Tag: ابو سلمان شاہجہانپوری

  • معروف محقق اور مصنف ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری

    معروف محقق اور مصنف ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری

    آج پاکستان کے ایک معروف اہل قلم ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کی برسی ہے۔ 2 فروری 2021ء کو انتقال کرجانے والے ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری محقّق، سوانح و تذکرہ نگار کی حیثیت سے مشہور تھے جن کی تصانیف اردو زبان و ادب کا سرمایہ ہیں۔

    ڈاکٹر ابو سلمان شاہ جہاں پوری کا خاص میدان تحقیق تھا۔ ہندوستان کے صاحبِ طرز ادیب اور سیاسی راہ نما مولانا ابوالکلام آزادؔ کی شخصیت، اُن کے افکار اور علمی و ادبی کارناموں پر ڈاکٹر صاحب کے کام کو سند تسلیم کیا جاتا ہے۔ اسی بنا پر انھیں ‘آزاد شناس’ بھی کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر ابو سلمان نے گزشتہ نصف صدی اور موجودہ صدی کی پہلی دہائی میں دنیائے ادب اور سیاست کی متذکرہ نابغۂ روزگار شخصیت کی زندگی اور ان کے تخلیقی سفر کے مختلف پہلوؤں‌ پر بے مثال کام کیا۔

    ڈاکٹر ابو سلمان نے ابتدائی تعلیم شاہ جہان پور سے مکمل کی۔ حفظِ قرآن کے ساتھ ابتدائی عربی اور فارسی کا درس لیا۔ تقسیم کے بعد 1950ء میں پاکستان آگئے اور کراچی یونیورسٹی سے ایم۔اے (اُردو) اور 1980ء میں سندھ یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ ان کا سنِ پیدائش 1940ء ہے اور وطن شاہ جہاں پور (روہیل کھنڈ، یوپی)۔ والد محمد حسین خاں نے ان کا نام تصدق حسین خاں رکھا۔ لیکن علم و ادب کی دنیا میں وہ ابو سلمان الہندی کے نام سے متعارف ہوئے اور بعد میں الہندی کی جگہ ان کے آبائی علاقے کا نام جڑ گیا۔ ڈاکٹر ابو سلمان نے حامد بدایونی کالج، کراچی میں تدریس کے فرائض‌ بھی انجام دیے۔

    پاک و ہند کی سیاسی تاریخ، جدوجہد کی آزادی کی تحریکات، تنظیمات، شخصیات اور ان تحاریک کے نشیب و فراز ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کے خاص میدان رہے۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم ’’مقتدرہ قومی زبان پاکستان‘‘ سے بھی منسلک رہے۔ ’مقتدرہ‘‘ جب کراچی سے اسلام آباد منتقل ہوا تو اس سے الگ ہوگئے تھے۔

    1986ء کے آخر میں کراچی کے حالات نے دگرگوں صورت اختیار کرلی تھی۔ ڈاکٹر ابوسلمان کا گھر اور کتب خانہ ہنگاموں کی نذر ہوا، تو وہ بجھ کر رہ گئے اور خود کو گھر تک محصور کرلیا تھا۔ بہت کم کسی محفل اور علمی تقریب میں جاتے تھے، لیکن گھر میں رہ کر تصنیف و تالیف میں مصروف رہے اور اپنے تمام معمولاتِ زندگی اور معاشرتی تقاضوں کو نبھاتے ہوئے بے مثال علمی کارنامے انجام دیے۔

    مولانا آزاد کے علاوہ اُن کی محبوب شخصیات میں مولانا عبید اللہ سندھی، مولانا محمود الحسن، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حفظ الرحمٰن سیوہاروی، مفتی کفایت اللہ اور مولانا مناظر احسن گیلانی شامل ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اپنے موضوعات پر نہایت معیاری کتب یادگار چھوڑی ہیں‌ اور یہ ان کی محنت و لگن کا نتیجہ ہے کہ تحقیقی میدان میں ضروری مآخذ اور مستند حوالہ جات کے ساتھ انھوں نے مواد یک جا کیا ہے۔

    1957 ء تا 1974ء ابو سلمان کے سیکڑوں مضامین پاکستان اور ہندوستان کے مختلف رسائل میں شایع ہوئے۔ ان کے کئی مضامین اور مقالے کتابی شکل میں موجود ہیں۔ ان کی چند کتابوں میں‌ "اردو کی ترقی میں مولانا آزاد کا حصہ، اشفاق اللہ خاں شہید، افاداتِ آزاد، تحریکِ نظمِ جماعت،مولانا محمد علی اور ان کی صحافت، ابو الکلام و عبد الماجد، علامہ اقبال اور مولانا محمد علی، پاکستان کے اردو اخبارات و رسائل، مسلم افکارِ سیاست” کے نام شامل ہیں۔

    پروفیسر ابوسلمان شاہجہاں پوری کے قلم سے نکلی کئی کتابیں اہلِ علم و دانش سے خراجِ تحسین وصول کرچکی ہیں۔ وہ اپنے قلمی سفر کے بارے میں خود لکھتے ہیں کہ میری پہلی تحریر حضرت آزاد کی وفات پر شائع ہوئی تھی، اس کے بعد لکھتا ہی چلا گیا، لکھنے پڑھنے کے سوا نہ کوئی شوق ہے اور نہ کوئی کام آتا ہے، میرے کاموں پر بہت تحسین و آفرین ہوئی اور شدید ردعمل بھی آیا، لیکن میں نے اپنے کسی ردعمل کا جواب نہیں دیا، خود ہی سوچا کہ کہیں کسی کے بارے خلاف تہذیب یا خلاف واقعہ کوئی بات تو نہیں نکل گئی ہے، الحمد للّٰہ کہ ایسا کبھی نہیں ہونے پایا، بعض مضامین و مباحث میں اُسلوب بیان کی سختی کو محسوس کرتا ہوں لیکن اس کے لئے مجبور ہوں کہ یہ میرے اختیار کی بات نہیں۔ مجھے آج تک اپنی تالیفات کو گننے کا موقع نہیں ملا۔

  • جب عبیداللہ سندھیؒ کراچی کی بندرگاہ کیماڑی پر جہاز سے اترے

    مولانا عبیداللہ سندھیؒ کی تقاریر، خطبات اور مکتوبات کو مصنّفین اور تذکرہ نویسوں نے مختلف کتابوں میں محفوظ کیا ہے جن میں سے بعض‌ اس زمانے کے سیاسی، سماجی حالات اور مذہبی پس منظر میں بہت اہمیت رکھتے ہیں۔

    ڈاکٹر ابو سلمان شاہجہانپوری نے مولانا سندھی کی ایک تقریر کو اپنی کتاب (مجموعہ مکاتیب) میں نقل کیا تھا، اس تقریر کے متن میں کچھ اختلاف بھی ہے۔ وہ لکھتے ہیں، مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم 24 برس کی جلاوطنی کے بعد 1939ء میں کراچی کی بندرگاہ کیماڑی پر جہاز سے اترے تھے اور ان کے استقبال کے لیے اہلِ سندھ اور ملک کے منتخب اصحابِ فکر و تدبر کا جو جمِ غفیر بندرگاہ پر موجود تھا، مولانا نے اس سے خطاب کیا تھا۔ ان کی یہ تقریر اس وقت کے اخبارات میں شائع ہوئی تھی۔ اس کا صحیح ترین متن یہاں پیش کیا جاتا ہے۔

    عزیزانِ گرامی!
    1915ء میں مجھے میرے استاد حضرت شیخ الہندؒ نے افغانستان بھیجا تھا۔ آپ کے بزرگوں نے مجھے باہر بھیجا تھا۔ باہر رہ کر جو کچھ اسلام کی خدمت کر سکتا تھا، میں نے کی۔ میرے سامنے پہاڑ آئے، شکست کھا گئے، موت آئی، شکست کھا گئی۔ میں ان سپہ سالاروں کا رفیق رہا جنہوں نے دنیا کے بڑے بڑے معرکے سر کیے۔ آپ میری باتوں کو محض تاثرات یا عارضی ہیجانات کا نتیجہ نہ سمجھیے گا۔ میرے پیچھے تجربات کی دنیا ہے۔ میرے مشاہدات بہت وسیع ہیں۔ میں نے کھلی آنکھوں سے دنیا کو دیکھا ہے اور انقلابات اور ان کے اثرات و نتائج کا انقلاب کی سرزمینوں میں رہ کر مطالعہ کیا ہے۔ میں آپ سے کوئی بات چھپانا نہیں چاہتا۔ میرے افکار وقفِ عام ہیں۔ اب میں چراغِ سحری ہوں۔ چاہتا ہوں کہ مرنے سے پہلے اس پیغام کو ہندوستان کے نوجوانوں تک پہنچا دوں۔ اگر یہی حالات رہے تو مجھے خطرہ ہے کہ بنگال تقسیم ہو جائے گا۔ پہلے پہل اس انقلاب کی لپیٹ میں افغانستان آئے گا۔

    میں انقلاب کا پیامبر بن کر ہندوستان لوٹا ہوں۔ وہ دن دور نہیں کہ برطانیہ اور امریکہ والوں کو اپنے آپ کو سنبھالنا مشکل ہو جائے گا۔ اس انقلاب کو قیامت سے کم نہ سمجھیے۔ میں نے بڑے بڑے علما کو، بڑے بڑے افراد کو دربدر بھیک مانگتے دیکھا ہے، غیرتوں کو لٹتے دیکھا ہے۔ یہ عالم گیر انقلاب ہے۔ ایک نہ ایک دن ساری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے کر رہے گا۔ دیوارِ چین ہو یا سدِ سکندری، یہ سب کو خس و خاشاک کی طرح بہا کر لے جائے گا۔ دنیا ایک نئے طوفانِ نوح سے دوچار ہوا چاہتی ہے۔ بادل گھر چکے ہیں، گھٹائیں برسنے کو ہیں۔ لیکن ہمارے علما ہیں کہ ان کی نظریں کتابوں تک محدود ہیں، وہ باہر کی دنیا کو دیکھنا نہیں چاہتے۔ ہمارے سیاست دان بڑی بڑی اسکیمیں بناتے ہیں جو ان کے اغراض و مصالح پر مبنی ہوتی ہیں۔ عوام کو انتہائی نچلے درجے پر رکھ چھوڑا ہے۔

    قرآن حق ہے، انجیل حق ہے، تورات حق ہے۔ انجیل کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے اگر عیسائی، اور تورات کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے یہودی کافر ہو سکتا ہے، تو اس ملک کے مسلمان قرآن کو غلط رنگ میں پیش کرنے سے مسلمان کیسے رہ سکتے ہیں! اب انقلاب کی گھڑی سر پر آپہنچی ہے۔ سن لو اور سنبھل جاؤ! ورنہ مٹا دیے جاؤ گے۔

    اس اجمال کی تفصیل یہ ہے کہ کل ایک طبقہ قوت و اقتدار کا مالک تھا۔ کسان اور مزدور جو کماتے تھے ان کو کھانے کو نہ ملتا تھا، اور جو طبقہ ان کی کمائی پر رہتا وہ کمانا ذلّت کا نشان سمجھتا۔ اس کا نتیجہ کیا نکلا؟ کماؤ طبقے پسماندہ ہوتے چلے گئے اور کھاؤ طبقے اخلاق سے گرتے گئے۔ اگر برکتیں پھیلتیں تو سرمایہ دار اور جاگیرداروں کے محلوں میں۔ ذہنوں کو جلا ہوتی تو ان کے ذہنوں کو ہوتی۔ زمانہ مدتوں اسی طرح چلتا رہا۔ سرمایہ دار اور جاگیردار مزدوروں اور کسانوں پر ظلم ڈھاتے رہے۔ آگے چل کر مشینی دور آتا ہے۔ مزدوروں نے مشینوں پر قبضہ کر لیا، جاگیردارانہ نظام ختم ہو گیا۔ آج ان کا نعرہ ہے: ’’مزدور اور کسانو، اٹھو! یہ بڑی بڑی بلڈنگیں اور محلات تمہاری کمائی سے تعمیر ہوئے ہیں۔ یہ تمہارے ہیں۔ ان کے مالک تم ہو۔ اٹھو اور ان پر قبضہ کر لو۔ اور جو آڑے آئے اسے مٹا دو!‘‘

    مسلمانو! اگر زندہ رہنا چاہتے ہو تو اس فلسفے کو قبول کرو جس کی ترجمانی امام ولی اللہ دہلویؒ نے کی ہے۔ اگر تمہارے امرا نے غربا کی خیر خواہی نہ کی تو تمہارا بھی وہی حشر ہو گا جو بخارا کے مسلمانوں کا ہو چکا ہے۔ بخارا کے اندر ایک ایک مدرسہ عربی کی یونیورسٹی تھا۔ ترکی کی جو سیاسی طاقت ہے، آپ کے ملک کی وہ سیاسی طاقت نہیں۔ جس انقلاب کے سامنے بخارا کی مذہبیت نہ ٹھہری، ترکی کی سیاست نہ ٹھہری، اس کے سامنے تم اور تمہاری یہ مسجدیں اور مدرسے کیسے ٹھہر سکتے ہیں۔ جب غریب کی جھونپڑی سے انقلاب اٹھتا ہے تو وہ امیر کے محل کو بھی پیوستِ زمین کر کے جاتا ہے۔ انقلاب آتا ہے تو نہ مسجدیں دیکھتا ہے، نہ خانقاہیں، نہ ایوان و محلات، سب کو اپنے ساتھ بہا لے جاتا ہے۔

    اگر میں مر گیا اور میرے مرنے کے تین سال کے اندر انگریز ہندوستان سے نہ چلا گیا تو میری قبر پر آ کر کہنا کہ انگریز یہاں بیٹھا ہے۔ یاد رکھو! میں نے انگریز کی بیخ و بنیاد کو اکھیڑ دیا ہے، اب وہ ہندوستان میں نہیں رہ سکتا، عنقریب تم مجھے یاد کرو گے، میں اپنے معاملے کو اللہ کے سپرد کرتا ہوں۔