستان کا اثر اردو زبان و ادب اور اردو ادیبوں پر جیسا کچھ پڑا ہے اس کا اندازہ کرنا اس لیے مشکل ہے کہ اندازہ ہی نہیں کیا جا سکتا۔

    ہندوستان میں تو حکومت کی طرف سے اردو کو دیس نکالا دیا گیا۔ اور پاکستان میں اردو بیچاری سرکاری زبان بن گئی۔ مگر سرکاری زبان ہونے کے باوجود بیچاری مہاجرہ ہے کیونکہ پاکستان میں اس کی بہت سی سوکنیں ہیں۔ پنجاب میں پنجابی ہے، سندھ میں سندھی ہے، سرحد میں پشتو ہے، بلوچستان میں بلوچی ہے۔ اور بنگال میں بنگالی۔ اسی لیے اردو کو ابھی اس کا اپنا گھر الاٹ نہ ہو سکا اور وہ مجبوراََ سرکاری کیمپ میں مقیم ہے۔ کوششیں کی جا رہی ہیں یعنی میرا مطلب یہ ہے کہ نواب زادہ لیاقت علی خاں اور خواجہ ناظم الدین تقریریں فرما رہے ہیں کہ اردو کو ہر گھر میں جگہ ملنی چاہیے مگر چونکہ تقریریں تو تقریریں ہوتی ہیں اس لیے۔۔۔۔۔۔

    ویسے اردو کی یہ زبوں حالی کوئی نئی نہیں۔ بہت پرانی ہے جب سے قلعۂ معلّی اجڑا اور داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی آخری شمع یعنی حضرت بہادر شاہ ظفر کے بعد مغلیہ جاہ و حشم کا شیرازہ بکھر گیا۔ تبھی سے اردو کی حالت بڑی زار اور بڑی زبوں ہے۔ ہائے ہائے وہ زبان جس میں حضرتِ میر تقی میر، حضرت شیفتہ، حضرت انیس، حضرت انشا شاعری فرماتے تھے۔ استاد شہ حضرت ذوق اور میرزا نوشہ اسد اللہ خاں غالب نے جس کی نوک پلک سنواری تھی، جو نواب سعادت علی خاں کے گھر میں پلی جسے بیگماتِ شاہانِ مغلیہ نے لہجہ اور لوچ عطا کیا جو قیصر باغ میں جوان ہوئی۔۔۔۔۔ وہی زبان آج بھٹیاروں کے منہ میں آگئی ہے۔ برا ہو ان ترقی پسند مصنفین کا۔۔۔ انہوں نے زبان کو شاہی درباروں سے نکال کر بیچ بازاروں میں کھڑا کر دیا۔ کہاں یہ زبان شاہزادوں اور شہزادیوں کی تھی اور کہاں یہ زبان مزدوروں اور کسانوں میں آگئی۔ کہاں تو میر تقی میر جیسے اہل زبان شاعر تھے اور کہاں ان ترقی پسند مصنفوں نے نظیر اکبر آبادی جیسے پھکڑ شاعر کو بانس پر چڑھایا تھا۔ ان ترقی پسندوں نے جو کچھ کیا جیسے وہ کم نہ تھا کہ آج تقسیم کے بعد بیچاری اردو کے پیچھے نئی ساڑستی لگی ہوئی ہے۔ شین قاف تو پہلے ہی بگڑ چکے تھے اور اب یہ خانماں بربادی۔ خدا کی سنوار اس موئے فرنگی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کو جس کی بدولت اب برس روز سے اردو یوں سڑکوں کی خاک پھانکتی پھر رہی ہے۔

    واللہ کیا عرض کریں حضور۔ اب تو اردو کی ساری اٹھان کا ستیا ناس ہو کر رہ گیا ہے۔ نہ و صنائع بدائع رہے، نہ وہ ضلع جگت۔ نہ وہ تشبیہات نہ وہ استعارے۔ نہ وہ سلطان العلوم رہے، نہ سعادت علی خان کے ادبی دربار رہے۔ نہ وہ مشاعرے ہیں نہ وہ شعر و سخن کی محفلیں ہیں۔ ہائے ہائے حضور۔ اب تو اہلِ فن اٹھ گئے۔ بس کٹھ ملا رہ گئے۔

    دہلی اور لکھنؤ کے کچھ ٹکسالی اشراف ایسے بھی تھے۔ جنہوں نے اردو کو اس کا کھویا ہوا مقام پھر سے دلانے کی حتیٰ المقدور کوشش کی۔ مگر نیرنگیِ زمانہ کی بابت کیا کہیے کہ کل تک جو تتلانا بھی نہیں جانتے تھے۔ آج اردو کے بڑے بڑے جغادری ادیب بن بیٹھے ہیں۔ بقول کسے پڑھے نہ لکھے نام محمد ترقی پسند۔ اور پڑ گئے اردو کے پیچھے ڈنڈا لے کے۔

    ارے خدا کے بندو۔ اردو بھی کوئی گائے بکری ہے! غضب خدا کا یہ صنفِ نازک ہے۔ صنفِ نازک۔ ہوش کے ناخن لو محلوں کی پلی نازک اندام کو کہاں عام لوگوں اور عامیوں میں کھینچ لائے۔ جواب اس کا کون دے؟

    جانے کس کم بخت نے (ادب برائے ادب) کی بجائے (ادب برائے زندگی) کا نعرہ لگایا اور لگا اردو کے جسم کا سارا زیور لوٹنے۔ صنائع بدائع ، تشبہیہیں، استعارے، محاورے، ضلع جگت سب لوٹ لیے تو پھر اس کے خد و خال بگاڑنے شروع کیے، ہر ایرا غیرا نتھو خیرا قسم کا ادیب کان پر قلم رکھ کر نکلا اور خرافات نگاری کے پل باندھنے لگا۔ پہلے کسی اہل زبان سے بات کرتے تو یوں محسوس ہوتا جیسے پھول جھڑ رہے ہیں اور پھول چنے جا رہے ہیں۔ اب یوں معلوم ہوتا ہے کہ کوئی اردو نہیں روڑے اور کنکر مار رہا ہے۔ ان ترقی پسند ادیبوں کی کوئی تحریر اٹھا کر دیکھو تو صاف معلوم ہو جائے گا۔ جھوٹا مسالہ کھوٹا کام۔ اجی قبلہ و کعبہ ہم دریافت کریں کہ ادب کا زندگی سے کیا تعلق ہے؟ ادب کا تو صرف ادب سے تعلق ہو سکتا ہے۔ ادب اگر ادب سے متعلق نہ رہے تو پھر وہ کہاں کا ادب اور کیسا ادب۔ یا اگر ادب کے تعلق کے لیے اسی کے شایان شان زندگی بھی ہو۔ یعنی بادشاہوں کی زندگی، امرا کی زندگی۔ یہ فضلو خیرو کی زندگی سے اردو زبان و ادب کو کیا تعلق؟

    اب اللہ میاں ہی ان ترقی پسند ادیبوں سے سمجھیں۔ ایک دو حرف کیا لکھنا آیا خود کو شیخ معجونی سمجھنے لگے۔ شیخ معجونی نے ہلدی کی ایک گرہ کیا پائی کہ خود کو عطار سمجھ بیٹھے۔ بس شیخی اور نمود کی تصویر ہیں یہ لوگ۔ نہ بڑوں کا پاس نہ بزرگوں کا کچھ ادب۔ میر تقی میر کو قنوطی اور غیر ترقی پسند شاعر کہتے ہیں اور اس پھکڑ باز، بے سرے، یاوہ گو نظیر اکبر آبادی کو سب سے بڑا ترقی پسند شاعر بنا بیٹھے۔ حالانکہ حضرت شیفتہ نے اس کے بارے میں دو ٹوک فیصلہ دے دیا تھا کہ یارو وہ شاعر نہیں پھکڑ باز ہے۔

    اللہ اللہ کیا زبان دان تھے وہ لوگ! مر گئے مگر زبان کی اینٹھن نہ گئی، کوثر و تسنیم میں دھلی ہوئی زبان۔ ہیروں جواہرات کی طرح جگمگاتی زبان۔ وہ زبان جو رگ گل سے بلبل کے پر باندھتی تھی۔ وہ زبان جس کی شاعری کے ہزاروں بحر پھیلے ہوئے تھے۔ وہ زبان جس کے دامن میں الفاظ کا بہت بڑا خزانہ چھپا ہوا تھا۔ وہی زبان آج لٹی ہاری، نوچی کھسوٹی، ژولیدہ زلفیں لیے یوں چوراہے پر کھڑی ہے۔

    آج میر و غالب، مومن و سودا، انیس و دبیر، انشا و شیفتہ کی روحیں بہشت میں پریشان اور لشتم پشتم پھر رہی ہوں گی کہ ہائے ہائے یہ اردو کی کیا حالت ہو گئی؟

    (اردو کے ممتاز ادیب، مزاح نگار اور صحافی ابراہیم جلیس کی طنزیہ مضامین پر مشتمل کتاب پبلک سیفٹی ریزر سے ایک تحریر)

  • بیمار کی باتیں!

    بیمار کی باتیں!

    ’’تندرستی ہزار نعمت ہے۔‘‘ یہ کہاوت پہلے محض کہاوت تھی لیکن اس میں ایک مصرعے کا اضافہ کر کے سالکؔ نے اسے ایک مکمل شعر بنا دیا ہے۔

    تنگدستی اگر نہ ہو سالکؔ
    تندرستی ہزار نعمت ہے

    گویا پرانے زمانے کے لوگوں میں یہ خیال عام تھا کہ

    تنگدستی بھی ہو اگر سالکؔ
    تندرستی ہزار نعمت ہے

    لیکن سالک نے اپنے ذاتی تجربے اور دوسرے غریب مگر تنگ دست لوگوں کی حالت زار کا مشاہدہ کرکے یہ فیصلہ دیا کہ ’’تندرستی تو ہزار نعمت ہے بشرطیکہ تندرست آدمی تنگدست نہ ہو۔‘‘

    آدمی تندرست ہونے کے علاوہ تنگ دست بھی ہو تو وہ زیادہ عرصے تک تندرست نہیں رہ سکتا۔ تنگ دستی کے باعث وہ خالص گھی اور خالص دودھ نہیں خرید سکتا، ایسی قیمتی غذائیں نہیں کھا سکتا جن میں وٹامن اور غذائیت کے دیگر ضروری اجزا ہوں۔ تنگ دستی کے باعث روٹی کے بعد فروٹ نہیں کھا سکتا۔ جب فروٹ نہیں کھا سکتا تو خون بھی نہیں بنتا۔ جب خون نہیں بنتا تو تندرست کیسے رہ سکتا ہے۔

    تندرست آدمی کو بھوک بہت لگتی ہے۔ ایک تندرست آدمی بیک وقت دو آدمیوں کی غذا کھا سکتاہے لیکن تنگ دستی کے باعث وہ ایک آدمی کی بھی پیٹ بھرغذا نہیں کھاسکتا تو دُبلا ہونے لگتا ہے۔ ہڈے موترے نکالنے لگتا ہے۔

    تنگ دست آدمی کو چوبیس گھنٹے روپے اور روٹی کی فکر لگی رہتی ہے یا لگا رہتا ہے۔

    فکر مذکر ہے یا مؤنث؟

    فکر کو بعض لوگ مذکر کہتے ہیں اور بعض لوگ مؤنث۔ لیکن میری رائے میں اگر فکر زیادہ ہو تو ’’فکر‘‘ مذکر ہے یعنی آدمی کو فکر لگا رہتا ہے مگر اگر فکر کم ہے تو مؤنث ہے یعنی آدمی کو فکر لگی رہتی ہے۔

    خیر بہرحال اگر آدمی کو پیٹ بھر روٹی بھی ملتی ہے لیکن ساتھ ہی ساتھ فکر لگی ہوئی یا لگا ہوا ہے تو آدمی اسی طرح دبلا ہونے لگتا ہے جس طرح سائیکل کے ٹیوب یا فٹ بال کے بلیڈر میں بڑا ننّھا سا پنکچر ہوجائے اور آہستہ آہستہ ہوا نکلنے لگے۔

    تندرست آدمی فکرمند اور تنگدست ہوجائے تو دیکھے ہی دیکھتے اس کا گوشت اندر اور ہڈیاں باہر نکل آتی ہیں اور لوگ باگ مذاق اڑاتے ہیں۔

    وہ دیکھو مچھّر پہلوان
    وہ دیکھو پّدی پہلوان

    میرا ذاتی تجربہ تو کہتا ہے کہ تندرستی نہ ورزش میں ہے نہ آب وہوا میں، تندرستی اگر ہے تو صرف پیسے میں ہے۔ صرف پیسہ ہو تو آدمی اب و ہوا خرید سکتا ہے یعنی کراچی کو چھوڑ کر راولپنڈی میں آباد ہوسکتا ہے، سوئٹزر لینڈ میں رہ سکتا ہے۔ بھینس خرید سکتا ہے، خالص دودھ پی سکتا ہے، خالص گھی کھا سکتا ہے، مرغی کا سوپ پی سکتا ہے۔ شوربا پی سکتا ہے۔ انڈے کھا سکتا ہے، ہارلکس اور اوولٹین پی سکتا ہے، جب چاہے وٹامن کی گولیاں پھانک سکتا ہے، روٹی کے بعد فروٹ کھا سکتا ہے۔ بیمار ہو تو فوراً علاج کروا کر فوراً تندرست ہو سکتا ہے، اِسی لئے تو سالکؔ نے کہا،

    تنگ دستی اگر نہ ہو سالکؔ
    تندرستی ہزار نعمت ہے

    لیکن اس کے برعکس آدمی تنگ دست ہو اور وہ تندرست ہونے کے لئے خوب ڈنڈ پیلے اور بیٹھکیں نکالے تو اس کا جسم کچھ عرصے کے لئے بن جائے گا لیکن ڈنڈ بیٹھکوں کی وجہ سے اسے خوب کھل کر بھوک لگے گی اور کھانے میں اسے سُوکھی روٹی اور مسور کی دال ملے گی تو چند دنوں میں ڈنڈ پیلتے پیلتے یا بیٹھکیں نکالتے نکالتے یا تو بے ہوش ہوجائے گا یا پھر عفر لہا ہو جائے گا اور لوگ عربی میں بولیں گے؛

    انا للہ وانا الیہ راجعون

    تنگ دستی کے ساتھ ساتھ تندرستی کے اور بھی بڑے نقصانات ہیں۔ تندرست آدمی کو نیند بڑی گہری آتی ہے اور چور اس کی گہری نیند سے جائز ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں اور اس کا گھر لوٹ کر لے جاتے ہیں۔ چور تنگدست کے گھر اس لئے چوری کرتے ہیں کہ تنگدست کے گھر دولت مند آدمی کے گھر کی طرح پہرے پر نہ چوکیدار ہوتا ہے اور نہ کُتّا۔

    تنگ دست تندرست جب کسی بس یا ٹرام یا ریل میں اپنی سیٹ پر آرام سے بیٹھتا ہے تو لوگ اسے ڈانٹتے ہیں۔

    ’’کمبخت ہٹا کٹا آدمی اس طرح آرام سے بیٹھا ہے اور بوڑھے، ضعیف، دُبلے، بیمار یوں کھڑے ہیں، اٹھ اپنی سیٹ سے۔‘‘

    تنگ دست تندرست، تنگدستی کے باعث اچھے کپڑے نہیں پہن سکتا تو پولیس یہ سمجھتی ہے۔

    ’’تنگ دستی میں یہ آدمی اتنا موٹا تازہ کیسے ہے؟ یہ ضرور کوئی غنڈہ ہے۔‘‘

    چنانچہ پولیس تنگ دست کو غنڈہ ایکٹ میں پکڑ لیتی ہے اور اگر شومئی قسمت سے بیچارے کی والدہ بیوہ ہو تو دنیا والے الگ انگلی اٹھاتے ہیں۔

    ’’وہ دیکھو۔ رانڈ کا بیٹا سانڈ۔‘‘

    تنگ دست تندرست کا مالک اس کا جتنا کام لیتا ہے، اتنا دوسرے مریل ملازمین سے نہیں لیتا۔ وہ ہمیشہ تنگ دست تندرست سے یہی کہے گا۔

    ’’ماشاء اللہ اتنے ہٹّے کٹّے ہو، چلو تم ہی یہ کام کر دو، وہ دوسرا تو مریل ٹٹّو ہے۔‘‘

    سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ تندرست تنگدست بڑا کثیرالعیال ہوتا ہے۔

    غیرملکی باشندوں کو عام طور پر یہ شکایت ہے کہ پاکستان کے باشندے تندرست نہیں ہوتے۔

    پاکستانی باشندے بھلا تندرست کیسے ہوسکتے ہیں؟

    ۱۔ راشن کارڈ پر روٹی کھاتے ہیں۔

    ۲۔ پانی ملا دودھ یا دودھ ملا پانی پیتے ہیں۔

    ۳۔ پنجاب کا خالص گھی کھانے کے بجائے خالص پنجاب کا گھی کھاتے ہیں یعنی پنجاب کا نام تو خالص ہوتا ہے مگر گھی خالص نہیں ہوتا۔

    ۴۔ کسی دعوت میں فروٹ کھائیں تو کھائیں لیکن اپنے پلّے سے کبھی فروٹ نہیں کھا سکتے۔

    ۵۔ وہ چاہے پیٹ بھر کر بھی کھانا کھالیں لیکن تفکّرات انہیں کھاتے رہتے ہیں۔

    آدمی تندرست اسی وقت ہوسکتا ہے جب کہ وہ ’’دھن درست‘‘ ہو۔

    ’’دھن درست‘‘ ہو تو آدمی بھی تندرست‘‘ ورنہ پھر

    تنگ دستی بھی ساتھ ہو سالک
    تندرستی ہزار نعمت ہے

    (ممتاز ادیب، صحافی اور مشہور مزاح نگار ابراہیم جلیس کے قلم سے)

  • شوٹنگ سے پہلے ہیروئن!

    شوٹنگ سے پہلے ہیروئن!

    کہا جاتا ہے کہ دنیا کی ہر زبان کے ادب بالخصوص اردو ادب میں عورت کے ساتھ ادیب اور شاعر بڑا ظلم کرتے ہیں۔ اس کی وہ درگت بناتے ہیں کہ عورت کے سوائے دنیا میں کوئی مخلوق مظلوم نظر نہیں آتی۔

    میں جیسے جیسے دنیا کے ہر ادب بالخصوص اردو ادب کا گہرا مطالعہ کرتا گیا، اس کہاوت پر ایمان لاتا گیا لیکن جس دن میں نے پہلی بار فلمی دنیا میں قدم رکھا تو مجھے معلوم ہوا کہ ادب کی اس مظلوم عورت سے بھی زیادہ مظلوم ایک مخلوق اس دنیا میں موجود ہے اور وہ ہے فلمی مخلوق، یعنی فلم کے ہیرو، ہیروئن، ولن اور دوسرے فلمی کردار اور ان میں بھی ادب کی طرح ہیروئن ہی سب سے زیادہ مظلوم ہے۔

    آپ اور ہم تو فلمی عورت کو دیکھ کر صرف آنکھیں سینک لیتے ہیں، اس سے زیادہ کچھ نہیں کرتے لیکن آپ کو یہ معلوم نہیں کہ اسی پردۂ سیمیں کے پیچھے ایسی فلمی عورت کے ساتھ فلمی کہانی نویس مکالمہ نگار، فوٹو گرافر، میک اپ ماسٹر، میوزک ڈائریکٹر، ڈانس انسٹرکٹر، ڈائریکٹر اور پروڈیوسر کہانی کے آغاز سے کہانی کے اختتام تک کیسا بُرا سلوک کرتے ہیں اور اس بے چاری کو ان کے کیسے کیسے مظالم کا شکار ہونا پڑتا ہے۔ اس سلسلہ میں میرا پہلا تجربہ بڑا دل چسپ ہے۔

    بمبئی میں ایک فلم کمپنی نے ایک فلم بنانے کا اعلان کیا۔ اس کی فلمی کہانی بھی کسی منشی سے لکھوا لی لیکن ایک دن مجھے اس فلم کمپنی کے پروڈیوسر کا خط ملا کہ میں ان سے دفتر کے اوقات میں فلاں تاریخ کو ملوں۔

    چنانچہ میں فلاں تاریخ کو اس دفتر میں پہنچ گیا۔ تعارف کے بعد فلم پروڈیوسر نے کہا،

    ’’ابی سالا ابرام بھائی! ہم آپ کو اس لیے تکلیپھ دیا کہ سالا ہمارا ہیروئین پانچویں سین میں پھنسیلا ہے اس کو بھار نکالنا ہے۔‘‘

    میں نے دل ہی دل میں کہا، واہ میاں ابراہیم جلیس، خدا نے بھی کیا دن دکھایا ہے، کیا خدا نے اسی لیے پیدا کیا ہے کہ پھنسی ہوئی ہیروئنوں کو باہر نکالا کرو۔

    میں نے پروڈیوسر سے کہا، ’’مجھے ذرا کہانی دکھائیے۔ میں کوشش کرتا ہوں۔‘‘

    میں نے کہانی پڑھی جہاں ہیروئن پھنسی ہوئی تھی، وہ منظر یہ تھا۔

    مال دار ولن (یعنی رقیب) نے ہیروئن کے غریب باپ کو کبھی پانچ سو روپے قرض دیے تھے، مدّت گزر گئی، ہیروئن کے باپ نے قرض ادا نہیں کیا تھا، اصل اور سود ملا کر پانچ سو روپے دو ہزار بن گئے تھے۔ ہیروئن بڑی خوب صورت تھی اور مال دار ولن اس کے باپ کا قرض اس شرط پر معاف کرنا چاہتا تھا کہ وہ اپنی بیٹی کا بیاہ ولن سے کر دے، لیکن ہیروئن اپنے جیسے غریب خوب صورت نوجوان لڑکے سے پیار کرتی تھی، اس کے علاوہ مال دار ولن پچاس پچپن برس کا بوڑھا نہایت بدشکل اور کانا تھا۔ اس لیے نہ صرف ہیروئن بلکہ اس کے غریب اور خوددار باپ نے بھی یہ رشتہ ٹھکرا دیا تھا۔ اس لیے مال دار ولن نے ہیروئن کو قرض کے عوض زبردستی حاصل کر کے اپنے گھر میں قید رکھا تھا۔ اب اسی ہیروئن کو دولت مند ولن کی قید سے آزاد کرانا تھا۔

    میں نے فلم پروڈیوسر کو رائے دی۔ اس موقع پر آپ فلم کے ہیرو سے کام لے سکتے ہیں، وہی اس کو اس قید سے آزاد کرا سکتا ہے۔

    پروڈیوسر نے کہا،’’ہم سالا بھی یہی منگتا تھا لیکن مُصیبت یہ ہوگئی ہے کہ پچھلے سین میں ولن نے ہیرو کو اپنے نوکروں سے خوب پٹوایا ہے اور وہ سالا اسپتال میں پڑا ہے۔‘‘

    میں نے کہا، ’’اچھا تو پھر ایسا کرتے ہیں ولن کے گھر میں کوئی بوڑھی عورت نوکر رکھواؤ، اس سے آپ کا کچھ نہیں خرچ ہوگا۔ یہ فلمی کہانی ہے اس لیے تنخواہ کا کوئی سوال نہیں۔‘‘

    پروڈیوسر بولا، ’’اپن سالا ایسا بھی کیا لیکن ولن کو کچھ سک ہوا تو اُس نے نوکرانی کو بھی گھر سے نکال دیا۔‘‘

    میں نے سوچتے ہوئے کہا، ’’پھر تو بڑی مصیبت ہے۔‘‘

    پروڈیوسر بولا، ’’مصیبت تو ہے پر اُس کو نکالنا ضرور ہے، ورنہ سالا اسٹوری آگے نہیں بڑھیں گا۔‘‘

    میں نے جل کر پوچھا، ’’لیکن تم نے اسے گرفتار کیوں نہیں کرایا، ولن کے ہتھے چڑھنے سے پہلے ہی ہیرو کے ساتھ کہیں بھگا کیوں نہیں دیا؟ یہ کوئی سچ مچ کی زندگی تو نہیں، فلمی کہانی ہے۔ اس میں سب کچھ کیا جا سکتا ہے۔‘‘

    پروڈیوسر بولا، ’’جو ہوگیا سو ہوگیا، اب بولو ہیروئن کو کس طراں آجاد (آزاد) کیا جائے؟‘‘

    مجھے غصّہ آیا، ’’تو پھر فلم ختم ہونے تک پڑی رہنے دو سالی کو اس قید میں۔‘‘

    پروڈیوسر بولا، ’’واہ منسی ابرام بھائی۔ یہ کیا بات کرتا ہے سالا تم۔ پبلک سالا ہیروئن کو دیکھنا منگتا ہے اور تم بولتا ہے کہ اس کو فلم میں قید رکھو۔ یہ نہیں ہوسکتا اور ترکیب بتاؤ۔‘‘

    میں نے کہا، ’’اچھا تو سنو۔ اس کی رہائی کی صرف ایک ترکیب ہے۔ کہانی میں یہ ہے کہ ولن ہر روز ایک بار ہیروئن سے ملتا ہے اور پوچھتا ہے کہ وہ اگر شادی کے لیے تیار ہے تو وہ اس کو ابھی قید سے نکال لے گا۔ ہیروئن کو اب یہ چاہیے کہ وہ اس سے شادی کا بہانہ کرلے اور آزاد ہو کر اس کے مکان میں رہے اور کسی دن موقع پا کر بھاگ نکلے۔‘‘

    پروڈیوسر نے اُچھل کر کہا، ’’ہاں یہ ترکیب ٹھیک ہے، چلو فر جلدی اُس کو آجاد کراؤ۔‘‘

    میں نے فونٹن پن نکالا اور ہیروئن کو آجاد کرا دیا، اس کے بعد پروڈیوسر نے پوچھا، ’’اب کیا ہوگا؟‘‘

    میں نے بتایا، اب ولن شادی کی تیاریاں کرے گا اور عین شادی کے دن ہیروئن کو ولن کے گھر سے بھگا دو۔ پروڈیوسر نے پوچھا،

    ’’بھگا کر کہاں لے جائیں؟‘‘

    میں نے جی کڑا کر کے جواب دیا، ’’اپنے گھر میں ڈال لو۔‘‘

    پروڈیوسر زور سے قہقہہ لگا کر ہنس پڑا اور بولا، ’’اجی اس سے تو ہمیں پیسہ کمانا ہے، اگر اپنے گھر میں ڈال لوں تو کمانے کے بجائے اُلٹا خرچ کرنا پڑے گا۔‘‘

    میں نے کہا، ’’سیٹھ جی اس کی فکر کیا کرتے ہو کہ وہ کہاں جائے گی؟ پہلے اسے ولن کے گھر سے بھگاؤ تو سہی۔‘‘

    چنانچہ عین شادی کے دن ہیروئن کو ولن کے گھر سے بھگا دیا گیا اور ہیروئن سیدھا اسپتال پہنچی جہاں ہیرو زخمی پڑا ہے۔

    پروڈیوسر نے پوچھا، ’’لیکن اس کے رہنے ٹھہرنے کھانے پینے کا کیا بندوبست ہوگا کیونکہ اسپتال میں ٹھہرنے کی تو اجازت نہیں ہوتی۔‘‘

    میں نے کہا، ’’سیٹھ جی! فلمی کردار کے بارے میں کچھ یہ نہ سوچو کہ اس کے کھانے پینے کا کیا انتظام ہو گا۔ فلمی کردار کو نہ بھوک لگتی ہے نہ پیاس اور اگر لگتی ہے تو صرف محبت کی بھوک پیاس۔ رہا ٹھہرنے کا بندوبست تو سیٹھ جی فلمی ہیروئن اتنی خوب صورت ہوتی ہے کہ اگر وہ پردۂ سیمیں سے اس طرح اکیلی باہر نکل آئے تو اس کو اپنے گھر ٹھہرانے کے لیے ساری بمبئی کے لوگ ایک دوسرے سے لڑ پڑیں۔ اب فی الحال تم اس کو اسپتال کے کنوارے ڈاکٹر کے گھر ٹھہراؤ۔‘‘

    پروڈیوسر نے کہا، ’’کیوں نہ کسی شادی شدہ ڈاکٹر کے گھر ٹھہرایا جائے؟ یہ کنوارا ڈاکٹر تو اس کو اکیلی دیکھ کر کہیں کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کر بیٹھے۔‘‘

    میں نے جواب دیا، ’’سیٹھ صاحب! آپ بھول رہے ہیں کہ کوئی شادہ شدہ مرد ایک اجنبی اکیلی عورت کو اپنے گھر نہیں ٹھہرا سکتا۔ اس کی بیوی یا تو طلاق لے لے گی یا پھر اس کی وہ مرمت کرے گی کہ وہ زندگی بھر یاد کرے گا۔ صرف کنوارا ہی اکیلی عورت کو سہارا دے سکتا ہے اور وہ چھیڑے گا کس طرح میں بیٹھا ہوں، آپ بیٹھے ہیں، ڈائریکٹر صاحب بیٹھے ہیں۔ ہاں اگر ہم تینوں یہ فیصلہ کر لیں کہ ہیروئن کو چِھڑوایا جائے تب کہیں وہ چھیڑنے کی جرأت کرسکتا ہے۔‘‘

    خیر صاحب! ہیروئن کو کنوارے ڈاکٹر کے پاس ٹھہرایا گیا۔ کنوارے ڈاکٹر نے اپنے گھر ہیروئن کو پناہ دینے کے بعد اس کا حسن وجمال دیکھا تو فوراً عاشق ہوگیا۔ اس وقت میری، پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کی خواہش بھی یہی تھی کہ کنوارے ڈاکٹر کو ہیروئن پر عاشق کرایا جائے۔ اس سے کہانی میں ذرا لطف پیدا ہوسکتا تھا، چنانچہ کنوارا ڈاکٹر ہیروئن سے کہتا ہے،

    ’’تم جس کے عشق میں مبتلا ہو فضول مبتلا ہو، اس مریض کی نہ صرف دونوں ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں بلکہ اب وہ محبت کے بعد والے معاملے کے قابل بھی نہیں رہا۔‘‘

    یہ خبر سنتے ہی ہیروئن بے ہوش ہو کر گر پڑی، حالانکہ ڈائریکٹر یہ چاہتا تھا کہ وہ ایک دم پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دے، لیکن میں اور پروڈیوسر اس معاملے میں متفق الرّائے تھے کہ ہیروئن کو بے ہوش کرایا جائے۔ اسے جب ہوش آتا ہے تو پھر وہ ڈاکٹر سے شادی کر لیتی ہے۔ اس کے اصلی عاشق کو جب یہ خبر ملتی ہے تو وہ اپنی محبوبہ کو بلا کر اصلی حقیقتِ حال سے واقف کراتا ہے یعنی اُسے بتاتا ہے کہ ڈاکٹر نے اسے غلط باور کرایا ہے، وہ بالکل ٹھیک ٹھاک ہے۔ ہیروئن دھاڑیں مارمار کر روتی ہے اور پچھتاتی ہے۔ ہیرو اس پر ایک درد بھرا گیت گاتا ہے جس کے بول ہیں؛

    اب پچھتائے کیا ہووت ہے جب چڑا چُگ گیا کھیت….

    اور اس کے بعد وہ خودکشی کرلیتا ہے لیکن ہیروئن بڑی غمگین ہے، وِلن کی قید سے آزاد ہونے کے باوجود وہ اپنے آپ کو آزاد نہیں سمجھتی۔

    اس کے بعد ہیروئن ہر روز شام کے ساڑھے پانچ بجے رات کے ساڑھے آٹھ بجے اور ساڑھے گیارہ بجے تک غمگین رہتی ہے اور چھ سات ہفتوں بعد وہ ازسرِ نو کنواری بن کر دلیپ کمار سے پینگیں بڑھانے لگتی ہے اور جب دوبارہ وہ ولن کے چنگل میں پھنس جاتی ہے تو پروڈیوسر لوگ سالا منسی ابرام بھائی کی تلاش شروع کر دیتے ہیں۔ اب سالا منسی ابرام بھائی یہ سوچ رہا ہے کہ فلموں کا دی اینڈ ہو یا نہ ہو اس کا اپنا دی اینڈ ہوجائے تو اچھا ہے، کیونکہ اس طرح ہیروئنوں کو رقیبوں کے پنجوں سے چھڑاتے چھڑاتے وہ تنگ آگیا ہے۔

    (ممتاز ادیب، صحافی اور مزاح نگار ابراہیم جلیس کے قلم سے)