Tag: احتساب عدالت

  • العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف نے آخری 4 سوالوں کے جواب کے لیے وقت مانگ لیا

    العزیزیہ ریفرنس: نواز شریف نے آخری 4 سوالوں کے جواب کے لیے وقت مانگ لیا

    اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت کی احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کی سماعت کے دوران نواز شریف نے آخری 4 سوالوں کے جواب کے لیے وقت مانگ لیا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ ریفرنس کیس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے عدالت میں پیش ہو کر بغیر حلف نامے کے 342 کا بیان قلمبند کروایا۔

    نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز نمٹانے کی 17 نومبر تک کی چھٹی مہلت بھی ختم ہوچکی ہے۔ نواز شریف فراہم کیے گئے 151 سوالوں میں سے اب تک 120 کے جوابات دے چکے ہیں۔

    مزید سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ میرے اکاؤنٹ میں آنے والی رقوم ایف بی آر ریکارڈ میں ظاہر ہیں، سپریم کورٹ میں متفرق درخواست جمع کروائی گئی جس میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے نام نہاد شواہد اور رپورٹ کو مسترد کرنے کی استدعا کی۔

    نواز شریف نے کہا کہ درخواست میں کہا کہ جے آئی ٹی محض تفتیشی ایجنسی سے زیادہ کچھ نہیں، عام فہم ہے جے آئی ٹی میں بیان عدالت میں بطور شواہد پیش نہیں کیا جا سکتا۔ جے آئی ٹی کی تحقیقات تعصب پر مبنی اور ثبوت کے بغیر تھیں، جے آئی ٹی کو انکم ٹیکس ریٹرن، ویلتھ اسٹیٹمنٹ اور ویلتھ ریٹرن جمع کروائی۔

    مزید پڑھیں: العزیزیہ ریفرنس کی گزشتہ سماعت

    سماعت کے دوران نواز شریف بیان لکھواتے ہوئے جذباتی ہوگئے۔ انہوں نے جج سے براہ راست مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مجھے آج تک سمجھ نہیں آیا کہ یہ کیس بنایا کیوں گیا ہے، استغاثہ کو بھی معلوم نہیں ہوگا کیس کیوں بنایا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ دنیا بھر کے بچے بیرون ملک پڑھتے ہیں اور کاروبار کرتے ہیں، میرے بچوں نے اگر مجھے پیسے بھیج دیے تو کون سا عجوبہ ہوگیا۔ ’وزیر اعظم رہا ہوں، میرے بچے یہاں کاروبار کریں تب مصیبت، باہر کریں تب مصیبت‘۔

    سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ شریک ملزمان کی جانب سے جے آئی ٹی رپورٹ کے خلاف الگ درخواستیں دی گئیں، سپریم کورٹ میں حسن اور حسین نواز کا کیس میں نے نہیں لڑا۔

    حسن اور حسین نواز کے بیانات سے متعلق بیان لکھواتے ہوئے نواز شریف کی زبان پھسل گئی، انہوں نے کہا کہ حسن اور حسین نواز کا بیان میرے خلاف بطور شواہد پیش کیا جا سکتا ہے۔ وکیل نے لقمہ دیا تو نواز شریف نے درستگی کروائی کہ بیٹوں سے منسوب بیان میرے خلاف بطور شواہد پیش نہیں کیا جاسکتا۔

    انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی کی تفتیش جانبدار تھی اور مروجہ طریقہ کار نہیں اپنایا گیا، میرے خلاف جو شواہد اکٹھے کیے قانون کی نظر میں ان کی کوئی وقعت نہیں۔

    نواز شریف نے آخری 4 اہم سوالوں کے جواب کے لیے وقت مانگ لیا۔ انہوں نے کہا آخری سوالات سے پہلے وکیل خواجہ حارث سے مشورہ کرنا چاہتا ہوں، خواجہ حارث آج لاہور میں موجود ہیں۔

    احتساب عدالت نے نواز شریف کی استدعا پر انہیں ایک دن کی مہلت دے دی۔ جج نے کہا کہ اصولی طور پر آپ کو مزید وقت دینا نہیں چاہیئے، سوالنامہ پہلے فراہم کردیا گیا تھا، یہ تو سب کو پتہ ہی ہوتا ہے دفاع سے متعلق سوال پوچھا جائے گا۔

    نواز شریف کے خلاف سوالنامے میں ایک سوال کو 2 الگ حصوں میں تقسیم کر دیا گیا جس کے بعد سوالوں کی تعداد 152 ہوگئی۔ نواز شریف نے اب تک کل 148 سوالات کے جواب جمع کروا دیے ہیں۔

    دونوں ریفرنس کی مزید سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔ نواز شریف کل دفاع پیش کرنے سے متعلق جواب دیں گے جبکہ ’آپ کے خلاف کیس کیوں بنایا گیا‘ کا جواب بھی کل دیں گے۔

    خیال رہے کہ احتساب عدالت نے نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنسز نمٹانے کے لیے ٹرائل کورٹ کی مدت میں توسیع کے لیے عدالت سے رجوع کیا تھا جس پر فیصلہ سناتے ہوئے سپریم کورٹ نے 3 ہفتے میں ٹرائل مکمل کرنے کا حکم دے دیا۔

    احتساب عدالت کی جانب سے رجسٹرار سپریم کورٹ کو لکھے گئے خط کے متن میں کہا گیا تھا کہ سپریم کورٹ کی دی گئی ڈیڈ لائن میں ٹرائل مکمل کرنا ممکن نہیں، العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز میں ٹرائل مکمل ہونے کے قریب ہے۔

    خط میں استدعا کی گئی کہ ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید وقت دیا جائے۔ العزیزیہ میں ملزم کا بیان اور فلیگ شپ میں آخری گواہ پر جرح جاری ہے۔

    درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے چیف جسٹس ثاقب نثار کا کہنا تھا کہ العزیزیہ ریفرنس کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید مہلت نہیں ملے گی۔

    اس سے قبل سپریم کورٹ ریفرنسز مکمل کرنے کے لیے پہلے ہی 5 بار مہلت میں توسیع کرچکی ہے، گزشتہ ماہ عدالت عظمیٰ نے 26 اگست تک ٹرائل مکمل کرنے کے لیے احتساب عدالت کو 6 ہفتوں کا وقت دیا تھا۔

  • نوازشریف کے خلاف ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید وقت دیا جائے، سپریم کورٹ کو خط

    نوازشریف کے خلاف ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے مزید وقت دیا جائے، سپریم کورٹ کو خط

    اسلام آباد : احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف نیب ریفرنسز نمٹانے کے لیے ٹرائل کورٹ کی مدت میں توسیع  کےلئے عدالت سے رجوع کرلیا، سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی ڈیڈ لائن کل ختم ہورہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کے ٹرائل کی مدت میں توسیع  کے لیے احتساب عدالت کے جج ارشدملک نے رجسٹرارسپریم کورٹ کو خط لکھ دیا۔

    خط کے متن میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کی دی گئی ڈیڈلائن میں ٹرائل مکمل کرنا ممکن نہیں، العزیزیہ اورفلیگ شپ ریفرنسزمیں ٹرائل مکمل ہونے کے قریب ہے۔

    خط میں استدعا کی گئی ہے کہ ٹرائل مکمل کرنےکےلئےمزیدوقت دیاجائے، العزیزیہ میں ملزم کابیان ،فلیگ شپ میں آخری گواہ پرجرح جاری ہے۔

    خیال رہے سپریم کورٹ کی طرف سےدی گئی ڈیڈ لائن کل ختم ہورہی ہے۔

    مزید پڑھیں : نواز شریف کے خلاف کرپشن ریفرنسز نمٹانے کی ڈیڈ لائن ختم ہونے میں صرف 4روز باقی

    یاد رہے سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس نمٹانے کے لئےاحتساب عدالت کو سترہ نومبر تک کی مزید مہلت دی تھی، چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے بعد کوئی توسیع نہیں دی جائے گی سترہ نومبر تک کیسوں کا فیصلہ نہ ہوا تو عدالت اتوار کو بھی لگے گی۔

    جسٹس ثاقب نثار نے ریمارکس دیے تھے یہ وہ کیس ہے جس نے دو بھائیوں میں تلخی پیدا کی، خواجہ حارث نے کہا کہ ایک بار تو میری بات بھی مان لیں، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیشہ آپکی بات مانی لیکن یہی تاثر دیا گیا کہ ہم نے آپ کی بات نہیں مانی۔

    واضح رہے کہ نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس زیر سماعت ہے اور سپریم کورٹ کی جانب سے دی جانے والی ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کی مہلت پانچویں بار ختم ہوگئی، جس کے بعد احتساب عدالت نے مزید مہلت کیلئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

    اس سے قبل سپریم کورٹ ریفرنسز مکمل کرنے کے لیے پہلے ہی 4 بار مہلت میں توسیع کرچکی ہے، گزشتہ ماہ عدالتِ عظمیٰ نے نے 26 اگست تک ٹرائل مکمل کرنے کے لیے احتساب عدالت کو 6 ہفتوں کا وقت دیا تھا۔

  • العزیزیہ ریفرنس: میں نے ذاتی طور پر کبھی قطری خطوط پرانحصارنہیں کیا‘ نواز شریف

    العزیزیہ ریفرنس: میں نے ذاتی طور پر کبھی قطری خطوط پرانحصارنہیں کیا‘ نواز شریف

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم میاں‌ نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے معزز جج محمد ارشد ملک نے نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کی۔

    العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے بغیر حلف نامے کے 342 کا بیان یوایس بی میں عدالت کوفراہم کردیا گیا، ان کے جوابات کو عدالتی ریکارڈ پرلایا گیا۔

    نواز شریف کی جانب سے151 سوالات میں سے 120 کے جوابات دیے گئے، نوازشریف نے آج مزید 30 سوالات کے جوابات فراہم کرنے ہیں۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کی جانب سے فراہم کیے گئے جوابات میں تصحیح کرائی جا رہی ہے۔

    نوازشریف نے احتساب عدالت میں اپنا بیان قلمبند کرواتے ہوئے کہا کہ حماد بن جاسم نےکہا تھا جے آئی ٹی دوحہ آ کرخطوط کی تصدیق کرلے۔

    انہوں نے کہا کہ جےآئی ٹی کے پاس کوئی وجہ نہیں تھی قطری خطوط کو محض افسانہ قراردے، قطری کے خطوط میں نے کبھی بھی کسی فورم پردفاع کے لیے پیش نہیں کیے۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں نے ذاتی طور پر کبھی قطری خطوط پرانحصارنہیں کیا، العزیزیہ کی فروخت یا اس سے متعلق کسی ٹرانزیکشن کا کبھی حصہ نہیں رہا۔

    نوازشریف نے کہا کہ حسین نوازنے 6 ملین ڈالرمیں العزیزیہ کے قیام کا بیان میری موجودگی میں نہیں دیا، حسین نوازکا بیان قابل قبول شہادت نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ شریک ملزم حسین نوازاس عدالت کے سامنے بھی موجود نہیں ہے، یہ درست نہیں العزیزیہ حسین نوازنے قائم کی، والد نے قائم کی تھی، العزیزیہ اسٹیل مل کا کاروبار حسین نواز چلاتے تھے۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی، نوازشریف سے مزید 31 سوالوں کے جواب پیر کے روز قلمبند ہوں گے۔

    عدالت میں گزشتہ روز نوازشریف نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت کے دوران پوچھے گئے سوالات کے جواب دیتے ہوئے قطری شہزادے کے خطوط سے لاتعلقی کا اظہار کیا تھا۔

    سابق وزیراعظم نے اپنے جواب میں کہا تھا کہ جے آئی ٹی کے 10 والیم محض ایک تفتیشی رپورٹ ہے، کوئی قابل قبول شہادت نہیں، میرے ٹیکس ریکارڈ کے علاوہ جے آئی ٹی کی طرف سے پیش کی گئی کسی دستاویز کا میں گواہ نہیں۔

    نواز شریف نے قومی اسمبلی میں خطاب پر ایک مرتبہ پھر استثنیٰ مانگ لیا


    العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس میں نوازشریف اب تک مجموعی 151 سوالات میں سے 89 کے جواب دے چکے ہیں۔

    خیال رہے کہ سابق وزیراعظم کے خلاف ٹرائل مکمل کرنے کے لیے معزز جج ارشد ملک کو سپریم کورٹ کی جانب سے دی گئی ڈیڈ لائن کل 17 نومبر کو ختم ہو رہی ہے۔

    احتساب عدالت کی جانب سے ٹرائل کی مدت میں ساتویں بار توسیع کے لیے سپریم کورٹ سے رجوع کا بھی امکان ہے۔

  • نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر تفتیشی افسر نے بتایا کہ ڈی جی نیب نے7نومبر کو ہی معاملہ نیب ہیڈ کوارٹر ز بھیجا، مجاز اتھارٹی کی منظوری 8 نومبر کو موصول ہوئی۔

    استغاثہ کے گواہ محمد کامران نے کہا کہ نئی دستاویزات پیش کرنے پرمجاز اتھارٹی کی منظوری کا خط موجود ہے۔

    معزز جج ارشد ملک نے خواجہ حارث کو ہدایت کی کہ غیرضروری باتیں نہ لکھوائیں، جو سمجھ میں آگیا کافی ہے، اہم اورمتعلقہ باتیں لکھوائیں۔

    تفتیشی افسر نے کہا کہ ایم ایل اے سے متعلق میں نے متعلقہ افراد کے بیان ریکارڈ نہیں کیے، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ نے 21 اگست2017 خط کی کاپی ڈی جی نیب لاہورکوبھیجی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ میں نے ایکریڈیشن خط کی کاپی ڈپٹی ڈائریکٹرامورخارجہ اورڈی جی نیب کوبھیجی، خواجہ حارث نے کہا کہ جن لوگوں کویہ خط بھیجے گئے وہ اب بھی نیب کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

    محمد کامران نے کہا کہ جی وہ لوگ ابھی بھی نیب کے ساتھ کام کر رہے ہیں، نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ کیا یہ درست ہے 21 اگست2017 کے خط میں دیگرخطوط کا حوالہ نہیں ہے۔

    تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ درست ہے دیگر خطوط کا حوالہ نہیں البتہ ایم ایل اے کا ریفرنس نمبر موجود ہے۔

    معزز جج ارشد ملک اور خواجہ حارث میں مکالمہ


    احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ میاں نوازشریف کا بیان آج ہی قلمبند کرلیتے ہیں جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ کل نوازشریف کا بیان قلمبند کرنا شروع کردیتے ہیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ سوالات پیچیدہ ہیں لیکن ہمیں اس پراعتراض نہیں، بیان کے لیے تمام ریکارڈ دیکھنا پڑرہا ہے، کل تک کا وقت دیں۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کا 342 کا بیان کل قلمبند کیا جائے گا۔

    محمد کامران نے سماعت کے دوران کہا کہ نیب کی تحقیقات کا اپنا طریقہ کاراور ایس او پی ہوتا ہے، تحقیقاتی ٹیم تفتیشی افسر، کیس افسر اور لیگل کنسلٹنٹ پرمشتمل ہوتی ہے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ فلیگ شپ ریفرنس میں تحقیقاتی ٹیم مجازاتھارٹی کی جانب سے بنائی گئی، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ اس ریفرنس کی تحقیقاتی ٹیم میں کون کون شامل تھا۔

    تفتیشی افسر نے جواب دیا کہ میں اس ریفرنس کا تفتیشی تھا، نذیرجونیجو کیس افسر تھے، ریفرنس میں لیگل کنسلٹنٹ محمد عرفان تھے۔

    محمد کامران نے کہا کہ ریفرنس دائرکرنے کے بعد تفتیش میں نئی پراپرٹیزسے متعلق پتہ لگایا، حسن اور حسین نوازکوبیرون ملک ایڈریس پرکال اپ نوٹس نہیں بھجوایا۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ حسن اورحسین نوازکا بیرون ملک پتہ معلوم تھا، حسن نوازنے2007 میں برطانوی شہریت حاصل کی جبکہ حسین نواز2000 سے پاکستان میں رہائش پذیرنہیں ہیں۔

    تفتیشی افسر نے بتایا کہ جےآئی ٹی رپورٹ سے پتہ چلا دونوں پاکستان کےغیرمستقل شہری ہیں، کال اپ نوٹسزمیں نے تیارکیے، کال اپ نوٹسزپرحسن اور حسین نوازکے بیرون ملک ایڈریس نہیں لکھے۔

    احتساب عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے آغاز پر معزز جج نے خواجہ حارث سے استفسار کیا تھا کہ نواز شریف اپنا 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے تیار ہیں؟۔

    خواجہ حارث نے جواب دیا تھا کہ جی نہیں، نوازشریف آج بیان کے لیے تیار نہیں ہیں۔

    نوازشریف کے وکیل کا کہنا تھا کہ ہمارے پچھلے بیان پرکچھ اعتراضات ہیں وہ ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں، جج ارشد ملک نے کہا تھا کہ اعتراضات اگر لکھے ہوئے ہیں تو دے دیں۔

    احتساب عدالت کے جج نے کہا تھا کہ اعتراضات علیحدہ سے لکھوا کرحصہ بنا لیتے ہیں، خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ دو تین چیزیں ہیں وہ لکھوا دیتے ہیں۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی، خواجہ حارث کل بھی تفتیشی افسر پر جرح جاری رکھیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر معزز جج نے خواجہ حارث سے استفسار کیا کہ نواز شریف اپنا 342 کا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے تیار ہیں؟۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ ہمارے پچھلے بیان پرکچھ اعتراضات ہیں وہ ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں، جج ارشد ملک نے کہا کہ اعتراضات اگر لکھے ہوئے ہیں تو دے دیں۔

    احتساب عدالت کے جج نے کہا کہ اعتراضات علیحدہ سے لکھوا کرحصہ بنا لیتے ہیں، خواجہ حارث نے کہا کہ دو تین چیزیں ہیں وہ لکھوا دیتے ہیں، ابھی جرح شروع کرلیتے ہیں بعد میں سپریم کورٹ بھی جانا ہے۔

    خواجہ حارث نے جواب دیا کہ جی نہیں، نوازشریف آج بیان کے لیے تیار نہیں ہیں، وکیل صفائی استغاثہ نے آخری گواہ تفتیشی افسرمحمد کامران پر جرح کی۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ کیا یہ درست ہے کہ نیب میں پہلے شکایت کا جائزہ لیا جاتا ہے، یہ درست ہے کہ مجاز اتھارٹی شکایت کا جائزہ لیتی ہے۔

    تفتیشی افسر نے کہا کہ شکایت کا جائزہ لیا جاتا ہےکہ کارروائی کرنی ہے یا نہیں جبکہ شکایت پر مزید کارروائی کا فیصلہ چیئرمین نیب کرتے ہیں۔

    محمد کامران نے کہا کہ چیئرمین کبھی کسی ڈی جی کوبھی فیصلےکا اختیار دے دیتے ہیں، پہلے مرحلے میں شکایت کی تصدیق کی جاتی ہے، دوسرے مرحلے میں انکوائری شروع ہوتی ہے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ چیئرمین یا ڈی جی نیب تفتیشی افسرکوانکوائری کا کہتے ہیں، شواہد حاصل کر کے رپورٹ مجازاتھارٹی کے سامنے رکھی جاتی ہے۔

    تفتیشی افسرنے کہا کہ میں نے 28 جولائی 2017 کا سپریم کورٹ کا فیصلہ پڑھا تھا، سپریم کورٹ نے فلیگ شپ کا ریفرنس دائرکرنے کا کہا تھا۔

    محمد کامران نے کہا کہ درست ہےعدالتی فیصلے کے بعد ریفرنس دائرکرنے کے علاوہ آپشن نہیں تھا، نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانونی نوعیت کے سوالات تفتیشی افسرسے نہیں پوچھے جاسکتے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ تفتیشی افسرقانونی ماہرنہیں ان سے ایسے سوالات نہیں پوچھے جاسکتے، تفتیشی افسر نے کہا کہ میری تفتیش کی بنیاد پریہ ریفرنس دائرکیا گیا۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی، خواجہ حارث کل بھی تفتیشی افسر پر جرح جاری رکھیں گے۔

    احتساب عدالت نےنیب کونئی دستاویزات پیش کرنےکی اجازت دے دی

    عدالت میں گزشتہ سماعت پر نواز شریف کو بیان قلم بند کرانے کے لیے 50 سوالات دیے گئے تھے۔ العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں استغاثہ کے تمام گواہوں کے بیان ریکارڈ ہو چکے ہیں۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • نواز شریف کے خلاف العزیزیہ، فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت آج ہوگی

    نواز شریف کے خلاف العزیزیہ، فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت آج ہوگی

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ، فلیگ شپ انویسمنٹ ریفرنسز کی سماعت آج ہوگی۔

    تفصیلات کے مطابق آج احتساب عدالت میں نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اور فلیگ شپ ریفرنسز کی سماعت ہوگی، سابق وزیرِ اعظم آج بھی عدالت میں پیش ہو کر بیان قلم بند کرائیں گے۔

    [bs-quote quote=”گزشتہ سماعت میں نواز شریف کو بیان قلم بند کرانے کے لیے 50 سوالات دیے گئے تھے” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    گزشتہ سماعت میں نواز شریف کو بیان قلم بند کرانے کے لیے 50 سوالات دیے گئے تھے۔ العزیزیہ اسٹیل مل ریفرنس میں استغاثہ کے تمام گواہوں کے بیان ریکارڈ ہو چکے ہیں۔

    جب کہ فلیگ شپ ریفرنس میں نیب تفتیشی افسر محمد کامران کا بیان قلم بند ہو چکا ہے جس پر نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث جرح کریں گے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کیس کی سماعت کریں گے۔ خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کا وقت دے رکھا ہے۔


    یہ بھی پڑھیں:  نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس میں پچھلی  سماعت میں کیا ہوا؟


    واضح رہے کہ پچھلی سماعت میں تفتیشی افسر نے نواز شریف کے صاحب زادے حسن نواز کی کمپنیوں کی ملکیتی جائیداد کی تفصیلات پیش کیں۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ حسن نواز کی 18 کمپنیوں کے نام پر 17 فلیٹس اور دیگر پراپرٹیز ہیں۔

  • آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل: شہبازشریف کے جسمانی ریمانڈ میں 14دن کی توسیع

    آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل: شہبازشریف کے جسمانی ریمانڈ میں 14دن کی توسیع

    لاہور: احتساب عدالت نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل کیس کے ملزم سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کے جسمانی ریمانڈ میں 14 دن کی توسیع کردی۔

    تفصیلات کے مطابق قومی احتساب بیورو( نیب) نے آشیانہ اسکینڈل کیس کے ملزم شہبازشریف کو سید نجم الحسن کی عدالت میں پیش کیا گیا۔

    عدالت میں ملزم شہباز شریف کی پیشی پر کمرہ عدالت میں وکلا کے نعروں پر معزز جج نے کہا کہ اس شور شرابے میں کیسے کیس کی سماعت کروں گا۔

    احتساب عدالت میں سماعت کے آغاز پرنیب کے وکیل نے شہبازشریف کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ گزشتہ ریمانڈ میں اسمبلی اجلاس کی وجہ سے تفتیش نہ ہوسکی۔

    نیب نے شہبازشریف کے جسمانی ریماند میں 15 دن کی توسیع کی استدعا کی، شہبازشریف نے عدالت میں کہا کہ حلفاً کہتا ہوں پروڈکشن آرڈرکے دوران بھی مجھ سے تفتیش کرتے رہے۔

    تفتیشی افسر نے عدالت کو بتایا کہ ملزم شہبازشریف نے انہیں دھمکی دی جس پر شہبازشریف نے کہا کہ میں نے کوئی دھمکی نہیں دی الزام غلط ہے۔

    معزز جج نے دوران سماعت حمزہ شہباز کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سمجھائیں انہیں، عدالت کا ماحول خراب نہ کریں، حمزہ شہبازنے کہا کہ ہنگامہ آرائی کرنے والے کارکنان نہیں بلکہ وکلا ہیں۔

    شہبازشریف کے وکیل نے دوران سماعت دلائل دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے آج تک کوئی ثبوت عدالت میں پیش نہیں کیا، جیسے تفتیش کی اس کے بعد جسمانی ریمانڈ کی کوئی وجہ نہیں بنتی۔

    نیب کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ احد چیمہ نے ایک جعلی فزیبلٹی رپورٹ بنائی، شہبازشریف نے کہا کہ میں نے توبتایا فزیبلٹی رپورٹ سے میرا کوئی تعلق نہیں۔

    عدالت نے آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں شہبازشریف کے جسمانی ریمانڈ میں 14 دن کی توسیع کرتے ہوئے 24 نومبر کو دوبارہ پیش کرنے کا حکم دے دیا۔

    شہبازشریف سے حمزہ شہباز کی ملاقات


    احتساب عدالت میں حمزہ شہباز نے اپنے والد شہبازشریف سے ملاقات کی اور ان کی طبعیت کے بارے میں دریافت کیا جس پر انہوں نے کہا کہ طبیعت اب بہترہے، بے بنیاد کیسزہیں بری ہوں گا۔

    اس سے قبل آج صبح قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہبازشریف کو پی آئی اے کی پرواز پی کے651 میں اسلام آباد سے لاہورلایا گیا۔

    یاد رہے کہ اس سے قبل 29 اکتوبر کو قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈراورسابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو آشیانہ اسکینڈل کیس میں احتساب عالت کے روبرو پیش کیا تھا۔

    قومی احتساب بیورو (نیب) نے آشیانہ اسکینڈل کیس کے ملزم اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے مزید 15 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی تھی جس پر عدالت نے ان کے ریمانڈ میں 7 نومبر تک توسیع کردی تھی۔

    کرپشن کیس: نیب نے شہبازشریف کو گرفتار کرلیا

    واضح رہے نیب لاہور نے گزشتہ ماہ 5 اکتوبر کو شہباز شریف کو صاف پانی کیس میں طلب کیا تھا تاہم ان کی پیشی پرانہیں آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    بعد ازاں اگلے روز شہباز شریف کو احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں انہیں جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا گیا تھا۔

  • فلیگ شپ ریفرنس: احتساب عدالت نےنیب کونئی دستاویزات پیش کرنےکی اجازت دے دی

    فلیگ شپ ریفرنس: احتساب عدالت نےنیب کونئی دستاویزات پیش کرنےکی اجازت دے دی

    اسلام آباد : احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس میں نیب کو نئی دستاویزات پیش کرنے کی اجازت دے دی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جج محمد ارشد ملک کررہے ہیں۔

    نیب کے تفتیشی افسر محمد کامران آج مسلسل چوتھے روز اپنا بیان قلمبند کروا رہے ہیں۔ وکیل خواجہ حارث کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

    خواجہ حارث نے نوازشریف کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی جس میں موقف اپنایا گیا کہ سیکیورٹی خدشات کے باعث نوازشریف پیش نہیں ہوسکتے۔

    احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کی آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرلی۔

    نیب کے اضافی دستاویزات ریکارڈ پرلانے کے لیے دائردرخواست پرسماعت کے دوران خواجہ حارث اورنیب پراسیکیوٹرکی جانب سے دلائل دیے گئے۔

    خواجہ حارث نے احتساب عدالت سے 342 کے بیان کے سوالات کی کاپی حاصل کرنے کی استدعا کی جس کی نیب پراسیکیوٹر کی جانب سے مخالفت کی گئی۔

    سردار مظفرعباسی نے کہا کہ 342 کا بیان ملزم کا ہے پہلےسے سوالات نہیں دیے جاسکتے، اس طرح توہم بھی گواہ کوپہلے سے سب سوالات سمجھا دیں گے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سوال نامہ ملزم کودیا گیا تولیگل ٹیم کی مشاورت سے مکمل تیاری سے آئے گا، خواجہ حارث نے کہا کہ جب آپ بحث ختم کرلیں توبتا دیں۔

    سردارمظفرعباسی نے کہا کہ آپ بھی ساتھ ساتھ بحث کرلیں، خواجہ حارث نے کہا کہ ہم نے ریفرنس نمبر 18 کی کاپی کے لیے درخواست دی ہے۔

    خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹر کے درمیان تلخ کلامی


    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ میڈیا سے معلوم ہوا سوال نامہ نیب کے پاس موجود ہے، یہ ثابت کریں اگر خبرغلط ہے تومیں الفاظ واپس لوں گا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیاء آدھا آدھا گھنٹہ ریکارڈ دیکھ کرجواب لکھواتے رہے، ہماری باری میں نیب کوپیٹ میں درد ہوجاتا ہے۔

    نیب پراسیکیوٹرنے کہا کہ آپ ذاتی حملےکررہے ہیں، ہم قانون پرعمل کریں گے، معزز جج نے خواجہ حارث کو روک دیا اور کہا کہ یہ لڑائی والی بات نہیں اب ختم کریں۔

    معزز جج نے کہا کہ نیب پراسیکیوٹرواثق ملک کوبلا لیں، انہوں نے خواجہ حارث کو کہا کہ آپ جاسکتے ہیں معاون وکیل عدالت میں موجود رہیں۔

    عدالت نے نیب کو نئی دستاویزات پیش کرنے کی اجازت دے دی


    احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس میں نیب کو نئی دستاویزات پیش کرنے کی اجازت دے دی۔

    معزز جج ارشد ملک نے نیب کی جانب سے نئی دستاویزات پیش کرنے سے متعلق درخواست پر فیصلہ سناتے ہوئے نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث کا اعتراض مسترد کرتے ہوئے نیب کی درخواست منظور کی۔

    دوسری جانب عدالت نے خواجہ حارث کی سوال نامہ دینے سے متعلق درخواست منظور کرلی، معززجج نے ریمارکس دیے کہ پہلے50 سوال آپ کو فراہم کر دیتے ہیں، باقی سوالات ساتھ ساتھ چلیں گے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ ہمیں کہا گیا سوالنامہ نیب کے پاس ہے، ہمارا اس دستاویز سے کوئی تعلق نہیں، معاملہ عدالت کا ہے یہیں ڈسکس ہونا چاہیے۔

    سردار مظفرعباسی نے کہا کہ خواجہ صاحب خود خبر پلانٹ کرتے ہیں بعد میں مکر جاتے ہیں۔

    خواجہ حارث کو سوال نامہ فراہم کردیا گیا، ابتدائی طور پرملزم نوازشریف کو50 سوالوں پر مشتمل سوال نامہ دیا گیا ہے۔

    العزیزیہ اسٹیل ملزریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف پیرکو بطورملزم 342 کا بیان قلمبند کرائیں گے۔

    عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے دوران کامران احمد نے نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز کی کمپنیوں کی ملکیتی جائیداد کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ حسن نواز کی 18 کمپنیوں کے نام پر17 فلیٹس اوردیگرپراپرٹیز ہیں۔

    نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں درخواست دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ایک ایم ایل اے معصول ہوا ہے ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

    معاون وکیل کا کہنا تھا کہ خواجہ حارث اس پردلائل دیں گے، یہ کوئی طریقہ نہیں تفتیشی افسر کے بیان کے دوران نئی درخواست آگئی۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔

  • اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ضمنی ریفرنس کی سماعت 14 نومبرتک ملتوی

    اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ضمنی ریفرنس کی سماعت 14 نومبرتک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ضمنی ریفرنس پرسماعت 14 نومبر تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ضمنی ریفرنس پرسماعت کی۔ استغاثہ کے گواہ طارق جاوید پرقاضی مصباح نے جرح کی۔

    گواہ طارق جاوید نے سماعت کے آغاز پرعدالت کو بتایا کہ نیب نے براہ راست مجھے کوئی خط نہیں لکھا جس پر قاضی مصباح نے سوال کیا کہ کیا 23 اگست 2017 کوآپ 6 بارنیب آفس گئے تھے۔

    استغاثہ کے گواہ نے جواب دیا کہ نہیں، میں اس دن ایک بارنیب آفس گیا تھا۔ پراسیکیوٹرنیب نے کہا کہ ان کا ازخود بیان نکال دیتے ہیں، کنفیوژن پیدا کررہا ہے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کہا کہ ازخود بیان ہوناہی نہیں چاہیے اس کی جگہ ری ایگزامن ہونا چاہیے، وکیل نے کہا کہ درست کہہ رہے ہیں، گواہ کا بیان ختم ہونے پراستغاثہ کا کام ختم ہوجاتا ہے۔

    قاضی مصباح نے کہا کہ جرح میں گواہ نے صرف وہی بتانا ہوتا ہے جواس سے پوچھا جائے، استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ میرے فراہم کیے گئے کورنگ لیٹرکی بنیاد پر تفتیشی نے کورنگ میمو بنایا۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثہ جات ضمنی ریفرنس پرسماعت 14 نومبر تک ملتوی کردی، آئندہ سماعت پربھی استغاثہ کے گواہ پرسعید احمد کے وکیل جرح کریں گے۔

    یاد رہے کہ گزشتہ سماعت پر سابق صدر نیشنل بینک سعید احمد کی جانب سے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائرکی گئی تھی، عدالت نے ان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظورکی تھی۔

  • احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی

    احتساب عدالت نے فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی کردی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    تفتتیشی افسر کامران احمد کا بیان قلمبند کیا گیا جبکہ نوازشریف کی جانب سے معاون وکیل نے حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی۔

    درخواست میں کہا گیا کہ آج بیگم کلثوم نوازکے لیے دعا، قرآن خوانی ہے، نوازشریف نہیں آسکتے۔

    حسن نوازکی آف شورکمپنیوں کی اسٹیٹمنٹ عدالت میں پیش کردی گئیں، تفتیشی افسر نے بتایا کہ آف شورکمپنیوں کا ریکارڈ کمپنیز ہاؤس لندن سے حاصل کیا گیا ہے۔

    نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں درخواست دائر کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایک ایم ایل اے معصول ہوا ہے ریکارڈ کا حصہ بنایا جائے۔

    معاون وکیل نے عدالت میں کہا کہ خواجہ حارث اس پردلائل دیں گے، یہ کوئی طریقہ نہیں تفتیشی افسر کے بیان کے دوران نئی درخواست آگئی۔

    خواجہ حارث کے وکیل نے کہا کہ خواجہ حارث یہاں موجود بھی نہیں ہیں، نیب پراسیکیوٹرسردار مظفرعباسی نے کہا کہ آپ درخواست پربحث کرلیں یا پھراپنا وکالت نامہ واپس لے لیں۔

    معاون وکیل محمد زبیر نے کہا کہ یہ طریقہ نہیں ہمیں وکالت نامے واپس لینے کا مشورہ دیتے ہیں، ہمیں کوئی پیشگی نوٹس نہیں دیا گیا۔

    معزز جج نے معاون وکیل کو ہدایت کی کہ خواجہ حارث سے رابطہ کریں ان کوبلالیں، پہلے بیان جاری رکھیں درخواست بعد میں دیکھتے ہیں۔

    احتساب عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے دوران کامران احمد کا کہنا تھا کہ کمپنیز ہاؤس لندن میں حسن نواز کی کمپنیوں کے ریکارڈ کے لیے درخواست دی۔

    تفتیشی افسر کا کہنا تھا کہ ریکارڈ کی فراہمی کے لیے ادا کی گئی فیس ضمنی ریفرنس کا حصہ ہے۔ کمپنیز ہاؤس میں حسن نواز کی 10 کمپنیوں کے ریکارڈ کے لیے درخواست دی۔

    کامران احمد نے نواز شریف کے صاحبزادے حسن نواز کی کمپنیوں کی ملکیتی جائیداد کی تفصیلات پیش کرتے ہوئے کہا تھا کہ حسن نواز کی 18 کمپنیوں کے نام پر 17 فلیٹس اوردیگرپراپرٹیز ہیں۔

    واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ ریفرنسز کا ٹرائل مکمل کرنے کے لیے 17 نومبر تک کی مہلت دے رکھی ہے۔