Tag: احتساب عدالت

  • العزیزیہ ریفرنس میں نیب پراسیکیوشن کے دلائل مکمل

    العزیزیہ ریفرنس میں نیب پراسیکیوشن کے دلائل مکمل

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوئی، العزیزیہ ریفرنس میں نیب پراسیکیوشن نے اپنے دلائل مکمل کرلیے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کی۔

    نواز شریف آج احتساب عدالت میں پیش نہیں ہوئے۔ ان کے وکیل زبیر خالد نے کہا کہ نواز شریف کے گھٹنے میں تکلیف ہے۔ وکیل کی جانب سے نواز شریف کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کردی گئی۔

    وکیل نے کہا کہ فلیگ شپ میں 342 کے بیان میں جوابات مکمل ہوگئے ہیں۔ جوابات آپ کو یو ایس بی میں فراہم کر دیتے ہیں۔

    وکیل کی استدعا پر العزیزیہ ریفرنس میں نیب پراسیکیوٹر واثق ملک کے حتمی دلائل شروع کردیے گئے۔

    اپنے دلائل میں پراسیکیوٹر نیب واثق ملک نے بتایا کہ نواز شریف کے اکاؤنٹس میں کروڑوں روپے آئے، ادائیگی تسلیم اور ثابت شدہ ہے۔ ملزم نواز شریف کے مطابق رقوم تحفے کی شکل میں ملی تاہم ملزم نے عدالت میں تحفے سے متعلق کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

    مزید پڑھیں: نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی گزشتہ سماعت

    نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے ہل میٹل کا 88 فیصد منافع نواز شریف کو ملا۔ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ٹوٹل 97 فیصد رقم پاکستان آئی۔

    انہوں نے بتایا کہ گواہ آفاق احمد کا ڈائریکٹر آف فارن افیئرز سے تعلق ہے۔ آفاق احمد نے سیل لفافہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کو فراہم کیا۔ لفافے میں قطری شہزادے کا خط موجود تھا۔ گواہ محمد علی نے محمد انیس کا بینک اوپننگ فارم اور بینکنگ ریکارڈ پیش کیا۔

    واثق ملک کا کہنا تھا کہ محمد انیس کے اکاؤنٹ سے ظاہر ہوتا ہے انہیں ہل میٹل سے رقوم آئیں۔ محمد انیس کو 1997 سے 2010 کے درمیان 1 کروڑ 19 لاکھ رقم آئی۔ محمد انیس ہل میٹل کے ملازم بھی ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ گواہ عرفان محمد نے محمد حنیف خان کا بینکنگ ریکارڈ پیش کیا۔ محمد حنیف کو 2009 سے 2015 کے درمیان 51.093 ملین اکاؤنٹس میں آئے۔ محمد حنیف رمضان شوگر مل میں ملازم ہیں۔

    واثق ملک کے مطابق گواہ محمد اکرام نے انجم اقبال کا بینک ریکارڈ پیش کیا۔ انجم اقبال کو 2013 سے 2017 کے دوران 173.3 ملین رقم آئی۔ انجم اقبال ہل میٹل کے ملازم ہیں۔

    پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ سپریم کورٹ میں پیش قطری شہزادے کے پہلے اور دوسرے خط میں تضاد ہے، پہلے خط میں تھا ایک کروڑ 20 لاکھ درہم کے عوض ایون فیلڈ فلیٹس دیے گئے، دوسرے خط کے ساتھ ورک شیٹ لگائی گئی، لکھا گیا منظوری کے بعد فلیٹس دیے۔

    جج نے استفسار کیا کہ آپ کیوں کہتے ہیں قطری خطوط میں بیان کی گئی بات غلط ہے جس پر پراسیکیوٹر نے کہا کہ قطری ملزمان کا گواہ ہے لیکن انہوں نے اسے پیش ہی نہیں کیا۔ قطری کا بیان قلمبند کرنے کی کوشش کی لیکن وہ پاکستان نہیں آیا۔

    جج نے استفسار کیا کہ العزیزیہ اسٹیل مل کے کسی ریکارڈ میں میاں محمد شریف کا نام ہے؟ کیا کوئی ریکارڈ ہوتا ہی نہیں کہ مل کہاں لگی اور کس نے لگائی؟

    پراسیکیوٹر نے کہا کہ العزیزیہ کی کسی بھی دستاویز میں میاں محمد شریف کا نام نہیں۔ العزیزیہ اسٹیل کی فروخت کے معاہدے میں حسین نواز کا نام ہے۔ حسین نواز کا کہنا ہے مل کی فروخت سے حاصل رقم سے ایچ ایم ای لگائی۔

    انہوں نے کہا کہ کومبر کو پیسے بھجوانے کا کوئی ریکارڈ پیش نہیں کیا گیا، کومبر سے دیگر کمپنیوں کو بھجوائی گئی رقوم کا ریکارڈ پیش کیا گیا۔ ’ظلم تو ملزمان نے ریاست کے ساتھ کیا، بغل میں ریکارڈ رکھ کر بیٹھے رہے اور کہتے رہے یہ ڈھونڈیں۔ العزیزیہ کے قیام کی وضاحت نہیں کی گئی، ریکارڈ جان بوجھ کر چھپایا‘۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ حسین اور حسن نواز اشتہاری ڈکلیئر ہو گئے لیکن عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ’یہ بات سچ ہے سرمایہ دادا نے دیا تو حسین اور حسن نوازپیش ہو کر ثابت کرتے۔ سب حسن اور حسین نواز پر منتقل کردینا اور ان کا یہاں سے بھاگ جانا، ملزم نواز شریف ٹیکنیکلٹی کے پیچھے چھپنا چاہ رہے ہیں‘۔

    نیب پراسیکیوٹر نے مزید کہا کہ نواز شریف کہتے ہیں کہ میرے بیٹے نے مجھے تحفے کے طور پر رقم دی، حسین نواز نے جو پیسے بھیجے اس میں یہ نہیں کہا کہ یہ تحفہ ہے، پیسے بھیجنے کا مقصد سرمایہ کاری ظاہر کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ جلا وطنی میں سعودی عرب میں نواز شریف کو شاہی مہمان کہا گیا نہ میاں شریف کو، سعودی عرب پہنچتے ہی 4 ماہ میں العزیزیہ نے آپریشن شروع کردیا۔ العزیزیہ کا اتنا بڑا سیٹ اپ تھا کوئی دکان تو نہیں تھی جو کام شروع ہوگیا۔ یہ سارے عناصر ہیں جو وائٹ کالر کرائم میں آتے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ ملزمان ریکارڈ پیش کر دیتے جس سے ظاہر ہو حسن اور حسین دادا کے زیر کفالت تھے، مزمان کی متفرق درخواست میں میاں محمد شریف کی وصیت کا ذکر ہے، ملزمان کے مطابق وصیت تھی سرمایہ کاری سے حاصل رقم حسین نواز کو دی جائے۔ قطری کے خطوط میں تو میاں شریف کی نہ وش کا ذکر ہے نہ ول ہے۔

    العزیزیہ ریفرنس میں نیب پراسیکیوشن کے دلائل مکمل ہوگئے جس کے بعد احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل ریفرنس کی سماعت کل صبح تک ملتوی کردی گئی۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث کل اپنے دلائل کا آغاز کریں گے۔

  • احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی

    احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف ریفرنسز کی سماعت پیر تک ملتوی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں معزز جج محمد ارشد ملک نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کی۔

    احتساب عدالت میں پراسیکیوٹر نیب واثق ملک کے دلائل شروع ہوتے ہی نوازشریف روسٹرم پر آگئے، انہوں نے کہا کہ وکیل صاحب کیا کہنا چاہ رہے ہیں میں سننا چاہتا ہوں۔

    نیب پراسیکیوٹر کے حتمی دلائل


    نیب پراسیکیوٹر نے سماعت کے آغاز پر کہا کہ قطری خط سے متعلق بات کروں گا، قطری نے لکھا پاکستانی قانون کے مطابق شامل تفتیش نہیں ہوں گا، قطری نے لکھا کسی عدالت میں پیش نہیں ہوں گا۔

    واثق ملک نے کہا کہ 1980 کے معاہدے پرواجد ضیاء کا بیان پڑھوں گا، معزز جج نے استفسار کیا کہ ریکارڈ میں طارق شفیع نے 6 ملین نہیں لکھا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ نہیں ریکارڈ میں 7 ملین لکھا ہوا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ قطری نے پاکستان آنے، بیان ریکارڈ کرانے سے انکار کیا تھا، نوازشریف نے کہا کہ اصل میں بات اور ہے، کسی اوراندازمیں پیش کی جا رہی ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ میرے حتمی دلائل جاری ہیں، جب آپ کی باری آئے تو بات کرلیں، عدالت نے نواز شریف کو وضاحت سے روک دیا، معزز جج محمد ارشد ملک نے کہا کہ خواجہ حارث عدالت کو بتا دیں گے۔

    واثق ملک نے کہا کہ 2001 میں حسین نوازنے اپنے دادا کے تعاون سے کاروبار شروع کیا، 2006 میں العزیزیہ اسٹیل مل کو فروخت بھی کردیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ2001 میں العزیزیہ اسٹیل بنائی گئی توان کے پاکستان میں کاروبارسے مدد نہیں ملی، حسین نوازکے مطابق العزیزیہ کے لیے دبئی سے مشینری لائی گئی۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ایم ایل اے کے جواب کو ایک طرف رکھ دیں، جواب ایک طرف رکھیں تو بھی ملزمان کے بیان میں کئی تضاد ہیں۔

    واثق ملک نے کہا کہ حسین نواز کےانٹرویوز، سپریم کورٹ میں مؤقف میں تضاد ہے، انٹرویو میں کہا سعودی بینکوں سے قرض لے کر العزیزیہ بنائی، العزیزیہ کے لیے لیے گئے قرض کی تفصیلات فراہم نہیں کی گئیں۔

    انہوں نے کہا کہ قطری خط کے ساتھ پیش کی گئی ورک شیٹ کا سپورٹنگ ریکارڈ نہیں، ورک شیٹ صرف منی ٹریل کے خلا کو پُرکرنے کے لیے تیار کی گئی۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزمان نے کہا تھا کہ ہم خود کواحتساب کے لیے پیش کرتے ہیں، ملزمان نے خود کواحتساب کے لیے پیش کرنے کا کہہ کردستاویزات جمع کرائیں۔

    واثق ملک نے کہا کہ جب تفتیش ہوئی توپتہ چلاکہ ملزمان کی ساری دستاویزات جعلی تھی، نوازشریف، حسن اورحسین نوازدستاویزات سے خود کوالگ نہیں کرسکتے۔

    انہوں نے کہا کہ آلدارآڈٹ کی دونوں رپورٹس خود حسین نوازنے پیش کیں، ملزمان نے رپورٹ میں لگی کسی بھی دستاویزکوچیلنج نہیں کیا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کسی بھی جگہ ملزمان نے نہیں کہا جے آئی ٹی رپورٹ میں دستاویزجعلی ہے، ملزمان نے رپورٹ میں لگی تمام دستاویزات، بیانات کوتسلیم کررکھا ہے۔

    واثق ملک نے کہا کہ ملزمان کا العزیزیہ کے قیام سے متعلق مؤقف بدلتا رہا ہے، ملزمان نے کہا پرانی مشینری لا کرکاروبار کا آغازکیا۔

    انہوں نے کہا کہ ملزمان نے یہ بھی کہا حسن نوازکے دادا نے ان کے لیے5.4 ملین ڈالرکا انتظام کیا، ان باتوں کا کہیں بھی کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ دستاویزان ملزمان کی ہی ملکیت تھیں انہوں نے ہی فراہم کرنا تھیں، سعودی ارب سے ہم نے ایم ایل اے میں پوچھا مگرجواب نہیں دیا گیا۔

    واثق ملک نے کہا کہ دادا کے زمانے کی دستاویزات 1970 کی ہیں مگراپنے زمانے کی دستاویزنہیں، ملزمان کی جانب سے دستاویزات نہ دیے جانے کے باوجود حقائق سامنے آگئے۔

    انہوں نے کہا کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ پہلی بارآلدارآڈٹ رپورٹ کے ذریعے سامنے آئی، حسین نواز نے ایک آڈٹ رپورٹ عدالت دوسری جے آئی ٹی میں پیش کی۔

    معزز جج نے کہا کہ وکیل صفائی نے اپنی جرح میں آلداررپورٹ کو تسلیم نہیں کیا، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سپریم کورٹ میں سی پی 29 نوازشریف کے خلاف دائر کی گئی تھی۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کیس میں ہی حسین نوازنے یہ دستاویزات جمع کرائیں، تمام شواہد کا آپس میں ربط ہے، یہ خود کوعلیحدہ نہیں کرسکتے۔

    واثق ملک نے کہا کہ نوازشریف کی درخواست میں آلداررپورٹ پراعتراض نہیں کیا گیا، بے نامی دار کے کیس میں دیکھا جاتا ہےاثاثوں کا اصل فائدہ کس کوجا رہا ہے۔

    انہوں نے کہا کہ پیش ریکارڈ سے ظاہر ہے ہل میٹل کے منافع کا بڑاحصہ نوازشریف کومنتقل ہوا۔

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی گئی۔

    سماعت کے اختتام پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں دیے گئے تمام 62 سوالات کے جوابات تیار ہیں، پیر تک وقت دیا جائے نواز شریف ریکارڈ کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ کل 140 سوالات نواز شریف کو فراہم کیے گئے ہیں۔ انہوں نے استدعا کی کہ باقی سوالات بھی دے دیے جائیں۔

    احتساب عدالت نے پیر کو نواز شریف کا بیان ریکارڈ کرنے کا فیصلہ کرتے ہوئے مزید سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس: نیب پراسیکیوٹرکل بھی حتمی دلائل دیں گے


    عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر واثق ملک کا کہنا تھا کہ العزیزیہ ریفرنس کا آغاز پاناما پیپرز سے ہوا جسے سپریم کورٹ نے سنا اور جے آئی ٹی بنائی، یہ وائٹ کالر کرائم ہے۔

    واثق ملک کا کہنا تھا کہ نوازشریف سپریم کورٹ، جے آئی ٹی اور نیب میں ان اثاثوں کا حساب نہ دے سکے اور یہ اثاثے پہلی دفعہ سپریم کورٹ کے سامنے تسلیم کیے گئے، ملزمان کو تمام مواقع دیے گئے لیکن وہ وضاحت نہ دے سکے۔

    نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ اس کیس میں دی گئی منی ٹریل جعل نکلی، اثاثے تسلیم شدہ ہیں، بے نامی دار ان اثاثوں کو چھپاتے ہیں، نوازشریف عوامی عہدیدار رہے، ان کے بچوں کے پاس اربوں روپے کے اثاثے ہیں، سوال یہ ہے کہ اثاثے کیسے بن گئے۔

  • العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس: نیب پراسیکیوٹرکل بھی حتمی دلائل دیں گے

    العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس: نیب پراسیکیوٹرکل بھی حتمی دلائل دیں گے

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز پر سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں معزز جج محمد ارشد ملک نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کی۔

    نیب نے مقدمے میں شہادتیں مکمل ہونے سے متعلق عدالت کوآگاہ کردیا ، ڈپٹی پراسیکیوٹرجنرل نیب سردارمظفرنے شہادتیں مکمل ہونے کا بیان دیا۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف نے آج کے لیے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی۔

    العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس میں نیب پراسیکیوٹر کے حتمی دلائل


    نیب پراسیکیوٹرواثق ملک نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں حتمی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ یہ کیس وائٹ کالرکرائم کا ہے،عام کیس نہیں، یہ بڑے منظم طریقے سے کیا گیا جرم ہے۔

    معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کا بیان کل یوایس بی میں فراہم کر دیں گے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ آپ نےکل بھی یہ ہی کہنا ہے کہ مکمل نہیں ہوسکا۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ یوایس بی میں عدالت کو بیان فراہم کرنے کا مقصد ٹائم بچانا ہے۔

    نیب وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نوازشریف اور خاندان کے بیرون ملک اثاثوں کا علم پاناما لیکس کے بعد ہوا، سپریم کورٹ میں کیس سے پہلے اثاثوں کو ظاہرنہیں کیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ ملزمان کو سپریم کورٹ ، جے آئی ٹی اور نیب میں وضاحت کا موقع ملا، ملزمان کی طرف سے پیش کی گئی وضاحت جعلی نکلی۔

    نیب کے وکیل نے کہا کہ کیس میں جس جائیداد کا ذکر ہے وہ تسلیم شدہ ہے، ملزم نے بے نامی دار کے
    ذریعے اثاثے چھپائے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ کیس کی تحقیقات میں یہ سوال اٹھایا گیا یہ اثاثے بنائے کیسے گئے، 2001 میں العزیزیہ کی ویلیو6 ملین ڈالراور2005میں ہل میٹل کی ویلیو5 ملین پاؤنڈ بتائی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ 2010 سے2017 میں 187.1ملین کی رقم نوازشریف کوبھیجی گئی، کسی بھی جگہ پرملزمان کی طرف سے ان سوالوں کا جواب نہیں دیا گیا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ بیرون ممالک سے بھی تعاون اس طرح سے نہیں ملا جوملنا چاہیے تھا، ریاست ماں کی طرح ہے، اسے سوال پوچھنے کا حق حاصل ہے۔

    انہوں نے کہا کہ ہرفورم پرملزمان کا موقف بدلتا رہا، کیس کو نیارخ دینے کی کوشش کی گئی، حکمرانوں کے پاس اتنی زیادہ دولت اکٹھی ہوجائے توسوال پوچھا جاتا ہے۔

    پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ حکمرانوں سے سوال پوچھنے کی روایت خلفائے راشدین کے دورسے چلی آ رہی ہے، جج محمد ارشد ملک نے ریمارکس دیے کہ یہاں بھی توجواب ہی دیا ہے کہ ہماری طرف سے جواب ہے۔

    نیب پراسیکیوٹر واثق ملک نے کہا کہ اس کیس میں ملزم نے ہرپلیٹ فارم پرالگ رخ سے بیان دیا، اس کیس کی تفتیش 2 اگست 2017 سے شروع ہوئی۔

    واثق ملک نے کہا کہ کیس کے تفتیشی افسرمحبوب عالم تھے، 3ملزمان ہیں، یہ ریفرنس 15 ستمبر 2017 کو دائرہوا، اس کیس میں چارج فریم 19 اکتوبر2017 کو ہوا۔

    انہوں نے کہا کہ اس کسی میں ضمنی ریفرنس 14 فروری 2018 کو دائر ہوا، اس ریفرنس میں ٹوٹل 26 گواہان تھے، 22 کا بیان ریکارڈ ہوا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ کیس بینفشل آنراوربےنامی دارسے متعلق ہے، یہ وہ کیس نہیں کہ اس کا کوئی مالک نہیں، اس کیس سے جڑے تمام افراد کواپنے دفاع کے لیے مواقع ملے۔

    واثق ملک نے کہا کہ سپریم کورٹ نے ملزمان کودفاع میں ثبوت دینے کے لیے موقع دیا، پھربات جےآئی ٹی تک آ گئی اورنیب میں وضاحت پیش کرنے کا موقع ملا۔

    انہوں نے کہا کہ اس کیس میں جومنی ٹریل پیش کی گئی وہ غلط ثابت ہوئی، اس کیس میں تمام اثاثے مانے گئے ہیں کہ ہمارے ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ اس کیس میں اصل مالک کوچھپایا گیا ہے، یہ کیس ملزم نوازشریف کے خلاف ہے، کیس اس کے خلاف ہے جو 3 مرتبہ وزیراعظم، 2 بار وزیراعلی، وزیرخزانہ اور اپوزیشن لیڈر رہا۔

    واثق ملک نے بتایا کہ گواہ جہانگیراحمد نے تینوں ملزمان کا 1996 سے 2016 کا ٹیکس ریکارڈ پیش کیا جبکہ گواہ طیب معظم نے نوازشریف کے 5 اکاؤنٹس کا ریکارڈ پیش کیا۔

    انہوں نے کہا کہ یہ اکاؤنٹس پاکستانی روپےاورغیرملکی کرنسی کے تھے، ان اکاؤنٹس سے پتہ چلتا ہے کتنی رقم آئی اور گئی۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یاسرشبیرنے نوازشریف اورمریم کے اکاؤنٹ کی تفصیلات پیش کیں جبکہ سدرہ منصور نے مہران رمضان ٹیکسٹائل کا ریکارڈ پیش کیا۔

    واثق ملک نے کہا کہ نورین شہزادی نے نوازشریف، حسین نوازکے اکاؤنٹ اوپننگ فارم پیش کیے، حسین نواز کے اکاؤنٹ میں ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ سےترسیلات کا ریکارڈ دیا۔

    انہوں نے کہا کہ گواہ شیراحمد خان نے ملزمان کے اکاؤنٹس کی جائزہ رپورٹ پیش کی، ہل میٹل کا 97 فیصد منافع پاکستان بھجوایا گیا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جب مل کم منافع کما رہی تھی توبھی زیادہ پیسے بھجوائے جا رہے تھے، معزز جج محمد ارشد ملک نے استفسار کیا کہ نیب نے ان رقوم کو منجمد کیا یا کچھ بھی نہیں؟۔

    معزز جج نے سوال کیا کہ کیا یہ رقوم اب بھی بینک میں موجود ہیں؟ نیب کے وکیل نے جواب دیا کہ اب تو اکاؤنٹس میں بہت کم رقوم موجود ہیں ، منجمد نہیں کی گئی۔

    نیب کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ میں 3 پٹیشن دائر کی گئیں، ایک پٹیشن عمران خان، دوسری شیخ رشید اور تیسری سراج الحق نے دائرکی۔

    واثق ملک نے عدالت کو بتایا کہ پٹیشن دائر ہوئیں تو ملزمان کی جانب سےسی ایم ایزجمع کرائی گئیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ملزمان کی جانب سے ایک سی ایم اے جے آئی ٹی کے بعد فائل کی گئی، سپریم کورٹ نے 20 اپریل 2017 کو فیصلہ دیا اور جے آئی ٹی بنائی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کوسوالات دیے گئے جن کی معلومات حاصل کرنی تھی، جے آئی ٹی نے 2 ماہ میں رپورٹ جمع کرانی تھی۔

    واثق ملک نے کہا کہ ملزمان نےعدالت اورتحقیقاتی کمیٹی کو گمراہ کرنے کی کوشش کی، ملزمان دسمبر 2000 میں سعودی عرب منتقل ہوئے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ پاکستان سے جانے کے کچھ عرصے بعد العزیزیہ اسٹیل قائم کی گئی، ملزمان خود کہتے ہیں پاکستان سے خالی ہاتھ سعودی عرب گئے۔

    احتساب عدالت نے ریمارکس دیے کہ جلدی سے اپنے دلائل ختم کریں ، پھروکیل صفائی کے دلائل سننے ہیں، دونوں کے دلائل مکمل ہونے کے بعد سوال وجواب کا سیشن ہوگا۔

    پراسیکیوٹر نے کہا کہ نوازشریف نے خطاب میں کہا العزیزیہ کے لیے سعودی بینکوں سے قرض لیا، نوازشریف نے کہا العزیزیہ کچھ عرصے کے بعد فروخت کردی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ ناجائزذرائع سے پیسہ کمانے والے اپنے نام کمپنیاں نہ اثاثے بناتے ہیں، نوازشریف کے بیان کوبچوں کے کفالت میں ہونے کے تناظرمیں پیش کرتا ہوں۔

    معزز جج نے ریمارکس دیے کہ نا جائزدولت ہوتی تو حسین نوازاپنے نام پرکمپنی نہ بناتے، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نوازشریف نےکہا العزیزیہ مل 64 ملین ریال میں فروخت ہوئی۔

    واثق ملک نے کہا کہ ہل میٹل اسٹیبلشمنٹ پاناماکیس کے آخرمیں ظاہر کی گئی، سعودی عرب سے آنے والی رقوم سے متعلق سوال پرایچ ایم ای کو ظاہر کیا گیا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نوازشریف کے قومی اسمبلی میں خطاب کے وقت صرف ایون فیلڈ فلیٹس کا معاملہ تھا، حسین نوازکا انٹرویواثاثوں سے متعلق تھا۔

    انہوں نے کہا کہ حسین نوازنے بتایا العزیزیہ فروخت ہوئی تو ایون فیلڈ فلیٹس خریدے، حسین نواز نے کہا 2005 میں اثاثوں کی تقسیم کے بعد والد کا کاروبارسے تعلق نہیں۔

    واثق ملک نے کہا کہ حسین نوازکے بیان سے ظاہرہے 2005 سے پہلے نوازشریف کا کاروبار سے تعلق تھا، حسین نوازنے کہا کہ شرعی طورپرمیرا سارا کچھ میرے والد کا ہے۔

    فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو سوال نامہ فراہم کر دیا گیا


    عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے دوران نیب نے فلیگ شپ ریفرنس میں نوازشریف کو تحریری سوال نامہ فراہم نہ کرنے اور پہلے دفاع کو حتمی دلائل دینے کی درخواست کی تھی تاہم عدالت نے نیب کی دونوں درخواستوں کومسترد کردیا تھا۔

    احتساب عدالت کی جانب سے گزشتہ روز نواز شریف کو 342 کے تحت بیان قلمبند کروانے کے لیے سوال نامہ فراہم کردیا گیا تھا۔ نواز شریف کو دیا گیا سوال نامہ 62 سوالات پر مشتمل ہے۔

  • فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو سوالنامہ فراہم کر دیا گیا

    فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو سوالنامہ فراہم کر دیا گیا

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت میں تفتیشی افسر محمد کامران پر جرح مکمل ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت کی۔ سماعت میں نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے تفتیشی افسر محمد کامران پر جرح کی جو مکمل ہوگئی۔

    عدالت نے نیب کے دونوں اعتراض مسترد کردیے۔ نیب کا اعتراض تھا کہ العزیزیہ ریفرنس میں پہلے وکیل صفائی حتمی دلائل دیں اور نواز شریف کو فلیگ شپ ریفرنس میں پیشگی سوالنامہ نہ دیا جائے۔

    عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ریفرنس میں حتمی دلائل کل طلب کرلیے۔ عدالت نے گزشتہ روز کا محفوظ شدہ فیصلہ سناتے ہوئے کہا کہ پراسیکیوٹر نیب کل پہلے دلائل دیں گے۔

    دوسری جانب فلیگ شپ ریفرنس میں نواز شریف کو 342 کے تحت بیان قلمبند کروانے کے لیے سوالنامہ فراہم کر دیا گیا۔ نواز شریف کو دیا گیا سوالنامہ 62 سوالات پر مشتمل ہے۔

    نیب کل فلیگ شپ ریفرنس میں شواہد مکمل ہونے سے متعلق بیان دے گا۔ ریفرنس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

    گزشتہ روز استغاثہ کے گواہ تفتیشی افسر محمد کامران نے عدالت میں کہا تھا ہماری درخواست پر لندن لینڈ آف رجسٹری کی جانب سے 2 دستاویز دی گئیں۔ لینڈ رجسٹری ڈپارٹمنٹ کو آخری ایڈیشن کے لیے درخواست دی، درخواست کے جواب میں ہسٹوریکل کاپی ملی۔

    محمد کامران نے کہا تھا کہ لینڈ رجسٹری ڈپارٹمنٹ نےانفارمیشن کی بنیاد پر جواب دیا، لینڈ رجسٹری ڈپارٹمنٹ سے موجودہ ملکیت کے بارے میں پوچھا تھا۔

    انہوں نے بتایا کہ مجھے ریکارڈ کی کاپی ملی تو اس پر 31 اکتوبر کی تاریخ لکھی تھی، درخواست کے مطابق پراپرٹی فلیگ شپ انویسٹمنٹ سے منسلک تھی، ان میں سے ایک کمپنی حسن نواز کی تھی۔

  • آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل، شہبازشریف کے جسمانی ریمانڈمیں 6 دسمبرتک توسیع

    آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل، شہبازشریف کے جسمانی ریمانڈمیں 6 دسمبرتک توسیع

    لاہور : آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل کیس میں احتساب عدالت نے اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف کے جسمانی ریمانڈ میں 6 دسمبر تک توسیع کردی، نیب وکیل نے انکشاف کیا کہ شہباز شریف نے چھ کروڑ کے تحائف قریبی عزیزوں کو دیے جبکہ ان کی آمدن ڈھائی کروڑ تھی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں شہبازشریف کیخلاف آشیانہ اقبال ہاؤسنگ اسکینڈل کیس کی سماعت ہوئی ، قومی احتساب بیورو (نیب) کی جانب سے مزید ریمانڈ کے لئے اپوزیشن لیڈر اور مسلم لیگ ن کے صدر شہباز شریف کو عدالت میں پیش کیا، پیشی کے موقع پر احتساب عدالت کے باہر سخت کے سیکیورٹی انتطامات کئے گئے تھے۔

    سماعت مین عدالت نے نیب پراسیکیوٹر سے کہا رمضان شوگرملزکی دستاویزات کیوں فائل میں لگا دیں،آپ آشیانہ ہاؤسنگ پربات کریں ،جس پر نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ شہباز شریف کے خلاف کچھ مشکوک بینک ٹرانزیکشن ملی ہیں، راہداری ریمانڈکی وجہ سے تفتیش نہیں ہوسکی۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا شہبازشریف کو مشکوک بینک ٹرانزیکشن پر دیئے سوالنامہ دیا ، کل جواب دیاگیا، شہباز شریف کا جواب تسلی بخش نہیں ، شہباز شریف نے اکثرسوالوں پر کہا مجھے یاد نہیں یا وکیل سے پوچھ کربتاؤں گا۔

    [bs-quote quote=” شہباز شریف نےچھ کروڑکےتحائف قریبی عزیزوں کو دیے جبکہ ان کی آمدن ڈھائی کروڑتھی” style=”default” align=”left” author_name=”نیب”][/bs-quote]

    پراسیکیوٹر کا مزید کہنا تھا کہ 6 کروڑکےتحائف قریبی عزیزوں کودیے، آمدن ڈھائی کروڑ تھی، ہوسکتا ہے آمدن شو کرنے سے پہلے تحائف تقسیم کر دیئے گئے، معاملہ تفتیش طلب ہے، 17 – 2011 میں 20کروڑ کی جائیداد بیچی،رقم چیک کے ذریعے ملی، 6 کروڑ کہاں سے آئے وہ ابھی واضح نہیں، عدالت مزید تفتیش کے لیے جسمانی ریمانڈمیں توسیع کرے۔

    وکیل شہباز شریف نے کہا میرے پاس موجود تمام دولت کا قانونی ثبوت موجود ہے، نیب بلا جواز جسمانی ریمانڈ مانگ رہا ہے ،آمدن الگ بات ہے اور کسی کو تحفے کے لئے رقم اور چیز ہے، کروڑ کی جائیداد بیچی قریبی عزیزوں کو تحائف دیناجرم نہیں ، نیب بتائے کیا کوئی ایسی ٹرانزیکشن ہے، جسے کرپشن سے جوڑا جاسکے۔

    شہباز شریف کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ نیب 55روزہ جسمانی ریمانڈ کے باوجود کرپشن کا ثبوت پیش نہ کرسکی، نیب کی جانب سے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا مسترد کی جائے۔

    وکیل نے کہا میڈیا کہہ رہا ہے، ریفرنس منظوری کے لیے چیئرمین نیب کو بھجوادیا، جس پر نیب پراسیکیوٹر کا کہنا تھا کہ میڈیا کوئی عدالت نہیں عدالت میں ریفرنس بھیجا جاتا ہے، وکیل نے مزید کہا ڈی جی نیب نے انٹرویوز میں کہا نومبر کے آخر تک چالان جمع ہوجائے گا۔

    عدالت نے کہا ڈی جی نیب کا یہ بیان الارمنگ ہے کہ 15دن پہلے چالان جمع کرانے کا اعلان کردیا،وکیل نیب کا کہنا تھا کہ شہبازشریف نے 2011 میں تحائف دیے مگر وہ گوشواروں میں ظاہر نہیں، عدالت نے سوال کیا شہبازشریف کے2011 کے پیسوں سے آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل کا کیا تعلق؟

    وکیل شہبازشریف نے کہا میڈیکل رپورٹس کا جائزہ لینے کے لیے میڈیکل بورڈبنایاجائے اور شہبازشریف کو صاف ستھرا کمرہ اور دھوپ کے لئے بھی انتظام کیا جائے۔

    عدالت نے نیب کی درخواست پر شہبازشریف کےجسمانی ریمانڈمیں9دن کی توسیع کر دی اور شہباز شریف کو 6 دسمبر تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا۔

    مزید پڑھیں : احتساب عدالت نے شہبازشریف کا 7 روزہ راہداری ریمانڈ دے دیا

    واضح رہے نیب لاہور نے5 اکتوبر کو شہبازشریف کو صاف پانی کیس میں طلب کیا تھا تاہم ان کی پیشی پر انہیں آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    اگلے روز شہبازشریف کو احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں انہیں 10 روزہ جسمانی ریمانڈ پرنیب کے حوالے کردیا گیا تھا۔

    جس کے بعد 16 اکتوبر کو ریمانڈ ختم ہونے پر پیش کیا گیا تو احتساب عدالت نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل کیس میں گرفتار مسلم لیگ ن کے صدر شہبازشریف کے جسمانی ریمانڈ میں 30 اکتوبرتک توسیع کردی تھی۔

    ریمانڈ ختم ہونے پر شہبازشریف کو 29 اکتوبر کو عدالت میں پیش کیا گیا تو (نیب) نے آشیانہ اسکینڈل کیس کے ملزم اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے مزید 15 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی ، جس پر عدالت نے ان کے ریمانڈ میں مزید  توسیع کردی تھی۔

  • العزیزیہ ریفرنس میں حتمی دلائل پہلےکون دے گا ؟ عدالت نےفیصلہ محفوظ کرلیا

    العزیزیہ ریفرنس میں حتمی دلائل پہلےکون دے گا ؟ عدالت نےفیصلہ محفوظ کرلیا

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کررہے ہیں۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف احتساب عدالت میں پیشی کے بعد روانہ ہوگئے، جبکہ ان کے وکیل خواجہ حارث تفتیشی افسر محمد کامران پر جرح کررہے ہیں۔

    استغاثہ کے گواہ محمد کامران نے کہا کہ ہماری درخواست پرلندن لینڈ آف رجسٹری کی جانب سے 2 دستاویز دی گئیں۔

    تفتیشی افسر نے کہا کہ لینڈ رجسٹری ڈیپارٹمنٹ کوآخری ایڈیشن کے لیے درخواست دی، درخواست کے جواب میں ہیسٹوریکل کاپی مجھے ملی۔

    محمد کامران نے کہا کہ لینڈ رجسٹری ڈیپارٹمنٹ نےانفارمیشن کی بنیاد پر جواب دیا، لینڈ رجسٹری ڈیپارٹمنٹ سے موجودہ ملکیت کے بارے میں پوچھا تھا۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ مجھے ریکارڈ کی کاپی جب ملی تو اس پر 31 اکتوبر کی تاریخ لکھی تھی، درخواست کے مطابق پراپرٹی فلیگ شپ انویسٹمنٹ سے منسلک تھی، ان میں سے ایک کمپنی حسن نواز کی تھی۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر العزیزیہ استیل ملزریفرنس میں حتمی دلائل دینے سے متعلق نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ نوازشریف نے اپنے دفاع میں کچھ دستاویزات پیش کی ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانون کے مطابق اب وکیل صفائی پہلے حتمی دلائل کا آغاز کریں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے دستاویزات اپنے دفاع میں پیش نہیں کیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ نوازشریف کی طرف سے دفاع سے متعلق سوال کا جواب نفی میں دیا گیا، ان دستاویزات پراس عدالت یا ہائی کورٹ میں دلائل نہیں دیں گے۔

    العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں حتمی دلائل پراسیکیوشن شروع کرے گی یا وکیل صفائی ؟، عدالت نے فیصلہ محفوظ کرلیا۔

    فلیگ شپ ریفرنس: خواجہ حارث کی تفتیشی افسر پرجرح


    احتساب عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے دوران تفتیشی افسر محمد کامران کا کہنا تھا کہ ایم ایل اے کے جواب میں لینڈ رجسٹری کی کاپی ظاہر شاہ سے لی تھی، لینڈ رجسٹری میں ظاہر نمبر دو الگ الگ پراپرٹیزکی تھیں۔

    یاد رہے کہ 16 نومبر کو احتساب عدالت نے نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز نمٹانے کے لیے ٹرائل کورٹ کی مدت میں توسیع کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا جس پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے 3 ہفتے میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دیا تھا۔

  • فلیگ شپ ریفرنس: خواجہ حارث کی تفتیشی افسر پرجرح

    فلیگ شپ ریفرنس: خواجہ حارث کی تفتیشی افسر پرجرح

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف احتساب عدالت میں پیشی کے بعد روانہ ہوگئے، جبکہ ان کے وکیل خواجہ حارث نے تفتیشی افسر محمد کامران پر جرح کی۔

    تفتیشی افسر محمد کامران نے عدالت کو بتایا کہ ایم ایل اے کے جواب میں لینڈ رجسٹری کی کاپی ظاہر شاہ سے لی تھی، لینڈ رجسٹری میں ظاہر نمبر دو الگ الگ پراپرٹیزکی تھیں۔

    وکیل صفائی خواجہ حارث نے گزشتہ سماعت کے دوران تفتیشی افسرمحمد کامران پر جرح مکمل کرنے کا عندیہ دیا تھا۔

    دوسری جانب فلیگ شپ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کو بیان کے لیے آج سوال نامہ دیا جانے کا امکان ہے۔ اس کے علاوہ العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں حتمی دلائل منگل کو دیے جائیں گے۔

    نوازشریف کی آج حاضری سےاستثنیٰ کی درخواست منظور


    یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر نوازشریف کے وکیل کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی تھی۔

    درخواست میں کہا گیا تھا کہ کلثوم نوازکے لیے فاتحہ خوانی، دعائیہ تقریب رکھی ہے، آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی جائے۔ معزز جج نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظورکی تھی۔

  • نوازشریف کی آج حاضری سےاستثنیٰ کی درخواست منظور

    نوازشریف کی آج حاضری سےاستثنیٰ کی درخواست منظور

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کی۔

    نواز شریف آج احتساب عدالت میں پیش نہیں ہوئے، ان کے وکیل کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ کلثوم نوازکے لیے فاتحہ خوانی، دعائیہ تقریب رکھی ہے، آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کی جائے۔

    احتساب عدالت کے معزز جج محمد ارشد ملک نے نوازشریف کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔

    نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے تفتیشی افسر محمد کامران پرپانچویں روز بھی جرح جاری رکھی۔

    احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی، نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث تفتیشی افسرپر پیر کے دن بھی جرح جاری رکھیں گے۔

    سابق وزیراعظم نے گزشتہ روز احتساب عدالت میں سماعت کے دوران اپنا 342 کا بغیر حلف نامے کا بیان قلمبند کروایا تھا۔

    نوازشریف کا کہنا تھا کہ مطمئن ہوں ساری نسلیں کھنگالنے کے بعد کرپشن نہیں نکلی، ذاتی اور سیاسی قربانی دی، 40 سال کا کیرئیر صاف اور شفاف ہے۔

    نوازشریف نے بیان ریکارڈ کرانے کے بجائےعدالت میں منصوبے گنوانا شروع کردیے


    سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مفروضوں پر کیس کو چلایا گیا، کیس منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور کرپشن کے الزامات پرشروع ہوا، بے رحمانہ احتساب کے بعد بات آمدن سے زائد اثاثہ جات پرآگئی۔

    نوازشریف کا کہنا تھا کہ میں احتساب سے پیچھے نہیں ہٹا، اللہ تعالیٰ پر کامل یقین ہے، عدالت سے انصاف کی توقع ہے۔

  • نوازشریف نے بیان ریکارڈ کرانے کے بجائےعدالت میں منصوبے گنوانا شروع کردیے

    نوازشریف نے بیان ریکارڈ کرانے کے بجائےعدالت میں منصوبے گنوانا شروع کردیے

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت احتساب عدالت کے معزز جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    احتساب عدالت میں سماعت کے آغاز پر نوازشریف نے بیان ریکارڈ کرانے کے بجائے منصوبے گنوانا شروع کردیے۔

    نوازشریف نے کہا کہ 1937 میں میرے والد نے انڈسٹری لگائی، میں 40 سال پہلے کاروبار چھوڑ چکا ہوں، میرے بچے آزاد اور خودمختار ہیں، بچے جن ممالک میں کاروبار کررہے وہ قانون کےمطابق کررہے ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ بچوں کے لین دین میں کوئی غیرقانونی چیزنہیں نکالی جاسکی، واجد ضیا اقرار کر چکے کہ مجھ پر لگائے الزامات کا ثبوت نہیں۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ مطمئن ہوں ساری نسلیں کھنگالنے کے بعد کرپشن نہیں نکلی، ذاتی اور سیاسی قربانی دی، 40 سال کا کیرئیر صاف اور شفاف ہے۔

    نوازشریف نے کہا کہ مفروضوں پر کیس کو چلایا گیا، کیس منی لانڈرنگ، ٹیکس چوری اور کرپشن کے الزامات پرشروع ہوا، بے رحمانہ احتساب کے بعد بات آمدن سے زائد اثاثہ جات پرآگئی۔

    انہوں نے کہا کہ میں احتساب سے پیچھے نہیں ہٹا، اللہ تعالیٰ پر کامل یقین ہے، عدالت سے انصاف کی توقع ہے۔

    احتساب عدالت نے سوال کیا کہ کیا آپ مزید کچھ کہنا چاہتے ہیں جس پر نوازشریف نے کہا کہ میں پاکستان کا بیٹا ہوں، مٹی کا ذرہ ذرہ جان سے پیارا ہے۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں 342 کا بغیر حلف نامے کا بیان قلمبند کروا دیا۔

    نواز شریف کے بیان کے بعد خواجہ حارث تفتیشی افسر محمد کامران پر جرح کررہے ہیں۔

    احتساب عدالت میں گزشتہ سماعت کے دوران محمد کامران کا کہنا تھا کہ نیب نے غیرتصدیق شدہ نقول فراہم کردی تھیں، نقول کس تاریخ کوموصول ہوئیں یاد نہیں، ریکارڈ کی تصدیق شدہ نقول بھی موصول ہوئیں۔

    ایف بی آرکو نوازشریف کےٹیکس ریکارڈ کے حصول کےلیےخط لکھا تھا‘ تفتیشی افسر


    تفتیشی افسرکا کہنا تھا کہ ایف بی آرکونوازشریف کے ٹیکس ریکارڈ کے حصول کے لیے خط لکھا تھا، ایف بی آرکوخط لکھنےسے پہلے جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم نمبر9 کوپڑھا تھا۔

    محمد کامران کا کہنا تھا کہ والیم نمبر9 میں نوازشریف کا ٹیکس ریکارڈ ظاہرہے، یہ درست نہیں کہ جان بوجھ کر ٹیکس ریکارڈکی حقیقت کودبانے کی کوشش کی۔

  • ایف بی آرکو نوازشریف کےٹیکس ریکارڈ کے حصول کےلیےخط لکھا تھا‘ تفتیشی افسر

    ایف بی آرکو نوازشریف کےٹیکس ریکارڈ کے حصول کےلیےخط لکھا تھا‘ تفتیشی افسر

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت جمعرات تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز کی سماعت احتساب عدالت کے معزز جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    نوازشریف اور تفتیشی افسرمحمد کامران عدالت میں پیش ہوئے، سابق وزیراعظم کے وکیل خواجہ حارث نے محمد کامران پرجرح کی۔

    احتساب عدالت میں سماعت کے آغاز پر معزز جج نے کہا کہ پہلےالعزیزیہ میں 342 کا بیان مکمل کر لیتے ہیں جس پروکیل صفائی نے کہا کہ کل بھی گزارش کی تھی جمعرات تک کا وقت دیا جائے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ اگرآپ کہتے ہیں توبیٹھ جاتے ہیں لیکن تیاری کرنی پڑے گی، جج محمد ارشد ملک نے ریمارکس دیے کہ آپ جمعرات کی بات کررہے جمعرات کوپھرنہ کہیں کہ دعا ہے۔

    معزز جج نے کہا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں 342 کے بیان میں کم سوالات رکھیں گے، کوشش کریں گے70،75 سوالات رکھیں۔

    احتساب عدالت کے جج نے ریمارکس دیے کہ 3ہفتے کا وقت ملا ہے اس مدت میں ٹرائل مکمل ہوجائے گا، میرا خیال تھا 2 ہفتے ملیں گے تواس میں ٹرائل مکمل ہونا مشکل ہوجاتا۔

    معزز جج نے کہا کہ سپریم کورٹ نے توسیع دیتے وقت کچھ پوچھا توہوگا نا؟ خواجہ حارث نے جواب دیا کہ انہوں نے پوچھا تھا کتنا وقت اورچاہیے ٹرائل مکمل کرنے کے لیے، میں نےکہا 3 ہفتے دے دیں توانہوں نے 3 ہی ہفتے دے دیے۔

    احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ جمعرات کومیاں صاحب نے فاتحہ کے لیے جانا ہوگا تو پھروہ نہیں آئیں گے، خواجہ حارث نے یقین دہانی کرائی کہ میاں صاحب جمعرات کوعدالت میں پیش ہوں گے۔

    تفتیشی افسرنے عدالت کو بتایا کہ رپورٹ میں لکھا نیب ہیڈکوارٹرنے کہا ریفرنس کا ریکارڈ موجود ہے، نیب ہیڈکوارٹرزسے میرے خط کا جواب نہیں آیا تھا۔

    محمد کامران نے کہا کہ خط کےجواب کے لیے نیب ہیڈکوارٹرزکوکوئی خط نہیں لکھا، 8 اگست 2017 کو ڈی جی آپریشنز نیب ہیڈ کوارٹرکوخط لکھا تھا۔

    تفتیشی افسر نے 4 اگست کے خط کی کاپی عدالت میں پیش کردی، خواجہ حارث کی استدعا پرخط عدالتی ریکارڈ کاحصہ بنا دیا گیا،عدالت نے خط کی کاپی خواجہ حارث کوبھی فراہم کرنے کی ہدایت کی۔

    انہوں نے کہا کہ 4 اگست کا خط میں نے نہیں محمد واصف بھٹی نے لکھا تھا، خط نیب کوبھیجنےکی کارروائی میں نے شروع کی تھی۔

    محمد کامران نے کہا کہ نیب نے غیرتصدیق شدہ نقول فراہم کردی تھیں، نقول کس تاریخ کوموصول ہوئیں یاد نہیں، ریکارڈ کی تصدیق شدہ نقول بھی موصول ہوئیں۔

    تفتیشی افسر نے کہا کہ ایف بی آرکونوازشریف کے ٹیکس ریکارڈ کے حصول کے لیے خط لکھا تھا، ایف بی آرکوخط لکھنےسے پہلے جے آئی ٹی رپورٹ کے والیم نمبر9 کوپڑھا تھا۔

    انہوں نے بتایا کہ والیم نمبر9 میں نوازشریف کا ٹیکس ریکارڈ ظاہرہے، یہ درست نہیں کہ جان بوجھ کر ٹیکس ریکارڈکی حقیقت کودبانے کی کوشش کی۔

    العزیزیہ ریفرنس میں نواز شریف نے 148 سوالات کے جواب جمع کرائے، مزید 4 جوابات کے لیے عدالت سے جمعرات تک کا وقت مانگا گیا تھا۔

    نواز شریف نے آخری 4 سوالوں کے جواب کے لیے وقت مانگ لیا


    یاد رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے دوران نوازشریف نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا تھا کہ جے آئی ٹی نے تحقیقات کے دوران جو بیانات ریکارڈ کیے وہ قابل قبول شہادت نہیں۔

    سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ شریک ملزمان کی جانب سے جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف الگ درخواستیں دی گئیں، سپریم کورٹ میں حسن اور حسین نواز کا کیس میں نے نہیں لڑا۔

    نوازشریف کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی کی تفتیش جانبدار تھی اور مروجہ طریقہ کار نہیں اپنایا گیا، میرے خلاف جو شواہد اکٹھے کیے قانون کی نظر میں ان کی کوئی وقعت نہیں۔