Tag: احتساب عدالت

  • احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران وکیل خواجہ حارث نے اپنے حتمی دلائل مکمل کرلیے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    آج کی سماعت میں بھی نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے حتمی دلائل جاری رہے۔

    عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس میں خواجہ حارث سے دستاویزات پر استفسار کیا جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ دستاویزات ابھی موصول نہیں ہوئیں، کچھ تاخیر ہو رہی ہے۔

    اپنے دلائل میں خواجہ حارث نے کہا کہ حسین نواز کا بیرون ملک کاروبار اور اثاثے پاکستان میں ظاہر نہیں۔ غیر مقیم شہری کی وجہ سے بیرون ملک اثاثے ظاہر کرنا لازم نہیں۔ استغاثہ نے بھی نہیں کہا کہ حسین نواز کا اثاثے ظاہر نہ کرنا غیر قانونی ہے۔

    مزید پڑھیں: نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی گزشتہ سماعت

    انہوں نے کہا کہ نواز شریف نے نہیں کہا انہیں بچوں کے کاروبار کا پتہ نہیں۔ نواز شریف نے کہا کہ بچوں کے کاروباری معاملات سے تعلق نہیں۔ کیس یہ ہے کہ ایچ ایم ای اور العزیزیہ کے حوالے سے حسین نواز جوابدہ ہیں۔ دونوں کے حوالے سے نواز شریف سے وضاحت نہیں مانگی جاسکتی۔

    وکیل نے کہا کہ جے آئی ٹی کے سعودی عرب کو لکھے ایم ایل اے کو ریکارڈ کا حصہ نہیں بنایا جاسکتا۔ ضمنی ریفرنس میں کہا گیا کہ نواز شریف کے علاوہ بھی 5 افراد کو رقم منتقل ملی، رقم وصول کرنے والے مانتے ہیں ایچ ایم ای سے بھیجی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ نیب کی طرف سے ان افراد کو شامل تفتیش نہیں کیا گیا۔ نیب کو ان سب سے پوچھنا چاہیئے تھا ان کے شیئر تو نہیں؟ تمام افراد ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ کے ملازم ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ الدار آڈٹ رپورٹ ہم نے پیش کی نہ ہی اس پر انحصار ہے، نیب نے صرف جے آئی ٹی کی تحقیقات پر انحصار کیا۔

    جج نے کہا کہ حسین اور حسن نواز پیش ہو جاتے تو نیب کا کام کم ہوجاتا، پیشی کی صورت میں نیب کا کام صرف نواز شریف سے کڑی ملانا رہ جاتا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ حسین اور حسن نواز کا اعترافی بیان نواز شریف کے خلاف استعمال ہو سکتا تھا، حسن اور حسین نواز نے طارق شفیع کا بیان حلفی دفاع میں پیش کیا۔ طارق شفیع کا بیان حلفی میرے خلاف استعمال کرنا ہے تو جرح کا حق دیں۔

    العزیزیہ ریفرنس میں خواجہ حارث ںے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر کل جواب الجواب دلائل دیں گے۔

    جج نے دریافت کیا کہ خواجہ صاحب نے ایسی کیا نئی بات کی جس پر آپ جواب دینا چاہتے ہیں؟ جس پر سردار مظفر نے کہا کہ صرف کچھ نقاط پر بات کرنا چاہتے ہیں، صرف ایک دن دے دیں یا پھر آدھا دن۔

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

  • خواجہ برادران 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

    خواجہ برادران 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے

    لاہور: پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنماؤں خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کو احتساب عدالت نے 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پر 22 دسمبر تک قومی احتساب بیورو (نیب) کے حوالے کردیا۔

    تفصیلات کے مطابق پاکستان مسلم لیگ ن کے مرکزی رہنما و سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کی احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر سخت سیکیورٹی نافذ رہی۔

    لیگی کارکنان کے احتجاج کے پیش نظر عدالت کو خاردار تاروں سے سیل کردیا گیا جبکہ پولیس کی بھاری نفری بھی طلب کی گئی۔

    سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے اپنے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 40 کنال کی پلاٹنگ نہیں کی جاسکتی مگر سب پر پلاٹ بنادیے گئے، سوسائٹی کی رجسٹریشن جعلی ہے۔

    عدالت نے دریافت کیا کہ سوسائٹی میں عوامی پیسے کا کیا نقصان ہے جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ لوگوں کو ایسی زمین فروخت کی گئی جو ان کے نام پر ہی نہیں۔ پیراگون کے نام پر عوام سے کروڑوں کا فراڈ کیا گیا، پیراگون کے پاس کل زمین 1100 کنال ہے، 7 ہزار کنال نہیں۔

    پراسیکیوٹر نے استدعا کی کہ اربوں کی ٹرانزیکشن اور کمپنی ریکارڈ کی جانچ کے لیے جسمانی ریمانڈ دیا جائے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کیا خواجہ سعد رفیق انکوائری میں پیش ہوتے رہے ہیں جس پر پراسیکیوٹر نے بتایا کہ خواجہ برادران پیش ہوتے رہے ہیں، کیس کا ایک اور ملزم ندیم ضیا مفرور اور قیصر امین بٹ گرفتار ہے۔

    پراسیکیوٹر نے بتایا کہ تمام ریکارڈ ندیم ضیا کے پاس ہے، قیصر امین نے بھی انکشافات کیے۔ سوسائٹی جعلی ہے اور اس کا مکمل ریکارڈ موجود نہیں۔

    عدالت نے کہا کہ جعلسازی کس نے کی پہلے اس کو دیکھا جائے، جس نے پہلا ریکارڈ دیا اس سے باقی بھی لے لیں۔ جہاں سے جعلسازی شروع ہوئی وہاں سے پہلے پوچھنا چاہیئے تھا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سادان ایسوسی ایٹس خواجہ سعد رفیق کی ملکیت ہے، کے ایس آر کمپنی خواجہ سلمان رفیق کی ملکیت ہے۔ خواجہ برادران کی 2 کمپنیوں کے اکاؤنٹس میں 100 ملین آئے۔ رقم پیراگون کی بے نامی کمپنی ایگزیکٹو بلڈر کے اکاؤنٹ سے منتقل ہوئی۔

    انہوں نے کہا کہ شاہد بٹ ان کا پارٹنر ہے جس کا کہنا ہے کہ 4 ارب کی زمین سعد رفیق نے بیچی۔

    نیب نے شاہد بٹ کا بیان بھی عدالت میں پیش کیا جس پر عدالت نے کہا لگتا ہے نیب نے خود لکھا ہے یہ بیان اور سائن شاہد بٹ نے کیے۔ شاہد بٹ کو بلا لیں ہمارے سامنے اپنے بیان کی 2 لائنیں لکھ دے۔

    پراسیکیوٹر نے کہا کہ پیراگون کے خلاف 90 شکایات موصول ہوئیں۔ قیصر امین بٹ کے بیان کی روشنی میں تفتیش کی جانی ہے۔

    خواجہ برادران کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ 6 مارچ کو انکوائری شروع ہوئی تھی، نیب نے بھی مانا کہ دونوں بھائی پیش ہوتے رہے۔ نیب نے جب بلایا اور جو ریکارڈ مانگا فراہم کیا گیا۔ نیب نے جو سوالنامہ بھیجا اس کا تحریری جواب دیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ مشرف دور میں 3 سال تک کرپشن اور اثاثوں کی انکوائری چلتی رہی، 3 سال بعد کہا گیا ثبوت نہیں ملا اور انکوائری پر افسوس کا اظہار بھی کیا گیا۔

    وکیل نے کہا کہ سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کے پاس رجسٹریشن میں ندیم ضیا اور قیصر امین بٹ ہی مالک ہیں، شاہد بٹ اور پیراگون کے درمیان سول مقدمہ بازی چل رہی ہے۔ شاہد بٹ کے ساتھ خواجہ برادران کا کوئی لینا دینا نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ 15 سال سے پیراگون سے کوئی تعلق ثابت نہیں ہوسکا۔ قیصر امین کی پلی بارگین کو وعدہ معاف بنانے سے نظر آتا ہے معاملہ کچھ اور ہے۔

    سماعت کے دوران خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ٹھیک طرح سے ادویات نہیں دی جارہیں، کون گناہ گار کون بے گناہ یہ بعد کی بات ہے مگر غیر انسانی سلوک تو نہ کیا جائے۔

    عدالت نے نیب میں ملزمان کے لیے بنیادی سہولتیں فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ڈی جی نیب سے لکھوا کر لائیں ملزمان کو تمام سہولتیں دی جائیں گی۔

    نیب کی جانب سے ملزمان کے 15 روزہ ریمانڈ کی درخواست کی گئی تاہم عدالت نے صرف 10 روز کا جسمانی ریمانڈ منظور کرتے ہوئے 22 دسمبر تک خواجہ برادران کو نیب کے حوالے کردیا۔

    خواجہ برادران کی گرفتاری

    خیال رہے کہ گزشتہ روز احتساب عدالت نے خواجہ سعد رفیق اور ان کے بھائی سلمان رفیق کی عبوری ضمانت کی درخواست خارج کردی تھی جس کے بعد نیب نے دونوں بھائیوں کو حراست میں لے لیا تھا۔

    خواجہ برادران کو پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل میں گرفتار کیا گیا ہے جبکہ دونوں بھائی پیراگون ہاؤسنگ اسکینڈل سمیت 3 مقدمات میں نیب کو مطلوب تھے۔

    اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ نے دونوں بھائیوں کی عبوری ضمانت منظور کی تھی جس میں کئی بار توسیع کی گئی۔

    گزشتہ روز بھی خواجہ برادران عبوری ضمانت میں مزید توسیع کی درخواست لیے عدالت پہنچے تھے تاہم عدالت نے ان کی استدعا مسترد کردی جس کے بعد دونوں کی گرفتاری عمل میں آئی۔

    یاد رہے کہ آشیانہ ہاؤسنگ سوسائٹی کی تحقیقات میں انکشاف ہوا تھا کہ وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق کے پیراگون سوسائٹی سے براہ راست روابط ہیں، پنجاب لینڈ ڈویلپمنٹ کمپنی کے ذریعے آشیانہ اسکیم لانچ کی گئی تھی۔

    نیب کے مطابق وفاقی وزیر ہوتے ہوئے خواجہ سعد رفیق نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا تھا اور شواہد کو ٹمپر کرنے کی کوشش بھی کی، دونوں بھائیوں نے اپنے ساتھیوں سے مل کر عوام کو دھوکہ دیا اور رقم بٹوری۔

    نیب کا کہنا ہے کہ خواجہ برادران پیراگون ہاؤسنگ سوسائٹی سے فوائد حاصل کرتے رہے، خواجہ برادران کے نام پیراگون میں 40 کنال اراضی موجود ہے۔

    دوسری جانب سابق رکن پنجاب اسمبلی اور پیراگون ہاؤسنگ اسکیم میں خواجہ برادران کے شراکت دار قیصر امین بٹ نے اپنی حراست کے دوران نیب کو بتایا کہ پیراگون سوسائٹی کے کمرشل پلاٹوں کو فروخت کر کے 14 ارب روپے کمائے گئے، سال 2003 میں پیراگون کو ٹی ایم اے سے سعد رفیق نے دباؤ ڈال کر رجسٹرڈ کرالیا۔

    قیصر امین بٹ کے مطابق پیراگون کے کاغذات میں وہ خود اور ندیم ضیا مالک ہیں مگر خواجہ برادران ہی پیراگون سوسائٹی کے اصل مالکان ہیں۔

  • اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے راہداری ریمانڈ میں توسیع

    اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے راہداری ریمانڈ میں توسیع

    لاہور : احتساب عدالت نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کے راہداری ریمانڈ میں توسیع کرتے ہوئے ہدایت کی کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہونے تک شہباز شریف راہداری ریمانڈ پر ہی رہیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج سید نجم الحسن نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کوٹ لکھپت جیل کی درخواست پر سماعت کی، جس میں بتایا گیا کہ شہباز شریف قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے اسلام آباد میں ہیں، اس لیے انہیں ریمانڈ ختم ہونے پر پیش نہیں کیا جاسکتا۔

    درخواست میں استدعا کی گئی کہ شہباز شریف کے راہداری ریمانڈ میں توسیع کی جائے، احتساب عدالت نے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ جیل کی درخواست منظور کر لی اور ہدایت کی کہ اسمبلی کے اجلاس کے اختتام تک شہباز شریف راہداری ریمانڈ پر رہیں گے۔

    احتساب عدالت نے یہ بھی ہدایت کی کہ شہباز شریف کے لاہور واپس آنے پر جیل حکام عدالت کو آگاہ کریں۔

    نیب پراسیکیوٹر وارث جنجوعہ کی جانب سے بھی درخواست پر کوئی اعتراض نہیں اٹھایا گیا اور عدالت سے استدعا کی کہ راہداری ریمانڈ میں توسیع کی جائے۔

    یاد رہے احتساب عدالت نے شہباز شریف کا ایک روزہ راہداری ریمانڈ دیا تھا، جو ختم ہونے کے بعد پولیس نے توسیع کی درخواست دائر کی۔

    واضح رہے اپوزیشن لیڈر شہبازشریف کا ایک روزہ راہداری ریمانڈ منظور کرتے ہوئے لاہور کی احتساب عدالت نے ریمانڈ پر شہباز شریف کو اسلام آباد لے جانے کی اجازت دے دی تھی۔

    جس کے بعد قومی اسمبلی کے اجلاس میں شرکت کے لئے انھیں کوٹ لکھپت جیل لاہور سے اسلام آبادپہنچا دیا گیا تھا اور اسلام آباد میں شہبازشریف کی منسٹرکالونی رہائش گاہ کوسب جیل قراردیا گیا تھا۔

  • اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 19 دسمبر تک ملتوی

    اسحٰق ڈار کے خلاف اثاثہ جات ریفرنس کی سماعت 19 دسمبر تک ملتوی

    اسلام آباد: سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس کی سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ نعیم اللہ پر جرح مکمل کرلی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدنی سے زائد اثاثہ جات کے ضمنی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سماعت میں تینوں شریک ملزمان سعید احمد، نعیم محمود اور منصور رضوی عدالت میں پیش ہوئے۔

    قومی ادارہ احتساب (نیب) نے اسحٰق ڈار کیس میں نیا پراسیکیوٹر تعینات کردیا، سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق کی جگہ افضل قریشی ریفرنس میں پیش ہوں گے، افضل قریشی نیب لاہور میں فرائض انجام دے رہے ہیں اور اس سے قبل سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں بھی نیب کی نمائندگی کر چکے ہیں۔

    سماعت میں استغاثہ کے گواہ نعیم اللہ عدالت کے روبرو پیش ہوئے، گواہ نعیم اللہ کا تعلق نجی بینک سے ہے۔ گواہ نے بینک اکاؤنٹس کی تفصیلات سے عدالت کو آگاہ کیا۔

    مزید پڑھیں: اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنس کی گزشتہ سماعت

    وکیل صفائی کی جانب سے گواہ نعیم اللہ پر جرح مکمل کرلی گئی۔ دوران جرح گواہ نے کہا کہ تفتیش کے دوران پتہ چلا کہ اکاؤنٹ فارم پر دستخط ایک جیسے نہیں تھے، اکاؤنٹ فارم پر ایڈریس بھی غلط لکھا ہوا تھا۔

    گزشتہ سماعت پر نیب پراسیکیوٹر نے اسحٰق ڈار کی اہلیہ تبسم اسحٰق کی جائیداد نیلامی کے خلاف درخواست پر جواب جمع کروایا تھا، درخواست پر جرح آج ہونی تھی تاہم وقت کی کمی کے باعث نہ ہوسکی۔

    احتساب عدالت نے ریفرنس کی مزید سماعت 19 دسمبر تک ملتوی کردی۔

    خیال رہے کہ اس سے قبل اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس سے 36 کروڑ روپے پنجاب حکومت کو منتقل کیے جاچکے ہیں۔ اسحٰق ڈار کے مختلف کمپنیوں کے بینک اکاؤنٹس چند ماہ پہلے منجمد کیے گئے تھے۔

    اس سے قبل بھی عدالت کے حکم پر اسحٰق ڈار کی جائیداد قرقکی جاچکی ہے۔

    اسحٰق ڈار کیس کے تفتیشی افسر نادر عباس کے مطابق اسحٰق ڈار کی موضع ملوٹ اسلام آباد میں واقع 6 ایکڑ اراضی فروخت کی جاچکی ہے، اراضی کیس کی تفتیش شروع ہونے سے پہلے فروخت کی گئی۔

    اسحٰق ڈار کا گلبرگ 3 لاہور میں گھر بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دیا جاچکا ہے جبکہ اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹس میں موجود رقم بھی صوبائی حکومت کی تحویل میں دے دی گئی تھی۔

    تفتیشی افسر کے مطابق اسحٰق ڈار کی گاڑیاں تحویل میں لینے کے لیے ان رہائش گاہ پر کارروائی کی گئی تاہم اسحٰق ڈار کی رہائش گاہ پر گاڑیاں موجود نہیں تھیں۔ گاڑیوں کی تلاش کی کوشش جاری ہے۔

  • احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کے دوران وکیل خواجہ حارث کے حتمی دلائل جاری ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    آج کی سماعت میں بھی نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کے حتمی دلائل جاری رہے۔

    خواجہ حارث نے اپنے دلائل میں کہا کہ الدار آڈٹ کے بعد حسین نواز پہلی مرتبہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سامنے پیش ہوئے، الدار رپورٹ ناکافی دستاویزات ہیں۔ 30 مئی 2017 کو حسین نواز جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے۔

    مزید پڑھیں: نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی گزشتہ سماعت

    انہوں نے کہا کہ کیس میں حسین نواز 5 مرتبہ جے آئی ٹی کے سامنے پیش ہوئے، جے آئی ٹی نے حسین نواز کو ہل میٹل کی ادائیگیوں کی تفصیلات لانے کو کہا۔ استغاثہ نے اتنی کوشش نہیں کی کہ الدار رپورٹ کی باضابطہ تصدیق کرواتے۔

    وکیل نے کہا کہ جن دستاویزات کی بنیاد پر رپورٹ تیار ہوئی وہ حاصل نہیں کیے گئے، الدار آڈٹ سے کسی تصدیق کے لیے جے آئی ٹی نے رابطہ ہی نہیں کیا۔ استغاثہ سے پوچھیں ہل میٹل سے متعلق انہوں نے کیا تفتیش کی؟ ہل میٹل کتنے میں بنی، باقی تفصیلات اب بھی انہیں معلوم نہیں۔

    جج ارشد ملک نے دریافت کیا کہ نواز شریف نے کہیں اور یہ مؤقف اپنایا کہ العزیزیہ سے تعلق نہیں؟ خواجہ حارث نے کہا کہ سی ایم اے 7244 میں نواز شریف نے یہ مؤقف اپنایا ہے، نواز شریف نے کہیں بھی یہ مؤقف نہیں لیا کہ ان کی جائیداد ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے تحقیق نہیں کی کہ العزیزیہ کا منافع عباس شریف کو منتقل ہوا۔ تحقیق نہیں کی گئی العزیزیہ کی فروخت کے بعد حاصل رقم تقسیم ہوئی۔ جے آئی ٹی کا اخذ کردہ نتیجہ قابل قبول شہادت نہیں۔

    اپنے دلائل میں انہوں نے کہا کہ حسین نواز، نواز شریف کے زیر کفالت نہیں تھے۔ طارق شفیع میاں شریف کے بے نامی دار تھے۔ گلف اسٹیل ملز کے 75 فیصد شیئرز فروخت کیے، گلف اسٹیل ملز کا نام بدل کر اہلی اسٹیل ملز کردیا۔

    انہوں نے مزید بتایا کہ نواز شریف نے کاروبار میں حصہ نہیں لیا، کاروبار میاں محمد شریف چلاتے تھے، نوازشریف کا تعلق نہیں تھا۔ نواز شریف گلف اسٹیل سے متعلق کسی ٹرانزکشن کا حصہ نہیں رہے۔ میاں محمد شریف، حسین، حسن اور دیگر پوتوں کو رقم فراہم کرتے تھے۔

  • رینٹل پاور کیس، راجہ پرویز اشرف کے خلاف منیجر وعدہ معاف گواہ بن گئے

    رینٹل پاور کیس، راجہ پرویز اشرف کے خلاف منیجر وعدہ معاف گواہ بن گئے

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کی مشکلات بڑھ گئی ہیں، سابق وزیر اعظم کے خلاف رینٹل پاور منیجر وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق رینٹل پاور کیس کے مقدمے میں سابق وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے خلاف منیجر وعدہ معاف گواہ بن گئے ہیں جبکہ نیب نے راجہ پرویز اشرف کے خلاف ضمنی ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔

    نیب نے احتساب عدالت میں رانا امجد کو گواہوں کی فہرست میں شامل کرنے کی درخواست کی اور کہا کہ رانا امجد کو ملزموں کی فہرست سے نکال کر گواہوں میں فہرست میں شامل کیا جائے۔

    مزید پڑھیں: ہمارے ہاتھ صاف ہیں‘امید ہےعدالت سے انصاف ملے گا‘ راجہ پرویز اشرف

    عدالت نے نیب کی درخواست منظور کرلی، عدالت نے نیب کو آئندہ سماعت تک ضمنی ریفرنس دائر کرنے کی ہدایت بھی کی۔

    واضح رہے کہ رانا امجد اس مقدمے کے ملزمان میں شامل تھے اور وعدہ معاف گوا بننے کے بعد اب وہ استغاثہ کے گواہ بن گئے ہیں۔

    یاد رہے کہ رینٹل پاور کیس میں پیپلزپارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف سمیت دیگر ملزمان پر سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے دور میں کرپشن اور عہدے کا غلط استعمال کرنے کا الزام ہے۔

    راجہ پرویز اشرف نے بطور وزیر برائے پانی و بجلی کرائے کے بجلی گھروں کے منصوبوں کی منظوری دی تھی جس سے قومی خزانے کو اربوں روپے کا نقصان پہنچا تھا۔

  • احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کے دوران وکیل خواجہ حارث نے حتمی دلائل دیے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے ریفرنس پر حتمی دلائل دیے۔ عدالت میں مسلم لیگ ن کے رہنما طارق فضل چوہدری، طلال چوہدری، چوہدری تنویر، طارق فاطمی اور مریم اورنگزیب بھی موجود تھے۔

    اپنے دلائل میں خواجہ حارث نے کہا کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیا کا اخذ کیا گیا نتیجہ قابل قبول شہادت نہیں۔ حسن اور حسین نواز کا بیان یا دستاویز نواز شریف کے خلاف استعمال نہیں ہو سکتا۔

    انہوں نے کہا کہ طارق شفیع کے بیان حلفی کو بھی ہمارے خلاف استعمال کیا گیا، طارق شفیع بھی اس عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔

    جج نے استفسار کیا کہ آپ کا مؤقف ہے طارق شفیع نے بابا جی کی طرف سے سرمایہ کاری کی، اب آپ کہتے ہیں طارق شفیع کی کوئی چیز استعمال ہی نہیں ہو سکتی۔ طارق شفیع والے سارے معاملے کو نظر انداز کردیں؟

    جج نے پوچھا کہ آپ کے مؤقف میں بنیادی انحصار ہی طارق شفیع پر تھا، آپ واضح طور پر کوئی ایک مؤقف اپنائیں، العزیزیہ اسٹیل مل کے حوالے سے قانونی نکات پر دلائل دیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ استغاثہ کا کیس ہے جتنے لوگوں کو پیسے آئے وہ نواز شریف سے جڑے تھے، الدار رپورٹ میں موجود انٹریز کافی نہیں، ریکارڈ فراہم نہیں کیا گیا۔ کہا گیا کہ نواز شریف نے رقم مریم نواز کو تحفے کے طور پر دی۔ مریم نواز اس کیس کی کارروائی میں شریک نہیں۔

    انہوں نے مزید کہا کہ استغاثہ کا کیس ہے 88 فیصد منافع نواز شریف کو منتقل ہوا وہ اصل مالک ہیں، استغاثہ یہ بھی کہتا ہے کہ رقم کا بڑا حصہ نواز شریف نے مریم کو تحفے میں دیا، اس حوالے سے دیکھا جائے تو سب سے زیادہ بینفشری مریم نواز ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ حسین نواز کو بے نامی دار ثابت کرنے سے پہلے استغاثہ کو اصل مالک ثابت کرنا تھا۔ حسین نواز مانتے ہیں انہوں نے والد کو تحفے میں رقم دی، نواز شریف کا بھی یہی مؤقف ہے انہیں بیٹے نے رقم تحفے میں دی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جب تحفہ دینے اور لینے والا تسلیم کر رہے ہوں تو کوئی اسے چیلنج نہیں کرسکتا، فنانس ایکسپرٹ کو پیش کر کے تاثر دینے کی کوشش کی گئی کچھ خاص ہوا۔ ایک طرف سے رقم آرہی ہے دوسری طرف موصول، اس میں کیسی ایکسپرٹی؟

    نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی مزید سماعت کل صبح تک ملتوی کردی گئی۔

  • احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کے دوران خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی ممبران نہ تو یو اے ای وزرات خارجہ گئے نہ پاکستانی قونصل خانے، جے آئی ٹی نے کہا کہ وہاں کی عدالت سے معاہدے کا ریکارڈ نہیں ملا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج ارشد ملک نے کی۔

    سماعت میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ جن دستاویزات پر عرب امارات کے حکام کو ایم ایل اے لکھا گیا وہ سامنے نہیں۔ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ واجد ضیا نے کہا کہ 12 ملین درہم کی کوئی ٹرانزیکشن نہیں ہوئی۔

    جج نے دریافت کیا کہ گلف اسٹیل کے ذمے واجب الادا رقم کیسے ادا ہوئی؟ کیا واجب الادا رقم بینک نے ادا کرنا تھی؟ کوئی بینک گارنٹی تھی؟

    خواجہ حارث نے کہا کہ فرض کرلیتے ہیں واجب الادا رقم کی ادائیگی کے لیے کوئی بینک گارنٹی تھی، جب واجد ضیا نے ادائیگی کا ذکر کیا تو گارنٹی سے متعلق معلومات نہیں تھیں۔

    مزید پڑھیں: نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی گزشتہ سماعت

    جج نے کہا کہ معمول کی پریکٹس تو یہی ہے کہ نئے قرض کے لیے پہلا ادا کرنا پڑتا ہے۔ طارق شفیع نے بھی نئے قرض سے پہلے پرانا قرض واپس کیا ہوگا؟

    خواجہ حارث نے کہا کہ ہم فرض کرلیتے ہیں کہ قرض تھا ہی نہیں یا واپس کر دیا تھا۔ جے آئی ٹی نے عبد اللہ آہلی کو شامل تفتیش کرنے سے گریز کیا، جے آئی ٹی نے 25 فیصد شیئرز کی فروخت کے گواہوں کا بیان نہیں لیا۔ جھوٹ بولا گیا کہ معاہدے کے گواہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی ممبران نہ تو یو اے ای وزرات خارجہ گئے نہ پاکستانی قونصل خانے، سنہ 1980 کے معاہدے کے پیچھے یو اے ای وزارت خارجہ کی مہر
    موجود ہے۔ جے آئی ٹی نے کہا کہ وہاں کی عدالت سے معاہدے کا ریکارڈ نہیں ملا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیا نے جھوٹ بولا کہ محمد حسین کے بچوں سے رابطے کی کوشش کی، واجد ضیا کے مطابق شہزاد حسین لندن میں رہتے ہیں لیکن پتہ نہیں مل سکا۔

    جج نے استفسار کیا کہ مجھے نہیں سمجھ آ رہا ان باتوں کا اس کیس سے کیا تعلق بنتا ہے؟ خواجہ حارث نے کہا کہ جے آئی ٹی نے 75 فیصد شیئرز کی فروخت سے متعلق تحقیقات نہیں کیں۔ ایم ایل اے کا جواب آنے کے بعد جے آئی ٹی نے کہا یہ کہانی ختم ہوگئی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ گلف اسٹیل مل کی فروخت سے متعلق شکوک و شبہات کی کوشش کی گئی۔

    جج نے کہا کہ اس بات کا کوئی ثبوت ہی نہیں کہ طارق شفیع میاں شریف کے بے نامی تھے۔ جے آئی ٹی بھی مانتی ہے، باقی بھی سب طارق شفیع کو بے نامی کہتے ہیں۔ کوئی ایسی چیز ریکارڈ پر نہیں کہ میاں شریف نے کہا طارق شفیع بے نامی تھے۔

    العزیزیہ ریفرنس کی مزید سماعت پیر کی صبح تک ملتوی کردی گئی۔ پیر کو بھی خواجہ حارث حتمی دلائل جاری رکھیں گے۔

  • آشیانہ اسکینڈل کیس، شہبازشریف کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوانے کا حکم

    آشیانہ اسکینڈل کیس، شہبازشریف کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھجوانے کا حکم

    لاہور : احتساب عدالت نے آشیانہ اسکینڈل میں گرفتار شہباز شریف کو 13 دسمبر تک جیل بھجوادیا اور نیب کی مزید جسمانی ریمانڈکی استدعا مستردکردی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں شہبازشریف کیخلاف آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکینڈل کیس کی سماعت ہوئی ، قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے جسمانی ریمانڈ ختم ہونے پر اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو عدالت میں پیش کیا گیا، احتساب عدالت کے جج نجم الحسن نے سماعت کی۔

    شہبازشریف کو آج ساتویں بار لاہور کی احتساب عدالت لایا گیا تھا، اس موقع پر عدالت کے اطراف سیکیورٹی الرٹ ہے اور پولیس کی بھاری نفری تعینات ہے جبکہ کسی ہنگامی صورتحال کے پیش نظر رینجرز کےجوان بھی موجود ہیں۔

    سماعت میں وکیل نیب نے بتایا منصور انور نامی شخص رقوم شہباز شریف کے اکاؤنٹ میں جمع کراتا رہا، منصور انور شہباز شریف کا خاندانی ملازم ہے اس نے 55.4 ملین اکاؤنٹ میں جمع کرائے، رقوم 14-2013میں آشیانہ کا ٹھیکہ منسوخ ہونے کے دوران جمع کرائی گئیں۔

    نیب کے وکیل کا کہنا تھا کہ زمین بیچ کر 20کروڑ ملے، جن کے تحائف دیے گئے ، صرف 2کروڑ 20 لاکھ کی دستاویز دیں، باقی 5 کروڑ 5 لاکھ کا ثبوت نہیں دیا گیا، ملک مقصود کے اکاؤنٹ میں بھی ساڑھے3 ارب جمع کرائےگئے، ملک مقصود نے جو پتہ لکھوایا وہ شہباز شریف کا ہے اور شہبازشریف کے ملازم کی جانب سے دونوں اکاؤنٹس میں رقوم مشکوک ہیں۔

    وکیل شہباز شریف نے کہا 2011 میں 9کروڑ 30 لاکھ والد نے تحفہ کیے، وہ کہتے ہیں وہ ٹیکس ریٹرن میں نہیں دکھائے گئے ، نیب جان بوجھ کر عدالت میں غلط بیانی کررہا ہے ، نیب نے اب کہانی میں مزید 2کردار شامل کر لیےہیں، کسی کے اکاؤنٹ میں رقوم جمع ہونا قانون کے تحت جرم نہیں۔

    شہبازشریف کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ بچوں کو جو تحفے دیے رقوم اکاونٹ میں جمع ہوئیں وہ قانونی ہیں، منصور انور کا نام جان بوجھ کر آج عدالت میں بتایا گیا ، منصورانور کا نام پہلے دن سے نیب کے علم میں ہے۔

    عدالت نے نیب سے استفسار کیا بتایا جائے یہ مقصود انور کون ہے ؟ وکیل نیب نے بتایا مقصود انور شریف خاندان کا ملازم ہے، جس پر وکیل شہباز شریف نے کہا مقصود انور رمضان شوگر ملز کا اکاؤنٹنٹ ہے، جو جرم نہیں ، ملک مقصود کا جو ایڈریس ہے، وہ شہباز شریف کا نہیں۔

    نیب وکیل نے مزید ریمانڈ کی استدعا کی جبکہ وکیل صفائی نے ریمانڈ کی مخالفت کی، وکیل صفائی کا دلائل میں کہنا تھا تمام لین دین ریکارڈ پر ہے، شہباز شریف کے بچے تمام کاروبار دیکھتے ہیں،رمضان شوگرملز سے بھی ان کے موکل کا کوئی تعلق نہیں، مزید ریمانڈ نہ دیا جائے

    عدالت نےفریقین کے دلائل سننے کے بعد نیب کی جانب سے شہباز شریف کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کرتے ہوئے ملزم کو تیرہ دسمبر تک جیل بھجوادیا۔

    شہباز شریف کی پیشی، ن لیگی کارکنان کی ہنگامہ آرائی


    اس سے قبل شہباز شریف کی پیشی کے موقع پر احتساب عدالت کے باہر ن لیگی کارکنان نے پولیس اہلکاروں کو دھکے دیئے اورنعرےلگائے اور احتساب عدالت میں گھسنےکی کوشش کی۔

    پولیس کی جانب سے ن لیگی کارکنان کوعدالت میں جانےسےروکنے  کے لیے لاٹھی چارج کیا گیا جبکہ  متعددن لیگی کارکنان کوحراست میں لےلیا گیا ہے۔

    گذشتہ سماعت میں احتساب عدالت نے اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف کے جسمانی ریمانڈ میں 6 دسمبر تک توسیع کی تھی، نیب وکیل نے انکشاف کیا کہ شہباز شریف نے چھ کروڑ کے تحائف قریبی عزیزوں کو دیے جبکہ ان کی آمدن ڈھائی کروڑ تھی۔

    مزید پڑھیں : آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل، شہبازشریف کے جسمانی ریمانڈمیں 6 دسمبرتک توسیع

    واضح رہے نیب لاہور نے5 اکتوبر کو شہبازشریف کو صاف پانی کیس میں طلب کیا تھا تاہم ان کی پیشی پر انہیں آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    اگلے روز شہبازشریف کو احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں انہیں 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پرنیب کے حوالے کردیا گیا تھا۔

    جس کے بعد 16 اکتوبر کو ریمانڈ ختم ہونے پر پیش کیا گیا تو احتساب عدالت نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل کیس میں گرفتار مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف کے جسمانی ریمانڈ میں 30 اکتوبرتک توسیع کردی تھی۔

    ریمانڈ ختم ہونے پر شہبازشریف کو 29 اکتوبر کو عدالت میں پیش کیا گیا تو (نیب) نے آشیانہ اسکینڈل کیس کے ملزم اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے مزید 15 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی ، جس پر عدالت نے ان کے ریمانڈ میں مزید توسیع کردی تھی۔

  • العزیزیہ ریفرنس: نوازشریف نے کبھی قطری خطوط پرانحصارنہیں کیا‘ خواجہ حارث

    العزیزیہ ریفرنس: نوازشریف نے کبھی قطری خطوط پرانحصارنہیں کیا‘ خواجہ حارث

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز پرسماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز پرسماعت کررہے ہیں۔

    سابق وزیراعظم آج دوپہر دو بجے عدالت پہنچیں گے جبکہ معاون وکیل زبیر خالد 342 کا بیان جمع کرائیں گے۔ نواز شریف فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنس میں اپنے بیان پر دستخط کریں گے۔

    العزیزیہ ریفرنس : خواجہ حارث کے حتمی دلائل


    احتساب عدالت میں سماعت کے دوران سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ العزیزیہ اسٹیل مل کی ملکیت پرسوال اٹھایا گیا، نوازشریف کوبے نامی دارمالک کہا گیا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ استغاثہ بے نامی دارسے متعلق ٹھوس شواہد پیش کرنے میں ناکام رہا، العزیزیہ اسٹیل ملز2001 میں قائم ہوئی، حسین نواز29 برس کے تھے۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ بیٹے کے نوازشریف کے زیرکفالت ہونے سے متعلق ثبوت پیش نہیں کیا گیا، نیب کا کیس ہے نواز شریف نے بے نامی کے طورپرجائیدادیں بنائیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ بے نامی ٹرانزیکشن سے متعلق استغاثہ کوئی ثبوت نہ لاسکا، بیٹے نے ہل میٹل کی رقوم نوازشریف کو بھیجیں، صرف اس بات سے بے نامی کے تمام اجزا پورے نہیں ہوتے۔

    انہوں نے کہا کہ العزیزیہ سے کوئی رقوم نوازشریف کو نہیں بھیجی گئیں، نوازشریف کا پہلے دن سے ایک ہی مؤقف رہا، ہل میٹل کی رقوم سے متعلق جے آئی ٹی نے کوئی تحقیقات نہیں کیں۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ نوازشریف کوبے نامی مالک کہہ دیا گیا لیکن شواہد پیش نہیں کیے گئے، العزیزیہ اسٹیل کے قیام کے وقت نوازشریف کے پاس عوامی عہدہ نہیں تھا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ سوال یہ ہے قانون کے مطابق بے نامی کی تعریف کیا ہے؟، قانون کے مطابق بےنامی وہ ہوتا ہے جو کسی اورکی جائیداد اپنے پاس رکھے۔

    انہوں نے کہا کہ تعریف کے مطابق جائیداد کی ملکیت کسی اورکے پاس ثابت ہونا ضروری ہے، جائیداد کی ملکیت کا تعلق ملزم سے ثابت ہونا ضروری ہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ ملزم کوصرف اس جائیداد سے کوئی فائدہ ملنا اسے مالک نہیں بنا دیتا، کہا گیا کہ گلف اسٹیل کا معاہدہ جعلی نکلا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف نے کبھی گلف اسٹیل کی فروخت پرانحصارنہیں کیا، نوازشریف کے پاس توگلف اسٹیل کی براہ راست معلومات نہیں تھی۔

    انہوں نے کہا کہ جےآئی ٹی نے خود اپنی رپورٹ میں لکھا گلف اسٹیل سے متعلق سنی سنائی باتیں ہیں، قطری خطوط کے بارے میں کہا گیا ان کی کوئی حقیقت نہیں۔

    سابق وزیراعظم کے وکیل نے کہا کہ نوازشریف نے خود تو کبھی قطری خطوط پرانحصارنہیں کیا، احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیے کہ آپ کا نقطہ ہے کہ قطری خطوط صرف حسین نواز کا موقف تھے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جی قطری خطوط صرف حسین نوازکی جانب سے ہی تھے، شواہد کےمطابق العزیزیہ کے 3 شیئرہولڈرز تھے۔

    احتساب عدالت میں گزشتہ روز نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نیب پراسیکیوٹر نے حتمی دلائل مکمل کرلیے تھے۔

    العزیزیہ ریفرنس میں نیب پراسیکیوشن کے دلائل مکمل


    معزز جج محمد ارشد ملک کا کہنا تھا کہ العزیزیہ کی دستاویزات کیوں پیش نہیں کیں، سپریم کورٹ نے طلب کی تھیں تو وہاں دستاویزات پیش کردیتے، اس سوال کا جواب دینا ہوگا۔

    احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیے تھے کہ العزیزیہ کے قیام کی وضاحت آگئی تو ہل میٹل کا معاملہ خود حل ہوجائے گا۔