Tag: ابوالفضل صدیقی

  • ”چڑھتا سورج“ اور شکریہ!

    ”چڑھتا سورج“ اور شکریہ!

    پاکستان کے اہم افسانہ نگاروں میں ابوالفضل صدیقی کا نام اس لیے بھی قابلِ ذکر ہے کہ انھوں نے تقسیمِ ہند کے پس منظر میں کئی کہانیاں تخلیق کیں جو ان کے تجربات اور مشاہدات کے ساتھ غیر معمولی نوعیت کی تھیں۔ وہ ایک صاحبِ اسلوب قلم کار اور بہترین مترجم تھے جن کی کئی کتابیں‌ یادگار ہیں۔

    یہاں ہم ابوالفضل صدیقی کی ایک دل چسپ تحریر جو ان کی زندگی کی خوش گوار یاد بھی ہے، آپ کے حسنِ مطالعہ کی نذر کررہے ہیں۔ یہ قصّہ انھوں نے اپنی تصنیف ”عہد ساز لوگ“ میں‌ رقم کیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    1957ء میں مشہور امریکی ادارہ، پی، ای، این نے ایک مخصوص رقم ایشیائی ممالک کی ہر زبان کے لیے پانچ سال کے بہترین مطبوعہ افسانے پر انعام کے لیے مختص کی۔

    دو ہزار روپے پاکستان اور ہزار اُردو کے حصّے میں پڑے۔ مقابلے کا اعلان ہوا۔ ججوں کے نام سنے تو بڑے ہی ثقہ تھے۔ مولوی عبدالحق، پروفیسر مرزا محمد عسکری اور مولانا صلاح الدین احمد۔ چنانچہ میں نے بھی اللہ کا نام لے کر اکھاڑے میں اپنا مطبوعہ ناولٹ ”چڑھتا سورج“ اتار دیا۔

    کچھ عرصے بعد اخبارات کے ذریعے پتا چلا کہ بالاتفاق رائے انعام کا حق دار میرا ناولٹ قرار پایا۔ دل میں سوچا کہ مولانا صلاح الدین احمد میرے قدیمی مداحوں اور قدر دانوں میں تھے ہی، یقیناً انھوں نے اپنی رائے تو میرے حق میں دی ہی ہوگی بلکہ ان دونوں بزرگوں کو بھی میرے ناولٹ کے محاسن کی نشان دہی کی ہوگی۔ تقریباً سال بھر بعد میں لاہور گیا، اور حسبِ معمول مولانا سے ملنے پہنچا، پہلے تو منتظر رہا کہ خود ہی کچھ ذکر چھیڑیں، جب ادھر ادھر کی خاصی باتیں ہوئیں تو پھر میں نے ہی لجائے لجائے انداز اور دبے دبے لہجے میں اس بندہ نوازی کو یاد دلاتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔

    مگر وہ مخصوص میٹھی میٹھی، سریلی سریلی ہنسی ہنستے ہوئے بولے: ”میاں میرا شکریہ مفت میں ادا کررہے ہو، تراشوں کا وہ بنڈل میرے پاس آیا ضرور تھا اور پھر پیہم تقاضے بھی آتے رہے، مگر میں بہت عدیم الفرصت تھا، کھولنے کی بھی نوبت نہ آئی، آخر تابکے، ایک مراسلے کے ذریعے اطلاع ملی کہ مولوی عبدالحق اور پروفیسر مرزا محمد عسکری نے بالاتفاق رائے فیصلہ آپ کے حق میں دے دیا تو پھر جب کثرتِ رائے کا اظہار ہوگیا تو میری رائے اگر ان سے متفق ہوتی تو بھی کارِ فضول تھی اور مخالف ہوتی تو بھی تحصیل لاحاصل۔ ہاں البتہ آپ کے اس مفت کے شکریے کا شکریہ۔

  • صف اوّل کے افسانہ نگار اور صاحبِ اسلوب ادیب ابوالفضل صدیقی کی برسی

    صف اوّل کے افسانہ نگار اور صاحبِ اسلوب ادیب ابوالفضل صدیقی کی برسی

    آج اردو زبان و ادب میں ممتاز، صاحبِ اسلوب ادیب اور صفِ اوّل کے افسانہ نگار ابوالفضل صدیقی کا یومِ وفات ہے۔ وہ 1987ء میں‌ آج ہی کے دن دارِ فانی سے رخصت ہوگئے تھے۔

    ابوالفضل صدیقی کا تعلق بدایوں سے تھا جہاں وہ 1908ء میں پیدا ہوئے اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان چلے آئے۔ بٹوارے سے پہلے ہی ان کا تخلیقی سفر شروع ہو چکا تھا اور پاکستان آنے کے بعد انھوں نے ادب کی دنیا میں نام و مقام پایا۔

    1932ء میں وہ افسانہ نگار کے طور پر سامنے آئے تھے۔ ان کے ہم عصروں میں سجاد حیدر یلدرم، اختر حسین رائے پوری، غلام عباس، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی شامل ہیں جن کے درمیان ابوالفضل صدیقی نے بطور ادیب اپنی پہچان بنائی اور افسانہ نگاری میں ممتاز ہوئے۔ ان کے افسانوں کے موضوعات اور طرزِ نگارش جداگانہ تھا جس پر انھیں بے حد سراہا گیا۔

    ابوالفضل صدیقی کے افسانوی مجموعوں میں ستاروں کی چال، احرام، آئینہ، انصاف، زخم دل جب کہ ناولوں میں سرور اور ترنگ اور ناولٹ کے مجموعوں میں دن ڈھلے، گلاب خاص اور دفینہ شامل ہیں۔

    انھوں نے خاکہ نگاری میں‌ بھی اپنے دل نشیں طرزِ‌ نگارش سے سحر پھونکا۔ ’’عہد ساز لوگ‘‘ کے نام سے ان کے تحریر کردہ شخصی خاکوں کا مجموعہ بہت پسند کیا گیا جب کہ ’’کہاں کے دیر و حرم‘‘ ان کی خود نوشت سوانح عمری ہے۔

  • اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ نگار  ابوالفضل صدیقی کی برسی

    اردو کے صفِ اوّل کے افسانہ نگار ابوالفضل صدیقی کی برسی

    ابوالفضل صدیقی اردو کے ممتاز ادیب، منفرد اور صاحبِ اسلوب افسانہ نگار ہیں۔ انھیں اردو ادب میں صفِ اوّل کا افسانہ نگار مانا جاتا ہے۔ آج ابوالفضل صدیقی کی برسی ہے۔

    16 ستمبر 1987 کو ابوالفضل صدیقی کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ ان کا تعلق بدایوں‌ سے تھا۔ وہ 4 ستمبر 1908 کو پیدا ہوئے اور تقسیم ہند کے بعد پاکستان چلے آئے۔

    ابوالفضل صدیقی نے 1932 میں افسانہ نگاری کا آغاز کیا۔ ان کے ہم عصروں میں سجاد حیدر یلدرم، اختر حسین رائے پوری، غلام عباس، کرشن چندر، سعادت حسن منٹو اور راجندر سنگھ بیدی شامل تھے اور ان کے درمیان ابوالفضل صدیقی نے خود کو منوایا۔ ان کے افسانوں کے موضوعات اور طرزِ نگارش اسلوب سب سے جدا تھا جس نے انھیں ہم عصروں‌ میں‌ ممتاز کیا۔

    ابوالفضل صدیقی کے افسانوی مجموعوں میں ستاروں کی چال، احرام، آئینہ، انصاف، زخم دل جب کہ ناولوں میں سرور اور ترنگ اور ناولٹ کے مجموعوں میں دن ڈھلے، گلاب خاص اور دفینہ شامل ہیں۔

    ابوالفضل صدیقی نے خاکہ نگاری میں‌ بھی اپنا کمال دکھایا اور ’’عہد ساز لوگ‘‘ کے نام سے ان کے تحریر کردہ شخصی خاکوں کا مجموعہ منظرِ عام پر آیا اور ’’کہاں کے دیر و حرم‘‘ ان کی خود نوشت سوانح عمری ہے۔

  • میٹھی اور سریلی ہنسی کے ساتھ ایک انکشاف!

    میٹھی اور سریلی ہنسی کے ساتھ ایک انکشاف!

    1957 میں مشہور امریکی ادارے پی، ای، این نے مخصوص رقم ایشیائی ممالک کی ہر زبان کے لیے، پانچ سال کے بہترین مطبوعہ افسانے پر انعام کے لیے مختص کی اور دو ہزار روپے پاکستان اور ہزار اُردو کے حصے میں پڑے۔

    مقابلے کا اعلان ہوا۔ ججوں کے نام سنے تو بڑے ہی ثقہ تھے۔ مولوی عبدالحق، پروفیسر مرزا محمد عسکری اور مولانا صلاح الدین احمد۔ چنانچہ میں نے بھی اللہ کا نام لے کر اکھاڑے میں اپنا مطبوعہ ناولٹ ”چڑھتا سورج“ اتار دیا۔

    کچھ عرصے بعد اخبارات کے ذریعے پتا چلا کہ بالاتفاق رائے انعام کا حق دار میرا ناولٹ قرار پایا۔ دل میں سوچا کہ مولانا صلاح الدین احمد میرے قدیمی مداحوں اور قدر دانوں میں تھے ہی، یقیناً انھوں نے اپنی رائے تو میرے حق میں دی ہی ہوگی بلکہ ان دونوں بزرگوں کو بھی میرے ناولٹ کے محاسن کی نشان دہی کی ہوگی۔

    تقریباً سال بھر بعد میں لاہور گیا، اور حسبِ معمول مولانا سے ملنے پہنچا، پہلے تو منتظر رہا کہ خود ہی کچھ ذکر چھیڑیں، جب ادھر ادھر کی خاصی باتیں ہوئیں تو پھر میں نے ہی لجائے لجائے انداز اور دبے دبے لہجے میں اس بندہ نوازی کو یاد دلاتے ہوئے شکریہ ادا کیا۔

    مگر وہ مخصوص میٹھی میٹھی، سریلی سریلی ہنسی ہنستے ہوئے بولے۔

    ”میاں میرا شکریہ مفت میں ادا کررہے ہو، تراشوں کا وہ بنڈل میرے پاس آیا ضرور تھا اور پھر پیہم تقاضے بھی آتے رہے، مگر میں بہت عدیم الفرصت تھا، کھولنے کی بھی نوبت نہ آئی۔

    آخر تابکے، ایک مراسلے کے ذریعے اطلاع ملی کہ مولوی عبدالحق اور پروفیسر مرزا محمد عسکری نے بالاتفاق رائے فیصلہ آپ کے حق میں دے دیا تو پھر جب کثرتِ رائے کا اظہار ہوگیا تو میری رائے اگر ان سے متفق ہوتی تو بھی کارِ فضول تھی اور مخالف ہوتی تو بھی تحصیل لاحاصل۔

    ہاں البتہ آپ کے اس مفت کے شکریے کا شکریہ۔

    (ممتاز ادیب، مترجم اور محقق ابوالفضل صدیقی کی کتاب ”عہد ساز لوگ“ سے ایک ورق)