Tag: ابراہیم ذوق

  • استاد شاعر ابراہیم ذوق کا تذکرہ

    استاد شاعر ابراہیم ذوق کا تذکرہ

    لائی حیات آئے، قضا لے چلی، چلے
    اپنی خو شی نہ آئے نہ اپنی خوشی چلے

    یہ استاد ذوق کا ایک مشہور شعر ہے۔ بلند پایہ ادیب، شاعر، نقّاد اور مؤرخ و تذکرہ نویس محمد حسین آزاد نے اپنی مشہور تصنیف آبِ حیات میں اُن کا وہ شعر درج کیا ہے جو ذوق نے اپنی وفات سے چند گھنٹے قبل پڑھا تھا۔

    کہتے ہیں‌ آج ذوق جہاں سے گزر گیا
    کیا خوب آدمی تھا، خدا مغفرت کرے

    آج شیخ محمد ابراہیم ذوق کا یومِ وفات ہے۔ انھوں نے 1854ء میں‌ جہانِ فانی سے کوچ کیا اور دلّی ہی میں‌ پیوندِ خاک ہوئے۔ ابراہیم ذوق کی ابتدائی تعلیم حافظ غلام رسول کے مکتب میں ہوئی جو شاعر تھے، ان کا تخلّص شوق تھا۔ انہی کی صحبت نے ذوق کے شوقِ شاعری کو نکھارا اور وہ خوب شعر موزوں کرنے لگے۔

    ابراہیم ذوق 1789ء میں دلّی میں پیدا ہوئے تھے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب ہر طرف شاہ نصیر کا چرچا تھا۔ ذوق بھی ان کے شاگرد ہوگئے، لیکن یہ تعلق زیادہ عرصہ نہ رہا اور ذوق خود مشقِ سخن میں مصروف رہے۔ کم عمری میں ذوق نے شاعری شروع کی تھی اور نوجوانی ہی میں ایسا نام و مقام پایا کہ مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر بھی ان کی طرف متوجہ ہوگئے۔

    ذوق کو علوم و فنون سے گہرا شغف تھا۔ شاعری اور موسیقی کے علاوہ علمِ نجوم بھی جانتے تھے۔ دربار سے نوجوانی ہی میں‌ کئی خطاب اور اعزازات پائے۔ ان میں ملکُ الشعرا کا اعزاز بھی شامل ہے۔ ذوق کے شاگردوں میں داغ دہلوی خاص طور پر قابلِ ذکر ہیں۔

    ذوق کو عوام و خواص نے بڑی عزّت اور پذیرائی دی اور انھیں‌ عظمت و شہرت نصیب ہوئی جسے بعض حاسدین اور نکتہ چینوں نے دربار سے ان کی وابستگی کے سبب قرا دیا۔

    ذوق نے تقریباً تمام اصنافِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ دیوانِ ذوق میں غزل، قصیدہ، رباعی اور ایک نامکمل مثنوی بھی شامل ہے۔ تاہم وہ قصیدے کے امام ثانی اور خاقانیِ ہند کہلائے۔

    ذوق قادرُ الکلام شاعر تھے جن کے بارے میں سرسیّد نے ’تذکرہ اہلِ دہلی‘ میں لکھا ہے:

    ’’مشقِ سخن وری اس درجہ کو پہنچی ہے کہ کوئی بات اس صاحبِ سخن کی غالب ہے کہ پیرایۂ وزن سے معرا نہ ہوگی۔ پُر گو اور خوش گو غزل ویسی ہی اور قصائد ویسے ہی۔ غزل گوئی میں سعدی و حافظ و قصیدہ میں انوری و خاقانی۔ مثنوی میں نظامی کو اگر اس سخن گو کی شاگردی سے فخر ہو تو کچھ عجب نہیں۔ شمار ان کے اشعار گوہر نثار کا بجز عالم الغیب کے اور کوئی نہیں کرسکتا۔‘‘

    ذوق کی زبان و بیان پر قلعہ معلّٰی کے اثرات اور زبانِ دہلوی کے محاوروں کا رنگ اتنا گہرا تھا کہ اشعار سن کر لوگ بے ساختہ مچل جاتے تھے۔ جب قلعے میں مشاعرہ ہوتا تو ذوق مشاعرہ لوٹ لیتے تھے۔ چناں چہ ذوق کو اپنی زندگی میں جتنی شہرت و مقبولیت ملی وہ کسی اور شاعر کے حصے میں نہیں آئی۔

    ذوق کو عربی اور فارسی پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدّت و ندرت تھی۔ ان کی تمام عمر شعر گوئی میں بسر ہوئی۔

  • طوطی بولتا ہے!

    طوطی بولتا ہے!

    تذکیر و تانیث پر دہلی اور اودھ کے اسکولوں میں بڑی معرکہ آرائی رہی۔ یہ اردو کی خوش قسمتی ہے کہ اسے دو اسکولوں نے اپنایا۔ دہلی نے جہاں اسے عظمت عطا کی، وہیں اودھ نے اس کے حُسن میں چار چاند لگائے۔

    ظاہر ہے بعض چیزوں میں اختلاف بھی ہوا، لیکن ہم دونوں اسکولوں کی نیت پر شبہ نہیں کر سکتے کہ دونوں ہی اس زبان کے عاشق تھے۔ میرے نزدیک ایسے اختلافات کو بنیاد بنا کر بحث و مباحثہ کرنا تضیعِ اوقات ہے۔ البتہ اس سلسلے میں جو لطائف سامنے آئیں ان سے محظوظ ضرور ہوا جا سکتا ہے۔

    ایسے واقعات نہ تو کسی اسکول کی طرف داری میں پیش کیے جاتے ہیں اور نہ ہی مقصد کسی کی تضحیک ہوتا ہے، یہ صرف تفننِ طبع کے لیے ہیں۔

    ایک مرتبہ استاد ابراہیم ذوق نے اپنی ایک غزل سنائی جس کا شعر تھا:

    ہے قفس سے شور اک گلشن تلک فریاد کا
    خوب طوطی بولتا ہے ان دنوں صیّاد کا

    شعر سنتے ہی ان کے ایک لکھنوی دوست نے ٹوکا اور کہا حضرت آپ نے طوطی کو مذکر کیسے باندھا جب کہ اس میں علامتِ تانیث کے طور پر یائے معروف موجود ہے۔

    استاد نے کہا کہ محاورے پر کسی کا اجارہ نہیں۔ آپ میرے ساتھ چوک چلیے جہاں چڑی ماروں کا ٹولہ آتا ہے اور سنیے وہ کیا ہانک لگاتا ہے۔

    دونوں جامع مسجد، دہلی کے ساتھ لگنے والے بازار پہنچے۔ وہاں بہت سے چڑی مار تیتر، بٹیر، مینا، بیا اور طرح طرح کے پنچھی لیے بیٹھے تھے۔ ایک بانکا طولی لیے چلا آتا تھا۔ استاد ذوق نے کہا۔ ذرا ان سے تو دریافت کیجیے۔ اس شخص نے بے تکلفی سے پوچھا۔

    بھیا آپ کی طوطی کیسے بولتی ہے۔ اس نے جواب دیا: بولتی تمہاری ہوگی، یاروں کا طوطی خوب بولتا ہے۔

    یہ سن ذوق نے کہا۔ اس پر نہ جائیے کہ یہ ان لوگوں کی زبان ہے، یہی دہلی کے خواص کی زبان بھی ہے۔

    ( زبان و ادب سے متعلق تذکروں‌ سے انتخاب، سید احمد دہلوی نے فرہنگِ آصفیہ میں اس واقعہ کو زیادہ تفصیل سے نقل کیا ہے)

  • وہ شاعر جس نے اپنا دیوان بچاتے ہوئے جان دے دی

    وہ شاعر جس نے اپنا دیوان بچاتے ہوئے جان دے دی

    وحید الدین وحید کا تعلق الہٰ آباد سے تھا۔ ان کا شمار اپنے دور کے نام ور اور استاد شعرا میں‌ ہوتا ہے۔

    ان سے شاعری میں اصلاح لینے والوں میں اکبرؔ الہٰ آبادی نے بہت شہرت حاصل کی۔ ان کے علاوہ بھی ہندوستان کے متعدد شعرا ان سے اصلاح‌ لیتے تھے۔

    کہتے ہیں ایک روز ان کے گھر کو آگ لگی تو انھوں نے باہر نکلنے کے بجائے اپنے کلام کو سمیٹنے کی کوشش کی اور اس دوران دَم گھٹ جانے سے انتقال کر گئے۔

    وحید الہ آبادی اردو کے واحد شاعر ہیں جو اپنا تخلیقی سرمایہ بچاتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوئے۔

    ان کے یہ دو اشعار دیکھیے۔

    میں نے جب وادیِ غربت میں قدم رکھا تھا
    دور تک یادِ وطن آئی تھی سمجھانے کو

    سب کی ہے اس عہد میں مٹی خراب
    ذلتیں باقی ہیں توقیریں گئیں

    وحید الہ آبادی نے اپنے تخلیقی جوہر اور شاعرانہ صلاحیتوں کے باعث اس دور میں سب کی توجہ حاصل کی اور شناخت بنائی جب ہندوستان میں استاد شعرا میں‌ شاہ نصیر، آتش، ذوق اور داغ جیسی شخصیات کا نام لیا جاتا تھا۔ کہتے ہیں کہ خود وحید الہ آبادی نے مرزا حیدر علی آتش اور بعد میں بشیرعلی بشیر سے مشورۂ سخن کیا۔