Tag: احتساب عدالت

  • ڈان لیکس کی وجہ سےسول ملٹری تناؤمیں اضافہ ہوا‘ مریم نواز

    ڈان لیکس کی وجہ سےسول ملٹری تناؤمیں اضافہ ہوا‘ مریم نواز

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران اپنا بیان ریکارڈ کروا رہی ہیں۔

    تفصیلات کےمطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکررہے ہیں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن صفدر احتساب عدالت میں موجود ہیں۔

    احتساب عدالت میں سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کی صاحبزادی مریم نواز کا بیان قلمبند کیا جا رہا ہے۔


    مریم نوازکا بیان قلمبند کیا جا رہا ہے


    مریم نواز نے سماعت کے آغازپراپنا بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا کہ میری عمر 44 سال ہے اور یہ بات درست ہے میرے والد عوامی عہدوں پررہے۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے عدالت کوبتایا کہ جےآئی ٹی اورجے آئی ٹی رپورٹ اس کیس سےغیرمتعلقہ ہیں۔

    مریم نواز نے عدالت کو بتایا کہ جے آئی ٹی کی تشکیل سپریم کورٹ میں درخواستیں نمٹانے کے لیے تھی، جے آئی ٹی سپریم کورٹ کی معاونت کے لیے تشکیل دی گئی۔

    سابق وزیراعظم کی بیٹی نے کہا کہ جےآئی ٹی کا اخذ نتیجہ اوررائےغیر مناسب اورغیرمتعلقہ ہے، رائے کوان حالات میں اس کیس میں میرے خلاف پیش نہیں کیا جاسکتا۔

    مریم نواز لکھے بیان میں کومہ اور فل اسٹاپ بھی پڑھنے لگیں جس پرمعزز جج محمد بشیر نے کہا کہ کومہ نہ پڑھیں، مریم نواز نے جواب دیا کہ میرے وکیل نے پڑھنے کو کہا میں نے پڑھ دیا۔

    انہوں نےعدالت کو بتایا کہ 20اپریل 2017 کے فیصلے میں میرا اورشوہرکا ذکرنہیں تھا جبکہ 5 مئی 2017 کوسپریم کورٹ کےحکم پر جے آئی ٹی تشکیل دی گئی۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ جےآئی ٹی کا اس ٹرائل سے کوئی تعلق نہیں ہے، جے آئی ٹی رکن بلال رسول کی اہلیہ پی ٹی آئی کی سرگرم سپورٹر ہیں اور وہ خود بھی ن لیگ کے مخالف ہیں۔

    مریم نواز نے کہا کہ آئین کا آرٹیکل 10 اے شفاف ٹرائل کا حق دیتا ہے، جے آئی ٹی پرتحفظات تھے، ارکان جانبدار تھے۔

    انہوں نے عدالت کوبتایا کہ بلال رسول کا تعلق ایس ای سی پی سے تھا اور وہ میاں اظہر کے بھانجے ہیں جبکہ بلال رسول اوران کا خاندان پی ٹی آئی کا سپورٹر ہے۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ میاں اظہر کے بیٹے حماد اظہر کی عمران خان سے ملاقات ہوئی۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ جےآئی ٹی ارکان پرتحفظات سے متعلق میراموقف نوازشریف جیسا ہے۔

    مریم نواز نے کہا کہ جےآئی ٹی کی 10والیم پرمشتمل خود ساختہ رپورٹ غیرمتعلقہ تھی، حتمی رپورٹ سپریم کورٹ میں درخواستیں نمٹانے کے لیے تھی۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ ان درخواستوں کوبطورشواہد پیش نہیں کیا جاسکتا جبکہ جے آئی ٹی تفتیشی رپورٹ اور ناقابل قبول شہادت ہے۔

    انہوں نے عدالت کوبتایا کہ سپریم کورٹ نے جےآئی ٹی کو شواہد کی روشنی میں ریفرنس دائرکرنے کا کہا، یہ نہیں کہا رپورٹ کو بطورشواہد ریفرنس کاحصہ بنایا جائے۔

    مریم نواز نے کہا کہ جےآئی ٹی نے شاید مختلف محکموں سے مخصوص دستاویزات اکٹھی کیں، یہ تفتیش یکطرفہ تھی۔

    سابق وزیراعظم کی بیٹی نے کہا کہ اختیارات سے متعلق نوٹی فکیشن جے آئی ٹی کی درخواست پرجاری کیا گیا جبکہ جےآئی ٹی سپریم کورٹ کی معاونت کے لیے تھی، ریفرنس کے لیے نہیں تھی۔

    انہوں نے کہا کہ سال 2000 میں عامرعزیزبطورڈائریکٹربینکنگ کام کررہے تھے جبکہ 2000ء میں مشرف حکومت نے عامر عزیز کو ڈیپوٹیشن پرتعینات کیا۔

    مریم نوازنے کہا کہ نعمان اور کامران کی جے آئی ٹی میں تعیناتی مناسب نہیں تھی، 70 سال کے سول ملٹری جھگڑے کا بھی جے آئی ٹی پراثرپڑا۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ عرفان منگی کی تعیناتی کا کیس سپریم کورٹ میں زیر التوا ہے، انہیں جےآئی ٹی میں شامل کردیا گیا۔

    انہوں نے کہا کہ میری اطلاع کے مطابق نعمان ڈان لیکس انکوائری کمیٹی کا حصہ تھے، ڈان لیکس کی وجہ سے سول ملٹری تناؤمیں اضافہ ہوا۔

    مریم نواز نے عدالت کو بتایا کہ جےآئی ٹی میں تعیناتی کے وقت نعمان آئی ایس آئی میں نہیں تھے، انہیں آوٹ سورس کیا گیا تھا۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ نعمان سعید کی تنخواہ بھی سرکاری ریکارڈ سے ظاہر نہیں ہوتی۔

    انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ نے درخواستیں نمٹانے کے لیے جے آئی ٹی کواختیارات دیے، ایسے اختیارات غیرمناسب اورغیر متعلقہ تھے۔

    مریم نواز نے کہا کہ یوکے، یواے ای اورسعودی عرب کولکھے ایم ایل ایزپیش نہیں کیے گئے، والیم 10کے حصول کے لیےعدالت نے میری درخواست مسترد کی۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ ایم ایل ایزکوبطورشہادت میرے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا اور تفتیشی ایجنسی کا ریکارڈ بیان قابل قبول شہادت نہیں ہے۔

    عدالت کی جانب سے سوال کیا گیا کہ سپریم کورٹ میں لندن فلیٹس کی ملکیت سے متعلق مؤقف پرکیا کہیں گی؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ جمع دستاویزات میں نہیں کہا لندن فلیٹس کی بینیفشل مالک رہی۔

    مریم نواز نے کہا کہ ثبوت نہیں کب ، کیسے اورکس نے پاناما کا ریکارڈ حاصل کیا جبکہ ایک کیس میں پیش دستاویزدوسرے کیس میں پیش نہیں کی جا سکتیں۔

    انہوں نے کہا کہ سوال نمبر 15حسن اور حسین نواز سے متعلق ہیں اور وہ دونوں اس عدالت میں موجود نہیں ہے۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے کہا کہ طارق شفیع کے بیان حلفی کا مجھے علم نہیں ہے، طارق شفیع کوبطورگواہ یا ملزم شامل نہیں کیا گیا۔

    مریم نواز نے کہا کہ طارق شفیع کے بیان حلفی کومیرے خلاف استعمال نہیں کیا جاسکتا، انہوں نے عدالت کو بتایا کہ حسین نوازسے کبھی میری موجودگی میں جے آئی ٹی نے تفتیش نہیں کی۔

    عدالت کی جانب سے سوال کیا گیا کہ کہا گیا طارق شفیع، شہبازشریف نے جے آئی ٹی میں دستخط پہچاننے سے انکارکیا۔

    سابق وزیراعظم کی صاحبزادی نے جواب دیا کہ طارق شفیع ، شہبازشریف نے میری موجودگی میں انکار نہیں کیا، دونوں نہ گواہ ہیں اور نہ ہی اس کیس میں نامزد ملزم ہیں۔

    عدالت کی جانب سے سوال کیا گیا کہ نیب کی تحقیقات میں کیوں شامل نہیں ہوئی جس پر مریم نواز نے مؤقف اختیار کیا کہ جے آئی ٹی کی تحقیقات میں پیش ہو کر اپنی صفائی دی تھی، سپریم کورٹ نے نیب کو تحقیقات کے بجائے ریفرنس دائر کرنے کا حکم دیا تھا۔

    سابق وزیر اعظم کی صاحبزادی کا کہنا تھا کہ ریفرنس دائر کرنے کا فیصلہ ہوچکا تھا تو نیب میں صفائی دینا بے سود تھا، تفتیشی افسر نے نوٹس میں عدم پیشی کی صورت میں فیصلہ بھی سنا دیا۔

    ن لیگ کی رہنما مریم نواز نے کہا کہ تفتیشی افسر نے کہا پیش نہ ہوئے تو سمجھا جائے گا صفائی میں پیش کرنے کو کچھ نہیں، کیا قانون نیب کے تفتیشی افسر کو یہ فیصلہ سنانے کا اختیار دیتا ہے، طلبی کا نوٹس محض آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف تھا۔

    ان کا کہنا تھا کہ نیب کے گواہوں کے بیانات میں تضاد ہے، نیب کے گواہ نے سپریم کورٹ سے رپورٹ حاصل کرنے کا ثبوت نہیں دیا۔

    انہوں نے کا کہا کہ میرے والد کی تقریر اور بھائیوں کے انٹرویو مصدقہ نہیں، میرے بھائی کا انٹرویو بی بی سی کے بجائے یوٹیوب سے ڈاؤن لوڈ کیا گیا، ٹی وی انٹرویؤز اور ٹرانسکرپشن قابل قبول شہادت نہیں ہیں۔


    ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف نے آخری 4 سوالوں کے جواب دے دیے


    خیال رہے کہ گزشتہ روز سماعت کے دوران نوازشریف کا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہنا تھا کہ آصف علی زرداری اور ایک اہم رہنما نے پرویز مشریف کےغیر آئینی اقدام کی پارلیمنٹ سے توثیق کی بات کی لیکن میں نے ایسا کرنے سے انکار کیا، یہ میرے اصل جرائم کا خلاصہ ہے۔

    سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دھرنوں کے ذریعے لشکر کشی کی گئی، پیغام دیا گیا وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہویا طویل چھٹی پر باہر چلے جاؤ۔ ماتحت اداروں کے ملازم کا وزیر اعظم کو ایسا پیغام افسوس ناک ہے۔

    نوازشریف کا کہنا تھا کہ مسلح افواج کوعزت واحترام سے دیکھتا ہوں۔ فوج کی کمزوری کا مطلب ملک کے دفاع کی کمزوری ہے۔ دفاع وطن ناقابل تسخیر بنانے میں چند گھنٹے تاخیر نہیں کی۔


    نوازشریف کا قطری شہزادے سے کاروباری معاملات سے متعلق اظہارلاعلمی


    اس سے قبل سماعت کے دوران نواز شریف کی جانب سے عدالت میں متفرق درخواست بھی دائر کی گئی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ ریفرنسز میں گواہوں کے بعد نواز شریف کا بیان ریکارڈ کیا جائے۔

    سابق وزیراعظم کی جانب سے دائر کی گئی درخواست پر ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نیب سردار مظفر نے اعتراض کیا تھا جس کے بعد عدالت نے درخواست مسترد کردی تھی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • دھرنوں کے وقت تحمل اورصبر سے کام لیا‘ نوازشریف

    دھرنوں کے وقت تحمل اورصبر سے کام لیا‘ نوازشریف

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم میاں نوازشریف کا کہنا ہے کہ چاہتے ہیں ملک میں حقیقی جمہوریت ہو توسب کھڑے ہوں، اب کھڑے ہوں گے تو یہ ممکن ہو جائے گا۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پرصحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ کل مکمل تقریر ٹی وی پرچلنے پرخود بڑا حیران ہوں۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ سب کو حق کے لیے کھڑا ہونا ہو گا، چاہتے ہیں ملک میں حقیقی جمہوریت ہو توسب کھڑے ہوں، اب کھڑے ہوں گے تو یہ ممکن ہو جائے گا۔

    نوازشریف نے کہا کہ دھرنوں کے وقت تحمل اور صبر سے کام لیا، ماتحت کو فارغ کرسکتا تھا، ملک کی خاطرتحمل سے کام لیا۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے کہا کہ عدالت میں بتانا تھا توبتا دیا ہے، حقائق منظرعام پر آنے چاہییں۔ انہوں نے کہا کہ ہرچیزکا وقت ہوتاہے، سچ ریکارڈ پرلانے کے لیے کل بتایا۔

    سابق وزیراعظم نے صحافیوں سے غیررسمی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مشاہداللہ اورپرویزرشید کوفارغ کرنا بردباری کا حصہ تھا۔

    ایون فیلڈ ریفرنس: نواز شریف نے آخری 4 سوالوں کے جواب دے دیے

    خیال رہے کہ گزشتہ روز نوازشریف کا کہنا تھا کہ دھرنوں کے ذریعے لشکر کشی کی گئی، پیغام دیا گیا وزارت عظمیٰ سے مستعفی ہویا طویل چھٹی پر باہر چلے جاؤ۔ ماتحت اداروں کے ملازم کا وزیر اعظم کو ایسا پیغام افسوس ناک ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • پختونخواہ میں ترقی کا کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں: نواز شریف

    پختونخواہ میں ترقی کا کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں: نواز شریف

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ خیبر پختونخواہ میں لوگ گتھم گتھا رہے، ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتے رہے۔ ترقی کا وہاں کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں، صرف جھوٹ، دھرنے اور الزام ہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے موقع پر میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا تھا کہ دنیا میرے بیانیہ کو قبول کر رہی ہے، چشتیاں جلسے میں لوگ نعرے لگا رہے تھے ووٹ کو عزت دو۔

    انہوں نے نعیم الحق کے دانیال عزیز کو تھپڑ مارنے پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ تحریک انصاف کا کلچر یہی ہے، اس کلچر کے ذمے دار عمران خان ہیں۔ انہوں نے ہی اس کلچر کی بنیاد رکھی۔

    نواز شریف نے کہا کہ خیبر پختونخواہ میں لوگ گتھم گتھا رہے، ایک دوسرے پر کرپشن کے الزامات لگاتے رہے۔ ’ترقی کا وہاں کوئی قابل ذکر کارنامہ نہیں، صرف جھوٹ، دھرنے اور الزام ہے، امپائر کی انگلی اور اس کے پیچھے ناچنا ہے‘۔

    سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ 4 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کرنے کا وعدہ کیا تھا وہ کہاں ہے؟ ایک ارب درخت، 360 ڈیم کہاں ہیں۔ ہم نیا پختونخواہ دیکھنے کے لیے جانے کو تیار ہیں۔

    نواز شریف نے کہا کہ ’پنجاب آئیں ہم نیا پنجاب دکھانے کو تیار ہیں، یو این ڈی پی کے مطابق پختونخواہ سے زیادہ جنوبی پنجاب میں خوشحالی ہے‘۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • نوازشریف کا قطری شہزادے سے کاروباری معاملات سے متعلق اظہارلاعلمی

    نوازشریف کا قطری شہزادے سے کاروباری معاملات سے متعلق اظہارلاعلمی

    اسلام آباد : احتساب عدالت میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت جاری ہے جبکہ سابق وزیراعظم نوازشریف آج بھی اپنا بیان ریکارڈ کرا رہے ہیں۔

    تفصیلات کے مطابق اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکررہے ہیں۔

    سابق وزیراعظم میاں نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر احتساب عدالت میں موجود ہیں۔

    احتساب عدالت میں آج بھی مسلم لیگ ن کے قائد میاں نوازشریف کا بیان قلمبند کیا جا رہا ہے۔

    نوازشریف کا بیان قلمبند کیا جا رہا ہے

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے سماعت کے آغاز پرعدالت کوبتایا کہ اخترراجہ ، واجد ضیاء کے کزن ہیں اور ان کا عدالت میں دیا گیا بیان جانبدار تھا۔

    نوازشریف نے کہا کہ جیرمی فری مین کے 5 جنوری2017 کے خط میں ٹرسٹ ڈیڈ کی تصدیق ہوئی، انہوں نے نے کومبر گروپ اورنیلسن نیسکول ٹرسٹ کی تصدیق کی۔

    انہوں نے کہا کہ جیرمی فری مین کے پاس ٹرسٹ ڈیڈ کی کاپی آفس میں موجود تھی جبکہ اخترراجہ، جےآئی ٹی اور تفتیشی افسرنے کاپی حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ اخترراجہ کومعلوم ہونا چاہیے کاپی پرفرانزک معائنے کا تصورنہیں، اخترراجہ نے دستاویز خودساختہ فرانزک ماہرکوای میل سے بھجوائیں۔

    نوازشریف نے کہا کہ حقیقت ہے کہ فرانزک ماہر نے فوٹو کاپی پرمعائنے پرہچکچاہٹ ظاہرکی۔

    خواجہ حارث اور نیب پراسیکیوٹرمیں تلخ کلامی

    احتساب عدالت میں سماعت کے دوران نوازشریف کے وکیل خواجہ حارث اور پراسیکیوٹرنیب سردار مظفرکے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ یہ ملزم کا نہیں وکیل کا بیان قلم بند ہو رہا ہے، لکھا ہوا ہی پڑھنا ہے توعدالت کویو ایس بی میں جوابات دے دیں۔

    سردار مظفرنے کہا کہ 342 کے بیان کا یہ مقصد نہیں ہوتا، عدالت سوال کرے نوازشریف جواب دیں جس پرمعزز جج محمد بشیر نے نوازشریف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ اس کو تسلیم کرتے ہیں؟۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں اس بیان کو تسلیم کرتا ہوں، میں نے وکیل کے ساتھ مل کریہ بیان تیار کیا ہے، اگر اعتراض کرنا تھا تو پہلے دن کرتے۔

    نوازشریف نے کہا کہ اگر زیادہ دیر کچھ پڑھوں تومیرے گلے میں مسئلہ ہوتا ہے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ خواجہ حارث جواب پڑھ کرسنا سکتے ہیں، ہونا یہ چاہیے کہ عدالت سوال پوچھے۔

    سردار مظفر نے کہا کہ نوازشریف کو وکیل کی معاونت چاہیے ہوتوبتا دیں، یہ کوئی طریقہ نہیں یہ کل سے پیرا بہ پیرا لکھے جواب دے رہے ہیں۔

    معزز جج محمد بشیر نے سوال کیا کہ آپ کہنا کیا چاہتے ہیں وہ بتائیں؟ جس پرنیب پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ میرا اعتراض عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا لیا جائے۔

    نیب پراسیکیوٹرسردارمظفرکے اعتراض کے بعد سابق وزیراعظم نوازشریف نے خود بیان پڑھنا شروع کردیا۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ قطر سے متعلق کسی ٹرانزیکشن کا حصہ نہیں رہا اور سپریم کورٹ میں جمع ورک شیٹ کی تیاری میں شامل نہیں تھا۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ 22 دسمبر 2016 کا قطری شہزادے کا خط اورورک شیٹ تسلیم شدہ ہے جبکہ کیس سے متعلق قطری شہزادے سے کسی خط وکتابت میں شامل نہیں رہا۔

    نوازشریف نے کہا کہ قطری شہزادے نے کبھی کارروائی میں شامل ہونے سے انکارنہیں کیا، انہوں نے سپریم کورٹ میں پیش کیے گئے خطوط کی تصدیق کی۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ قطری شہزادے کی آمادگی کے باوجود بیان لینے کی کوشش نہیں ہوئی، انہوں نے بتایا کہ حدیبیہ پیپرزمل اورالتوفیق کے درمیان کسی سیٹلمنٹ کاحصہ نہیں رہا۔

    نواز شریف کے بیان سے پہلے خواجہ حارث نوازشریف کا بیان پڑھ کرلکھواتے رہے جبکہ بیان لکھوانے کےدوران نواز شریف قائد اعظم کی تصویردیکھتے رہے۔

    خواجہ حارث کے بیان لکھوانے پرڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل نے اعتراض کیا جس پرنوازشریف نے معززجج سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ میں لکھواؤں یاخواجہ صاحب ہی لکھوائیں ؟۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کہا کہ آپ چاہیں تو لکھوا سکتے ہیں جس کے بعد نواز شریف نے بیان خود لکھوانا شروع کردیا۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ اختر راجہ نے رابرٹ ریڈلے کی نیب ٹیم سے ملاقات طے کرائی، ملاقات خاص طور پرکیلبری فونٹ سے متعلق تھی۔

    نوازشریف نے عدالت کو بتایا کہ اختر راجہ کے 2 ٹرسٹ ڈیڈ ای میل سے بھیجنے کے مذموم مقاصد تھے جبکہ رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف نے کہا کہ رابرٹ ریڈلے کی رپورٹ ای میل اورٹرسٹ ڈیڈ کی فوٹو کاپیوں پرتیار ہوئی۔

    نوازشریف نے کہا کہ ہمیشہ کہا دبئی اسٹیل مل کے قیام کے وقت کے سرمائے کا مجھےعلم نہیں، گلف اسٹیل سے متعلق معاہدوں کودیکھا ہے لیکن گلف اسٹیل سے متعلق معاہدوں میں کبھی حصہ نہیں رہا۔

    سابق وزیراعظم نے بتایا کہ رجسٹرآف ٹائٹل کی کاپیزسے استغاثہ کا میرے خلاف کیس نہیں بنتا جبکہ ایون فیلڈ پراپرٹیز کی رجسٹری سے متعلق کاپیاں میں نے داخل نہیں کی۔

    انہوں نے کہا کہ کومبرسے متعلق ٹرسٹ ڈیڈ سے میرا کوئی تعلق نہیں اور نیلسن، نیسکول کی ٹرسٹ ڈیڈ کی تیاری اورجاری کرنے میں شامل نہیں رہا۔

    نوازشریف نے کہ جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء کی ایکسپرٹ رائے قابل قبول شہادت نہیں ہے جبکہ اس گواہ کواستغاثہ کوپیش کرناچاہیے تھا تاکہ جرح ہو پاتی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ فنانشل انویسٹی گیشن ایجنسی کا خط مجھ سے متعلق نہیں، خط میں کسی بھی معاملے اور ٹرانزیکشن میں شامل نہیں رہا۔

    نوازشریف نے کہا کہ ایف آئی اے، بی وی آئی کا خط قابل قبول شہادت نہیں، ایف آئی اے، بی وی آئی کے خط کوتصدیق کرا کرپیش کیا گیا جبکہ اس فوٹوکاپی کوعدالتی ریکارڈ کاحصہ نہیں بنایا جاسکتا۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ ایف آئی اے، بی وی آئی کےنیلسن، نیسکول کوخطوط مجھ سے متعلق نہیں جبکہ سامبا بینک کا منروا کولکھا گیاخط بھی مجھ سےمتعلق نہیں ہے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ شیزی نقوی کے خط کا متن میرے مؤقف کی تصدیق کرتا ہے، خط کے مطابق حدیبیہ پیپر ملزکے قرض کے حصول سے میرا تعلق نہیں ہے۔

    انہوں نے کہا کہ شیزی نقوی کا خط تصدیق ہے حدیبیہ ملزکی سیٹلمنٹ کا حصہ نہیں رہا۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف نے قطری شہزادے سے کاروباری معاملات سے متعلق لاعلمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا ٹرانزیکشن ہوئی خاندان اورقطری شہزادے بہترجانتے ہوں گے۔

    انہوں نے کہا کہ میں کبھی ان معاملات میں ملوث نہیں رہا جبکہ نیلسن اورنیسکول کے کسی معاملے سے بھی میرا کوئی تعلق نہیں۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کا بیان مکمل ہونے کے بعد ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر اپنا بیان ریکارڈ کرائیں گے۔

    احتساب عدالت نے ایون فیلڈ ریفرنس میں نامزد ملزمان سے الگ الگ سوالات کے جواب طلب کررکھے ہیں۔

    ایسےشواہد پیش نہیں کیےگئے جن سےمیرا لندن فلیٹس سےتعلق ظاہرہو‘ نواز شریف

    خیال رہے کہ گزشتہ روز عدالت میں سماعت کے دوران سابق وزیراعظم نوازشریف نے 128 سوالات میں سے 55 سوالوں کے جوابات دیے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد کا کہنا تھا کہ ایون فیلڈ جائیداد کا حقیقی یا بینیفشرمالک نہیں رہا اورجائیداد خریدنے کے لیے کوئی فنڈ فراہم نہیں کیے۔

    لندن فلیٹس کی منی ٹریل سے متعلق سوال کے جواب میں نوازشریف کا کہنا تھا کہ یہ سوال حسن اور حسین سے متعلق ہیں اور دونوں عدالت میں موجود نہیں ہیں۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف کا کہنا تھا کہ ایسے شواہد پیش نہیں کیے گئے جن سے میرا لندن فلیٹس سے تعلق ظاہرہو۔

    پاناما کیس: وزیراعظم نوازشریف نا اہل قرار

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق گزشتہ سال 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے تھے۔

    قومی احتساب بیورو کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پرفرد جرم عائد کی گئی ہے۔

    العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نوازشریف اور ان کے دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ رواں سال نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نوازشریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایسےشواہد پیش نہیں کیےگئے جن سےمیرا لندن فلیٹس سےتعلق ظاہرہو‘ نواز شریف

    ایسےشواہد پیش نہیں کیےگئے جن سےمیرا لندن فلیٹس سےتعلق ظاہرہو‘ نواز شریف

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم میاں نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف آج احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت ہوئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف کل ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرکررہے ہیں۔

    احتساب عدالت میں مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کا بیان کرمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 342 کے تحت قلمبند کیا گیا۔ نوازشریف سے 128 سوالات پوچھے جائیں گے، تاہم نواز شریف نے آج 55 سوالوں کے جوابات دیے۔ عدالت نے کیس کی سماعت کل 9 بجے تک ملتوی کردی۔

    نوازشریف کا بیان قلمبند کیا گیا

    عدالت میں سماعت کے آغاز پر معززجج محمد بشیر نے سوال کیا کہ آپ کی عمر کتنی ہے جس پر سابق وزیراعظم نوازشریف نے جواب دیا کہ میری عمر68 سال ہے۔

    نوازشریف نے عدالت کو بتایا کہ میں وزیراعلیٰ پنجاب، وزیراعظم پاکستان رہ چکا ہوں۔ انہوں نے جےآئی ٹی سے متعلق سوالوں کا جواب نوازشریف نے پڑھ کرسنایا۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ جےآئی ٹی سپریم کورٹ کی معاونت کے لیے تشکیل دی گئی تھی، ان ریفرنسز میں جے آئی ٹی غیرمتعلقہ ہے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ مجھے جے آئی ٹی کے قابل ممبران پراعتراض تھا، یہ اعتراض پہلے بھی ریکارڈ کرایا، آئین کا آرٹیکل 10 اے مجھے یہ حق دیتا ہے۔

    نوازشریف نے کہا کہ جے آئی ٹی ممبربلال رسول سابق گورنرپنجاب میاں اظہر کے بھانجے ہیں جبکہ حماد اظہرکی عمران خان کے ساتھ 24ستمبر2017 کو بنی گالا میں تصاویرلی گئیں۔

    انہوں نے کہا کہ بلال رسول خود ن لیگ حکومت پرتنقیدی بیانات دے چکے ہیں اور ان کی اہلیہ بھی تحریک انصاف کی سرگرم کارکن ہیں۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ جے آئی ٹی ممبر عامر عزیز بھی جانبدار ہیں، سرکاری ملازم ہوتے ہوئے سیاسی جماعت سے وابستگی ہے۔

    نوازشریف نے کہا کہ عامرعزیز، شریف خاندان کے خلاف نیب ریفرنس5 کی تحقیقات میں شامل رہے جو شریف خاندان کے خلاف مشرف دور میں بنایا گیا۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف احتساب عدالت میں تحریری بیان سے پڑھ کر بیان ریکارڈ کرا رہے ہیں۔

    انہوں نے عدالت کو بتایا کہ بلال رسول کی اہلیہ سوشل میڈیا پرپی ٹی آئی کی سرگرم رکن ہیں اور خاوند کے جےآئی ٹی رکن بننے تک وہ پی ٹی آئی کی سپورٹرتھیں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ عامرعزیز نےمشرف دور میں حدیبیہ پیپرملز کی تحقیقات کی، وہ 2000ء میں شریف خاندان کے خلاف ریفرنس میں تفتیشی افسرتھے۔

    نوازشریف نے کہا کہ سال 2000 میں عامرعزیز بطورڈائریکٹر بینکنگ کام کررہے تھے اور انہیں پرویز مشرف نے ڈیپوٹیشن پرنیب میں تعینات کیا۔

    سابق وزیراعظم نے عدالت کو بتایا کہ مجھے اپنے خلاف پیش کیے گئے شواہد کی مکمل سمجھ آگئی۔

    انہوں نے جے آئی ٹی کی تشکیل پر سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ آئی ایس آئی ، ایم آئی کے نمائندوں کا جے آئی ٹی میں شامل ہونا درست نہیں تھا۔

    نوازشریف نے کہا کہ 70سال کے سول ملٹری جھگڑے کا بھی جے آئی ٹی کی کارروائی پراثرہوا جبکہ بریگیڈیئر نعمان، کامران کی تعیناتی مناسب نہیں تھی۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ عرفان منگی کی تعیناتی کا کیس تاحال سپریم کورٹ میں ہے، انہیں بھی جے آئی ٹی میں شامل کیا گیا۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ بریگیڈیئرنعمان سعید ڈان لیکس جے آئی ٹی میں بھی شامل تھے اور میری معلومات کے مطابق نعمان سعید بطورسورس کام کررہے تھے۔

    نوازشریف نے عدالت کو بتایا کہ جی آئی ٹی نے 10 والیم تیار کیے جو غیر متعلقہ تھے، جےآئی ٹی کی 10والیم پرمشتمل خودساختہ رپورٹ غیرمتعلقہ تھی۔

    انہوں نے کہا کہ خودساختہ رپورٹ سپریم کورٹ میں دائردرخواستیں نمٹانے کے لیے تھی، ان درخواستوں کو بطور شواہد پیش نہیں کیا جا سکتا۔

    سابق وزیراعظم نوازشریف نے کہا کہ جےآئی ٹی تفتیشی رپورٹ ہے، ناقابل قبول شہادت ہے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے کہا کہ سپریم کورٹ نے جےآئی ٹی کے جمع شواہد کے تحت ریفرنس دائرکرنے کا کہا، سپریم کورٹ نے نہیں کہا رپورٹ کوبطورشواہد ریفرنس کا حصہ بنایا جائے۔

    نوازشریف نے کہا کہ جے آئی ٹی نے شاید مختلف محکموں سے مخصوص دستاویزات اکٹھی کیں، یہ تفتیش یکطرفہ تھی۔

    سابق وزیراعظم نے کہا کہ اختیارات سے متعلق نوٹی فکیشن جے آئی ٹی کی درخواست پرجاری ہوا، جےآئی ٹی سپریم کورٹ کی معاونت کے لیے تھی، اس ریفرنس کے لیے نہیں۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نے عدالت کو بتایا کہ ایون فیلڈ جائیداد کا حقیقی یا بینیفشرمالک نہیں رہا اورجائیداد خریدنے کے لیے کوئی فنڈ فراہم نہیں کیے۔

    نوازشریف نے لند فلیٹس کی منی ٹریل سے متعلق سوال کے جواب میں کہا کہ یہ سوال حسن اور حسین سے متعلق ہیں اور دونوں عدالت میں موجود نہیں ہیں۔

    انہوں نے عدالت میں اپنا بیان ریکارڈ کرواتے ہوئے کہا کہ ایسے شواہد پیش نہیں کیے گئے جن سے میر الندن فلیٹس سے تعلق ظاہرہو۔

    عدالت میں گزشتہ سماعت کے آغاز پرنوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا تھا کہ کچھ سوالات ایسے ہیں جن کی سمجھ نہیں آرہی، چاہتے ہیں ملزمان کا بیان بعد میں ریکارڈ کیا جائے۔

    خواجہ حارث کا کہنا تھا کہ ملزمان کے بیانات اگلے ہفتے ریکارڈ کیے جائیں جس پر نیب پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفرنے مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ جو سوال انہیں سمجھ آرہے ہیں ان کاجواب دے دیں، جوسمجھ نہیں آرہے اس کا جواب بعد میں دیں۔

    سردار مظفرکا کہنا تھا کہ گزشتہ سماعت پربجلی نہیں تھی، پھربھی عدالت نےسوالنامہ بنایا، عدالت نے پنکھے اورلائٹیں بند کیں تا کہ کمپیوٹر چل جائے۔

    نیب پراسیکیوٹرکا کہنا تھا کہ پورا دن لگا کرسوالنامہ تیارہوا، اب یہ مزید وقت مانگ رہے ہیں، ہم توسوالنامہ بھی دینے کوتیار نہ تھے، عدالت نے ان کی سہولت کے لیے سوالنامہ تک انہیں دے دیا۔

    سردار مظفر کا کہنا تھا کہ خواجہ صاحب عدالت کا وقت ضائع کر رہے ہیں، ہم تعاون کر رہے ہیں لیکن خواجہ حارث تعاون نہیں کر رہے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کے وکیل نے ملزمان کو دیے گئے سوالنامے پراعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ کچھ سوالات درست کرنے ہیں، سمجھ نہیں آرہے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے تھے کہ پیرکو آخری موقع ہے، ملزمان کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے۔

    ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرس میں ملزمان کے بیان کے لیے عدالتی سوالنامہ تیار کیا گیا ہے اور سوالنامے کی کاپی ملزمان کے وکلا کے حوالے کردی گئی ہے، ملزمان اس سوالنامے کی روشنی میں اپنا بیان ریکاڑد کرائیں گے۔

    احتساب عدالت نے کارروائی کو کرمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 342 کے تحت آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ملزمان کو استغاثہ کے گواہان سے جرح کے بعد حتمی فیصلہ دیے جانے سے قبل آخری مرتبہ اپنے دفاع کا اختیار دیا جاتا ہے۔

    ایون فیلڈ ریفرنس : شریف خاندان کےخلاف واجد ضیاء کا بیان قلمبند

    خیال رہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب کے گواہ تھے اور انہوں نے اپنا بیان قلمبند کرایا تھا۔

    پاناما کیس: وزیراعظم نوازشریف نا اہل قرار

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق گزشتہ سال 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے تھے۔

    قومی احتساب بیورو کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پرفرد جرم عائد کی گئی ہے۔

    العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نوازشریف اور ان کے دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ رواں سال نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نوازشریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت پیرتک ملتوی

    شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت پیرتک ملتوی

    اسلام آباد : سابق وزیراعظم میاں نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی ہوگئی۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف کل ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیرنے کی۔

    سابق وزیراعظم اورمسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے بیانات آج ریکارڈ نہیں کیے جاسکے۔

    عدالت میں سماعت کے آغاز پرنوازشریف کے وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ کچھ سوالات ایسے ہیں جن کی سمجھ نہیں آرہی، چاہتے ہیں ملزمان کا بیان بعد میں ریکارڈ کیا جائے۔

    خواجہ حارث نے کہا کہ ملزمان کے بیانات اگلے ہفتے ریکارڈ کیے جائیں جس پر نیب پراسیکیوٹر جنرل سردار مظفرنے مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ جو سوال انہیں سمجھ آرہے ہیں ان کاجواب دے دیں، جوسمجھ نہیں آرہے اس کا جواب بعد میں دیں۔

    سردار مظفر نے کہا کہ گزشتہ سماعت پربجلی نہیں تھی، پھربھی عدالت نےسوالنامہ بنایا، عدالت نے پنکھے اورلائٹیں بند کیں تا کہ کمپیوٹر چل جائے۔

    نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ پورا دن لگا کرسوالنامہ تیارہوا، اب یہ مزید وقت مانگ رہے ہیں، ہم توسوالنامہ بھی دینے کوتیار نہ تھے، عدالت نے ان کی سہولت کے لیے سوالنامہ تک انہیں دے دیا۔

    سردار مظفرنے کہا کہ خواجہ صاحب عدالت کا وقت ضائع کر رہے ہیں، ہم تعاون کر رہے ہیں لیکن خواجہ حارث تعاون نہیں کر رہے۔

    مسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف کے وکیل نے ملزمان کو دیے گئے سوالنامے پراعتراض کرتے ہوئے کہا کہ کچھ سوالات درست کرنے ہیں، سمجھ نہیں آرہے۔

    احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے ریمارکس دیے کہ پیرکو آخری موقع ہے، ملزمان کے بیانات قلمبند کیے جائیں گے۔

    بعدازاں احتساب عدالت نے شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔

    ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرس میں ملزمان کے بیان کے لیے عدالتی سوالنامہ تیار کیا گیا ہے اور سوالنامے کی کاپی ملزمان کے وکلا کے حوالے کردی گئی ہے، ملزمان اس سوالنامے کی روشنی میں اپنا بیان ریکاڑد کرائیں گے۔

    احتساب عدالت نے کارروائی کو کرمنل پروسیجر کوڈ کے سیکشن 342 کے تحت آغاز کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس میں ملزمان کو استغاثہ کے گواہان سے جرح کے بعد حتمی فیصلہ دیے جانے سے قبل آخری مرتبہ اپنے دفاع کا اختیار دیا جاتا ہے۔

    ایون فیلڈ ریفرنس : شریف خاندان کےخلاف واجد ضیاء کا بیان قلمبند

    خیال رہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب کے گواہ تھے اور انہوں نے اپنا بیان قلمبند کرایا تھا۔

    پاناما کیس: وزیراعظم نوازشریف نا اہل قرار

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق گزشتہ سال 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے تھے۔

    قومی احتساب بیورو کی جانب سے ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر پرفرد جرم عائد کی گئی ہے۔

    العزیزیہ اسٹیل ملز اور فلیگ شپ انویسٹمنٹ ریفرنس میں نوازشریف اور ان کے دونوں صاحبزادوں حسن اور حسین نواز کو ملزم نامزد کیا گیا ہے۔

    واضح رہے کہ رواں سال نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نوازشریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کا بیان کل ریکارڈ کیا جائے گا

    ایون فیلڈ ریفرنس: شریف خاندان کا بیان کل ریکارڈ کیا جائے گا

    اسلام آباد: ایون فیلڈ ریفرنس میں سابق وزیراعظم نوازشریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے بیانات کل ریکارڈ کیے جائیں گے۔

    تفصیلات کے مطابق وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں شریف خاندان کے خلاف کل ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر کریں گے۔

    سابق وزیراعظم اورمسلم لیگ ن کے قائد نوازشریف، ان کی بیٹی مریم نواز اور کیپٹن ریٹائرڈ صفدر کے بیانات کل ریکارڈ کیے جائیں گے۔

    ایون فیلڈ پراپرٹیز ریفرس میں ملزمان کے بیان کے لیے عدالتی سوالنامہ تیار کرلیا گیا اور سوالنامے کی کاپی ملزمان کے وکلا کے حوالے کردی گئی ہے، ملزمان اس سوالنامے کی روشنی میں اپنا بیان ریکاڑد کرائیں گے۔

    دوسری جانب سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس کی سماعت 21 مئی تک ملتوی کردی گئی، آئندہ سماعت پر خواجہ حارث جے آئی ٹی سربراہ واجد ضیاء پرجرح کریں گے۔

    ایون فیلڈ ریفرنس : شریف خاندان کےخلاف واجد ضیاء کا بیان قلمبند

    خیال رہے کہ پاناما کیس کی تحقیقات کرنے والی جے آئی ٹی کے سربراہ واجد ضیاء شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں نیب کے گواہ تھے اور انہوں نے اپنا بیان قلمبند کرایا تھا۔

    یاد رہے کہ سپریم کورٹ کے پاناما کیس سے متعلق گزشتہ سال 28 جولائی 2017 کے فیصلے کی روشنی میں نیب نے شریف خاندان کے خلاف 3 ریفرنسز احتساب عدالت میں دائر کیے تھے۔

    واضح رہے کہ رواں سال نیب کی جانب سے احتساب عدالت میں تین ضمنی ریفرنسز بھی دائر کیے گئے ہیں جن میں ایون فیلڈ پراپرٹیز ضمنی ریفرنس میں نوازشریف کو براہ راست ملزم قرار دیا گیا ہے۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں، مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل مل اور ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت

    احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل مل اور ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل ملز اور ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران پاناما لیکس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ واجد ضیا پر جرح کی گئی۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں العزیزیہ اسٹیل ملز اور ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ سماعت میں سابق وزیر اعظم نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز پیش ہوئے۔

    سماعت کے دوران نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے پاناما لیکس کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ واجد ضیا پر جرح کی۔

    واجد ضیا نے بتایا کہ نواز شریف جے آئی ٹی کےس امنے شامل تفتیش ہوئے اور انکم ٹیکس اور ویلتھ گوشواروں کے ساتھ پیش ہوئے۔ گوشواروں کے مطابق انہوں نے 41 اعشاریہ 410 ملین غیر ملکی کرنسی ظاہر کی۔

    واجد ضیا نے کہا کہ جے آئی ٹی نے 14-2013 کی حسین نواز کی بینک اسٹیٹمنٹ حاصل کیں۔ 2 بینکوں سے نواز شریف کے اکاؤنٹ کی تفصیلات بھی حاصل کی گئیں۔ ہل میٹل سے 14-2013 میں رقم آئی لیکن وہ حسین نواز سے نہیں آئی۔

    واجد ضیا نے کہا کہ کالم ان فلو میں پہلی انٹری حسین نواز سے ملنے والی رقم کی ہے۔ 14-2013 میں ملنے والی رقم 41 اعشاریہ 470 ملین ہے۔ دوسری انٹری ہل میٹل سے وصول ہونے والی رقم ہے۔ حاصل ہونے والی رقم 192.05 ملین تھی۔

    انہوں نے کہا کہ 14-2013 کی ویلتھ اسٹیٹمنٹ دکھائی جائے تو پہچان سکتا ہوں۔ اسٹیٹمنٹ میں صرف ایک بیرون ملک سے آنے والی رقم کی انٹری ہے۔ 41 اعشاریہ 470 ملین رقم کی حسین نواز سے وصولی کی انٹری نہیں۔ ویلتھ اسٹیٹمنٹ میں ہل میٹل سے آئے 192 ملین روپے کی انٹری نہیں۔

    اس دوران نیب پراسیکیوٹر اور خواجہ حارث کے درمیان گرما گرمی بھی ہوئی۔ نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ جو جواب آگیا اس پر گواہ سے بحث نہ کریں۔ یہ کوئی طریقہ نہیں آپ کا کیسا رویہ ہے؟ یہ گواہ سے بات نہیں کر سکتے عدالت کے ساتھ کریں۔

    اس سے قبل سماعت پر واجد ضیا نے عدالت کو بتایا تھا کہ حسین نواز اور ہل میٹل کی بھیجی گئی رقوم پر مبنی ٹیبل تیار کیا۔ 8.9 ملین ڈالر حسین نواز اور ہل میٹل میں 2010 سے 2015 میں بھیجے گئے، یہ رقم نوازشریف کو بھیجی گئی۔

    ان کے مطابق 88 فیصد منافع حسین نواز نے اس عرصہ میں نواز شریف کو بھجوایا، بطور تحفہ بھیجی گئی رقم منافع اور نقصان سے مطابقت نہیں رکھتی۔ 2015 میں کمپنی کو 1.5 ملین ڈالر کا نقصان ہوا، 1.5 ملین ڈالر کے نقصان کے باوجود 2.1 ملین نواز شریف کو بھیجے گئے۔

    ان کا کہنا تھا کہ حسن نواز نے بیان میں کہا کہ 2015 میں 8 لاکھ پاؤنڈ حسین نواز سے لیے، اس وقت کمپنی خسارے میں تھی، جے آئی ٹی اس نتیجہ پر پہنچی کہ 8 فیصد منافع نواز شریف کو گیا۔

    واجد ضیا پر مختصر جرح کے بعد عدالت نے العزیزیہ اسٹیل ملز ریفرنس پر سماعت پیر تک ملتوی کردی۔ پیر کے روز واجد ضیا پر جرح کا سلسلہ جاری رہے گا۔

    ایون فیلڈ ریفرنس پر سماعت جمعے تک ملتوی کردی گئی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • تحریک انصاف پگڑی اچھال پارٹی ہے: نواز شریف

    تحریک انصاف پگڑی اچھال پارٹی ہے: نواز شریف

    اسلام آباد: سابق وزیر اعظم نواز شریف کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کا نہ کوئی کردار ہے، نہ نظریہ، تحریک انصاف پگڑی اچھال پارٹی ہے اور گندی زبان والی پارٹی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں پیشی کے موقع پر سابق وزیر اعظم نواز شریف نے میڈیا سے غیر رسمی گفتگو کی۔

    صحافی نے سوال کیا کہ پاکستان تحریک انصاف نے آپ کے قومی کمیشن بنانے کی تجویز مسترد کردی جس پر نواز شریف نے کہا کہ تحریک انصاف کا نہ کوئی کردار ہے، نہ نظریہ۔ تحریک انصاف پگڑی اچھال پارٹی ہے اور گندی زبان والی پارٹی ہے۔

    نواز شریف کا کہنا تھا کہ تحریک انصاف امپائر کی انگلی کی طرف دیکھنے والی پارٹی ہے۔ ان میں ووٹ کو عزت دینے کی کوئی بات نہیں۔

    انہوں نے کہا کہ اچھا ہوا جو پختونخواہ میں ان کی حکومت تھی، پختونخواہ کے عوام نے ان کی تبدیلی دیکھ لی۔ خیبر پختونخواہ میں کوئی کام نہیں ہوا۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔

  • احتساب عدالت میں اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنس کی سماعت

    احتساب عدالت میں اسحٰق ڈار کے خلاف ریفرنس کی سماعت

    اسلام آباد: احتساب عدالت میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق ریفرنس کی سماعت جاری ہے۔

    تفصیلات کے مطابق احتساب عدالت میں سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار کے خلاف آمدن سے زائد اثاثوں سے متعلق ریفرنس کی سماعت ہوئی۔ سماعت احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے کی۔

    سماعت کے دوران احتساب عدالت میں تینوں نامزد ملزمان موجود تھے۔ وکیل صفائی قاضی مصباح نے استغاثہ کے گواہ محمد عظیم پر جرح کی۔ سماعت کے دوران اسحٰق ڈار کی طرف سے ہجویری فاؤنڈیشن کو جاری چیکوں کی تفصیلات پیش کی گئی۔

    گواہ کا کہنا تھا کہ اسحٰق ڈار نے ہجویری فاؤنڈیشن کے نام پر چیک جاری کیے۔ 15 اکتوبر 2005 کو ہجویری فاؤنڈیشن کے نام پر چیک جاری کیا گیا۔ 22 جنوری 2010 کو اسحٰق ڈار نے 4 لاکھ کا چیک جاری کیا۔

    گواہ کے مطابق یکم مارچ 2010 کو 7 لاکھ کا چیک ہجویری فاؤنڈیشن کے نام پر جاری کیا۔ اسحٰق ڈار نے کل 6 کروڑ 53 لاکھ کے چیک ہجویری فاؤنڈیشن کو جاری کیے۔

    سماعت کے دوران نیب پراسیکیوٹر نے کہا کہ سعید احمد یہ نہ سمجھیں کہ ان پر کوئی الزام نہیں۔ سعید احمد نے اسحٰق ڈار کے نام پر7 اکاؤنٹ کھولے۔ انہوں نے بتانا ہے وہ اکاؤنٹ کس کے کہنے پر کھولے گئے۔

    پراسیکیوٹر نے کہا کہ کچھ اکاؤنٹ ان کے اپنے نام پر ہیں، ان کا استعمال اسحٰق ڈار کرتے ہیں۔ سعید احمد بتائیں اکاؤنٹ کون سے ہیں اور کتنی رقم موجود ہے۔

    اسحٰق ڈار کے خلاف نیب ریفرنسز کی مزید سماعت 24 مئی تک ملتوی کردی گئی۔

    اس سے قبل گزشتہ سماعت پر محمد عظیم نے بتایا تھا کہ تفتیشی افسر کے خط میں ٹرانزیکشن کی تفصیلات نہیں مانگی گئیں۔ تفتیشی افسر نے بینک ٹرانزیکشن کی تفصیلات زبانی مانگی تھیں۔ تفتیشی افسر نے 17 اگست 2017 کو زبانی تفصیلات دینے کا کہا۔ نیب کی تفتیشی افسر نے 16 اگست 2017 کو 2 خط لکھے۔

    گواہ نے بتایا تھا کہ دونوں خطوط عدالتی ریکارڈ کا حصہ بنا دیے گئے۔ 6 نومبر 2003 کو لوکل بل سے 4 لاکھ 89 ہزار 100 اسحٰق ڈار کے اکاؤنٹ میں آئے۔ رقم بینک الفلاح ایل ڈی اے برانچ لاہور میں منتقل ہوئی۔


    خبر کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کمنٹس میں کریں۔ مذکورہ معلومات کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہچانے کے لیے سوشل میڈیا پر شیئر کریں۔