Tag: احتساب عدالت

  • نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کررہے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف عدالت میں موجود ہیں جبکہ ان کے وکیل استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء پر آج بھی جرح کررہے ہیں۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی نے تسلی کرلی قطر سے آنے والاخط حماد بن جاسم کا ہی ہے، 15 جون 2017 سے پہلے10 گواہان کے بیان ریکارڈ کیے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ حسن، حسین نواز، طارق شفیع ، سعید احمد اورعمر چیمہ شامل تھے، 10 گواہان میں سے کسی نے سوالنامہ پہلے بھیجنے کی درخواست نہیں کی۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ قطری کی جانب سے سوالنامہ پہلے بھیجنے کی فرمائش کی گئی، جے آئی ٹی کا فیصلہ تھا پیشگی سوالنامہ کسی کونہیں بھیجا جائے گا۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ کوخط لکھا تھا حماد بن جاسم بیان کے لیے راضی ہیں، واجد ضیاء نے کہا کہ یہ بات درست ہے جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ کوخط لکھا تھا۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ عدالت نے جواب دیا جے آئی ٹی فیصلہ کرے بیان کہاں ریکارڈ کرنا ہے، حماد بن جاسم نے سوال نامہ پہلے فراہم کرنے کوکہا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی نے فیصلہ کیا کسی کوسوال نامہ پہلے فراہم نہیں کریں گے۔

    عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے دوران استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ ایم ایل اے میں یو اے ای حکام سے قانونی سوالات پوچھے تھے۔ خواجہ حارث نے دریافت کیا تھا کہ کیا یہ درست ہے پہلا سوال کوئی قانونی نہیں بلکہ حقائق سے متعلق تھا۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ جی یہ درست ہے پہلے سوال میں صرف حقائق پوچھے تھے۔ دوسرا سوال بھی حقائق سے متعلق تھا۔ قانونی سوالات باہمی قانونی تعاون کے تحت خط وکتابت کے تناظر میں کہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے دریافت کیا تھا کہ نیب قوانین کی کس شق کے تحت آپ نے یہ ایم ایل اے بھیجا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسے سوالات گواہ سے نہیں پوچھے جا سکتے۔

  • ہم میں سے کسی نے این آراو کیلئے رابطہ نہیں کیا، نوازشریف

    ہم میں سے کسی نے این آراو کیلئے رابطہ نہیں کیا، نوازشریف

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ ملکی حالات عوام دیکھ رہے ہیں، ہم میں سے کسی نےاین آراوکیلئے رابطہ نہیں کیا، این آراو کا الزام لگا رہے ہیں تو اس کا نام بھی لیں۔

    تفصیلات کے مطابق سابق وزیراعظم نواز شریف نے پیشی کے موقع پر احتساب عدالت کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا  ایک تشنگی رہ گئی،وہ آخری سانسیں لے رہی تھی اور میں قید خانے کی سلاخوں کے پیچھے بند تھا، ابھی تک صدمے کی کیفیت سے باہر نہیں آسکے۔

    نوازشریف کا کہنا تھا کہ ہم میں سے کسی نے این آراوکیلئے رابطہ نہیں کیا، این آراو کا الزام لگا رہے ہیں تو جرات کرکے اس کا نام بھی لیں۔

    سابق وزیراعظم نے کہا  ملکی حالات عوام دیکھ رہےہیں، مولانافضل الرحمان گزشتہ روز ملاقات کیلئے آئے ان کا احترام ہے، ان سے جو باتیں ہوئی وہ پبلک میں نہیں کرنا چاہتا۔

    ان کا کہنا تھا کہ شہبازشریف کوصاف پانی کیس میں بلایاگیا اور آشیانہ میں گرفتارکیاگیا، جب آشیانہ میں کچھ نہیں ملا تو اب ایک اور کیس بنایا جا رہا ہے، شہباز شریف کو کہا جارہا ہے آپ کے اثاثےآمدن سے مطابقت نہیں رکھتے۔

    کرپشن کے الزام میں گرفتار شہباز شریف کے حوالے سے نواز شریف نے کہا شہبازشریف نےدن رات محنت سےکام کیاہے، انھوں نے جو محنت کی اس کے ثمرات ملکی سطح پردیکھےگئے، شہبازشریف نےوہ کام کیےجوآج تک کسی وزیراعلیٰ نےنہیں کیے۔

    ان کا کہنا تھا کہ بڑے افسوس کی بات ہےہم ملک کوکس طرح لےکرجارہے ہیں۔

  • نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔ نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث استغاثہ کے گواہ واجد ضیا پر جرح کر رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کی۔

    نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کے سربراہ اور استغاثہ کے گواہ واجد ضیا پر جرح کر رہے ہیں۔

    سابق وزیر اعظم نواز شریف بھی کمرہ عدالت میں موجود ہیں۔

    سماعت میں متحدہ عرب امارات حکام کو لکھا گیا ایم ایل اے عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیا گیا۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیا نے کہا کہ ایم ایل اے میں یو اے ای حکام سے قانونی سوالات پوچھے تھے۔ وکیل نے دریافت کیا کہ کیا یہ درست ہے پہلا سوال کوئی قانونی نہیں بلکہ حقائق سے متعلق تھا۔

    واجد ضیا نے کہا کہ جی یہ درست ہے پہلے سوال میں صرف حقائق پوچھے تھے۔ دوسرا سوال بھی حقائق سے متعلق تھا۔ قانونی سوالات باہمی قانونی تعاون کے تحت خط و کتابت کے تناظر میں کہے۔

    خواجہ حارث نے دریافت کیا کہ نیب قوانین کی کس شق کے تحت آپ نے یہ ایم ایل اے بھیجا؟ جس پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایسے سوالات گواہ سے نہیں پوچھے جا سکتے۔

    واجد ضیا نے بتایا کہ حکومت نے جے آئی ٹی کو ایم ایل اے بھیجنے کی اتھارٹی دے رکھی تھی۔ وزارت قانون و انصاف نے ایم ایل اے لکھنے کا اختیار دیا تھا۔ سیکشن 21 کے تحت ایم ایل اے لکھنے کا اختیار دیا گیا۔

    جج نے وکیل سے کہا کہ خواجہ صاحب آپ صرف حقائق سے متعلق سوال پوچھیں تو بہتر ہے۔ کس قانون میں کیا ہے یہ سوالات گواہ سے کیا پوچھنے ہیں۔

    واجد ضیا نے کہا کہ میں نے پہلے سیکشن 21 پڑھا تھا۔ یہ وکیلوں والے سوالات ہیں۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ قانونی نکات سے متعلق سوالات گواہ سے نہیں پوچھے جا سکتے۔ واجد ضیا ہمارے گواہ ہیں کوئی قانونی ماہر نہیں۔

    عدالت نے نیب پراسیکیوٹر کا اعتراض منظور کرتے ہوئے خواجہ حارث کو گواہ سے صرف متعلقہ سوالات پوچھنے کی ہدایت کردی۔

    واجد ضیا نے مزید کہا کہ 13 مئی 2017 کو حماد بن جاسم کو جے آئی ٹی میں پیش ہونے کا خط لکھا، حماد بن جاسم نے پاکستان آ کر بیان ریکارڈ کروانے سے انکار کیا۔

    انہوں نے کہا کہ حماد بن جاسم نے لکھا آپ لوگ دوحہ آ کر بیان ریکارڈ کریں۔ حماد بن جاسم نے خط کے جواب میں کہا سوالنامہ پہلے فراہم کریں۔ ہم نے 24 مئی 2017 کو ایک اور خط حماد بن جاسم کو لکھا۔

    واجد ضیا کا کہنا تھا کہ حماد بن جاسم نے پھر پیش ہو کر بیان ریکارڈ کروانے سے انکار کر دیا۔ بعد میں قطری شہزادے نے قطر میں ملاقات پر مشروط رضا مندی ظاہر کی۔ سوالنامہ پہلے بھیجنے پر جے آئی ٹی رضا مند نہ ہوئی۔

    اس سے قبل 26 اکتوبر کو نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت میں وکیل زبیر خالد نے اخبار کی خبر پر نوٹس لینے کی استدعا کرتے ہوئے کہا تھا کہ منسٹر ہے جو آپ اور نواز شریف کی گرفتاری سے متعلق بیان دے رہا ہے۔

    معاون وکیل زبیر خالد نے کہا تھا کہ عدالت کو سو موٹو لینا چاہیئے۔ جج ارشد ملک نے کہا کہ میں اس معاملے کو دیکھ لیتا ہوں، آپ پر 302 کا کیس ہو تو آپ بھی کہنا شروع کردیں بری ہوجائیں گے۔

    بعد ازاں احتساب عدالت نے نواز شریف کے وکلا کو باقاعدہ درخواست دائر کرنے کی ہدایت کی تھی۔

  • شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں 7 نومبر تک توسیع

    شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں 7 نومبر تک توسیع

    لاہور: قومی احتساب بیورو (نیب) نے آشیانہ اسکینڈل کیس کے ملزم اور سابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کے مزید 15 دن کے جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی جس پر عدالت نے ان کے ریمانڈ میں 7 نومبر تک توسیع کردی۔

    تفصیلات کے مطابق قومی اسمبلی کے اپوزیشن لیڈراورسابق وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف آشیانہ اسکینڈل کیس میں احتساب عالت کے روبرو پیش ہوئے۔

    اس سے قبل احتساب عدالت شہباز شریف کو 30 اکتوبر تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کرچکی تھی تاہم 30 کو عام تعطیل کے باعث انہیں ایک روز پہلے یعنی 29 اکتوبر کو عدالت میں پیش کردیا گیا۔

    عدالت میں شہباز شریف نے بیان دیتے ہوئے کہا کہ نیب نے آشیانہ اسکینڈل میں تحویل میں لیا۔ آشیانہ، صاف پانی اور اثاثوں کے حوالے سے پوچھ گچھ کی گئی۔

    انہوں نے کہا کہ میں آج عدالت میں غلط اور جھوٹے الزامات کی بنا پر موجود ہوں۔ اللہ پاک مجھے ان جھوٹے الزامات میں سرخرو کرے گا۔

    شہباز شریف نے کہا کہ میں کینسر کا مریض تھا اور بیرون ملک سرجری کروائی، باربار نیب کو کہنے کے باوجود آج تک خون اورشوگر ٹیسٹ نہیں ہوئے۔ میں نے صبر و تحمل سے نیب کے سوالات کے جواب دیے، اہلخانہ سے ہفتہ وار ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی۔

    شہباز شریف نے کہا کہ مجھے ہراساں کیا جاتا ہے سوالات پر کہا جاتا ہے اوپر والوں کو بتا دیا ہے۔ صوبے کی خدمت کی، میرے اس قصور کی وجہ سے مجھے تنگ کیا جا رہا ہے۔

    نیب کے وکیل نے کہا کہ شہباز شریف سے متعلق نئے حقائق سامنے آئے ہیں، احد چیمہ نے آشیانہ کے حوالے سے تمام معاملات دیکھے۔ من پسند افراد کو 8 ارب روپے کا فائدہ پہنچایا جا رہا تھا۔

    شہباز شریف نے کہا کہ دس بار جن سوالات کا جواب دے چکا، انہی کے لیے ریمانڈ مانگا جا رہا ہے، مجھ سے جو پوچھا گیا میں نے اپنے علم کے مطابق اس کا جواب دیا، کوئی دن ایسا نہ گزرا جب صاف پانی اور آشیانہ سے متعلق نہ پوچھا گیا ہو۔

    انہوں نے کہا کہ جو حقائق سامنے رکھوں گا عدالت ان سے جان جائے گی کہ سچ کیا ہے۔

    نیب کے وکیل نے شہباز شریف کے بیان دینے پر اعتراض کیا جس پر جج نے کہا کہ آپ کو کیا مسئلہ ہے عدالت بیان کی اجازت دیتی ہے۔

    شہباز شریف نے کہا کہ پی ایل ڈی سی نے آشیانہ کی دوبارہ نیلامی کی اس سے میرا تعلق نہیں تھا۔ میں نے آشیانہ کی فزیبلٹی رپورٹ تیار نہیں کی۔

    انہوں نے کہا کہ نیب والے گزشتہ بار ڈھکوسلہ لے کر عدالت آئے۔ نیب عدالت سے بھی جھوٹ بول رہا ہے۔

    وکیل نیب نے کہا کہ ہم نے دن رات تحقیقات کیں۔ ان کا کہنا تھا کہ شہباز شریف 3 بار وزیر اعلیٰ رہے، تحقیقات میں تعاون نہیں کررہے۔ شہباز شریف سے جو پوچھا جائے جواب دینے کے بجائے الٹا سوال کر دیتے ہیں۔

    احتساب عدالت نے فریقین کے دلائل سننے کے بعد شہباز شریف کے جسمانی ریمانڈ میں 7 نومبر تک توسیع کردی۔

    خیال رہے نیب لاہور نے رواں ماہ 5 اکتوبر کو شہباز شریف کو صاف پانی کیس میں طلب کیا تھا تاہم ان کی پیشی پر انہیں آشیانہ ہاؤسنگ اسکینڈل میں کرپشن کے الزام میں گرفتار کرلیا گیا تھا۔

    بعد ازاں اگلے روز شہباز شریف کو احتساب عدالت میں پیش کیا گیا تھا جہاں انہیں جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کردیا گیا تھا۔

    نیب کے مطابق سابق وزیر اعلیٰ پنجاب نے آشیانہ اسکیم کے لیے لطیف اینڈ کمپنی کا ٹھیکہ غیر قانونی طور پرمنسوخ کروا کے پیراگون کی پراکسی کمپنی کاسا کو دلوایا تھا۔

    قومی احتساب بیورو کے مطابق شہبازشریف نے پی ایل ڈی سی پر دباؤ ڈال کر آشیانہ ہاؤسنگ اسکیم کا تعمیراتی ٹھیکہ ایل ڈی اے کو دلوایا اور پھر یہی ٹھیکہ پی ایل ڈی سی کو واپس دلایا جس سے قومی خزانے کو 71 کروڑ روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔

  • نیب شہباز شریف کو کل صبح ساڑھے 8 بجے احتساب عدالت میں پیش کرے گی

    نیب شہباز شریف کو کل صبح ساڑھے 8 بجے احتساب عدالت میں پیش کرے گی

    لاہور: قومی احتساب بیورو (نیب) قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو کل صبح ساڑھے 8 بجے احتساب عدالت میں پیش کرے گی۔

    تفصیلات کے مطابق نیب نے شہباز شریف کو کل صبح ساڑھے آٹھ بجے احتساب عدالت میں پیش کرنے کی تیاری کر لی، خصوصی طیارے کا انتظام بھی کیا جا رہا ہے۔

    [bs-quote quote=”شہباز شریف کی اسلام آباد منتقلی کے لیے خصوصی طیارے کا انتظام کیا جا رہا ہے: ذرائع” style=”style-7″ align=”left” color=”#dd3333″][/bs-quote]

    نیب احتساب عدالت سے شہباز شریف کا راہداری ریمانڈ حاصل کرے گی۔ احتساب عدالت پہلے ہی شہباز شریف کو 30 اکتوبر تک جسمانی ریمانڈ پر نیب کے حوالے کر چکی تھی۔

    ذرائع کا کہنا ہے کہ احتساب عدالت میں پیشی کے سلسلے میں شہباز شریف کی اسلام آباد منتقلی کے لیے خصوصی طیارے کا انتظام بھی کیا جا رہا ہے۔

    خصوصی طیارہ نہ ملنے پر دستیاب فلائٹ کے ذریعے اسلام آباد لایا جائے گا، ذرائع کے مطابق پی ایم ایل این کے صدر کے ساتھ نیب کے 2 افسران جائیں گے۔


    یہ بھی پڑھیں:  شہباز شریف سے تحقیقات اہم مرحلے میں: خاندان کو ملاقات کی اجازت نہیں مل سکی


    ذرائع کا کہنا ہے کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ختم ہونے پر شہباز شریف کو دوبارہ لاہور لائے جانے کا امکان ہے۔

    خیال رہے آج قومی احتساب بیورو (نیب) نے زیرِ حراست اپوزیشن لیڈر شہباز شریف سے شریف خاندان کو ملاقات کی اجازت نہیں دی، نیب کا کہنا تھا کہ شہباز شریف سے تحقیقات اہم مرحلے میں ہیں، عدالت میں پیشی کے بعد ملاقات کی جا سکتی ہے۔

  • یہ کہنا غلط ہے جفزا سے حاصل دستاویزات میں جعلسازی کی گئی‘ واجد ضیاء

    یہ کہنا غلط ہے جفزا سے حاصل دستاویزات میں جعلسازی کی گئی‘ واجد ضیاء

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کیس کی سماعت کل تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف احتساب عدالت میں پیش ہوئے جبکہ ان کے وکیل خواجہ حارث جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پرمسلسل چوتھے روز جرح کی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ حسن نوازسے فنانشل اسٹیٹمنٹ کے بارے میں پوچھا تھا، حسن نوازنے کہا فنانشل اسٹیٹمنٹ ان کےاکاؤنٹینٹ نے تیارکیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے بتایا کہ حسن نوازنے کہا فنانشل اسٹیٹمنٹ پوری طرح نہیں پڑھی، کوئنٹ پنڈگٹن کی فنانشل اسٹیٹمنٹ کس نے تیارکی یہ نہیں پوچھا۔

    انہوں نے کہا کہ حسن نوازکے کسی اکاؤنٹینٹ کوشامل تفتیش نہیں کیا، حسن نوازنے کہا کیپٹل ایف زیڈ ای کے لیے رقم کا انتظام انہوں نے کیا، حسن نوازکے مطابق یہی رقم بعد میں کوئنٹ پنڈگٹن کودی گئی۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ جفزا دستاویزات کے مطابق نوازشریف کیپٹل ایف زیڈ ای کے ملازم تھے، نوازشریف کیپٹل ایف زیڈ ای میں بورڈ چیئرمین ملازمت کرتے تھے۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ گورنیکا سے حاصل سورس دستاویزات کی اصل کاپیاں پیش کیں، دستاویزات پر واضح لکھا ہے یہ سورس دستاویزات ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ خواجہ حارث بتائیں اس میں کہاں ٹمپرنگ ہے جس پر نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ آپ نے جو اصل کام کیا ہے وہ بھی بتائیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ ٹمپرنگ کا لفظ آپ کے لیے زندگی موت کا مسئلہ ہے توضرورلکھیں، اصل دستاویزات کی جگہ فوٹوکاپیاں حقائق چھپانے کے لیے نہیں لگائیں۔

    استغاثہ کے گواہ واجد ضیاء نے کہا کہ یہ کہنا غلط ہے جفزا سے حاصل دستاویزات میں جعلسازی کی گئی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ واجد ضیاء کچھ ناراض نظرآرہے ہیں ، میں معذرت خواہ ہوں، ہمیشہ سخت سوال سے پہلے گواہ سے معذرت کرلیتا ہوں۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ نوازشریف 2006 سے 2014 کے دوران کیپٹل ایف زیڈ ای میں ملازم رہے، ایک دستاویزمیں نوازشریف کا عہدہ منیجرمارکیٹنگ درج ہے۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ دیگر2 ملازمت کے معاہدوں میں نوازشریف کا عہدہ چیئرمین بورڈ ہے۔

    احتساب عدالت نے سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے نو بجے تک ملتوی کردی۔

    عدالت میں گزشتہ روزسماعت کے دوران واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ جے آئی ٹی ٹیم نے تحریری طورپرکچھ نہیں لکھا تھا، خواجہ حارث نے سوال کیا تھا کہ جفزا اتھارٹی سے کون کون سے دستاویزات حاصل کیے؟۔

    جے آئی ٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ جودستاویزات جفزا سے حاصل کیے پہلے لکھوا چکا ہوں، گورنیکا انٹرنیشنل کی تصدیق اصل دستاویزات کی کاپیاں ہیں۔

    استغاثہ کے گواہ کا کہنا تھا کہ جےآئی ٹی نے گورنیکا کے کسی ممبرکو شامل تفتیش نہیں کیا، کیپٹل ایف زیڈ ای ٹریڈنگ لائسنس کاپی کے لیے جفزا کو درخواست نہیں دی۔

    چیف جسٹس کی نواز شریف کےخلاف ریفرنس نمٹانے کیلئےاحتساب عدالت کو 17 نومبر تک کی مہلت

    یاد رہے کہ 12 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس نمٹانے کے لیےاحتساب عدالت کو سترہ نومبر تک کی مزید مہلت دی تھی۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے بعد کوئی توسیع نہیں دی جائے گی سترہ نومبر تک کیسوں کا فیصلہ نہ ہوا تو عدالت اتوار کو بھی لگے گی۔

  • ملزم اسحاق ڈارہیں، میری ملکیت والا گھر ضبط نہیں کیا جاسکتا ،اہلیہ اسحاق ڈار

    ملزم اسحاق ڈارہیں، میری ملکیت والا گھر ضبط نہیں کیا جاسکتا ،اہلیہ اسحاق ڈار

    اسلام آباد : مفرور ملزم اسحاق ڈار کی اہلیہ نے جائیداد صوبائی حکومت کی تحویل میں دینے کا فیصلہ احتساب عدالت میں چیلنج کردیا اور کہ ملزم اسحاق ڈارہیں، میری ملکیت والا گھر ضبط نہیں کیا جاسکتا ، عدالت نے نیب پراسیکیوٹرعمران شفیق سے سات نومبرکودلائل طلب کر لئے۔

    تفصیلات کے مطابق آمدن سے زائد اثاثوں کے مقدمے میں مفروراسحاق ڈار کی جائیداد صوبائی حکومت کی تحویل میں دینے کے معاملے پر ملزم اسحاق ڈار کی اہلیہ نے احتساب عدالت میں اعتراضات دائرکر دیے۔

    تبسم اسحاق ڈار نے موقف اختیار کیا ہے کہ ملزم اسحاق ڈارہیں، لاہوروالا گھر تو میری ملکیت ہے، میری ملکیت والا گھر ضبط نہیں کیاجاسکتا۔

    تبسم اسحاق نے کہا گھر چودہ فروری انیس سو نواسی کو اسحاق ڈار نے حق مہر کے عوض گفٹ کیا، لاہور والے گھر کی میں اکیلی مالک ہوں، گلبرگ لاہور والا گھر حکومتی تحویل میں جانے سے میرا نقصان ہوگا۔

    ہجویری فاؤنڈیشن کی جانب سے بھی بینک اکاؤنٹ سے متعلق اعتراضات بھی دائر کئے گئے، جس میں کہا گیا ہے کہ اسحاق ڈار کے نام کا ایک اکاؤنٹ ہمارا ہے، فاؤنڈیشن کو اکاؤنٹس میں موجود فنڈز استعمال کرنے کی اجازت دی جائے۔

    مزید پڑھیں : اسحاق ڈارکی گاڑیاں اورجائیداد نیلام کرنے کا حکم

    عدالت نے اسحاق ڈار کی اہلیہ کی درخواست پر نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے اعتراضات کی کاپی نیب پراسیکیوٹر عمران شفیق کو فراہم کرتے ہوئے سات نومبر کو دلائل طلب کرلئے۔

    یاد رہے 2 اکتوبر کو احتساب عدالت نے سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی گاڑیاں اور جائیداد نیلام کرنے کا حکم دیا تھا۔

    احتساب عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ اسحاق ڈارکی قرق جائیداد نیلام کرنے کا اختیار صوبائی حکومت کو ہے، صوبائی حکومت کو اختیار ہے جائیدادیں نیلام کرے یا اپنے پاس رکھے۔

    واضح رہے کہ نیب نے اسحاق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں کا ریفرنس احتساب عدالت میں دائر کررکھا ہے جس میں انہیں مفرور قرار دیا جا چکا ہے۔

  • نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کل تک ملتوی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    تفصیلات کے مطابق نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے کی۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پرجرح کی۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جےآئی ٹی ٹیم نے بتایا دستاویزکے لیے جفزا اتھارٹی سے رابطہ کیا، کیا جے آئی ٹی ٹیم نے تحریری طورپر رابطہ کیا۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ جے آئی ٹی ٹیم نے تحریری طورپرکچھ نہیں لکھا تھا، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ جفزا اتھارٹی سے کون کون سے دستاویزات حاصل کیے؟۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ جودستاویزات جفزا سے حاصل کیے پہلے لکھوا چکا ہوں، گورنیکا انٹرنیشنل کی تصدیق اصل دستاویزات کی کاپیاں ہیں۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ جےآئی ٹی نے گورنیکا کے کسی ممبرکو شامل تفتیش نہیں کیا، کیپٹل ایف زیڈ ای ٹریڈنگ لائسنس کاپی کے لیے جفزا کو درخواست نہیں دی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈای کے کاروبارسے متعلق معلومات کی فراہمی کا نہیں کہا، مالک کیپٹل ایف زیڈای، ڈائریکٹرومجازدستخط کنندہ کی معلومات نہ لیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ایسی دستاویز نہیں لی جس سے ظاہرہو کیپٹل ایف زیڈای کب قائم کی گئی، یہ درست ہے ایون فیلڈریفرنس بیان کے وقت میں نے مختلف والنٹیئرکیا تھا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ میں نے کہا تھا جے آئی ٹی ممبران کیپٹل ایف زیڈ ای کا ریکارڈ لینے جفزا گئے، دبئی جانے والے جے آئی ٹی ممبران کوجفزا حکام کے نام خط دیا تھا۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ خط میں خاص طورپرٹریڈنگ لائسنس کے بارے میں نہیں لکھا تھا، جے آئی ٹی ممبران نے واپسی پربتایا جفزا حکام کو زبانی درخواست کی گئی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ حسن نواز3 جولائی2017 کو تیسری بارجے آئی ٹی میں پیش ہوئے، خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیا آپ نے حسن نوازسے پوچھا کیپٹل ایف زیڈ ای کا کاروبار کیا ہے۔

    نوازشریف کے وکیل نے سوال کیا کہ پوچھا کیپٹل ایف زیڈای کی ملکیت کسی اورکے پاس تونہیں؟ جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ ملکیت سے متعلق حسن نوازسے کوئی سوال نہیں پوچھا۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔

    عدالت میں گزشتہ روزسماعت کے دوران واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ ایک معاملہ کیپیٹل ایف زیڈ ای کی اصل ملکیت جاننا بھی تھا، فاضل جج نے فیصلے میں اضافی نوٹ لکھا کیپٹل ایف زیڈ ای کی ملکیت واضح نہیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ کا کہنا تھا کہ درست ہے دروان تفتیش ایک معاملہ کیپٹل ایف زیڈ ای کا تھا، جج نے کہا تھا کیپیٹل ایف زیڈ ای پرمزید وضاحت کی ضرورت ہے۔

    استغاثہ کے گواہ کا کہنا تھا کہ کیپٹل ایف زیڈای کا بینک کولکھا خط دبئی جانے والی ٹیم کے پاس تھا، درست ہے تینوں دستاویزات پردبئی کی اتھارٹی کی تصدیق نہیں۔

    چیف جسٹس کی نواز شریف کےخلاف ریفرنس نمٹانے کیلئےاحتساب عدالت کو 17 نومبر تک کی مہلت

    یاد رہے کہ 12 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس نمٹانے کے لیےاحتساب عدالت کو سترہ نومبر تک کی مزید مہلت دی تھی۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے بعد کوئی توسیع نہیں دی جائے گی سترہ نومبر تک کیسوں کا فیصلہ نہ ہوا تو عدالت اتوار کو بھی لگے گی۔

  • نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کیس کی سماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق نوازشریف کے خلاف فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک کررہے ہیں۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف آج احتساب عدالت میں موجود ہیں جبکہ وکیل صفائی خواجہ حارث جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء پرجرح کررہے ہیں۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ ایک معاملہ کیپیٹل ایف زیڈ ای کی اصل ملکیت جاننا بھی تھا، فاضل جج نے فیصلے میں اضافی نوٹ لکھا کیپٹل ایف زیڈ ای کی ملکیت واضح نہیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ درست ہے دروان تفتیش ایک معاملہ کیپٹل ایف زیڈ ای کا تھا، جج نے کہا تھا کیپیٹل ایف زیڈ ای پرمزید وضاحت کی ضرورت ہے۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ حسن نوازنے کہا کمپنی01-2002 کے درمیان بنی جب خاندان جلا وطن تھا، حسن نوازنے کنفرم کیا 6 لاکھ 50 ہزارپاؤنڈ کی ٹرانزیکشن کیپیٹل ایف زیڈ ای کوکی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ حسن نوازکے مطابق مخصوص حالات کے باعث قرض اسی رات واپس دیا گیا، حسن نوازنے کہا کوئنٹ پنڈگٹن کی پراپرٹی خسارے میں فروخت کرنا پڑی۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ حسن نوازنے کہا کوئنٹ پنڈگٹن نے کیپیٹل ایف زیڈای کوقرض واپس نہیں کیا، حسن نوازنے کہا وہ دبئی میں جائیداد خریدنا چاہتے تھے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ دبئی میں جائیداد کے لیے کیپیٹل ایف زیڈ ای کو6 لاکھ 50 ہزارپاؤنڈ دیے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ صفحات دیکھیں تو گواہ ہمارے ساتھ گیم کھیل رہے ہیں، واجد ضیاء کے ازخود بیان سے متعلق سوال پوچھ رہا ہوں۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ جوشخص 3 صفحات کو 100 صفحات بنا دے وہ کیا نہیں کرسکتا، صفحات سے متعلق ایسی بات کرنے پرمعذرت خواہ ہوں۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ میں نے حقائق بتا دیے ہیں، عدالت نے ریمارکس دیے کہ ڈسکرپشن سے متعلق سوال فضول سی بات لگ رہی ہے، آپ کا یہ سوال بنتا ہی نہیں اگلا سوال پوچھیں۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ میں سوال پوچھوں گا تو بات واضح ہوگی، احتساب عدالت نے ریمارکس دیے کہ ایک بات پرآپ 6 سوال پوچھ رہے ہیں۔

    نوازشریف کے وکیل نے کہا کہ میں نے سوال پوچھنا ہی پوچھنا ہے نہ پوچھوں گا توکیا ہوگا، واجد ضیاء نے کہا کہ یہ درست نہیں کہ ڈسکرپشن دی ہوئی ہے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ جوبات آپ کی جیب یا بیگ میں ہے وہ بھی نکلواؤں گا جس پر واجد ضیاء نے جواب دیا کہ پہلے آپ یہاں کی بات توبتائیں۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ اس دستاویزپر پہلے بھی پورا ایک دن جرح کرچکے ہیں، خواجہ حارث اس جرح کو دیکھ کر سوال کررہے ہیں۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ سورس دستاویزات میں 2 ٹریڈنگ لائسنس شامل ہیں، دونوں ٹریڈنگ لائسنس یکم اکتوبر2001 کو جاری ہوئے، دونوں ٹریڈنگ لائسنس کی مدت 30ستمبر 2013 تک تھی۔

    استغاثہ کے گواہ نے بتایا کہ یہ درست ہے ایک تیسرا ٹریڈنگ لائسنس بھی تھا، یہ درست ہے تیسرے لائسنس کورپورٹ کا حصہ نہیں بنایا گیا۔

    جے آئی ٹی سربراہ نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای کے اسسٹنٹ رجسٹرارکا بینک کولکھا خط بھی ہے، جےآئی ٹی ٹیم تصدیق کے لیے ٹریڈنگ لائسنس دبئی لے کرگئی۔

    واجد ضیاء نے کہا کہ رپورٹ کاحصہ بنائے گئے 2 میں سے ایک لائسنس دبئی لے کر گئے، تیسرا لائسنس جے آئی ٹی رپورٹ کا حصہ نہیں وہ بھی لے کر گئے۔

    استغاثہ کے گواہ نے کہا کہ کیپٹل ایف زیڈای کا بینک کولکھا خط دبئی جانے والی ٹیم کے پاس تھا، درست ہے تینوں دستاویزات پردبئی کی اتھارٹی کی تصدیق نہیں۔

    عدالت میں گزشتہ روز سماعت کے دوران خواجہ حارث نے سوال کیا تھا کہ آپ نے جبل علی فری ذون اتھارٹی سے کوئی سرٹیفکیٹ حاصل کیا کہ نوازشریف نے تنخواہ لی ؟ جس پر واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ میں نے جو دستاویز پیش کی ہے کہ وہ یہی ہے کہ تنخواہ لی گئی ہے۔

    عدالت میں گزشتہ روز فلیگ شپ ریفرنس کی سماعت کے دوران جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ نوازشریف کی کمپنی سے تنخواہ کا کوئی سرٹیفکیٹ نہیں ملا۔

    واجد ضیاء کا کہنا تھا کہ ہمارے نوٹس میں آیا تھا کہ کیپٹیل ایف زیڈ ای کی دستاویز متحدہ عرب امارات میں کسی قونصلیٹ سے تصدیق شدہ نہیں ہیں۔

    چیف جسٹس کی نواز شریف کےخلاف ریفرنس نمٹانے کیلئےاحتساب عدالت کو 17 نومبر تک کی مہلت

    یاد رہے کہ 12 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے نواز شریف کے خلاف العزیز یہ اور فلیگ شپ ریفرنس نمٹانے کے لیےاحتساب عدالت کو سترہ نومبر تک کی مزید مہلت دی تھی۔

    چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا تھا کہ اس کے بعد کوئی توسیع نہیں دی جائے گی سترہ نومبر تک کیسوں کا فیصلہ نہ ہوا تو عدالت اتوار کو بھی لگے گی۔

  • چاروزیراعظم پیش ہوچکے ہیں، پانچواں بھی احتساب عدالت آئے گا، یوسف رضا گیلانی

    چاروزیراعظم پیش ہوچکے ہیں، پانچواں بھی احتساب عدالت آئے گا، یوسف رضا گیلانی

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا ہے کہ احتساب ہونا چاہئے مگراحتساب کا ادارہ آزاد ہونا چاہے، چاروزیراعظم پیش ہوچکے ہیں، پانچواں وزیراعظم بھی احتساب عدالت آئے گا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف اشتہاری مہم کا غیر قانونی ٹھیکہ دینے کے نیب ریفرنس پر سماعت ہوئی، احتساب عدالت کے جج محمد ارشد ملک نے ریفرنس کی سماعت کی۔

    عدالت نے یوسف رضا گیلانی کو پہلے روسٹرم پر بلالیا، نیب پراسیکیوٹر عدالت میں پیش نہ ہوئے، سماعت میں یوسف گیلانی نے کہا آپ پہلےمیاں صاحب کاکیس سن لیں میں انتظار کرلیتا ہوں، جس پر جج نے کہا میاں صاحب کےکیس میں پورادن لگےگا۔

    عدالت نے یوسف گیلانی کا ریفرنس نوازشریف ریفرنس نمٹانے کے بعد سننے کا فیصلہ کرتے ہوئے سماعت 23 نومبر تک ملتوی کردی اور نیب کو یوسف گیلانی کی مستقل حاضری سے استثنیٰ کی درخواست پر دوبارہ نوٹس جاری کردیئے۔

    نیب ریفرنسز کی پیشی کے دوران یوسف رضا گیلانی اور نواز شریف کی ملاقات بھی ہوئی، اس موقع پر میڈیا سے گفتگو میں سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے کہا چار وزیراعظم عدالتوں میں پیش ہوچکے ہیں، پانچواں وزیراعظم بھی احتساب عدالت آئے گا۔

    سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ کئی سال سے نیب کورٹ آتے رہے ہیں، ابھی اوربھی وزیراعظم پیش ہوں گے، نیب کاادارہ بااختیاراور آزادہوناچاہئے، وزیراعظم کونہیں کہناچاہئےکہ میں فلاں کوپکڑوں گا۔

    یوسف رضا گیلانی نے کہا احتساب ہونا چاہئے مگراحتساب کا ادارہ آزاد ہونا چاہئے، 10 سال میں نے جیل مینوئل کے مطابق کاٹی، فیصلے حق میں ہوئے تو میرے 10سال کا جواب کون دے گا، مجھے باعزت بری کیا گیا تو میں وزیراعظم بن گیا۔

    یاد رہے گذشتہ سماعت میں احتساب عدالت نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو 10لاکھ کے مچلکے جمع کرانےکا حکم دیا تھا۔

    واضح رہے قومی احتساب بیورو (نیب) نے سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کے خلاف اپنے دور اقتدار میں اختیارات کے غلط استعمال کا ریفرنس درج کیا تھا۔

    نیب حکام کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی نے یو ایس ایف (یونیورسل سروس فنڈ) سے تشہیری مہم چلانے کی ہدایت کی، سابق سیکریٹری آئی ٹی فاروق اعوان نے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے تشہری مہم چلائی، ملزمان کے اقدام سے قومی خزانے کو 12 کروڑ روپے کا نقصان اُٹھانا پڑا۔