Tag: اجمل کمال

  • مارکیز کا کاسترو!

    مارکیز کا کاسترو!

    فیدل کاسترو اور مارکیز، دونوں کا شمار مشاہیر میں کیا جاتا ہے۔ ان میں سے ایک نام وَر انقلابی اور مدبّر سیاست داں تھا اور دوسرا شہرۂ آفاق ناولوں کا خالق۔ آج یہ دونوں ہی اس دنیا میں نہیں، لیکن ان کا نظریہ اور ان کی تخلیق آج بھی انھیں زندہ رکھے ہوئے ہے۔

    لاطینی امریکہ کی ان معتبر شخصیات نے دنیا بھر میں لاکھوں لوگوں کو اپنے افکار و نظریات سے متأثر کیا اور اپنی جرأت و صداقت کے سبب ان کا بڑا احترام کیا جاتا ہے۔

    کیوبا کے انقلابی راہ نما اور صدر فیدل کاسترو کی بات کی جائے تو وہ ایک زبردست مقرر بھی تھے۔ وہ فنِ خطابت ہی میں‌ ماہر نہیں تھے بلکہ کتب بینی کا شوق رکھنے والے اور اعلیٰ پائے کے قلم کار تھے۔ کاسترو ایک کالم نویس بھی تھے اور کیوبا کے اخبارات میں باقاعدگی سے ان کی تحریریں شایع ہوتی تھیں۔ سیاست کے ساتھ ساتھ کاسترو کو ادب سے گہری دل چسپی تھی۔ وہ انگریزی اور ہسپانوی ادب کے قاری ہی نہیں‌ بلکہ نقّاد بھی تھے۔ کئی ادیبوں سے ان کی دوستی تھی۔ لاطینی امریکہ کے منفرد اسلوب کے حامل ادیب مارکیز سے بھی کاسترو کا تعلق رہا۔ مارکیز کولمبیا کے ناول نگار اور صحافی تھے جن کی کہانیوں اور مضامین کا دنیا کی کئی زبانوں میں‌ ترجمہ کیا گیا۔ گبریئل گارشیا مارکیز کا مشہور ناول ”تنہائی کے سو سال‘‘ کاسترو کو بہت پسند تھا۔ مارکیز بھی کاسترو کو ایک زبردست قاری اور بہترین نقّاد مانتے تھے اور مشہور ہے کہ اس ادیب نے اپنے کئی مسودے تنقیدی جائزہ لینے کی غرض سے کاسترو کے سامنے رکھے تھے۔

    مارکیز نے اپنے سوانحی انٹرویوز پر مبنی کتاب میں کاسترو کی تنقیدی بصیرت کا تذکرہ کیا ہے جس سے ایک دل چسپ پارہ ہم یہاں‌ نقل کر رہے ہیں۔ اجمل کمال نے مارکیز کی کتاب کا اردو ترجمہ "امرود کی مہک” کے نام سے کیا تھا۔ اسی ترجمہ سے یہ انتخاب پیشِ خدمت ہے جو اپنے وقت کی ایک غیر معمولی ذہین اور مدبّر شخصیت فیدل کاسترو کے علمی و ادبی ذوق کی گواہی بھی ہے۔

    ”فیدل کاسترو” سے میری قریبی اور دِلی دوستی کا آغاز ادب کے حوالے سے ہوا۔ 1960ء کی دہائی میں ”پرینسا لاطینا” میں ملازمت کے دنوں میں، میں اسے سرسری طور پر جاننے لگا تھا، لیکن مجھے کبھی یہ محسوس نہیں ہوا تھا کہ ہمارے درمیان کچھ زیادہ چیزیں مشترک ہیں۔

    بعد میں جب میں ایک مشہور ادیب اور وہ دنیا کا معروف ترین سیاست داں بن چکا تھا، ہماری کئی بار ملاقات ہوئی، مگر تب بھی، باہمی احترام اور خیر سگالی کے باوجود، میں نے محسوس نہیں کیا کہ اس تعلق میں سیاسی ہم آہنگی سے بڑھ کر بھی کوئی چیز ہوسکتی ہے۔

    چھے برس پہلے ایک روز صبح منہ اندھیرے اس نے مجھ سے اجازت چاہی، کیوں کہ اسے گھر جاکر بہت سا مطالعہ کرنا تھا۔ اس نے کہا کہ اگرچہ یہ کام اسے لازماً کرنا پڑتا ہے لیکن بیزار کن اور تھکا دینے والا کام لگتا ہے۔ میں نے مشورہ دیا کہ اس لازمی مطالعے کی تھکن دور کرنے کے لیے وہ کوئی ایسی چیز پڑھا کرے جو ذرا ہلکی پھلکی ہو، مگر اچھا ادب ہو۔ میں نے مثال کے طور پر چند کتابوں کے نام لیے، اور یہ جان کر حیران ہوا کہ نہ صرف اس نے یہ تمام کتابیں پڑھ رکھی تھیں بلکہ اس پر اچھی نگاہ تھی۔

    اُس رات مجھ پر اِس بات کا انکشاف ہوا جس سے چند ہی لوگ واقف ہیں کہ فیدل کاسترو بے حد پُرجوش پڑھنے والا ہے کہ اسے ہر زمانے کے اچھے ادب سے محبت ہے، اور یہ کہ وہ اس کا نہایت سنجیدہ ذوق رکھتا ہے۔ دشوار ترین حالات میں بھی، فرصت کے لمحات میں پڑھنے کے لیے اس کے پاس ایک نہ ایک عمدہ کتاب ضرور رہتی ہے۔

    اس شب رخصت ہوتے ہوئے میں نے اسے پڑھنے کے لیے ایک کتاب دی۔ اگلے روز 12 بجے میں اس سے دوبارہ ملا تو وہ اسے پڑھ چکا تھا۔ وہ اس قدر محتاط اور باریک بیں قاری ہے کہ وہ نہایت غیر متوقع مقامات پر تضادات اور واقعاتی غلطیوں کی نشان دہی کر دیتا ہے۔

    میری کتاب ”ایک غرقاب شدہ جہاز کے ملاح کی داستان” پڑھنے کے بعد وہ صرف یہ بتانے کے لیے میرے ہوٹل آیا کہ میں نے کشتی کی رفتار کا حساب لگانے میں غلطی کی ہے، اور اس کے پہنچنے کا وقت ہرگز وہ نہیں ہوسکتا جو میں نے بیان کیا ہے۔ اس کی بات درست تھی۔ اس لیے” ایک پیش گفتہ موت کی روداد” کو شائع کرانے سے پہلے میں مسودہ اس کے پاس لے گیا، اور اس نے شکاری رائفل کی خصوصیات کے بارے میں ایک غلطی کی نشان دہی کی۔

    لگتا ہے اسے ادب کی دنیا سے محبت ہے، یہاں اس کا جی لگتا ہے، اور اسے اپنی بے شمار تحریر شدہ تقریروں کے ادبی اسلوب پر محنت کرنے میں لطف آتا ہے۔ ایک موقعے پر اس نے حسرت زدہ انداز میں، مجھے بتایا: ” اپنے اگلے جنم میں میں ایک ادیب بننا چاہتا ہوں۔

  • اونٹوں والا علاج…

    اونٹوں والا علاج…

    ”حُسن اور سفاکی کی سرزمینیں“ اُن مضامین کے اردو تراجم پر مشتمل ہے جو دنیا میں انسانی بستیوں‌ اور لوگوں پر ٹوٹنے والی آفات اور مختلف النّوع ابتلاؤں کی داستان سناتے ہیں۔

    اسی کتاب میں ایک مضمون ‘ایک غلام نیویارک میں’ (A Slave in New York) بھی شامل ہے جس کے مترجم اجمل کمال ہیں۔ یہ مضمون ولیم فنیگن (William Finnegan) کا تحریر کردہ ہے اور نیویارکر کے 24 جنوری 2000ء کے شمارے کا حصّہ تھا۔ ستّر سالہ ولیم فنیگن امریکی صحافی ہیں اور مشہور جریدے نیویارکر سے بطور اسٹاف رائٹر وابستہ رہے ہیں۔ وہ افریقی ممالک سے متعلق کئی کتابوں کے مصنّف بھی ہیں۔ یہاں ہم اس مضمون سے ایک اقتباس پیش کررہے ہیں۔

    اس مضمون میں مصنّف نے موریتانیہ کے ایک غلام کی کہانی بیان کی ہے۔ ایک ہی رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والوں کے درمیان آقا اور غلام کا یہ روایتی نسبی رشتہ ہمارے فیوڈل سماج کے اس رواج سے قریبی مماثلت رکھتا ہے جس کے تحت انسانی خاندانوں کی ایک کثیر تعداد کو ”کم اصل“ ، ”کمّی“ ، ”نیچ ذات“ یا ”خدمتی قومیں“ قرار دے کر زمین کے مالک "اصیل” گھرانوں کی ہر طرح کی خدمت پر زندگی بھر مامور رکھا جاتا ہے۔

    ”مجھے ”اونٹوں والا علاج“ یاد آیا جس کے بارے میں مَیں نے پڑھا تھا؛ یہ اذیت دینے کا ایک طریقہ تھا جو سرکشی پر آمادہ غلاموں کے لیے مخصوص تھا۔“

    ”موریتانیہ کے بارے میں ہیومن رائٹس واچ نامی تنظیم کی ایک رپورٹ میں اس طریقے کی تفصیل بیان کی گئی تھی: غلام کی ٹانگیں ایک ایسے اونٹ کے پہلو سے باندھ دی جاتی ہیں جسے کوئی دو ہفتوں تک پانی سے محروم رکھا گیا ہو۔ پھر اونٹ کو پانی پینے کے لیے لے جایا جاتا ہے اور جوں جوں اونٹ کا پیٹ پھولتا ہے غلام کی ٹانگیں، رانیں اور جانگھیں آہستہ آہستہ چرتی چلی جاتی ہیں۔“

    رپورٹ میں ایک مقامی اطلاع دہندہ کے حوالے سے کہا گیا تھا: ”میں ایک ایسے غلام سے واقف ہوں جو بوغے کے مغرب میں شرت کے مقام پر 1988ء میں اس اذیت سے گزرا تھا۔ اس کے آقا کو شک تھا کہ وہ فرار ہونا چاہتا ہے، کیونکہ وہ ایک سڑک پر دیکھا گیا جہاں اس کا کوئی کام نہ تھا۔ علاوہ ازیں، وہ منھ پھٹ جوان آدمی تھا جو اپنے آقا اور اس کے گھر والوں کو جواب دیتا تھا اور اس نے صاف کہہ دیا تھا کہ اسے غلاموں والی زندگی پسند نہیں۔“

    ”اسے پکڑ کر اونٹوں والے علاج سے گزارا گیا۔ اُس وقت اس کی عمر سولہ سال تھی۔ وہ اب بھی اپنے آقا کے خاندان کے ساتھ رہتا ہے، لیکن اب اتنا اپاہج ہو چکا ہے کہ کوئی کام کرنے کے قابل نہیں رہا۔“

  • الہام کا فرشتہ

    الہام کا فرشتہ

    نوبل انعام یافتہ ترک ناول نگار اور مصنّف اورحان پاموک کا فکر و فلسفہ اور کسی ادبی موضوع پر ان کی رائے اور اظہارِ خیال بھی بہت شان دار اور قابلِ‌ توجہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں مشہور اس ادیب کی گفتگو کا ایک ایسا ہی ٹکڑا ہم یہاں نقل کررہے ہیں جس کا ترجمہ اجمل کمال نے کیا ہے۔

    "میرے نزدیک کسی ادیب کا راز الہام میں نہیں، کیوں کہ کوئی یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ الہام کہاں سے آتا ہے بلکہ ادیب کی ضد اور صبر میں پوشیدہ ہے۔

    ترکی زبان کی وہ خوب صورت کہاوت، سوئی سے کنواں کھودنا، مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ادیبوں ہی کے لیے وضع کی گئی تھی۔

    پرانی حکایتوں میں مجھے فرہاد کا صبر بہت عزیز ہے جس نے عشق کی خاطر پہاڑ کھودا تھا، اور میں اسے سمجھتا بھی ہوں۔ اپنے ناول مائی نیم از ریڈ میں جہاں میں نے ان قدیم ایرانی میناتور سازوں کا تذکرہ کیا ہے جو برسوں ایک ہی گھوڑے کا نقش کھینچنے کی مشق کیا کرتے تھے، موقلم کی ایک ایک جنبش کو ذہن نشین کرتے رہتے تھے، وہاں میں جانتا تھا کہ میں لکھنے کے مسلک کی، خود اپنی زندگی کی بات کر رہا ہوں۔ اپنی زندگی کو، دوسرے انسانوں کی کہانی کی طرح، آہستہ آہستہ، بیان کرنے، اس بیان کرنے کی قوّت کو اپنے اندر محسوس کرنے، میز پر بیٹھ کر صبر کے ساتھ خود کو اپنے فن میں، اپنے ہنر کے سپرد کرنے کے لیے کسی ادیب کو سب سے پہلے امید پرستی حاصل ہونا ضروری ہے۔

    الہام کا فرشتہ بعض ادیبوں کے پاس اکثر آتا ہے اور بعض کے پاس کبھی نہیں، لیکن وہ ان ادیبوں کو پسند کرتا ہے جو امید اور اعتماد رکھتے ہیں، اور جس وقت کوئی ادیب خود کو سب سے زیادہ تنہا محسوس کر رہا ہو، جس وقت وہ اپنی کوششوں، اپنے خوابوں اور اپنی تحریر کی قدر و قیمت کے بارے میں سب سے زیادہ زیادہ شہبے میں مبتلا ہو۔ جس وقت وہ اس خیال کا شکار ہو جائے کہ اس کی کہانی محض اس کی اپنی کہانی ہے۔ ٹھیک اس لمحے الہام کا فرشتہ اس پر ایسی کہانیاں، مناظر اور خواب منکشف کر دیتا ہے جو اس دنیا کی تعمیر میں کام آسکیں جسے وہ تخلیق کرنا چاہتا ہے۔

    لکھنے کا کام جس میں، میں نے اپنی عمر گزاری ہے، اس کے بارے میں سوچتے ہوئے میرا سب سے زیادہ متاثر کن احساس یہ ہوتا ہے کہ یہ جملے یہ خیالات اور یہ صفحات جنہوں نے مجھے اس قدر سرشاری اور مسرت بخشی، دراصل میرے تخیل کی پیداوار نہیں تھے کہ انہیں کسی اور قوّت نے تلاش کر کے دریا دلی کے ساتھ مجھے عطا کر دیا تھا۔”

  • پلاسٹک کی بالٹی افریقا میں کیسے "انقلاب” کا باعث بنی، جانیے

    پلاسٹک کی بالٹی افریقا میں کیسے "انقلاب” کا باعث بنی، جانیے

    ہم ایتھیوپیا میں دو ہزار کلومیٹر کا سفر طے کر چکے ہیں۔

    سڑکیں ویران پڑی ہیں۔ سال کے اس حصّے میں (یورپ میں یہ جاڑوں کا موسم ہے) پہاڑ، جو بادلوں تک اونچے ہیں، سرسبز ہیں اور دھوپ میں شان دار لگ رہے ہیں۔ سنّاٹا اندر تک اترتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔

    اگر آپ رک کر سڑک کے کنارے بیٹھ جائیں تو آپ کو بہت فاصلے پر اونچی، یک آہنگ آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ یہ آوازیں پہاڑیوں میں گاتے ہوئے بچّوں کی ہیں، گلّہ بانوں کے بیٹوں اور بیٹیوں کی جو لکڑیاں اکٹھی کر رہے ہیں اور اپنے مویشیوں کے لیے گھاس کاٹ رہے ہیں۔ آپ کو ان کے ماں باپ کی آوازیں سنائی نہیں دیتیں۔ یوں لگتا ہے جیسے پوری دنیا بچّوں کے ہاتھ میں ہو۔

    افریقا کی نصف آبادی پندرہ سال سے کم عمر کے لڑکوں اور لڑکیوں پر مشتمل ہے۔ بچے ہر طرف ہیں: فوجوں اور پناہ گزیں کیمپوں میں، کھیتوں میں کام کرتے اور بازاروں میں خرید و فروخت کرتے ہوئے۔ اور گھر پر بھی بچّے ہی ہیں جو خاندان کے لیے اہم ترین کام سرانجام دیتے ہیں، یعنی پانی بھر کر لاتے ہیں۔ صبح منہ اندھیرے، جب اکثر لوگ نیند میں ہوتے ہیں، کم عمر لڑکے تیز قدموں سے کنوؤں، تالابوں اور دریاؤں کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں۔ نئی ٹیکنالوجی ان کی اچھی حلیف ثابت ہوئی ہے۔ اس نے ان کو ایک کارآمد شے فراہم کی ہے: پلاسٹک کی بالٹی۔

    پلاسٹک کی بالٹی نے افریقی زندگیوں میں انقلاب برپا کر دیا ہے۔ گرم اُستوائی علاقوں میں پانی کے بغیر زندہ رہنا ناممکن ہے، پانی کی ہمیشہ شدید قلّت رہتی ہے۔ اس لیے پانی حاصل کرنے کی غرض سے بہت دور، اکثر درجنوں کلومیٹر کے فاصلے تک، جانا پڑتا ہے۔ پلاسٹک کی بالٹی کے ایجاد ہونے سے پہلے پانی مٹی یا پتھر کے بنے ہوے بھاری گھڑوں میں لے جایا جاتا تھا۔ پہیا اور ایسی سواریاں جن میں پہیے استعمال ہوتے ہیں __ افریقی کلچر کا مانوس پہلو نہیں تھا، ہر چیز، پانی سے بھرا گھڑا بھی، سر پر اٹھا کر لے جانا ہی واحد طریقہ تھا۔

    گھر کے کام کی تقسیم کے مطابق پانی لانے کا کام عورتوں کے حصّے میں آتا تھا۔ بچّے اتنے بھاری گھڑے نہیں اٹھا سکتے تھے۔ اور غربت اس قدر شدید تھی کہ بہت کم خاندان ایک سے زیادہ گھڑے رکھنے کے متحمل ہو سکتے تھے۔

    پلاسٹک کی بالٹی کی آمد ایک معجزہ تھی۔ ایک تو یہ نسبتاً سستی تھی (اگرچہ بہت سے گھرانے ایسے ہیں جن کے پاس اس سے زیادہ قیمتی کوئی چیز نہیں)، یعنی کوئی دو ڈالر کے برابر۔ پھر یہ چھوٹے بڑے ہر سائز میں دست یاب تھی۔ اور چند لیٹر کی بالٹی چھوٹے بچّے بھی اٹھا سکتے تھے۔
    چناں چہ پانی لانا اب بچّوں کی ذمے داری ہے۔

    دور کسی کنویں کی طرف اپنے سفر کے دوران کھیلتے اور ہنسی مذاق کرتے بچّے عام دکھائی دیتے ہیں۔ اور یہ تبدیلی کام کے بوجھ تلے دبی افریقی عورتوں کے لیے کس قدر تسکین کی بات ہے۔ ان کی زندگیوں میں کیسا خوش گوار تغیر آ گیا ہے! درحقیقت پلاسٹک کی بالٹی کی لائی ہوئی مثبت تبدیلیاں بے شمار ہیں۔

    قطار ہی کو لیجیے۔ جب پانی مٹکوں میں لایا جاتا تھا تو اکثر دن دن بھر قطار میں کھڑے رہنا پڑتا تھا۔ استوائی سورج بڑا بے رحم ہوتا ہے۔ اور اپنا گھڑا قطار میں چھوڑ کر خود سائے میں جا کھڑے ہونے کا خطرہ نہیں لیا جا سکتا تھا۔ یہ بڑی قیمتی چیز تھی۔

    آج ایسا کرنا ممکن ہے۔ بالٹی نے قطار میں کھڑے ہونے والے فرد کی جگہ لے لی ہے، اور آج کل پانی کی قطار بے شمار رنگ برنگی پلاسٹک کی بالٹیوں پر مشتمل ہوتی ہے جب کہ ان کے مالک سائے میں کھڑے انتظار کرتے ہیں، بازار سے سودا سلف لانے چلے جاتے ہیں یا کسی دوست سے مل آتے ہیں۔

    (پولستانی مصنّف، شاعر، صحافی اور ماہر فوٹو گرافر ریشارد کاپوشِنسکی
    کی تحریر کا انگریزی سے اردو ترجمہ، اردو مترجم اجمل کمال ہیں)