Tag: ابن بطوطہ

  • فاہیان: پہلا چینی سیّاح اور بدھ مت کا عالِم جو ہندوستان آیا

    فاہیان: پہلا چینی سیّاح اور بدھ مت کا عالِم جو ہندوستان آیا

    چندر گپت موریہ نے ہزار ہا سال پہلے خطّۂ ہندوستان میں ایک مستحکم اور وسیع سلطنت کی بنیاد رکھی تھی۔ محققین نے قبلِ مسیح کے تہذیبی آثار اور مخطوطات کا جائزہ اور عمیق نظری سے مطالعہ کرنے کے بعد اسے ایک مضبوط نظامِ حکومت کی حامل ترقّی یافتہ سلطنت کہا ہے۔

    اس زمانے میں یونان کا میگستھنیز نامی ایک سفیر وہاں آیا اور اس نے ہندوستانی تہذیب پر اپنی ایک تصنیف انڈیکا کے نام سے چھوڑی ہے۔ اس کے بعد چین کے فاہیان اور ہیون سانگ نامی سیّاحوں کے سفر ناموں سے بھی قدیم ہندوستان کو سمجھنے میں‌ مدد ملتی ہے۔

    قدیم زمانے سے ہی ہندوستان علم و ادب اور تہذیب و مذہب کا گہوارہ رہا ہے۔میگستھنیز کی کتاب انڈیکا کو چندر گپت موریہ کے عہد کا ایک اہم ماخذ تصور کیا جاتا ہے جس کی مدد سے قدیم ہندوستان کی تاریخ مرتب ہوتی ہے۔ ہندوستان پر سکندرِاعظم کے حملے کی تمام تفصیلات اس میں موجود ہیں۔

    یہ سفر نامہ تیسری صدی قبل مسیح کے ہندوستانی تہذیب و تمدن کا آئینہ ہے۔میگستھنیز کے بعد ہندوستان آنے والے بیرونی سیاحوں میں فاہیان، ہیون سانگ، ابوریحان البیرونی اور ابنِ بطوطہ وغیرہ اہم نام ہیں۔ جنہوں نے اپنے رودادِ سفر میں اس عہد کے سیاسی، سماجی، اقتصادی، تہذیبی اور ثقافتی ہندوستان کا نقشہ کھینچا ہے۔

    فاہیان ایک چینی سیّاح تھا جو پانچویں صدی عیسوی میں بدھ مذہب کی تعلیم کی غرض سے چندر گپت کے زمانے میں ہندوستان آیا تھا۔ وہ یہاں پندرہ برسوں تک رہا اور مختلف مقامات کی سیر کی۔ اس نے اپنے رودادِ سفر کو فاہیان ژوان (Fahein Zuhan) میں درج کیا ہے جس میں ہندوستان سے متعلق بہت سی باتیں ہیں۔

    اس نے ہندوستان کے سماجی ڈھانچے پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ بقول فاہیان: ”ملک میں خوش حالی کا دور دورہ ہے۔ راجا نرم دل، مشفق اور رعایا پر مہربان ہے۔ غریبوں کے علاج کے لیے اسپتال بنائے گئے ہیں اور عمّالِ سلطنت کو سالانہ مشاہرے دینے کا رواج ہے۔ شراب نوشی اور گوشت خوری کا رواج نظر نہیں آتا۔قانون نرم اور حصولِ انصاف آسان ہے۔ بدھ مت عام لوگوں کا مذہب ہے لیکن اب اس پر برہمن مت دوبارہ غلبہ حاصل کر رہا ہے۔” (بحوالہ:‌ اردو ادب میں سفر نامہ لاہور، 1989)

    چنڈالوں کا ذکر اس انداز سے کیا ہے:
    ” گندے لوگوں، کوڑھیوں اور اچھوتوں کو چنڈال کہتے ہیں۔ یہ لوگ سب سے الگ تھلگ شہر کے باہر رہتے ہیں یا بازار میں داخل ہوتے ہیں تو اپنی آمد کا اعلان کرتے جاتے ہیں تاکہ لوگ راستے سے ہٹ جائیں اور ان کے نزدیک نہ آنے پائیں۔ گوشت کا کاروبار صرف چنڈال لوگ کرتے ہیں اور وہ بھی شہر سے باہر۔”
    (بحوالہ: ہمارا قدیم سماج، سیّد سخی حسن نقوی)

    ہیون سانگ ساتویں صدی عیسوی میں ہرش وردھن کے زمانے میں چین سے ہندوستان آیا تھا۔ اس نے راجا ہرش وردھن کے علاوہ کا مروپ، گاوڑ، مگدھ، چالوکیوں اور پلوؤں کی سلطنتوں کا سفر کیا۔ اس نے اپنے رودادِ سفر کو سیوکی (Sioki) نامی کتاب میں تفصیل سے بیان کیا ہے۔ وہ ہرش وردھن کے دربار میں 8 برسوں تک رہا۔ اس نے اپنی کتاب میں حکومتِ ہرش کو خاص جگہ دی ہے۔ ہیون سانگ کے بیان کے مطابق قنوج اس وقت ایک قلعہ بند، خوب صورت شہر تھا۔ ہرش وردھن نے 643ء میں ایک بہت بڑی مذہبی مجلس کا انعقاد کیا تھا جس میں بڑے بڑے راجاؤں اور مختلف دھرموں کے عالموں نے شرکت کی تھی۔ اس اجتماع میں ہیون سانگ نے بودھ مت کے فاہیان فرقے کے پیغام کی توضیح کی تھی۔

    ہیونگ سانگ نے یہاں تک لکھا ہے کہ راجا ہرش وردھن ہر پانچ سال کے بعد پریاگ کے مقام پر ایک مذہبی میلہ کا انعقاد کرتا تھا جو تین مہینے تک مسلسل لگا رہتا تھا۔ شاہی خزانے کی ساری دولت غریبوں میں تقسیم کر دی جاتی تھی حتیٰ کہ ہرش وردھن اپنے جسم کا لباس بھی تقسیم کر دیتا تھا۔

    ہیون سانگ نے اپنی کتاب میں ذات پات کی بھید بھاؤ کا ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ امرا اور برہمن عیش و عشرت کی زندگی گزارتے تھے۔ شودر لوگ زراعت پیشہ تھے۔ معاشرے میں چھوت چھات جیسی لعنت موجود تھی۔ ایک شہر یا گاؤں میں داخل ہونے سے قبل اچھوتوں کو باآوازِ بلند برہمنوں کو اپنی موجودگی سے آگاہ کرنا پڑتا تھا۔

    ہیون سانگ کی تحریروں سے ہمیں نالندہ میں واقع ایک بودھ یونیورسٹی سے متعلق بھی تفصیلی معلومات حاصل ہوتی ہیں۔ یہ اس زمانے کی ایک مشہور درس گاہ تھی اس میں تقریباً دس ہزار طلبا زیرِ تعلیم تھے۔ جس کے اخراجات حکومتِ وقت اور دو سو گاؤں مل کر برداشت کرتے تھے۔

    اس نے اپنے سفر نامے میں بطور خاص متنازع خطّہ وادئ کشمیر کا بھی ذکر کیا ہے۔ اس نے کشمیر کے متعلق صرف پندرہ صفحات سیاہ کیے ہیں جس میں بڑی قطعیت اور جامعیت پائی جاتی ہے۔ یہ ہندوستان کی قدیم تاریخ و تمدن کے ساتھ ساتھ کشمیر کی تہذیب و تمدن کو بھی پیش کرتے ہیں۔ یہ ہمیں پہلی مرتبہ اس بودھ کونسل کی اطلاع بہم پہنچاتی ہے جس میں بودھ دھرم کے بڑے فرقے (مہایان) فرقے کی مقدس کتاب ترتیب دی گئی۔ یہ بودھ مت کی تیسری کونسل تھی جس کی ادبی اہمیت اپنی جگہ مسلّم ہے۔ اس کونسل کی تمام کارستانی تانبے کی تختیوں پر نقش کروائی گئی۔

    بقول ڈاکٹر مشتاق حیدر:
    “آج تک یہ شان دار تہذیبی تودہ، مذہبی خزانہ، پُر نور صحیفہ اور پُراسرار امانت کسی جنگل کی گہرائی میں خاموشی سے محوِ آرام ہے جیسے کسی محرمِ راز کا انتظار کر رہا ہو جس کی آنکھوں میں بصیرت کا سرمہ اور سینے میں معرفت کے دیے جگمگا رہے ہوں، جس کے سامنے یہ اپنا ساکت وجود کھولے اور ایک سیلابِ نور بن کر ابھرے۔ اگر ہیون سانگ ہمیں اس بارے میں معلومات فراہم نہیں کرتے تو عالمی تاریخ کا ایک اہم سنگِ میل گمنامی کی نذر ہو جاتا۔” (اردو سفر ناموں میں ہندوستانی تہذیب و ثقافت از مرتب خواجہ محمد اکرام الدّین)

    فاہیان ایک چینی سیّاح تھا جو بدھ مت کا پیروکار اور ایک مصلح تھا، اس نے بدھ مت کے ان مقدس مقامات کی زیارت کی غرض سے ہندوستان کا سفر کیا جو آج کے دور میں‌ پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش، نیپال، بھوٹان اور سری لنکا کی سرحدوں میں آثار اور کھنڈرات کی صورت موجود ہیں یا ان کا نام و نشان تک باقی نہیں رہا ہے۔

    فاہیان کا یہ سفر قدیم دور کی تاریخ میں اس لیے اہمیت کا حامل ہے کہ اس سے قبل کسی بھی عالم اور مصنّف کا نشان اور ذکر نہیں‌ ملتا جو چین سے ہندوستان آیا ہو، محققین کا خیال ہے کہ فاہیان 399ء سے 412ء تک ہندوستان میں رہا۔

    (شیخ ظہورعالم کے مضمون سے ماخوذ)

  • نام وَر سیّاح ابنِ جبیر کا تذکرہ جن کے سفرنامے کا کئی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا

    نام وَر سیّاح ابنِ جبیر کا تذکرہ جن کے سفرنامے کا کئی زبانوں‌ میں ترجمہ کیا گیا

    ابنِ جبیر کے سفر نامے کا مطالعہ بارہویں صدی عیسوی کے مشرقِ وسطی کے عمومی حالات جاننے کے لیے کیا جائے تو وہ معلومات کا گنجینہ ثابت ہوگا۔

    اگر ہم کسی زمانے کے سماجی یا معاشی حالات یا روزمرّہ کی چھوٹی چھوٹی رحمتوں اور زحمتوں کے بارے میں کچھ جاننا چاہیں تو سفر نامے، آپ بیتیاں اور روزنامچے ہمیں بہت اہم اور نہایت دل چسپ معلومات فراہم کرسکتے ہیں۔

    مثلاً ابنِ جبیر کو حیرت ہوئی کہ اسکندریہ میں سورج ڈھلنے کے بعد بھی کاروباری سرگرمیاں تجارتی مشاغل جاری رہتے۔ یہ دراصل بڑے شہر اور اہم تجارتی مرکز کی خاص نشانی ہے۔ اس سے اسکندریہ کی اقتصادی اور تجارتی اہمیت ثابت ہوتی ہے۔

    ابنِ جبیر کا وطن اندلس اور تعلق غرناطہ سے تھا۔ وہ قرونِ وسطیٰ میں ایک نہایت قابل جغرافیہ نگار اور سیّاح مشہور ہوئے۔ مؤرخین نے ان کا سنِ پیدائش 1145ء لکھا ہے۔ ان کی وفات آج ہی کے دن 1217ء میں ہوئی تھی۔ وہ عرب گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور بنو کنانہ قبیلے کے فرد تھے۔ ابنِ جبیر کے والد سرکاری خدمت گار تھے۔ انھوں نے اپنے بیٹے کی تعلیم و تربیت کا خوب اہتمام کیا تھا۔

    ابنِ جبیر کا مشہور سفرنامہ آج سے لگ بھگ آٹھ سو سال قبل تحریر کیا گیا تھا۔ انھوں نے اپنے سفرِ حج کے لیے شام، مصر، فلسطین، عراق، لبنان میں قیام کیا اور وہاں کے مکمل احوال و آثار کو اپنے مشاہدات کے ساتھ قلم بند کرلیا۔ ان کے سفر نامے میں حجازِ مقدس کے حالات و واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں۔ ابنِ جبیر ملکوں کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی حالات کے ساتھ ساتھ اپنے سفر نامے میں مذہب و عقائد اور رسم و رواج کی تفصیل بھی بیان کی ہے۔

    یہ سفر نامہ فصیح عربی زبان میں تھا۔ اس کے متعدد قلمی نسخے دنیا کے مختلف کتب خانوں میں موجود ہیں اور تقریباً تمام ترقی یافتہ زبانوں میں اس کے تراجم ہو چکے ہیں۔

    اس زمانے میں مکّہ اور مدینہ اہم مقدس مقامات کے سبب عظیم زیارت گاہ جب کہ اسلامی دنیا میں‌ بغداد، دمشق اور اسکندریہ علم و فنون کی سرپرستی، تمدن اور تہذیب کے مراکز کے طور پر عالم میں‌ مشہور تھے۔ مؤرخین کے مطابق یہی وجہ ہے کہ اکثر مسلمان سیّاح ان ممالک کا رخ کرنا اور وہاں کے علمی و تجارتی مراکز کا احوال اپنی آنکھوں سے دیکھنے کے مشتاق ہوتے تھے۔ ابنِ جبیر فروری 1183ء میں ہسپانیہ سے روانہ ہوئے تھے۔ انھوں نے حج کی سعادت حاصل کرنے کے بعد دو برس سیّاحت کرتے ہوئے گزارے۔

  • دمشق: جب ہر خاص و عام ننگے پاؤں‌ گلیوں میں نکل آیا

    دمشق: جب ہر خاص و عام ننگے پاؤں‌ گلیوں میں نکل آیا

    ابن بطوطہ سے کون واقف نہیں۔ سیر و سیّاحت کے دلدادہ ابنِ بطوطہ ایک مؤرخ اور وقائع نگار تھے جنھوں نے نوجوانی میں حج کی ادائیگی کے ساتھ دنیا بھر کی سیر کرنے کی ٹھانی اور گھر سے نکل پڑے۔

    اپنے اس سفر میں‌ انھوں‌ نے مختلف ملکوں میں قیام کے دوران سیر و سیّاحت کا شوق پورا کیا۔ انھیں‌ حکم رانوں، امرا اور اپنے وقت کی عالم فاضل شخصیات اور قابل لوگوں سے ملاقات کرنے کا موقع ملا اور انھوں‌ نے سارا آنکھوں‌ دیکھا حال اور ماجرا کتاب میں محفوظ کرلیا۔ ان کا سفر نامہ آج بھی مقبول ہے۔

    ابنِ بطوطہ کے سفرنامے کے مختلف اردو تراجم آج بھی ذوق و شوق اور دل چسپی سے پڑھے جاتے ہیں۔ انہی میں‌ سے ایک ترجمے سے یہاں وہ سطور نقل کی جارہی ہیں‌ جس میں ابنِ بطوطہ نے اپنے سفرِ شام کے دوران پھوٹ پڑنے والی وبا کا تذکرہ کیا ہے۔

    ابنِ بطوطہ لکھتے ہیں:
    "میں عظیم طاعون کے زمانے میں ربیع الآخر سن 749 ھجری (1348عیسوی) کے آخری دنوں میں دمشق پہنچا۔ وہاں‌ دیکھا کہ لوگ مسجد میں‌ حیران کُن حد تک تعظیم میں مشغول ہیں۔ بادشاہ کے نائب کے حکم سے منادی کی گئی کہ دمشق کے سب لوگ تین دن روزہ رکھیں اور بازاروں میں کھانا نہ پکائیں۔ لوگوں نے لگا تار تین دن روزہ رکھا۔ آخری روزہ جمعرات کے دن تھا۔ اس کے بعد تمام امرا، شرفا، جج، فقہا اور مختلف طبقاتِ عصر جامع مسجد میں جمع ہوئے اور ان سے مسجد بھر گئی۔

    انھوں نے یہاں جمعہ کی رات نماز، ذکر اور دعا میں گزاری۔ اس کے بعد فجر کی نماز پڑھی۔ اس کے بعد وہ سب کے سب پیدل باہر نکلے۔ ان کے ہاتھوں میں قرآن مجید تھا اور امرا بھی ننگے پاؤں تھے۔ شہر کے تمام لوگ، مرد عورتیں، چھوٹے بڑے، سب کے سب نکلے۔ یہودی اپنی تورات کے ساتھ نکلے۔ عیسائی انجیل کے ساتھ نکلے۔ ان کی عورتیں اور بچے بھی ان کے ہم راہ تھے۔ وہ سب کے سب اللہ تعالی کے حضور عجز و انکسار کے ساتھ اپنے کتاب اور انبیا کا واسطہ دے کر دعا کر رہے تھے۔

    وہ پیدل (باہر کی) مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ یہاں پہنچ کر وہ زوال کے وقت تک عاجزی سے رو رو کر دعا کرتے رہے۔ اس کے بعد وہ شہر کی جانب پلٹے اور نماز جمعہ ادا کی۔ اس کے بعد اللہ تعالی نے وبا کو ہلکا کیا تو اس وقت مرنے والوں کی تعداد روزانہ 2000 تک پہنچ گئی تھی۔”

    اپنے اس قیام اور قریبی شہروں‌ کے سفر کی روداد لکھتے ہوئے ابنِ بطوطہ نے بتایا ہے کہ وبا ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اور انھیں‌ جن لوگوں‌ سے ملنا تھا ان میں سے بھی اکثر موت کے منہ میں‌ جاچکے تھے۔

  • فقہا اور اُمرا بھی اُس صاحبِ کرامات کے منتظر تھے!

    فقہا اور اُمرا بھی اُس صاحبِ کرامات کے منتظر تھے!

    آئیے ابنِ بطوطہ کی وساطت سے سلطنتِ فارس کے تاریخی شہر شیراز کے ایک بزرگ سے ملتے ہیں۔

    اس مشہور مسلمان سیاح کو نوجوانی میں ملکوں ملکوں گھومنے کا موقع ملا اور اپنے وقت کے بادشاہوں، باکمالوں، مشہور منصب داروں، علما اور بزرگان دین کی خدمت میں حاضری کا شرف حاصل ہوا. ابنِ بطوطہ نے اپنے اس سفر کو اپنی قابلیت اور مشاہدے کی قوت سے نہایت خوبی سے رقم کیا ہے۔

    اسی سفر نامے کے ایک ورق پر شیراز میں اسماعیل بن محمد خداداد کی زیارت کا احوال ابنِ بطوطہ نے کچھ یوں رقم کیا ہے۔

    "شیراز جانے کا قصد یوں کیا کہ میں وہاں وحیدُ الشیخ، القاضی الامام، صاحبِ کراماتِ ظاہرہ اسماعیل بن محمد خداداد کی زیارت سے مشرف یاب ہونا چاہتا تھا۔ جب میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میرے ساتھ تین شخص اور تھے۔

    ہم نے دیکھا کہ فقہا اور شہر کے بڑے لوگ آپ کا انتظار کرتے ہیں۔ چناں چہ جب آپ نمازِ عصر کے لیے باہر نکلے تو آپ کے ساتھ محبُ الدین اور علاءُ الدین آپ کے دونوں بھتیجے اور سگے بھائی روحُ الدین بھی تھے۔

    میں نے سلام کیا تو آپ نے معانقہ فرمایا۔ پھر میرا ہاتھ پکڑے ہوئے اپنے مصلیٰ تک چلے گئے۔ پھر ہاتھ چھوڑ دیا اور اشارہ کیا کہ میں نماز ادا کروں۔ سب نے نماز ادا کی۔

    پھر آپ کے سامنے کتاب المصابیح اور صاغانی کی شوارقُ الانوار پڑھی گئی جس کے بعد قضا کے متعلق واقعات بیان ہوئے۔

    میں نے دیکھا کہ اس کے بعد شہر کے بڑے لوگ سلام کے لیے آگے بڑھے۔

    پھر آپ جیسے بزرگ بڑی شفقت فرمائی اور مجھے بلاکر میرے حالات دریافت فرمائے اور دیگر احوال سنا۔ میں نے خدمتِ عالی میں سب حالات بیان کیے۔”

    اس شہر کی تاریخ ہزاروں سال قدیم ہے اور اس نے مختلف ادوار میں قرار و یلغار سبھی کچھ دیکھا۔ فارسی کے مشہور شاعر حافظ شیرازی اور شیخ سعدی بھی اسی شہر کے تھے۔