Tag: احسان دانش

  • احسان دانش: بڑے دل کا مالک ایک شاعرِ مزدور

    احسان دانش: بڑے دل کا مالک ایک شاعرِ مزدور

    احسان دانش کو زندگی کی تلخیوں، مصائب و آلام اور معاش کے لیے سخت دوڑ دھوپ نے جو کچھ سکھایا، وہ ان کی فکر اور تخیّل میں ڈھل کر بطور شاعر ان کی وجہِ شہرت بنا۔ احسان دانش شاعرِ مزدور کہلائے۔ لیکن اردو زبان و ادب میں انھیں ایک ماہرِ لسانیات، نثر نگار اور لغت نویس کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ آج احسان دانش کا یومِ وفات ہے۔

    احسان دانش نے غربت کی گود میں آنکھ کھولی تھی۔ انھیں مزدوری اور یومیہ اجرت پر کام کرنا پڑا، کبھی وہ مالی بنے اور کبھی چپڑاسی اور قاصد کی ذمہ داری نبھائی۔ دو وقت کی روٹی کے لیے انھیں جو بھی کام ملا کیا۔ کہتے ہیں کہ ایک وقت ایسا بھی آیا جب انھوں نے جمعدار بننے تک کا سوچا اور صفائی ستھرائی کے اس کام سے وابستہ لوگوں کی نگرانی اور ان سے کام لینے کی ذمہ داری قبول کرنے کو تیار ہو گئے۔ انھوں نے محنت سے جی نہ چرایا اور ہر قسم کا کام کرنا قبول کیا لیکن کسی کے آگے ہاتھ نہ پھیلایا۔ احسان دانش 1982ء میں آج ہی کے دن انتقال کرگئے تھے۔

    اردو کے صاحبِ‌ اسلوب ادیب اور خاکہ نگار اعجاز الحق قدوسی نے اپنی کتاب میں مزدو احسان دانش کو درویش صفت، قناعت پسند اور بڑے دل کا مالک لکھا ہے۔ وہ لکھتے ہیں۔

    "احسان دانش مجموعۂ خوبی ہیں۔ پیکرِ شرافت ہیں۔ پرانی وضع داریوں کا نمونہ ہیں۔ قناعت کی دولت سے مالا مال ہیں۔ فن کا پندار ان میں بالکل نہیں۔ زندگی محنت کی عظمت سے بھرپور ہے اسی لیے شاعرِ مزدور کہلاتے ہیں۔”

    احسان دانش کو عوامی شاعر کہا جاتا ہے۔ وہ انشا پرداز بھی تھے اور زبان و بیان پر ان کی گرفت بھی خوب تھی۔ انھوں نے لغت کے علاوہ اردو کے مترادفات اور اردو الفاظ سے متعلق کتب تصنیف کیں۔ احسان دانش کا کلام ہر خاص و عام میں مقبول ہوا اور بالخصوص ان کے انقلاب آفریں نغمات اور اشعار کو تحریر سے تقریر تک موقع کی مناسبت سے برتا گیا۔ انھوں نے عام آدمی اور مزدور کے جذبات کی ترجمانی کے ساتھ فطرت اور رومان پرور خیالات کو بھی اپنے اشعار میں سمویا۔ احسان دانش کا ایک شعر ہے۔

    احسان اپنا کوئی برے وقت میں نہیں
    احباب بے وفا ہیں، خدا بے نیاز ہے

    احسان دانش نے کسی طرح مڈل پاس کرلیا لیکن آگے نہیں‌ پڑھ سکے۔ حالات نے انھیں کم عمری میں کمانے پر مجبور کردیا۔ مشہور ہے کہ اس تنگی کے باوجود وہ دل کے بادشاہ تھے۔ حالات کی سختیوں کے باوجود ان کی طبیعت میں‌ شگفتگی اور شوخی برقرار رہی۔ ان سے متعلق مشہور ایک دل چسپ واقعہ ہم یہاں نقل کر رہے ہیں۔

    کسی مشاعرہ کے منتظم نے احسان دانش سے درخواست کی کہ ہم نے شہر میں ایک مشاعرے کا اہتمام کیا ہے، اس میں شریک ہو کر ممنون فرمائیے۔

    احسان نے دریافت کیا، ’’مشاہرہ کیا ہو گا؟‘‘

    منتظم نے نہایت انکساری سے جواب دیا۔ ’’آپ اس مشاعرہ میں معاوضہ کے بغیر شرکت فرما کر اس ادنیٰ کو شکر گزاری کا موقع دیں۔‘‘

    احسان دانش اس کی انکساری سے قطعاً متاثر نہ ہوئے اور خاصا کاروباری انداز اپناتے ہوئے کہا۔

    ’’بندہ نواز! آپ کو ممنون فرمانے میں مجھے کوئی اعتراض نہ تھا اور میں بغیر معاوضہ کے آپ کے مشاعرہ میں چلا آتا، لیکن اُس وقت جب میرے شعروں سے میرے بچّوں کا پیٹ بھر سکتا۔ آپ خود ہی غور فرمائیے قبلہ کہ گھوڑا گھاس سے محبت کرے گا تو کیا آپ کے شکریہ پر زندہ رہ سکے گا؟‘‘

    احسان دانش کے اس جواب نے یقیناً منتظم کو ناراض اور ان سے متعلق بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا ہو گا، لیکن جو لوگ ان سے واقف تھے، وہ جانتے تھے کہ احسان دانش نے ایسا جواب کیوں‌ دیا‌۔

    احسان دانش کا ایک شعر بہت مشہور ہے۔

    یہ اڑی اڑی سی رنگت، یہ کھلے کھلے سے گیسو
    تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ

    قاضی احسان الحق ان کا نام اور احسان تخلص تھا۔ ان کے والد قاضی دانش علی باغ پت ضلع میرٹھ کے رہنے والے تھے، لیکن بعد میں کاندھلا میں سکونت اختیار کر لی۔ احسان یہیں 1913ء میں پیدا ہوئے۔ احسان کے والد کے پاس اچھی خاصی جائیداد بھی تھی لیکن آہستہ آہستہ سب کچھ ختم ہوگیا۔ یوں احسان دانش نے غربت اور تنگ دستی دیکھی اور تعلیم بھی مڈل سے آگے نہ بڑھ سکی۔ حالات کچھ ایسے ہوئے کہ وہ اپنی چپڑاسی کی نوکری چھوڑ کر لاہور چلے آئے اور یہاں محنت مشقت اور مزدوری کرنے لگے۔ ان حالات کے باوجود احسان دانش کو علم حاصل کرنے اور مطالعہ کا شوق تھا اور انھوں نے کتابوں سے اپنا رشتہ نہیں توڑا۔ انھیں کام نمٹانے کے بعد جو وقت بھی ملتا کتب بینی میں صرف کرتے۔ جو بھی شعری صلاحیت ان میں پیدا ہوئی وہ کتب بینی ہی سے ہوئی۔

    شاعرِ‌ مزدور احسان دانش طبقاتی کشمکش سے بیزار تھے۔ انھوں نے مروجہ نظامِ حکومت اور عدم مساوات کے خلاف آواز اٹھائی۔ ان کی شاعری میں‌ مزدوروں کو متحد ہوجانے کی تلقین، برابری اور بھائی چارگی کا درس بھی ملتا ہے۔ ان کی نظر میں شعر و ادب زندگی کا آئینہ رہا۔ فطرت سے انھیں پیار تھا اور رومان بھی ان کے اشعار میں بہت بے ساختہ ہے۔

    ان کے مجموعہ ہائے کلام اور دیگر کتب میں ابلاغ دانش، تشریح غالب، آواز سے الفاظ تک، اردو مترادفات شامل ہیں جب کہ ان کی خودنوشت بھی جہانِ دانش کے نام سے شایع ہوئی تھی۔

    احسان دانش کی یہ غزل ملاحظہ کیجیے

    یوں نہ مل مجھ سے خفا ہو جیسے
    ساتھ چل موج صبا ہو جیسے

    لوگ یوں دیکھ کے ہنس دیتے ہیں
    تو مجھے بھول گیا ہو جیسے

    عشق کو شرک کی حد تک نہ بڑھا
    یوں نہ مل ہم سے خدا ہو جیسے

    موت بھی آئی تو اس ناز کے ساتھ
    مجھ پہ احسان کیا ہو جیسے

    زندگی بیت رہی ہے دانشؔ
    ایک بے جرم سزا ہو جیسے

    احسان دانش کی خود نوشت سوانح عمری جہانِ دانش بھی علمی اور ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہے۔ اس کتاب کو نہ صرف پاکستان رائٹرز گلڈ نے آدم جی ادبی انعام کا مستحق قرار دیا بلکہ اس پر حکومت پاکستان نے بھی پانچ ہزار روپے کا انعام عطا کیا۔ حکومتِ پاکستان نے شاعرِ‌ مزدور کو ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز عطا کیے۔

  • شاعرِ مزدور احسان دانش کا تذکرہ

    شاعرِ مزدور احسان دانش کا تذکرہ

    احسان دانش کی زندگی جہدِ مسلسل سے عبارت تھی۔ روزی روٹی کا چکر ان کے پیروں میں‌ ایسا پڑا کہ عمر اسی میں گزر گئی اور وہ شاعرِ مزدور مشہور ہوگئے۔

    اردو کے اس مشہور شاعر کی زندگی کے ابتدائی ایّام بے حد سخت اور کٹھن تھے، جب احسان دانش کو جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے کے لیے بڑے جتن کرنا پڑے۔ انھوں نے کبھی مزدوری کی تو کبھی باروچی گیری، کہیں چپڑاسی بھرتی ہوئے تو کبھی مالی بن کر دو وقت کی روٹی کا انتظام کیا، لیکن اس کے ساتھ قلم بھی تھامے رکھا اور تخلیقی ادب کے ساتھ زبان و بیان، تحقیق اور تدوین کا کام بھی انجام دیتے رہے۔

    احسان دانش ایسے کج کلاہ تھے جنھوں نے ضمیر فروشی کے علاوہ ہر معمولی مگر جائز کام کر کے پیسے کمائے۔ ان کا اصل نام قاضی احسانُ الحق تھا، مگر شعر و ادب میں احسان دانش کے نام سے شہرت پائی۔ 22 مارچ 1982ء کو وفات پانے والے احسان دانش نام وَر شاعر، ادیب اور ماہرِ لسان تھے۔ انھوں نے اپنی زندگی کی مشکلات اور تلخیوں کے ساتھ اردو زبان و ادب میں‌ جو نام و مرتبہ پایا اس کی مثال کم ہی نظر آتی ہے۔

    قاضی احسان الحق 1914ء میں کاندھلہ، مظفر نگر (یو پی) میں پیدا ہوئے تھے۔ غربت کی وجہ سے چوتھی جماعت سے آگے نہ پڑھ سکے، لیکن مطالعہ کے شوق اور لگن سے اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ شاعری میں کمال حاصل کیا۔ نوعمری میں تلاشِ معاش کی غرض سے لاہور آگئے اور یہیں عمر تمام کی۔

    احسان دانش شاعری نے ہر صنفِ سخن میں طبع آزمائی کی۔ غزلوں کے ساتھ ساتھ مختلف موضوعات پر کہی گئی نظمیں احسان دانش کے تخلیقی شعور اور انسان دوستی کی مثال ہیں۔ ان کے شعری مجموعوں میں حدیثِ ادب، دردِ زندگی، تفسیرِ فطرت، آتشِ خاموش، چراغاں اور گورستان سرِفہرست ہیں۔

    لسانیات کا مضمون بھی احسان دانش کی علمی قابلیت اور استعداد کا ثبوت ہے۔ اس میدان میں دستورِ اردو، تذکیر و تانیث اور اردو مترادفات ان کی یادگار کتابیں ہیں۔ حضرت احسان دانش کی خود نوشت سوانح عمری جہانِ دانش بھی علمی اور ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئی جس پر پاکستان رائٹرز گلڈ نے انھیں آدم جی ادبی ایوارڈ دیا اور حکومتِ پاکستان نے اس کتاب پر احسان دانش کو انعامی رقم دی۔

    علمی اور ادبی خدمات پر انھیں‌ ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز بھی عطا کیے گئے تھے۔ احسان دانش کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں۔

    آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج
    عمر بھر کے رنج و غم یاد آ گئے

    ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے:

    یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
    تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ

    یہ کون ہنس کے صحنِ چمن سے گزر گیا
    اب تک ہیں پھول چاک گریباں کیے ہوئے

  • مزدور شاعر احسان دانش کا یومِ وفات

    مزدور شاعر احسان دانش کا یومِ وفات

    22 مارچ 1982ء کو اردو کے نام وَر شاعر، ادیب اور ماہرِ لسانیات احسان دانش وفات پاگئے تھے۔ زندگی کی تلخیوں اور سختیوں کو جھیلتے، کٹھنائیوں کا سامنا کرتے ہوئے احسان دانش نے شعروسخن کی دنیا میں‌ وہ نام و مرتبہ پایا جو بہت کم شعرا کو نصیب ہوتا ہے۔

    قاضی احسان الحق نام اور احسان تخلص تھا۔ وہ 1914ء میں کاندھلہ، مظفر نگر (یوپی) میں پیدا ہوئے تھے۔ غربت کی وجہ سے چوتھی جماعت سے آگے نہ پڑھ سکے، لیکن مطالعہ کے شوق اور لگن سے اردو، فارسی اور عربی کے ساتھ شاعری میں کمال حاصل کیا۔ نوعمری میں تلاشِ معاش میں لاہور آگئے تھے اور یہیں عمر تمام کی۔ انھوں نے ہر قسم کی نوکری اور وہ کام کیا جس سے دو وقت کی روٹی نصیب ہوسکے۔ وہ کسی دفتر میں چپڑاسی رہے، اور کہیں‌ مالی کا کام سنبھالا تو کبھی بوجھ ڈھو کر اجرت پائی۔ اسی محنت اور مشقّت کے ساتھ شاعری کا سفر بھی جاری رکھا۔ یہی وجہ ہے کہ انھیں‌ مزدور شاعر بھی کہا جاتا ہے۔

    احسان دانش شاعری کی ہر صنف پر عبور رکھتے تھے۔ ان کی کئی غزلیں، نظمیں مشہور ہیں جو ان کے کمالِ فن اور تخلیقی شعور کا نتیجہ ہیں۔ احسان دانش کے شعری مجموعوں میں حدیثِ ادب، دردِ زندگی، تفسیرِ فطرت، آتشِ خاموش، چراغاں اور گورستان سرِفہرست ہیں۔

    لسانیات کا موضوع بھی احسان دانش کی علمی قابلیت اور زبان و بیان پر ان کے عبور کا ثبوت ہے۔ اس میدان میں دستورِ اردو، تذکیر و تانیث اور اردو مترادفات ان کی یادگار کتابیں ہیں۔ حضرت احسان دانش کی خود نوشت سوانح عمری جہانِ دانش بھی علمی اور ادبی حلقوں میں بے حد مقبول ہوئی جس پر پاکستان رائٹرز گلڈ نے انھیں آدم جی ادبی ایوارڈ دیا اور حکومتِ پاکستان نے اس کتاب پر احسان دانش کو انعامی رقم دی۔

    حکومتِ پاکستان کی جانب سے انھیں علمی اور ادبی خدمات انجام دینے پر ستارۂ امتیاز اور نشانِ امتیاز بھی عطا کیے گئے۔ احسان دانش کے چند اشعار پیشِ خدمت ہیں

    آج اس نے ہنس کے یوں پوچھا مزاج
    عمر بھر کے رنج و غم یاد آ گئے

    احسان دانش کا یہ شعر بہت مشہور ہے:

    یہ اڑی اڑی سی رنگت یہ کھلے کھلے سے گیسو
    تری صبح کہہ رہی ہے تری رات کا فسانہ

    یہ کون ہنس کے صحنِ چمن سے گزر گیا
    اب تک ہیں پھول چاک گریباں کیے ہوئے

  • مشاعرے کے منتظم کو شاعرِ مزدور کا جواب

    مشاعرے کے منتظم کو شاعرِ مزدور کا جواب

    احسان دانش اردو زبان کے مقبول شاعر تھے جنھوں نے معاش کی سختیوں‌ اور زندگی کی تلخیوں‌ کو اپنے کلام میں یوں‌ سمویا کہ وہ ہر خاص و عام کے قریب ہوگئے۔ ان کے تجربات اور مشاہدات اصنافِ سخن کے جس سانچے میں‌ ڈھلے مقبول ہوئے۔

    احسان دانش مڈل پاس تھے اور ساری زندگی معمولی نوکری اور مزدوری کرتے گزری۔ کبھی چوکیداری کی تو کہیں‌ مالی رہے، کسی کا بوجھ ڈھو کر روٹی کا انتظام کیا تو کبھی صفائی ستھرائی کا کام کرلیا۔ اسی لیے انھیں‌ "شاعرِ مزدور” بھی کہا جاتا ہے۔

    مختلف ادبی تذکروں‌ میں‌ اس نام وَر شاعر کے حالات اور ان کی زندگی کے مختلف واقعات بھی پڑھنے کو ملتے ہیں جن میں‌ سے ایک دل چسپ واقعہ ہم آپ کے مطالعے کے لیے یہاں‌ نقل کررہے ہیں۔

    مشہور ہے کہ کسی مشاعرہ کے منتظم نے احسان دانش سے درخواست کی کہ ہم ایک مشاعرہ کررہے ہیں، اس میں شامل ہوکر ممنون فرمائیے۔

    احسان نے دریافت کیا، ’’معاوضہ کتنا ملے گا؟‘‘

    منتظم نے نہایت انکساری سے جواب دیا۔ ’’آپ اس مشاعرہ میں معاوضہ کے بغیر شمولیت فرماکر کم ترین کو شکر گزار فرمائیں۔‘‘

    احسان دانش اس کی انکساری سے قطعاً متاثر نہ ہوئے اور خاصا کاروباری انداز اپناتے ہوئے کہا۔

    ’’بندہ نواز! آپ کو ممنون فرمانے میں مجھے کوئی اعتراض نہ تھا اور میں بغیر معاوضہ کے آپ کے مشاعرہ میں چلا آتا، لیکن اُس وقت جب میرے شعروں سے میرے بچوں کا پیٹ بھرسکتا۔ آپ خود ہی غور فرمائیے قبلہ کہ گھوڑا گھاس سے محبت کرے گا تو کیا آپ کے شکریہ پر زندہ رہ سکے گا؟‘‘

    احسان دانش کے اس جواب نے یقینا منتظم کو ناراض اور ان سے متعلق بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہو گا، لیکن جو لوگ ان سے واقف تھے، وہ جانتے تھے کہ احسان دانش نے ایسا جواب کیوں‌ دیا‌۔