Tag: ابن عربی

  • ابنِ عربیؒ: افکار و نظریات، مقام و مرتبہ

    ابنِ عربیؒ: افکار و نظریات، مقام و مرتبہ

    ابنِ عربیؒ کا نام بارہویں صدی عیسوی کے عظیم فلسفی، مفکّر اور شاعر کے طور پر اسلامی دنیا میں مشہور ہے اور اپنی تصانیف کی بدولت دنیا بھر میں ایک عالم فاضل شخصیت کے طور پر پہچانے جاتے ہیں۔ ابنِ عربی کو شیخِ اکبر بھی کہا جاتا ہے۔

    ابنِ عربیؒ کا پورا نام محیُ الدّین محمد بن علی ابنِ عربی تھا اور اکثر اس کے ساتھ الحاتمی الطائی الاندلسی بھی لکھا گیا ہے۔ مؤرخین اور تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ ابنِ عربی حاتم طائی کی نسل میں سے تھے۔ ان کا سنہ پیدائش 1165ء ہے تاہم اس پر اختلاف بھی ہے۔ تاریخ کی کتب میں ان کا وطن اندلس (اسپین) اور آبائی شہر مرسیا لکھا ہے۔ لیکن بعد میں وہ اپنے خاندان کے ساتھ اشبیلیہ منتقل ہوگئے تھے، وہیں ابنِ عربیؒ نے تعلیم پائی اور عنفوانِ شباب کو پہنچے۔

    مؤرخین نے لکھا ہے کہ ابن عربی نے اندلس سے شمالی افریقہ، مصر، عرب، شام، عراق، یروشلم، ترکی تک سفر کیے تھے۔ اشبیلیہ نقل مکانی کے بعد انھیں اپنے وقت کے جیّد علما اور عظیم شخصیات کی مجالس میں بیٹھنے کا موقع ملا جس میں انھوں نے تصوف، فقہ اور دیگر مروّجہ دینی اور دنیاوی علوم سیکھنے کے علاوہ صوفیا کی صحبت میں وقت گزارا۔ مؤرخین کے مطابق 30 برس کی عمر میں پہلی بار اندلس سے باہر قدم رکھا اور تیونس میں ابوالقاسم بن قسی کی کتاب’’ خلع النعلین‘‘ کا درس لیا۔ ابو محمّد عبد العزیز بن ابوبکر القریشی سے ملے اور پھر ایک برس تک ابو محمّد عبداللہ بن خمیس الکنانی کے پاس رہے۔ والد کی وفات پر اشبيليہ واپس آگئے، مگر کچھ عرصہ بعد ایک بار پھر سفر پر نکل گئے اور اِس بار بھی اُن کی منزل شمالی افریقا تھی۔ وہ فاس (موجودہ مراکش کا ایک شہر) جا پہنچے، جہاں قیام کے دوران روحانیت کا تجربہ ہوا اپنے ان اسفار اور مختلف ممالک میں قیام کے دوران ابن عربی نے فلسفہ، حکمت و منطق، تفسیر، حدیث، فقہ، صرف و نحو، ریاضی، نجوم وغیرہ کا علم اور تربیت حاصل کی۔ اس کے علاوہ انھیں ادب اور بعض دیگر علوم وفنون بھی سیکھنے کا موقع ملا۔ فاس کے سفر میں‌ والدہ، بیوی اور بہنیں بھی ساتھ تھیں۔ وہاں اپنی بہنوں کی شادی کی اور والدہ کے وہیں وفات پا جانے کے بعد حرمین شریفین کی زیارت کے لیے روانہ ہوگئے۔ دو سال وہاں مقیم رہے اور پھر مختلف ممالک کی سیاحت کے بعد دوبارہ مکّہ لوٹ گئے۔ ایک سال تک وہاں قیام کیا، پھر ایشیائے کوچک (اناطولیہ، موجودہ ترکی) چلے گئے۔ سلجوق ریاست کے پایۂ تخت قونیا میں وہاں کے سلطان نے ان کی بہت عزّت افزائی کی۔ وہاں سے آپؒ بغداد چلے گئے۔ 620 ہجری میں ابنِ عربی نے دمشق میں اقامت اختیار کی اور آخری سانس تک وہیں رہے۔

    مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ غیر معمولی ذہین اور باصلاحیت تھے۔ انھوں نے ایک معرکہ آرا کتاب الفتوحات المکیہ تصنیف کی جو تیس سے زائد جلدوں پر مشتمل ہے۔ آج ابنِ عربی کی پانچ سو سے زائد کتابیں محفوظ حالت میں ہیں اور کہتے ہیں کہ متعدد تصانیف کا کوئی نشان نہیں‌ ملا۔ انھیں عربی نظم و نثر پر یکساں عبور حاصل تھا۔ شعر کہنے کا ملکہ فطری تھا اور اکثر و بیشتر فی البدیہہ اشعار کہتے تھے۔ عربی کی لغت اور محاورہ پر بڑی دسترس اور کمال قدرت تھی۔

    ابنِ عربی نے آج ہی کے دن 1240ء میں وفات پائی۔ ان کا مقبرہ دمشق، ملک شام کے شمال میں جبلِ قاسیون کے دامن میں ہے اور انہی کی مناسبت سے اسے محلّہ ابنِ عربی کہتے ہیں۔

    ان کی دو کتب فتوحاتِ مکیہ اور نصوص الحکم ہر دور میں درس و تدریس کے حوالے سے اہم رہی ہیں۔ مغربی ممالک میں ابنِ عربی کے کثیرالابعاد افکار کا موازنہ کیا گیا۔ کہتے ہیں کہ تیرھویں صدی عیسوی ہی میں یورپ میں ان پر سنجیدہ کام شروع ہو گیا تھا اور پچھلے کئی برسوں میں مغرب کے دیدہ ور مستشرقین اور مشرقی علما و حکما خاص طور پر ابنِ عربی کی جانب متوجہ ہوئے ہیں۔

    ایّوبی اور سلجوق حکم ران حضرت ابنِ عربی کے معتقد تھے۔ صلاح الدّین ایّوبی کے بیٹے الملک الظاہر سے دوستانہ تعلقات تھے، جب کہ صلاح الدّین ایوبی کے نواسے، امیر عبد العزیز بھی آپؒ سے بہت عزّت و احترام سے پیش آتے تھے۔ ایّوبی حاکم، الملک العادل نے آپؒ کو قاہرہ میں دشمنوں سے بچایا۔ سلجوق سلطان، علاء الدّین کیقباد آپؒ کا مرید تھا۔ تاہم، آپؒ اِن تعلقات کو اسلامی تعلیمات کی اشاعت، مسلم حکومتوں کی مضبوطی اور عام افراد کی بھلائی کے لیے استعمال کرتے تھے، کبھی ذاتی فوائد حاصل کیے۔

    ابنِ عربیؒ کی کتب کی تعداد 800 تک بیان کی جاتی ہے۔ تاہم وہ اپنے زمانے میں اور بعد کے برسوں میں بھی علماء اور قرآن و سنت کے پابند دینی طبقات میں اپنے دینی فلسفے، بعض نظریات کی وجہ سے متنازع بھی رہے۔ اس کی ایک وجہ ابن عربی کا اسلوب خاصا فلسفیانہ اور دقیق اصطلاحات پر مشتمل ہونا ہے اور ان کے نظریات عام مسلمانوں کی عقل اور فہم سے ماورا تھے، اور اس کا فائدہ ابن عربی کے مخالفین اور حاسدین نے بھی اٹھایا اور عام لوگوں کو ان سے دور رہنے اور ان کی کتابیں پڑھنے سے گریز کی ہدایت کی۔ انھوں نے ذات و صفاتِ باری تعالیٰ، عرش و کرسی، ملائکہ، انبیائے کرام، جنّت، دوزخ، تخلیقِ کائنات سمیت متعدد ایسے عنوانات پر اظہار خیال کیا جو علماء کے نزدیک متنازع ہیں۔ کہتے ہیں کہ ابنِ عربیؒ پہلے شخص ہیں، جنھوں نے باقاعدہ وحدت الوجود کا نظریہ پیش کیا۔

  • شیخُ الاکبر محی الدّین ابنِ عربی کا یومِ وفات

    شیخُ الاکبر محی الدّین ابنِ عربی کا یومِ وفات

    ابنِ عربی بارہویں صدی عیسوی کے عظیم فلسفی، مفکّر، محقّق اور شاعر تھے جن کا پورا نام محیُ الدّین محمد بن علی ابنِ عربی الحاتمی الطائی الاندلسی تھا۔ وہ 800 سے زائد کتابوں کے مصنّف تھے۔

    ابنِ عربی کو شیخِ اکبر بھی کہا جاتا ہے۔ آپ حاتم طائی کی نسل سے تھے۔ ان کا سنِ پیدائش 1165ء بتایا گیا ہے جس پر بعض مؤرخین کا چند سال کا اختلاف بھی ہے۔ وہ اندلس یعنی اسپین کے ایک شہر مرسیا میں پیدا ہوئے۔ لیکن ان کا خاندان اشبیلیہ منتقل ہو گیا، جہاں ابنِ عربی نے تعلیم و تربیت پائی اور جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا۔

    مؤرخین نے لکھا ہے کہ انھوں نے اندلس سے شمالی افریقہ، مصر، عرب، شام، عراق، یروشلم، ترکی تک سفر کیے تھے۔ اشبیلیہ میں انھیں اپنے وقت کے نام ور عالموں کی مجالس میں بیٹھنے کا موقع ملا جس میں تصوف، فقہ اور دیگر مروّجہ دینی اور دنیاوی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ آپ کا بہت سا وقت صوفیا کی خدمت میں گزرنے لگا۔ اپنے اسفار اور مختلف ممالک میں انھوں نے کئی علوم فلسفہ، حکمت و منطق، تفسیر، حدیث، فقہ، صرف و نحو، ریاضی، نجوم وغیرہ پر دسترس حاصل کی اور درس بھی دیتے رہے۔ اس کے علاوہ ادب، تاریخ، شاعری اور بعض دیگر علوم وفنون بھی سیکھے۔

    مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ غیر معمولی ذہین اور باصلاحیت تھے اور جلد ہی ان کے علم اور قابلیت کا چرچا اندلس میں ہونے لگا۔ بعد میں انھیں تصوف میں‌ کشش محسوس ہوئی اور ایسے صوفیا کی صحبت بھی نصیب ہوئی جنھوں نے ان کی روحانی ترّقی میں اہم کردار ادا کیا۔

    ابنِ‌ عربی نے مکہ مکرمہ میں تقریباً دو سال قیام کیا اور وہاں بھی علمی اور مذہبی حلقوں کو متاثر کیا۔ انھوں نے ایک معرکہ آرا کتاب الفتوحات المکیہ تصنیف کی جو تیس سے زائد جلدوں پر مشتمل ہے۔

    آج ابنِ عربی کی پانچ سو سے زائد کتابیں محفوظ حالت میں ہیں اور کئی تصانیف کا کوئی نشان نہیں‌ ملتا۔ کہا جاتا ہے کہ انھیں عربی نظم و نثر پر یکساں دسترس حاصل تھی۔ شعر کہنے کا ملکہ فطری تھا اور اکثر و بیشتر فی البدیہہ اشعار کہتے تھے۔ عربی کی لغت اور محاورہ پر ان کو کمال قدرت تھی۔

    مؤرخین نے تحقیق کے بعد ابنِ عربی کے حالاتِ زندگی تحریر کرتے ہوئے مریم بنتِ محمد بن عبدون کو ان کی زوجہ لکھا ہے جو اندلس کے ایک امیر کی بیٹی تھی۔ ابنِ عربی نے آج ہی کے دن 1240ء میں وفات پائی۔ ان کا مقبرہ دمشق، ملک شام کے شمال میں جبلِ قاسیون کے دامن میں ہے اور انہی کی مناسبت سے علاقہ محلّہ ابنِ عربی کہلاتا ہے۔

    ان کی دو کتب فتوحاتِ مکیہ اور نصوص الحکم ہر دور میں درس و تدریس کے حوالے سے اہم رہی ہیں۔ مغربی ممالک میں ابنِ عربی کے کثیرالابعاد افکار کا موازنہ کیا گیا۔ تیرھویں صدی عیسوی میں جرمنی میں ان پر سنجیدہ کام شروع ہو گیا تھا اور پچھلے کئی برسوں میں مغرب کے دیدہ ور مستشرقین اور مشرقی علما و حکما خاص طور پر ابنِ عربی کی طرف متوجہ ہوئے ہیں اور ان کے افکار و نظریات پر تحقیق کی جارہی ہے۔

  • عظیم مسلم مفکر ابن عربی کو گزرے779 برس بیت گئے

    عظیم مسلم مفکر ابن عربی کو گزرے779 برس بیت گئے

    آج عالم اسلام کے مایہ ناز صوفی ، عالم ، شاعر اور مفکر ابن عربی کی برسی ہے ، آپ سنہ 1240 عیسوی میں اس دنیائے فانی سے کوچ کرگئے تھے ۔

    آپ کا پورا نام شیخ اکبر محی الدین محمد ابن العربی الحاتمی الطائی الاندلس ہے اور آپ دنیائے اسلام کے ممتاز صوفی، عارف، محقق، قدوہ علما اور علوم كا بحر بیكنار ہیں۔ اسلامی تصوف میں آپ كو شیخ اکبرکے نام سے یاد كیا جاتا ہے اور تمام مشائخ آپ كے اس مقام پر تمكین كے قائل ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ تصوف اسلامى میں وحدت الوجود کا تصور سب سے پہلے انھوں نے ہی پیش کیا۔

    ان کا قول تھا کہ باطنی نور خود رہبری کرتا ہے۔ بعض علما نے ان کے اس عقیدے کو الحاد و زندقہ سے تعبیر کیا ہے۔ مگر صوفیا انھیں شیخ الاکبر کہتے ہیں۔ ان کی تصانیف کی تعداد پانچ سو کے قریب ہے۔ جن میں فصوص الحكم اور الفتوحات المکیہ (4000 صفحات) بہت مشہور ہے۔ فتوحات المكيۃ 560 ابواب پر مشتمل ہے اور کتب تصوف میں اس کا درجہ بہت بلند ہے۔

    شیخ اکبر ابن العربی کا پورا نام "محمد بن علی بن محمد ابن العربی الطائی الحاتمی الاندلسی” تھا۔ اور آپ کے ہاتھ سے لکھے خطی نسخوں پر آپ یہی نام لکھتے آئے ہیں۔ تدبیرات الہیہ کے ہاتھ سے لکھے نسخے کا عکس ملاحظہ کریں جس پر "محمد بن علی ابن العربی” واضح پڑھا جا سکتا ہے۔

    مشرق والے (خصوصا وہ لوگ جن کی مادری زبان فارسی ہے) آپ کو ابن عربی کہتے ہیں جب کہ مغرب میں آپ ابن العربی اور ابن سراقہ کے نام سے پہچانے جاتے ہیں۔ آپ کو سب سے زیادہ شہرت الشیخ الأکبر کے لقب سے ہوئی اور مسلمانوں کی تاریخ میں یہ لقب کسی دوسری شخصیت کے لیے استعمال نہیں کیا گیا۔

    آپ اندلس کے شہر مرسیہ میں 27 رمضان المبارک 560ھ مطابق 1165ء کو ایک معزز عرب خاندان میں پیدا ہوئے، جو مشہور زمانہ سخی حاتم طائی کے بھائی کی نسل سے تھا۔ آپ کے والد مرسیہ کے ہسپانوی الاصل حاکم محمد بن سعید مرذنیش کے دربار سے متعلق تھے۔

    ابن عربی ابھی آٹھ برس کے تھے کہ مرسیہ پر مؤحدون کے قبضہ کرلینے کے نتیجہ میں آپ کے خاندان کو وہاں سے ہجرت کرنا پڑی۔ چونکہ اشبیلیہ پہلے سے موحدون کے ہاتھ میں تھا، اس لیے آپ کے والد نے لشبونہ (حالیہ پرتگال کا دار الحکومت لزبن) میں پناہ لی۔ البتہ جلد ہی اشبیلیہ کے امیرابو یعقوب یوسف کے دربار میں آپ کو ایک معزز عہدہ کی پیشکش ہوئی اورآپ اپنے خاندان سمیت اشبیلیہ منتقل ہو گئے، جہاں پر ابن عربی نے اپنی جوانی کا زمانہ گزارا۔

    ابتدائی تعلیم کے مراحل آپ مرسیہ اور لشبونہ میں طے کر چکے تھے۔ اشبیلیہ میں آپ کو اپنے وقت کے نامور عالموں کے قدموں میں بیٹھنے کی سعادت ملی۔ مروجہ دینی اور دنیاوی تعلیم کے حصول کے ساتھ ساتھ آپ کا بہت سا وقت صوفیاءکی خدمت میں گذرتا تھا۔

    ابن عربی نے پہلی بار 590ھ میں اندلس کی سر زمین سے باہر کا سفر کیا۔ آپ نے تونس میں ابوالقاسم بن قسی، جو الغرب(مراكش) میں المراودون کے خلاف اٹھنے والے صوفیوں کے بانی قرار دیے جاتے ہیں، کی کتاب خلع النعلین کا درس لیا۔ بعد میں آپ نے اس کتاب کی شرح پر ایک مستقل رسالہ تصنیف کیا۔ اسی سفر کے دوران میں آپ کی ملاقات ابو محمد عبد العزیز بن ابو بکر القریشی المہدوی کے ساتھ ہوئی، جن کی فرمائش پر آپ نے اندلس کے صوفیا کے تذکروں پر مشتمل اپنی کتاب روح القدس لکھی۔

    اس کتاب میں پچپن صوفیا کا تعارف کرایا گیا، جن کے ساتھ آپ کا رابطہ رہا یا جن کے ساتھ آپ کا شاگردگی کا رشتہ تھا۔ غالباً اسی سفر کے دوران میں آپ کو ابو محمد عبد اللہ بن خمیس الکنانی کی خدمت میں حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا، جو پیشہ کے اعتبار سے جراح (سرجن) تھے اور جن کا تذکرہ آپ نے اپنی کتب روح القدس اور درہ الفاخرہ میں کیا ہے۔ ان کی صحبت میں آپ ایک سال سے کچھ کم عرصہ رہے تھے۔

    مکہ میں ابن عربی کا پہلا قیام دو برس کا تھا، جس کے دوران میں وہاں کے علمی اور مذہبی حلقوں میں آپ کی وجہ سے ایک غیر معمولی ہلچل پیدا ہوئی۔ آپ کی تصنیفی سرگرمیوں کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ آپ نے اس دوران میں اپنی کتاب روح القدس کے مسودے کو مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ تین دوسری کتب ( مشکوٰۃ الانوار، حلیۃ الابدال اور تاج الرسائل) تحریر کیں۔ سب سے بڑی بات یہ تھی کہ آپ نے فتوحات مکیہ پر کام شروع کیا، جس کے 560 ابواب کی فہرست ابتدائییے کار میں ہی تیار کر لی گئی تھی

    ۔ مصنف کو اندازہ تھا کہ یہ کام ایک پوری عمر کا متقاضی تھا۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ آپ کے لکھنے کی رفتار فی روز تین جزو تھی۔ جس میں آپ سفر یا حضر میں کبھی ناغہ نہ کرتے تھے۔ آپ نے اپنی مصنفات کی تعداد 251 دی ہے، جب کہ عثمان یحییٰ کی ببلیوگرافی میں آپ کی 846 کتب کے عنوان درج کیے گئے ہیں ۔

    آپ بلند پایہ شاعر بھی تھے۔ مکہ میں آپ کی شاعری اپنے نقطہءعروج پر پہنچی، جہاں پر آپ کا دوستانہ تعلق ابو شجاع ظاہر بن رستم بن ابو رجا الاصفحانی اور ان کے خاندان کے ساتھ تھا، جس کی نوخیز لڑکی نظام عین الشمس کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ آپ کی شاعری کی روح بنی۔ خود آپ نے اپنے دیوان ترجمان الاشواق میں نظام کا ذکر تعریفی رنگ میں کیا ہے۔ مگر بعد میں

    جب آپ پر مخالفوں نے عاشقانہ شاعری کرنے کا الزام لگایا، تو آپ نے اس کو رد کرنے کے لیے اس دیوان کی شرح (ذخائر الاعلاق) لکھی، جس میں ثابت کیا کہ آپ کے اشعار تصوف کے مروجہ طریق سے ذرہ بھر ہٹ کر نہیں ہیں۔

    620ھ میں آپ نے دمشق کو اپنا وطن بنایا، جہاں کے حاکم الملک العادل نے آپ کو وہاں پر آ کر رہنے کی دعوت دی تھی۔ وہاں پر آپ نے 28 ربیع ا لآخر 638ھ مطابق ء1240کو وفات پائی اورجبل قاسیون کے پہلو میں دفن کیے گئے، جو آج تک مرجع خواص و عوام ہے ۔