Tag: اثرات

  • سورج کی روشنی کے انسانی صحت پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟

    سورج کی روشنی کے انسانی صحت پر کیا اثرات ہوتے ہیں؟

    اسلام آباد (26 اگست 2025): سینیٹ قائمہ کمیٹی برائے سائنس اور ٹیکنالوجی کے اجلاس میں سورج کی روشنی کے انسانی صحت پر اثرات پر بریفنگ دی گئی۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سائنس اور ٹیکنالوجی کا اجلاس چیئرمین کامل علی آغا کی زیر صدارت ہوا۔ جس میں سورج کی روشنی کے انسانی صحت پر اثرات اور ماحولیاتی تبدیلیوں پر بھی بریفنگ دی گئی۔

    سیکریٹری وزارت سائنس و ٹیکنالوجی نے اجلاس کے شرکا کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ سورج سے زیادہ مسئلہ ماحولیاتی آلودگی کا ہے جو تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہماری طرزِ زندگی نے ماحولیاتی تبدیلیوں میں اضافہ کیا ہے۔

    انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ موحولیاتی تبدیلی کے ساتھ بھارت میں بھی بارشوں کے دوران ڈیم بھرنے کے بعد پانی چھوڑنا ایک بڑا مسئلہ ہے۔

    جوائنٹ سیکریٹری نے کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں گرمی اور بارش کی مقدار میں اضافہ ہوا ہے۔

    اس موقع پر کمیٹی کے رکن ناصر بٹ نے استفسار کیا کہ بادل پھٹنے کا کیا مطلب ہوتا ہے؟ جس پر جس پر ماہرین نے وضاحت کی کہ بادل پھٹنے کا مطلب ایک ہی جگہ پر مسلسل اور تیز بارش ہونا ہے۔

    اجلاس میں ریکٹر کامسیٹس نے بھی شرکت کی اور بتایا کہ موسم کی تبدیلی بھی بادل پھٹنے کی وجہ ہے۔ زمین سے پانی کے بخارات اوپر جا کر بادل بناتے ہیں۔ بخارات کا عمل Evaporation اور بادل کی تشکیل Cloud Formation کہلاتا ہے۔

    https://urdu.arynews.tv/chairman-ndma-inam-haider-breifing-about-flood-in-punjab/

  • بیپر جوائے گجرات سے ٹکرا گیا، طوفان کے خوفناک مناظر کی ویڈیوز منظر عام پر

    بیپر جوائے گجرات سے ٹکرا گیا، طوفان کے خوفناک مناظر کی ویڈیوز منظر عام پر

    گجرات : سمندری طوفان بپر جوائے بھارتی ریاست گجرات کے ساحل سے ٹکرا گیا جس کے اثرات کو بھارت کے ریاست میں دیکھا گیا۔

    بھارت کی محکمہ موسمیات کے مطابق سمندری طوفان ‘بپر جوائے’ کل شام بھارت کے ریاست گجرات کے ساحل سے ٹکرایا طوفان نے شہروں میں تباہی مچاتے ہوئے راستے میں آنے والی ہرچیز کو تہس نہس کردیا۔

    بھارتی محکمہ موسمیات کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ یہ طوفان سمندر سے زمینی علاقوں میں منتقل ہوگیا ہے فی الحال طوفان کا مزکر سواشٹر’ کچھ‘ کی طرف ہے، جبکہ آج راجستھان میں موسلادھار بارش کا امکان بھی ہے۔

    طوفان کے باعث ایک سو پچیس کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے ہوائیں چل رہی ہیں اس کے اثرات نے ممبئی کو بھی بڑے پیمانے پر متاثر کیا۔

    جیسے ہی گجرات نے بیپرجوائے کے غصے کا سامنا کیا تو لوگوں نے اپنے علاقوں سے ویڈیوز بنا کر ٹوئٹر پر شیئر کیا، ممبئی والوں نے ممبئی کے موسمی حالات کو کی کئی ویڈیوز شیئر کیں ہیں۔

    https://twitter.com/Rishabh58113567/status/1669277985755762688?s=20

  • ہوائی جہاز میں سفر کے دوران ہمارے جسم کو کیا مسائل ہوسکتے ہیں؟

    ہوائی جہاز میں سفر کے دوران ہمارے جسم کو کیا مسائل ہوسکتے ہیں؟

    آج دنیا بھر میں شہری ہوا بازی یا سول ایوی ایشن کا دن منایا جارہا ہے، فضائی سفر ہماری زندگیوں کا حصہ بن چکا ہے لیکن بہت کم لوگ واقف ہیں کہ فضائی سفر کے دوران ہمارے جسم میں کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔

    زمینی سفر کے مقابلے میں فضائی سفر کے دوران پیش آنے والی جسمانی تبدیلیاں کچھ مختلف ہوتی ہیں۔ آئیں ان کیفیات اور ان کے پیچھے چھپی وجوہات کے بارے میں جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔

    جسم میں پانی کی کمی

    فضائی سفر کے دوران ہمارا جسم ڈی ہائیڈریشن کا شکار ہوجاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق 3 گھنٹے کی فلائٹ کے دوران ہمارے جسم سے ڈیڑھ لیٹر پانی خارج ہوجاتا ہے۔

    جسم کی سوجن

    فضائی سفر کے دوران ہمارا جسم سوج جاتا ہے، ہوا کے دباؤ کی وجہ سے ہمارے جسم کی گیس میں اضافہ ہوجاتا ہے جس سے جسم سوجن اور معدے کے درد میں مبتلا ہوجاتا ہے۔

    آکسیجن کی کمی

    ہوائی جہاز کے کیبن میں ہوا کا دباؤ عام دباؤ سے 75 فیصد بڑھ جاتا ہے جس کی وجہ سے آپ کو سر درد اور آکسیجن کی کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔

    جراثیموں کا حملہ

    ہوائی جہاز میں کھلی فضا کا کوئی گزر نہیں ہوتا اور کئی گھنٹے تک ایک ہی آکسیجن طیارے میں گردش کرتی رہتی ہے یوں یہ جراثیموں کی افزائش کے لیے نہایت موزوں بن جاتی ہے۔

    فضائی سفر کے دوران جراثیموں کی وجہ سے آپ کے نزلہ زکام میں مبتلا ہونے کا امکان 100 فیصد بڑھ جاتا ہے۔

    حس ذائقہ اور سماعت متاثر

    ہوائی جہاز کے سفر کے دوران آپ کے ذائقہ محسوس کرنے والے خلیات یعنی ٹیسٹ بڈز سن ہوجاتے ہیں جس سے آپ کسی بھی کھانے کا ذائقہ درست طور پر محسوس نہیں کرپاتے۔

    علاوہ ازیں کئی گھنٹے طیارے اور ہوا کا شور سننے سے جزوی طور پر آپ کی سماعت بھی متاثر ہوتی ہے۔

    تابکار شعاعیں

    فضائی سفر کے دوران آپ تابکار شعاعوں کی زد میں بھی ہوتے ہیں، 7 گھنٹے کی فلائٹ میں ایکس رے جتنی تابکار شعاعیں آپ کے جسم کو چھوتی ہیں۔

    ٹانگیں سن ہوجانا

    فضائی سفر کے دوران مستقل بیٹھے رہنے سے خون کی گردش متاثر ہوتی ہے جس سے ٹانگیں سن اور تکلیف کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    اس سے نجات کا حل یہ ہے کہ موقع ملنے پر ایک جگہ سے دوسری جگہ حرکت کریں اور مائع اشیا کا زیادہ استعمال کریں۔

    فضائی سفر کے دوران جسم میں پیدا ہونے والی تمام تبدیلیاں اور تکالیف عارضی اور کچھ وقت کے لیے ہوتی ہیں لہٰذا تشویش میں مبتلا ہونے کی ضرورت نہیں۔

    سفر کے بعد آرام کرنے اور کچھ وقت گزرنے کے بعد جسم خود بخود معمول کی حالت پر آجاتا ہے۔

  • کھارے پانی سے خراب ہونے والے بالوں کی حفاظت کیسے کی جائے؟

    کھارے پانی سے خراب ہونے والے بالوں کی حفاظت کیسے کی جائے؟

    پانی کی قلت کی وجہ سے ملک کی بڑی آبادی کھارا پانی استعمال کرنے پر مجبور ہے، لیکن یہ کھارا پانی چیزوں کو بہت نقصان پہنچاتا ہے۔

    اس کی وجہ سے گھریلو اشیا زنگ اور ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوجاتی ہیں۔

    اگر اس پانی کو نہانے کے لیے استعمال کیا جارہا ہو تو یہ جلد اور بالوں کے لیے بھی بے حد نقصان دہ ہے۔

    کھارے پانی میں نمکیات کی شرح زیادہ ہوتی ہے اور یہ پانی ایسے ٹھوس نمکیات سے بھرپور ہوتا ہے جو گھل نہیں سکتے، اسی وجہ سے کھارے پانی سے نہانے سے جسم پر خارش اور خشکی پیدا ہوتی ہے اور بال بھی روکھے اور بے جان ہو کر جھڑنے لگتے ہیں۔

    یہ پانی اتنا زہریلا ہوتا ہے کہ اس سے مل کر اچھے سے اچھا شیمپو بھی اپنا اثر کھو دیتا ہے۔

    اس کے نقصانات کو کم سے کم کرنے کے لیے ایک طریقہ یہ ہے کہ کھارے پانی سے نہانے کے بعد صاف میٹھا پانی بالوں اور جسم پر بہا لیا جائے۔

    علاوہ ازیں ایک بڑا ٹکڑا پھٹکری لیں اور پانی سے بھری ہوئی بالٹی میں کچھ دیر اچھی طرح پھیریں، پھٹکری نمکیات کو پانی سے کاٹ دیتی ہے جس کے بعد وہ بالٹی کی نچلی سطح پر بیٹھ جاتے ہیں اور اوپر والا پانی صاف ہوجاتا ہے۔

    کھارے پانی سے خراب ہوئے بالوں کو ہفتے میں 2 بار بادام یا کھوپرے کے تیل سے مساج کریں اور انڈے اور دہی کا ماسک بھی لگائیں۔

  • کووڈ 19 حاملہ خواتین کو سنگین نقصانات پہنچانے کا سبب

    کووڈ 19 حاملہ خواتین کو سنگین نقصانات پہنچانے کا سبب

    گزشتہ 2 برسوں میں مختلف تحقیقات سے علم ہوا ہے کہ کووڈ 19 ہر عمر کے افراد کو سخت نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے، اب حال ہی میں حاملہ خواتین پر کی جانے والی تحقیق میں اس کے تشویش ناک نتائج سامنے آئے ہیں۔

    بین الاقوامی میڈیا رپورٹ کے مطابق پیدائش کے نتائج پر کرونا کے اثرات کے بارے میں پہلی بڑی تحقیق میں پتہ چلا ہے کہ کووڈ 19 سے متاثرہ حاملہ خواتین کو زچگی اور نوزائیدہ بچوں میں سنگین پیچیدگیوں کے زیادہ خطرے کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی کے ماہرین کی سربراہی میں ہونے والی اس تحقیق میں کرونا وائرس سے لاحق خطرات کا تعین کرنے کے لیے دنیا بھر کے 18 کم، متوسط اور زیادہ آمدنی والے ممالک کے 43 میٹرنٹی اسپتالوں سے 21 سو حاملہ خواتین کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا۔

    وائرس سے متاثرہ ہر خاتون کا موازنہ ایک ہی ہسپتال میں ایک ہی وقت میں جنم دینے والی 2 غیر متاثرہ حاملہ خواتین سے کیا گیا۔

    یو سی برکلے کے اسکول آف پبلک ہیلتھ کے ایک معاون محقق، رابرٹ گنیئر اور برکلے پبلک ہیلتھ کے ڈیٹا تجزیہ کار اسٹیفن راؤچ نے اس منصوبے کے شماریاتی تجزیے کی قیادت کی۔

    گونیئر نے کہا کہ حاملہ خواتین اور نوزائیدہ بچوں پر کرونا وائرس کے اثرات کو سمجھنا ضروری ہے، تاکہ طبی ماہرین کو خطرات سے آگاہ کیا جا سکے اور حاملہ خواتین میں ویکسین سے متعلق ہچکچاہٹ کو کم کیا جا سکے۔

    تحقیق سے علم ہوا کہ علامتی کرونا انفیکشن زچگی اور نوزائیدہ بچوں کی پیچیدگیوں اور بیماری میں خاطر خواہ اضافے کے ساتھ منسلک تھا، یہ تجویز کرتا ہے کہ معالجین کو حاملہ خواتین کے ساتھ کرونا وائرس سے بچاؤ کے اقدامات پر عمل درآمد کرنا چاہیئے۔

    تحقیق میں بتایا گیا کہ حمل کے دوران کرونا سے متاثر ہونے والی خواتین میں قبل از وقت پیدائش، پری ایکلیمپسیا، انفیکشن، انتہائی نگہداشت میں داخل ہونے اور یہاں تک کہ موت کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

    جبکہ زچگی کے دوران اموات کی تعداد مجموعی طور پر کم رہی، حمل کے دوران اور بعد از پیدائش مرنے کا خطرہ غیر متاثرہ حاملہ لوگوں کے مقابلے کرونا سے متاثرہ خواتین میں 22 گنا زیادہ تھا۔

    متاثرہ خواتین کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں میں پیچیدگیاں پیدا ہونے کا امکان بھی زیادہ ہوتا ہے، جیسے کہ ایسے حالات جن میں نوزائیدہ کو انتہائی نگہداشت کے یونٹس میں داخلے کی ضرورت ہوتی ہے۔

    تاہم، کرونا سے متاثرہ خواتین کے ہاں پیدا ہونے والے صرف 12.9 فیصد شیر خوار بچے پیدائش کے بعد کرونا پازیٹیو پائے گئے، تاہم دودھ پلانے سے نوزائیدہ میں وائرس کی منتقلی کا خطرہ بڑھتا دکھائی نہیں دیا۔

    گونیئر کا کہنا ہے کہ خوش قسمتی سے، ہم نے دیکھا کہ کرونا پازیٹو خواتین جن میں وائرس کی علامات واضح نہیں تھیں، ان کے نتائج زیادہ تر ایسے لوگوں سے ملتے ہیں جو کرونا نیگیٹو تھے۔

    ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج میں صحت عامہ کے اقدامات کی تیاری کے دوران حاملہ خواتین کی صحت کو ترجیح دینے کی ضرورت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔

    آکسفورڈ یونیورسٹی میں تولیدی ادویات کے پروفیسر اسٹیفن کینیڈی کا کہنا تھا کہ اب ہم جان چکے ہیں کہ ماؤں اور بچوں کے لیے خطرات اس سے کہیں زیادہ ہیں جو ہم نے وبائی امراض کے آغاز میں سوچے تھے۔

    انہوں نے کہا کہ انفیکشن سے بچنے کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے کی ضرورت اب واضح ہے، اس سے حاملہ خواتین کو ویکسی نیشن کی پیشکش کے معاملے کو بھی تقویت ملتی ہے۔

  • کرونا ویکسین لگوانے کے بعد کن تکالیف کا سامنا ہوسکتا ہے؟

    کرونا ویکسین لگوانے کے بعد کن تکالیف کا سامنا ہوسکتا ہے؟

    پاکستان سمیت دنیا بھر میں اس وقت کرونا وائرس ویکسی نیشن جاری ہے، نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر کے مطابق ملک میں اب تک تقریباً 20 لاکھ افراد کو ویکسین کی کم از کم ایک ڈوز لگ چکی ہے اور 9 لاکھ 64 ہزار سے زائد افراد کو دونوں ڈوزز لگائی جا چکی ہیں۔

    اس حوالے ویکسی نیشن کے سائیڈ افیکٹس پر بھی تشویش کا اظہار کیا جارہا ہے، حقیقت یہ ہے کہ ویکسین لگوانے سے کوئی سنگین خطرہ لاحق نہیں۔

    کچھ مسائل ایسے ضرور ہیں جو عموماً ہر ویکسین لگوانے کے بعد پیش آتے ہیں، کیونکہ ویکسین لگوانے کے بعد ہمارے جسم میں مدافعت کا نظام کام کرنا شروع ہو جاتا ہے اور اس میں اصل وائرس سے لڑنے کی صلاحیت پیدا ہونے لگتی ہے۔

    یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ ویکسین لگوانے کے نتیجے میں کون سے سائیڈ افیکٹس ہو سکتے ہیں۔

    سوجن

    سب سے عام اور بے ضرر سائیڈ افیکٹ ہے کہ جس بازو پر ٹیکا لگوایا جائے اس میں سوجن آ جائے لیکن یہ پریشانی کی بات نہیں۔ سب سے پہلے ویکسین لگواتے ہوئے عملے کو بتائیں کہ آپ کس بازو میں ٹیکا لگوانا چاہتے ہیں۔

    اگر آپ اپنے کام دائیں ہاتھ سے کرتے ہیں تو ٹیکا بائیں بازو میں لگوائیں تاکہ سوجن کی صورت میں آپ کے روزمرہ معمولات زیادہ متاثر نہ ہوں۔ اگر زیادہ تکلیف ہو تو سوجن کی جگہ پر برف سے ٹکور کر لیں۔

    بخار

    ویکسین لگوانے کے بعد سب سے عام سائیڈ افیکٹ بخار ہونا ہے اور یہ دیگر ویکسینز لگوانے پر بھی ہو جاتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ٹیکا لگواتے ہی جسم میں مدافعت کا نظام تیزی سے کام کرنے لگتا ہے۔

    خاص طور پر دوسرا ٹیکا لگوانے کے بعد بخار ہونے کا خدشہ زیادہ ہوتا ہے لیکن ماہرین درد کش ادویات لینے سے منع کرتے ہیں کیونکہ اس سے ویکسین کے کام میں مداخلت ہو سکتی ہے۔ اس لیے زیادہ سے زیادہ آرام کریں اور پانی زیادہ پئیں۔ اگر ٹیکا لگوانے کے بعد 72 گھنٹوں بعد بھی علامات شدید ہوں تو معالج سے رابطہ کریں۔

    تھکاوٹ

    ویکسین لگوانے کے بعد تھکاوٹ محسوس ہونا بھی عام ہے۔ پہلے ٹیکے کے بعد 8 اور دوسرے ٹیکے کے بعد 14 فیصد افراد تھکاوٹ محسوس ہونے کی شکایت کرتے ہیں۔

    یہ اور دیگر علامات مثلاً سر اور پٹھوں میں درد عموماً خواتین اور 55 سال اور اس سے کم عمر کے افراد میں دیکھی گئی ہیں۔ ڈاکٹر اس صورت میں زیادہ سے زیادہ آرام کا مشورہ دیتے ہیں۔

    سر درد

    ایک تحقیق کے مطابق فائزر کی بنائی گئی ویکسین کا دوسرا ٹیکا لگوانے کے بعد 13 فیصد افراد نے سر درد کی شکایات کی تھی۔ اس کا حل بھی آسان ہے، آرام کریں اور سر درد کی عام گولی کھا لیں۔

    متلی

    تقریباً 3.5 فیصد افراد دوسرا ٹیکا لگوانے کے بعد متلی کی شکایت کرتے ہیں جبکہ کچھ کو قے بھی ہو جاتی ہے۔ یہ زیادہ سے زیادہ پانی استعمال کرنے کا وقت ہے، یا پھر جس چیز سے آپ کی متلی رک جاتی ہے، اسے استعمال کریں۔

    پٹھوں میں درد

    فائزر کی ویکسین لگوانے والے 5 فیصد افراد نے جسم اور پٹھوں میں درد کی شکایت بھی کی ہے۔ اگر تکلیف بہت زیادہ ہو تو سر درد کی طرح اس میں بھی کچھ درد ختم کرنے والی ادویات استعمال کی جا سکتی ہیں۔

    کم ہونے والے سائیڈ افیکٹس

    الرجی

    ویکسینز کی تیاری کے ابتدائی مراحل میں لگوانے والے کئی افراد نے الرجی کی شکایت کی، لیکن یہ تمام لوگ ایسے تھے جنہیں پہلے ہی الرجی کے مسائل کا سامنا تھا۔ ویکسین لگوانے کے چند ہی منٹوں بعد انہیں الرجی ہونے لگی۔

    عام طور پر ادویات سے الرجی ہوتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ اگر آپ کو الرجی کا سخت مسئلہ ہو تو آپ کو ٹیکا لگوانے کے بعد 15 سے 20 منٹ تک بٹھایا جاتا ہے تاکہ کسی مسئلے کا اندازہ ہو سکے۔

    ویکسین کا پہلا ٹیکا لگوانے کے بعد شدید الرجی کا سامنا کرنے والے لوگوں کو دوسرے ٹیکے سے پہلے ڈاکٹر سے رابطہ کرنا چاہیئے۔

    خون جمنا

    امریکا نے 13 فروری کو ملک میں جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین کا عمل روک دیا تھا کیونکہ ایک خاتون کی رگوں میں خون جمنے کا پتہ چلا تھا، جو مہلک بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے بعد یورپ میں ایسٹرازینیکا ویکسین کی وجہ سے ایسی ہی خبریں سامنے آئیں اور متعدد لوگوں کی ہلاکت کا بھی پتہ چلا۔

    یہ پابندیاں بعد میں ہٹا دی گئیں لیکن انتباہ ضرور دیا جا رہا ہے۔ امریکا میں جانسن اینڈ جانسن کی ویکسین لگوانے والے 80 لاکھ افراد میں ایسی شکایات 17 افراد نے کی ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کی 50 سال سے کم عمر کی خواتین تھیں۔

    دل کا مسئلہ

    اسرائیل میں ویکسین لگوانے والے 62 افراد میں دل کی سوزش کے مرض کا پتہ چلا ہے۔ امریکی فوج میں بھی 14 ایسے کیسز سامنے آئے ہیں۔ اب تک ویکسین لگوانے کے بعد اس مرض کی شرح ایک لاکھ میں ایک ہے، جو زیادہ تر 32 سال سے کم عمر مردوں میں دیکھا گیا ہے اور زیادہ تر کو دوسرا ٹیکا لگوانے کے بعد یہ شکایت ہوتی ہے۔

  • کرونا وائرس سے صحت یابی کے ایک سال بعد بھی جسمانی تکالیف کا سامنا

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے ایک سال بعد بھی جسمانی تکالیف کا سامنا

    کرونا وائرس کے جسم پر تباہ کن اثرات کی فہرست طویل ہے، ماہرین کا کہنا ہے کہ کووڈ 19 سے صحت یابی کے ایک سال بعد بھی کئی مریض بیمار ہیں۔

    برطانیہ میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ 19 کی سنگین شدت کے باعث زیر علاج مریضوں میں سے متعدد کو ایک سال بعد بھی منفی اثرات کا سامنا ہے۔

    ساؤتھ ہمپٹن یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ کووڈ سے اسپتال میں زیر علاج رہنے والے ایک تہائی افراد کے پھیپھڑوں میں ایک سال بعد بھی منفی اثرات کے شواہد ملے ہیں۔

    خیال رہے کہ کووڈ 19 نے دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو متاثر کیا ہے مگر اکثر مریض اس وقت اسپتال میں داخل ہوتے ہیں جب بیماری کے نتیجے میں پھیپھڑوں پر اثرات مرتب ہوتے ہیں، جس کے لیے کووڈ 19 نمونیا کی اصطلاح استعمال ہوتی ہے۔

    کووڈ 19 نمونیا کے علاج کے حوالے سے کافی پیشرفت ہوچکی ہے مگر اب تک اس بارے میں زیادہ معلومات نہیں مل سکیں کہ مریضوں کی مکمل صحت یابی میں کتنا عرصہ لگ سکتا ہے اور پھیپھڑوں کے اندر کیا تبدیلیاں آتی ہیں۔

    طبی جریدے دی لانسیٹ ریسیپٹری میڈیسین میں شائع تحقیق کے دوران ماہرین نے چین کے شہر ووہان کے ماہرین کے ساتھ مل کر سنگین کووڈ 19 نمونیا کے مریضوں کا جائزہ لیتے ہوئے دیکھا کہ ایک سال بعد ان کی حالت کیسی ہے۔

    اس مقصد کے لیے 83 مریضوں کو تحقیق کا حصہ بنایا گیا جو کووڈ 19 نمونیا کی سنگین شدت کا شکار ہو کر اسپتال میں زیر علاج رہے تھے، ان مریضوں کا 3، 6، 9 اور 12 ماہ تک جائزہ لیا گیا یعنی ہر 3 ماہ بعد ان کا معائنہ کیا گیا۔

    ہر بار معائنے کے دوران طبی تجزیے کے ساتھ ساتھ پھیپھڑوں کے افعال کی جانچ پڑتال کی گئی، جس کے لیے سی ٹی اسکین سے پھیپھڑوں کی تصویر لی گئی جبکہ ایک چہل قدمی ٹیسٹ بھی لیا گیا۔

    ایک سال بعد اکثر مریض بظاہر مکمل طور پر صحتیاب ہوگئے تاہم 5 فیصد افراد تاحال سانس لینے میں مشکلات کا سامنا کر رہے تھے۔

    ایک تہائی مریضوں کے پھیپھڑوں کے افعال بدستور معمول کی سطح پر نہیں آسکے تھے، بالخصوص پھیپھڑوں سے خون میں آکسیجن کو منتقل کرنے کی صلاحیت زیادہ متاثر نظر آئی۔

    ایک چوتھائی مریضوں کے سی ٹی اسکینز میں دریافت کیا گیا کہ ان کے پھیپھڑوں کے کچھ چھوٹے حصوں میں تبدیلیاں آرہی تھیں اور یہ ان افراد میں عام تھا، جن کے پھیپھڑوں میں اسپتال میں زیر علاج رہنے کے دوران سنگین تبدیلیاں دریافت ہوئی تھیں۔

    ماہرین نے بتایا کہ کووڈ 19 نمونیا کی سنگین شدت کے شکار مریضوں کی اکثریت بظاہر مکمل طور پر صحت یاب ہوجاتی ہے، تاہم کچھ مریضوں کو اس کے لیے کئی ماہ لگ جاتے ہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ خواتین کے پھیپھڑوں کے افعال متاثر ہونے کی شرح مردوں کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہے اور اس حوالے سے جاننے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم ابھی بھی نہیں جانتے کہ 12 ماہ کے بعد مریضوں کے ساتھ کیا ہوتا ہے اور اسی لیے تحقیق کو جاری رکھنا ضروری ہے۔

  • فضائی آلودگی کا ایک اور خطرناک نقصان

    فضائی آلودگی کا ایک اور خطرناک نقصان

    فضائی آلودگی جہاں ایک طرف تو انسانی جسم اور صحت کے لیے بے شمار نقصانات کھڑے کرسکتی ہے وہیں کئی بار تحقیق میں اس بات کو ثابت کیا جاچکا ہے کہ یہ دماغی صحت کے لیے بھی نقصان دہ ہے۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ محض چند ہفتے کی فضائی آلودگی ہھی دماغی کارکردگی کو متاثر کرسکتی ہے تاہم تحقیق کے مطابق منفی اثرات کی شدت کو اسپرین جیسی ورم کش ادویات سے کم کیا جاسکتا ہے۔

    یہ پہلی تحقیق ہے جس میں مختصر المدت فضائی آلودگی اور ورم کش ادویات کے استعمال کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔

    طبی جریدے جرنل نیچر ایجنگ میں شائع تحقیق میں مختلف ایونٹس جیسے جنگلات میں آتشزدگی، اسموگ، سگریٹ کے دھویں، کوئلے پر کھانا پکانے سے اٹھنے والے دھویں اور ٹریفک جام میں پھنسنے سے فضائی آلودگی کے اثرات کا جائزہ لیا گیا۔

    ماہرین نے بوسٹن سے تعلق رکھنے والے 954 معمر افراد کی دماغی کارکردگی اور ہوا میں موجود ننھے ذرات پی ایم 2.5 اور سیاہ کاربن جیسی آلودگی کے اثرات کا موازنہ کیا۔ اس کے علاوہ تحقیق میں ورم کش ادویات کے استعمال سے مرتب اثرات کا تجزیہ بھی کیا گیا۔

    تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ پی ایم 2.5 کی اوسط سطح میں اضافہ 28 دن تک برقرار رہنے سے ذہنی آزمائش کے ٹیسٹوں میں رضا کاروں کے اسکور کم ہوئے۔ تاہم جو افراد ورم کش ادویات استعمال کر رہے تھے ان میں فضائی آلودگی سے دماغی کارکردگی پر مرتب ہونے والے اثرات کی شرح دیگر سے کم تھی۔

    ماہرین نے خیال ظاہر کیا کہ اسپرین کا استعمال اعصابی ورم کو معتدل رکھتا ہے یا دماغ کی جانب خون کے بہاؤ میں تبدیلیاں لاتا ہے جس سے فضائی آلودگی کے منفی اثرات کا کم سامنا ہوتا ہے۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ مختصرمدت کے لیے فضائی آلودگی بھی صحت پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے تاہم اسپرین یا دیگر ورم کش ادویات کے استعمال سے ان کی شدت کو کم کیا جاسکتا ہے۔

  • کووڈ 19 سے معمولی بیمار افراد کے لیے بری خبر

    کووڈ 19 سے معمولی بیمار افراد کے لیے بری خبر

    کرونا وائرس سے صحت یابی کے بعد اس کی علامات لمبے عرصے تک مریضوں کو متاثر کرسکتی ہیں، اب حال ہی میں اس حوالے سے ایک اور تحقیق سامنے آئی ہے۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق سوئیڈن میں ہونے والی ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کرونا وائرس سے معمولی حد تک بیمار ہونے والے ہر 10 میں سے ایک مریض کو صحت یابی کے بعد طویل المعیاد بنیادوں پر کم از کم ایک معتدل یا سنگین علامت کا سامنا ہوتا ہے۔

    کیرولینسکا انسٹیٹوٹ اور ڈینڈرئیڈ ہاسپٹل کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ان طویل المعیاد علامات میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی اور تھکاوٹ سب سے عام ہے۔

    اس تحقیق پر سنہ 2020 کے وسط سے کام ہو رہا تھا جس کا مقصد کووڈ 19 کو شکست دینے کے بعد بیماری کے خلاف مدافعت کی مدت کو جاننا تھا۔ تحقیق کے پہلے مرحلے میں ڈینڈرئیڈ ہاسپٹل کے 2149 ملازمین کے خون کے نمونے اکٹھے کیے گئے جن میں سے 19 فیصد میں کرونا وائرس سے بننے والی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا۔

    محققین کی جانب سے ہر 4 ماہ بعد خون کے نمونے اکٹھے کیے گئے اور رضا کاروں سے طویل المعیاد علامات اور زندگی کے معیار پر اثرات سے متعلق سوالات کے جوابات حاصل کیے گئے۔

    جنوری 2021 میں تیسرے فالو اپ کے دوران تحقیقی ٹیم نے کم از کم 8 ماہ قبل کووڈ 19 کو شکست دینے والے افراد میں طویل المعیاد علامات کی موجودگی اور سماجی، گھریلو اور پیشہ وارانہ زندگی پر مرتب اثرات کا تجزیہ کیا۔

    نتائج سے معلوم ہوا کہ کووڈ 19 سے معمولی حد تک بیمار ہوکر اسے شکست دینے والے 26 فیصد افراد کو کم از کم ایک معتدل سے سنگین علامت کا سامنا ہوا جو 2 ماہ سے زیادہ عرصے تک برقرار رہی۔

    11 فیصد افراد کو سماجی، گھریلو یا پیشہ وارانہ زندگی میں کم از کم ایک علامت کی وجہ سے منفی اثرات کا تجربہ ہوا۔ سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، تھکاوٹ اور نظام تنفس کے مسائل سب سے عام علامات تھیں۔

    محققین نے بتایا کہ ہم کووڈ 19 سے معمولی بیمار ہونے والے افراد میں طویل المعیاد علامات کی موجودگی پر کام کر رہے تھے اور تحقیق میں شامل افراد جوان اور صحت مند گروپ کا حصہ تھے جو ملازمتیں کررہے ہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ ہم نے دریافت کیا کہ سب سے نمایاں طویل المعیاد علامات میں سونگھنے اور چکھنے کی حسوں سے محرومی، تھکاوٹ اور نظام تنفس کے مسائل تھے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہم نے دماغی علامات جیسے ذہنی دھند، یادداشت اور توجہ مرکوز کرنے کے مسائل، مسلز اور جوڑوں میں تکلیف، دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی یا بخار کی شرح میں کوئی اضافہ دریافت نہیں کیا۔

  • کرونا وائرس دل پر خطرناک حملہ کر سکتا ہے

    کرونا وائرس دل پر خطرناک حملہ کر سکتا ہے

    اب تک کرونا وائرس کے دل پر نقصانات کو دیکھا جاتا رہا تھا اور ماہرین اس حوالے سے تشویش کا شکار تھے، اب حال ہی میں ایک تحقیق میں ایک اور پریشان کن انکشاف ہوا۔

    حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19 کے مریضوں کے دل کو نقصان براہ راست وائرس کے دل پر حملہ کرنے کی وجہ سے ہوتا ہے جو دل کے پٹھوں کے خلیات میں اپنی نقول بنانے لگتا ہے، جس سے خلیات مرنے لگتے ہیں۔

    یاد رہے کہ کرونا وائرس کے آغاز سے ہی یہ دیکھا جاتا رہا تھا کہ کووڈ 19 دل کے مسائل پیدا کرتا ہے جیسے خون کے پمپ کرنے کی صلاحیت میں کمی اور دل کی دھڑکن کی رفتار میں تبدیلی ہونا۔

    حالیہ تحقیق کے لیے واشنگٹن یونیورسٹی اسکول آف میڈیسین کی تحقیق میں ماہرین نے اسٹیم سیلز کو استعمال کر کے دل کے خلیات کو تیار کیا جس پر وائرس کے تجربات کیے گئے۔

    ماہرین نے بتایا کہ وبا کے آغاز میں ہمارے پاس شواہد موجود تھے کہ کورونا وائرس صحت مندد افراد میں ہارٹ فیلیئر یا دل کی انجری کا باعث بن سکتا ہے۔

    انہوں نے بتایا کہ کچھ کالج ایتھلیٹس کووڈ 19 کو شکست دے کر مقابلوں میں واپس آئے تو ان کے دل پر خراشوں کو دیکھا گیا، مگر اس حوالے سے یہ بحث کی جارہی تھی کہ یہ براہ راست دل پر وائرس کے حملے کا نتیجہ ہے یا مدافعتی ردعمل کا۔

    ماہرین کا کہنا تھا کہ ہماری تحقیق کچھ مختلف ہے کیونکہ اس میں ثابت کیا گیا کہ کووڈ کے مریضوں میں یہ وائرس دل بالخصوص اس کے پٹھوں کو ہدف بناکر ہارٹ فیلیئر کا خطرہ بڑھاتا ہے۔

    تحقیق میں ہارٹ ٹشوز ماڈلز پر تجربات کے دوران دیکھا گیا کہ یہ بیماری نہ صرف دل کے پٹھوں کے خلیات کو مارتی ہے بلکہ مسلز کے فائبر یونٹس کو بھی تباہ کرتی ہے۔

    نتائج سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خلیات کے مرنے اور دل کے مسلز کے فائبر میں کمی کا مسئلہ جسمانی ورم کے بغیر بھی ہوتا ہے، ورم اس نقصان کو مزید بڑھا دیتا ہے مگر صرف ورم ہی دل کی انجری کی ابتدائی وجہ نہیں۔

    انہوں نے بتایا کہ دیگر وائرل انفیکشنز کی بھی دل کو نقصان پہنچانے کی تاریخ ہے مگر کورونا وائرس اس حوالے سے منفرد ہے، بالخصوص بیماری کے خلاف مدافعتی خلیات کے ردعمل کی وجہ سے۔

    ماہرین کے مطابق مختلف مدافعتی خلیات ردعمل میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، مگر کووڈ کے دوران دل پر ہونے والے مدافعتی ردعمل دیگر وائرسز کے مقابلے میں مختلف ہوتے ہیں، اور ہم اب تک جان نہیں سکے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔

    ان کا مزید کہنا تھا کہ عام طور پر دیگر وائرسز کے خلاف مدافعتی ردعمل کے اثرات مختصر بیماری کے بعد دور ہوجاتے ہیں، مگر کووڈ 19 کے مریضوں میں یہ اثرات طویل المعیاد نتائج کا باعث بنتے ہیں، اس کو سمجھنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔

    ماہرین کے مطابق کووڈ 19 کی معمولی شدت سے متاثر نوجوان افراد کو بھی بعد میں امراض قلب کا سامنا ہوسکتا ہے اور اسی لیے انہیں جسمانی سرگرمیوں کے حوالے سے احتیاط سے کام لینا چاہیئے۔