Tag: احتجاج

  • جیف بیزوس کے گھر کے باہر احتجاج کیوں ہوا؟

    جیف بیزوس کے گھر کے باہر احتجاج کیوں ہوا؟

    دنیا کے امیر ترین شخص جیف بیزوس کے گھر کے باہر لوگوں نے احتجاج شروع کردیا، مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ جیف بیزوس ایمانداری سے ٹیکس ادا کریں۔

    بین الاقوامی یوب سائٹ کے مطابق دنیا کے سب سے امیر ترین شخص جیف بیزوس کے گھر کے باہر کروڑ پتی افراد نے جمع ہو کر احتجاج کیا اور ان سے مزید ٹیکس دینے کا مطالبہ کر دیا۔

    جیف بیزوس کا فلیٹ جس کی مالیت 10 ارب روپے ہے، اس کے باہر جمع ہونے والے شہریوں کا کہنا تھا کہ جیف بیزوس ایمانداری سے ٹیکس ادا نہیں کررہے۔

    مظاہرین کا کہنا تھا کہ ایمازون کے مالک نے کووڈ وبا کے دوران بے حساب دولت کمائی لیکن اسی شہر کے لوگ بے روزگاری اور مسائل میں گرفتار ہیں۔

    مظاہرین نے شہر میں اشتہاری بورڈ والے ٹرک بھی چلائے جن پر امیروں پر ٹیکس لگاؤ اور جیف بیزوس کی تصویر کے ساتھ مجھ سے ٹیکس لے کر دکھاؤ جیسے نعرے درج تھے۔

  • کرونا وائرس کی پابندیاں، یورپ میں ہزاروں افراد کے مظاہرے

    کرونا وائرس کی پابندیاں، یورپ میں ہزاروں افراد کے مظاہرے

    کرونا وائرس کے دوبارہ پھیلاؤ کے پیش نظر متعدد یورپی ممالک میں جزوی لاک ڈاؤن عائد کیا گیا ہے جس کے خلاف ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے، مظاہرین نے پابندیاں ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے تاکہ معاشی سرگرمیاں بحال ہوسکیں۔

    بین الاقوامی ویب سائٹ کے مطابق یورپ بھر میں ہفتے کے روز کرونا وائرس کی وجہ سے عائد پابندیوں کے خلاف ہزاروں مشتعل افراد نے ریلیاں نکالیں۔

    کرونا وائرس کی وجہ سے اب تک 27 لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں، اور اس کے پھیلاؤ میں ایک بار پھر ایک دم تیزی آگئی ہے، اسی وجہ سے بہت سے یورپی ممالک میں جزوی لاک ڈاؤن لگا دیا گیا ہے۔

    ان حالات میں پولینڈ اور فرانس کے کچھ حصوں اور یوکرین کے دارالحکومت کیف کے رہائشیوں کو نئی پابندیوں کا سامنا ہے۔

    لیکن لوگ معاشی حالات کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہیں اور جرمنی، برطانیہ اور سوئٹزر لینڈ میں ہزاروں افراد نے ان پابندیوں کے خلاف مارچ کیا ہے۔

    جرمنی کے شہر کیسل میں انتہائی دائیں بازو، انتہائی بائیں بازو اور وبا اور ویکسین کے خلاف بے بنیاد سازشی تھیوریاں پھیلانے والے کارکنوں کی جانب سے منعقدہ احتجاجی مظاہرے میں لوگوں نے لاک ڈاؤن ختم کرو اور کرونا کے باغی جیسے بینرز اٹھا رکھے تھے۔

    حکام نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے واٹر کینن، لاٹھیوں اور مرچوں والے اسپرے کا استعمال کیا۔

    پولیس ترجمان کے مطابق مظاہرین کی تعداد 15 سے 20 ہزار کے درمیان تھی اور یہ اس سال نکلنے والی سب سے بڑی ریلیوں میں سے ایک ہے۔

    لندن میں بھی ہزاروں افراد نے کرونا وائرس کی وجہ سے عائد پابندیوں کے خلاف احتجاج کیا، بہت سے مظاہرین نے کرونا وائرس کے خلاف سازشی تھیوریز والے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے۔

    میٹرو پولیٹن پولیس ترجمان کا کہنا ہے کہ پابندیوں کی خلاف ورزی پر 36 افراد کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ 100 کے قریب مظاہرین نے پولیس افسران پر مختلف چیزیں پھینکیں۔

    اس کے علاوہ ایمسٹر ڈیم، ویانا، بلغاریہ کے دارالحکومت صوفیہ اور سوئٹزر لینڈ کے قصبے لیسٹل میں بھی پابندیوں کے خلاف مظاہرے کیے گئے ہیں۔

  • بھارتی کسانوں نے اپنی فصلیں تباہ کرنا شروع کردیں

    بھارتی کسانوں نے اپنی فصلیں تباہ کرنا شروع کردیں

    نئی دہلی: متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف احتجاجی کسانوں نے اپنی فصلیں بھی تباہ کرنا شروع کردیں، بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو) نے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس طرح کے اقدام نہ اٹھائیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق زرعی قوانین کے خلاف کئی ماہ سے احتجاج کرنے والے کسانوں نے اب اپنی فصلوں کو بھی تباہ کرنا شروع کردیا، اب تک 4 کسان اپنے کھیتوں پر کھڑی فصل تباہ کرچکے ہیں۔

    بھارتیہ کسان یونین (بی کے یو) ان واقعات پر دلگرفتہ ہے اور اس نے کسانوں سے اپیل کی ہے کہ وہ اس طرح کے اقدام نہ اٹھائیں۔

    اس سے قبل بھارتیہ کسان یونین کے ہی ترجمان راکیش ٹکیت نے اتر پردیش کے کسانوں سے گزارش کی تھی کہ وہ تحریک میں پہنچنے کے لیے چاہے اپنی کھڑی فصل کو تباہ کر دیں، لیکن مظاہرے میں ضرور شامل ہوں۔

    اس اپیل کے بعد کسانوں نے اپنی فصلیں تباہ کرنی شروع کردی ہیں تاہم اب یونین تشویش کا شکار ہے۔

    ایک موقع پر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کسان یونین کے میڈیا انچارج دھرمیندر ملک نے کہا کہ اب تک 4 مقامات سے فصل تباہ کرنے کی خبر آئی ہے، ہم نے ان سے ذاتی طور پر بات بھی کی ہے۔ ساتھ ہی ایک بیان بھی جاری کیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ کسی بھی کسان کو فصل برباد کرنے کے لیے نہیں کہا گیا، بلکہ یہ کہا گیا کہ اگر ایسی بھی نوبت آئی تو کسانوں کو اس کے لیے تیار رہنا چاہیئے۔

    انہوں نے کہا کہ ابھی ایسے حالات نہیں آئے کہ فصلوں کو تباہ کیا جائے۔ ہم نے اپریل تک کے لیے کہا تھا کہ اگر حکومت ہم پر دباؤ ڈالے گی تو ہم ایسا اقدام کرنے کا سوچیں گے، کسانوں سے گزارش ہے کہ اس طرح کا قدم نہ اٹھائیں۔

    اس حوالے سے جب ترجمان راکیش ٹکیت سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ کسانوں نے خود کہا تھا کہ تحریک میں اگر ضرورت پڑی تو ہم اپنی فصل کی قربانی بھی دیں گے لیکن فی الحال اس کی ضرورت نہیں پڑی۔

    انہوں نے عندیہ دیا کہ اس طرح کا وقت اپریل میں آئے گا جب فصلوں کی کٹائی ہوگی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ فصلوں کے حوالے سے جو بھی فیصلہ ہوگا وہ متفقہ طور پر 20 اپریل کے آس پاس کیا جائے گا۔

  • بھارت میں کسانوں نے احتجاج کی نئی حکمت عملی طے کرلی

    بھارت میں کسانوں نے احتجاج کی نئی حکمت عملی طے کرلی

    نئی دہلی: بھارت میں زرعی قوانین کے خلاف 2 ماہ سے احتجاج کرتے کسانوں نے نئی حکمت عملی کا اعلان کردیا جس سے مودی سرکار پریشان دکھائی دے رہی ہے۔

    مقامی میڈیا کے مطابق 26 جنوری کو ٹریکٹر پریڈ کے دوران تشدد کا واقعہ پیش آنے کے بعد ایسا لگ رہا تھا کہ احتجاج ختم ہوجائے گا اور مظاہرین اپنے گھروں کو واپس چلے جائیں گے، لیکن راکیش ٹکیت اور درشن پال نامی کسان لیڈران عزم کے ساتھ دھرنے پر بیٹھے رہے، اور انہوں نے اب ایک بار پھر اپنی تحریک کو تیز کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔

    تینوں زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ دہراتے ہوئے سنیوکت کسان مورچہ نے اعلان کیا ہے کہ 18 فروری کو دوپہر 12 بجے سے شام 4 بجے تک ریل روکو مہم چلائی جائے گی۔

    اس سلسلے میں سنیوکت کسان مورچہ کی اہم میٹنگ ہوئی جس میں متفقہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ کسان تحریک کو مزید تیز کیا جائے گا۔ اس فیصلے کے بعد مودی حکومت کی پریشانیاں بڑھتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔

    میٹنگ میں ریل روکو مہم چلانے کے علاوہ مزید فیصلے بھی کیے گئے ہیں۔

    ذرائع کے مطابق 12 فروری کو ریاست راجستھان کے تمام ٹول پلازہ کو ٹول فری کروایا جائے گا۔

    اس کے بعد 14 فروری کو پلوامہ حملے میں ہلاک جوانوں کو یاد کیا جائے گا، اس کے لیے ملک بھر میں موم بتی مارچ، مشعل جلوس اور دیگر پروگرامز کا انعقاد ہوگا۔

    بعد ازاں 16 فروری کو کسان رہنما سر چھوٹو رام کی پیدائش کے دن ملک بھر میں موجود کسان اتحاد کا مظاہرہ کریں گے۔

  • مودی حکومت سے دلبرداشتہ ایک اور کسان نے خودکشی کرلی

    مودی حکومت سے دلبرداشتہ ایک اور کسان نے خودکشی کرلی

    نئی دہلی: بھارتی حکومت کے نئے زرعی قوانین کے خلاف احتجاج میں شامل ایک اور کسان نے خودکشی کرلی، اب تک احتجاج میں شامل متعدد کسان خودکشی کرچکے ہیں۔

    بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت میں گزشتہ 2 ماہ سے جاری کسان احتجاج کے دوران ایک اور کسان نے خودکشی کرلی، تحریک میں شامل ایک کسان نے نئے زرعی قوانین کو منسوخ کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے خود کو پھانسی لگا لی۔

    کسان کی شناخت کرم ویر کے نام سے ہوئی ہے جو ہریانہ کے ایک گاؤں کا رہائشی تھا، 52 سالہ کرم ویر گزشتہ رات ٹکری بارڈر پر جاری کسان تحریک میں شامل ہونے کے لیے پہنچا تھا۔

    میڈیا رپورٹ کے مطابق کرم ویر نے مرنے سے قبل ایک نوٹ چھوڑا جس میں انہوں نے لکھا کہ حکومت اس معاملے کا حل تلاش کرنے کی بجائے تاریخ پر تاریخ دے رہی ہے۔

    کرم ویر نے لکھا کہ فی الحال حکومت کا زرعی قوانین منسوخ کرنے کا کوئی ارادہ نظر نہیں آتا۔

    دوسری جانب احتجاج میں شامل ایک کسان دل کا دورہ پڑنے سے چل بسا، سکھ مندر پنجاب کے ایک گاؤں کا رہنے والا تھا۔ پولیس نے دونوں کسانوں کی لاشوں کو پوسٹ مارٹم کے لیے سول اسپتال بہادر گڑھ بھیج دیا ہے۔

  • پارلیمنٹ میں جذباتی تقریر کے بعد رکن پارلیمنٹ نے اپنا ہاتھ کاٹ لیا

    پارلیمنٹ میں جذباتی تقریر کے بعد رکن پارلیمنٹ نے اپنا ہاتھ کاٹ لیا

    بنکاک: تھائی لینڈ میں حزب اختلاف کے رہنما نے پارلیمنٹ میں پرجوش تقریر کرنے کے بعد احتجاجاً اپنا ہاتھ کاٹ لیا، تھائی لینڈ میں اس وقت شدید مظاہرے جاری ہیں جنہیں روکنے کے لیے ایمرجنسی کا نفاذ بھی کیا جاچکا ہے۔

    بین الاقوامی میڈیا کے مطابق مذکورہ رکن پارلیمنٹ نے اجلاس میں نہایت پرجوش تقریر کی جس میں انہوں نے تھائی وزیر اعظم پر سخت تنقید کی۔ پارلیمنٹ کا یہ خصوصی اجلاس ملک میں کئی ماہ سے جاری مظاہروں اور احتجاجی صورتحال پر غور کے لیے بلایا گیا تھا۔

    اپنی تقریر میں رکن پارلیمنٹ نے کہا کہ وزیر اعظم ملک میں جاری جمہوری احتجاج کو نظر انداز کر رہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ وہ ان مظاہروں میں (ملک کے) بچوں کا خون بہتے نہیں دیکھنا چاہتے، میں ان کا ساتھ دینے کے لیے یہاں اپنا خون بہاؤں گا۔ وزیر اعظم ظالم بنیں گے یا قوم کے ہیرو بننا چاہیں گے؟

    اس کے بعد انہوں نے کوٹ اتار کر شرٹ کا آستین موڑا، وہاں سے ایک چھری برآمد کی اور پے در پے اپنے بازو پر کئی وار کیے۔

    ان کی اس احتجاجی حرکت کے بعد پارلیمنٹ میں ہلچل مچ گئی، دیگر ارکان ان کی مدد کو لپکے۔ پارلیمنٹ میں موجود طبی عملے نے انہیں ابتدائی امداد بھی دی۔

    خیال رہے کہ تھائی لینڈ میں رواں برس جولائی میں ایک احتجاجی تحریک شروع ہوئی جس میں ملک میں موجود شاہی نظام میں اصلاحات کرنے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔ تھائی لینڈ میں شاہی نظام ایک حساس معاملہ ہے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے والوں کو سزائیں دی جاتی ہیں۔

    اس احتجاجی تحریک کی قیادت ملک کے نوجوان طلبا کر رہے ہیں۔ احتجاج کو روکنے کے لیے رواں ماہ حکومت نے ملک میں ایمرجنسی کا نفاذ بھی کردیا تھا جس کے تحت 4 سے زائد افراد کے اجتماع پر پابندی عائد ہے۔

    تاہم ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد مظاہروں میں مزید شدت آگئی۔

    اس صورتحال پر غور کرنے کے لیے پارلیمنٹ کا خصوصی اجلاس منعقد کیا گیا تھا جس میں ملک کی سب سے بڑی اپوزیشن پارٹی نے تھائی وزیر اعظم سے استعفے کا مطالبہ کیا۔

    اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم اس ملک پر ایک بوجھ بن گئے ہیں، براہ مہربانی آپ استعفی دیں تاکہ یہ مظاہرے احسن طریقے سے ختم ہوجائیں۔

    تھائی لینڈ میں ہونے والے حالیہ مظاہروں کو ملک کی تاریخ کے سب سے بڑے مظاہرے قرار دیا جارہا ہے۔

  • جامعہ کراچی: یونیورسٹی کھلنے کے پہلے دن ہی طلبا کا احتجاج

    جامعہ کراچی: یونیورسٹی کھلنے کے پہلے دن ہی طلبا کا احتجاج

    کراچی: جامعہ کراچی کے 5 ماہ بعد کھلتے ہی طلبا سراپا احتجاج بن گئے، طلبا کا مطالبہ ہے کہ آن لائن کلاسز کے دوران مشکلات کا سامنا رہا جبکہ سلیبس بھی مکمل نہیں ہوسکا لہٰذا امتحانات لیے بغیر پروموشن کی جائے۔

    تفصیلات کے مطابق 5 ماہ بعد جامعہ کراچی کھلتے ہی ہزاروں طلبہ سراپا احتجاج بن گئے، سینکڑوں طلبہ و طالبات ایڈمن بلاک کے سامنے جمع ہوگئے۔

    احتجاج کرنے والے طلبہ امتحانات نہ لینے کا مطالبہ کر رہے ہیں، طلبہ کا مؤقف ہے کہ آن لائن کلاسز میں اساتذہ نے کچھ نہیں پڑھایا صرف اسائنمنٹ دیتے رہے، لہٰذا اب امتحانات بھی نہ لیے جائیں۔

    طلبہ کا کہنا ہے کہ ہمیں آن لائن کلاسز ہی کی بنیاد پر پروموشن دیا جائے۔ کئی طالبعلموں کا شکوہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران آن لائن کلاسز لینے میں بھی مشکلات کا سامنا رہا۔

    ان کے مطابق صرف اسائنمنٹ کی تیاری کے تحت امتحانات میں شرکت نا ممکن ہے، سلیبس نامکمل نہیں ہوسکا تو امتحانات کا انعقاد کیسے ہوگا؟ امتحانات کا انعقاد روکا جائے اور آن لائن کلاسز کی بنیاد پر نتائج جاری کیے جائیں۔

    انتظامیہ کی جانب سے طلبا سے مذاکرات بھی کیے جارہے ہیں، امتحانات کے حوالے سے یونیورسٹی انتظامیہ کو بڑے چیلنج کا سامنا دکھائی دے رہا ہے۔

  • پاکستان کے کونے کونے میں کشمیریوں پر ظلم کے خلاف تاریخ ساز احتجاج

    پاکستان کے کونے کونے میں کشمیریوں پر ظلم کے خلاف تاریخ ساز احتجاج

    کراچی: مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ برس 5 اگست کے یک طرفہ ظالمانہ اور غیر قانونی بھارتی اقدام کو ایک سال مکمل ہونے پر آج پاکستان کے کونے کونے میں کشمیریوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے احتجاجی ریلیاں نکالی گئیں۔

    تفصیلات کے مطابق کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے لیے پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں میں ریلیاں اور تقاریب منعقد کی گئیں، کراچی، سکھر، حیدرآباد، لاہور، راولپنڈی، اسلام آباد، پشاور، کوئٹہ، گوادر اور گلگت کشمیر بنے گا پاکستان کے نعروں سے گونج اٹھے۔

    خان پور، صادق آباد، رحیم یار خان، فورٹ عباس، اوکاڑہ، پاکپتن اور چشتیاں کے رہائشی بھی کشمیریوں کے شانہ بشانہ، سکھر، سانگھڑ، نوشہروفیروز اور جیکب آباد کے شہری بھی کشمیریوں کے حق میں آواز بلند کرنے گھروں سے نکل آئے۔

    کنٹرول لائن کی دونوں جانب کشمیر بنے گا پاکستان کے نعرے گونج اٹھے، بھارتی غیر قانونی محاصرے کو ایک سال مکمل ہونے پر مقبوضہ کشمیر میں یوم سیاہ منایا گیا، جب کہ پاکستان میں یوم استحصال کشمیر منایا گیا، اس سلسلے میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی، احتجاج، دھرنے، ریلیوں اور تقاریب کا بھی اہتمام کیا گیا، اسلام آباد میں پاکستانی اور کشمیری پرچموں کی بہار آ گئی۔

    لاہور میں پنجاب یونی ورسٹی اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن نے احتجاجی ریلی و سیمینار کا انعقاد کیا، مظاہرے میں اساتذہ، افسران اور ملازمین کی بڑی تعداد نے شرکت کی، وکلا نے بھی یوم استحصال پر کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کیا، راولپنڈی میں ضلعی انتظامیہ کے زیر اہتمام ریلی نکالی گئی جس کی قیادت ایم این اے شیخ راشد شفیق ار ڈی سی پنڈی انوار الحق نے کی، ریلی میں اسکول کالج کے طلبہ، ضلعی افسران اور شہریوں نے شرکت کی۔

    سیالکوٹ، گوجرانوالہ، ساہیوال، چشتیاں، خانیوال، لیاقت پور، وہاڑی، بہاولپور، سجاول، مانسہرہ، پتوکی، ننکانہ صاحب، لیہ، رحیم یار خان، چونیاں، جلال پور بھٹیاں، راج پور، اوکاڑہ، رینالہ خورد، بھکر، پسرور، اوچ شریف اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ضلعی انتظامیہ کے زیر اہتمام اور عوامی سطح پر ریلیاں نکالی گئیں، فضائیں کشمیر بنے گا پاکستان کے نعروں سے گونج اٹھیں، بہاولنگر میں اور دیگر شہروں میں کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے لیے ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی اور سائرن بجائے گئے، چونیاں میں الہ آباد، کنگن پور اور چھانگا مانگا میں بھی ریلیاں نکالی گئیں۔

    صوبہ سندھ میں کراچی میں کشمیری عوام سے اظہار یک جہتی کے لیے متعدد ریلیاں نکالی گئیں، جناح انٹر نیشنل ایئرپورٹ پر بھی ایک بڑی ریلی نکالی گئی، یوم استحصال کشمیر کے موقع پر سی اے اے ملازمین نے بھی اظہار یک جہتی کیا۔

    سکھر میں یوم استحصال کشمیر پر وکلا نے بھارت کے خلاف احتجاج کیا، حیدر آباد میں ضلعی انتظامیہ کی جانب سے ریلی نکالی گئی، جس میں کمشنر، ڈپٹی کمشنر، ایس ایس پی حیدرآباد اور دیگر افسران نے شرکت کی، لاڑکانہ میں بھی ضلعی انتظامیہ کی جانب سے میئر کی قیادت میں ریلی نکالی گئی، پی ٹی آئی کی جانب سے انصاف ہاؤس سے یوم استحصال ریلی نکالی گئی، ٹنڈو محمد خان میں ڈی سی کی قیادت میں ریلی نکلی، نواب شاہ میں شیراز چوک پر پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے کشمیریوں سے یک جہتی کے لیے ریلی نکلی، کندھ کوٹ میں بھی بھارتی بربریت کے خلاف عوام نے احتجاج کیا، کندھ کوٹ میں تنگوانی، غوث پور، کرم پور سمیت چھوٹے بڑے شہروں میں ریلیاں نکالی گئیں، نوشہرو فیروز اور سانگھڑ میں بھی مظلوم کشمیریوں کے لیے ریلیوں کا انعقاد کیا گیا، جن میں شرکا نے مودی کے خلاف نعرے لگائے۔

    یوم استحصال کشمیر پر کوئٹہ سمیت بلوچستان بھر میں ریلیاں نکالی گئیں جن میں مختلف سیاسی جماعتیں اور طلبہ تنظیموں نے شرکت کی، کوئٹہ میں ریلی کی قیادت وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کی، سبی میں ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے ریلی نکلی، ریلی میں سائرن بجا کر ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی، ڈیرہ بگٹی میں ریلی میں سول سوسائٹی نے شرکت کی، شرکا نے بازوؤں پر سیاہ پٹیاں باندھیں، جعفرآباد میں ڈیرہ اللہ یار میں جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے ریلیاں نکالی گئیں، گوادر میں شہریوں نے کشمیریوں سے اظہار یک جہتی کے لیے موٹر سائیکل ریلی نکالی، کوہلو میں بھی کشمیری بھائیوں کے لیے ریلی نکالی گئی۔

    خیبر پختون خوا کے مختلف علاقے بھی کشمیر بنے کا پاکستان کے نعروں سے گونج اٹھے، پشاور میں وزیر اعلیٰ کے پی محمود خان کی زیر قیادت صاحب زادہ عبدالقیوم روڈ پر ریلی نکلی جس میں صوبائی کابینہ ارکان، چیف سیکریٹری، انتظامی اور سرکاری ملازمین نے شرکت کی، ریلی میں کشمیری عوام کے ساتھ یک جہتی کے لیے نغمے بھی گائے گئے۔ چارسدہ میں ڈپٹی کمشنر کی قیادت میں ریلی نکلی، مالاکنڈ میں جے یو آئی کے زیر اہتمام ریلی کا انعقاد کیا گیا، کوہاٹ میں ضلعی انتظامیہ کے تحت نکلی ریلی میں شہریوں نے شرکت کی۔ لکی مروت اور کرک میں بھی ریلیاں نکالی گئیں۔

    گلگت بلتستان میں بھی یوم استحصال کشمیر کے موقع ریلیوں کا انعقاد کیا گیا، گلگت میں ریلی کی قیادت گورنر راجہ مقبول حسین نے کی، ریلی میں چیف سیکریٹری گلگت بلتستان اور اعلیٰ حکام شریک ہوئے، گورنر نے خطاب میں کہا کہ بھارت مقبوضہ کشمیر کے نہتے مسلمانوں پر مظالم بند کر دے، مسئلہ کشمیرعالمی توجہ کا مرکز بن چکا ہے۔ ادھر میرپور آزاد کشمیر میں بھی مختلف علاقوں سے احتجاجی جلوس چوک شہیداں پہنچے، اور جگہ جگہ جمو و کشمیر کے مظلوم باشندوں کے ساتھ اظہار یک جہتی کیا گیا۔

  • لاک ڈاؤن میں کراچی کی سڑکوں پر دیگیں رکھ کر انوکھا احتجاج

    لاک ڈاؤن میں کراچی کی سڑکوں پر دیگیں رکھ کر انوکھا احتجاج

    کراچی: شہر قائد میں لاک ڈاؤن کے باعث کاروبار بند ہونے سے کیٹرز اینڈ ڈیکوریٹرز ایسوسی ایشن نے سڑک پر دیگیں رکھ کر انوکھا احتجاج کیا۔

    تفصیلات کے مطابق کراچی میں کیٹرز اینڈ ڈیکوریٹرز ایسوسی ایشن کی جانب سے انوکھا احتجاج کیا گیا۔مظاہرین دیگوں کے ساتھ سڑک پر آگئے،مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈ بھی اٹھا رکھے تھے۔

    کاروبار کی بندش سے پریشان پکوان سینٹر کے مالکان کا کہنا تھا کہ لاک ڈاون کے باعث تقاریب پر پابندی سے کاروبار ٹھپ ہوگیا ہے، لاک ڈاون کے بعد سے ملازمین کو اپنی جیبوں سے تنخواہیں ادا کر رہے ہیں۔

    مظاہرین کے مطابق کئی ماہ ہوگئے کوئی آرڈر نہیں آرہا، کاروبار نہ ہونے سے کوئی آمدنی نہیں مگر خرچے اپنی جگہ پر ہیں، دکان کا کرایہ، یوٹیلیٹی بل اور دیگر اخراجات کہاں سے پورے کریں، دکانوں کے کرائے بھی جیبوں سے ادا کر رہے ہیں،اگر یہی صورتحال رہی تو ہم تباہ ہوجائیں گے۔

    کیٹرز اینڈ ڈیکوریٹرز ایسوسی ایشن نے سندھ حکومت سے دیگر شعبوں کی طرح کاروبار کی اجازت دینے کا مطالبہ کیا اور ساتھ ہی حکومت کی تمام ایس او پیز پر عمل درآمد کی بھی یقین دہانی کروائی۔

  • امریکا مظاہرے: وہ لمحات جنہوں نے دیکھنے والوں کی آنکھیں نم کردیں

    امریکا مظاہرے: وہ لمحات جنہوں نے دیکھنے والوں کی آنکھیں نم کردیں

    واشنگٹن: امریکا میں سیاہ فام شخص جارج فلائیڈ کے پولیس کے ہاتھوں بہیمانہ قتل کے بعد جہاں پورا امریکا پرتشدد مظاہروں کی آگ میں جل رہا ہے وہیں اس کی تپش دوسرے ممالک تک بھی پہنچ رہی ہے۔

    پرتشدد مظاہروں اور دکانوں کو لوٹنے کے ساتھ ان مظاہروں میں ایسے واقعات بھی پیش آرہے ہیں جن سے انسانیت پر یقین پھر سے بحال ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔

    واشنگٹن ڈی سی میں جب پولیس نے ایک سڑک کو بلاک کر کے مظاہرین کو محصور کردیا تو راہول نامی ایک شخص نے 80 کے قریب مظاہرین کو اپنے گھر کے اندر بلا لیا جہاں انہوں نے رات گزاری اور آرام کیا۔

    واشنگٹن میں ہی ایک سیاہ فام نو عمر لڑکے پر پولیس نے گنیں تانیں تو ایک سفید فام لڑکی دونوں کے درمیان لڑکے کی ڈھال بن کر کھڑی ہوگئی۔

    ںیویارک کے شہر بروکلن میں چند مظاہرین نے ایک برانڈ کے اسٹور کو لوٹنے کی کوشش کی تو مظاہرین ہی میں سے چند افراد ان کا راستہ روک کر کھڑے ہوگئے اور اسٹور کو لٹنے سے بچا لیا۔

    ریاست ٹیکسس کے شہر ہیوسٹن میں پولیس چیف کو مظاہرین کو قابو کرنے کے لیے بھیجا گیا لیکن وہاں پہنچ کر وہ مظاہرین کے ساتھ شامل ہوگئے اور نہایت پرجوش تقریر کرڈالی۔ تارک وطن پولیس چیف نے کہا کہ ہم تارکین وطن نے ہی اس ملک کی تعمیر کی ہے اور ہم اس ملک کو چھوڑ کر کہیں نہیں جائیں گے۔

    متعدد شہروں میں مظاہرین نے گا کر اور رقص کر کے جارج فلائیڈ کو خراج عقیدت پیش کیا۔ جارج کے آخری الفاظ میرا دم گھٹ رہا ہے ایک انقلابی نعرے کی شکل اختیار کرچکے ہیں۔

    ریاست کولوراڈو میں ہزاروں مظاہرین نے 9 منٹ تک زمین پر لیٹ کر میرا دم گھٹ رہا ہے کے نعرے لگائے، یہ اتنا ہی وقت ہے جتنا سفید فام پولیس اہلکار نے جارج کے گلے کو اپنے گھٹنے سے دبائے رکھا۔

    متعدد شہروں میں پولیس والوں نے گھٹنے ٹیک کر مظاہرین کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔

    نسلی تعصب کے خلاف امریکا سے بھڑکنے والی یہ چنگاری دیگر ممالک تک بھی پہنچ چکی ہے، نیوزی لینڈ، برطانیہ، نیدر لینڈز، آسٹریلیا، جرمنی اور فرانس میں بھی لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے اور نسلی تعصب کے خلاف احتجاج ریکارڈ کروایا۔

    جنگ زدہ ملک شام میں ایک مصور نے جارج فلائیڈ کی تصویر بنا کر اسے خراج عقیدت پیش کیا۔

    دوسری جانب جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے معاملے میں برطرف تمام پولیس اہلکاروں کے خلاف نئی دفعات عائد کردی گئی ہیں۔

    عدالتی دستاویزات کے مطابق پولیس اہلکار ڈیرک شووین کے خلاف سیکنڈری ڈگری قتل کا مقدمہ درج کیا گیا ہے، اسی کے ساتھ ساتھ باقی پولیس اہلکاروں پر بھی اس قتل میں مدد کرنے اور قتل کی حوصلہ افزائی کرنے کے الزامات عائد کیے گئے ہیں۔