Tag: ابن انشا کی برسی

  • یومِ وفات: نام وَر ادیب اور شاعر ابنِ انشا کو بطور مزاح نگار زیادہ شہرت ملی

    یومِ وفات: نام وَر ادیب اور شاعر ابنِ انشا کو بطور مزاح نگار زیادہ شہرت ملی

    اردو ادب میں‌ ابنِ انشا کو ان کی تخلیقات کی بدولت جو مقام حاصل ہے، اس میں وہ نظم اور نثر دونوں اصناف پر حاوی نظر آتے ہیں۔ ایک طرف شاعری، بالخصوص ان کی نظموں اور دوسری جانب ان کی مزاحیہ تحریروں نے قارئین کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ کالم نویسی اور سفرنامہ نگاری ان کا ایک ایسا مستند حوالہ ہے جو ان کے منفرد اسلوب کی وجہ سے بہت مقبول ہوئے۔ آج ابنِ انشا کا یومِ وفات ہے۔

    سرطان کے مرض نے ابنِ انشا کو ہم سے ہمیشہ کے لیے چھین لیا تھا وہ علاج کی غرض سے لندن میں تھے جہاں 11 جنوری 1978ء کو ان کے انتقال کے بعد میّت کراچی لائی اور اس شہر میں ابنِ انشا سپردِ خاک کیے گئے۔

    ان کا اصل نام شیر محمد خان تھا۔ وہ 15 جون 1927ء کو ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے تھے۔جامعہ پنجاب سے بی اے اور جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔ انھوں نے درویش دمشقی کے نام سے کالم لکھنا شروع کیا تھا اور بعد میں باتیں انشا جی کے نام سے لکھنے لگے، وہ روزنامہ ’’انجام‘‘ کراچی اور بعد میں روزنامہ جنگ سے وابستہ ہوئے اور طویل عرصہ تک نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں۔

    ابنِ انشا کا پہلا مجموعۂ کلام ’’چاند نگر‘‘ تھا۔ اس کے علاوہ ان کے شعری مجموعوں میں ’’اس بستی کے ایک کوچے‘‘ میں اور ’’دلِ وحشی‘‘ شامل ہیں۔ انھوں نے بچّوں کے لیے شاعری بھی کی اور نثر بھی لکھی۔ متعدد کتب کا اردو ترجمہ کیا اور خوب صورت سفرنامے بھی لکھے جن میں آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے اور نگری نگری پھرا مسافر شامل ہیں۔

    مرحوم کی دیگر کتابوں میں اردو کی آخری کتاب، خمارِ گندم، باتیں انشا جی کی اور قصّہ ایک کنوارے کا بہت مقبول ہوئیں۔ مکتوبات بھی ان کے اسلوب اور دل چسپ انداز کے سبب قارئین میں مقبول تھے اور ابنِ انشا کے خطوط کتابی شکل میں بھی شایع ہوئے۔

    ابنِ انشا کی یہ غزل بہت مشہور ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    انشاؔ جی اٹھو اب کوچ کرو، اس شہر میں جی کو لگانا کیا
    وحشی کو سکوں سے کیا مطلب، جوگی کا نگر میں ٹھکانا کیا

    اس دل کے دریدہ دامن کو، دیکھو تو سہی، سوچو تو سہی
    جس جھولی میں سو چھید ہوئے اس جھولی کا پھیلانا کیا

    شب بیتی، چاند بھی ڈوب چلا، زنجیر پڑی دروازے میں
    کیوں دیر گئے گھر آئے ہو سجنی سے کرو گے بہانا کیا

    اس حُسن کے سچّے موتی کو ہم ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں
    جسے ديکھ سکيں پر چُھو نہ سکيں وہ دولت کيا وہ خزانہ کيا

    اس کو بھی جلا دُکھتے ہوئے مَن، اک شُعلہ لال بھبوکا بن
    یوں آنسو بن بہہ جانا کیا؟ یوں ماٹی میں مل جانا کیا

    اُس روز جو ان کو دیکھا ہے، اب خواب کا عالم لگتا ہے
    اس روز جو ان سے بات ہوئی، وہ بات بھی تھی افسانہ کیا

    جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں کیوں بَن میں نہ جا بسرام کرے
    دیوانوں کی سی نہ بات کرے تو اور کرے دیوانہ کیا

    ابنِ انشا نے محض 51 برس کی عمر میں‌ یہ دنیا چھوڑ دی تھی۔ وہ اپنے اہلِ قلم احباب میں بھی بہت پسند کیے جاتے تھے۔ ادیبوں اور شاعروں کی زندگی کے بعض واقعات پُرلطف بھی ہیں اور ان کی شخصیت کی کم زوریوں یا خوبیوں کو بھی بیان کرتے ہیں۔ یہاں ہم ممتاز مفتی کی کتاب اور اوکھے لوگ سے ابنِ انشا سے متعلق ایک واقعہ نقل کررہے ہیں۔

    "احمد بشیر کا کہنا ہے کہ ابنِ انشا نے بڑی سوچ بچار سے عشق لگایا تھا، ایسی محبوبہ کا چناؤ کیا تھا جو پہلے ہی کسی اور کی ہو چکی تھی اور شادی شدہ اور بچّوں والی تھی جس کے دل میں انشا کے لیے جذبۂ ہم دردی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ جس سے ملنے کے تمام راستے مسدود ہو چکے تھے۔ اپنے عشق کو پورے طور پر محفوظ کر لینے کے بعد اس نے عشق کے ساز پر بیراگ کا نغمہ چھیڑ دیا۔

    مواقع تو ملے، مگر انشا نے کبھی محبوبہ سے بات نہ کی، اس کی ہمّت نہ پڑی۔ اکثر اپنے دوستوں سے کہتا: ’’یار اُسے کہہ کہ مجھ سے بات کرے۔‘‘

    اس کے انداز میں بڑی منت اور عاجزی ہوتی پھر عاشق کا جلال جاگتا، وہ کہتا: ’’دیکھ اس سے اپنی بات نہ چھیڑنا۔ باتوں باتوں میں بھرما نہ لینا۔‘‘

    محبوبہ تیز طرّار تھی، دنیا دار تھی۔ پہلے تو تمسخر اڑاتی رہی۔ پھر انشا کی دیوانگی کو کام میں لانے کا منصوبہ باندھا۔ اس دل چسپ مشغلے میں میاں بھی شریک ہوگیا۔ انشا کو فرمائشیں موصول ہونے لگیں۔ اس پر انشا پھولے نہ سماتا۔

    دوستوں نے اسے بار بار سمجھایا کہ انشا وہ تجھے بنا رہی ہے۔ انشا جواب میں کہتا کتنی خوشی کی بات ہے کہ بنا تو رہی ہے۔ یہ بھی تو ایک تعلق ہے۔ تم مجھے اس تعلق سے محروم کیوں کر رہے ہو۔

    ایک روز جب وہ فرمائش پوری کرنے کے لیے شاپنگ کرنے گیا تو اتفاق سے میں بھی ساتھ تھا۔ میں نے انشا کی منتیں کیں کہ انشا جی اتنی قیمتی چیز مت خریدو۔ تمہاری ساری تنخواہ لگ جائے گی۔

    انشا بولا۔ ’’مفتی جی، تمہیں پتا نہیں کہ اس نے مجھے کیا کیا دیا ہے۔ اس نے مجھے شاعر بنا دیا، شہرت دی، زندگی دی!‘‘ انشا کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔

  • ’’چاند نگر‘‘ کے ابنِ انشا کی برسی

    ’’چاند نگر‘‘ کے ابنِ انشا کی برسی

    آج نام وَر ادیب، شاعر اور مترجم ابنِ انشا کا یومِ وفات ہے۔ مزاح نگاری ان کی پہچان تھی۔ قارئین میں ان کے فکاہیہ کالم بہت مقبول ہوئے۔ ابنِ انشا نے سفر نامے بھی لکھے جن میں اپنے اسلوب کے سبب الگ پہچان بنانے میں کام یاب رہے۔ نظم کے میدان میں بھی ابنِ انشا نے خود کو منوایا اور ان کی تخلیقات آج بھی پڑھی اور پسند کی جاتی ہیں۔

    ابنِ انشا کا اصل نام شیر محمد خان تھا، وہ 15 جون 1927ء کو موضع تھلہ ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ جامعہ پنجاب سے بی اے اور جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔

    1960ء میں روزنامہ ’’امروز‘‘ کراچی میں قلمی نام سے کالم لکھنے کا آغاز کیا اور بعد میں مختلف اخبارات کے لیے کالم لکھتے رہے۔ انھوں نے نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں اور سفارت کار بھی رہے۔

    ابنِ انشا کا پہلا مجموعہ ٔ کلام ’’چاند نگر‘‘ تھا اور بعد میں’’اس بستی کے ایک کوچے میں‘‘ اور ’’دلِ وحشی‘‘ بھی شایع ہوئی۔ ان کے سفر ناموں کو بہت شہرت ملی جس میں ان کے اسلوب نے قارئین کو متاثر کیا۔ ان کی ایک غزل انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا بہت مشہور ہوئی جب کہ ان کے مزاح پاروں اور سفر ناموں پر مشتمل کتب آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے اور نگری نگری پھرا مسافر کو قارئین نے بے حد پسند کیا۔

    طنز و مزاح اور فکاہیہ کالموں کے مجموعوں میں‌ اردو کی آخری کتاب، خمارِ گندم، باتیں انشا جی کی شامل ہیں جب کہ ان کا ترجمہ قصہ ایک کنوارے کا بھی کتابی شکل میں شایع ہوا۔

    ابنِ انشا 11 جنوری 1978ء کو لندن میں انتقال کرگئے۔ وہ سرطان کے موذی مرض میں مبتلا تھے۔

  • اتحاد و اتفاق کی خوبیاں واضح کرنے کی ترکیب!

    اتحاد و اتفاق کی خوبیاں واضح کرنے کی ترکیب!

    ایک بڑے میاں جنھوں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ کمایا بنایا تھا، آخر بیمار ہوئے، مرض الموت میں گرفتار ہوئے۔ ان کو اور تو کچھ نہیں، کوئی فکر تھی تو یہ کہ ان کے پانچوں بیٹوں کی آپس میں نہیں بنتی تھی۔ گاڑھی کیا، پتلی بھی نہیں چھنتی تھی۔ لڑتے رہتے تھے۔ کبھی کسی بات پر اتفاق نہ ہوتا تھا حالاں‌ کہ اتفاق میں بڑی برکت ہے۔

    آخر انھوں نے بیٹوں پر اتحاد و اتفاق کی خوبیاں واضح کرنے کے لیے ایک ترکیب سوچی۔ ان کو اپنے پاس بلایا اور کہا۔ ’’دیکھو اب میں کوئی دِم کا مہمان ہوں، سب جاکر ایک ایک لکڑی لاؤ۔‘‘

    ایک نے کہا۔ ’’لکڑی؟ آپ لکڑی کا کیا کریں گے؟‘‘ دوسرے نے آہستہ سے کہا۔ ’’بڑے میاں کا دماغ خراب ہورہا ہے۔ لکڑی نہیں شاید ککڑی کہہ رہے ہیں۔ ککڑی کھانے کو جی چاہتا ہوگا۔‘‘

    تیسرے نے کہا۔ ’’نہیں کچھ سردی ہے، شاید آگ جلانے کو لکڑیاں منگاتے ہوں گے۔‘‘ چوتھے نے کہا۔ ’’بابو جی! کوئلے لائیں؟‘‘ پانچویں نے کہا۔ ’’نہیں! اپلے لاتا ہوں وہ زیادہ اچھے رہیں گے۔‘‘

    باپ نے کراہتے ہوئے کہا۔ ’’ارے نالائقو! میں جو کہتا ہوں وہ کرو۔ کہیں سے لکڑیاں لاؤ، جنگل سے۔‘‘

    ایک بیٹے نے کہا۔ ’’یہ بھی اچھی رہی، جنگل یہاں کہاں؟ اور محکمہ جنگلات والے لکڑی کہاں کاٹنے دیتے ہیں۔‘‘ دوسرے نے کہا۔ ’’اپنے آپے میں نہیں ہیں بابو جی۔ بک رہے ہیں جنون میں کیا کیا کچھ ۔ تیسرے نے کہا۔ ’’بھئی لکڑیوں والی بات اپن کی تو سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘

    چوتھے نے کہا۔ ’’بڑے میاں نے عمر بھر میں ایک ہی تو خواہش کی ہے، اسے پورا کرنے میں کیا حرج ہے؟‘‘ پانچویں نے کہا۔ ’’اچھا میں جاتا ہوں ٹال پر سے لکڑیاں لاتا ہوں۔‘‘ چنانچہ وہ ٹال پر گیا۔

    ٹال والے سے کہا۔ ’’خان صاحب ذرا پانچ لکڑیاں تو دینا، اچھی مضبوط ہوں۔‘‘ ٹال والے نے لکڑیاں دیں۔ ہر ایک خاصی موٹی اور مضبوط ۔

    باپ نے دیکھا اس کا دل بیٹھ گیا۔ یہ بتانا بھی خلافِ مصلحت تھا کہ لکڑیاں کیوں منگائی ہیں اور اس سے کیا اخلاقی نتیجہ نکالنا مقصود ہے۔ آخر بیٹوں سے کہا۔ ’’اب ان لکڑیوں کا گٹھا باندھ دو۔‘‘

    اب بیٹوں میں پھر چہ میگوئیاں ہوئیں۔ ’’گٹھا، وہ کیوں؟ اب رسی کہاں سے لائیں۔ بھئی بہت تنگ کیا ہے اس بڈھے نے۔‘‘ آخر ایک نے اپنے پاجامے میں سے ازار بند نکالا اور گٹھا باندھا۔

    بڑے میاں نے کہا۔ ’’اب اس گٹھے کو توڑو۔‘‘

    بیٹوں نے کہا۔ ’’لو بھئی یہ بھی اچھی رہی۔ کیسے توڑیں؟ کلہاڑا کہاں سے لائیں؟‘‘

    باپ نے کہا۔ ’’کلہاڑی سے نہیں، ہاتھوں سے توڑو، گھٹنے سے توڑو۔‘‘

    حکمِ والد مرگ مفاجات۔ پہلے ایک نے کوشش کی، پھر دوسرے نے، پھر تیسرے نے، پھر چوتھے نے، پھر پانچویں نے۔ لکڑیوں کا بال بیکا نہ ہوا۔ سب نے کہا۔ ’’بابو جی! ہم سے نہیں ٹوٹتا یہ لکڑیوں کا گٹھا۔‘‘

    باپ نے کہا۔ ’’اچھا اب ان لکڑیوں کو الگ الگ کر دو، ان کی رسی کھول دو۔‘‘

    ایک نے جل کر کہا۔ ’’رسی کہاں ہے، میرا ازار بند ہے۔ اگر آپ کو کھلوانا تھا تو گٹھا بندھوایا ہی کیوں تھا۔ لاؤ بھئی کوئی پنسل دینا ازار بند ڈال لوں پاجامے میں۔‘‘

    باپ نے بزرگانہ شفقت سے اس کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا اب ان لکڑیوں کو توڑو، ایک ایک کرکے توڑو۔‘‘

    لکڑیاں چوں کہ موٹی موٹی اور مضبوط تھیں۔ بہت کوشش کی، کسی سے نہ ٹوٹیں۔ آخر میں بڑے بھائی کی باری تھی۔ اس نے ایک لکڑی پر گھٹنے کا پورا زور ڈالا اور تڑاخ کی آواز آئی۔

    باپ نے نصیحت کرنے کے لیے آنکھیں ایک دم کھول دیں۔ کیا دیکھتا ہے کہ بڑا بیٹا بے ہوش پڑا ہے۔ لکڑی سلامت پڑی ہے۔

    آواز بیٹے کے گھٹنے کی ہڈی ٹوٹنے کی تھی۔ ایک لڑکے نے کہا۔ ’’یہ بڈھا بہت جاہل ہے۔‘‘

    دوسرے نے کہا۔ ’’اڑیل ضدی۔‘‘ تیسرے نے کہا۔ ’’کھوسٹ، سنکی، عقل سے پیدل، گھامڑ۔‘‘

    چوتھے نے کہا۔ ’’سارے بڈھے ایسے ہی ہوتے ہیں، کمبخت مرتا بھی نہیں۔‘‘

    بڈھے نے اطمینان کا سانس لیا کہ بیٹوں میں کم از کم ایک بات پر تو اتفاق رائے ہوا۔ اس کے بعد آنکھیں بند کیں اور نہایت سکون سے جان دے دی۔

    (نام ور ادیب، مزاح نگار اور شاعر ابنِ انشا کا شگفتہ طنز، جس کا عنوان "اتفاق کی برکت” ہے)