Tag: احتیاط اور علاج

  • پیٹ میں کیڑے کیوں اور کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ ماہرصحت کا انکشاف

    پیٹ میں کیڑے کیوں اور کیسے پیدا ہوتے ہیں؟ ماہرصحت کا انکشاف

    بچوں کے پیٹ میں ہونے والے کیڑوں کے باعث ان کی نشوونما بری طرح متاثر ہوسکتی ہے، بچوں کا قد اور وزن کا بڑھنا رُک سکتا ہے جو ان کی صحت کیلئے کسی بھی طرح مناسب نہیں۔

    اگر کسی بچے کے پیٹ میں کیڑے ہوں تو اس کی علامات میں یہ باتیں پائی جاتی ہیں، بچہ بہت چڑچڑا ہو رہا ہو، اسے بار بار بھوک لگتی ہو یا پھر اکثر پیٹ درد کی شکایت کرتا ہو۔

    اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں سول اسپتال کے اسسٹنٹ پروفیسر وسیم جمالوی نے بچوں کے پیٹ میں کیڑوں سے متعلق والدین کو ضروری ہدایات دیں۔

    انہوں نے بتایا کہ ان کیڑوں کی اقسام دو طرح کی ہوتی ہیں ایک وہ ہیں جو آنتوں میں چپک جاتے ہیں اور خون چوستے رہتے ہیں اور دوسری قسم کے کیڑے بچے کی جائے پاخانہ پر خارش ہوتی ہے اور اس کی پرورش بھی ہوتی رہتی ہے۔

    پروفیسر وسیم جمالوی نے بتایا کہ بچے عام طور پر مٹی کھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے پیٹ میں کیڑے ہو سکتے ہیں، پانی کے ذریعے بھی یہ کیڑے جسم کا حصہ بن سکتے ہیں، اس کے علاوہ صفائی کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے بھی پیٹ میں کیڑے ہوسکتے ہیں۔

    Worms

    بعض اوقات اگر بچے کی قوت مدافعت مضبوط ہو تو اس صورت میں یہ خود بخود بھی ختم ہوسکتے ہیں لیکن اس کا انحصار کیڑوں کی اقسام پر بھی ہوتا ہے اس کے علاوہ ضروری نہیں یہ شکایت صرف بچوں میں ہو بڑی عمر افراد بھی اس کا شکار ہوسکتے ہیں۔

    اگر پاخانے کے ساتھ خون یا پس آرہی ہو، بار بار الٹی ہو رہی ہو اور اس کے ساتھ بخار بھی ہو اور جسم میں پانی کی کمی ہو رہی ہو تو یہ کیفیت خطرناک ہے جس کیلیے فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کیا جائے۔

    گھریلو ٹوٹکے 

    ڈاکٹر سے رجوع کرنا تو سب سے بہتر حکمت عملی ہے ہی، تاہم گھریلو ٹوٹکے بھی اس حوالے سے آزمائے جاسکتے ہیں مگر ڈاکٹر کا مشورہ اولین ترجیح ہونہ چاہیے۔ اس حوالے سے چند گھریلو ٹوٹکے درج ذیل ہیں۔

    لہسن کا ذائقہ کڑوا محسوس ہو تو اس کا عرق نکال لیں یا پیس لیں، ایک ٹکڑے سے آغاز کریں اور بتدریج مقدار بڑھالیں۔ اس کے علاوہ غذائی نالی سے ٹیپ وارم کو نکالنے کے لیے کھیرے کے بیج بھی موثر ثابت ہوسکتے ہیں، ان بیجوں کا سفوف ان کیڑوں کے انفیکشن سے بچاﺅاور ٹیپ وارم سے نجات کا کام کرتا ہے۔ ان بیجوں کو پیس لیں اور روزانہ ایک چائے کا چمچ استعمال کریں۔

    ادرک نظام ہاضمہ کے لیے بہترین مانا جاتا ہے اور یہ پیٹ کے کیڑوں جیسے راﺅنڈ وارمز اور دیگر کا بھی خاتمہ کرنے میں مدد دے سکتا ہے، اس کے لیے ایک سے 2 انچ کدو کش ادرک لیں اور اسے ایک کپ پانی میں ڈال دیں، اس کے بعد اسے برتن میں ڈال کر 5 منٹ تک ابالیں۔ اس کے بعد چھان کر کچھ ٹھنڈا ہونے دیں اور نیم گرم پی لیں۔ یہ مشروب دن میں 3 سے 4 بار پینا عادت بنائیں۔

    لونگ میں موجود اجزاء جراثیم کش خصوصیات کے حامل ہوتے ہیں جو دوران خون اس کے ذریعے کیڑوں اور ان کے انڈوں کا خاتمہ کرتے ہیں۔

     Treatment

    اور سیب کا سرکہ معدے میں ہائیڈروجن کا تناسب معمول پر لاتا ہے جبکہ پیٹ کے کیڑوں کو مار کر صحت بحال کرسکتا ہے، اسے استعمال کرنے کے لیے ایک کھانے کا چمچ سیب کا سرکہ ایک گلاس گرم پانی میں ملائیں اور پھر اس میں شہد کا اضافہ کرکے پی لیں۔ یہ مشروب روزانہ ایک سے 2 مرتبہ پینا زیادہ جلد نتائج کے حصول میں مدد دے سکتا ہے۔

    ایک چائے کا چمچ ہلدی پاﺅڈر ایک گلاس گرم دودھ میں ملائیں، اسے اچھی طرح مکس کریں اور پھر پی لیں۔ اس مشروب کو روزانہ ایک یا 2 بار چند دن تک استعمال کریں۔

    اس کے عالج کیلئے پپیتے کی افادیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا پپیتے کے بیجوں کو استعمال کرنے کے لیے ایک کھانے کا چمچ پپیتے کے بیج، آدھا کپ پپیتا اور ایک کپ ناریل کا دودھ لیں۔ ان سب چیزوں کو بلینڈر میں ڈال کر پیس لیں اور اس مکسچر کو استعمال کرلیں۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • خون کی کمی کو کیسے دور کیا جائے؟ احتیاط اور علاج

    خون کی کمی کو کیسے دور کیا جائے؟ احتیاط اور علاج

    ہمارے جسم میں اگر کسی بھی وجہ سے خون کے سرخ خلیات کی کمی کا سامنا ہو تو یہ انیمیا کا عارضہ ہوتا ہے جس کی متعدد علامات اور جسمانی پیچیدگیاں ظاہر ہوسکتی ہیں۔

    ویسے تو خون کی کمی کے مسئلے کا سامنا دنیا بھر میں کروڑوں افراد کو ہوتا ہے لیکن ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں نو عمر لڑکیاں اور پانچ سال سے کم عمر بچے خون کی کمی کے مرض کا شکار ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر ندیم جان نے جسم میں ہونے والی خون کی کمی اور اس سے ہونے والے مسائل اور اس کے حل کے بارے میں بتایا۔

    انہوں نے بتایا کہ خون کی کمی کو طبی زبان میں انیمیا کہا جاتا ہے انیمیا درحقیقت جسم میں خون کے سرخ خلیات کی کمی کو کہتے ہیں، جس کی کئی اقسام ہیں مگر سب سے عام قسم جسم میں آئرن کی کمی کا نتیجہ ہوتی ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی نو عمر لڑکیوں میں سے 54فیصد خون کی کمی کا شکار ہیں اور اس سے بھی زیادہ تشویشناک بات یہ ہے کہ ایک سے لے کر پانچ سال کے 62فیصد بچے بھی انیمیا کے مریض ہیں۔

    انہوں نے کہا کہ عوام میں آگاہی کی کمی اور غربت میں اضافہ اس کی بڑی وجہ ہے، اس مرض کی علامات میں سانس لینے میں دشواری یا سر چکرانا، تھکاوٹ کا بہت زیادہ احساس، جلد کی رنگت زرد ہوجانا، سینے میں درد اور دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھ جانا شامل ہیں۔

    آئرن کی کمی کی صورت میں اگر جسم میں خون کی کمی ہو تو چند غذائیں فائدہ مند ثابت ہوتی ہیں جیسے دودھ سے بنی اشیائ، کیلشیئم سے بھرپور خوراک، کیلشیئم سپلیمنٹس، کافی اور چائے وغیرہ، جبکہ لیموں کو بھی اس حوالے سے بہترین سمجھا جاتا ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • موسم بدلتے ہی الرجی کیوں ہوجاتی ہے؟ احتیاط اور علاج

    موسم بدلتے ہی الرجی کیوں ہوجاتی ہے؟ احتیاط اور علاج

    ہمارے جسم میں الرجی کی علامات اس وقت پیدا ہوتی ہیں جب ہمارا قوت مدافعت کا نظام اپنے ماحول میں موجود چیز پر حملہ آور ہوتا ہے۔

    اس صورتحال میں جلد کی سرخی، سوجن اور بہت خراب صورتحال میں الٹیاں، پیچش اور سانس لینے میں دشواری ہوتی ہے، بچوں کو عموماً خوراک کی مختلف اقسام سے بھی الرجی ہوتی ہے۔

    اکثر لوگوں کو ہر سال موسم کی تبدیلی کے ساتھ ہی ہاتھ پیروں کی جلد پھٹنے یا جسم کے مختلف حصوں پر دھبوں کی شکایات رہتی ہے حالانکہ یہ مسئلہ اتنا سنجیدہ نہیں اور نہ ہی کسی قسم کی تکلیف کا باعث بنتا ہے کیونکہ عموماً لوگ گھریلو ٹوٹکوں سے ہی علاج کرلیتے ہیں تاہم اگر الرجی زیادہ بڑھ جائے تو اس کا باقاعدہ علاج کروانا ضروری ہے۔

    جلد کی الرجی کے بارے میں ہر شخص کیلئے معلومات کا ہونا ضروری ہے تاکہ جلد کے عام دانے اور الرجی کا آسانی سے تعین کرکے اس کا علاج کیا جاسکے۔

    الرجی الرجین (پیدا کرنے والے مادے) کی نمائش سے ہوتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک ایسا کھانا جس سے آپ کو الرجی ہو بہت سی علامات کا سبب بن سکتی ہے، آپ اپنے منہ اور گلے میں کھجلی یا خارش کا تجربہ کرسکتے ہیں۔

    الرجی

    الرجی کی علامات اور اقسام

    یہ بات ذہن نشین رہے کہ کم و بیش مختلف علامات کے ساتھ جلد کی الرجی کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں جیسا کہ جلد کے مختلف حصوں میں جلن، لالی یا سوجن اور درد یا خارش کا ہونا۔

    جلد کے دھبے سوجن، خارش اور خون بھی نکل سکتا ہے۔ الرجین کے ساتھ رابطے کے فوراً بعد جلد کے سرخ، خارش والے دھبے بن جاتے ہیں۔ الرجی کی وجہ سے گردن یا گلے میں جلن یا سوجن کا احساس ہوتا ہے۔

    اس کے علاوہ آنکھوں میں پانی یا خارش ہوسکتی ہے جس کی وجہ سے وہ سوج جاتی ہیں، جلد کی جلن یا سوزش اور شدید دردناک احساسات اور خارش، یہ جلد کی الرجی کی سب سے عام علامات میں سے ہیں۔

    الرجین کی عام اقسام:

    جانوروں کی مصنوعات جن میں پالتو جانوروں کی خشکی، کیڑوں کا فضلہ اور کوڑا شامل ہے اور ادویات میں پینسلن اور سلفا دوائیں عام محرک ہیں۔

    کھانے کی اشیاء میں گندم، گری دار میوے، دودھ اور انڈے عام الرجین جبکہ کیڑوں کے ڈنک ان میں شہد کی مکھیاں، بھڑ و مچھر وغیرہ شامل ہیں۔

    کسی کھانے کا سڑنا یا ہوا سے پیدا ہونے والی پھپھوندی الرجک رد عمل کو متحرک کرسکتی ہے۔
    مخصوص نباتات جن میں گھاس، جڑی بوٹیوں اور درختوں کے جرگوں کے ساتھ ساتھ پوائزن آئیوی اور پوائزن اوک جیسے پودوں سے خارج ہونے والی رطوبتیں پودوں کی الرجی کی عام وجوہات ہیں۔
    دیگر الرجین میں لیٹیکس دستانے، کنڈوم اور نکل جیسی دھاتیں بھی عام الرجین ہیں۔

    الرجی کا علاج اور احتیاط

    اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو کھانے پینے کی کسی چیز سے الرجی ہے یا آپ کا معدہ اسے برداشت نہیں کر پاتا تو کسی ماہر ڈاکٹر سے چیک کروائیں۔ اگر آپ ڈاکٹر کو چیک کرائے بغیر کچھ کھانوں سے پرہیز شروع کر دیتے ہیں تو یہ آپ کے لیے نقصان دہ بھی ہو سکتا ہے کیونکہ اس طرح آپ کے جسم کو کچھ ضروری اجزاء جیسے کہ وٹامن اور پروٹین وغیرہ نہیں ملیں گے۔

    جن لوگوں کو کھانے پینے کی چیزوں سے شدید الرجی ہے، ان کے لیے کوئی خاص علاج نہیں ہے، ماسوائے اس کے کہ وہ ان چیزوں سے مکمل پرہیز کریں جو الرجی کا باعث بنتی ہیں مگر جن لوگوں کو زیادہ شدید الرجی نہیں ہے یا جن کا معدہ کھانوں کی تھوڑی بہت مقدار برداشت کرسکتا ہے۔

    وہ ان کھانوں کو کبھی کبھار اور تھوڑی مقدار میں استعمال کرسکتے ہیں، نیز بعض صورتوں میں ایک شخص کو مکمل طور پر یا کچھ عرصے کے لیے اس کھانے سے پرہیز کرنا پڑتا ہے جسے اس کا معدہ ہضم نہیں کر پاتا۔

  • ہکلاہٹ یا لکنت کیسے ختم کی جاسکتی ہے؟ جانیے

    ہکلاہٹ یا لکنت کیسے ختم کی جاسکتی ہے؟ جانیے

    بات چیت کرتے ہوئے زبان کا لڑکھڑانا یا ہکلانا ایسا مرض ہے جس کی عام طور پر کوئی بڑی وجہ نہیں ہوتی، ماہرین کے مطابق دنیا کی تقریباً 1 فیصد آبادی اس وقت ہکلاہٹ یا زبان میں لکنت کا شکار ہے۔

    زبان میں لکنت کا شکار افراد گفتگو کے دوران کسی ایک حرف کی آواز کو بار بار دہراتے ہیں، کسی لفظ میں موجود کسی ایک حرف (عموماً شروع کے حرف) کو ادا نہیں کر پاتے اور بڑی مشکل سے اپنا جملہ مکمل کرتے ہیں۔

    اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں اسپیچ پیتھالوجسٹ ڈاکٹر راحیلہ خاتون نے ہکلانے یا لکنت سے متعلق ناظرین کو تفصیل سے آگاہ کیا اور اس کے علاج اور احتیاط سے متعلق ہدایات دیں۔

    انہوں نے کہا کہ زبان میں پیدا ہونے والی اس لرزش یا لڑکھڑاہٹ کو ہکلاہٹ (اسٹٹرینگ) کہتے ہیں۔ اس مرض میں گفتگو کے دوران حرف کی ادائیگی میں پریشانی ہوتی ہے۔

    اگر اس مرض کو بچپن میں درست نہیں کیا گیا تو زندگی کے اہم مراحل میں یہ پریشانی کا باعث بن سکتی ہے تاہم اس پریشانی کا مسئلہ حل کیا جاسکتا ہے۔

    ان کا کہنا تھا کہ ہکلاہٹ کی بےشمار وجوہات ہیں جن میں سب سے نمایاں وجہ خاندانی سمجھی جاتی ہے، بہت سارے معاملات میں دیکھا گیا ہے کہ یہ مرض والدین میں پائے جاتے ہیں اور بعد میں یہ پریشانی والدین کے جین کے ذریعہ بچوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔

    تناؤنفسیاتی مسائل کے باعث بھی لوگوں کو گفتگو کرنے میں ہکلاہٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے، بعض اوقات حادثات دماغی چوٹوں کا سبب بن سکتے ہیں جس کے نتیجے میں دماغ کا وہ مخصوص حصہ جو ہمیں بولنے اور بات چیت کرنے کے قابل بناتا ہے کو نقصان پہنچتا ہے تو اس شخص میں بھی ہکلاہٹ کے مسائل پیدا ہوسکتے ہیں۔

    اس کے علاوہ کبھی کبھی احساس کمتری کی وجہ سے بھی بچوں کو اس کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اگر بچوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جاتا ہے یا بچوں کے ہم جماعت اس کا مذاق اڑاتے ہیں یا پھر والدین یا اساتذہ کی ڈانٹ، طنز اور طعنوں کا نشانہ بناتے ہیں یا ضرورت سے زیادہ ٹوکتے ہیں تو اس سے بچوں کی خوداعتمادی ختم ہو جاتی ہے۔

    اس کا علاج کرنے کا واحد اور بہترین طریقہ اسپیچ تھراپی ہے، والدین کو یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اس عمر میں بچوں پر درست بولنے کے لیے زبردستی دباؤ نہیں ڈالنا چاہیے کیونکہ یہ ہکلاہت خود بخود ہی وقت کے ساتھ ختم ہوجاتی ہے۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔

  • گھٹنوں کے درد میں کمی کیسے لائی جائے؟

    گھٹنوں کے درد میں کمی کیسے لائی جائے؟

    گھٹنے ہمارے جسم میں بہت اہم کردار ادا کرتے ہیں، اس لیے گھٹنوں میں درد ہر عمر کے لوگوں میں ایک عام شکایت ہوتی ہے، عام طور پر اس کی وجہ عمر کا بڑھنا بھی ہوتی ہے تاہم س کی دیگر وجوہات بھی اہم ہیں۔

    گھٹنوں کے درد کی سب سے عام وجوہات میں بھاری چیزوں کو غلط طریقے سے اٹھانا، کیلشیم کی کمی، کمزور لچک، خراب جوتے، پٹھوں کی کمزوری، بغیر وارم اپ کے فٹنس روٹین شروع کرنا شامل ہیں۔

    ہماری زیادہ تر حرکات کا انحصار گھٹنوں پر ہوتا ہے اس لیے اگر گھٹنوں کے جوڑ مختلف مسائل کا شکار ہوں تو ہمیں اپنی روزمرہ کی سرگرمیاں انجام دینے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بہت سے لوگوں کو نماز پڑھنے کے دوران التحیات میں دو زانوں ہوکر بیٹھنا تکلیف کا باعث ہوتا ہے۔ ،

    اس حوالے سے ڈاکٹر خالد جمیل اختر نے بتایا ہے کہ جن بڑی عمر کے لوگوں کو گھٹنوں کا درد ہے تو انہیں اپنے گھٹنوں کا خاص خیال رکھنا چاہیے اور س پر زیادہ زور نہ دیں، دو زانوں بیٹھنے کے بجائے کرسی پر بیٹھ کر نماز پڑھیں۔

    اس کے علاوہ سیڑھیاں چڑھتے اترتے ہوئے دونوں پیر سیڑھی پر رکھ کر چڑھیں اور اتریں، بیڈ یا صوفہ زیادہ نیچا نہ ہو، زمین پر قالین یا گدا بچھا کر بالکل نہ سوئیں یعنی گھٹنوں پر جتنا زیادہ زور دیں گے وہ اتنا ہی درد کریں گے، کیونکہ بڑی عمر میں جوڑ گھسنے کے بعد اسے روکا تو جاسکتا ہے ختم نہیں کیا جاسکتا۔

    ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
    نوٹ : مندرجہ بالا تحریر معالج کی عمومی رائے پر مبنی ہے، کسی بھی نسخے یا دوا کو ایک مستند معالج کے مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔