Tag: ابن انشا کی کتابیں

  • ضرورت نہیں ہے!

    ضرورت نہیں ہے!

    اخبارات میں "ضرورت ہے” کے عنوان سے مختلف اشیا کی خرید و فروخت اور اسامیوں کے اشتہارات تو آپ نے پڑھے ہی ہوں گے، جو سنجیدہ اور واقعی ضرورت و طلب کے مطابق ہوتے ہیں، لیکن ابنِ انشا نے ان اشتہارات کو یوں اپنی شگفتہ بیانی اور شوخیِ طبع کی "نذر” کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    ہمیں درکار نہیں
    کار مارس مائنر ماڈل 1959ء بہترین کنڈیشن میں۔ ایک بے آواز ریڈیو، نہایت خوب صورت کیبنٹ، ایک ویسپا موٹر سائیکل اور دیگر گھریلو سامان پنکھے، پلنگ وغیرہ قسطوں پر یا بغیر قسطوں کے ہمیں درکار نہیں۔ ہمارے ہاں خدا کے فضل سے یہ سب چیزیں پہلے سے موجود ہیں۔

    عدم ضرورتِ رشتہ
    ایک پنجابی نوجوان، برسرِ روزگار، آمدنی تقریباً پندرہ سو روپے ماہ وار کے لیے باسلیقہ، خوب صورت، شریف خاندان کی تعلیم یافتہ دو شیزہ کے رشتے کی ضرورت نہیں ہے کیوں‌ کہ لڑکا پہلے سے شادی شدہ ہے۔ خط و کتابت صیغہ راز میں نہیں رہے گی۔ اس کے علاوہ بھی بے شمار لڑکے اور لڑکیوں کے لیے رشتے مطلوب نہیں ہیں۔ پوسٹ بکس کراچی۔

    داخلے جاری نہ رکھیے
    کراچی کے اکثر کالج آج کل انٹر اور ڈگری کلاسوں میں داخلے کے لیے اخباروں میں دھڑا دھڑ اشتہار دے رہے ہیں۔ یہ سب اپنا وقت اور پیسہ ضائع کر رہے ہیں۔ ہمیں ان کے ہاں داخل ہونا مقصود نہیں۔ ہم نے کئی سال پہلے ایم اے پاس کر لیا تھا۔

  • ’’چاند نگر‘‘ کے ابنِ انشا کی برسی

    ’’چاند نگر‘‘ کے ابنِ انشا کی برسی

    آج نام وَر ادیب، شاعر اور مترجم ابنِ انشا کا یومِ وفات ہے۔ مزاح نگاری ان کی پہچان تھی۔ قارئین میں ان کے فکاہیہ کالم بہت مقبول ہوئے۔ ابنِ انشا نے سفر نامے بھی لکھے جن میں اپنے اسلوب کے سبب الگ پہچان بنانے میں کام یاب رہے۔ نظم کے میدان میں بھی ابنِ انشا نے خود کو منوایا اور ان کی تخلیقات آج بھی پڑھی اور پسند کی جاتی ہیں۔

    ابنِ انشا کا اصل نام شیر محمد خان تھا، وہ 15 جون 1927ء کو موضع تھلہ ضلع جالندھر میں پیدا ہوئے۔ جامعہ پنجاب سے بی اے اور جامعہ کراچی سے اردو میں ایم اے کیا۔

    1960ء میں روزنامہ ’’امروز‘‘ کراچی میں قلمی نام سے کالم لکھنے کا آغاز کیا اور بعد میں مختلف اخبارات کے لیے کالم لکھتے رہے۔ انھوں نے نیشنل بک کونسل کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دیں اور سفارت کار بھی رہے۔

    ابنِ انشا کا پہلا مجموعہ ٔ کلام ’’چاند نگر‘‘ تھا اور بعد میں’’اس بستی کے ایک کوچے میں‘‘ اور ’’دلِ وحشی‘‘ بھی شایع ہوئی۔ ان کے سفر ناموں کو بہت شہرت ملی جس میں ان کے اسلوب نے قارئین کو متاثر کیا۔ ان کی ایک غزل انشا جی اٹھو اب کوچ کرو اس شہر میں جی کو لگانا کیا بہت مشہور ہوئی جب کہ ان کے مزاح پاروں اور سفر ناموں پر مشتمل کتب آوارہ گرد کی ڈائری، دنیا گول ہے، ابنِ بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے اور نگری نگری پھرا مسافر کو قارئین نے بے حد پسند کیا۔

    طنز و مزاح اور فکاہیہ کالموں کے مجموعوں میں‌ اردو کی آخری کتاب، خمارِ گندم، باتیں انشا جی کی شامل ہیں جب کہ ان کا ترجمہ قصہ ایک کنوارے کا بھی کتابی شکل میں شایع ہوا۔

    ابنِ انشا 11 جنوری 1978ء کو لندن میں انتقال کرگئے۔ وہ سرطان کے موذی مرض میں مبتلا تھے۔