Tag: ابن صفی

  • آج نام وَر جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی برسی منائی جارہی ہے

    آج نام وَر جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی برسی منائی جارہی ہے

    آج شہرۂ آفاق جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کا یومِ وفات منایا جارہا ہے، لیکن 26 جولائی ان کی تاریخِ پیدائش بھی ہے۔ ابنِ صفی اپنی 52 ویں سال گرہ کے دن 1980ء میں وفات پاگئے تھے۔

    ان کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ ابنِ صفی 1928ء کو قصبہ نارہ، ضلع الہ آباد میں‌ پیدا ہوئے۔ انھوں نے اپنے قلمی نام سے دنیا بھر میں‌ پہچان بنائی اور اردو زبان میں جاسوسی ادب کے اوّلین اور مقبول ترین قلم کار کی حیثیت سے آج بھی یاد کیے جاتے ہیں۔

    ابنِ صفی شاعر بھی تھے۔ انھوں نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز غزل گوئی سے کیا۔ انھوں نے اسرار ناروی کے نام سے شاعری کی اور بعد میں نثر کی طرف متوجہ ہوئے تو طغرل فرغان کے نام سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھے۔ 1952ء میں ابنِ صفی نے جاسوسی کہانیاں‌ اور پھر باقاعدہ ناول لکھنے کا سلسلہ شروع کیا اور یہی ان کی شہرت اور مقبولیت کا سبب بنا۔

    ان کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ تھا جو 1952ء میں ہندوستان سے شایع ہوا۔ اسی سال ابنِ صفی ہجرت کرکے پاکستان آگئے اور یہاں انھوں نے ’’عمران سیریز‘‘ کے نام سے جاسوسی کہانیاں لکھنے کا سلسلہ شروع کیا، اس عنوان کے تحت ان کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ اکتوبر 1955ء میں شائع ہوا۔ وہ جلد ہی کہانیوں اور ناولوں کے رسیا قارئین میں مقبول ہوگئے، انھوں نے اس سلسلے کے مجموعی طور پر 120 ناول تحریر کیے اور ان کا آخری ناول ’’آخری آدمی‘‘ تھا جو ان کی وفات کے بعد 11 اکتوبر 1980ء کو شائع ہوا۔ فریدی، عمران اور حمید ان کی جاسوسی کہانیوں‌کے مقبول ترین کردار ہیں۔

    عمران سیریز کی مقبولیت کے دنوں میں اکتوبر1957ء میں ابنِ‌ صفی نے یہاں جاسوسی دنیا کا سلسلہ دوبارہ شروع کیا تو پاکستان میں ان کا پہلا ناول ’’ٹھنڈی آگ‘‘ تھا۔ 1960ء سے 1963ء کے دوران ابنِ صفی شیزوفرینیا کے مرض میں مبتلا رہے جس کی وجہ سے تین سال تک ان کا کوئی ناول شائع نہیں ہوا۔ 1963ء میں ابنِ صفی کی صحت یابی کے بعد ان کا ناول ’’ڈیڑھ متوالے‘‘ شائع ہوا تو ان کے مستقل قارئین نے زبردست پذیرائی دی اور ناول کو ہاتھوں ہاتھ لیا، کہتے ہیں صرف ہفتے بھر میں ناشر کو اس کا دوسرا ایڈیشن شائع کرنا پڑا جو اردو فکشن کی تاریخ میں ایک ریکارڈ ہے۔

    ابن صفی کے دو ناولوں پر فلم بھی بنائی گئی تھی۔ پاکستان کے اہم ادیبوں اور قلم کاروں ہی نے نہیں بلکہ ابنِ صفی کی تخلیقات کو نام وَر غیر ملکی ادیبوں اور نقّادوں نے بھی سراہا اور انھیں سرّی ادب کا بڑا قلم کار مانا ہے۔

    کراچی میں‌ وفات پانے والے ابنِ صفی پاپوش نگر کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے بعد از مرگ انھیں ستارۂ امتیاز سے نوازا۔

  • 1958 میں‌ منظرِ عام پر آنے والا "وبائی ہیجان”

    1958 میں‌ منظرِ عام پر آنے والا "وبائی ہیجان”

    دنیا کا کوئی ملک کرونا کی وبا سے محفوظ نہیں‌ ہے۔ جو ممالک اس وبا کی شدّت میں‌ کمی کے بعد لاک ڈاؤن ختم کرچکے تھے، وہ کرونا وائرس کے کیسز میں تیزی کے سبب دوبارہ بندشِ‌عامّہ کی طرف جاتے نظر آرہے ہیں اور ساتھ ہی اس وائرس کو ختم کرنے کے لیے ویکسین تیار کرنے کی کوششیں‌ بھی جاری ہیں۔

    جن دنوں‌ کرونا وائرس اور اس وبا کے پھیلنے کا شور نیا نیا تھا تو اس سے متعلق کئی مفروضے اور تصورات کے ساتھ من گھڑت اور من چاہی باتیں‌ بھی سنی گئیں۔ انہی دنوں‌ چند فلموں اور ایسے ناولوں کا بھی خوب چرچا ہوا جن کی کہانی کسی ایسے ہی پُراسرار وائرس اور ویکسین سے متعلق تھی، لیکن شاید بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ شہرہ آفاق ناول نگار ابنِ صفی بھی نصف صدی قبل ایسے ہی پُراسرار وائرس اور وبا کی کہانی لکھ چکے ہیں۔

    ابنِ صفی کے اس ناول کا نام تھا "وبائی ہیجان” جو 1958 میں منظرِ عام پر آیا۔ یہ ناول عالمی طاقتوں کے مابین حیاتیاتی جنگ کے تصور پر مبنی ہے جس میں‌ بیکٹیریا اور وائرس کے ذریعے دشمن کو نقصان پہنچایا جاتا ہے۔ ابنِ صفی کے اس ناول کا ایک پیرا ہم یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

    ابنِ صفی نے اس جاسوسی ناول میں‌ ایک بیکٹیریا کے ذریعے عام لوگوں‌ کو بیمار ہوتا اور خوف زدہ دکھایا ہے جس سے کاروبارِ زندگی ٹھپ ہو کر رہ جاتا ہے۔ اس وبا کا تدارک کرنے کے لیے مختلف ممالک کے طبی مشن حرکت میں‌ آتے ہیں، لیکن کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں نکلتا۔ ایک موقع پر ناول کے اہم کردار کیپٹن حمید سے گفتگو کرتے ہوئے دوسرا کردار ڈاکٹر سانگلو کہتا ہے:

    "وبائی امراض کے جراثیم مختلف ذرایع سے ہمارے سسٹم پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یا تو وہ فضا میں موجود ہوتے ہیں اور ہوا کے ساتھ ہمارے جسم میں پہنچتے ہیں یا اس پانی میں ان کا وجود ہوتا ہے جسے ہم پیتے ہیں یا پھر کیڑے مکوڑوں کے ذریعے ہمارے جسم میں داخل ہوتے ہیں۔ ہم نے سارے ذرایع چھان مارے، لیکن ہمیں نئے قسم کے جراثیم کہیں بھی نہ ملے۔ ایک دن میں تجربہ گاہ میں سلائڈ پر مشتبہ پانی کی چند بوندیں ڈال کر خرد بین سے ان کا جائزہ لے رہا تھا کہ کسی نے مذاقاً اس پر ایک چٹکی نمک ڈال دیا۔”

    ان کرداروں‌ کی گفتگو جاری رہتی ہے اور ڈاکٹر بتاتا ہے:
    "شاید اس نے ایسا کرتے وقت ڈاکٹر گوہن پر پھبتی بھی کسی تھی، لیکن کیپٹن مجھے تو خدا کی قدرت کا تماشہ نظر آگیا۔ نمک کی چٹکی پڑتے ہی لاتعداد نارنجی رنگ کے ذرّات سے نظر آنے لگے، لیکن یہ غیر متحرک تھے، بس پھر یہیں سے ہمارے کام کا آغاز ہوا۔ نمک نہ صرف ان کے لیے سم قاتل ہے بلکہ ان کی رنگت بھی تبدیل کر دیتا ہے۔ رنگت تبدیل ہونے سے قبل انھیں خرد بین سے بھی نہیں دیکھا جا سکتا۔ یعنی آپ انھیں صرف مردہ حالت میں دیکھ سکتے ہیں، اگر یہ زندہ ہوں تو دنیا کی طاقت ور ترین خرد بین سے بھی نہیں دیکھے جاسکتے۔”

    کہانی آگے بڑھتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ گوہن نام کا ایک مغربی ڈاکٹر مسیحا بن کر آیا ہے اور وبائی مرض سے نجات کے لیے چائے میں نمک ملا کر پینے کا نسخہ تجویز کررہا ہے۔ یہ علاج کارگر ثابت ہوتا ہے اور گوہن راتوں رات مقبول ہو جاتا ہے۔ لوگ خوف سے باہر نکلنے لگتے ہیں اور بیماری کا زور ٹوٹ جاتا ہے۔

    اس ناول کا ہیرو کرنل فریدی بعد میں اس سازش سے پردہ اٹھاتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک سازش تھی اور بیماری پھیلانے والا جرثوما لیبارٹری میں‌ تیار کیا گیا تھا۔

  • شہرۂ آفاق ادیب ابنِ صفی کے لیے ستارۂ امتیاز

    شہرۂ آفاق ادیب ابنِ صفی کے لیے ستارۂ امتیاز

    شہرۂ آفاق ناول نگار ابنِ صفی کو حکومتِ پاکستان کی جانب سے ستارۂ امتیاز دیا گیا ہے۔ جاسوسی کی دنیا کے مقبول ترین کردار علی عمران کے خالق کو بعد از مرگ یومِ دفاع پر اس اعزاز سے نوازا گیا ہے۔ ایوانِ صدر سمیت صوبوں میں گورنر ہاؤس میں فنونِ لطیفہ سے وابستہ جن شخصیات کو اعزازات دیے گئے ان میں ابنِ صفی شامل کا نام شامل تھا جو 1980 میں انتقال کرگئے تھے۔

    ان کا اصل نام اسرار احمد تھا، جو دنیا بھر میں‌ قلمی نام ابنِ صفی سے پہچانے گئے۔ 1948 میں بی اے کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسرار احمد نے سنجیدگی سے قلم تھاما اور ان کی پہلی کہانی ایک جریدے میں شایع ہوئی جس کے بعد ہر ماہ ایک جاسوسی ناول لکھنے کا آغاز ہوا اور انھوں‌ نے خود کو ابنِ صفی کے نام سے متعارف کروایا اور آج بھی جاسوسی ادب میں یہ نام سرِفہرست اور نہایت معتبر ہے۔

    وہ 1952 میں پاکستان آگئے تھے اور یہاں جاسوسی دنیا کا وہ لازوال اور مقبول ترین کردار سامنے لائے جس نے گویا انھیں شہرت کے ہفت آسمان طے کروا دیے، یہ کردار تھا علی عمران۔

    یہ 1955 کی بات ہے اور اس کے بعد 1957 سے 1960 تک ابنِ صفی کا تخلیقی جوہر عروج پر نظر آیا۔ انھوں نے فریدی اور حمید جیسے جاسوسی کردار متعارف کروائے اور اسی دوران جاسوسی ناولوں شیدا قارئین عمران سیریز کے دیوانے ہوچکے تھے۔

  • اسرار احمد کے یومِ پیدائش پر ابنِ صفی کی برسی!

    اسرار احمد کے یومِ پیدائش پر ابنِ صفی کی برسی!

    26 جولائی شہرۂ آفاق جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی تاریخِ پیدائش ہی نہیں‌ یومِ وفات بھی ہے۔ 1928 کو قصبہ نارہ، ضلع الہ آباد میں‌ پیدا ہونے والے اسرار احمد کی زندگی کا سفر 1980 میں تمام ہوا۔ اس سفر کے دوران اسرار احمد نے دنیا بھر میں‌ اپنے قلمی نام ابنِ صفی سے پہچان بنائی اور آج بھی ان کا نام جاسوسی ادب میں‌ سرِفہرست اور معتبر ہے۔

    ابنِ صفی نے اپنے تخلیقی سفر کا آغاز غزل گوئی سے کیا اور اسرار ناروی تخلص اختیار کیا۔ بعد میں‌ وہ نثر کی طرف متوجہ ہوئے اور طغرل فرغان کے نام سے طنزیہ اور مزاحیہ مضامین لکھے۔ 1952 میں ابنِ صفی نے جاسوسی کہانیاں‌ اور پھر باقاعدہ ناول لکھنے کا سلسلہ شروع کیا جس نے انھیں شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔

    ان کا پہلا ناول ’’دلیر مجرم‘‘ 1952 میں شایع ہوا اور اسی سال وہ ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔ یہاں انھوں نے’’عمران سیریز‘‘ کے عنوان سے ایک اور سلسلہ شروع کیا جس کا پہلا ناول ’’خوفناک عمارت‘‘ 1955 میں شایع ہوا۔

    ابن صفی کے دو ناولوں پر فلم بھی بنائی گئی۔ اپنی زندگی کی 52 ویں سال گرہ کے روز وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے ناولوں کے کردار آج بھی قارئین کو یاد ہیں‌۔ جاسوسی ادب میں ابنِ صفی کی تخلیقات کو دنیا بھر میں‌ سراہا گیا اور اپنے دور کے کئی اہم اور نام ور غیر ملکی ادیبوں اور نقادوں نے بھی ان کے فن اور تخلیقی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔

  • جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی ایک غزل!

    جاسوسی ناول نگار ابنِ صفی کی ایک غزل!

    تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کر کے پاکستان آنے والے والے اسرار احمد کو ان کے قلمی نام ابنِ صفی سے لازوال شہرت نصیب ہوئی۔

    وہ اردو زبان میں‌ جاسوسی ادب تخلیق کرنے کے حوالے سے دنیا بھر میں‌ پہچانے گئے۔ 1952 میں ابنِ صفی کا پہلا ناول دلیر مجرم کے نام سے شایع ہوا تھا۔ فریدی، عمران اور حمید ان کی جاسوسی کہانیوں‌کے مقبول ترین کردار ہیں۔

    ابنِ صفی کی وجہِ شہرت تو جاسوسی ناول نگاری ہے، مگر وہ ایک خوب صورت شاعر بھی تھے۔ غزلوں‌ کے علاوہ انھوں‌ نے فلموں‌ کے لیے گیت بھی تخلیق کیے۔

    معروف گلوکار حبیب ولی محمد نے ان کی ایک غزل گائی تھی جو بہت مشہور ہوئی۔ ابنِ صفی کی یہ غزل آپ کے ذوقِ مطالعہ کی نذر ہے۔

    راہِ طلب  میں   کون  کسی  کا،  اپنے  بھی  بیگانے  ہیں
    چاند سے مکھڑے، رشکِ غزالاں،سب جانے پہچانے ہیں

    تنہائی سی  تنہائی  ہے،  کیسے  کہیں،  کیسے سمجھائیں
    چشم و لب و رخسار کی تہ میں روحوں کے ویرانے ہیں

    اُف یہ تلاشِ حسن و حقیقت، کس جا ٹھہریں، جائیں کہاں
    صحنِ چمن میں پھول کھلے ہیں، صحرا میں دیوانے ہیں

    ہم  کو  سہارے  کیا  راس آئیں، اپنا سہارا ہیں ہم  آپ
    خود ہی صحرا، خود ہی دِوانے، شمع نفس پروانے ہیں

    بالآخر  تھک ہار  کے  یارو! ہم  نے  بھی  تسلیم  کیا
    اپنی ذات سے عشق ہے سچا،  باقی سب  افسانے  ہیں

  • عمران سیریز کے خالق ’ابن صفی‘ کا یومِ پیدائش اور برسی

    عمران سیریز کے خالق ’ابن صفی‘ کا یومِ پیدائش اور برسی

    اردو زبان میں جاسوسی ادب کے بانی اور مشہور زمانہ جاسوسی کرداروں کے تخلیق کار، ناول نگار اور شاعر ابن صفی کا آج یوم پیدائش اور یوم وفات ہے، اردو میں جاسوسی ادب کی تاریخ ان کے بغیر نامکمل ہے۔

    ابن صفی کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ وہ 26 جولائی 1928 کو اتر پردیش کے ایک گاؤں نارا میں پیدا ہوئے۔اپنی پیدائش کا واقعہ وہ خود یوں بیان کرتے ہیں، ’جولائی 1928 کی کوئی تاریخ تھی اور جمعہ کی شام دھندلکوں میں تحلیل ہو رہی تھی کہ میں نے اپنے رونے کی آواز سنی۔ ویسے دوسروں سے سنا کہ میں اتنا نحیف تھا کہ رونے کے لیے منہ تو کھول لیتا تھا لیکن آواز نکالنے پر قادر نہیں تھا۔ میرا خیال ہے کہ دوسروں کو میری آواز اب بھی سنائی نہیں دیتی۔ کب سے حلق پھاڑ رہا ہوں۔ وہ حیرت سے میری طرف دیکھتے ہیں اور لا تعلقی سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ خیر کبھی تو۔۔ افوہ پتا نہیں کیوں اپنی پیدائش کے تذکرے پر میں اتنا جذباتی ہو جاتا ہوں‘۔

    ابن صفی کے ماموں نوح ناروی بھی ایک شاعر تھے۔ ماموں سے متاثر ہو کر انہوں نے اسرار ناروی کے نام سے شاعری شروع کی۔ بعد ازاں جب ناول نگاری شروع کی تو والد کی نسبت سے ابن صفی کا قلمی نام اختیار کیا۔

    ابن صفی کی تخلیقی صلاحیتوں کو دراصل انگریزی ترجموں نے مہمیز کیا۔ اس وقت انگریزی ادب سے ترجمے کیے ہوئے ناول و افسانے قارئین کو پڑھنے کے لیے دستیاب تھے جن کے بارے میں ابن صفی کا خیال تھا، ’ان ناولوں کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی انگریز سرپر پھندنے والی ٹوپی لگائے چلا آ رہا ہے‘۔

    انہوں نے ابتدا میں طنز و مزاح اور مختصر کہانیاں لکھیں۔ ان کہانیوں میں انہوں نے مختلف قلمی نام استعمال کیے جیسے طغرل فرغان اور سنکی سولجر۔ سنہ 1948 میں ماہنامہ ’نکہت‘ میں ان کی پہلی کہانی ’فرار‘ شائع ہوئی۔

    سنہ 1951 میں انہوں نے ’جاسوسى دنیا‘ کے نام سے رسالہ جاری کیا جس میں ابن صفی کے قلمی نام سے انسپکٹر فریدی اور سارجنٹ حمید کے کرداروں پر مشتمل سلسلے کا آغاز ہوا جس کا پہلا ناول دلیر مجرم مارچ 1952 میں شائع ہوا۔

    ان کے مزید شائع ہونے والے ناولوں میں ’خوفناک جنگل‘، ’عورت فروش کا قاتل‘ اور ’تجوری کا راز‘ شامل ہیں۔سنہ 1957 میں ابن صفی نے اسرار پبلیکیشنز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کے تحت جاسوسی دنیا کا پہلا ناول ’ٹھنڈی آگ‘ شائع ہوا۔

    اسی دوران انہوں نے ایک نئے کردار عمران کی بنیاد ڈالی اور ناول لکھنا شروع کیے۔ اس سیریز کا نام ’عمران سیریز‘ رکھا۔ عمران سیریز کا پہلا ناول ’خوفناک عمارت‘ تھا جو اکتوبر 1955 کو منظر عام پر آیا۔

    اس کے بعد آنے والے ناولوں میں ’چٹانوں میں فائر‘، ’پر اسرار چیخیں‘ اور ’بھیانک آدمی‘ شامل ہیں۔ چند ہی ناولوں کے بعد اس سیریز نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے۔

    ابن صفی نے بے تحاشہ لکھا اور معیاری لکھا۔ ابن صفی کے بقول ان کے صرف 8 ناولوں کے مرکزی خیال کسی اور سے مستعار لیے گئے ہیں باقی کے 245 ناول مکمل طور پر ان کے اپنے ہیں۔

    عربا اور فارسا ( عربی اور فارسی) کا شاعر تھا اور علی عمران ان کا بہترین دوست

    ان کے فن کا اعتراف کرنے والی مغربی شخصیات میں خاتون ناول نگار اگاتھا کرسٹی، اردو زبان کی جرمن اسکالر خاتون کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ اور نارویئن پروفیسر فن تھیسن شامل ہیں۔

    کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ نے ابن صفی کے فن کے بارے میں کہا، ’ابن صفی کی جس بات سے میں سب سے زیادہ متاثر ہوں، وہ یہ ہے کہ ان کے کردار فریدی اور عمران کبھی کسی عورت کی جانب نگاہ بد پھیرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ ابن صفی کے جاسوسی ناول کی جاسوسی ادب میں اس لحاظ سے انوکھی حیثیت ہے کہ اس میں ایک مشن یا مقصد موجود ہے۔ اس لیے اسے محض تفریحی ادب نہیں کہا جاسکتا۔ ان کے جاسوسی ناولوں میں فکری و ذہنی تربیت بھی پوری طرح موجود ہوتی ہے‘۔

    کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو ان کے ناول بہت پسند تھے اور اپنے جاننے والوں سے ابن صفی کے نئے ناول کے بارے میں استفسار کرتے رہتے تھے۔ نیا ناول شائع ہوتا تو اسے مارکیٹ سے منگواتے اور پڑھنے کے بعد نہایت اہتمام سے ان ناولوں کو اپنی کتابوں کے شیلف میں جگہ دیتے تھے۔

    فیلڈ مارشل ایوب خان بھی ابن صفی کے مداح تھے۔ ان کے ناول ’پاگل کتے‘ پر پابندی لگنے والی تھی مگر صدر ایوب خان نے انتظامیہ کو منع کر دیا۔ سنہ 1960 میں ایک اخبار میں ان کی ایک تصویر بھی شائع ہوئی تھی جس میں وہ ابن صفی کی جاسوسی دنیا کا مطالعہ کر رہے ہیں۔سنہ 1970 میں ابن صفی نے آئی ایس آئی کو بھی جاسوسی کے حوالے سے غیر رسمی مشاورت دی۔

    ابن صفی شیزوفرینیا کے مریض تھے تاہم وہ صحت یاب ہوگئے۔ بعد میں انہیں لبلبہ کا کینسر ہوگیا۔ اسی بیماری میں وہ 26 جولائی 1980 میں انتقال کر گئے۔ ان کی تدفین کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں کی گئی۔

    ابن صفی کے لازول کردار علی عمران اور عمران سیریز پر بعد میں بھی کئی مصنفین نے ناول لکھے اور شہرت کمائی لیکن کوئی ایک بھی ان کے مرتبے تک نہیں پہنچ سکا۔ آج کی نئی نسل بھی پہلے کسی اور مصنف کی عمران سیریز پڑھتی ہے اور بعد میں جب انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان کردارو ں کا اصل خالق ابن صفی ہے تو وہ ان کے ناولوں پر منتقل ہوجاتے ہیں۔

    ابن صفی کے ناولوں کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ انہوں نےاپنے دور کی جدید ترین جاسوسی ایجادات پر توجہ مرکوز کی اور انہیں اپنے ناولوں میں جا بجا استعمال کیا جس سے قارئین کی دلچسپی سائنس کی جانب بھی بڑھی۔

  • عمران سیریز کے خالق ابن صفی کا دن

    عمران سیریز کے خالق ابن صفی کا دن

    مشہور جاسوسی کرداروں کے تخلیق کار، ناول نگار اور شاعر ابن صفی کا آج یوم پیدائش اور یوم وفات ہے۔

    ابن صفی کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ وہ 26 جولائی 1928 کو اتر پردیش کے ایک گاؤں نارا میں پیدا ہوئے۔

    اپنی پیدائش کا واقعہ وہ خود یوں بیان کرتے ہیں، ’جولائی 1928 کی کوئی تاریخ تھی اور جمعہ کی شام دھندلکوں میں تحلیل ہو رہی تھی کہ میں نے اپنے رونے کی آواز سنی۔ ویسے دوسروں سے سنا کہ میں اتنا نحیف تھا کہ رونے کے لیے منہ تو کھول لیتا تھا لیکن آواز نکالنے پر قادر نہیں تھا۔ میرا خیال ہے کہ دوسروں کو میری آواز اب بھی سنائی نہیں دیتی۔ کب سے حلق پھاڑ رہا ہوں۔ وہ حیرت سے میری طرف دیکھتے ہیں اور لا تعلقی سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ خیر کبھی تو۔۔ افوہ پتا نہیں کیوں اپنی پیدائش کے تذکرے پر میں اتنا جذباتی ہو جاتا ہوں‘۔

    ابن صفی کے ماموں نوح ناروی بھی ایک شاعر تھے۔ ماموں سے متاثر ہو کر انہوں نے اسرار ناروی کے نام سے شاعری شروع کی۔ بعد ازاں جب ناول نگاری شروع کی تو والد کی نسبت سے ابن صفی کا قلمی نام اختیار کیا۔

    ابن صفی کی تخلیقی صلاحیتوں کو دراصل انگریزی ترجموں نے مہمیز کیا۔ اس وقت انگریزی ادب سے ترجمے کیے ہوئے ناول و افسانے قارئین کو پڑھنے کے لیے دستیاب تھے جن کے بارے میں ابن صفی کا خیال تھا، ’ان ناولوں کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی انگریز سرپر پھندنے والی ٹوپی لگائے چلا آ رہا ہے‘۔

    انہوں نے ابتدا میں طنز و مزاح اور مختصر کہانیاں لکھیں۔ ان کہانیوں میں انہوں نے مختلف قلمی نام استعمال کیے جیسے طغرل فرغان اور سنکی سولجر۔ سنہ 1948 میں ماہنامہ ’نکہت‘ میں ان کی پہلی کہانی ’فرار‘ شائع ہوئی۔

    سنہ 1951 میں انہوں نے ’جاسوسى دنیا‘ کے نام سے رسالہ جاری کیا جس میں ابن صفی کے قلمی نام سے انسپکٹر فریدی اور سارجنٹ حمید کے کرداروں پر مشتمل سلسلے کا آغاز ہوا جس کا پہلا ناول دلیر مجرم مارچ 1952 میں شائع ہوا۔

    ان کے مزید شائع ہونے والے ناولوں میں ’خوفناک جنگل‘، ’عورت فروش کا قاتل‘ اور ’تجوری کا راز‘ شامل ہیں۔

    سنہ 1957 میں ابن صفی نے اسرار پبلیکیشنز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کے تحت جاسوسی دنیا کا پہلا ناول ’ٹھنڈی آگ‘ شائع ہوا۔

    اسی دوران انہوں نے ایک نئے کردار عمران کی بنیاد ڈالی اور ناول لکھنا شروع کیے۔ اس سیریز کا نام ’عمران سیریز‘ رکھا۔ عمران سیریز کا پہلا ناول ’خوفناک عمارت‘ تھا جو اکتوبر 1955 کو منظر عام پر آیا۔

    اس کے بعد آنے والے ناولوں میں ’چٹانوں میں فائر‘، ’پر اسرار چیخیں‘ اور ’بھیانک آدمی‘ شامل ہیں۔ چند ہی ناولوں کے بعد اس سیریز نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے۔

    ابن صفی نے بے تحاشہ لکھا اور معیاری لکھا۔ ابن صفی کے بقول ان کے صرف 8 ناولوں کے مرکزی خیال کسی اور سے مستعار لیے گئے ہیں باقی کے 245 ناول مکمل طور پر ان کے اپنے ہیں۔

    ان کے فن کا اعتراف کرنے والی مغربی شخصیات میں خاتون ناول نگار اگاتھا کرسٹی، اردو زبان کی جرمن اسکالر خاتون کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ اور نارویئن پروفیسر فن تھیسن شامل ہیں۔

    کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ نے ابن صفی کے فن کے بارے میں کہا، ’ابن صفی کی جس بات سے میں سب سے زیادہ متاثر ہوں، وہ یہ ہے کہ ان کے کردار فریدی اور عمران کبھی کسی عورت کی جانب نگاہ بد پھیرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ ابن صفی کے جاسوسی ناول کی جاسوسی ادب میں اس لحاظ سے انوکھی حیثیت ہے کہ اس میں ایک مشن یا مقصد موجود ہے۔ اس لیے اسے محض تفریحی ادب نہیں کہا جاسکتا۔ ان کے جاسوسی ناولوں میں فکری و ذہنی تربیت بھی پوری طرح موجود ہوتی ہے‘۔

    کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو ان کے ناول بہت پسند تھے اور اپنے جاننے والوں سے ابن صفی کے نئے ناول کے بارے میں استفسار کرتے رہتے تھے۔ نیا ناول شائع ہوتا تو اسے مارکیٹ سے منگواتے اور پڑھنے کے بعد نہایت اہتمام سے ان ناولوں کو اپنی کتابوں کے شیلف میں جگہ دیتے تھے۔

    فیلڈ مارشل ایوب خان بھی ابن صفی کے مداح تھے۔ ان کے ناول ’پاگل کتے‘ پر پابندی لگنے والی تھی مگر صدر ایوب خان نے انتظامیہ کو منع کر دیا۔ سنہ 1960 میں ایک اخبار میں ان کی ایک تصویر بھی شائع ہو چکی ہے جس میں وہ ابن صفی کی جاسوسی دنیا کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

    سنہ 1970 میں ابن صفی نے آئی ایس آئی کو بھی جاسوسی کے حوالے سے غیر رسمی مشاورت دی۔

    ابن صفی شیزوفرینیا کے مریض تھے تاہم وہ صحت یاب ہوگئے۔ بعد میں انہیں لبلبہ کا کینسر ہوگیا۔ اسی بیماری میں وہ 26 جولائی 1980 میں انتقال کر گئے۔ ان کی تدفین کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں کی گئی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • مشہور جاسوسی ناول نگار ابن صفی کا آج یوم پیدائش اور یوم وفات ہے

    مشہور جاسوسی ناول نگار ابن صفی کا آج یوم پیدائش اور یوم وفات ہے

    مشہور جاسوسی کرداروں کے تخلیق کار، ناول نگار اور شاعر ابن صفی کا آج یوم پیدائش اور یوم وفات ہے۔

    ابن صفی کا اصل نام اسرار احمد تھا۔ وہ 26 جولائی 1928 کو اتر پردیش کے ایک گاؤں نارا میں پیدا ہوئے۔

    اپنی پیدائش کا واقعہ وہ خود یوں بیان کرتے ہیں، ’جولائی 1928 کی کوئی تاریخ تھی اور جمعہ کی شام دھندلکوں میں تحلیل ہو رہی تھی کہ میں نے اپنے رونے کی آواز سنی۔ ویسے دوسروں سے سنا کہ میں اتنا نحیف تھا کہ رونے کے لیے منہ تو کھول لیتا تھا لیکن آواز نکالنے پر قادر نہیں تھا۔ میرا خیال ہے کہ دوسروں کو میری آواز اب بھی سنائی نہیں دیتی۔ کب سے حلق پھاڑ رہا ہوں۔ وہ حیرت سے میری طرف دیکھتے ہیں اور لا تعلقی سے منہ پھیر لیتے ہیں۔ خیر کبھی تو۔۔ افوہ پتا نہیں کیوں اپنی پیدائش کے تذکرے پر میں اتنا جذباتی ہو جاتا ہوں‘۔

    ابن صفی کے ان کے ماموں نوح ناروی بھی ایک شاعر تھے۔ ماموں سے متاثر ہو کر انہوں نے اسرار ناروی کے نام سے شاعری شروع کی۔ بعد ازاں جب ناول نگاری شروع کی تو والد کی نسبت سے ابن صفی کا قلمی نام اختیار کیا۔

    ابن صفی کی تخلیقی صلاحیتوں کو دراصل انگریزی ترجموں نے مہمیز کیا۔ اس وقت انگریزی ادب سے ترجمے کیے ہوئے ناول و افسانے قارئین کو پڑھنے کے لیے دستیاب تھے جن کے بارے میں ابن صفی کا خیال تھا، ’ان ناولوں کو پڑھنے سے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے کوئی انگریز سرپر پھندنے والی ٹوپی لگائے چلا آ رہا ہے‘۔

    انہوں نے ابتدا میں طنز و مزاح اور مختصر کہانیاں لکھیں۔ ان کہانیوں میں انہوں نے مختلف قلمی نام استعمال کیے جیسے طغرل فرغان اور سنکی سولجر۔ 1948 میں ماہنامہ ’نکہت‘ میں ان کی پہلی کہانی ’فرار‘ شائع ہوئی۔

    سن 1951 میں انہوں نے ’جاسوسى دنيا‘کے نام سے رسالہ جاری کیا جس میں ابن صفی کے قلمی نام سے انسپکٹر فریدی اور سارجنٹ حمید کے کرداروں پر مشتمل سلسلے کا آغاز ہوا جس کا پہلا ناول دلیر مجرم مارچ 1952 میں شائع ہوا۔ ان کے مزید شائع ہونے والے ناولوں میں ’خوفناک جنگل‘، ’عورت فروش کا قاتل‘ اور ’تجوری کا راز‘ شامل ہیں۔

    سن 1957 میں ابن صفی نے اسرار پبلیکیشنز کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا جس کے تحت جاسوسی دنیا کا پہلا ناول ’ٹھنڈی آگ‘ شائع ہوا۔

    انہوں نے ایک نئے کردار عمران کی بنیاد ڈالی اور ناول لکھنا شروع کیے۔ اس سیریز کا نام ’عمران سیریز‘ رکھا۔ عمران سیریز کا پہلا ناول ’خوفناک عمارت‘ تھا جو اکتوبر 1955 کو منظر عام پر آیا۔

    اس کے بعد آنے والے ناولوں میں ’چٹانوں میں فائر‘، ’پر اسرار چیخیں‘ اور ’بھیانک آدمی‘شامل ہیں۔ چند ہی ناولوں کے بعد اس سیریز نے مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے۔

    ابن صفی نے بے تحاشہ لکھا اور معیاری لکھا۔ ابن صفی کے بقول ان کے صرف 8 ناولوں کے مرکزی خیال کسی اور سے مستعار لیے گئے ہیں باقی کے 245 ناول مکمل طور پر ان کے اپنے ہیں۔

    ان کے فن کا اعتراف کرنے والی مغربی شخصیات میں خاتون ناول نگار اگاتھا کرسٹی، اردو زبان کی جرمن اسکالر خاتون کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ اور نارویئن پروفیسر فن تھیسن شامل ہیں۔

    کرسٹینا اوسٹر ہیلڈ نے ابن صفی کے فن کے بارے میں کہا، ’ابن صفی کی جس بات سے میں سب سے زیادہ متاثر ہوں، وہ یہ ہے کہ ان کے کردار فریدی اور عمران کبھی کسی عورت کی جانب نگاہ بد پھیرتے ہوئے دکھائی نہیں دیتے۔ ابن صفی کے جاسوسی ناول کی جاسوسی ادب میں اس لحاظ سے انوکھی حیثیت ہے کہ اس میں ایک مشن یا مقصد موجود ہے۔ اس لیے اسے محض تفریحی ادب نہیں کہا جاسکتا۔ ان کے جاسوسی ناولوں میں فکری و ذہنی تربیت بھی پوری طرح موجود ہوتی ہے‘۔

    کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل خواجہ ناظم الدین کو ان کے ناول بہت پسند تھے اور اپنے جاننے والوں سے ابن صفی کے نئے ناول کے بارے میں استفسار کرتے رہتے تھے۔ نیا ناول شائع ہوتا تو اسے مارکیٹ سے منگواتے اور پڑھنے کے بعد نہایت اہتمام سے ان ناولوں کو اپنی کتابوں کے شیلف میں جگہ دیتے تھے۔

    فیلڈ مارشل ایوب خان بھی ابن صفی کے مداح تھے۔ ان کے ناول ’پاگل کتے‘ پر پابندی لگنے والی تھی مگر صدر ایوب خان نے انتظامیہ کو منع کر دیا۔ 1960 مین ایک اخبار میں ان کی ایک تصویر بھی شائع ہو چکی ہے جس میں وہ ابن صفی کی جاسوسی دنیا کا مطالعہ کر رہے ہیں۔

    سال 1970 میں ابن صفی نے آئی ایس آئی کو بھی جاسوسی کے حوالے سے غیر رسمی مشاورت دی۔

    ابن صفی شیزوفرینیا کے مریض تھے تاہم وہ صحت یاب ہوگئے۔ بعد میں انہیں لبلبہ کا کینسر ہوگیا۔ اسی بیماری میں وہ 26 جولائی 1980 میں انتقال کر گئے۔ ان کی تدفین کراچی میں پاپوش نگر کے قبرستان میں کی گئی۔