Tag: ابوالکلام آزاد کی تحریریں

  • اُس مسکین پرندے کا تذکرہ جو عہدِ قدیم سے پیامبر رہا ہے!

    اُس مسکین پرندے کا تذکرہ جو عہدِ قدیم سے پیامبر رہا ہے!

    نامہ بر کبوتروں کا وجود عہد قدیم کی ایک نہایت مشہور اور بڑی ہی دل چسپ کہانی ہے۔

    اس کا سلسلہ نصف صدی پیشتر تک بڑی بڑی آبادیوں میں جاری تھا۔ اب بھی دنیا سے بالکل مفقود نہیں ہوا ہے۔ بڑی بڑی لڑائیوں اور جنگی حصاروں کے زمانے میں ان سے کام لینا پڑتا ہے، جب نئی دنیا کی بڑی بڑی قیمتی اور مغرورانہ ایجادیں کام دینے سے بالکل عاجز ہو جاتی ہیں۔ حکومتِ فرانس نے تو اب تک ان کے باقاعدہ اہتمام اور پرورش کے کام کو باقی و جاری رکھا ہے۔ ان امانت دار پیامبروں نے دنیا میں خبر رسانی کی عجیب عجیب خدمتیں انجام دی ہیں اور احسان فراموش انسان کو بڑی بڑی ہلاکتوں سے بچایا ہے۔ جہاں انسان کی قوتیں کام نہ دے سکیں، وہاں ان کی حقیر ہستی کام آ گئی۔

    ہمارے عالم حسن و عشق کے راز دارانہ پیغاموں کے لیے اکثر انہیں سفیروں سے کام لیا گیا ہے۔ عشاق بے صبر کو ان کا انتظار قاصد بے مہر کے انتظار سے کچھ کم شاق نہیں ہوتا۔ شعراء کی کائناتِ خیال میں بھی خبر رسانی و پیامبری صرف انہی کے سپرد کر دی گئی ہے اور فارسی شاعری میں تو ’’عظیم الشان‘‘ بلبل کے بعد اگر کسی دوسرے وجود کو جگہ ملی ہے تو وہ یہی مسکین کبوتر ہے۔

    مسلمانوں نے بھی اپنے عہدِ تمدن میں ان پیامبروں سے بڑے بڑے کام لیے تھے۔ حتیٰ کہ نامہ بر کبوتروں کے اقسام و تربیت کا کام ایک مستقل فن بن گیا تھا جس میں متعدد کتابیں بھی تصنیف کی گئیں۔ ان کا ذکر تاریخوں میں موجود ہے۔

    حال میں رسالہ ’’سائنٹفک امریکن‘‘ کے ایک مضمون نگار نے نامہ بر کبوتروں کے متعلق ایک نہایت دل چسپ مضمون لکھا ہے اور بہت سی تصویریں بھی دی ہیں۔ اسے دیکھ کر مسلمانوں کے عہدِ گزشتہ کی وہ ترقیات یاد آگئیں جن کا تفصیلی تذکرہ سیرطی اور مقریزی وغیرہ نے مصر کی تاریخوں میں کیا ہے۔ ہم سب سے پہلے اس مضمون کا ترجمہ ہدیۂ قارئین کرام کرتے ہیں۔ اس کے بعد دوسرے نمبر میں مسلمانوں کے عہد کی ترقیات تفصیلی طور پر درج کریں گے، اور ان واقعات کا بھی حال لکھیں گے جن میں مسلمانوں نے نامہ بر کبوتروں سے بڑے بڑے کام لیے تھے اور ان کی پرورش و تربیت کو ایک قاعدہ فن بنا دیا تھا۔

    فرانس میں نامہ بر کبوتروں کی درس گاہ
    سائنٹفک امریکن کا مقالہ نگار لکھتا ہے، ’’یہ خیال کیا جاسکتا ہے کہ موجودہ عہد علمی میں جب کہ تار برقی اور ہوائی طیارات کی ایجادات نے دنیا کے تمام گوشوں کو ایک کر دیا ہے، ان تیز رو اور وفادار پیغامبروں کی کچھ ضرورت نہ رہی، جنہوں نے جنگِ جرمنی و فرانس میں بڑی بڑی گراں قدر خدمات انجام دی تھیں۔ حقیقت یہ ہے کہ بہت سے لوگوں کا یہی خیال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ نئی ایجادات نے حالت بدل دی ہے اور اب نامہ بر کبوتر صرف چند بوڑھے شکاریوں ہی کے کام کے رہ گئے ہیں۔ مگر ایسا خیال کرنا بہت بڑی غلطی ہوگی۔ جو توجہ کہ اس وقت یورپ کی حکومتیں خصوصاً حکومتِ فرانس ان پرندوں پر کر رہی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ابھی تک وہ خدمت فراموش نہیں ہوئی ہے جو ان مسکین پرندوں نے حملۂ جرمنی کے زمانے میں محصورینِ پیرس کی انجام دی تھی۔ اس وقت فرانس کے یہاں ۸۲ فوجی کبوتر خانے ہیں جو اس کے تمام قلعوں میں علی الخصوص ان قلعوں میں جو مشرقی سرحد میں واقع ہیں، پھیلے ہوئے ہیں۔ یہ کبوتر خانے جو انجینئرنگ کور کے زیرِ انتظام ہیں، افزائشِ نسل اور تربیت کے لیے وقف کر دیے گئے ہیں۔

    مجھے ان فوجی کبوتر خانوں میں جانے کے لیے اور خاص اجازت حاصل کرنے میں کامیابی ہوئی جو پیرس کے قلعوں کے قریب مقام Vagirard میں واقع ہیں۔ یہاں کے حکمراں افسرنے مجھے اس عجیب جانورکی افزائش اور تربیت کا نظام سمجھا دیا۔ قارئین کرام کو یہ سن کر تعجب ہوگا کہ ان پرندوں پر اس قدر روپیہ صرف کیا جا رہا ہے۔ سپاہی ان ننھے ننھے جانوروں کو بہت چاہتے ہیں اور ان کی تعلیمی ترقی کو سرگرم دلچسپی کے ساتھ دیکھتے رہتے رہیں۔

    مقام ویجیر رڈ اور اسی طرح دوسرے مقامات میں کبوتروں کی ڈھابلیاں مکان کی چھت پر ہوتی ہیں۔ ہر یک ڈھابلی ایک روش کے ذریعہ دو حصوں میں منقسم ہوتی ہے۔ فرش پر پلاسٹر اور اس پر خشک اور متوسط درجہ کی خوشنما چٹائیوں کی ایک تہہ ہوتی ہے تاکہ ان کے پنجے نجاست میں آلودہ نہ ہوں۔ پانی کے برتن چھوٹے بنائے گئے ہیں تاکہ کبوتر نہانے میں زیادہ پانی نہ پھینک سکیں۔ لیکن جب کبھی ان ڈھابلیوں کی چھت پر بہتے ہوئے پانی کا سامان ہو جاتا ہے تو بڑے برتن رکھ دیے جاتے ہیں تاکہ وہ ان میں آزادی سے نہا دھوسکیں اور اس طرح مہلک جراثیم سے محفوظ ہو جائیں۔

    ہر خانے میں ہوا کی آمد و رفت کا عمدہ انتظام کیا گیا ہے۔ ہر کبوتر کے جوان جوڑے کو ۳۵ فٹ مکعب اور ہر بچہ کو ۹ فٹ مکعب جگہ دی گئی ہے۔ اس خیال سے کہ ہوا کی گردش میں سہولت ہو، پہاڑی یا سرد ملکوں کے علاوہ اور کہیں ڈھابلیوں کی چھتوں پر استر کاری نہیں کی جاتی۔

    ان ڈھابلیوں کا مشرق رو ہونا بھی نہایت ضروری ہے۔ تقریباً تمام فرانسیسی ڈھابلیوں کا رخ شمال اور شمال و مشرق نیز طوفان آب کے تمام رخوں کے بالکل مخالف ہوتا۔ اس کا خیال رکھا جاتا ہے کہ یہ ڈھابلیاں ٹیلی گراف یا ٹیلی فون کے دفتر کے پاس نہ بنائی جائیں جن کے تار اڑنے میں ٹکرا کے انہیں زخمی کر سکتے ہیں۔

    بڑے بڑے درخت اور اونچی اونچی عمارتیں بھی قابل اعتراض سمجھی جاتی ہیں۔ کیوں کہ ان کی وجہ سے ان کبوتروں کو بآسانی بیٹھنے کے مواقع مل جاتے ہیں اور اڑنے سے جی چرانے لگتے ہیں۔ کترنے والے جانوروں مثلاً Ordents کی روک کے لیے شیشہ دار پنجرے چوکھٹوں میں رکھے جاتے ہیں۔ پاس کی چمنی پر لوہے کا جال تنا رہتا ہے تاکہ چمنی میں بچے نہ گر سکیں۔ تمام کبوتر خانوں اور انجینئرنگ کور کے دفتروں میں ٹلی فون لگا ہوا ہے۔

    یہ قاعدہ ہے کہ ہر کبوترخانے میں ۱۰۰ کبوتر ایسے ہوتے ہیں جو فراہمی فوج میں شرکت کے لیے تیار کیے جاتے ہیں۔ اس مفید طاقت کے قائم رکھنے کے لیے دو کمرے ایک سو تیس جوان کبوتروں کے، ایک کمرہ دو سو بچوں کا جو اسی سال پیدا ہوئے ہوں، ایک جنوب رو شفاخانہ (infirmary) اور ایک دار التجربہ (Laboratory) درکار ہوتا ہے۔

    ان خانوں میں رکھنے کے لیے کبوتر ان بچوں میں سے انتخاب کیے جاتے ہیں جن کی عمر ابھی ۴ ہفتہ ہی کی ہوتی ہے اور جو ابھی تک اپنے ان پیدائشی خانوں سے نہیں نکلے ہوتے جن میں وہ پیدا ہوئے ہیں۔

    صحت اور غذا کی نگرانی کے خیال سے پہلے ۴ یا ۵ دن تک ان کی دیکھ بھال رہتی ہے۔ اس کے بعد خانے سے نکلنے اور ادھر ادھر اڑتے پھرنے میں اس طرح حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ بغیر ڈرائے ہوئے (تاکہ وہ اپنے داخلے کا دروازہ پہچان سکیں) نکل بھاگنے کا انہیں موقع دیا جاتا ہے۔ یہ تربیت روز تین بجے دن کو کی جاتی ہے۔

    جب اس نوآبادی میں جوان کبوتر ملا دیے جاتے ہیں تو یہ مشق بہت دیر تک جاری رہتی ہے۔ تازہ وارد کبوتر پہلے تو ایک معتدبہ زمانے تک علیحدہ بند رہتے ہیں۔ اس کے بعد پرانے رہنے والوں کے ساتھ ملا دیے جاتے ہیں۔ آخر میں ان کی اگلی پانچ پانچ یا چار چار کلیاں دو دو انچ کے قریب کتر دی جاتی ہیں تاکہ موسم بھر اڑ نہ سکیں۔ جب جھاڑنے کا زمانہ آتا ہے تو ان کتری ہوئی کلیوں کی جگہ پوری پوری نئی کلیاں نکل آتی ہیں۔

    قابلِ خدمت ٹکڑیوں میں (ٹکڑیاں فوجی اصطلاح میں کور Corps کہلاتی ہیں) ماہ مئی کے قریب دو برس سے لے کر آٹھ برس تک کے ۱۰۰ کبوتر ہوتے ہیں۔ ان میں اکتوبر تک ۶ محفوظ کبوتر اور ۱۸ مہینے کے ایسے ۲۳ پٹھے نوجوان بڑھا دیے جاتے ہیں جو تعلیمی معرکوں میں حصہ لے چکے ہیں۔

    کھانے کے لیے سیم، مٹر اور مسور کا اکرا دیا جاتا ہے جو برابر سال بھر تک جمع ہوتا رہتا ہے۔ اکرے کی مقدار فی کبوتر تقریباً ڈیڑھ اونس ہوتی ہے جو تین وقتوں میں یعنی صبح، دوپہر اور ۳ بجے دن کو دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ مٹی، چونا، دریا کی عمدہ بالو، انڈے کے چھلکے اور گھونگے بھی ہم وزن پسے ہوئے ملتے ہیں۔ یہ مرکب جسے نمک آمیز زمین (Salted Earth) کہتے ہیں، ہمیشہ ان کے پنجروں میں پڑا رہتا ہے۔

    بہار کے زمانے میں اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ دو ہلکے یا دو بہت ہلکے رنگ کے کبوتروں میں یا نہایت ہی قریبی رشتہ دار کبوتروں میں، یا ایک دوسرے سے بے حد ملتے ہوئے کبوتروں میں جوڑا نہ لگنے پائے۔ جوڑا صرف انہی کبوتروں میں قائم کرنا چاہیے جن کی آنکھوں اور پروں کے رنگ مختلف ہوں۔ چھوٹے بڑے، جوان بوڑھے، باہم مانوس اور غیر مانوس کبوتروں میں اوٹ ضرور بنا دینی چاہیے۔
    جب چند دنوں تک ایک ساتھ علیحدہ بند رہنے سے جوڑا لگ جائے تو پھر انہیں کمرہ میں آزادی سے پھرنے دینا چاہیے۔ جوڑا لگنے کے بعد سے۴۰ دن کے اندر مادہ انڈے دیتی ہے اور اس کے بعد ۱۷ دن تک سیکتی ہے۔ جب بچے ۴ یا ۵ ہفتے کے ہو جاتے ہیں اور دانہ چگنے لگتے ہیں تو ماں باپ سے علیحدہ کر کے ایک ایسے جنوب رویہ کمرہ میں رکھ دیے جاتے ہیں جس میں زائد سے زائد دھوپ آتی ہو۔ کسی دوسری جھولی کے یا موسم خزاں کے انڈے نہیں رکھے جاتے۔ کیونکہ ان کے بچے موٹے ہوتے ہیں اور بے قاعدہ پر جھاڑنے لگتے ہیں۔

    (انشاء پرداز اور صاحبِ طرز ادیب ابوالکلام آزاد کے ایک مضمون سے اقتباس، اندازہ ہے کہ یہ تحریر لگ بھگ سات، آٹھ دہائیاں پرانی ہے)

  • مولانا آزاد اور سنیچر کی شام

    مولانا آزاد اور سنیچر کی شام

    مولانا (ابوالکلام آزاد) سے میری رسمی ملاقاتیں تو 1934ء سے پہلے بھی ہوئیں لیکن پہلی ملاقات جسے ہم باضابطہ تعارف کہہ سکتے ہیں وہ اس وقت ہوئی جب کہ میں آل انڈیا اردو لٹریری کانفرنس کلکتہ کی مجلسِ استقبالیہ کے صدر کی حیثیت سے مولانا کو کانفرنس کی شرکت کے لیے دعوت دینے گیا اور رخصت ہوتے ہوئے مولانا سے پھر حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔

    مولانا نے بڑی شفقت کے ساتھ اجازت دی اور کہا کہ بھئی سنیچر کی شام کو آؤ، روزہ رکھتے ہو یا نہیں رکھتے ہو لیکن میرے ساتھ افطار کرو۔ پھر مسکرا کر کہنے لگے کہ تم اتنے بد ذوق تو ہو نہیں کہ اگر روزہ نہ رکھتے ہو تو افطار سے بھی پرہیز کرو۔ میں نے تسلیم کیا اور آئندہ حاضر ہونے کا وعدہ کر کے چلا آیا۔

    تیسرے دن حاضر ہوا۔ مولانا کو اطلاع کرائی۔ مولانا نیچے اترے اس حال میں کہ افطار کا خوان ان کے پیچھے پیچھے ایک ملازم کے ہاتھوں میں تھا۔ افطار کے بعد چائے آئی اور مولانا نے خود اپنے ہاتھوں سے چائے کی ایک پیالی بنا کر میری طرف سرکائی۔ مجھے اس دن زکام کی شکایت تھی۔ میں نے عذر کیا۔

    میرے اس عذر پر مولانا کچھ گھبرا سے گئے اور کہنے لگے آپ چائے بالکل نہیں پیتے ہیں یا اس وقت کسی خاص وجہ سے نہیں پی رہے ہیں۔ میں نے عرض کیا کہ جی نہیں، پیتا تو ہوں۔ اور شوق سے پیتا ہوں لیکن اس وقت زکام میں مبتلا ہوں۔ یہ سن کر اک ذرا بلند آواز سے فرمایا کہ الحمدللہ! میں نے نہایت ادب سے عرض کیا کہ مولانا خدا کا شکر تو بہرحال کرنا چاہیے مگر اس وقت الحمدُللہ کہنے کا کوئی خاص سبب؟ کہنے لگے بھئی معاملہ یہ ہے کہ ایسے لوگ جو چائے پینے سے پرہیز کرنے والے تھے جب جب میری زندگی میں آئے تو میرے لیے خطرناک ثابت ہوئے اور میں ایسے لوگوں سے ڈرنے لگا جو چائے جیسی نعمت سے پرہیز کرتے ہوں۔ یہ معلوم کر کے کہ تم چائے ایک خاص وجہ سے نہیں پی رہے ہو اطمینان سا ہوا اور میں نے خدا کا شکر ادا کیا۔

    اس کے بعد کچھ علمی بحثیں چھڑ گئیں جن کو اگر یہاں چھیڑا جائے تو اس مضمون کا سلسلہ اتنا دراز ہو کہ ایک چھوٹی سی کتاب بھی اس کے لیے کافی نہ ہوسکے ۔ یہ تو معلوم ہے کہ مولانا علم و فضل کے اتھاہ سمندر تھے اور اس کی ہر موج طوفانی ہوا کرتی تھی، ہم نے چار پانچ سال مولانا کی خدمت میں بیٹھ کر مختلف علوم و فنون پر ان کی بصیرت افروز گفتگو سنی اور اپنی معلومات کی خالی جھولیاں بھرتے رہے لیکن میں اس مقالے میں مولانا کی علمی شخصیت سے گفتگو نہیں کروں گا۔ اس لیے کہ اس پر مجھ سے بہتر لوگ اپنے خیالات کا اظہار کرچکے ہیں اور کررہے ہیں۔ میں صرف اس مضمون میں مولانا کی نجی صحبت کی ایک ہلکی سی تصویر کشی کروں گا اور ان کے سنجیدہ مزاح کے بعض نمونے سنا کر مولانا کی یاد تازہ کروں گا؛

    تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
    گاہے گاہے باز خواں ایں قصہ پارینہ را

    مولانا سے اس پہلی باضابطہ ملاقات کے بعد میں نے اکثر و بیشتر ان کی خدمت میں حاضر ہوتے رہنے کی اجازت چاہی اور یہ بھی پوچھا کہ اگر خاطرِ اقدس کو ناگوار نہ ہو تو بعض اور خوش ذوق احباب کو بھی ساتھ لاؤں۔ مولانا نے فرمایا کہ بھئی ناگوارِ خاطر ہونے کی کیا بات ہے میں تو خود چاہتا ہوں کہ ہندوستان کے نوجوانوں سے باتیں کرنے کا موقع ملے تاکہ یہ اندازہ ہو کہ ہندوستان کی آئندہ نسلیں کیسی تیار ہورہی ہیں۔ تم آؤ اور ضرور آؤ، اپنے دوستوں کو بھی ساتھ لیتے آؤ۔ سنیچر کی شام میری ہمیشہ خالی رہتی ہے۔ اس کے بعد سے ہمارا یہ دستور ہوگیا کہ ہم چند احباب ہر سنیچر کی سہ پہر کو مولانا کی خدمت میں حاضر ہوتے اور آٹھ بجے رات تک برابر ان کے قدموں کے سامنے بیٹھ کر اپنا دامنِ تہی پھیلاتے اور جب اٹھتے تو اس دامن تہی کو مختلف علمی جواہر ریزوں سے لبریز پاتے۔ اس اثنا میں مولانا کے دل چسپ فقرے بھی ہوتے رہتے جن کا زیادہ تر نشانہ میرے مرحوم دوست پروفیسر طاہر رضوی ہوتے۔ مولانا نے ان کی بھولی اور معصوم شخصیت سے دل چسپی لینی شروع کردی اور اس کا سبب یہ ہے کہ طاہر مرحوم نے ان ہی دنوں میں پارسی مذہب کے متعلق ایک کتاب لکھی تھی جس میں یہ ثابت کیا تھا کہ پارسی، یہودیوں اور عیسائیوں کی طرح اہلِ کتاب ہیں۔

    مولانا نے وہ کتاب ملاحظہ کی اور پروفیسر طاہر رضوی کی محنتوں کی بھرپور داد دی ۔ ایک دن پوچھنے لگے کہ بھئی طاہر اس کتاب کے لکھنے کا خیال آپ کے ذہن میں کس راستے سے آیا۔ میں مولانا کی خدمت میں ذرا گستاخ ہوچلا تھا۔ طاہر رضوی کو سنانے کے خیال سے بولا کہ مولانا ممکن ہے محبت کے راستے آیا ہو۔ مولانا مسکرا کر طاہر صاحب سے مخاطب ہوئے۔ دیکھو بھئی تمہارے یہ احباب بڑے ناقدر شناس ہیں۔ تمہارے علمی شغف کو ایک جذباتی انہماک کا نتیجہ بتلاتے ہیں۔ یہ صریحی ظلم ہے۔ اس کے بعد یہ ہوا کہ جب جب مجلس کچھ سونی سی ہونے لگتی تو مولانا طاہر صاحب کی طرف مسکرا کر دیکھتے اور پوچھتے کہ ہاں بھئی آپ کے احباب کا وہ شبہ اب تک قائم ہے یا رفع دفع ہوا۔ طاہر صاحب کا جھینپنا، مولانا کا مسکرانا اور جملہ احباب کا کھلکھلانا ابھی تک یاد آتا ہے۔

    (مولانا آزاد: کچھ نجی یادیں از قلم جمیل مظہری)

  • گاندھی اور جواہر لال کو خاطر میں نہ لانے والے ابوالکلام آزاد کا تذکرہ

    گاندھی اور جواہر لال کو خاطر میں نہ لانے والے ابوالکلام آزاد کا تذکرہ

    ہندوستان کے مسلمان ابوالکلام آزاد کو ’امامُ الہند‘ کہتے تھے۔ وہ برطانوی دور میں‌ ہندوستان کی سیاست میں‌ نام وَر ہوئے اور صرف ایک سیاست داں ہی نہیں بلکہ صاحبِ طرز ادیب، جیّد صحافی اور ایک مصلح اور مدرس کی حیثیت سے بھی پہچانے گئے۔

    مولانا کو ہندوستان کی نادرِ روزگار شخصیات میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھوں نے جہاں علمی و تحقیقی مقالات، انشائیہ نگاری کے ساتھ شاعری کی، وہیں قرآن کی تفسیر بھی لکھی۔ انھوں نے مسلمانانِ ہند کی سیاسی، سماجی اور دینی تربیت اور راہ نمائی کرتے رہے۔

    آزاد سنہ 1888 میں مکّہ مکرّمہ میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کا اصل نام غلام محی الدّین تھا۔ ان کی مادری زبان عربی تھی اور والد مولانا خیر الدّین ایک مذہبی عالم تھے۔ انھوں نے اپنے والد سے ابتدائی تعلیم حاصل کی اور اس کے بعد مصر کی مشہور درس گاہ جامعہ ازہر سے مشرقی علوم کی تکمیل کی۔ غور و فکر کے عادی اور علم و تحقیق کے رسیا ابوالکلام چودہ برس کے تھے جب ان کی تحریریں اخبارات اور رسالوں میں شائع ہونا شروع ہو گئیں اور 1912 میں جب وہ پچیس سال کے تھے، ایک سیاسی رسالے ’الہلال‘ کے ایڈیٹر بن گئے۔ سنہ 1920 کے لگ بھگ انھوں نے عملی سیاست میں‌ قدم رکھا اور 33 سال کی عمر میں تحریکِ خلافت، تحریکِ ترک موالات اور عدم تعاون کے روح رواں بن گئے۔

    مسلمانوں میں ان کا درجہ اتنا بڑھا کہ انھیں ’امام الہند‘ کہا جانے لگا۔ سیاسی میدان میں ان کی لیاقت اور فہم کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہ 1923 میں 35 برس کے تھے جب انڈین نیشنل کانگریس کے صدر منتخب کر لیے گئے۔ دوسری بار صدر منتخب ہوئے اور 1946 تک یہ عہدہ ان کے پاس رہا۔ آزاد نے متعدد مرتبہ قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں اور ساتھ ہی علمی و ادبی کاموں میں‌ مشغول رہے۔

    وہ متحدہ ہندوستان کے ان مسلمان اکابرین میں سے تھے جو تقسیم کے بڑے مخالف رہے اور ان کی کوشش تھی کہ ہندو مسلم اتحاد برقرار رکھتے ہوئے متحدہ قومیت، ملی جلی تہذیب کو فروغ دیا جائے۔

    مولانا عرب سے ہجرت کر کے ہندوستان آئے تھے تو کلکتہ کو اپنی سرگرمیوں کا مرکز بنایا تھا اور یہیں ان کی صحافتی اور سیاسی زندگی کا آغاز ہوا تھا۔ یہیں سے ’الہلال‘ جیسا ہفتہ وار اخبار نکالا جو پہلا با تصویر سیاسی اخبار تھا۔ اس اخبار میں انگریزوں کی پالیسیوں کے خلاف مضامین شائع ہوتے تھے جس پر اسے بندش کا سامنا کرنا پڑا۔ اس کے بعد مولانا نے ’البلاغ‘ کے نام سے دوسرا اخبار جاری کیا اور اس کے ذریعے انگریزوں کی مخالفت جاری رکھی۔ مولانا آزاد نے اپنے اخبارات اور تحریروں کے ذریعے قومی، وطنی جذبات کو بیدار کرنے کی کوشش کی۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے ’پیغام‘ اور’لسانُ الصّدق‘جیسے اخبارات و رسائل بھی شائع کیے اور مختلف اخبارات سے بھی ان کی وابستگی رہی جن میں ’وکیل‘ اور ’امرتسر‘ قابلِ ذکر ہیں۔

    اس عرصے میں‌ وہ سیاسی محاذ پر بھی سرگرم رہے۔ انہوں نے’تحریکِ عدم تعاون‘ ’ہندوستان چھوڑ دو‘ جیسی تحریکوں‌ میں بھی حصہ لیا۔ مہاتما گاندھی، ڈاکٹر مختار احمد انصاری، حکیم اجمل خاں اور علی برادران کے ساتھ ان کے بہت اچھے مراسم رہے۔ گاندھی جی کے فلسفۂ عدم تشدد سے وہ بہت متاثر تھے اور ان کی قیادت پر اعتماد کرتے تھے۔

    اس زمانے میں جب قائدِ اعظم اپنے رفقا کے ساتھ حصول پاکستان کے جدوجہد میں مصروف تھے، مولانا آزاد بھی ایک اہم قومی لیڈر کی حیثیت سے میدانِ عمل میں تھے اور ہندوستان کی آزادی کی جنگ لڑرہے تھے۔ تاہم وہ تقسیم کی مخالفت کرتے تھے۔ اگرچہ وہ پاکستان کے قیام کے مخالف تھے مگر مسلمانوں کی بہتری اور بہبود ہمیشہ ان کا نصب العین رہی تھی۔

    22 فروری 1958 کو مولانا آزاد وفات پاگئے تھے۔ انھیں آزادی کے بعد مولانا بھارت میں وزیرِ تعلیم بنایا گیا۔ اس حیثیت میں انھوں نے کئی اہم کارنامے انجام دیے اور شعبۂ تعلیم کے لیے قابلِ‌ ذکر اقدامات کیے۔

    ملاّ واحد مولانا کی متاثر کن شخصیت اور ان کے خوش خصائل ہونے سے متعلق ایک واقعہ ان الفاظ میں‌ نقل کیا ہے:

    مولانا ابوالکلام آزاد اور نواب بہادر یار جنگ سے بھی ’نظامُ المشائخ‘ کے ابتدائی زمانے میں نواب بدھن کے کمرے میں ہی ملاقات ہوگئی تھی۔ یہ دونوں میرے ہم عمر تھے۔

    مولانا ابو الکلام سے میں ایک دفعہ پہلے بھی مل چکا تھا۔ خواجہ حسن نظامی کے ساتھ کان پور کے اسٹیشن پر اور حافظ محمد حلیم، تاجر چرم کان پور کی کوٹھی میں اور پھر 1947 تک ملتا رہا۔

    وہ میرے ہاں بیسیوں مرتبہ تشریف لائے اور آخر میں تو مسٹر آصف علی کا گھر ان کا گھر بن گیا تھا۔ نواب بہادر یار جنگ سے جہاں تک یاد پڑتا ہے، دوبارہ ملنا نہیں ہوا۔ البتہ ان کی دین داری اور ان کے اخلاص کی تعریفیں ہر شخص سے سنتا رہا۔

    مولانا ابو الکلام کو تو اﷲ تعالیٰ نے لکھنے کا بھی کمال دیا تھا اور بولنے کا بھی۔ نواب بہادر یار جنگ کی تحریر کیسی تھی، اس کا علم نہیں ہے۔ تقریر میں وہ مولانا ابو الکلام کے مقابلے کے بتائے جاتے تھے۔ گویا اردو زبان کے مقرروں میں صف اوّل کے مقرر تھے۔

    مولانا ابو الکلام کو انڈین نیشنل کانگریس میں جو مقام حاصل تھا، وہی مقام آل انڈیا مسلم لیگ میں نواب بہادر یار جنگ کا تھا۔

    مولانا ابو الکلام اور نواب بہادر یار جنگ کی بات چیت بھی غیرمعمولی پرکشش ہوتی تھی۔ مولانا ابو الکلام اپنی مشہور ’’انا‘‘ کے باوجود مخاطب کو متاثر کرلیتے تھے اور نواب بہادر یار جنگ کی زبان کا جادو بھی مجھے یاد ہے۔ 1911ء میں نواب صاحب نواب بہادر خان تھے۔ ’نواب بہادر یار جنگ‘ کا خطاب بعد میں ملا تھا۔

    مولانا ابو الکلام کی ’’انا‘‘ مغروروں اور متکبّروں کی سی ’’انا‘‘ نہیں تھی۔ وہ بس اﷲ تعالیٰ کے سوا کسی کے آگے جھکتے نہیں تھے۔ تو یہ تو قابلِ ستائش ’’انا‘‘ ہے۔ یا اپنے علم و فضل اور اپنی ذہانت و طباعی کا انھیں احساس تھا، تو اس میں بھی کیا برائی ہے۔ تھے ہی مولانا واقعی جینیس۔

    مغرور اور متکبّر وہ قطعی نہیں تھے۔ میں نے ان کی حالت میں کبھی فرق نہیں پایا۔ مولانا ابو الکلام جیسے 1910 میں تھے 1947 تک مجھے تو ویسے ہی نظر آئے۔ اقتدار نے ان کے دماغ اور زبان پر کوئی خراب اثر نہیں کیا تھا۔ وہ گاندھی اور جواہر لال کو خاطر میں نہیں لاتے تھے لیکن ہم معمولی ملنے والوں پر دھونس نہیں جماتے تھے۔

  • ایک ہاتھ سے محروم اور سزا یافتہ ابنِ سباط کا تذکرہ

    ایک ہاتھ سے محروم اور سزا یافتہ ابنِ سباط کا تذکرہ

    گرمیوں کا موسم ہے، آدھی رات گزر چکی ہے۔ مہینہ کی آخری راتیں ہیں۔ بغداد کے آسمان پر ستاروں کی مجلسِ شبینہ آراستہ ہے، مگر چاند برآمد ہونے میں ابھی دیر ہے۔

    دجلہ کے پار کرخ کی تمام آبادی نیند کی خاموشی اور رات کی تاریکی میں گم ہے۔ اچانک تاریکی میں ایک متحرک تاریکی نمایاں ہوئی۔ سیاہ لبادے میں ایک لپٹا ہوا آدمی خاموشی اور آہستگی کے ساتھ جا رہا ہے۔ وہ ایک گلی سے مڑ کر دوسری گلی میں پہنچا اور ایک مکان کے سائبان کے نیچے کھڑا ہو گیا۔ اب اس نے سانس لی۔ گویا یہ مدّت کی بند سانس تھی، جسے اب آزادی سے ابھرنے کی مہلت ملی ہے۔ پھر اس نے آسمان کی طرف نظر اٹھائی ”یقیناً تین پہر رات گزر چکی ہے۔” وہ اپنے- دل میں کہنے لگا۔

    ”مگر کیا بد نصیبی ہے کہ جس طرف رخ کیا ناکامی ہی ہوئی۔ کیا پوری رات اسی طرح ختم ہو جائے گی؟”

    یہ خوف ناک ابنِ سباط ہے جو دس برس کی طول طویل زندگی قید خانہ میں بسر کر کے اب کسی طرف نکل بھا گا ہے اور نکلنے کے ساتھ ہی اپنا قدیم پیشہ از سرِ نو شروع کر رہا ہے۔ یہ اس کی نئی مجرمانہ زندگی کی پہلی رات ہے۔ اس لیے وقت کے بے نتیجہ ضائع جانے پر اس کا بے صبر دل پیچ و تاب کھا رہا ہے۔

    اس نے ہر طرف کی آہٹ لی۔ زمین سے کان لگا کر دور دور تک کی صداؤں کا جائزہ لیا اور مطمئن ہو کر آگے بڑھا۔ کچھ دور چل کر اس نے دیکھا ایک احاطہ کی دیوار دور دور تک چلی گئی ہے اور وسط میں بہت بڑا پھاٹک ہے۔ کرخ کے اس علاقہ میں زیادہ تر امراء کے باغ تھے یا سوداگروں کے گودام تھے۔ اس نے خیال کیا یہ احاطہ یا تو کسی امیر کا باغ ہے یا سوداگروں کا گودام۔

    وہ پھاٹک کے پاس پہنچ کر رک گیا۔ اور سوچنے لگا اندر کیوں کر جائے؟ اس نے آہستگی سے دروازہ پر ہاتھ رکھا، لیکن اسے نہایت تعجب ہوا کہ دروازہ اندر سے بند نہیں تھا۔ صرف بھڑا ہوا تھا۔ ایک سیکنڈ کے اندر ابنِ سباط کے قدم احاطہ کے اندر پہنچ گئے۔

    اس نے دہلیز سے قدم آگے بڑھایا تو ایک وسیع احاطہ نظر آیا۔ اس کے مختلف گوشوں میں چھوٹے چھوٹے حجرے بنے ہوئے تھے اور وسط میں ایک نسبتاً بڑی عمارت تھی۔ یہ درمیانی عمارت کی طرف بڑھا۔ عجیب بات ہے کہ اس کا دروازہ بھی اندر سے بند نہ تھا۔چُھوتے ہی کھل گیا۔ گویا وہ کسی کی آمد کا منتظر تھا۔

    اندر جا کر دیکھا تو ایک وسیع ایوان تھا۔ لیکن سامانِ راحت و زینت میں سے کوئی چیز بھی نہ تھی۔ قیمتی اشیاء کا نام و نشان نہ تھا۔ صرف ایک کھجور کے پتّوں کی پرانی چٹائی بچھی تھی اور ایک طرف چمڑے کا تکیہ پڑا تھا۔ البتّہ ایک گوشہ میں پشمینہ کے موٹے کپڑے کے بہت سے تھان اس طرح بے ترتیب پڑے تھے گویا کسی نے جلدی میں پھینک دیے ہیں اور ان کے قریب ہی بھیڑ کی کھال کی چند ٹوپیاں بھی پڑی تھیں۔ اس نے مکان کی موجودات کا یہ پورا جائزہ کچھ تو اپنی اندھیرے میں دیکھ لینے والی آنکھوں سے لے لیا تھا اور کچھ اپنے ہاتھ سے ٹٹول ٹٹول کر۔ لیکن اس کا ہاتھ ایک ہی تھا۔ یہ بغداد والوں کی بول چال میں ”ایک ہاتھ کا شیطان تھا” جو اب پھر قید و بند کی زنجیریں توڑ کر آزاد ہو گیا ہے۔

    دس برس کی قید کے بعد ابنِ سباط کو آج پہلی مرتبہ موقع ملا تھا کہ اپنے دل پسند کام کی جستجو میں آزادی کے ساتھ نکلے۔ جب اس نے دیکھا اس مکان میں کام یابی کے آثار نظر نہیں آتے اور یہ پہلا قدم بے کار ثابت ہو گا تو اس کے تیز اور بے لگام جذبات سخت مشتعل ہو گئے۔ وہ دل ہی دل میں اس مکان والوں کو گالیاں دینے لگا، جو اپنے مکان میں رکھنے کے لیے قیمتی اشیا فراہم نہ کر سکے۔ ایک مفلس کا افلاس خود اس کے لیے اس قدر درد انگیز نہیں ہوتا جس قدر اس چور کے لیے جو رات کے پچھلے پہر مال و دولت کی تلاش کرتا ہوا پہنچتا ہے۔

    اس میں شک نہیں، پشمینہ کے بہت سے تھان یہاں موجود تھے اور وہ کتنے ہی موٹے اور ادنیٰ قسم کے کیوں نہ ہوں۔ مگر پھر بھی اپنی قیمت رکھتے تھے۔ لیکن مشکل یہ تھی کہ ابنِ سباط تنہا تھا اور صرف تنہا ہی نہ تھا بلکہ دو ہاتھوں کی جگہ صرف ایک ہاتھ رکھتا تھا۔ وہ ہزار ہمّت کرتا، مگر اتنا بڑا بوجھ اس کے سنبھالے سنبھل نہ سکتا تھا۔

    ”ایک ہزار لعنت کرخ اور اس کے تمام باشندوں پر۔” وہ بڑبڑانے لگا۔

    ” نہیں معلوم کون احمق ہے جس نے یہ ملعون تھان جمع کر رکھے ہیں؟ غالباً کوئی تاجر ہے لیکن یہ عجیب طرح کا تاجر ہے جسے بغداد میں تجارت کرنے کے لیے کوئی اور چیز نہیں ملی۔ اتنا بڑا مکان بنا کر گدھوں خچروں کی جھول بنانے کا سامان جمع کر دیا۔ اس نے اپنے ایک ہی ہاتھ سے ایک تھان کی ٹٹول ٹٹول کر پیمائش کی۔ ”بھلا یہ ملعون بوجھ کس طرح اٹھایا جا سکتا ہے؟” ایک تھان کے اٹھانے کے لیے گن کر دس گدھے ساتھ لانے چاہییں۔

    لیکن بہرحال کچھ نہ کچھ کرنا ضروری تھا۔ رات جا رہی تھی۔ اس نے سوچا جلدی سے ایک دو تھان جو اٹھائے جا سکتے ہیں، اٹھا لے۔ مشکل یہ تھی کہ مال کم قیمت مگر بہت زیادہ وزنی تھا۔ کم لیتا ہے تو بیکار ہے، زیادہ لیتا ہے تو لے جا نہیں سکتا۔ عجب طرح کی کشمکش میں گرفتار تھا۔ بہرحال کسی نہ کسی طرح یہ مرحلہ طے ہوا۔ لیکن اب دوسری مشکل پیش آئی۔ صوف کا کپڑا بے حد موٹا تھا۔ اسے مروڑ دے کر گرہ لگا نا آسان نہ تھا۔دونوں ہاتھوں سے بھی یہ کام مشکل تھا۔ چہ جائے کہ ایک ہاتھ سے؟

    اس نے بہت سی تجویزیں سوچیں۔ طرح طرح کے تجربے کیے۔ دانتوں سے کام لیا۔ کٹی ہوئی کہنی سے سرا دبایا۔ لیکن کسی طرح بھی گٹھڑی میں گرہ نہ لگ سکی۔

    اچانک وہ چونک اٹھا۔ مگر قبل اس کے کہ وہ کوئی حرکت کرسکے۔ دروازہ کھلا اور روشنی نمایاں ہوئی۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو سامنے ایک شخص کھڑا ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک شمع دان ہے اور اسے اس طرح اونچا کر رکھا ہے کہ کمرے کے تمام حصّے روشن ہو گئے ہیں۔ اس شخص کی وضع و قطع سے اس کی شخصیت کا اندازہ کرنا مشکل تھا۔ لیکن یہ عجیب بات تھی کہ جسم کی اس غیر معمولی نحافت کا کوئی اثر اس کے چہرے پر نظر نہیں آتا تھا۔ اتنا کم زور جسم رکھنے پر بھی اس کا چہرہ کچھ عجیب طرح کی تاثیر و گیرائی رکھتا تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے ہڈیوں کے ایک ڈھانچے پر ایک شان دار اور دلآویز چہرہ جوڑ دیا گیا ہے۔

    ”میرے دوست! تم پر خدا کی سلامتی ہو۔ جو کام تم کرنا چاہتے ہو، یہ بغیر روشنی اور ایک رفیق کے انجام نہیں پا سکتا۔ دیکھو یہ شمع روشن ہے اور میں تمہاری رفاقت کے لیے موجود ہوں۔ روشنی میں ہم دونوں اطمینان اور سہولت کے ساتھ یہ کام انجام دے لیں گے۔”

    وہ ایک لمحہ کے لیے رکا۔ جیسے کچھ سوچنے لگا ہے۔ پھر اس نے کہا، ”مگر میں دیکھتا ہوں تم بہت تھک گئے ہو۔ تمہاری پیشانی پسینہ سے تر ہو رہی ہے۔

    اس نے اپنی کمر سے رومال کھولا اور اس کی پیشانی کا پسینہ پونچھ ڈالا۔ جب وہ پسینہ پونچھ رہا تھا تو اس کی آنکھوں میں باپ کی سی شفقت اور ہاتھوں میں بھائی کی سی محبت کام کر رہی تھی۔

    صورتِ حال کے یہ تمام تغیرات اس تیزی سے ظہور میں آئے کہ ابنِ سباط کا دماغ مختل ہو کر رہ گیا۔ وہ کچھ سمجھ نہ سکا کہ معاملہ کیا ہے؟ ایک مدہوش اور بے رادہ آدمی کی طرح اس نے اجنبی کے اشارہ کی تعمیل کی اور چٹائی پر بیٹھ گیا۔ اب اس نے دیکھا کہ واقعی اجنبی نے کام شروع کر دیا ہے۔ اس نے پہلے وہ گٹھڑی کھولی جو ابنِ سباط نے باندھنی چاہی تھی۔ مگر نہیں بندھ سکی تھی۔ پھر اچانک اسے کوئی خیال آیا۔ اس نے اپنا عبا اتار ڈالا اور اسے بھی گٹھڑی کے اندر رکھ دیا۔ اب وہ اٹھا اور ابنِ سباط کے قریب گیا۔

    ”میرے دوست! تمہارے چہرے سے معلوم ہوتا ہے کہ تم صرف تھکے ہوئے نہیں ہو بلکہ بھوکے بھی ہو۔ بہتر ہو گا کہ چلنے سے پہلے دودھ کا ایک پیالہ پی لو۔ اگر تم چند لمحے انتظار کر سکو تو میں دودھ لے آؤں۔” اس نے کہا۔ قبل ازیں اس کے کہ ابنِ سباط جواب دے، وہ تیزی کے ساتھ لوٹا اور باہر نکل گیا۔

    اب ابنِ سباط تنہا تھا، لیکن تنہا ہونے پر بھی اس کے قدموں میں حرکت نہ ہوئی۔ اجنبی کے طرزِ عمل میں کوئی بات ایسی نہ تھی جس سے اس کے اندر خوف پیدا ہوتا۔ وہ صرف متحیّر و مبہوت تھا۔

    اجنبی کی شخصیت کی تاثیر سے اس کی دماغی شخصیت مغلوب ہو گئی تھی۔ لیکن اب وہ تنہا ہوا تو آہستہ آہستہ اس کا دماغ اپنی اصلی حالت پر واپس آنے لگا۔ یہاں تک کہ تمام خصائل پوری طرح ابھر آئے اور وہ اسی روشنی میں معاملات کو دیکھنے لگا جس روشنی میں دیکھنے کا ہمیشہ سے عادی تھا۔

    اس نے اپنے دل میں کہا، ” یہ تو قطعی ہے کہ یہ شخص اس مکان کا مالک نہیں ہے مکان کے مالک کبھی چوروں کا اس طرح استقبال نہیں کیا کرتے مگر یہ شخص ہے کون؟

    اچانک ایک نیا خیال اس کے اندر پیدا ہوا۔ وہ ہنسا، یقیناً یہ بھی کوئی میرا ہی ہم پیشہ آدمی ہے اور اسی طرح نواح میں رہتا ہے۔ اتفاقات نے آج ہم دونوں چوروں کو ایک ہی مکان میں جمع کر دیا۔ چوں کہ یہ اسی نواح کا آدمی ہے اس لیے اس مکان کے تمام حالات سے واقف ہو گا۔ اسے معلوم ہو گا کہ آج مکان رہنے والوں سے خالی ہے اور یہ اطمینان سے کام کرنے کا موقع ہے۔ اس لیے وہ روشنی کا سامان ساتھ لے کر آیا۔ لیکن جب دیکھا کہ میں پہلے سے پہنچا ہوا ہوں تو آمادہ ہو گیا کہ میرا ساتھ دے کر ایک حصّہ کا حق دار بن جائے۔

    وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ دروازہ کھلا اور اجنبی ایک لکڑی کا بڑا پیالہ ہاتھ میں لیے نمودار ہو گیا۔ یہ لو! میں تمہارے لیے دودھ لایا ہوں۔ اسے پی لو! یہ بھوک اور پیاس دونوں کے لیے مفید ہو گا۔” ابنِ سباط واقعی بھوکا پیاسا تھا۔ بلا تامل منہ کو لگا لیا اور ایک ہی مرتبہ میں ختم کر دیا۔ اب اسے معاملہ کی فکر ہوئی۔ اتنی دیر کے وقفہ نے اس کی طبیعت بحال کر دی تھی۔

    ”دیکھو! اگرچہ میں تم سے پہلے یہاں پہنچ چکا تھا اور ہاتھ لگا چکا تھا اور اس لیے ہم لوگوں کے قاعدہ کے بموجب تمہارا کوئی حق نہیں۔ لیکن تمہاری ہوشیاری اور مستعدی دیکھ لینے کے بعد مجھے کوئی تامل نہیں کہ تمہیں بھی اس مال میں شریک کر لوں۔ اگر تم پسند کرو گے تو میں ہمیشہ کے لیے تم سے معاملہ کر لوں گا۔ لیکن دیکھو! یہ کہے دیتا ہوں کہ آج جو کچھ بھی یہاں سے لے جائیں گے۔ اس میں تم برابر کا حصہ نہیں پا سکتے۔ کیونکہ دراصل آج کا کام میرا ہی کام تھا۔”

    اجنبی مسکرایا۔ اس نے ابنِ سباط پر ایک ایسی نظر ڈالی، جو اگر چہ شفقت و مہر سے خالی نہ تھی۔ لیکن ابنِ سباط سمجھ نہ سکا۔ وہ غصّہ سے مضطرب ہو کر کھڑا ہو گیا۔

    ”بیوقوف! چپ کیوں ہے؟ یہ نہ سمجھنا کہ دودھ کا ایک پیالہ پلا کر اور چکنی چپڑی باتیں کر کے تم مجھے احمق بنا لو گے۔

    ”میرے عزیز دوست! کیوں بلاوجہ اپنی طبیعت آزردہ کرتے ہو؟ باقی رہا میرا حصّہ جس کے خیال سے تمہیں آزردگی ہوئی ہے تو میں ابھی نہیں چاہتا۔ میں چاہتا ہوں، تم ہمیشہ کے لیے مجھ سے معاملہ کر لو۔” اس نے بڑی گٹھڑی کے اٹھانے میں اجنبی کو مدد دیتے ہوئے کہا۔ اب ابن سباط نے اپنے گٹھڑی اٹھائی جو بہت ہی ہلکی تھی اور دونوں باہر نکلے۔

    اب یہ دونوں شہر کے کنارے ایک ایسے حصّہ میں پہنچ گئے۔ جو بہت ہی کم آباد تھا، یہاں ایک ناتمام عمارت کا پرانا اور شکستہ احاطہ تھا۔ ابنِ سباط اس احاطہ کے اندر گیا اور اجنبی نے باہر سے دونوں گٹھڑیاں اندر پھینک دیں۔ اس کے بعد اجنبی بھی کود کر اندر ہو گیا اور دونوں عمارت کے اندرونی حصّے میں پہنچ گئے۔

    دونوں گٹھڑیاں سامنے دھری تھیں۔ ایک گوشہ میں اجنبی کھڑا ہانپ رہا تھا۔ کچھ دیر تک خاموشی رہی۔ یکایک اجنبی بڑھا اور ابنِ سباط کے سامنے آکر کھڑا ہو گیا۔

    ”میں نے اپنی خدمت پوری کر لی ہے۔ اب میں تم سے رخصت ہوتا ہوں۔ لیکن قبل اس کے کہ میں تم سے الگ ہوں، تمہیں بتلا دینا چاہتا ہوں کہ میں وہ نہیں ہوں جو تم نے خیال کیا ہے، میں اسی مکان میں رہتا ہوں جہاں آج تم سے ملاقات ہوئی ہے اور تم نے میری رفاقت قبول کر لی تھی۔ میری عادت ہے کہ رات کو تھوڑی دیر کے لیے اس کمرے میں جایا کرتا ہوں۔ جہاں تم بیٹھے تھے۔ آج آیا تو دیکھا، تم اندھیرے میں بیٹھے ہو اور تکلیف اٹھا رہے ہو۔ تم میرے گھر میں میرے عزیز مہمان تھے۔ افسوس! میں آج اس سے زیادہ تمہاری تواضع اور خدمت نہ کر سکا۔

    اجنبی تو خود روانہ ہو گیا۔ لیکن ابنِ سباط کو ایک دوسرے ہی عالم میں پہنچا دیا، اب وہ مبہوت اور مد ہوش تھا۔

    دوپہر ڈھل چکی ہے۔ بغداد کی مسجدوں سے جو ق در جوق نمازی نکل رہے ہیں۔ دوپہر کی گرمی نے امیروں کو تہ خانوں میں اور غریبوں کو دیواروں کے سائے میں بٹھا دیا تھا۔ اب دونوں نکل رہے ہیں۔ ایک تفریح کے لیے دوسرا مزدوری کے لیے، لیکن ابنِ سباط اس وقت تک وہیں بیٹھا ہے۔ جہاں صبح بیٹھا تھا۔ رات والی دونوں گٹھڑیاں سامنے پڑی ہیں اور اس کی نظریں اس طرح ان میں گڑی ہوئی ہیں گویا ان کی شکنوں کے اندر اپنے رات والے رفیق کو ڈھونڈھ رہا ہے۔

    اس کی ساری زندگی گناہ اور سیاہ کاری میں بسر ہو ئی تھی۔ اس نے انسانوں کی نسبت جو کچھ دیکھا سنا تھا، وہ یہی تھا کہ خود غرضی کا پتلا اور نفس پرستی کی مخلوق ہے۔ وہ نفرت سے منہ پھیر لیتا ہے اور بے رحمی سے ٹھکرا دیتا ہے۔ سخت سے سخت سزائیں دیتا ہے، لیکن وہ نہیں جانتا تھا کہ محبّت بھی کرتا ہے اور اس میں فیاضی بخشش اور قربانی کی بھی روح ہو سکتی ہے۔

    ”یہ چور نہیں تھا۔ مکان کا مالک تھا، لیکن اس نے چور کو پکڑنے اور سزا دلا دینے کی جگہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا؟” کا جواب اس کی روح کے لیے ناسور اور اس کے دل کے لیے ایک دہکتا ہوا انگارہ تھا۔

    سورج ڈوب رہا تھا۔ بغداد کی مسجدوں کے میناروں پر مغرب کی اذان کی صدائیں بلند ہو رہی تھیں۔ ابن سباط کرخ کے اس حصہ میں پہنچا جہاں رات گیا تھا۔ رات والے مکان کے پہچاننے میں اسے کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ مکان کے پاس ہی ایک لکڑ ہارے کا جھونپڑا تھا۔ یہ اس کے پاس گیا اور پوچھا۔ ”یہ سامنے بڑا سا احاطہ ہے، اس میں کون تاجر رہتا ہے؟ ”

    تاجر؟ بوڑھے لکڑہارے نے تعجب کے ساتھ کہا، ”معلوم ہوتا ہے تم یہاں کے رہنے والے نہیں ہو۔ یہاں تاجر کہاں سے آیا؟ یہاں تو شیخ جنید بغدادی رہتے ہیں۔” ابنِ سباط اس نام کی شہرت سے بے خبر نہ تھا۔ لیکن صورت آشنا نہ تھا۔

    ابن سباط مکان کی طرف چلا۔ رات کی طرح اس وقت بھی دروازہ کھلا تھا۔ یہ بے تامل اندر چلا گیا۔ سامنے وہی رات والا ایوان تھا۔ یہ آہستہ آہستہ بڑھا اور دروازہ کے اندر نگاہ ڈالی۔ وہی رات والی چٹائی بچھی تھی۔ رات والا تکیہ ایک جانب دھرا تھا۔ تکیہ سے سہارا لگائے ”اجنبی” بیٹھا تھا۔ تیس چالیس آدمی سامنے تھے۔ واقعی ”اجنبی” تاجر نہیں تھا۔ شیخ جنید بغدادی تھے۔

    اتنے میں عشا کی اذان ہوئی۔ لوگ اٹھ کھڑے ہوئے۔ جب سب لو گ جا چکے تو شیخ بھی اٹھے۔ جونہی انہوں نے دروازہ کے باہر قدم رکھا، ایک شخص بے تابانہ بڑھا اور قدموں پر گر گیا۔ یہ ابنِ سباط تھا۔ شیخ نے شفقت سے اس کا سَر اٹھایا۔ یہ کھڑا ہو گیا، مگر زبان نہ کھل سکی اور اب اس کی ضرورت بھی کیا تھی؟ جب نگاہوں کی زبان کھل جاتی ہے تو منہ کی زبان کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

    اس واقعہ پر کچھ عرصہ گزر چکا ہے۔ شیخ احمد ابنِ سباط کا شمار سیّدُ الطائفہ کے حلقہ ارادت کے ان فقرا میں ہے، جو سب میں پیش پیش ہیں۔ شیخ کہا کرتے ہیں، ”ابنَ سباط نے وہ راہ لمحوں میں طے کر لی جو دوسرے برسوں میں بھی طے نہیں کر سکتے۔ ”

    ابنِ سباط کو 30 برس تک دنیا کی دہشت انگیز سزائیں نہ بدل سکیں۔ مگر محبت اور قربانی کے ایک لمحے نے چور سے اہلُ اللہ بنا دیا۔

    (درسِ وفا سے اقتباسات جس کے مصنّف نام ور انشا پرداز اور ادیب ابو الکلام آزاد ہیں)