Tag: ابن انشا کی تحریریں

  • ‘ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ…’

    ‘ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ…’

    پاکستان ناول مینوفیکچرنگ کمپنی لمیٹڈ ہونہار مصنفین اور یکہ تاز ناشرین کے لیے اپنی خدمات پیش کرنے کا مسرت سے اعلان کرتی ہے۔ کارخانۂ ہٰذا میں ناول جدید ترین آٹومیٹک مشینوں پر تیار کیے جاتے ہیں اور تیاری کے دوران انہیں ہاتھ سے نہیں چھوا جاتا۔

    ناول اسلامی ہو یا جاسوسی، تاریخی یا رومانی۔ مال عمدہ اور خالص لگایا جاتا ہے۔ اس لیے یہ ناول مضبوط اور پائیدار ہوتے ہیں۔

    پڑھنے کے علاوہ بھی یہ کئی کام آتے ہیں۔ بچہ رو رہا ہو۔ ضد کر رہا ہو۔ دو ضربوں میں راہ راست پر آجائے گا۔ بلّی نے دودھ یا کتے نے نعمت خانہ میں منہ ڈال دیا ہو۔ دور ہی سے تاک کر ماریے۔ پھر ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔ بیٹھنے کی چوکی اور گھڑے کی گھڑونچی کے طور پر استعمال ہونے کے علاوہ یہ چوروں ڈاکوؤں کے مقابلے میں ڈھال کا کام بھی دیتا ہے۔ ایک تو اس لیے کہ اس کے مطالعے سے دل میں شجاعت کے جذبات خواہ مخواہ موجزن ہوجاتے ہیں۔ دوسرے اپنی ضخامت اورپٹھے کی نوکیلی جلد کے باعث۔ خواتین کے لیے ہمارے ہاں واش اینڈ ویئر (Wash and Wear) ناول بھی موجود ہیں تاکہ ہیروئن کا نام بدل کر پلاٹ کو بار بار استعمال کیا جا سکے۔ ایک ہی پلاٹ برسوں چلتا ہے۔ پندرہ بیس ناولوں کے لیے کافی رہتا ہے۔ واش اینڈ ویئر کوالٹی ہمارے اسلامی تاریخی ناولوں میں بھی دستیاب ہے۔ آرڈر کے ساتھ اس امر سے مطلع کرنا ضروری ہے کہ کون سی قسم مطلوب ہے۔ ۶۵% رومان اور ۳۵% تاریخ والی یا ۶۵% تاریخ اور ۳۵% رومان والی۔ اجزائے ترکیبی عام طور پر حسب ذیل ہوں گے۔

    ۱۔ ہیروئن۔ کافر دوشیزہ۔ تیر تفنگ، بنوٹ پٹے اور بھیس بدلنے کی ماہر۔ دل ایمان کی روشنی سے منور۔ چھپ چھپ کر نماز پڑھنے والی۔

    ۲۔ کافر بادشاہ۔ ہماری ہیروئن کا باپ لیکن نہایت شقی القلب۔ انجام اس کا برا ہوگا۔

    ۳۔ لشکر کفار۔ جس کے سارے جرنیل لحیم شحیم اور بزدل۔

    ۴۔ اہل اسلام کا لشکر۔ جس کا ہرسپاہی سوا لاکھ پر بھاری۔ نیکی اور خدا پرستی کا پتلا۔ پابندِ صوم و صلٰوۃ۔ قبول صورت بلکہ چندے آفتاب چندے ماہتاب۔ بحر ظلمات میں گھوڑے دوڑانے والا۔

    ۵۔ ہیرو۔ لشکر متذکرہ صدر کا سردار۔ اس حسن کی کیا تعریف کریں، کچھ کہتے ہوئے جی ڈرتا ہے۔

    ۶۔ سبز پوش خواجہ خضر۔ جہاں پلاٹ رک جائے اور کچھ سمجھ میں نہ آئے، وہاں مشکل کشائی کرنے والا۔

    ۷۔ ہیرو کا جاں نثار ساتھی۔ نوجوان اور کنوارا تاکہ اس کی شادی بعد ازاں ہیروئن کی وفادار اور محرم راز خادمہ یا سہیلی سے ہوسکے۔

    ۸۔ کافر بادشاہ کا ایک چشم وزیر جو شہزادی سے اپنے بیٹے کی، بلکہ ممکن ہو تو اپنی شادی رچانے پر ادھار کھائے بیٹھا ہے۔ چونکہ ادھار محبت کی قینچی ہے۔ لہٰذا ہیروئن کے التفات سے محروم رہتا ہے۔

    پلاٹ تو ہمارے ہاں کئی طرح کے ہیں لیکن ایک اسٹینڈرڈ ماڈل جو عام طور پر مقبول ہے، یہ ہے کہ ایک قبیلے کا نوجوان دوسرے قبیلے کی دوشیزہ پر فدا ہوتا ہے اور ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہ دوشیزہ لامحالہ طور پر دوسرے قبیلے کے سردارکی چہیتی بیٹی ہوتی ہے۔ پانچ انگلیاں پانچوں چراغ۔ خوبصورت، سلیقہ مند، عالم بے بدل۔ لاکھوں اشعار زبانی یاد۔ کرنا خدا کا کیا ہوتا ہے، اس بیچ میں دونوں قبیلوں میں لڑائی ٹھن جاتی ہے۔ ہمارا ہیرو محبت کو فرض پر قربان کر کے شمشیر اٹھا لیتا ہے اور بہادری کے جوہر دکھاتا، کشتوں کے پشتے لگاتا دشمن کی قید میں چلا جاتا ہے۔ محافظوں کی آنکھ میں دھول جھونک کر طالب و مطلوب ایک دوسرے سے ملتے ہیں۔ اشعار اور مکالموں کا تبادلہ ہوتا ہے اور ہیروئن بی پہلے ایک جان سے پھرہزار جان سے اس پر عاشق ہو جاتی ہے۔ راستے میں ظالم سماج کئی بار آتا ہے لیکن ہردفعہ منہ کی کھاتا ہے۔ دانت پیستا رہ جاتا ہے۔ آخر میں ناول حق کی فتح، محبت کی جیت، نعرہ تکبیر، شرعی نکاح، دونوں قبیلوں کے ملاپ اور مصنف کی طرف سے دعائے خیر کے ساتھ آئندہ ناول کی خوشخبری پر ختم ہوتا ہے۔

    آرڈر دیتے وقت مصنف یا ناشر کو بتانا ہوگا کہ ناول پانچ سو صفحے کا چاہیے، ہزار صفحے کا یا پندرہ سو کا؟ وزن کا حساب بھی ہے۔ دو سیری ناول۔ پانچ سیری ناول۔ سات سیری ناول۔ پندرہ بیس سیری بھی خاص آرڈر پرمل سکتے ہیں۔ گاہک کو یہ بھی بتانا ہوگا کہ اسی پلاٹ کو برقرار رکھتے ہوئے ماحول کس ملک کا رکھا جائے۔ عراق کا… عرب کا…. ایران کا… افغانستان کا؟ ہیرو اور ہیروئن کے نام بھی گاہک کی مرضی کے مطابق رکھے جاتے ہیں۔ ایک پلاٹ پر تین یا اس سے زیادہ ناول لینے پر ۳۳% رعایت۔

    خواتین کے لیے بھی جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا ہے، گھریلو اور غیر گھریلو ہر طرح کے ناول بکفایت ہمارے ہاں سے مل سکتے ہیں۔ ان میں بھی محبت اور خانہ داری کا تناسب بالعموم ۶۵% اور ۳۵% کا ہوتا ہے۔ فرمائش پر گھٹایا یا بڑھایا جا سکتا ہے۔ خانہ داری سے مطلب ہے ناول کے کرداروں کے کپڑوں کا ذکر۔ خاندانی حویلی کا نقشہ۔ بیاہ شادی کی رسموں کا احوال۔ زیورات کی تفصیل وغیرہ۔ ہیرو اور ہیروئن کے چچازاد بھائی اور بہنیں۔ سہیلیاں اور رقیب وغیرہ بھی مطلوبہ تعداد میں ناول میں ڈلوائے جا سکتے ہیں۔ ہمارے کارخانے کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ خواتین کے ناول مروجہ پاکستانی فلموں کو دیکھ کر لکھے جاتے ہیں تاکہ بعد ازاں فلم ساز حضرات ان پر مزید فلمیں بنا سکیں۔ معمولی سی اجرت پر ان ناولوں میں گانے اور دو گانے وغیرہ بھی ڈالے جا سکتے ہیں۔ اس سے مصنف اور فلم ساز کا کام اور آسان ہو جاتا ہے۔ گاہک کو فقط ہیروئن کا نام تجویز کر دینا چاہیے۔ باقی سارا کام ہمارے ذمے۔ مال کی گھر پر ڈلیوری کا انتظام ہے۔

    بازار کے ناول بالعموم ایسے گنجان لکھے اور چھپے ہوتے ہیں کہ پڑھنے والوں کی آنکھ پر برا اثر پڑتا ہے۔ ہم کوشش کرتے ہیں کہ صفحے میں کم سے کم لفظ رہیں۔ مکالمے اور مکالمہ بولنے والے، دونوں کے لیے الگ الگ سطر استعمال کی جاتی ہے۔ نمونہ ملاحظہ فرمائیے،

    شہزادی سبز پری نے کہا،
    ’’پیارے گلفام!‘‘

    پیارے گلفام نے کہا،
    ’’ہاں شہزادی گلفام۔ ارشاد!‘‘

    شہزادی سبز پری،
    ’’ایک بات کہوں؟‘‘

    گلفام،
    ’’ہاں ہاں کہو۔‘‘

    شہزادی،
    ’’مجھے تم سے پیار ہے۔‘‘

    گلفام،
    ’’سچ!‘‘

    شہزادی صاحبہ،
    ’’ہاں سچ!‘‘

    گلفام،
    ’’تو پھر شکریہ!‘‘

    شہزادی نے کہا،
    ’’پیارے گلفام۔ اس میں شکریہ کی کیا بات ہے۔ یہ میرا انسانی فرض تھا۔‘‘

    ایک ضروری اعلان۔ ہمارے کارخانے نے ایک عمدہ آئی لوشن تیار کیا ہے جو رقت پیدا کرنے والے ناولوں کے ساتھ استعمال کیا جاتا ہے۔ جہاں ایسا سین آئے، رونے کے بعد دو دو قطرے ڈراپر سے آنکھوں میں ڈال لیجیے۔ آنکھیں دھل جائیں گی۔ نظر تیز ہو جائے گی۔ مسلسل استعمال سے عینک کی عادت بھی چھوٹ جاتی ہے۔ فی شیشی دو روپے۔ تین شیشیوں پر محصول ڈاک معاف۔ آنکھیں پونچھنے کے لیے عمدہ رومال اور دوپٹے بھی ہمارے ہاں دستیاب ہیں۔

    (اردو کے ممتاز مزاح نگار، ادیب اور شاعر ابنِ انشا کی کتاب خمارِ گندم سے ایک مزاحیہ تحریر)

  • دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے…

    دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے…

    دنیا میں یہ بحث ہمیشہ سے چلی آ رہی ہے کہ انڈا پہلے آیا یا مرغی۔ کچھ لوگ کہتے ہیں انڈا۔ کچھ کا کہنا ہے مرغی۔

    ایک کو ہم مرغی اسکول یا فرقۂ مرغیہ کہہ سکتے ہیں۔ دوسرے کو انڈا اسکول۔ ہمیں انڈا اسکول سے منسلک سمجھنا چاہیے۔ ملت بیضا کا ایک فرد جاننا چاہیے۔ ہمارا عقیدہ اس بات میں ہے کہ اگر آدمی تھانے دار یا مولوی یعنی فقیہ شہر ہو تو اس کے لیے مرغی پہلے اور ایسا غریب شہر ہو تو اس کے لیے انڈا پہلے اور غریب شہر سے بھی گیا گزرا ہو تو نہ اس کی دسترس مرغی تک ہوسکتی ہے نہ انڈا اس کی گرفت میں آ سکتا ہے۔ اسے اپنی ذات اور اس کی بقا کو ان چیزوں سے پہلے جاننا چاہیے، مقدم رکھنا چاہیے۔

    ایک زمانے میں ہمارا دھیان کبھی کبھی مرغی کی طرف بھی جایا کرتا تھا۔ لیکن جب سے بکری کے دام گائے کی قیمت کے برابر ہوئے ہیں اور مرغی بکری کے دام پانے لگی ہے اور انڈا مرغی کے بھاؤ دستیاب ہونے لگا ہے، ہمارے لیے انڈا ہی مرغی ہے۔ ہم وحدت الوجود کی منزل میں آگئے ہیں۔ انڈا یوں بھی بڑی خوبیوں کی چیز ہے۔ اس میں سفیدی ہوتی ہے۔ اس میں زردی ہوتی ہے۔ اس میں چونا ہوتا ہے۔ اس میں پروٹین ہوتی ہے۔ اسے دانہ نہیں ڈالنا پڑتا۔ یہ بیٹ نہیں کرتا۔ بلیاں اس کی جان کی خواہاں نہیں ہوتیں۔ اس کے لیے ڈربا نہیں بنوانا پڑتا۔ اس کے خول پر رنگ کرکے اسے گھر میں سجا سکتے ہیں۔ ہاں کبھی کبھی یہ گندا ضرور نکل جاتا ہے۔ سو اسے آسانی سے اٹھا کر باہر گلی میں پھینکا جا سکتا ہے۔ علامہ اقبال بھی جب نئی تہذیب کے کسی گندے انڈے کو دیکھتے تھے، یہی کہا کرتے تھے۔ افسوس کہ پرانی تہذیب کے گندے انڈوں کے متعلق انہوں نے اپنے کلام میں کوئی واضح ہدایات نہیں چھوڑیں۔ اس لیے ان کے عقیدت مند ان کو سنبھال سنبھال کر رکھے جا رہے ہیں۔

    اقبال کے ایک شارح نے تو اس شعر کی مدد سے علامہ اقبال کی گھریلو زندگی پر بھی پورا مقالہ لکھ دیا ہے۔ آج کل دستور یہی ہے کہ غالب کی زندگی معلوم کرنی ہے تو اس کے دیوان سے اخذ کرو کہ وہ شہر میں بے آبرو پھرا کرتے تھے۔ دھول دھپا اور پیش دستی کیا کرتے تھے۔ درِ کعبہ سے الٹے پھر آیا کرتے تھے۔ سیدھے نہیں۔ اور مرنے کے بعد بھی بولا کرتے تھے۔ کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔ ان صاحب نے لکھا ہے کہ علامہ اقبال ایک روز بازار سے نئی تہذیب کے کچھ انڈے لے کر آئے۔ ان کی بیوی آملیٹ بنانے بیٹھیں تو انہیں دوسرا مصرع پڑھنا پڑا۔

    نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے

    اس پر علامہ موصوف نے ترکی بہ ترکی یعنی مصرع بہ مصرع ہدایت کی کہ ان کو، اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں۔

    یہ تحقیق یہاں ختم نہیں ہو جاتی۔ کیونکہ اتنی سی بات کو ہر عامی بھی سمجھ سکتا ہے۔ شارح موصوف کا کہنا ہے کہ شاعر کا گھر کسی گلی میں تھا۔ یہ شعر لازماً ان دنوں کا ہے جب علامہ مرحوم نے میوروڈ پر ابھی اپنی کوٹھی نہیں بنائی تھی۔ ورنہ وہ یہ فرماتے کہ اٹھا کر پھینک دو باہر سڑک پر۔ جناب محقق نے علامہ اقبال کی زبان میں نقص بھی دریافت کیا ہے کہ باہر کا لفظ زاید ہے کیونکہ گلی گھر کے اندر نہیں ہوتی۔ مزید لکھا ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو ہر معاملے میں خوامخواہ اپنی رائے دینے کی عادت تھی ورنہ گندے انڈے کو گلی میں پھینکنے کا فیصلہ ان کی بی بی خود بھی کر سکتی تھیں۔

    شارح موصوف نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ شعر علامہ اقبال مرحوم کے ابتدائے جوانی کا ہے۔ جب انہیں پہلوانی اور کسرت اور کرتب بازی سے دلچسپی تھی۔ وہ بھاری بھاری وزن کو اٹھا کر دوچار بار گردش دیتے تھے، پھر پھینکتے تھے۔ یہ ان کی عادت ثانیہ بن چکی تھی۔ اس لیے کہا ہے کہ اٹھا کر پھینک دو۔ صرف ’’پھینک دو‘‘ کہنا کافی نہیں سمجھا۔ معاملہ انڈوں ہی کا کیوں نہ تھا۔ ہمارے خیال میں اس شعر سے ابھی اور معنی نچوڑنے کی بھی گنجائش ہے۔ علامہ مرحوم کو اپنے باطن کی صفائی کی طرف زیادہ دھیان رہتا تھا۔ باہر کی صفائی کا کچھ خیال نہ کرتے تھے۔ ورنہ وہ یہ کبھی نہ فرماتے کہ انڈے اٹھا کر باہر گلی میں پھینک دو۔ انہیں کوڑے کے ڈرم میں پھینکنا چاہیے تھا۔ باہر کسی بھلے آدمی کی اچکن پر گر جاتے تو بڑا فضیحتا ہوتا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ ہماری قوم کو علامہ مرحوم کی ہر ہدایت پر آنکھ بند کر کے عمل کرنا چاہیے۔ ہماری رائے میں اپنی عقل کا واجبی استعمال بھی کر لینا چاہیے۔ تھوڑی احتیاط بھی لازم ہے۔ ہرخوشہ گندم کو جلانے، مَرمَر کی سلوں سے ناخوش و بیزار ہونے، اس رزق سے موت اچھی ہونے اور گندے انڈے گلی میں اٹھا کر پھینک دینے کے متعلق اشعار اس کی محض چند مثالیں ہیں۔

    آج انڈوں کی طرف رہ رہ کر ہمارا دھیان جانے کی کئی وجہیں ہیں۔ ایک تو سردی دوسرے حکومت کا یہ اعلان کہ گوشت اور دودھ کی طرح انڈوں کی بھی قیمتیں مقرر کی جارہی ہیں تاکہ مقررہ قیمتوں پر نہ ملیں۔ تیسرے شاد عارفی مرحوم کا ایک نادرہ کار شعر ہماری نظر سے گزرا ہے۔ صیاد اور قفس اور نشیمن کے مضمون بہت شاعروں نے باندھے ہیں۔ نئے رنگ اور نئے ڈھنگ سے بھی باندھے ہیں۔ خود علامہ اقبال مرحوم نے بھی ایک بلبل کی فریاد لکھی ہے۔ لیکن اس مضمون کے جملہ تعلقات پرکسی کی نظر نہیں گئی تھی۔ فرماتے ہیں شاد عارفی رام پوری،

    انہیں بھی ساتھ لیتا جا، کہیں ٹکیاں بنالینا
    ارے صیاد دو انڈے بھی رکھے ہیں نشیمن میں

    (اردو کے ممتاز شاعر اور ادیب ابنِ انشا کی ایک شگفتہ تحریر)

  • اب لائیے ادھر کان!

    اب لائیے ادھر کان!

    ایک تھا کچھوا۔ ایک تھا خرگوش۔ دونوں نے آپس میں دوڑ کی شرط لگائی۔

    کوئی کچھوے سے پوچھے کہ تُو نے کیوں لگائی؟ کیا سوچ کر لگائی۔ دنیا میں احمقوں کی کمی نہیں۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ طے یہ ہوا کہ دونوں میں سے جو نیم کے ٹیلے تک پہلے پہنچے، اسے اختیار ہے کہ ہارنے والے کے کان کاٹ لے۔

    دوڑ شروع ہوئی۔ خرگوش تو یہ جا وہ جا، پلک چھپکنے میں خاصی دور نکل گیا۔ میاں کچھوے وضع داری کی چال چلتے منزل کی طرف رواں ہوئے۔ تھوڑی دور پہنچے تو سوچا بہت چل لیے۔ اب آرام بھی کرنا چاہیے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے شان دار ماضی کی یادوں میں کھو گئے۔ جب اس دنیا میں کچھوے راج کیا کرتے تھے۔ سائنس اور فنون لطیفہ میں بھی ان کا بڑا نام تھا۔ یونہی سوچتے میں آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ خود تو تخت شاہی پر بیٹھے ہیں۔ باقی زمینی مخلوق شیر، چیتے، خرگوش، آدمی وغیرہ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں یا فرشی سلام کر رہے ہیں۔ آنکھ کھلی تو ابھی سستی باقی تھی۔ بولے ابھی کیا جلدی ہے۔ اس خرگوش کے بچّے کی کیا اوقات ہے۔ میں بھی کتنے عظیم ورثے کا مالک ہوں۔ واہ بھئی واہ میرے کیا کہنے۔

    جانے کتنا زمانہ سوئے رہے تھے۔ جب جی بھر کے سستا لیے تو پھر ٹیلے کی طرف رواں ہوئے۔ وہاں پہنچے تو خرگوش کو نہ پایا۔ بہت خوش ہوئے۔ اپنے کو داد دی کہ واہ رے مستعدی میں پہلے پہنچ گیا۔ بھلا کوئی میرا مقابلہ کرسکتا ہے؟ اتنے میں ان کی نظر خرگوش کے ایک پلے پر پڑی جو ٹیلے کے دامن میں کھیل رہا تھا۔

    کچھوے نے کہا، ’’اے برخوردار تو خرگوش خان کو جانتا ہے؟‘‘ خرگوش کے بچّے نے کہا، ’’جی ہاں جانتا ہوں۔ میرے ابا حضور تھے۔ معلوم ہوتا ہے آپ وہ کچھوے میاں ہیں جنہوں نے باوا جان سے شرط لگائی تھی۔ وہ تو پانچ منٹ میں یہاں پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد مدتوں آپ کا انتظار کرتے رہے۔ آخر انتقال کرگئے۔ جاتے ہوئے وصیت کرگئے تھے کہ کچھوے میاں آئیں تو ان کے کان کاٹ لینا۔ اب لائیے ادھر کان۔‘‘

    کچھوے نے اپنے کان اور سری خول کے اندر کر لی۔ آج تک چھپائے پھرتا ہے۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور مقبول مزاح نگار ابنِ‌ انشاء کے قلم کی شوخی)

  • ’’وصیت‘‘

    ’’وصیت‘‘

    ایک تھا کچھوا۔ ایک تھا خرگوش۔ دونوں نے آپس میں دوڑ کی شرط لگائی۔

    کوئی کچھوے سے پوچھے کہ تو نے کیوں لگائی؟ کیا سوچ کر لگائی۔ دنیا میں احمقوں کی کمی نہیں۔ ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ طے یہ ہوا کہ دونوں میں سے جو نیم کے ٹیلے تک پہلے پہنچے، اسے اختیار ہے کہ ہارنے والے کے کان کاٹ لے۔

    دوڑ شروع ہوئی۔ خرگوش تو یہ جا وہ جا، پلک چھپکنے میں خاصی دور نکل گیا۔ میاں کچھوے وضع داری کی چال چلتے منزل کی طرف رواں ہوئے۔ تھوڑی دور پہنچے تو سوچا بہت چل لیے۔ اب آرام بھی کرنا چاہیے۔ ایک درخت کے نیچے بیٹھ کر اپنے شان دار ماضی کی یادوں میں کھو گئے۔ جب اس دنیا میں کچھوے راج کیا کرتے تھے۔ سائنس اور فنونِ لطیفہ میں بھی ان کا بڑا نام تھا۔ یونہی سوچتے میں آنکھ لگ گئی۔ کیا دیکھتے ہیں کہ خود تو تختِ شاہی پر بیٹھے ہیں۔ باقی زمینی مخلوق شیر، چیتے، خرگوش، آدمی وغیرہ ہاتھ باندھے کھڑے ہیں یا فرشی سلام کر رہے ہیں۔

    آنکھ کھلی تو ابھی سستی باقی تھی۔ بولے ابھی کیا جلدی ہے۔ اس خرگوش کے بچّے کی کیا اوقات ہے۔ میں بھی کتنے عظیم ورثے کا مالک ہوں۔ واہ بھئی واہ میرے کیا کہنے۔

    جانے کتنا زمانہ سوئے رہے تھے۔ جب جی بھر کے سستا لیے تو پھر ٹیلے کی طرف رواں ہوئے۔ وہاں پہنچے تو خرگوش کو نہ پایا۔ بہت خوش ہوئے۔ اپنے کو داد دی کہ واہ رے مستعدی میں پہلے پہنچ گیا۔ بھلا کوئی میرا مقابلہ کر سکتا ہے؟ اتنے میں ان کی نظر خرگوش کے ایک پلّے پر پڑی جو ٹیلے کے دامن میں کھیل رہا تھا۔

    کچھوے نے کہا، ’’اے برخوردار تُو خرگوش خان کو جانتا ہے؟‘‘ خرگوش کے بچّے نے کہا، ’’جی ہاں جانتا ہوں۔ میرے ابّا حضور تھے۔ معلوم ہوتا ہے آپ وہ کچھوے میاں ہیں جنہوں نے باوا جان سے شرط لگائی تھی۔ وہ تو پانچ منٹ میں یہاں پہنچ گئے تھے۔ اس کے بعد مدتوں آپ کا انتظار کرتے رہے۔ آخر انتقال کر گئے۔ جاتے ہوئے وصیت کر گئے تھے کہ کچھوے میاں آئیں تو ان کے کان کاٹ لینا۔ اب لائیے ادھر کان۔‘‘

    کچھوے نے اپنے کان اور سری خول کے اندر کر لی۔ آج تک چھپائے پھرتا ہے۔

  • حکیم صاحب کا مطب اور ماہ نامے کا دفتر

    حکیم صاحب کا مطب اور ماہ نامے کا دفتر

    ماہ نامہ فنون کا دفتر اب تو خیر انار کلی ہی میں اور جگہ چلا گیا ہے۔ پہلے گرجا کے سامنے ایک چوبارے میں تھا۔

    اسی میں حکیم حبیب اشعر صاحب مطب بھی کیا کرتے تھے۔ سامنے کے برآمدے میں احمد ندیم قاسمی صاحب تشریف رکھتے اور اہلِ ذوق کا مجمع چائے کے خم لنڈھاتا۔ دوسرے میں حکیم صاحب قارورے دیکھتے اور دوائیں دیتے۔ راستہ بہر صورت ندیم صاحب ہی کے کمرے میں سے جاتا تھا۔ لوگ پہلے آکر انہی کے پاس بیٹھتے۔ وقفے وقفے سے ندیم صاحب اعلان کر دیتے کہ جو حضرات کھانسی زکام وغیرہ کے سلسلے میں آئے ہیں دوسرے کمرے میں‌ تشریف لے جائیں۔ ان کے پاس فقط ادب کے مریض رہ جاتے۔

    ایک روز کی بات ہے کہ بہت سے لوگ تو یہ اعلان سن کر اندر چلے گئے۔ ایک صاحب اجنبی صورت بیٹھے رہ گئے۔ قاسمی صاحب نے فرمایا، آپ شاید کوئی غزل یا نظم لے کر آئے ہیں۔ اس پرچے میں تو گنجائش نہیں، اگلے پرچے کے لیے غور کریں گے۔ اگر آپ کاتب ہیں تو نمونہ چھوڑ جائیے اور اگر ایجنٹ ہیں تو بتائیے آپ کے شہر میں کتنے فنون کی کھپت ہوسکتی ہے اور اگر آپ مالک مکان کی طرف سے کرایہ وصول کرنے آئے ہیں تو ایک مہینے کی مہلت اور دیجیے۔

    قاسمی صاحب نے اپنی دانست میں اس شخص کی منطقی ناقہ بندی کردی تھی۔ لیکن وہ مردِ شریف سنی ان سنی کر کے ان کے کان کے پاس منہ لا کر بولا، حکیم صاحب دو روز سے دست آرہے ہیں۔ ان کے بند کرنے کی کوئی ترکیب کیجیے۔

    اُدھر حکیم اشعر صاحب کو شکایت ہے کہ ندیم صاحب اپنے مریضوں کو میرے پاس بھیج دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایک روز ایک بزرگ میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے ان کی نبض پر ہاتھ رکھا اور کہا زبان دکھائیے۔ اس نے کہا جناب میری زبان پر آپ حرف نہیں رکھ سکتے’ میرے گھرانے کی زبان سے ایک دنیا سند لیتی ہے۔ یہ غزل میں لایا ہوں، آپ خود ہی اندازہ کر لیں گے۔

    حکیم صاحب نے کہا، غزل کی تو مجھے معلوم نہیں لیکن آپ کو قبض معلوم ہوتی ہے۔ یہ نسخہ لے جائیے۔ نہار منہ طباشیر کے ساتھ استعمال کیجیے۔ انشاء اللہ صحّت ہوگی۔ حکیم صاحب کا کہنا ہے کہ شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس مریض کو واقع ہی صحّت ہوگئی۔ اس کے بعد اس نے کوئی غزل نہیں لکھی۔

    ("آپ سے کیا پردہ” از ابنِ انشا)

  • صدر کے ایک نامی ریستوراں میں بٹیر کی نہاری

    صدر کے ایک نامی ریستوراں میں بٹیر کی نہاری

    گزشتہ بدھ کی شام ہمارا صدر کے ایک نامی ریستوراں میں جانا ہوا۔

    بیرا لپک کر آیا۔ ہم نے پوچھا، ’’کیا ہے؟‘‘

    بولا، ’’جی اللہ کا دیا سب کچھ ہے!‘‘

    ہم نے کہا، ’’کھانے کو پوچھ رہے ہیں۔ خیریت دریافت نہیں کر رہے۔ کیونکہ وہ تو تمہارے روغنی تن و توش سے ویسے بھی ظاہر ہے۔‘‘

    کہنے لگا، ’’حلیم کھائیے۔ بڑی عمدہ پکی ہے۔ ابھی ابھی میں نے باورچی خانے سے لاتے میں ایک صاحب کی پلیٹ میں سے ایک لقمہ لیا تھا۔‘‘

    ’’لیکن آج تو گوشت کا ناغہ ہے۔‘‘

    بولا، ’’ہوا کرے۔ یہ مرغ کی حلیم ہے۔ آپ کھا کے تو دیکھیے۔ فوراً بانگ دینے کو جی چاہے گا۔‘‘

    ’’نہاری ہے؟‘‘

    ’’جی ہاں ہے، مرغ کی نہاری بھی ہے، بٹیر کی نہاری بھی ہے۔‘‘

    ’’بٹیر کی نہاری؟‘‘ بولا، ’’جی ہاں اور اس کے علاوہ پدی کا شوربا بھی ہے۔ تیتر کے سری پائے ہیں۔ مسور کی دال کے تکے کباب ہیں۔ آپ کل آئیں تو بھینسے کے گوشت کا مرغ پلاؤ بھی مل سکتا ہے۔‘‘

    ہم نے کہا، ’’بٹیر کی نہاری لاؤ فی الحال۔‘‘ ہمارے ساتھ ہمارے ایک دوست تھے۔ دلّی کے جیوڑے، نہاری آئی تو بولے، ’’میاں نلیاں تو اس نہاری میں ہیں نہیں۔ ہم لوگ جب تک نلیوں کو پیالی کے سرے پر بجا بجا کر نہ چوسیں مزا نہیں آتا۔‘‘ بیرا جانے کیا سمجھا۔

    ایک طشتری میں خلال اٹھا لایا۔ ہم نے کہا، ’’میاں خلال تو کھانے کے بعد درکار ہوتے ہیں۔ کچھ تمیز ہے کہ نہیں۔‘‘

    بولا، ’’حضور یہ خلال نہیں۔ نلیاں ہیں۔ بٹیر کی نلیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔ ویسے ہم آئندہ نلیوں کے شوقینوں کے لیے پلاسٹک کی نلیاں بنوارہے ہیں۔ ناغے کے دن نہاری اور شوربے کے ساتھ پیش کی جایا کریں گی۔ گودا ان کے اندر آلوؤں کا ہوا کرے گا۔‘‘

    ہمیں معلوم نہیں کہ ہر چیز کا نعم البدل نکالنے والوں نے پلاسٹک کے بکرے بھی ایجاد کیے ہیں یا نہیں۔ ان کی ضرورت کا احساس ہمیں عید سے دو روز پہلے ہوا۔ وہ یوں کہ ہم دفتر جاتے برنس روڈ سے گزر رہے تھے۔ ایک جگہ دیکھا کہ ہجوم ہے۔ راستہ بند ہے۔ آدمی ہی آدمی۔ دنبے ہی دنبے۔ بکرے ہی بکرے!

    ایک بزرگ سے ہم نے پوچھا، ’’یہ کیا میلہ مویشیاں ہو رہا ہے۔ ہم نے اشتہار نہیں پڑھا اس کا۔ میلہ مویشیاں ہے تو ساتھ مشاعرہ بھی ضرور ہوگا۔ ایک غزل ہمارے پاس بھی ہے۔‘‘

    بولا، ’’جی نہیں۔ یہ بزنس روڈ کی بکرا پیڑی ہے۔ لیجیے یہ دنبہ لے جائیے۔ آپ کے خاندان بھر کو پل صراط سے پار لے جائے گا۔‘‘

    ہم نے پوچھا، ’’ہدیہ کیا ہے اس بزرگ کا؟‘‘ بولے، ’’پانچ سو لے لوں گا۔ وہ بھی آپ کی مسکین صورت پر ترس کھا کر۔ ورنہ چھ سو روپے سے کم نہ لیتا۔‘‘ ادھر سے نظر ہٹا کر ہم نے ایک اللہ لوگ قسم کے بکرے کی طرف دیکھا جو مارے ضعف اور ناتوانی کے زمین پر بیٹھا تھا۔

    ہم نے کہا، ’’اس ذات شریف کے کیا دام ہوں گے؟‘‘ اس کا مالک دوسرا تھا۔ وہ بھاگا آیا۔ بولا، ’’جناب آپ کی نظر کی داد دیتا ہوں۔ بڑی خوبیوں کا بکرا ہے۔ اس کی داڑھی پر نہ جائیے۔ ایک میمن گھرانے میں پلا ہے ورنہ عمر اس کی زیادہ نہیں۔ آپ سے دو چار سال چھوٹا ہی ہوگا۔‘‘

    ہم نے کہا، ’’یہ چپ چاپ کیوں بیٹھا ہے۔ جگالی تک نہیں کرتا۔‘‘ بولے، ’’دانتوں میں کچھ تکلیف تھی۔ پوری بتیسی نکلوادی ہے۔ خیال تھا مصنوعی جبڑا لگوانے کا۔ لیکن اتنے میں عید آ گئی۔‘‘

    ’’کتنے کا ہو گا؟‘‘

    ’’دو سو دے دیجیے۔ اتنے میں مفت ہے۔‘‘

    ہم نے اپنی جیب کو ٹٹولا اور کہا، ’’سو روپے سے کم کی چیز چاہیے۔‘‘ بولے، ’’پھر آپ مرغ کی قربانی دیجیے۔ چوپایا نہ ڈھونڈیے۔‘‘

    (شاعر و ادیب اور معروف مزاح‌ نگار ابنِ انشا کی کتاب خمارِ گندم سے اقتباس)

  • مکمل باورچی خانہ (جدید)

    مکمل باورچی خانہ (جدید)

    جناب مطبخ مرادآبادی کی یہ کتاب مستطاب ہمارے پاس بغرضِ ریویو آئی ہے۔ جو صاحب یہ کتاب لائے وہ نمونۂ طعام کے طور پر بگھارے بینگنوں کی ایک پتیلی بھی چھوڑ گئے تھے۔ کتاب بھی اچھی نکلی۔ بینگن بھی۔

    قلتِ گنجائش کی وجہ سے آج ہم فقط کتاب پر ریویو دے رہے ہیں۔ بینگنوں پر پھر کبھی سہی۔ اس سلسلے میں ہم اپنے کرم فرماؤں کو ریویو کی یہ شرط یاد دلانا چاہتے ہیں کہ کتاب کی دو جلدیں آنی ضروری ہیں۔ اور سالن کی دو پتیلیاں۔

    اس کتاب میں بہت سی باتیں اور ترکیبیں ایسی ہیں کہ ہر گھر میں معلوم رہنی چاہییں، مثلاً یہ کہ سالن میں نمک زیادہ ہو جائے تو کیا کیا جائے۔ ایک ترکیب تو اس کتاب کے بموجب یہ ہے کہ اس سالن کو پھینک کر دوبارہ نئے سرے سے سالن پکایا جائے۔ دوسری یہ کہ کوئلے ڈال دیجیے۔ چولھے میں نہیں سالن میں۔ بعد ازاں نکال کر کھائیے۔ یہاں تھوڑا سا ابہام ہے۔ یہ وضاحت سے لکھنا چاہیے تھا کہ کوئلے نکال کر سالن کھایا جائے یا سالن نکال کر کوئلے نوش کیے جائیں۔ ہمارے خیال میں دونوں صورتیں آزمائی جا سکتی ہیں۔ اور پھر جو صورت پسند ہو اختیار کی جاسکتی ہے۔

    کھیر پکانے کی ترکیب بھی شاملِ کتابِ ہذا ہے۔ اس کے لیے ایک چرخے، ایک کتے، ایک ڈھول اور ایک ماچس کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ نسخہ امیر خسرو کے زمانے سے آزمودہ چلا آرہا ہے۔ لیکن اس میں ماچس کا ذکر نہ ہوتا تھا۔ خدا جانے چرخے کو کیسے جلاتے ہوں گے۔ ٹیڑھی کھیر عام کھیر ہی کی طرح ہوتی ہے۔ فقط اس میں بگلا ڈالنا ہوتا ہے تاکہ حلق میں پھنس سکے۔

    اس کتاب میں بعض ترکیبیں ہمیں آسانی کی وجہ سے پسند آئیں۔ مثلاً باداموں کا حلوا یوں بنایا جا سکتا ہے کہ حلوا لیجیے اور اس میں بادام چھیل کر ملا دیجیے۔ بادام کا حلوا تیار ہے۔ بیگن کا اچار ڈالنے کی ترکیب یہ لکھی ہے کہ بینگن لیجیے اور بطریقِ معروف اچار ڈال لیجیے۔ چند اور اقتباسات ملاحظہ ہوں،

    آلو چھیلنے کی ترکیب

    سامان، آلو۔ چھری۔ پلیٹ، ناول، ڈیٹول، پٹی۔

    آلو لیجیے۔ اسے چھری سے چھیلیے۔ جن صاحبوں کو گھاس چھیلنے کا تجربہ ہے، ان کے لیے کچھ مشکل نہیں۔ چھلے ہوئے آلو ایک الگ پلیٹ میں رکھتے جائیے۔ بعض صورتوں میں جہاں چھیلنے والا ناخواندہ ہو، یہ عمل بالعموم یہیں ختم ہوسکتا ہے۔ لیکن ہماری اکثر قارئین پڑھی لکھی ہیں لہٰذا آلو چھیلنے میں جاسوسی ناول یا فلمی پرچے ضرور پڑھتی ہوں گی۔ ڈیٹول انہی کے لیے ہے۔ جہاں چرکا لگا ڈیٹول میں انگلی ڈبوئی اور پٹّی باندھ لی۔

    ہمارے تجربے کے مطابق ڈیٹول کی ایک شیشی میں آدھ سیر آلو چھیلے جا سکتے ہیں۔ بعض جز رس اور سلیقہ مند خواتین سیر بھر بھی چھیل لیتی ہیں۔ جن بہنوں کو ڈیٹول پسند نہ ہو وہ ٹنکچر یا ایسی ہی کوئی اور دوائی استعمال کرسکتی ہیں۔ نتیجہ یکساں رہے گا۔

    حلوہ بے دودھ
    اس حلوے کی ترکیب نہایت آسان ہے۔ حلوہ پکائیے اور اس میں دودھ نہ ڈالیے۔ نہایت مزیدار حلوہ بے دودھ تیار ہے۔ ورق لگائیے اور چمچے سے کھائیے۔

    نہاری
    کون ہے جس کے منہ میں نہاری کا لفظ سن کر پانی نہ بھر آئے۔ اس کا رواج دہلی اور لاہور میں زیادہ ہے۔ لیکن دونوں جگہ نسخے میں تھوڑا سا اختلاف ہے۔ دلّی والے نلیاں، پائے، مغز اور بارہ مسالے ڈالتے ہیں۔ جس سے زبان فصیح اور بامحاورہ ہوجاتی ہے۔ پنجاب والے بھوسی، بنولے اور چنے ڈالتے ہیں کہ طب میں مقوی چیزیں مانی گئی ہیں۔ گھوڑے اوّل الذکر نسخے کو چنداں پسند نہیں کرتے۔ جس میں کچھ دخل صوبائی تعصب کا بھی ہوسکتا ہے لیکن اس تعصب سے دلّی والے بھی یکسر خالی نہیں۔ ان کے سامنے دوسرے نسخے کی نہاری رکھی جائے تو رغبت کا اظہار نہیں کرتے، بلکہ بعض تو برا بھی مان جاتے ہیں۔

    اس بات میں فقط ایک احتیاط لازم ہے۔ کھانے والے سے پوچھ لینا چاہیے کہ وہ آدمی ہے یا گھوڑا۔ لائق مصنف نے سنبوسہ بیسن، کریلوں کی کھیر اور تھالی کے بینگن وغیرہ تیار کرنے اور انڈا ابالنے وغیرہ کی ترکیبیں بھی دی ہیں لیکن ہم نے خود مکمل باورچی خانہ کی صرف ایک ترکیب آزمائی ہے۔ وہ ہے روٹی پکانے کی۔قارئین بھی اسے آزمائیں اور لطف اٹھائیں۔

    سب سے پہلے آٹا لیجیے۔ آٹا آگیا؟ اب اس میں پانی ڈالیے۔ اب اسے گوندھیے۔ گندھ گیا؟ شاباش۔ اب چولھے کے پاس اکڑوں بیٹھیے۔ بیٹھ گئے! خوب۔

    اب پیڑا بنائیے۔ جس کی جسامت اس پر موقوف ہے کہ آپ لکھنؤ کے رہنے والے ہیں یا بنوں کے۔ اب کسی ترکیب سے اسے چپٹا اور گول کر کے توے پر ڈال دیجیے، اسی کا نام روٹی ہے۔

    اگر یہ کچی رہ جائے تو ٹھیک ورنہ کوئلوں پر ڈال دیجیے تا آنکہ جل جائے۔ اب اسے اٹھاکر رومال سے ڈھک کر ایک طرف رکھ دیجیے اور نوکر کے ذریعے تنور سے پکی پکائی دو روٹیاں منگا کر سالن کے ساتھ کھائیے۔ بڑی مزے دار ہوں گی۔

    مصنّف نے دیباچے میں اپنے خاندانی حالات بھی دیے ہیں اور شجرہ بھی منسلک کیا ہے۔ ان کا تعلق دو پیازہ کے گھرانے سے ہے۔ شاعر بھی ہیں۔ بیاہ شادیوں پر ان کی خدمات حاصل کی جاسکتی ہیں۔ دیگیں پکانے کے لیے بھی۔ سہرا کہنے کے لیے بھی۔

    ہر ترکیب کے بعد مصنّف نے اپنے اشعار بھی درج کیے ہیں جس سے دونوں خصوصیتیں پیدا ہوگئی ہیں۔ باورچی خانہ کا باورچی خانہ، دیوان کا دیوان۔

    (اردو کے ممتاز ادیب، شاعر اور طنز و مزاح نگار ابنِ انشا کے شگفتہ مضمون "مکمل باورچی خانہ (جدید)، ایک ریویو” سے)

  • تیز طرّار محبوبہ اور انشا جی کی دیوانگی

    تیز طرّار محبوبہ اور انشا جی کی دیوانگی

    احمد بشیر کا کہنا ہے کہ ابنِ انشا نے بڑی سوچ بچار سے عشق لگایا تھا، ایسی محبوبہ کا چناؤ کیا تھا جو پہلے ہی کسی اور کی ہو چکی تھی اور شادی شدہ اور بچّوں والی تھی۔

    جس کے دل میں انشا کے لیے جذبۂ ہم دردی پیدا ہونے کا کوئی امکان نہ تھا۔ جس سے ملنے کے تمام راستے مسدود ہو چکے تھے۔ اپنے عشق کو پورے طور پر محفوظ کر لینے کے بعد اس نے عشق کے ساز پر بیراگ کا نغمہ چھیڑ دیا۔

    مواقع تو ملے مگر انشا نے کبھی محبوبہ سے بات نہ کی، اس کی ہمّت نہ پڑی۔ اکثر اپنے دوستوں سے کہتا: ’’یار اُسے کہہ کہ مجھ سے بات کرے۔‘‘

    اس کے انداز میں بڑی منت اور عاجزی ہوتی پھر عاشق کا جلال جاگتا، وہ کہتا: ’’دیکھ اس سے اپنی بات نہ چھیڑنا۔ باتوں باتوں میں بھرما نہ لینا۔‘‘

    محبوبہ تیز طرّار تھی، دنیا دار تھی۔ پہلے تو تمسخر اڑاتی رہی۔ پھر انشا کی دیوانگی کو کام میں لانے کا منصوبہ باندھا۔

    اس دل چسپ مشغلے میں میاں بھی شریک ہوگیا۔ انشا کو فرمائشیں موصول ہونے لگیں۔ اس پر انشا پھولے نہ سماتا۔

    دوستوں نے اسے بار بار سمجھایا کہ انشا وہ تجھے بنا رہی ہے۔ انشا جواب میں کہتا کتنی خوشی کی بات ہے کہ بنا تو رہی ہے۔ یہ بھی تو ایک تعلق ہے۔ تم مجھے اس تعلق سے محروم کیوں کر رہے ہو۔

    ایک روز جب وہ فرمائش پوری کرنے کے لیے شاپنگ کرنے گیا تو اتفاق سے میں بھی ساتھ تھا۔

    میں نے انشا کی منتیں کیں کہ انشا جی اتنی قیمتی چیز مت خریدو۔ تمہاری ساری تنخواہ لگ جائے گی۔

    انشا بولا۔ ’’مفتی جی، تمہیں پتا نہیں کہ اس نے مجھے کیا کیا دیا ہے۔ اس نے مجھے شاعر بنا دیا۔ شہرت دی۔ زندگی دی!‘‘

    انشا کی آنکھوں میں آنسو چھلک رہے تھے۔

    (ممتاز مفتی کی کتاب ’’اور اوکھے لوگ‘‘ سے ماخوذ)

  • ضرورت نہیں ہے!

    ضرورت نہیں ہے!

    اخبارات میں "ضرورت ہے” کے عنوان سے مختلف اشیا کی خرید و فروخت اور اسامیوں کے اشتہارات تو آپ نے پڑھے ہی ہوں گے، جو سنجیدہ اور واقعی ضرورت و طلب کے مطابق ہوتے ہیں، لیکن ابنِ انشا نے ان اشتہارات کو یوں اپنی شگفتہ بیانی اور شوخیِ طبع کی "نذر” کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    ہمیں درکار نہیں
    کار مارس مائنر ماڈل 1959ء بہترین کنڈیشن میں۔ ایک بے آواز ریڈیو، نہایت خوب صورت کیبنٹ، ایک ویسپا موٹر سائیکل اور دیگر گھریلو سامان پنکھے، پلنگ وغیرہ قسطوں پر یا بغیر قسطوں کے ہمیں درکار نہیں۔ ہمارے ہاں خدا کے فضل سے یہ سب چیزیں پہلے سے موجود ہیں۔

    عدم ضرورتِ رشتہ
    ایک پنجابی نوجوان، برسرِ روزگار، آمدنی تقریباً پندرہ سو روپے ماہ وار کے لیے باسلیقہ، خوب صورت، شریف خاندان کی تعلیم یافتہ دو شیزہ کے رشتے کی ضرورت نہیں ہے کیوں‌ کہ لڑکا پہلے سے شادی شدہ ہے۔ خط و کتابت صیغہ راز میں نہیں رہے گی۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار لڑکے اور لڑکیوں کے لیے رشتے مطلوب نہیں ہیں۔ پوسٹ بکس کراچی۔

    داخلے جاری نہ رکھیے
    کراچی کے اکثر کالج آج کل انٹر اور ڈگری کلاسوں میں داخلے کے لیے اخباروں میں دھڑا دھڑ اشتہار دے رہے ہیں۔ یہ سب اپنا وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کے ہاں داخل ہونا مقصود نہیں۔ ہم نے کئی سال پہلے ایم اے پاس کر لیا تھا۔

  • اتحاد و اتفاق کی خوبیاں واضح کرنے کی ترکیب!

    اتحاد و اتفاق کی خوبیاں واضح کرنے کی ترکیب!

    ایک بڑے میاں جنھوں نے اپنی زندگی میں بہت کچھ کمایا بنایا تھا، آخر بیمار ہوئے، مرض الموت میں گرفتار ہوئے۔ ان کو اور تو کچھ نہیں، کوئی فکر تھی تو یہ کہ ان کے پانچوں بیٹوں کی آپس میں نہیں بنتی تھی۔ گاڑھی کیا، پتلی بھی نہیں چھنتی تھی۔ لڑتے رہتے تھے۔ کبھی کسی بات پر اتفاق نہ ہوتا تھا حالاں‌ کہ اتفاق میں بڑی برکت ہے۔

    آخر انھوں نے بیٹوں پر اتحاد و اتفاق کی خوبیاں واضح کرنے کے لیے ایک ترکیب سوچی۔ ان کو اپنے پاس بلایا اور کہا۔ ’’دیکھو اب میں کوئی دِم کا مہمان ہوں، سب جاکر ایک ایک لکڑی لاؤ۔‘‘

    ایک نے کہا۔ ’’لکڑی؟ آپ لکڑی کا کیا کریں گے؟‘‘ دوسرے نے آہستہ سے کہا۔ ’’بڑے میاں کا دماغ خراب ہورہا ہے۔ لکڑی نہیں شاید ککڑی کہہ رہے ہیں۔ ککڑی کھانے کو جی چاہتا ہوگا۔‘‘

    تیسرے نے کہا۔ ’’نہیں کچھ سردی ہے، شاید آگ جلانے کو لکڑیاں منگاتے ہوں گے۔‘‘ چوتھے نے کہا۔ ’’بابو جی! کوئلے لائیں؟‘‘ پانچویں نے کہا۔ ’’نہیں! اپلے لاتا ہوں وہ زیادہ اچھے رہیں گے۔‘‘

    باپ نے کراہتے ہوئے کہا۔ ’’ارے نالائقو! میں جو کہتا ہوں وہ کرو۔ کہیں سے لکڑیاں لاؤ، جنگل سے۔‘‘

    ایک بیٹے نے کہا۔ ’’یہ بھی اچھی رہی، جنگل یہاں کہاں؟ اور محکمہ جنگلات والے لکڑی کہاں کاٹنے دیتے ہیں۔‘‘ دوسرے نے کہا۔ ’’اپنے آپے میں نہیں ہیں بابو جی۔ بک رہے ہیں جنون میں کیا کیا کچھ ۔ تیسرے نے کہا۔ ’’بھئی لکڑیوں والی بات اپن کی تو سمجھ میں نہیں آئی۔‘‘

    چوتھے نے کہا۔ ’’بڑے میاں نے عمر بھر میں ایک ہی تو خواہش کی ہے، اسے پورا کرنے میں کیا حرج ہے؟‘‘ پانچویں نے کہا۔ ’’اچھا میں جاتا ہوں ٹال پر سے لکڑیاں لاتا ہوں۔‘‘ چنانچہ وہ ٹال پر گیا۔

    ٹال والے سے کہا۔ ’’خان صاحب ذرا پانچ لکڑیاں تو دینا، اچھی مضبوط ہوں۔‘‘ ٹال والے نے لکڑیاں دیں۔ ہر ایک خاصی موٹی اور مضبوط ۔

    باپ نے دیکھا اس کا دل بیٹھ گیا۔ یہ بتانا بھی خلافِ مصلحت تھا کہ لکڑیاں کیوں منگائی ہیں اور اس سے کیا اخلاقی نتیجہ نکالنا مقصود ہے۔ آخر بیٹوں سے کہا۔ ’’اب ان لکڑیوں کا گٹھا باندھ دو۔‘‘

    اب بیٹوں میں پھر چہ میگوئیاں ہوئیں۔ ’’گٹھا، وہ کیوں؟ اب رسی کہاں سے لائیں۔ بھئی بہت تنگ کیا ہے اس بڈھے نے۔‘‘ آخر ایک نے اپنے پاجامے میں سے ازار بند نکالا اور گٹھا باندھا۔

    بڑے میاں نے کہا۔ ’’اب اس گٹھے کو توڑو۔‘‘

    بیٹوں نے کہا۔ ’’لو بھئی یہ بھی اچھی رہی۔ کیسے توڑیں؟ کلہاڑا کہاں سے لائیں؟‘‘

    باپ نے کہا۔ ’’کلہاڑی سے نہیں، ہاتھوں سے توڑو، گھٹنے سے توڑو۔‘‘

    حکمِ والد مرگ مفاجات۔ پہلے ایک نے کوشش کی، پھر دوسرے نے، پھر تیسرے نے، پھر چوتھے نے، پھر پانچویں نے۔ لکڑیوں کا بال بیکا نہ ہوا۔ سب نے کہا۔ ’’بابو جی! ہم سے نہیں ٹوٹتا یہ لکڑیوں کا گٹھا۔‘‘

    باپ نے کہا۔ ’’اچھا اب ان لکڑیوں کو الگ الگ کر دو، ان کی رسی کھول دو۔‘‘

    ایک نے جل کر کہا۔ ’’رسی کہاں ہے، میرا ازار بند ہے۔ اگر آپ کو کھلوانا تھا تو گٹھا بندھوایا ہی کیوں تھا۔ لاؤ بھئی کوئی پنسل دینا ازار بند ڈال لوں پاجامے میں۔‘‘

    باپ نے بزرگانہ شفقت سے اس کی بات کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔ ’’اچھا اب ان لکڑیوں کو توڑو، ایک ایک کرکے توڑو۔‘‘

    لکڑیاں چوں کہ موٹی موٹی اور مضبوط تھیں۔ بہت کوشش کی، کسی سے نہ ٹوٹیں۔ آخر میں بڑے بھائی کی باری تھی۔ اس نے ایک لکڑی پر گھٹنے کا پورا زور ڈالا اور تڑاخ کی آواز آئی۔

    باپ نے نصیحت کرنے کے لیے آنکھیں ایک دم کھول دیں۔ کیا دیکھتا ہے کہ بڑا بیٹا بے ہوش پڑا ہے۔ لکڑی سلامت پڑی ہے۔

    آواز بیٹے کے گھٹنے کی ہڈی ٹوٹنے کی تھی۔ ایک لڑکے نے کہا۔ ’’یہ بڈھا بہت جاہل ہے۔‘‘

    دوسرے نے کہا۔ ’’اڑیل ضدی۔‘‘ تیسرے نے کہا۔ ’’کھوسٹ، سنکی، عقل سے پیدل، گھامڑ۔‘‘

    چوتھے نے کہا۔ ’’سارے بڈھے ایسے ہی ہوتے ہیں، کمبخت مرتا بھی نہیں۔‘‘

    بڈھے نے اطمینان کا سانس لیا کہ بیٹوں میں کم از کم ایک بات پر تو اتفاق رائے ہوا۔ اس کے بعد آنکھیں بند کیں اور نہایت سکون سے جان دے دی۔

    (نام ور ادیب، مزاح نگار اور شاعر ابنِ انشا کا شگفتہ طنز، جس کا عنوان "اتفاق کی برکت” ہے)