Tag: احتساب عدالت

  • نوازشریف کے خلاف ریفرنسز پرفیصلہ کل سنایا جائے گا

    نوازشریف کے خلاف ریفرنسز پرفیصلہ کل سنایا جائے گا

    اسلام آباد: سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنس کا فیصلہ کل سنایا جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنس کا محفوظ فیصلہ کل سنایا جائے گا۔

    احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کل فیصلہ سنائیں گے جبکہ نوازشریف خود بھی عدالت جائیں گے۔ العزیزیہ ریفرنس میں 22 اور فلیگ شپ ریفرنس میں 16 گواہان کے بیانات قلمبند کیے گئے۔

    احتساب عدالت نمبر ایک اور دو میں سابق وزیراعظم کے خلاف نیب ریفرنسز کی مجموعی طور پر 183 سماعتیں ہوئیں۔

    نوازشریف مجموعی طور پر 130 بار احتساب عدالت کے روبرو پیش ہوئے، وہ 70 بار جج محمد بشیر اور 60 مرتبہ محمد ارشد ملک کی عدالت میں پیش ہوئے۔

    نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا


    یاد رہے کہ 19 دسمبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔

    کیس کا پس منظر


    سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کی مشکل اس وقت شروع ہوئی جب 4 اپریل 2016 کو پانامہ لیکس میں دنیا کے 12 سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ 143 سیاست دانوں اور نامور شخصیات کے نام سامنے آئے جنہوں نے ٹیکسوں سے بچنے کے لیے کالے دھن کو بیرون ملک قائم بے نام کمپنیوں میں منتقل کیا۔

    پاناما لیکس میں پاکستانی سیاست دانوں کی بھی بیرون ملک آف شور کمپنیوں اور فلیٹس کا انکشاف ہوا تھا جن میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کا خاندان بھی شامل تھا۔

    کچھ دن بعد وزیر اعظم نے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں اپنی جائیدادوں کی وضاحت پیش کی تاہم معاملہ ختم نہ ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ (موجودہ وزیر اعظم) عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کے لیے علیحدہ علیحدہ تین درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں۔

    درخواستوں پر سماعتیں ہوتی رہیں اور 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی قومی ادارہ احتساب (نیب) کو حکم دیا گیا کہ وہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرے۔

    بعد ازاں نیب میں شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے جن میں سے ایک ایون فیلڈ ریفرنس پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی جبکہ مریم نواز کو 7 سال قید مع جرمانہ اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔

  • 24 دسمبر کو کیا ہونے جا رہا ہے؟

    24 دسمبر کو کیا ہونے جا رہا ہے؟

    اسلام آباد: 2018 کے رواں مہینے دسمبر کی 24 تاریخ نہایت اہمیت اختیار کر گئی ہے، ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان کے خلاف مختلف ریفرنسز کا آغاز اور فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔

    تفصیلات کے مطابق پیر، چوبیس دسمبر کو پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف دو ریفرنسز العزیزیہ اور فلیگ شپ کا فیصلہ سامنے آ رہا ہے۔

    [bs-quote quote=”نواز شریف گرفتار ہوں گے یا آزاد؟ قوم فیصلے کی شدت سے منتظر ہے۔” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    دوسری طرف پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری کے خلاف بنائی جانے والی جے آئی ٹی کی رپورٹ پر سپریم کورٹ میں اہم سماعت ہونے والی ہے۔

    نواز شریف کے خلاف کرپشن کیسز کا فیصلہ صرف دو دن دور ہے، جس کے بعد فیصلہ ہوگا کہ وہ گرفتار ہوں گے یا آزاد، احتساب عدالت نے اس سلسلے میں بڑا فیصلہ مرتب کر لیا ہے جو چوبیس دسمبر کو سنایا جائے گا۔

    عوام ذہنوں میں بہت سارے سوال لے کر اس بات کے شدت سے منتظر ہیں کہ سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی جے آئی ٹی رپورٹ میں کیا ہے؟ جعلی اکاؤنٹس کیوں کھولے گئے؟ رقم کہاں سے آئی تھی؟ گئی کہاں؟ منی لانڈرنگ کیس میں جے آئی ٹی نے کیا گتھی سلجھائی؟

    [bs-quote quote=”سپریم میں پیش کی جانے والی جے آئی ٹی رپورٹ پر آصف زرداری کا مستقبل کیا ہوگا؟ کیا نواز شریف والی تاریخ دہرائی جائے گی جب انھیں پہلی ہی رپورٹ پر نا اہل قرار دے دیا گیا تھا؟” style=”style-7″ align=”right” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    خیال رہے کہ پہلی جے آئی ٹی رپورٹ پر ہی نواز شریف نا اہل ہوئے تھے، اب جے آئی ٹی رپورٹ پر آصف زرداری کا مستقبل کیا ہوگا؟ دوسری طرف اگر آصف زرداری سے متعلق کوئی انکشاف ہوا تو نتائج کیا برآمد ہوں گے؟

    ادھر احتساب عدالت کے جج نے العزیزیہ، فلیگ شپ ریفرنسز کا فیصلہ لکھنا شروع کر دیا ہے، عدالتی عملے کی ہفتہ اور اتوار کی چھٹیاں بھی منسوخ کر دی گئی ہیں، اسٹاف کو دیر تک رکنے کی ہدایت جاری ہو چکی۔

    جج ارشد ملک نے چوبیس دسمبر کو سیکورٹی انتظامات کے لیے ڈی سی کو طلب کرلیا۔ عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کی جانب سے پیش کردہ نئی دستاویزات ریکارڈ کا حصہ بنا لیا ہے، جب کہ نواز شریف کے وکلا نے فیصلے کا دن تبدیل کرنے کی استدعا کر دی ہے۔

    آصف زرداری کے خلاف جے آئی ٹی رپورٹ

    جعلی بینک اکاؤنٹس کیوں کھولے؟ رقم کہاں سے آئی؟ کہاں گئی؟ سپریم کورٹ نے یہ گتھی سلجھانے کے لیے جے آئی ٹی بنائی۔ جعلی اکاؤنٹس کا انکشاف سب سے پہلے اسٹیٹ بینک کی رپورٹ سے ہوا تھا۔ کیس اس وقت اہمیت اختیار کر گیا جب آصف زرداری اور فریال تالپور کے نام سامنے آئے۔ دونوں بہن بھائی اس وقت عبوری ضمانت پر ہیں۔


    یہ بھی پڑھیں:  آصف زرداری کے خلاف جے آئی ٹی رپورٹ پر پیپلز پارٹی کا ردِ عمل


    جعلی اکاؤنٹس سے منی لانڈرنگ کا معاملہ 2013 میں شروع ہوا، 2015 میں اسٹیٹ بینک نے ایف آئی اے کو مشکوک اکاؤنٹس کی رپورٹ کی تو پہلی بار اس بڑے اسکینڈل کا بھانڈا پھوٹا جس کے بعد ایف آئی اے نے تفتیش شروع کر دی۔ یہ کیس اس وقت توجہ کا مرکز بنا جب اس میں سابق صدر آصف زرداری اور ان کی ہم شیرہ فریال تالپور کے نام سامنے آئے۔

    ابتدا میں 29 جعلی بینک اکاؤنٹس سے 35 ارب کی منی لانڈرنگ کی کہانی منظرِ عام پر آئی لیکن جوں جوں تحقیقات آگے بڑھیں اکاؤنٹس اور رقم کی تعداد بھی بڑھتی چلی گئی۔ جعلی اکاؤنٹس تین بینکوں کی مختلف برانچوں میں کھولے گئے تھے۔ تحقیقات کئی سال سست روی کا شکار رہیں۔ تاہم 2018 میں سپریم کورٹ کے ایکشن لینے پر تحقیقات میں تیزی آ گئی لیکن بڑا سوال یہ تھا کہ جعلی اکاؤنٹس سے اصل فائدہ کس نے اٹھایا؟ یہ بات معما ہی بنی رہی۔

    [bs-quote quote=”6 جولائی کا دن کون بھول سکتا ہے، ایک طرف کرپشن کیسز میں نواز شریف فیملی کو سزا سنائی گئی تو دوسری جانب اسی دن نجی بینک کے سربراہ حسین لوائی کو جعلی اکاؤنٹس کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔ 15 اگست کو اومنی گروپ کے سربراہ انور مجید کو بیٹے سمیت گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا گیا، تفتیش دھیرے دھیرے آگے بڑھتی رہی، اور پھر فراڈ کا کھوج لگانے 6 ستمبر کو سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی تشکیل دے دی۔” style=”style-7″ align=”center” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    تحقیقات میں پیش رفت ہوتی چلی گئی، جے آئی ٹی نے 24 ستمبر کو پہلی اور 22 اکتوبر کو دوسری پیش رفت رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرائی، اس دوران 29 ستمبر کو کراچی میں فالودے والے کے اکاؤنٹ سے 2 ارب سے زائد ٹرانزیکشن کا انکشاف ہوا جس کے بعد تو جیسے تانتا بندھ گیا۔ پھر کبھی ویلڈر تو کبھی رکشے والے کے اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے کے راز افشا ہونے لگے۔


    یہ بھی پڑھیں:  آصف زرداری کو نا اہل کیا جائے، پی ٹی آئی کی الیکشن کمیشن کو درخواست


    28 نومبر کو آصف زرداری اور فریال تالپور نے جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہو کر بیان ریکارڈ کرایا، جعلی اکاؤنٹس کا مقدمہ کراچی کی بینکنگ کورٹ میں زیرِ سماعت ہے۔ سابق صدر اور ان کی بہن نے عبوری ضمانت لے رکھی ہے۔ دونوں بہن بھائی سماعت کے موقع پر عدالت میں پیش ہوتے ہیں۔ حسین لوائی، انور مجید اور ان کے بیٹے عبد الغنی مجید کو جیل سے پیشی پر لایا جاتا ہے۔

    کیس میں متحدہ عرب امارات کی شہريت رکھنے والے نصير حسين لوتھا سمیت کئی ملزمان اشتہاری قرار دیے گئے ہیں اور ان کی جائیداد ضبطی کا بھی حکم ہے۔

  • کرپشن ریفرنسز کا فیصلہ نواز شریف کی سالگرہ کے بعد سنایا جائے: عدالت سے استدعا

    کرپشن ریفرنسز کا فیصلہ نواز شریف کی سالگرہ کے بعد سنایا جائے: عدالت سے استدعا

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے وکلا نے ان کے خلاف کرپشن ریفرنسز میں مزید نئی دستاویزات عدالت میں جمع کروا دیں، ساتھ ہی عدالت سے درخواست کی کہ فیصلہ نواز شریف کی سالگرہ کے بعد سنایا جائے۔

    تفصیلات کے مطابق نواز شریف کے وکلا نے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں درکار یو کے لینڈ رجسٹری سے موصول ہونے والی دستاویزات احتساب عدالت میں جمع کروا دیں۔ دستاویز حسن نواز کی فروخت شدہ پراپرٹی سے متعلق ہیں۔

    پراسیکیوٹر نیب سردار مظفر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ یہ اس موقع پر نئی درخواست لے کر آگئے ہیں، ریفرنسز میں دلائل اور وکیل صفائی کے دفاع میں شواہد مکمل ہوچکے ہیں۔ کیس فیصلے کے لیے مقرر کر دیا گیا ہے اور یہ نئی دستاویز لے کر آگئے۔

    پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایک سال اور 3 ماہ تک انہوں نے دستاویزات پیش نہیں کیں۔

    احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں پیش نئی دستاویز کو ریکارڈ کا حصہ بنالیا۔

    خیال رہے کہ نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعتیں مکمل کی جاچکی ہیں اور 19 دسمبر کو عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔ فیصلہ 24 دسمبر کو سنایا جائے گا۔

    اس موقع پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا تھا کہ یو کے لینڈ رجسٹری سے ایک دستاویز ابھی تک موصول نہیں ہوئی لہٰذا انہیں ایک ہفتے کی مہلت دی جائے تاکہ وہ مذکورہ دستاویز عدالت میں پیش کرسکیں۔

    تاہم عدالت نے ان کی استدعا مسترد کرکے فیصلہ محفوظ کرلیا تھا۔

    آج احتساب عدالت میں نواز شریف کے وکلا نے عدالت سے فیصلے کا دن بدلنے کی بھی استدعا کردی۔ وکلا کا کہنا تھا کہ فیصلہ نواز شریف کی سالگرہ (25 دسمبر) کے بعد سنایا جائے اور فیصلے کی تاریخ 24 سے تبدیل کر کے 26دسمبر رکھ دیں۔

    احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کہا کہ 2 ریفرنسز ہیں میں کوشش کر رہا ہوں مکمل کرلوں۔ کام مکمل ہوگیا تو 24 دسمبر کو فیصلہ کردوں گا، اگر کام مکمل نہ ہوسکا تو پھر تاریخ تبدیل کردوں گا۔

  • کرپشن ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ، شہباز شریف نواز شریف کے لیے دعاگو

    کرپشن ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ، شہباز شریف نواز شریف کے لیے دعاگو

    لاہور: العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ ہونے پر سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے کہا ہے کہ اللہ سے دعا ہے انصاف کا بول بالا ہو اور بلا امتیاز و تفریق فیصلہ آئے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنس پر فیصلہ محفوظ ہونے پر سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ اللہ سے دعا ہے انصاف کا بول بالا ہو اور بلا امتیاز و تفریق فیصلہ ہو۔

    شہباز شریف نے کہا کہ یہی طریقہ ہے ملک آگے جاسکتا ہے، کفر کا نظام چل سکتا ہے ناانصافی کا نہیں، امید ہے انصاف کا بول بالا ہوگا۔

    شہباز شریف سے سوال کیا گیا کہ فیصلہ نواز شریف کے خلاف آیا تو کیا لائحہ عمل اختیار کریں گے جس پر انہوں نے کہا کہ آپ ایسے سوال کیوں کرتے ہیں ہمیں اللہ سے دعا کرنی چاہئے۔

    مزید پڑھیں: نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا

    واضح رہے کہ آج احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز کی سماعت مکمل کرلی گئی، دونوں ریفرنسز میں فریقین کے حتمی دلائل مکمل ہوچکے ہیں جس کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔

    احتساب عدالت میں ہونے والی سماعت میں جواب الجواب دلائل پیش کیے گئے جس کے بعد ریفرنسز کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔ فیصلہ 24 دسمبر کو سنایا جائے گا۔

    سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مزید دستاویزات جمع کروانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کی جسے مسترد کردیا گیا۔

  • نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا

    نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز کی سماعت مکمل کرلی گئی، دونوں ریفرنسز میں فریقین کے حتمی دلائل مکمل ہوچکے ہیں جس کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت مکمل کرلی گئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    [bs-quote quote=”فیصلہ 24 دسمبر کو سنایا جائے گا” style=”style-6″ align=”left”][/bs-quote]

    دونوں ریفرنسز میں فریقین کے دلائل مکمل ہوچکے ہیں، آج کی سماعت میں جواب الجواب دلائل پیش کیے گئے جس کے بعد ریفرنسز کا فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔ فیصلہ 24 دسمبر کو سنایا جائے گا۔

    سماعت میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ یو کے لینڈ رجسٹری سے دستاویزات مل گئیں، تصدیق بھی کروا لی گئی ہے۔

    لینڈ رجسٹری سے موصول شدہ اضافی دستاویزات عدالت میں جمع کروا دی گئیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف نے تسلیم نہیں کیا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای سے تنخواہ لی، کیپٹل ایف زیڈ ای میں نواز شریف کا عہدہ اعزازی تھا۔ سپریم کورٹ نے قابل وصول تنخواہ کو اثاثہ قرار دیا۔

    انہوں نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای میں ملازمت صرف ویزا مقاصد کے لیے تھی۔ جج نے دریافت کیا کہ تنخواہ سے متعلق آپ کا مؤقف درست مان لوں تو کیس سے کیا تعلق بنتا ہے جس پر وکیل نے کہا کہ تعلق یہ بنتا ہے نواز شریف کی صرف ملازمت ثابت ہو رہی ہے ملکیت نہیں۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ 3 ججز نے جے آئی ٹی بنوائی تھی اور فیصلہ جے آئی ٹی رپورٹ دیکھ کر ہی دیا۔ 28 جولائی کو ان 3 ججز کے فیصلے پر 5 ججوں نے دستخط کیے۔ 28 جولائی کے 5 رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف نظر ثانی کی درخواست دی تھی۔

    نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے جواب الجواب دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نواز شریف نے آج کچھ دستاویزات پیش کیں، اس کا مطلب ہے تمام دستاویزات ان کی دسترس میں تھیں، نواز شریف نے جان بوجھ کر وہ دستاویزات پیش نہیں کیں۔

    انہوں نے کہا کہ خواجہ حارث نے کہا ریفرنس دائر ہونے سے پہلے تفتیش ہوچکی تھی، جے آئی ٹی کسی کرائم کی تفتیش کے لیے نہیں بنی تھی۔ نواز شریف کی نااہلی کے لیے درخواستوں پر کچھ سوالات اٹھائے گئے۔ جے آئی ٹی صرف ان سوالوں کاجواب تلاش کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔

    خواجہ حارث کی ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا

    سماعت میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے مزید دستاویزات جمع کروانے کے لیے ایک ہفتے کی مہلت کی استدعا کی۔

    انہوں نے کہا کہ ایک دستاویز ابھی تک موصول نہیں ہوئی۔ کچھ وقت دیا جائے تو وہ دستاویز موصول ہونے پر پیش کردوں گا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ کی دی گئی مدت سب کے سامنے ہے، اب مزید وقت نہیں دیا جا سکتا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ دستاویز برطانیہ میں لینڈ رجسٹری ڈپارٹمنٹ کو بھی نہیں ملی، کب تک مل سکتی ہے کچھ وقت بتا نہیں سکتا۔ ایک ہفتے کا وقت اگر دیا جائے تو شاید وہ دستاویز آجائے۔

    نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اس وقت ملزم کی یہ درخواست معاملے کو التوا میں ڈالے گی، حتمی دلائل پہلے ہی مکمل ہو چکے ہیں۔

    احتساب عدالت نے خواجہ حارث کی ایک ہفتے کی مہلت دینے کی استدعا مسترد کردی۔

    گزشتہ سماعت میں ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے کہا کہ فلیگ شپ سے نواز شریف کو 7 لاکھ 80 ہزار درہم کے فوائد پہنچے، یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر ملک اصغر نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ کیس میں دستاویزات ملزمان کے پاس تھیں اور وہی دے سکتے ہیں، جائیداد کی ملکیت سے متعلق ملزمان کی پرائیویٹ دستاویزات ہیں۔ ملزمان نے سپریم کورٹ میں ایک منی ٹریل دینے کی کوشش کی۔ منی ٹریل کے دوران قطری شہزادے کا خط بھی منظر عام پر آگیا۔

    ملک اصغر نے کہا تھا کہ ملزمان کی تمام دستاویزات اور مؤقف جائیداد کو درست ثابت نہیں کرتے، سپریم کورٹ میں ملزمان اپنی جائیداد کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے ذریعے ملزمان کو ایک اور موقع دیا تھا۔ یہی سوالات مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو دیے گئے تھے کہ جوابات تلاش کردیں۔

    انہوں نے کہا کہ تھا جے آئی ٹی کے سامنے بھی ملزمان ذرائع بتانے میں ناکام رہے، سپریم کورٹ نے فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کیے اور کیس نیب کو بھیجا، اس طرح سپریم کورٹ کی جانب سے ملزمان کو تیسرا موقع دیا گیا۔ نیب نے ملزمان کو بلایا لیکن یہ لوگ پیش ہی نہیں ہوئے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا تھا کہ کسی دستاویز سے میاں شریف کا گلف اسٹیل سے تعلق ثابت نہیں ہوتا، شاید قومیانے کے خوف سے 2001 میں بے نامی جائیداد بنائی گئی۔ نواز شریف کی تقاریر سے بے نامی کا مقصد ظاہر ہوتا ہے۔

    کیس کا پس منظر

    سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے خاندان کی مشکل اس وقت شروع ہوئی جب 4 اپریل 2016 کو پانامہ لیکس میں دنیا کے 12 سربراہان مملکت کے ساتھ ساتھ 143 سیاست دانوں اور نامور شخصیات کے نام سامنے آئے جنہوں نے ٹیکسوں سے بچنے کے لیے کالے دھن کو بیرون ملک قائم بے نام کمپنیوں میں منتقل کیا۔

    پانامہ لیکس میں پاکستانی سیاست دانوں کی بھی بیرون ملک آف شور کمپنیوں اور فلیٹس کا انکشاف ہوا تھا جن میں اس وقت کے وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف کا خاندان بھی شامل تھا۔

    کچھ دن بعد وزیر اعظم نے قوم سے خطاب اور قومی اسمبلی میں اپنی جائیدادوں کی وضاحت پیش کی تاہم معاملہ ختم نہ ہوا۔ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ (موجودہ وزیر اعظم) عمران خان، جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی جانب سے وزیر اعظم کو نااہل قرار دینے کے لیے علیحدہ علیحدہ تین درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئیں۔

    درخواستوں پر سماعتیں ہوتی رہیں اور 28 جولائی 2017 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دیا۔ اس کے ساتھ ہی قومی ادارہ احتساب (نیب) کو حکم دیا گیا کہ وہ وزیر اعظم اور ان کے خاندان کے خلاف ریفرنس دائر کرے۔

    بعد ازاں نیب میں شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز دائر کیے گئے جن میں سے ایک ایون فیلڈ ریفرنس پایہ تکمیل تک پہنچ چکا ہے۔ ایون فیلڈ ریفرنس میں نواز شریف کو 10 سال قید اور جرمانے کی سزا سنائی گئی جبکہ مریم نواز کو 7 سال قید مع جرمانہ اور کیپٹن صفدر کو ایک سال قید کی سزا سنائی گئی۔

  • نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز میں فیصلے کی گھڑی قریب

    نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز میں فیصلے کی گھڑی قریب

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت جاری ہے جس میں قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے حتمی دلائل دیے جارہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت جاری ہے۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کر رہے ہیں۔

    نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کا ٹرائل اختتامی مراحل میں داخل ہوچکا ہے۔ العزیزیہ میں فریقین جبکہ فلیگ شپ ریفرنس میں وکیل صفائی کے حتمی دلائل مکمل ہوگئے ہیں۔

    سماعت کے دوران ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر عباسی نے کہا کہ فلیگ شپ سے نواز شریف کو 7 لاکھ 80 ہزار درہم کے فوائد پہنچے، یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر ملک اصغر نے حتمی دلائل دیتے ہوئے کہا کہ کیس میں دستاویزات ملزمان کے پاس تھیں اور وہی دے سکتے ہیں، جائیداد کی ملکیت سے متعلق ملزمان کی پرائیویٹ دستاویزات ہیں۔ ملزمان نے سپریم کورٹ میں ایک منی ٹریل دینے کی کوشش کی۔ منی ٹریل کے دوران قطری شہزادے کا خط بھی منظر عام پر آگیا۔

    ملک اصغر نے کہا کہ ملزمان کی تمام دستاویزات اور مؤقف جائیداد کو درست ثابت نہیں کرتے، سپریم کورٹ میں ملزمان اپنی جائیداد کے ذرائع بتانے میں ناکام رہے۔ سپریم کورٹ نے جے آئی ٹی کے ذریعے ملزمان کو ایک اور موقع دیا تھا۔ یہی سوالات مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو دیے گئے تھے کہ جوابات تلاش کردیں۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سامنے بھی ملزمان ذرائع بتانے میں ناکام رہے، سپریم کورٹ نے فیئر ٹرائل کے تقاضے پورے کیے اور کیس نیب کو بھیجا، اس طرح سپریم کورٹ کی جانب سے ملزمان کو تیسرا موقع دیا گیا۔ نیب نے ملزمان کو بلایا لیکن یہ لوگ پیش ہی نہیں ہوئے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کسی دستاویز سے میاں شریف کا گلف اسٹیل سے تعلق ثابت نہیں ہوتا، شاید قومیانے کے خوف سے 2001 میں بے نامی جائیداد بنائی گئی۔ نواز شریف کی تقاریر سے بے نامی کا مقصد ظاہر ہوتا ہے۔

    گزشتہ سماعت میں فلیگ شپ ریفرنس میں جبل علی فری زون اتھارٹی سے متعلق نیب کی دستاویزات پر جواب دیتے ہوئے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا تھا کہ جافزا دستاویزات قانونی شہادت کے مطابق تصدیق شدہ نہیں، دیکھنا ہوگا کیا ان دستاویزات کو شواہد کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ بیرون ملک سے آنے والی دستاویزات یا تو اصل یا پھرتصدیق شدہ ہوگی، جس ملک سے دستاویزات آئے گی اس ملک کی تصدیق بھی لازم ہے۔ دستاویز کی پھر پاکستانی اتھارٹی بھی تصدیق کرے گی۔ ’پاکستانی قونصل خانہ یا ڈپلومیٹک ایجنٹس اس بات کی تصدیق کرے گا، یہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا تو پھر وہ دستاویز ثابت نہیں ہوگی‘۔

    انہوں نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای کی ملازمت سے متعلق دستاویز صرف ایک خط ہے، ہم کہتے ہیں یہ جعلی اور من گھڑت دستاویزات ہیں۔ ملزم نے شواہد سے متعلق شقوق پر ہی بات کرنا ہوتی ہے۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے ایک مخصوص مدت کے لیے ویزہ لیا یہ تسلیم کرتے ہیں، دستاویز کی حیثیت 161 کے بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔

    جج نے نیب پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ کیا آپ نے تصدیق کے لیے کوشش کی تھی؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم نے ایم ایل اے بھیجا تھا کوئی جواب ہی نہیں آیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ میرا جاننا یہ ہے کہ انہوں نے کوئی ایم ایل اے نہیں بھیجا، نواز شریف کی تنخواہ سے متعلق دستاویزات اسکرین شاٹس ہیں۔ یہ اسکرین شاٹس والی دستاویزات بھی تصدیق شدہ نہیں، ان سکرین شاٹس والی دستاویز پر تو کوئی مہر نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ کہتے ہیں نواز شریف کا تنخواہ لینا بہت بڑا مسئلہ ہے، تنخواہ سے متعلق کسی بینک کی دستاویزات پیش نہیں کی گئیں۔ جے آئی ٹی نے جن دستاویزات پر انحصار کیا اس پر نواز شریف کا نام نہیں۔ جے آئی ٹی ممبران یہاں سے گئے اس کام کے لیے اور وہاں کچھ نہیں کیا۔ کیا انہیں کسی نے وضع کیا تھا کہ ایسا نہ کریں۔

  • احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر نواز شریف کو صحافیوں نے گھیر لیا

    احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر نواز شریف کو صحافیوں نے گھیر لیا

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر ایک اور مشکل میں گھر گئے، سماعت کی کوریج کے لیے آئے صحافیوں نے نواز شریف کو گھیر لیا اور گزشتہ روز ان کے گارڈ کی جانب سےاپنے ساتھی پر تشدد کیے جانے کے خلاف احتجاج شروع کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر اعظم نواز شریف اپنے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کے لیے احتساب عدالت پہنچے تو وہاں موجود صحافیوں نے ان کا گھیراؤ کرلیا۔

    گزشتہ روز نواز شریف کی پارلیمنٹ آمد پر ان کے گارڈ نے 2 کیمرہ مینوں پر تشدد کیا تھا جس سے سما ٹی وی کا کیمرہ مین واجد علی بے ہوش ہوگیا تھا۔

    واقعے کے بعد گزشتہ روز بھی صحافی سراپا احتجاج بن گئے لیکن نواز شریف نظر انداز کر کے چلے گئے، تاہم آج جب نواز شریف احتساب عدالت پہنچے تو صحافیوں نے ان کا گھیراؤ کرلیا۔

    صحافیوں نے ان کی آمد کے موقع پر احتجاج بھی کیا اور ان سے گزشتہ روز کے واقعے پر آن کیمرہ معذرت کرنے کا مطالبہ کیا۔ اس موقع پر صحافیوں کی نواز شریف کے
    سیکیورٹی اسکواڈ اور وکلا سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔

    گزشتہ روز واقعے کے بعد نواز شریف نے صحافی پر تشدد کی مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ واقعے کا سن کر دکھ اور افسوس ہوا۔ علم ہوتے ہی مریم اورنگ زیب اور دیگر ارکان کو اسپتال بھیجا ہے، پارٹی رہنماؤں کو زخمی کیمرا مین کے علاج معالجے کی بھی ہدایت کردی ہے۔

    سابق وزیر اطلاعات اور مسلم لیگ ن کی رہنما مریم اورنگ زیب نے پارلیمنٹ کے باہر احتجاج کرنے والے صحافیوں سے ملاقات میں نواز شریف کے گارڈ کے خلاف مقدمے کے اندراج پر آمادگی کا اظہار بھی کیا تھا۔

    انہوں نے کہا تھا کہ صحافی جو کہیں گے ہمیں قبول ہوگا، مسلم لیگ ن صحافی برادری کے ساتھ ہے، میڈیا کے جو بھی مطالبات ہیں پورے کیے جائیں گے، آلات اور کیمرے وغیرہ کا نقصان ہوا ہو تو اسے پورا کیا جائے گا۔دوسری جانب تشدد کرنے والے گارڈ کو پولیس کے حوالے کردیا گیا تھا۔

    وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا تھا کہ حکومت ختم ہوگئی مگر مغلیہ سوچ ختم نہ ہوئی، میاں صاحب غریبوں کی اور بد دعائیں نہ لیں، کیمرا مین کے زخمی ہونے پر بھی میاں صاحب نے رکنے کی زحمت نہ کی۔

    فواد چوہدری نے صحافیوں سے سوال کیا تھا کہ نواز شریف کے سیکیورٹی گارڈ کے خلاف پرچے کے اندراج میں مدعی کون بنے گا؟ جس پر صحافیوں نے جواب دیا کہ ہم سب مدعی ہیں۔

    ایف آئی آر درج

    پارلیمنٹ کے باہر کیمرہ مین واجد علی شاہ پر تشدد کی ایف آئی آر درج کرلی گئی ہے۔ کیمرہ مین کی درخواست پر نواز شریف کے 3 گارڈز کے نام مقدمے میں شامل ہیں۔

    مقدمت میں دفعہ 506 ٹو اور 355 کے تحت گارڈ شکور اور 2 نامعلوم گارڈز کو شامل کیا گیا ہے۔

    ایف آئی آر کے متن میں صحافی کی طرف سے کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاس کے لیے معمول کی کوریج پر معمور تھا، نواز شریف کی واپسی کی فوٹیج بنانے لگا تو 2 سیکیورٹی گارڈز نے تشدد کیا، نواز شریف کے چیف سیکیورٹی گارڈ کی ہدایت پر گارڈز نے تشدد کیا۔

    ایف آئی آر میں کہا گیا ہے کہ تشدد کے نتیجے میں زخمی ہو کر بے ہوش ہوگیا، ساتھیوں نے اسپتال پہنچایا۔

    وزیر صحت کی عیادت

    وفاقی وزیر صحت عامر کیانی پمز اسپتال پہنچے جہاں انہوں نے زخمی کیمرہ مین کی عیادت کی۔ انہوں نے کیمرہ مین پر تشدد کی مذمت بھی کی۔

  • نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت ہوئی جس میں فریقین کے وکلا کے حتمی دلائل جاری رہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    دوران سماعت فلیگ شپ ریفرنس میں جبل علی فری زون اتھارٹی سے متعلق نیب کی دستاویزات پر جواب دیتے ہوئے نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ جافزا دستاویزات قانونی شہادت کے مطابق تصدیق شدہ نہیں، دیکھنا ہوگا کیا ان دستاویزات کو شواہد کے طور پر لیا جا سکتا ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ بیرون ملک سے آنے والی دستاویزات یا تو اصل یا پھرتصدیق شدہ ہوگی، جس ملک سے دستاویزات آئے گی اس ملک کی تصدیق بھی لازم ہے۔ دستاویز کی پھر پاکستانی اتھارٹی بھی تصدیق کرے گی۔ ’پاکستانی قونصل خانہ یا ڈپلومیٹک ایجنٹس اس بات کی تصدیق کرے گا، یہ طریقہ کار اختیار نہیں کیا گیا تو پھر وہ دستاویز ثابت نہیں ہوگی‘۔

    انہوں نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای کی ملازمت سے متعلق دستاویز صرف ایک خط ہے، ہم کہتے ہیں یہ جعلی اور من گھڑت دستاویزات ہیں۔ ملزم نے شواہد سے متعلق شقوق پر ہی بات کرنا ہوتی ہے۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ نواز شریف نے ایک مخصوص مدت کے لیے ویزہ لیا یہ تسلیم کرتے ہیں، دستاویز کی حیثیت 161 کے بیان سے زیادہ کچھ نہیں۔

    جج نے نیب پراسیکیوٹر سے سوال کیا کہ کیا آپ نے تصدیق کے لیے کوشش کی تھی؟ جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہم نے ایم ایل اے بھیجا تھا کوئی جواب ہی نہیں آیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ میرا جاننا یہ ہے کہ انہوں نے کوئی ایم ایل اے نہیں بھیجا، نواز شریف کی تنخواہ سے متعلق دستاویزات اسکرین شاٹس ہیں۔ یہ اسکرین شاٹس والی دستاویزات بھی تصدیق شدہ نہیں، ان سکرین شاٹس والی دستاویز پر تو کوئی مہر نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ یہ کہتے ہیں نواز شریف کا تنخواہ لینا بہت بڑا مسئلہ ہے، تنخواہ سے متعلق کسی بینک کی دستاویزات پیش نہیں کی گئیں۔ جے آئی ٹی نے جن دستاویزات پر انحصار کیا اس پر نواز شریف کا نام نہیں۔ جے آئی ٹی ممبران یہاں سے گئے اس کام کے لیے اور وہاں کچھ نہیں کیا۔ کیا انہیں کسی نے وضع کیا تھا کہ ایسا نہ کریں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ نواز شریف کا عربی میں نام صرف محمد لکھا تھا۔ جج نے کہا کہ عرب ممالک میں تو ویسے بھی سب کو اسی نام سے پکار رہے ہوتے ہیں۔

    وکیل نے کہا کہ پیشی کے وقت نواز شریف سے کیپٹل ایف زیڈ ای کی ملکیت کا نہیں پوچھا گیا، نواز شریف نے متفرق درخواستوں میں یو اے ای کا ویزہ ظاہر کر رکھا تھا۔ میں صرف دکھانا چاہتا ہوں کہ ہم نے کچھ چھپا نہیں رکھا۔

    گزشتہ سماعت میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا تھا کہ صادق اور امین والے معاملے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ جس بنیاد پر نواز شریف کو نااہل کیا اس کا عدالت سے تعلق نہیں، سپریم کورٹ نے نااہل کیا اور کرمنل کارروائی کا حکم دیا۔

    خواجہ حارث نے کہا تھا کہ فلیگ شپ کی فرد جرم میں کہا گیا کہ بیٹوں کے نام پر بے نامی جائیداد بنائی، فلیگ شپ سرمایہ کاری کے وقت حسن اور حسین نواز بالغ تھے۔ فرد جرم میں کہا گیا حسن نواز 1989 سے 1994 تک زیر کفالت تھے۔

    انہوں نے کہا تھا کہ لکھا ہے 1995 سے 1999 تک حسن نواز کے ذرائع آمدن نہیں تھے۔ فرد جرم بھی نہیں کہہ رہی کہ حسن نواز 1994 کے بعد والد کے زیر کفالت تھے۔ کمپنیوں کے قیام اور نواز شریف کے منسلک ہونے میں 5 سال کا فرق ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ شواہد میں ایسا کچھ نہیں کہ نواز شریف کا تعلق ملازمت سے زیادہ ہو، صرف تفتیشی افسر نے کہا کہ نواز شریف مالک تھے۔

    خواجہ حارث نے فلیگ شپ ریفرنس کے 3 نکات پر العزیزیہ ریفرنس میں بھی اصرار کیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ بے نامی دار، جے آی ٹی اور ایم ایل اے سے متعلق دلائل وہی رہیں گے۔ عدالت العزیزیہ ریفرنس میں دیے گئے دلائل کو فلیگ شپ کا حصہ بنالے۔

    سماعت کے دوران حسن نواز کی برطانیہ میں جائیداد سے متعلق نئی دستاویزات پیش کی گئی تھیں۔ خواجہ حارث نے 3 کمپنیوں کی دستاویزات عدالت کو دکھائیں۔ نواز شریف نے دستاویزات کے لیے برطانوی لینڈ رجسٹری کو درخواست دی تھی۔

  • احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی، وکیل صفائی نے احتساب عدالت کے اس سوال پر کہ ’سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا نواز شریف صادق و امین نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کو ہم کیسے سچا مان لیں؟‘ عدالت کو مطمئن کرنے کی کوشش کی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    سماعت کے آغاز پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ صادق اور امین والے معاملے پر بات کرنا چاہتا ہوں۔ جس بنیاد پر نواز شریف کو نااہل کیا اس کا عدالت سے تعلق نہیں، سپریم کورٹ نے نااہل کیا اور کرمنل کارروائی کا حکم دیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ فلیگ شپ کی فرد جرم میں کہا گیا کہ بیٹوں کے نام پر بے نامی جائیداد بنائی، فلیگ شپ سرمایہ کاری کے وقت حسن اور حسین نواز بالغ تھے۔ فرد جرم میں کہا گیا حسن نواز 1989 سے 1994 تک زیر کفالت تھے۔

    انہوں نے کہا کہ لکھا ہے 1995 سے 1999 تک حسن نواز کے ذرائع آمدن نہیں تھے۔ فرد جرم بھی نہیں کہہ رہی کہ حسن نواز 1994 کے بعد والد کے زیر کفالت تھے۔ کمپنیوں کے قیام اور نواز شریف کے منسلک ہونے میں 5 سال کا فرق ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ شواہد میں ایسا کچھ نہیں کہ نواز شریف کا تعلق ملازمت سے زیادہ ہو، صرف تفتیشی افسر نے کہا کہ نواز شریف مالک تھے۔

    خواجہ حارث نے فلیگ شپ ریفرنس کے 3 نکات پر العزیزیہ ریفرنس میں بھی اصرار کیا۔ انہوں نے کہا کہ بے نامی دار، جے آی ٹی اور ایم ایل اے سے متعلق دلائل وہی رہیں گے۔ عدالت العزیزیہ ریفرنس میں دیے گئے دلائل کو فلیگ شپ کا حصہ بنالے۔

    سماعت کے دوران حسن نواز کی برطانیہ میں جائیداد سے متعلق نئی دستاویزات پیش کی گئیں۔ خواجہ حارث نے 3 کمپنیوں کی دستاویزات عدالت کو دکھائیں۔ نواز شریف نے دستاویزات کے لیے برطانوی لینڈ رجسٹری کو درخواست دی تھی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسن نواز کا کاروبار ہی یہ تھا جائیداد خریدنا اور فروخت کرنا۔ عدالت نے ریفرنسز کی مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    اس سے قبل گزشتہ روز کی سماعت میں جج نے خواجہ حارث سے سوال کیا تھا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا نواز شریف صادق و امین نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کو ہم کیسے سچا مان لیں؟

    العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف کے وکیل نے اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیے تھے جس کے بعد نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر نے جواب الجواب جمع کروایا تھا۔

    سردار مظفر کا کہنا تھا کہ نواز شریف اور ان کے وکیل کا موقف مختلف ہے، نواز شریف نے حسن اور حسین کی پیش دستاویز کو تسلیم کیا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں حسن، حسین کی پیش دستاویزات کو انڈورس کیا۔ عدالت نے نواز شریف سے ان دستاویزات کے حوالے سے سوال کیا۔

    انہوں نے کہا کہ استغاثہ نے عدالت کو مطمئن کرنا ہوتا ہے، استغاثہ نے کیس اسٹیبلش کرنا ہوتا ہے پھر بار ثبوت ملزمان پر ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ثابت کیا نواز شریف کے بیٹے بے نامی دار کے طور پر جائیداد کے مالک ہیں۔ نواز شریف جائیداد کے اصل بے نامی مالک ہیں، استغاثہ نےثابت کیا۔

    نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اثاثوں کی ملکیت کو دوسری جانب سے کبھی بھی رد نہیں کیا گیا۔ ملکیت ثابت ہونے کے بعد ملزم نے اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہوتی ہے۔ وکیل نے دلائل میں کہا کہ 1980 کے معاہدے، خطوط اور دستاویز پر انحصار نہیں کیا۔

    انہوں نے کہا کہ ملزم نے اپنے بیان میں تمام باتوں کو تسلیم کیا، بیانات میں تضاد ہے۔ عدالت میں ثبوت نہیں دیا گیا کہ بچوں نے جائیداد اپنے ذرائع سے لی۔ ہم نے ثابت کیا بچے اپنا کوئی ذرائع آمدن نہیں رکھتے تھے۔

  • العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ آج محفوظ کیے جانے کا امکان

    العزیزیہ ریفرنس کا فیصلہ آج محفوظ کیے جانے کا امکان

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت جاری ہے، ریفرنس کا فیصلہ آج محفوظ کیے جانے کا امکان ہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت جاری ہے۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک کر رہے ہیں۔

    گزشتہ سماعت میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیے تھے۔ نیب پراسیکیوٹر سردار مظفر عباسی جواب الجواب دے رہے ہیں۔

    سردار مظفر کا کہنا ہے کہ نواز شریف اور ان کے وکیل کا موقف مختلف ہے، نواز شریف نے حسن اور حسین کی پیش دستاویز کو تسلیم کیا۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) میں حسن، حسین کی پیش دستاویزات کو انڈورس کیا۔ عدالت نے نواز شریف سے ان دستاویزات کے حوالے سے سوال کیا۔

    انہوں نے کہا کہ استغاثہ نے عدالت کو مطمئن کرنا ہوتا ہے، استغاثہ نے کیس اسٹیبلش کرنا ہوتا ہے پھر بار ثبوت ملزمان پر ہوتا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ثابت کیا نواز شریف کے بیٹے بے نامی دار کے طور پر جائیداد کے مالک ہیں۔ نواز شریف جائیداد کے اصل بے نامی مالک ہیں، استغاثہ نےثابت کیا۔

    نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اثاثوں کی ملکیت کو دوسری جانب سے کبھی بھی رد نہیں کیا گیا۔ ملکیت ثابت ہونے کے بعد ملزم نے اپنی بے گناہی ثابت کرنی ہوتی ہے۔ وکیل نے دلائل میں کہا کہ 1980 کے معاہدے، خطوط اور دستاویز پر انحصار نہیں کیا۔

    انہوں نے کہا کہ ملزم نے اپنے بیان میں تمام باتوں کو تسلیم کیا، بیانات میں تضاد ہے۔ عدالت میں ثبوت نہیں دیا گیا کہ بچوں نے جائیداد اپنے ذرائع سے لی۔ ہم نے ثابت کیا بچے اپنا کوئی ذرائع آمدن نہیں رکھتے تھے۔

    نیب پراسیکیوٹر کے دلائل کے دوران نواز شریف کے وکلا نے بار بار مداخلت کی جس جج برہم ہوگئے۔ انہوں نے کہا کہ آج کا دن نیب کا ہے، نیب نے جو کہنا ہے آج ان کی سنیں گے۔ خواجہ حارث نے جتنے دن دلائل دی ےنیب نے مداخلت نہیں کی۔

    سردار مظفر نے مزید کہا کہ نواز شریف نے تقریر اور خطاب میں خاندان کی ذمہ داری لی۔ نواز شریف نے کہا ٹھوس ثبوتوں کے انبار لگے ہوئے ہیں۔ جو ٹھوس ثبوتوں کے انبار لگے تھے وہ پیش کیوں نہیں کیے گئے۔ اب ثبوت پیش کرنے کا وقت آیا تو کہتے ہیں ہمارا ان سے تعلق نہیں۔ ’اس کو سیاسی تقریر نہیں سمجھا جائے گا‘؟

    انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے کہا دبئی اور جدہ فیکٹریوں سے متعلق سارا ریکارڈ ہے۔ نواز شریف نے تقریر میں یہ نہیں کہا کہ میرا پراپرٹی سے تعلق نہیں، انہوں نے کہا کہ میرا پاناما پیپرز میں نام نہیں۔ ’خواجہ حارث کے حتمی دلائل اور نواز شریف کے بیان میں تضاد ہے‘۔

    نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ملزمان نے خود ایک منی ٹریل بتائی تھی ہم نے اس طرح اثاثے بنائے۔ ملزمان نے جو ذرائع بتائے ہم نے ان کی ہی تفتیش کرنی تھی۔ ہمارا دماغ تو نہیں خراب کہ ہم دوسرے ذرائع ڈھونڈتے، ہم ان ہی کے مؤقف کو لے کر چلے اور وہ غلط ثابت ہوگیا۔

    انہوں نے کہا کہ جلا وطنی کے بعد کاروبار کے لیے ان کے پاس کوئی معلوم ذرائع نہیں تھے۔ پاکستان سے قانونی راستے سے کوئی رقم بیرون ملک نہیں بھیجی گئی۔

    جج نے ریمارکس دیے کہ پھر پاکستان کا کیا مسئلہ ہے پھر تو سعودی عرب کا مسئلہ ہوگیا کہ وہاں کیسے کاروبار بنا۔

    احتساب عدالت کے جج نے خواجہ حارث سے سوال کیا کہ سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا نواز شریف صادق و امین نہیں، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد نواز شریف کو ہم کیسے سچا مان لیں؟ وکیل صفائی کو اس اہم نکتے پر کل عدالت کو مطمئن کرنے کی ہدایت کردی گئی۔

    اس سے قبل نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا تھا کہ حسین نواز کا بیرون ملک کاروبار اور اثاثے پاکستان میں ظاہر نہیں۔ غیر مقیم شہری کی وجہ سے بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنا لازم نہیں۔ استغاثہ نے بھی نہیں کہا کہ حسین نواز کا اثاثے ظاہر نہ کرنا غیر قانونی ہے۔

    انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے نہیں کہا انہیں بچوں کے کاروبار کا پتہ نہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ بچوں کے کاروباری معاملات سے تعلق نہیں۔ کیس یہ ہے کہ ایچ ایم ای اور العزیزیہ کے حوالے سے حسین نواز جوابدہ ہیں۔ دونوں کے حوالے سے نواز شریف سے وضاحت نہیں مانگی جاسکتی۔

    وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سعودی عرب کو لکھے ایم ایل اے کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔ ضمنی ریفرنس میں کہا گیا کہ نواز شریف کے علاوہ بھی 5 افراد کو رقم منتقل ملی، رقم وصول کرنے والے مانتے ہیں ایچ ایم ای سے بھیجی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ نیب کی طرف سے ان افراد کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا۔ نیب کو ان سب سے پوچھنا چاہیئے تھا ان کے شیئر تو نہیں؟ تمام افراد ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے ملازم ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ الدار آڈٹ رپورٹ ہم نے پیش کی نہ ہی اس پر انحصار ہے، نیب نے صرف جے آئی ٹی کی تحقیقات پر انحصار کیا۔

    جج نے کہا کہ حسین اور حسن نواز پیش ہو جاتے تو نیب کا کام کم ہوجاتا، پیشی کی صورت میں نیب کا کام صرف نواز شریف سے کڑی ملانا رہ جاتا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسین اور حسن نواز کا اعترافی بیان نواز شریف کے خلاف استعمال ہو سکتا تھا، حسن اور حسین نواز نے طارق شفیع کا بیان حلفی دفاع میں پیش کیا۔ طارق شفیع کا بیان حلفی میرے خلاف استعمال کرنا ہے تو جرح کا حق دیں۔