Tag: ابنَ بطوطہ

  • عراق میں موجود ایک مقدس ٹیلے اور پانی کے چشمے کی حقیقت

    عراق میں موجود ایک مقدس ٹیلے اور پانی کے چشمے کی حقیقت

    موصل میں حضرت یونس علیہ السلام سے منسوب ایک ٹیلہ اور اس کے نزدیک ایک چشمہ ہے۔ کہتے ہیں اس ٹیلے پر ان کی قوم اکٹھی ہوئی تھی اور طہارت کے لیے قریبی چشمے کا رخ کیا تھا۔

    نینوا میں بسی اس قوم میں بت پرستی اور برائیاں عام تھیں۔ یونس علیہ السلام نے انھیں ایمان لانے کی ہدایت کی، مگر انھوں نے انکار کر دیا۔ حضرت یونس علیہ السلام نے جب انھیں عذاب کی وعید سنائی اور جب اس قوم پر یہ ظاہر ہوا کہ واقعی کوئی عذاب آنے والا ہے تو انھوں نے توبہ کی اور حضرت یونس علیہ السلام پر ایمان لانے کا اقرار کیا، لیکن اس وقت تک وہ بستی چھوڑ کر جا چکے تھے۔

    حضرت یونس علیہ السلام، ان کی قوم اور عذاب کا ذکر قرآن کی ایک سورت میں کیا گیا ہے۔ نینوا کی اس قدیم وادی اور وہاں بسنے والی قوم کا تاریخی کتب میں بھی جا بجا تذکرہ ملتا ہے اور اس حوالے سے مصنفین نے کئی روایات اور واقعات نقل کیے ہیں۔ تاہم ان میں اختلاف بھی ہے۔

    اسی نینوا کے قریبی علاقے میں ایک ٹیلے اور پانی کے ایسے چشمے سے متعلق روایات بھی تاریخ و ثقافت اور مذہب کے موضوعات میں دل چسپی رکھنے والوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیتی ہیں جو یونس علیہ السلام سے منسوب ہے۔ کہتے ہیں کہ وہ قوم خود پر عذاب کو ٹالنے کے لیے دعا کرنے اس ٹیلے کے گرد اکٹھی ہوئی تھی اور پھر قریبی چشمے کے پانی سے غسل کرکے پاکی حاصل کی تھی۔

    بعد میں اس ٹیلے اور چشمے کی زیارت کے لیے لوگ وہاں جاتے رہے۔ قرآن میں اس قوم کی سرکشی اور عذاب کے آثار کے بعد توبہ کرنے پر عذاب روک لینے کا بیان موجود ہے۔

    طبرانی شریف کی روایت ہے کہ نینوا پر جب عذاب کے آثار ظاہر ہوئے تو اس وقت تک یونس علیہ السلام نافرمان ہونے کے سبب قوم کو چھوڑ کر علاقے سے نکل چکے تھے۔ لوگوں نے جب عذاب کے آثار دیکھے تو انھیں بہت تلاش کیا، مگر ناکام رہے اور واپس آکر خوب گڑگڑا کر اپنے گناہوں سے توبہ کی جس کے سبب ان کا عذاب اٹھا لیا گیا۔

    ٹیلے اور اس چشمے کا ذکر مشہور مؤرخ اور سیاح ابنِ بطوطہ نے اپنے سفر نامہ میں کیا ہے اور اس کے مطابق یہ دونوں نشانیاں موصل شہر کے نزدیک علاقے میں ہیں۔

  • ابنِ بطوطہ: مسجدِ نبوی اور منبرِ رسولﷺ کی زیارت کا احوال

    ابنِ بطوطہ: مسجدِ نبوی اور منبرِ رسولﷺ کی زیارت کا احوال

    ابن بطوطہ سے کون واقف نہیں۔ اس سیاح اور مؤرخ نے 1304 عیسوی میں مراکش کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی۔ اس دور کے دستور کے مطابق لکھنا پڑھنا سیکھا اور بنیادی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ خاص طور پر تاریخ اور جغرافیہ کی تعلیم حاصل کی۔

    سیر و سیاحت کے شوق کے باعث ابنِ بطوطہ نے صرف 22 برس کی عمر میں گھر چھوڑ دیا اور حج کی سعادت حاصل کرتے ہوئے دنیا کے مختلف ملکوں میں قیام اور سیاحت کا شوق پورا کیا۔

    آج جشنِ ولادتِ رسولﷺ منایا جارہا ہے۔ اسی مناسبت سے ابو عبداللہ محمد المعروف ابن بطوطہ کے سفر نامے سے حجِ بیتُ اللہ اور مدینہ میں ان کی حاضری کا مختصر احوال پیش ہے۔

    ابنِ بطوطہ نے مسجدِ نبوی اور روضۂ رسولﷺ کے پاکیزہ و منور، معطر و روشن نظاروں اور مقدس مقامات کی بابت لکھا:

    مسجدِ معظم مستطیل ہے اور اس کے چہار اطراف سے سنگین فرش گھومتے ہوئے ہیں۔ اس کے وسط میں ایک صحن ہے جس پر کنکریاں اور ریت بچھی ہوئی ہے۔ مسجد کے گرد ایک سنگین فرش کا گھوما ہوا راستہ ہے جس کا پتھر ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے اور روضۂ اقدس قبلہ کی طرف مسجدِ مکرم کے مشرقی جانب سے ملا ہوا ہے۔

    روضے کی شکل ایسی نادر کہ اس کی مثال ملنا ناممکن ہے۔ پتھروں کا جڑاؤ نہایت نادر و پاکیزہ اور مصفا و شگفتہ ہے۔ امتددادِ زمانہ کے باوجود اس کے استحکام میں فرق نہیں آیا ہے۔

    یہیں لوگ عرضِ سلام کے لیے روئے مبارک کی طرف رخ کرکے اور پشت بہ قبلہ ہو کر کھڑے ہوتے ہیں۔

    منبر مبارک کا ذکر کرتے ہوئے ابنِ بطوطہ نے لکھا:

    منبر نبویﷺ کی تین سیڑھیاں تھیں جس میں سب سے اوپری پر سرورِکونین تشریف فرما ہوتے اور پائے مبارک وسط کی سیڑھی پر رکھتے۔

    مسجدِ نبویﷺ کے خادمین اور مؤذن خوش لباس اور پاکیزہ صورت ہیں۔ ان سب کے اعلیٰ نگراں کو شیخ الخدام کہا جاتا ہے۔ ان کے لیے مصر اور شام سے وظائف ملتے ہیں۔