Tag: ابن انشا

  • افسانہ نگاری کیوں ترک کی؟

    افسانہ نگاری کیوں ترک کی؟

    آلڈس ہکسلے سے کسی نے پوچھا کہ ادیب بننے کے لیے کیا کیا چیزیں ضروری ہیں؟ اس نے بے تامل جواب دیا کہ ایک قلم، ایک دوات اور کچھ کاغذ۔

    ایک رسالے میں اردو کی مشہور افسانہ نگار جمیلہ ہاشمی کا انٹرویو شائع ہوا ہے، جس میں انھوں نے وضاحت کر دی ہے کہ کچھ کاغذ سے کیا مراد ہے۔ فرماتی ہیں کہ جب میرا افسانہ لکھنے کو جی چاہا تو میں نے اپنے والد کے حساب کتاب کے رجسٹر کی جلد توڑ دی اور اس میں لکھنا شروع کر دیا، قیاس ہوتا ہے کہ اگر ان کے والد حساب کتاب نہ رکھا کرتے، جیسا کہ بعض لوگ نہیں رکھتے اور جمیلہ کے ہاتھ نہ پڑتا تو افسانہ نگار نہ بن سکتیں۔ جو حضرات اپنی بہنوں بیٹیوں کو افسانہ نگار بنانا چاہتے ہیں، انہیں چاہیے کہ فوراً بہی کھاتے خریدیں اور جو اپنی نور نظر کو اس سے محفوظ رکھنا چاہیں، انھیں لازم ہے کہ اپنے رجسٹروں کو دکان پر تالے کے اندر رکھا کریں۔

    لیکن ہمارا تجربہ اس کے برعکس ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہوگا کہ ہم نے اپنی ادبی زندگی کی ابتدا افسانہ نگار کے طور پر کی تھی اور اس کے لیے نہایت عمدہ چکنے کاغذوں کی ایک کاپی مجلد تیار کرائی تھی۔ ایک روز ہم کاپی کو افسانے کے ایک نازک موڑ پر بستر پر کھلی چھوڑ گئے۔ واپس آکر کھولا تو صورت احوال یوں نظر آئی:

    ’’امجد نے کہا۔ میری رانی بولو تمہیں کیا چاہیے۔ کہو تو آسمان کے تارے توڑ کر تمھارے قدموں میں لا بچھاؤں۔ تمھارا دامن بہار کے رنگین پھولوں اور کلیوں سے بھر دوں۔ بولو بولو کیا چاہتی ہو؟‘‘

    رانی نے کہا،’’امجد مجھے دنیا میں اور کچھ مطلوب نہیں فقط:
    بنولے ڈیڑھ من
    بھوسہ دس من
    نمک ایک ڈلا
    گڑ ڈھائی من
    چارپائی کا بان پانچ گٹھے
    گھی سات سیر

    ہم نے جھنجھلا کر وہ صفحہ پھاڑ کر پھینک دیا۔ تھوڑی دیر میں کیا دیکھتے ہیں کہ ہمارے چچا عینک کو ناک کی پھننگ پر جمائے کچھ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں۔ بولے بیٹا یہاں ایک کاپی میں کچھ حساب لکھا تھا میں نے۔ منڈی جارہا ہوں سودا لانے۔ کہاں گئی وہ کم بخت کاپی؟

    ہمارے نقطۂ نظر سے یہ افسانہ بہترین افسانوں میں سے تھا۔ اس کا کلائمکس یعنی نقطۂ عروج اس کے آخر میں آتا تھا۔ یہ وضاحت ہم اس لیے کر رہے ہیں کہ بعض افسانوں کا کلائمکس بالکل شروع میں آجاتا ہے۔ آخری پیرا لکھتے لکھتے ہمیں ایک ضرورت سے تھوڑی دیر کو باہر جانا ہوا۔ واپس آئے تو افسانہ مکمل تھا۔

    ’’امجد نے آبدیدہ ہوکر کہا۔ میری غلام فاطمہ۔ اب میں گاؤں واپس آگیا ہوں اور زندگی تمھارے قدموں میں گزاروں گا۔ رانی نے مجھ سے دغا کی۔ اب مجھے سچی محبت کی قدر ہوئی۔ صبح کا بھولا شام کو واپس آجائے تو اسے بھولا نہ جانو۔ مجھے معاف کردو۔ غلام فاطمہ نے سسکیاں بھرتے ہوئے کہا۔ امجد۔ اب میری زندگی میں رہ کیا گیا ہے، چند آنسو، چند آہیں اور…
    قمیضیں بڑی پانچ عدد
    پاجامے چھوٹے چار عدد
    تکیے کے غلاف دس
    تولیے دو
    جھاڑن دو
    کھیس چارخانہ دو عدد
    کل 25

    ہم نے شور مچایا۔ یہ کیا غضب کر دیا۔ بہن بولیں۔ ارے میاں کچھ نہیں۔ دھوبی کا حساب لکھا ہے۔ اس سے پہلے مرقع چغتائی کے حاشیے پر لکھا کرتی تھی۔ وہاں اب جگہ نہیں رہی۔ یہ کاپی خالی نظر آئی اس میں لکھ دیا۔ ہم نے کہا بہن اب یہ کاپی تم ہی رکھو۔ ہمارے کام کی نہیں رہی، چنانچہ اس روز ہم نے افسانہ نگاری کو خیر باد کہا اور شعر کہنے لگے۔ جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ شعر لکھنے کے لیے کسی کاپی اور رجسٹر کی ضرورت نہیں ہوتی۔ انھیں دروازے کی چوکھٹ پر لکھا جاسکتا ہے قمیص کے کفوں پر لکھا جاسکتا ہے۔ سکتا کیا معنی، ہم لکھتے ہیں۔

    (اردو کے ممتاز شاعر اور مزاح نگار ابن انشا کی کتاب خمارِ گندم سے اقتباس)

  • پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟

    پوچھتے ہیں وہ کہ غالب کون ہے؟

    آج کل شہر میں جسے دیکھو، پوچھتا پھر رہا ہے کہ غالب کون ہے؟ اس کی ولدیت، سکونت اور پیشے کے متعلق تفتیش ہو رہی ہے۔

    ہم نے بھی اپنی سی جستجو کی۔ ٹیلی فون ڈائریکٹری کو کھولا۔ اس میں غالب آرٹ اسٹوڈیو تو تھا لیکن یہ لوگ مہ رخوں کے لیے مصوری سیکھنے اور سکھانے والے نکلے۔ ایک صاحب غالب مصطفے ہیں جن کے نام کے ساتھ ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ لکھا ہے۔ انہیں آٹے دال کے بھاؤ اور دوسرے مسائل سے کہاں فرصت ہو گی کہ شعر کہیں۔ غالب نور اللہ خاں کا نام بھی ڈائریکٹری میں ہے لیکن ہمارے مؤکل کا نام تو اسد اللہ خاں تھا جیسا کہ خود فرمایا ہے۔

    اسد اللہ خاں تمام ہوا
    اے دریغا وہ رند شاہد باز

    بے شک بعض لوگ اس شعر کو غالب کا نہیں گنتے۔ ایک بزرگ کے نزدیک یہ اسد اللہ خاں تمام کوئی دوسرے شاعر تھے۔ ایک اور محقق نے اسے غالب کے ایک گمنام شاگرد دریغا دہلوی سے منسوب کیا ہے لیکن ہمیں یہ دیوان غالب ہی میں ملا ہے۔

    ٹیلی فون ڈائریکٹری بند کر کے ہم نے تھانے والوں کو فون کرنے شروع کیے کہ اس قسم کا کوئی شخص تمہارے روزنامچے یا حوالات میں ہو تو مطلع فرماؤ کیونکہ اتنا ہم نے سن رکھا ہے کہ کچھ مرزا صاحب کو یک گونہ بیخودی کے ذرائع شراب اور جوئے وغیرہ سے دل چسپی تھی اور کچھ کوتوال ان کا دشمن تھا۔ بہرحال پولیس والوں نے بھی کان پر ہاتھ رکھا کہ ہم آشنا نہیں، نہ ملزموں میں ان کا نام ہے نہ مفروروں میں، نہ ڈیفنس رولز کے نظر بندوں میں، نہ اخلاقی قیدیوں میں، نہ تین میں نہ تیرہ میں۔

    مرزا ظفر الحسن ہمارے دوست نے مرزا رسوا کو رسوائی کے مقدمے سے بری کرانے کے بعد اب مرزا غالب کی یاد کا بیڑا اٹھایا ہے۔ مرزا کو مرزا ملے کر کر لمبے ہاتھ۔ پچھلے دنوں انہوں نے ایک ہوٹل میں ادارۂ یادگارِ غالب کا جلسہ کیا تو ہم بھی کچے دھاگے میں بندھے پہنچ گئے۔ ظفر الحسن صاحب کی تعارفی تقریر کے بعد صہبا لکھنوی نے تھوڑا سا تندیٔ صہبا سے موضوع کے آبگینے کو پگھلایا۔
    اس کے بعد لوگوں نے مرزا جمیل الدین عالی سے اصرار کیا کہ کچھ تو کہیے کہ لوگ کہتے ہیں۔ وہ نہ نہ کرتے رہے کہ ہے ادب شرط منہ نہ کھلواؤ لیکن پھر تاب سخن نہ کر سکے اور منہ سے گھنگنیاں نکال کر گویا ہوئے۔ غالب ہر چند کہ اس بندے کے عزیزوں میں تھا لیکن اچھا شاعر تھا۔ لوگ تو اسے اردو کا سب سے اونچا شاعر کہتے ہیں۔ مرزا ظفر الحسن قابلِ مبارک باد ہیں کہ اس کے نام پر منظوم جلسہ یعنی بیت بازی کا مقابلہ کرا رہے ہیں اور اسے کسوٹی پر بھی پرکھ رہے ہیں لیکن اس عظیم شاعر کی شایانِ شان دھوم دھامی صد سالہ برسی کے لیے ہندوستان میں لاکھوں روپے کے صرف کا اہتمام دیکھتے ہوئے ہم بھی ایک بڑے آدمی کے پاس پہنچے کہ خزانے کے سانپ ہیں اور ان سے کہا کہ گل پھینکے ہیں اوروں کی طرف بلکہ ثمر بھی۔ کچھ غالب نام آور کے لئے بھی ہونا چاہیے ورنہ، طعنہ دیں گے بت کہ غالب کا خدا کوئی نہیں ہے۔

    ان صاحب نے کہا، ’’آپ غالب کا ڈومیسائل سرٹیفیکٹ لائے؟‘‘ یہ بولے، ’’نہیں۔‘‘ فرمایا، ’’پھر کس بات کے روپے مانگتے ہو، وہ تو کہیں آگرے، دلّی میں پیدا ہوا، وہیں مر کھپ گیا۔ پاکستان میں شاعروں کا کال ہے۔‘‘ عالی صاحب نے کہا، ’’اچھا پھر کسی پاکستانی شاعر کا نام ہی بتا دیجیے کہ غالب کا سا ہو۔‘‘ بولے، ’’میں زبانی تھوڑا ہی یاد رکھتا ہوں۔ شاعروں کے نام، اچھا اب لمبے ہو جائیے، مجھے بجٹ بنانا ہے۔‘‘

    خیر ہندوستان کے شاعر تو ہندوستانیوں ہی کو مبارک ہوں۔ خواہ وہ میر ہوں یا انیس ہوں یا امیر خسرو ساکن پٹیالی واقع یوپی لیکن غالب کے متعلق ایک اطلاع حال میں ہمیں ملی ہے جس کی روشنی میں ان سے تھوڑی رعایت برتی جا سکتی ہے۔ ہفت روزہ قندیل لاہور کے تماشائی نے ریڈیو پاکستان لاہور سے ایک اعلان سنا کہ اب اردن کے مشہور شاعر غالب کا کلام سنیے۔ یہ بھی تھا کہ ’’اردن کو مرزا غالب پر ہمیشہ ناز رہے گا۔‘‘ تو گویا یہ ہمارے دوست ملک اردن کے رہنے والے تھے۔ تبھی ہم کہیں کہ ان کا ابتدائی کلام ہماری سمجھ میں کیوں نہیں آتا اور عربی فارسی سے اتنا بھرپور کیوں ہے اور کسی رعایت سے نہیں تو اقربا پروری کے تحت ہی ہمیں یوم غالب کے لیے روپے کا بندوبست کرنا چاہیے کہ اردن سے ہماری حال ہی میں رشتے داری بھی ہو گئی ہے۔ لیکن یاد رہے کہ صد سالہ برسی فروری میں ہے۔
    فردوسی کی طرح نہ ہو کہ ادھر اس کا جنازہ نکل رہا تھا۔ ہاتھ خالی کفن سے باہر تھا اور ادھر خدام ادب اشرفیوں کے توڑوں کا ریڑھا دھکیلتے غزنی کے دروازے میں داخل ہو رہے تھے۔

    عالی صاحب کا اشارہ تو خدا جانے کس کی طرف تھا۔ کسی سیٹھ کی طرف یا کسی اہل کار کی طرف۔ لیکن مرزا ظفر الحسن صاحب نے دوسرے روز بیان چھپوا دیا کہ ہم نے حکومت سے کچھ نہیں مانگا، نہ اس کی شکایت کرتے ہیں، جو دے اس کا بھلا جو نہ دے اس کا بھی بھلا۔ یہ شکوہ شکایت ادارہ یادگارِ غالب کے حساب میں نہیں، مرزا جمیل الدین عالی کے حساب میں لکھا جائے، ہم تو پنسیلیں بیچ کر یوم غالب منائیں گے۔‘‘

    ہم نے پہلے یہ خبر پڑھی تو ’’پنسلین‘‘ سمجھے اور خیال کیا کہ کہیں سے مرزا صاحب کو ’’پنسلین‘‘ کے ٹیکوں کا ذخیرہ ہاتھ آگیا ہے۔ بعد ازاں پتا چلا کہ نہیں۔۔۔ وہ پنسلیں مراد ہیں جن سے ہم پاجاموں میں ازار بند ڈالتے ہیں اور سگھڑ بیبیاں دھوبی کا حساب لکھتی ہیں۔ خیر مرزا ظفر الحسن صاحب کا جذبہ قابل تعریف ہے لیکن دو مرزاؤں میں تیسرے مرزا کو حرام ہوتے ہم نہیں دیکھ سکتے۔ حکومت سے غالب یا کسی اور شاعر کے نام پر کچھ مانگنا یا شکوہ کرنا کوئی جرم تو نہیں، آخر یہ کسی راجے یا نواب کی شخصی حکومت تھوڑا ہی ہے۔ خزانہ عامرہ کا پیسہ ہمارے ہی ٹیکسوں کا پیسہ ہے۔ اب یہ تو ٹھیک ہے کہ انجمن ترقی اردو والے یا ڈاکٹر حمید احمد خان اس موقع پر کچھ کتابیں چھاپ رہے ہیں اور مرزا ظفر الحسن صاحب منظوم جلسے کا اہتمام کر رہے ہیں یا غالب کو کسوٹی پر پرکھ رہے ہیں، لیکن یہ تو کچھ بھی نہیں۔ چار کتابوں کا چھپنا اور منظوم جلسے میں ہم ایسے شاعروں کا غالب کی زمینوں میں ہل چلانا حق سے ادا ہونا تو نہ ہوا۔ وہ مرحوم تو بڑی اونچی نفیس طبیعت کے مالک تھے۔

    منزل اِک بلندی پر اور ہم بنا لیتے
    عرش سے پرے ہوتا کاش کہ مکان اپنا

    (ممتاز مزاح نگار، شاعر و ادیب ابنِ انشا کی ایک شگفتہ تحریر)

  • جوتے کا ترجمہ…

    جوتے کا ترجمہ…

    لاہور میں ایک چینی موچی کی دکان ہے۔ سڑک پر گزرتے ہوئے ایک صاحب نے اس دکان کے شو کیس میں رکھا ہوا ایک انوکھا اور خوب صورت جوتا دیکھا۔ فوراً وہیں رک کر دکان میں داخل ہوئے اور اس کے مالک سے پوچھنے لگے، اس جوتے کے کیا دام ہیں؟ دکان دار بولا مگر آپ اسے خرید کر کیا کیجیے گا، یہ آپ کے پاؤں کا جوتا نہیں ہے۔ وہ صاحب بولے "مگر میں تو اسے خریدنا چاہتا ہوں۔ میں اس کا ترجمہ کروں گا۔”

    یہ صاحب ابنِ انشا تھے۔ ایک پر اسرار اور انوکھی، طباع اور رومانی شخصیت۔ "جوتے کا ترجمہ” تو محض ان کی "خوش طبعی” کا ایک مظاہرہ تھا مگر اس جوتے کی بدولت انہیں چینی شاعری کی تلاش ہوئی۔ طرح طرح کے مجموعے اور انتخابات ڈھونڈ ڈھونڈ کر لائے اور ان کے منظوم ترجمے اردو میں کر ڈالے۔ اور چینی نظمیں کے نام سے ایک کتاب بھی شائع کی۔ اس کتاب میں قدیم چین کے لوک گیت ہیں۔ صحیفۂ کنفیوشش کی نظمیں ہیں، چرواہوں کی تانیں، جوگیوں اور بیراگیوں کی خود کلامیاں اور ان کے اقوالِ دانش ہیں اور عہدِ جدید کے منظومات بھی۔

    شخصیت کی اسی پر اسراریت اور انوکھے پن کی وجہ سے وہ ایڈگر ایلن پو کو اپنا "گرو دیو” کہتے تھے۔ ایڈگر ایلن پو کی انوکھی شخصیت اور اس کی شاعری نے سب سے پہلے ہمارے یہاں میرا جی کو اپنا دلدادہ بنایا تھا اور انہوں نے بہت پہلے پو کی شخصیت اور شاعری پر ادبی دنیا میں ایک مضمون لکھا تھا اور اس کی کچھ نظموں کے منظوم تراجم بھی کیے تھے۔ پو کے دوسرے عاشق ابنِ انشا تھے جنہوں نے پو کی پُراسرار کہانیوں کو اردو میں منتقل کیا اور اسے "اندھا کنواں” کے نام سے ایک مجموعے کی صورت میں شائع کیا۔ اس کتاب کے دیباچے میں انہوں نے اپنے اس خیال کا اظہار کیا تھا کہ پو کی تنقیدیں بھی خاصے کی چیز ہیں اور آیندہ وہ اس کے تنقیدی مضامین کا ترجمہ بھی کریں گے۔ معلوم ہوتا ہے اس ارادے کی تکمیل نہ ہو سکی۔

    خود ابنِ انشا کی اپنی شاعری میں یہی پُراسراریت اور نرالی فضا ہے۔ ان کی نظمیں اگرچہ عصری آگہی کے اظہار میں اپنے عہد کے کسی شاعر سے پیچھے نہیں ہیں، مگر ان نظموں کی فضا اور ان کا تانا بانا اپنے عہد کے مروجہ اسالیب سے بالکل الگ ہے۔ ان کے پہلے مجموعے کا نام "چاند نگر” ہے جو ۱۹۵۵ء میں مکتبۂ اردو، لاہور سے شائع ہوا تھا۔ اس مجموعے کا نام بھی پو کی ایک نظم سے مستعار ہے۔

    ابن انشا اپنی اس رومانیت کے باوجود اپنے زمانے کے سماجی مسائل اور عوام کے دکھ درد کے ہی شاعر تھے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں: "گِرم کی پریوں کی کہانیوں میں ایک ضدی بونا سر ہلا کر کہتا ہے کہ انسانیت کا دھیلا بھر جوہر میرے نزدیک دنیا بھر کی دولت سے زیادہ گراں قدر ہے۔ میری کتنی ہی نظمیں اس دھیلا بھر انسانیت کے متعلق ہیں۔ ان میں بھوک کا جاں گداز درد بھی ہے اور جنگ کا مہیب خوف بھی۔ بھوک اور احتیاج سے رست گاری کی جدوجہد مارکس سے ہزاروں برس پہلے شروع ہوئی تھی اور اب بھی جاری ہے۔”

    واقعہ یہ ہے کہ ابن انشا ایک ترقی پسند شاعر تھے مگر ان کی ترقی پسندی تحریک، منشور اور پارٹی لائن والی ترقی پسندی سے مختلف تھی۔ جنگ اور امن کے موضوع پر اردو میں ترقی پسند شاعروں نے ہنگامی اور صحافتی انداز کی کیا کیا نظمیں نہیں لکھیں لیکن ان میں سے آج ہمارے حافظے میں کون سی نظم محفوظ رہ گئی ہے؟ مگر ابنِ انشا نے اس موضوع کو جو بظاہر وقتی اور ہنگامی ہے اپنے شاعرانہ خلوص اور فن کارانہ ایمان داری کے بدولت جاوداں کر دیا ہے۔ مضافات، امن کا آخری دن، افتاد، شنگھائی، کوریا کی خبریں، کوچے کی لڑائی وغیرہ نظمیں آج بھی شعریت سے بھرپور معلوم ہوتی ہیں۔

    ۱۹۵۵ء میں "چاند نگر” کی اشاعت اس سال کا ایک اہم ادبی واقعہ تھی۔ ناصر کاظمی کی "برگ نے” اور راقم الحروف کا "کاغذی پیرہن” بھی اسی سال شائع ہوئے اور اس دور کے کئی نقادوں نے ان تینوں مجموعوں میں کچھ مشترک عناصر کی نشان دہی پر بطور خاص زور دیا۔ میں تو خیر کس شمار قطار میں تھا اور میرا مجموعہ دراصل میری ادھ کچری تخلیقات کا ایک البم تھا، لیکن نئے تنقیدی رویے کی بدولت مجھے بھی اچھی خاصی پذیرائی ملی۔ مگر سب سے دلچسپ بات یہ تھی کہ ابن انشا اور ناصر کاظمی دونوں سے میری ذہنی قربت دوستی میں تبدیل ہو گئی۔ یہ دوستی محض خط و کتابت تک ہی محدود تھی۔ ایک کراچی میں تھا (ابنِ انشا)، دوسرا لاہور میں (ناصر کاظمی) اور تیسرا علی گڑھ میں (راقم الحروف) مگر نصف ملاقاتوں کے ذریعہ خوب پینگیں بڑھیں۔

    (اردو کے ممتاز شاعر، ادیب اور مزاح نگار ابنِ انشا کے فن و شخصیت پر بحیثیت دوست اور قلم کار یہ مضمون بھارت کے معروف شاعر اور نقّاد خلیل الرحمٰن اعظمی کے مکتوب کی صورت میں موجود ہے، جو ۱۹۷۸ء میں علی گڑھ میں اعظمی صاحب کے قلم سے نکلا تھا)

  • ”پِکاسو کے کیا کہنے!“

    ”پِکاسو کے کیا کہنے!“

    اردو ادب میں ہمارا جو مقام ہے (ہماری اپنی نظر میں) اس کے متعلق کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ہم کچھ کہیں گے، تو کسی کی زبان تھوڑا پکڑی جا سکتی ہے۔ لوگ اسے خود ستائی پر محمول کریں گے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے مضامین میں ہم کورے ہیں۔

    فنونِ لطیفہ سے ہمارے نابلد ہونے کی بات جو اتنی مشہور ہے اس کی کچھ اصل نہیں۔ ڈراما ہو یا موسیقی یا مصوری، کسی میں ہم کسی اور سے ہیٹے نہیں۔ یہ سچ ہے کہ ہمارے معیار بہت اونچے ہیں۔ لندن میں ہم نے سرلارنس الیور کا ایک کھیل دیکھا اور بہت خوش ہو کر اخباری نمائندوں سے ان کی ہونہاری کی تعریف اور ان کے روشن مستقبل کی پیش گوئی کی اور یہ واقعی سچ ہے کہ وہ برابر اسٹیج پر آتے رہے، تو ایک دن نام پیدا کریں گے۔ شیکسپیئر کو بھی ہم بہت پسند کرتے ہیں اور اردو کے نقادوں سے متفق ہیں کہ اپنے زمانے کا آغا حشر تھا۔

    موسیقی میں لوگوں نے ہمیں اُس روز روشن آرا کی گائیکی پر سَر ہلاتے پکڑا۔ ایک روشن آرا ہیں اور ایک اور ہیں جن کا بھلا سا نام ہے اور نور جہاں ہے۔ ان سب کے فن سے ہم محظوظ ہونے پر قادر ہیں بشرطے کہ ہمیں پہلے سے کوئی بتا دے کہ یہ روشن آرا گا رہی ہیں یا نور جہاں ہی ہیں۔

    مصوری میں ہم اپنی ژرف نگاہی کے قائل ہیں اس روز کسی نے ہمیں اپنی تصویر دکھائی، ہم نے پوچھا کس کی ہے۔ معلوم ہوا پکاسو کی ہے، ہم نے کہا یہ بات ہے تو بہت اچھی ہے۔ پِکاسو کے کیا کہنے ہیں۔ دیکھتے نہیں کہ ان کا ایک ایک نقش فریادی ہے۔ اور رنگ کتنے اعلیٰ کوالٹی کے لگے ہوئے ہیں۔ ہم نے کراچی آرٹس کونسل میں کئی مقامی مصوروں کی نمائشیں دیکھی ہیں لیکن انصاف یہ ہے کہ پکاسو کا کوئی جواب نہیں۔

    (ممتاز ادیب، شاعر اور مشہور مزاح نگار ابنِ انشا کی کتاب ”خمارِ گندم“ سے ایک پارہ)

  • ابنِ انشاء سے فیض صاحب کے سوالات

    ایک روز فیض صاحب نے صبح صبح مجھے آن پکڑا۔

    کہا: ” ایک کام سے آیا ہوں۔ ایک تو یہ جاننا چاہتا ہوں کہ یورپ میں آج کل آرٹ کے کیا رجحانات ہیں۔ اور آرٹ پیپر کیا چیز ہوتی ہے؟ دوسرے میں واٹر کلر اور آئل پینٹنگ کا فرق معلوم کرنا چاہتا ہوں۔ ٹھمری اور دادرا کا فرق بھی چند لفظوں میں بیان کر دیں تو اچھا ہے۔”

    میں نے چائے پیتے پیتے سب کچھ عرض کر دیا۔ اٹھتے اٹھتے پوچھنے لگے۔ "ایک اور سوال ہے۔ غالب کس زمانے کا شاعر تھا اور کس زبان میں لکھتا تھا؟” وہ بھی میں نے بتایا۔ اس کے کئی ماہ بعد تک ملاقات نہ ہوئی۔ ہاں اخبار میں پڑھا کہ لاہور میں آرٹ کونسل کے ڈائریکٹر ہوگئے ہیں۔ غالباً اس نوکری کے انٹرویو میں اس قسم کے سوال پوچھے جاتے ہوں گے۔

    (ممتاز مزاح نگار، شاعر اور ادیب ابنِ انشاء کے قلم سے)

  • دو مُشت پَر….

    ايک تھی چڑيا، ايک تھا چڑا۔

    چڑيا لائی دال کا دانہ، چڑا لايا چاول کا دانہ۔ اس سے کچھڑی پکائی، دونوں نے پيٹ بھر کر کھائی۔ آپس ميں اتفاق ہو تو ايک ايک دانے کی کچھڑی بھی بہت ہوتی ہے۔

    چڑا بيٹھا اونگھ رہا تھا کہ اس کے دل ميں وسوسہ آيا کہ چاول کا دانہ بڑا ہوتا ہے، دال کا چھوٹا ہوتا ہے۔ پس دوسرے روز کچھڑی پکی تو چڑے نے کہا اس میں چھپن حصّے مجھے دے، چواليس حصّے تو لے۔ اے باگھوان پسند کر يا ناپسند کر۔ حقائق سے آنکھ مت بند کر، چڑے نے اپنی چونچ ميں سے چند نکات بھی نکالے اور بی بی کے آگے ڈالے۔

    بی بی حيران ہوئی بلکہ رو رو کر ہلکان ہوئی کہ اس کے ساتھ تو ميرا جنم کا ساتھ تھا ليکن کيا کر سکتی تھی۔

    دوسرے دن پھر چڑيا دال کا دانہ لائی اور چڑا چاول کا دانہ لايا۔ دونوں نے الگ الگ ہنڈيا چڑھائی، کچھڑی پکائی، کيا ديکھتے ہیں کہ دو ہی دانے ہيں۔ چڑے نے چاول کا دانہ کھايا، چڑيا نے دال کا دانہ اٹھايا۔ چڑے کو خالی چاول سے پيچش ہوگئی۔ چڑيا کو خالی دال سے قبض ہو گئی۔ دونوں ايک حکيم کے پاس گئے جو ايک بِلّا تھا۔ اس نے دونوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھيرا اور پھيرتا ہی چلا گيا۔

    ديکھا تو تھے دو مُشت پَر
    (مٹھی بھر پَر، ایسا پرندہ جس کے جسم پر گوشت کم ہو، مجازاً حقیر شے)

    يہ کہانی بہت پرانے زمانے کی ہے۔ آج کل تو چاول ايکسپورٹ ہو جاتا ہے اور دال مہنگی ہے۔ اتنی کہ وہ لڑکياں جو مولوی اسماعيل ميرٹھی کے زمانے ميں دال بگھارا کرتی تھيں۔ آج کل فقط شيخی بگھارتی ہيں۔

    (طنز و مزاح از قلم ابن انشا)

  • "یہ کیسا ملک ہے!”

    "یہ کیسا ملک ہے!”

    نام وَر ادیب اور شاعر ابنِ انشا نے مزاحیہ اور شگفتہ تحریروں کے ساتھ ساتھ اپنے سفرناموں سے بھی قارئین کو متوجہ کیا جن میں‌ وہ منفرد انداز میں‌ اپنی قوم کی عادات اور رویّوں کا موازانہ کرتے ہوئے ان پر تبصرہ کرتے ہیں۔ اسی انداز نے ان کے سفر ناموں کو مقبول بنایا۔

    یہاں ہم چین کے سفر ناموں‌ سے چند شگفتہ اور سبک طنز میں لپٹے ہوئے اقتباسات آپ کی دل چسپی کے لیے نقل کر رہے ہیں۔ چلتے ہو تو چین کو چلیے ابنِ انشا کا مشہور سفر نامہ ہے جس میں‌ وہ ایک جگہ لکھتے ہیں:

    "پانی ابال کر پیتے ہیں، موبل آئل وہاں گاڑیوں میں ڈالا جاتا ہے۔ اصلی یا بناسپتی گھی کہہ کر فروخت نہیں کیا جاتا۔ بھٹے کی اینٹیں بھی مکان بنانے کے کام آتی ہیں۔ ہلدی اور مرچ میں ملا کر ان سے تعمیرِ معدہ کا کام نہیں لیا جاتا۔ وہاں دودھ بھی گائیوں اور بھینسوں کا ہوتا ہے۔ تالابوں یا کمیٹی کے نلکوں سے حاصل نہیں کیا جاتا۔ وہاں آزادی کی سخت کمی ہے۔ ہمارے ایک ساتھی جو اپنے ساتھ پاندان لے کر گئے تھے بار بار فرماتے تھے کہ یہ کیسا ملک ہے جہاں سڑک پر بھی تھوک نہیں سکتے۔ ایک صاحب شاکی تھے کہ یہاں خریداری کا لطف نہیں، دکان دار بھاؤ تاؤ نہیں کرتے۔ ہوٹل کے بیروں کو بخششیں لینے اور مسافروں کو بخششیں دینے کی آزادی نہیں۔ بسوں اور کاروں کے اختیارات بھی محدود ہیں۔ آپ اپنی بس کو فٹ پاتھ پر نہیں چڑھا سکتے نہ کسی مسافر کے اوپر سے گزار سکتے ہیں۔”

    ابنِ انشا نے دوسرے ممالک کی سیر کے دوران وہاں معاشرے میں خیر اور نیکی کی قدروں کا جو مشاہدہ اور تجربہ کیا، اور اسے اپنے تمدن اور معاشرت میں دیکھنے کی کوشش کی اور اس کے لیے ہلکا پھلکا طنزیہ اور شگفتہ انداز اپنایا ہے۔ ان کے ہاں لفظوں، محاوروں اور ضربُ الامثال میں تحریف یا ذرا سی تبدیلی سے مزاح پیدا کیا گیا ہے جس کی چند مثالیں پیشِ خدمت ہیں:

    "ریل میں ہر نشست کے ساتھ چائے کے گلاس رکھنے کی جگہ ہے، کام کرتے جائیے اور ایک ایک گھونٹ چسکتے رہیے۔ تھوڑی دیر میں کوئی آئے گا اور اس میں مزید گرم پانی ڈال جائے گا۔ معلوم ہوا کہ اس سے معدے کا نظام درست رہتا ہے۔ جراثیم کا دفعیہ ہو جاتا ہے۔ کم خرچ بلکہ بے خرچ بالا نشین۔ ہم نے بھی کچھ دن پانی پیا پھر چھوڑ دیا۔ کس برتے پر تتا پانی۔”

    "میزبانوں نے اپنا تعارف کرایا۔ یہ رسمی کارروائی تھی۔ سنتے گئے اور ہوں ہاں کرتے گئے۔ اگلی صبح تک سب ایک دوسرے کے نام بھول چکے تھے۔ مہمانوں کا تعارف کرانا ہمارے ذمہ رہا۔ کیونکہ وفد کے لیڈر اراکین کے ناموں اور کاموں سے ابھی پوری طرح واقف نہیں تھے۔ ایک آدھ جگہ البتہ شمع ان کے سامنے پہنچی تو انہوں نے ہمیں پاکستان کا ممتاز اور مشہور ناول نویس قرار دیا اور چونکہ تردید کرنا خلافِ ادب تھا۔ لہٰذا ایک مہمان کے اشتیاق آمیز استفسار کے جواب میں ہمیں اپنے ناولوں آگ کا دریا، خدا کی بستی، آنگن وغیرہ کی تعداد بتانی پڑی۔ وہ ان تصانیف کے نام بھی نوٹ کرنا چاہتے تھے لیکن ہم نے ازراہِ انکسار کہا کہ اس کی ضرورت نہیں۔”

    اپنے ایک سفر نامے میں‌ انہوں‌ نے یوں شگفتگی پیدا کی ہے:
    "ہم جو چین گئے تو سب سے پہلے یہی مسئلہ پیدا ہوا۔ چین میں اخبار ہوتے ہیں لیکن چینی زبان میں اور وہ بھی شام کو نکلتے ہیں۔ صبح نکلتے تو کم از کم ان کی تصویریں دیکھنے کے لیے باتھ روم جایا جاسکتا تھا۔ نتیجہ اخبار نہ دیکھنے کا یہ ہوا کہ ہمارے ادیبوں کے وفد کے اکثر رکن قبض کا شکار ہوگئے۔ ڈاکٹروں نے بہت دوائیں کیں لیکن بے فائدہ۔ آخر ہم نے کہا۔ ان کے لیے اخبار منگوانا شروع کیجیے۔ یہ وہ نشہ نہیں جسے ترشی اتار دے۔ چینی نیوز ایجنسی کا بلٹن انہوں نے بھیجنا شروع کر دیا۔ اس صورتِ حال کی پوری طرح اصلاح تو نہ ہوئی لیکن بعضوں کا ہاضمہ پہلے سے بہتر ہو گیا۔”

  • "ہمارا عقیدہ”

    "ہمارا عقیدہ”

    دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آرہی ہے کہ انڈہ پہلے آیا یا مرغی۔

    کچھ لوگ کہتے ہیں انڈہ۔ کچھ کا کہنا ہے مرغی۔ ایک کو ہم مرغی اسکول یا فرقۂ مرغیہ کہہ سکتے ہیں۔ دوسرے کو انڈہ اسکول۔ ہمیں انڈہ اسکول سے منسلک سمجھنا چاہیے۔ ملّتِ بیضا کا ایک فرد جاننا چاہیے۔ ہمارا عقیدہ اس بات میں ہے کہ اگر آدمی تھانے دار یا مولوی یعنی فقیہِ شہر ہو تو اس کے لیے مرغی پہلے اور ایسا غریبِ شہر ہو تو اس کے لیے انڈہ پہلے اور غریبِ شہر سے بھی گیا گزرا ہو تو نہ اس کی دسترس مرغی تک ہوسکتی ہے نہ انڈہ اس کی گرفت میں آسکتا ہے۔ اسے اپنی ذات اور اس کی بقا کو ان چیزوں سے پہلے جاننا چاہیے۔

    (ابنِ انشا کی شگفتہ تحریر سے انتخاب)

  • حکیم صاحب کا مطب اور ماہ نامے کا دفتر

    حکیم صاحب کا مطب اور ماہ نامے کا دفتر

    ماہ نامہ فنون کا دفتر اب تو خیر انار کلی ہی میں اور جگہ چلا گیا ہے۔ پہلے گرجا کے سامنے ایک چوبارے میں تھا۔

    اسی میں حکیم حبیب اشعر صاحب مطب بھی کیا کرتے تھے۔ سامنے کے برآمدے میں احمد ندیم قاسمی صاحب تشریف رکھتے اور اہلِ ذوق کا مجمع چائے کے خم لنڈھاتا۔ دوسرے میں حکیم صاحب قارورے دیکھتے اور دوائیں دیتے۔ راستہ بہر صورت ندیم صاحب ہی کے کمرے میں سے جاتا تھا۔ لوگ پہلے آکر انہی کے پاس بیٹھتے۔ وقفے وقفے سے ندیم صاحب اعلان کر دیتے کہ جو حضرات کھانسی زکام وغیرہ کے سلسلے میں آئے ہیں دوسرے کمرے میں‌ تشریف لے جائیں۔ ان کے پاس فقط ادب کے مریض رہ جاتے۔

    ایک روز کی بات ہے کہ بہت سے لوگ تو یہ اعلان سن کر اندر چلے گئے۔ ایک صاحب اجنبی صورت بیٹھے رہ گئے۔ قاسمی صاحب نے فرمایا، آپ شاید کوئی غزل یا نظم لے کر آئے ہیں۔ اس پرچے میں تو گنجائش نہیں، اگلے پرچے کے لیے غور کریں گے۔ اگر آپ کاتب ہیں تو نمونہ چھوڑ جائیے اور اگر ایجنٹ ہیں تو بتائیے آپ کے شہر میں کتنے فنون کی کھپت ہوسکتی ہے اور اگر آپ مالک مکان کی طرف سے کرایہ وصول کرنے آئے ہیں تو ایک مہینے کی مہلت اور دیجیے۔

    قاسمی صاحب نے اپنی دانست میں اس شخص کی منطقی ناقہ بندی کردی تھی۔ لیکن وہ مردِ شریف سنی ان سنی کر کے ان کے کان کے پاس منہ لا کر بولا، حکیم صاحب دو روز سے دست آرہے ہیں۔ ان کے بند کرنے کی کوئی ترکیب کیجیے۔

    اُدھر حکیم اشعر صاحب کو شکایت ہے کہ ندیم صاحب اپنے مریضوں کو میرے پاس بھیج دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایک روز ایک بزرگ میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے ان کی نبض پر ہاتھ رکھا اور کہا زبان دکھائیے۔ اس نے کہا جناب میری زبان پر آپ حرف نہیں رکھ سکتے’ میرے گھرانے کی زبان سے ایک دنیا سند لیتی ہے۔ یہ غزل میں لایا ہوں، آپ خود ہی اندازہ کر لیں گے۔

    حکیم صاحب نے کہا، غزل کی تو مجھے معلوم نہیں لیکن آپ کو قبض معلوم ہوتی ہے۔ یہ نسخہ لے جائیے۔ نہار منہ طباشیر کے ساتھ استعمال کیجیے۔ انشاء اللہ صحّت ہوگی۔ حکیم صاحب کا کہنا ہے کہ شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس مریض کو واقع ہی صحّت ہوگئی۔ اس کے بعد اس نے کوئی غزل نہیں لکھی۔

    ("آپ سے کیا پردہ” از ابنِ انشا)

  • صدر کے ایک نامی ریستوراں میں بٹیر کی نہاری

    صدر کے ایک نامی ریستوراں میں بٹیر کی نہاری

    گزشتہ بدھ کی شام ہمارا صدر کے ایک نامی ریستوراں میں جانا ہوا۔

    بیرا لپک کر آیا۔ ہم نے پوچھا، ’’کیا ہے؟‘‘

    بولا، ’’جی اللہ کا دیا سب کچھ ہے!‘‘

    ہم نے کہا، ’’کھانے کو پوچھ رہے ہیں۔ خیریت دریافت نہیں کر رہے۔ کیونکہ وہ تو تمہارے روغنی تن و توش سے ویسے بھی ظاہر ہے۔‘‘

    کہنے لگا، ’’حلیم کھائیے۔ بڑی عمدہ پکی ہے۔ ابھی ابھی میں نے باورچی خانے سے لاتے میں ایک صاحب کی پلیٹ میں سے ایک لقمہ لیا تھا۔‘‘

    ’’لیکن آج تو گوشت کا ناغہ ہے۔‘‘

    بولا، ’’ہوا کرے۔ یہ مرغ کی حلیم ہے۔ آپ کھا کے تو دیکھیے۔ فوراً بانگ دینے کو جی چاہے گا۔‘‘

    ’’نہاری ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں ہے، مرغ کی نہاری بھی ہے، بٹیر کی نہاری بھی ہے۔‘‘

    ’’بٹیر کی نہاری؟‘‘ بولا، ’’جی ہاں اور اس کے علاوہ پدی کا شوربا بھی ہے۔ تیتر کے سری پائے ہیں۔ مسور کی دال کے تکے کباب ہیں۔ آپ کل آئیں تو بھینسے کے گوشت کا مرغ پلاؤ بھی مل سکتا ہے۔‘‘

    ہم نے کہا، ’’بٹیر کی نہاری لاؤ فی الحال۔‘‘ ہمارے ساتھ ہمارے ایک دوست تھے۔ دلّی کے جیوڑے، نہاری آئی تو بولے، ’’میاں نلیاں تو اس نہاری میں ہیں نہیں۔ ہم لوگ جب تک نلیوں کو پیالی کے سرے پر بجا بجا کر نہ چوسیں مزا نہیں آتا۔‘‘ بیرا جانے کیا سمجھا۔

    ایک طشتری میں خلال اٹھا لایا۔ ہم نے کہا، ’’میاں خلال تو کھانے کے بعد درکار ہوتے ہیں۔ کچھ تمیز ہے کہ نہیں۔‘‘

    بولا، ’’حضور یہ خلال نہیں۔ نلیاں ہیں۔ بٹیر کی نلیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ویسے ہم آئندہ نلیوں کے شوقینوں کے لیے پلاسٹک کی نلیاں بنوارہے ہیں۔ ناغے کے دن نہاری اور شوربے کے ساتھ پیش کی جایا کریں گی۔ گودا ان کے اندر آلوؤں کا ہوا کرے گا۔‘‘

    ہمیں معلوم نہیں کہ ہر چیز کا نعم البدل نکالنے والوں نے پلاسٹک کے بکرے بھی ایجاد کیے ہیں یا نہیں۔ ان کی ضرورت کا احساس ہمیں عید سے دو روز پہلے ہوا۔ وہ یوں کہ ہم دفتر جاتے برنس روڈ سے گزر رہے تھے۔ ایک جگہ دیکھا کہ ہجوم ہے۔ راستہ بند ہے۔ آدمی ہی آدمی۔ دنبے ہی دنبے۔ بکرے ہی بکرے!

    ایک بزرگ سے ہم نے پوچھا، ’’یہ کیا میلہ مویشیاں ہو رہا ہے۔ ہم نے اشتہار نہیں پڑھا اس کا۔ میلہ مویشیاں ہے تو ساتھ مشاعرہ بھی ضرور ہوگا۔ ایک غزل ہمارے پاس بھی ہے۔‘‘

    بولا، ’’جی نہیں۔ یہ بزنس روڈ کی بکرا پیڑی ہے۔ لیجیے یہ دنبہ لے جائیے۔ آپ کے خاندان بھر کو پل صراط سے پار لے جائے گا۔‘‘

    ہم نے پوچھا، ’’ہدیہ کیا ہے اس بزرگ کا؟‘‘ بولے، ’’پانچ سو لے لوں گا۔ وہ بھی آپ کی مسکین صورت پر ترس کھا کر۔ ورنہ چھ سو روپے سے کم نہ لیتا۔‘‘ ادھر سے نظر ہٹا کر ہم نے ایک اللہ لوگ قسم کے بکرے کی طرف دیکھا جو مارے ضعف اور ناتوانی کے زمین پر بیٹھا تھا۔

    ہم نے کہا، ’’اس ذات شریف کے کیا دام ہوں گے؟‘‘ اس کا مالک دوسرا تھا۔ وہ بھاگا آیا۔ بولا، ’’جناب آپ کی نظر کی داد دیتا ہوں۔ بڑی خوبیوں کا بکرا ہے۔ اس کی داڑھی پر نہ جائیے۔ ایک میمن گھرانے میں پلا ہے ورنہ عمر اس کی زیادہ نہیں۔ آپ سے دو چار سال چھوٹا ہی ہوگا۔‘‘

    ہم نے کہا، ’’یہ چپ چاپ کیوں بیٹھا ہے۔ جگالی تک نہیں کرتا۔‘‘ بولے، ’’دانتوں میں کچھ تکلیف تھی۔ پوری بتیسی نکلوادی ہے۔ خیال تھا مصنوعی جبڑا لگوانے کا۔ لیکن اتنے میں عید آ گئی۔‘‘

    ’’کتنے کا ہو گا؟‘‘

    ’’دو سو دے دیجیے۔ اتنے میں مفت ہے۔‘‘

    ہم نے اپنی جیب کو ٹٹولا اور کہا، ’’سو روپے سے کم کی چیز چاہیے۔‘‘ بولے، ’’پھر آپ مرغ کی قربانی دیجیے۔ چوپایا نہ ڈھونڈیے۔‘‘

    (شاعر و ادیب اور معروف مزاح‌ نگار ابنِ انشا کی کتاب خمارِ گندم سے اقتباس)