Tag: اجمیر شریف

  • سماع اور قوّالی: برصغیر میں آمد

    سماع اور قوّالی: برصغیر میں آمد

    خواجہ معین الدینؒ نے جب اجمیر شریف کو مسکن بنایا تو اس سارے علاقے میں ہندوؤں کی آبادی تھی۔ یہ خواجہؒ پر اللہ کی خاص نظرِ عنایت تھی کہ ہندو اُن کے در پہ حاضر ہو کر دولتِ اسلام سے مالا مال ہونے لگے۔

    لیکن ایک مسئلہ تھا کہ صدہا برس سے یہاں جو ہندو موسیقی کا چلن تھا، اُس کی بناء پر خدشہ رہتا تھا کہ جو گانا بجانا نومسلموں کی گھٹّی میں پڑا ہے وہ انہیں واپس اُسی ڈگر پہ نہ لے جائے۔ لہٰذا، اُن کو نمازِ عشا کے بعد حمد و ثناء اور نعتِ رسولﷺ کی ترغیب دی جانے لگی جس نے بتدریج سماع اور پھر قوّالی کا انداز اختیار کرلیا۔

    محققّین کی رائے ہے کہ بّرِصغیر میں قوّالی کے باضابطہ مکتب کو حضرت امیر خسروؒ نے رواج دیا۔ اُن کا مقصد بجز اس کے کچھ نہ تھا کہ خدائے بزرگ و برتر کی ثناء خوانی اور نعتِ رسول مقبولﷺ کے وسیلے سے اپنے مرشد خواجۂ خواجگان حضرت نظام الدین اولیاءؒ کے ذوق و حُبِّ جمالیاتِ رب العالمین اور رسولِ کریمﷺ کو دو چند کیا جائے۔ مسلمان صوفیائے کرام کے مختلف مکاتبِ فکر نے اس اندازِ سماع کو اپنا لیا اور برِّصغیر میں مختلف صوفیا اور بزرگانِ دین کے مزاروں پر اُسے فروغ مِلا۔

    حضرت امیر خسروؒ کی ایک فارسی ثناء و نعت صدیوں سے پڑھی جارہی تھی۔ عظیم پریم راگیؒ اگرچہ قوّال کے بجائے ثناء خوان کہلانا زیادہ پسند کرتے تھے، لیکن امیر خسرو کی ثناء و نعت:

    نمی دانم چہ منزل بود، شب جائیکہ من بوُدَم
    بہر سُو رقصِ بِسمل بود شب جائیکہ من بوُدَم

    کے بحرِ بے کنار میں وہ بھی بہہ گئے اور اُسے گا کر زندۂ جاوید کردیا۔ یہ 1930ء کا عشرہ تھا جب دو قوّالوں اور ثناء ونعت خوانوں اور عارفانہ کلام گانے والوں کے نام اُبھرے اور دیکھتے ہی دیکھتے یہ دو آوازیں برِّصغیر کی فضاؤں میں چھا گئیں۔ اُن میں ایک آوازِ عظیم پریم راگیؒ اور دوسری واعظ قوّال کی تھی۔ واعظ کو بھی ’’واعظ‘‘ کا خطاب دہلی کے نظام الدین اولیاءؒ کی درگاہ کی ایک مقبول اور ممتاز ادبی شخصیّت خواجہ حسن نظامیؒ نے عطا کیا تھا۔ قدرت نے ان دونوں کو ایسا لَحن عطا کیا تھا کہ برِّصغیر کے اہلِ تصوّف اُن کے دیوانے تھے۔ ہم کچھ اور پیچھے جاتے ہیں تو تاریخ یہ حقیقت ہمارے سامنے لے آتی ہے کہ برِّصغیر میں ریکارڈ اور گرامو فون 1902ء میں متعارف ہوئے۔ اُس کے بعد عارفانہ کلام، خصوصاً قوّالیوں کی صورت خانقاہی نعتیہ کلام اس سرزمین کے گوشے گوشے میں پہنچنے لگا۔ فطری سی بات تھی کہ کلام کے ساتھ ساتھ ثناء خواں، نعت خواں اور قوّال بھی شہرت بہ داماں ہوئے اور اگلے چالیس پچاس برس کے دوران حمد و ثناء، نعت خوانی اور قوّالی کے ساتھ ساتھ چار بیت، داستان گوئی اور نوٹنکی ایسی اصناف کو بھی قبولیتِ عام حاصل ہوئی۔ اس عرصے میں ہمیں گلو قوّال، پیارو قوّال، فخرِعالم قوّال، اِبوّ قوّال، علی بخش (واعظ) قوّال، فاروق احمد نیازی، رئیس احمد نیازی اور منظور نیازی قوّال، پیارے خان صاحب، حبیب پینٹر قوّال، استاد فتح علی خان، جنہوں نے اپنا فن اپنے بیٹے نصرت فتح علی خان کو یوں منتقل کیا کہ وہ اُسے دنیا کے دور دراز گوشوں تک پھیلا کر شاید قبل از وقت ہی داعیِ ملکِ اجل ہوگئے۔ فتح علی، مبارک علی قوّال، استاد محمد علی فریدی، اسماعیل آزاد، استاد محمد علی فریدی قوّال، (انہیں بابا فرید گنج شکرؒ کے درباری قوّالوں کا جدِامجد سمجھا جاتا ہے اور وہ تھے۔)، رشید احمد فریدی قوّال، مہر علی، شیر علی قوّال، میاں داد، حافظ داد قوّال اور شیرمیاں داد، بدر میاں داد قوّال۔ (ناموں میں تقدیم و تاخیر ہوسکتی ہے لیکن اس سے اُن کی شہرت اور عظمت متاثر نہیں ہوتی۔)

    ہم 1930ء کے عشرے میں لوٹ کے جاتے ہیں تو ہمیں عظیم پریم راگیؒ کا نام درگاہ اجمیرشریف میں یوں جَڑا ملتا ہے جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔ عظیم پریم راگیؒ عارفانہ کلام خود ہی کہتے، دوسرے صوفی شعرأ کے کلام میں جوڑتے اور پھر ساز و آواز کے ساتھ خواجہ کی نذر کر دیتے۔ ہوتے ہوتے یہ کلام سارے ہی خواجگانِ برِّصغیر کی درگاہوں اور مزاروں سے ہوتا ہوا اُن کی روحوں تک جا پہنچا۔ اجمیر شریف بنیادی طور پر پہاڑی علاقہ ہے جہاں بلاتخصیص، مسلمان درویشوں اور ہندو سادھوؤں نے، درگاہِ خواجہ اجمیر کے آس پاس ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ کہتے ہیں کہ عظیم پریم راگیؒ جب بھی دربارِ خواجہ اجمیر میں چوکی بھرتے، وہ درویش اور سادھو اُنہیں سننے کے لئے جوق درجوق چلے آتے تھے۔

    ایک بار انہوں نے خواجہ اجمیریؒ کی درگاہ پر چوکی بھری اور ہندو، مسلمان سب سننے چلے آئے۔ انہوں نے ایک تربینی کہی:
    ’’ہِے (ہ) سے ہندو بن گیا اور ’’میم‘‘ (م) سے مسلم بنا
    دونوں حرفوں کو ملاؤ تم تو دیکھو ’’ہم‘‘ بنا
    پھر برُا کِس کو جانوں، بھلا کِس کو مانوں؟

    وہ آخری مصرعے کی تکرار کرتے جاتے تھے اور سامعین سر دھنتے جاتے تھے۔ان کے گائے ہوئے کلام اور قوّالیوں کو دوسری ریکارڈنگ کمپنیوں نے ریکارڈ کر کے جاری کیا اور عام سامعین تک پہنچایا۔ اِن میں معروف ریکارڈنگ کمپنی ینگ انڈیا (Young India) تھی۔

    وقت بڑی تیزی سے گزرتا چلا گیا۔ اور بہت سی ریکارڈنگ یا ریکارڈ وجود سے عدم میں چلے گئے۔

    (سینئر صحافی، ادیب اور مترجم رشید بٹ کے مضمون سے اقتباسات)

  • اجمیر شریف درگاہ پر دعویٰ، اسدالدین اویسی نے مودی حکومت سے کیا کہا ؟

    اجمیر شریف درگاہ پر دعویٰ، اسدالدین اویسی نے مودی حکومت سے کیا کہا ؟

    نئی دہلی: صدر کل ہند مجلس اتحاد المسلمین و رکن پارلیمنٹ حیدرآباد بیرسٹر اسدالدین اویسی کا کہنا ہے کہ خواجہ معین الدین چشتی رحمۃ اللہ علیہ کا شمار بھارت کے مسلمانوں کے اہم ترین اولیاء اکرام میں ہوتا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق بیرسٹر اسدالدین اویسی کا کہنا تھا کہ لوگ صدیوں سے ان کی پیروی کرتے رہے ہیں اور کرتے رہیں گے، انشاء اللہ۔

    بیرسٹر اسدالدین اویسی نے کہا کہ کئی مہاراجے، بادشاہ، شہنشاہ آئے اور چلے گئے مگر خواجہ اجمیری کا شہر آج بھی آباد ہے۔

    اُنہوں نے کہا کہ 1991 کے ایکٹ پر عمل درآمد کرنا عدالتوں کا قانونی فرض ہے۔1991 کے عبادت گاہوں کے قانون میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ کسی بھی عبادت گاہ کی مذہبی شناخت کو تبدیل نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی ان مقدمات کی عدالت میں سماعت ہو گی۔

    بیرسٹر اسدالدین اویسی کا مزید کہنا تھا کہ یہ انتہائی افسوسناک ہے کہ ہندوتوا نظام کے ایجنڈے کو پورا کرنے کے لیے قانون اور آئین کو ٹکڑے ٹکڑے کیا جا رہا ہے اور مودی تماشہ دیکھنے میں مصروف ہے۔

    واضح رہے کہ بھارتی ریاست راجھستان میں درگاہ اجمیر شریف کو شیو بھگوان کا مندر قرار دینے سے متعلق درخواست عدالت نے منظور کرکے سماعت کی تاریخ مقرر کردی گئی۔

    حضرت خواجہ معین الدین حسن چشتی کی درگاہ کے احاطے میں مندر کا دعویٰ کرنے والی درخواست کو عدالت نے منظور کرلیا ہے۔

    لبنان میں جنگ بندی اسرائیل کی بدترین شکست ہے، جنرل سلامی

    اجمیر کے سول جج منموہن چندیل نے ہندو سینا کے سربراہ وشو گپتا کی درخواست پر نوٹس جاری کیے، جس میں دعویٰ کیا گیا کہ مذکورہ درگاہ اجمیر شریف جو صوفی بزرگ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کا مزار ہے، دراصل پہلے شیو مندر تھا۔

  • بھارت: انتہا پسندوں کی جانب سے اجمیر شریف درگاہ کو مندر قرار دینے کا مطالبہ

    بھارت: انتہا پسندوں کی جانب سے اجمیر شریف درگاہ کو مندر قرار دینے کا مطالبہ

    نئی دہلی: نام نہاد جمہوریت کے دعویدار بھارت میں اقلیتوں پر مظالم کوئی نئی بات نہیں، اسی سلسلے کی ایک کڑی میں درگارہ اجمیر شریف کو مندر قرار دینے کا مطالبہ بھی سامنے آرہا ہے۔

    بین الاقوامی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق ہندو سینا کے قومی صدر وشنو گپتا نے اجمیر ڈسٹرکٹ کورٹ میں درخواست دائر کی ہے، جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ اجمیر درگاہ کو مندر قرار دیا جائے۔

    مذکورہ درخواست پر اجمیر کورٹ میں 25 ستمبر یعنی کل سماعت ہونے کا امکان ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ہندو سینا سے قبل رواں سال کے شروع میں مہارانا پرتاپ سینا کے قومی صدر راجوردھن سنگھ پرمار کی جانب سے بھی درگاہ اجمیر شریف میں ہندو مندر ہونے کا دعویٰ کیا گیا تھا۔

    اس کے بعد ہندو آرمی کی جانب سے بھی یہی دعویٰ سامنے آیا تھا، تنظیم کے صدر سمرن گپتا اور بانی ریاستی نائب صدر پنکج ورما کی جانب سے درگاہ میں مندر ہونے کی بات کہی گئی تھی۔

    معاملہ اجمیر ضلع کلکٹر تک پہلے بھی پہنچا تھا جہاں پر اُن کی جانب سے ایڈیشنل ضلع کلکٹر کو اپنے مطالبات پر مبنی عرضی پیش کی گئی تھی، سمرن نے اُس وقت یہ جھوٹا دعویٰ کیا تھا کہ درگاہ احاطہ میں تاراگڑھ کے قلعہ کا اے ایس آئی سروے ہونا چاہیے، وہاں مہادیو شیو کا مندر موجود ہے۔

    یہ دعویٰ بھی کیا گیا تھا کہ جہاں مہادیو شیو کا مندر ہے اُس جگہ کو ’جنتی دروازہ‘ کہا جاتا ہے۔ یہ معاملہ جب سرخیوں میں آیا تو سمرن گپتا پر اجمیر درگاہ کے خادموں نے قابل اعتراض تبصرہ کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے سخت کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

    مودی کا امریکا میں ہندوتوا نظریہ کا پرچار، سکھ رہنماؤں نے آڑے ہاتھوں لے لیا

    اجمیر درگاہ کی انتظامیہ کی جانب سے یہ بھی کہا گیا تھا کہ اگر سمرن کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی گئی تو شدید احتجاج کیا جائے گا، جس پر پولیس نے کہا تھا کہ سمرن کے بیان کو لے کر مقدمہ درج کرلیا گیا ہے اور واقعہ کی تحقیقات شروع کردی گئی ہیں۔

  • اجمیر جانے والے پاکستانی زائرین تاحال بھارتی ویزوں کے منتظر

    اجمیر جانے والے پاکستانی زائرین تاحال بھارتی ویزوں کے منتظر

    اجمیر شریف جانے والے پاکستانی زائرین تاحال بھارتی ویزوں کے منظر ہیں، وزارت مذہبی امور نے زائرین کو لاہور آنے سے روک دیا۔

    تفصیلات کے مطابق زیارت کے لیے اجمیر شریف جانے والے پاکستانی زائرین کو اب تک بھارتی ویزوں نہیں مل سکے ہیں۔ ویزوں کی اطلاع نہ ملنے پر وزارت مذہبی امور نے زائرین کو لاہور آنے سے روک دیا ہے۔

    وزارت مذہبی امور کے ترجمان نے بتایا کہ زائرین نے پروگرام کے مطابق جمعہ کو لاہور پہنچنا تھا۔ پاکستانی زائرین نے اجمیر شریف کیلئے 13 جنوری کو بھارت روانہ ہونا تھا۔

    ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ بھارتی ہائی کمیشن کی جانب سے اب تک زائرین کے ویزوں سے متعلق اطلاع نہیں دی گئی ہے۔

    وزات مذہبی امور نے اجمیر شریف میں عرس کیلئے جانے والے زائرین نئی اطلاع ملنے تک لاہور کا سفر نہ کرنے کی ہدیت کی ہے۔ دونوں ملکوں کے مذہبی سیاحتی وفود 1974 کے معاہدے کے تحت سفر کرتے ہیں۔

    ہرسال سینکڑوں ہندو اور سکھ یاتری پاکستان میں مذہبی مقامات کی یاترا کرتے ہیں۔ پاکستانی زائرین بھارت میں بزرگان دین سے منسوب 6 خانقاہوں پر حاضری دیتے ہیں۔

  • خواجہ معین الدین چشتیؒ کے عرس میں شرکت کے لیے درخواستیں طلب

    خواجہ معین الدین چشتیؒ کے عرس میں شرکت کے لیے درخواستیں طلب

    وزارت مذہبی امور نے اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتیؒ کے سالانہ عرس میں شرکت کے سلسلے میں درخواستیں طلب کر لی ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے مطابق اجمیر شریف میں خواجہ معین الدین چشتیؒ کے سالانہ عرس میں شرکت کے لیے وزارت مذہبی امور کی جانب سے درخواستیں طلب کر لی گئی ہیں، عرس کا آغاز آئندہ سال 13 جنوری سے ہوگا۔

    وزارت مذہبی امور کے حکام نے بتایا کہ کہ خواہشمند زائرین سے 31 اگست تک زیارت فارم کے ذریعے درخواستیں طلب کی گئی ہیں۔

    حکام کا کہنا ہے کہ عرس کی تقریبات 13 تا 23 جنوری 2024 اجمیر شریف بھارت میں ہوں گی، درخواستیں زیادہ موصول ہونے پر 10 اکتوبر کو قرعہ اندازی کے ذریعے زائرین کا انتخاب کیا جائے گا۔

    واضح رہے کہ اس سال کے شروع میں بھارت نے اجمیر شریف روانگی کے منتظر پاکستانی زائرین کو عین وقت پر ویزا دینے سے انکار کردیا تھا، پاکستانی زائرین نے 3 فروری کو حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے سالانہ عرس پر انڈیا روانہ ہونا تھا۔

    اس حوالے سے وزارت مذہبی امور نورالحق کا موقف تھا کہ پاکستانی زائرین سے نارواسلوک کو بھارتی وزارت خارجہ کی سطح پراٹھایا جائے گا۔

  • اجمیر شریف میں حضرت خواجہ غریب نوازکے عرس کی تیاریاں مکمل

    اجمیر شریف میں حضرت خواجہ غریب نوازکے عرس کی تیاریاں مکمل

    اجمیر شریف : حضرت خواجہ غریب نوازکے عرس کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں، دنیا بھر سے زائرین کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری سنجری غریب نواز رحمۃ اللہ علیہ کے آٹھ سو آٹھ ویں سالانہ عرس کی تیاریاں مکمل کرلی گئیں ہیں،عرس 19 سے29 مارچ جاری رہے گا۔

    عرس میں شرکت کے لئے دنیا بھر سے زائرین کی آمد کا سلسلہ جاری ہے جبکہ پاکستان کے زائرین کو بھارتی سفارتخانے سے ویزہ نہ ملنے پر بڑی تعداد عرس میں شریک نہ ہوسکیں گی۔


    مزید پڑھیں : خواجہ غریب نوازؒ کا عرس : بھارت نے پاکستانی زائرین کو ویزے جاری نہیں کئے


    ترجمان مذہبی امور کا کہنا ہے کہ ہرسال 500 پاکستانی زائرین اجمیر شریف عرس میں شرکت کیلئے بھارت روانہ ہوتے ہیں، دونوں ممالک کے زائرین 1974 کے معاہدے کے تحت اپنے اپنے مذہبی مقامات پر جاتے ہیں۔

    عرس کے موقع پر دربار عالیہ کی اندورون و بیرون سجاوٹ اور سیکیورٹی کے تمام انتظامات مکمل کرلیے گئے ہیں۔

    خواجہ غریب نواز کے عرس پر اے آر وائی کیو ٹی وی خصوصی نشریات پیش کررہا ہے جبکہ چھٹی شریف کی تقریبات دربار اجمیر سے براہ راست نشر کرے گا۔

    خواجہ معین الدین چشتی 13 ویں صدی میں فروغ اسلام کی غرض سے ایران سے برصغیر آئے، انہیں غریب نواز کے لقب سے جانا جاتا ہے، 1236 میں انکا انتقال ہوا ، جس کے بعد اس روز سے ان کا 6 روزہ عرس ان کی برسی کے موقع پر ہر سال منایا جاتا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں‘ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • اجمیر شریف بم دھماکا، ہندو انتہا پسندوں کوعمرقید کی سزا

    اجمیر شریف بم دھماکا، ہندو انتہا پسندوں کوعمرقید کی سزا

    جے پور : بھارتی عدالت نے اجمیر شریف میں واقع حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر بم دھماکے کے جرم میں دو ہندو انتہا پسندوں کو عمر قید کی سزا سنا دی۔

    تفصیلات کے مطابق راجستھان کی خصوصی عدالت نے دیویندا گپتا اور بھاویش پٹیل کو اجمیر شریف میں حضرت خواجہ غریب نوازؒ کے مزار پر سال 2007 میں کیے گئے بم دھماکے میں ملوث پائے جانے پر عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔

    india-post-1

    مجسٹریٹ دنیش کمار نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ بھارت میں انتہا پسندی کی اجازت نہیں، یہاں رہنے والے ہر شخص کو مکمل مذہبی آزادی ہے اور مزکورہ ملزمان نے بھارتی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مسلمانوں کے مذہبی اور روحانی مرکز پر دھماکا کیا۔

    فیصلے کے بعد سزا پانے والے گپتا اور پٹیل کے وکیل جگدیش رانا نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ اس فیصلے سے مطمئن نہیں ہیں اور عدالت کے سامنے مکمل حقائق نہیں آسکے اس لیے مکمل انصاف کے لیے ہائی کورٹ میں اپیل دائر کریں گے۔

    واضح رہے کہ 2007 کو ماہ رمضان میں افطار کے وقت درگاہ اجمیر شریف کے احاطہ نور میں دھماکا کیا گیا تھا جس میں 3 افراد جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے ابتدائی تحقیقات میں تین افراد کو ملوث پایا گیا تھا جب کہ ماسٹر مائنڈ کے طور پر نابا کمار سرکار عرف سوامی آسیم آنند کا نام سامنے آیا تھا۔

    india-post-2

    تاہم عدالت نے نابا سرکار عرف سوامی آسیم آنند کو بری کردیا اور تین میں سے دو کو ملزم قرار دے کر عمر قید سزا سنا دی جب کہ تیسرا ملزم دھماکے کے کچھ عرصے کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔

    یاد رہے کہ نابا کمار سرکار جسے سوامی آسیم آنند کہا جا تاہے سمجھوتہ ایکسپریس پر حملے میں بھی ملوث رہا ہے جس میں 75 افراد جاں بحق ہو گئے تھے اور حکومت پاکستان نے بھارت سے نابا کمار کی حوالگی کا مطالبہ بھی کیا تھا۔