Tag: احمد جمال پاشا

  • کرکٹ کبھی کھیل بھی رہا ہو گا مگر اب تو یہ باقاعدہ ایک سائنس ہے!

    کرکٹ کبھی کھیل بھی رہا ہو گا مگر اب تو یہ باقاعدہ ایک سائنس ہے!

    میں کرکٹ سے اس لیے بھاگتا ہوں کہ اس میں کھیلنا کم پڑتا ہے اور محنت زیادہ کرنا پڑتی ہے۔ ساری محنت پر اس وقت پانی پِھر جاتا ہے جب کھیلنے والی ایک ٹیم ہارجاتی ہے۔ ایمان کی بات ہے کہ ہم نے’’سائنس‘‘ کو ہمیشہ رشک کی نظروں سے دیکھا مگر کبھی اس مضمون سے دل نہ لگا سکے۔

    ہمارا بیانِ صفائی سننےکے بعد میر صاحب جل کر بولے، ’’میاں تمہاری باتوں سے کاہلی کی بُو آتی ہے اور تمہارا رجحان درونِ خانہ قسم کے کھیلوں کی طرف معلوم ہوتا ہے۔ مگر یہ بتاؤ کہ بھلا کرکٹ کا سائنس سے کیا تعلق ہے۔ کیا بے سر کی بات کہہ دی تم نے؟‘‘

    عرض کیا، ’’کرکٹ کبھی کھیل بھی رہا ہو گا مگر اب تو میر صاحب یہ باقاعدہ ایک سائنس ہے اور سائنس بھی ایسی جس میں ایجاد و تحقیق کرنا آسان مگر ٹیسٹ پلیئر بننا دشوار۔‘‘

    ’’خوب! خوب! عدم واقفیت کی بھی ایک حد ہوا کرتی ہے۔ کون سا ٹیسٹ پلیئر عالم فاضل ہے۔ دو چار کو تعلیم سے دور کا تعلق ضرور ہے مگر بس اس حد تک کہ اکثر ابتدائی درجوں میں پاس فیل کی پروا کیے بغیر امتحان میں شریک ہو جاتے ہیں۔ بھلا اس کا علم و فضل سے کیا تعلق؟‘‘

    ’’کرکٹ کے کھلاڑی کو اگر دیکھنا ہو تو درجے میں نہیں میدان میں دیکھیے۔‘‘

    چمک کر بولے، ’’میں تو پہلے ہی کہتاتھا۔ بھلے آدمیوں کا کھیل ہے۔‘‘

    کہا، ’’جی بالکل نہیں! انتہائی رئیسانہ کھیل ہے۔‘‘

    ’’مگر بھلے آدمی بھی تو رئیس کہلاتے ہیں۔‘‘

    ’’ایسی بھی کیا رئیسیت کہ چہرہ لہولہان ہوجائے۔ دانت شہید ہوجائیں ۔ خیر دانت تو بعد میں ٹوٹیں گے پہلے تو مارے سردی کے بجنے لگیں گے۔ میر صاحب یہ ممکن نہیں کہ اس چلّے کے جاڑے میں اور کھلے میدان میں مجبوراً کھیلنے والے لحاف اوڑھ کر رن بنایا کریں۔‘‘

    بولے، ’’کرکٹ کی گرمی لحاف کی تاب کہاں لا سکتی ہے، پھر اتنے موٹے دستانے پہننے، پیڈ چڑھانے اور گارڈ باندھنے کے بعد سردی کا کیا سوال؟‘‘

    کہا، ’’شکریہ! سردی کا علاج توآپ نے بتا کرخوف کچھ کم کر دیا لیکن اگر کھیلنے والوں کے پیروں کو نرم و نازک گیند کی سہولت بھی دی جائے تو فرسٹ ایڈ کی زحمت سے بے نیاز ہو کر بہ آسانی کرکٹ کھیلا جاسکتا ہے۔‘‘

    مسکراتے ہوئے بولے، ’’آپ کے خیالات اسپورٹس مین اسپرٹ کے سخت خلاف ہیں ورنہ کھلاڑی تو اس کو کہتے ہیں جو چوٹ کھا کر مسکرائے اور جیتنے والے سے ہاتھ ملائے۔‘‘

    ’’خیر ٹھٹھرانے اور مرنے سے نہیں ڈرتا مگر کھیل کھیل میں جان جانے کے تصورسے ضرور ہاتھ پیر ٹھنڈے ہونے لگتے ہیں۔‘‘

    میر صاحب بھلا میری باتوں میں کیا آتے۔ ہم نے بھی غنیمت جانا کہ یہ اس وقت محض کرکٹ کو کھیل منوا رہے ہیں۔ خیریت ہے کہ انہیں یہ نہیں سوجھی کہ کھیل سے زیادہ ضروری نہانا ہوتا ہے ورنہ کڑکڑاتے جاڑے اور پالے میں ہمیں غسل خانے میں زبردستی بند کر کے اوپر سے اگر ٹھنڈے پانی کے فوارے کھول دیں تو پانی کے پہلے ہی چھینٹے کے ساتھ ہم غسل خانہ میں اکڑ کر تختہ ہو جائیں۔ کرکٹ میں زیادہ سے زیادہ زخمی ہوسکتے ہیں اور بعد میں علاج کرکے اچھے ہوسکتے ہیں۔ لہٰذا نیم رضا مندی کے انداز میں چھیڑتے ہوئے بولے،

    ’’میر صاحب کالرا اور پلیگ کی طرح یہ بھی تو متعدی وبا ہے۔ پھر وبائے عام میں مرنا مرزا غالبؔ نے بھی پسند نہ کیا تھا۔ تو آخر اس خاکسار کو شہید کروا کے آپ کو کیا ملے گا۔‘‘

    اتراتے ہوئے بولے، ’’خیر اگر تعلقات برقرار رکھنا ہیں تو کل ٹھیک دس بجے غریب خانے پر کمنٹری سننے آجائیے۔‘‘

    سوچا، کھیلنے سے سننا زیادہ آسان ہوگا۔ لہٰذا فوراً ہامی بھرلی۔

    دوسرے دن وعدے کے مطابق ٹھیک دس بجے میر صاحب کے یہاں پہنچے تو نقشہ ہی کچھ عجیب نظر آیا۔ ملاقاتی کمرے کی بیچ کی میز پر خاص دان کے بجائے ریڈیو رکھا ہوا تھا اور اس کا مائک کمرے کے باہر سڑک پر لگا ہوا تھا۔ مائک کے نیچے ایک بلیک بورڈ آویزاں تھا۔ میر صاحب ٹرانزسٹر لٹکائے کسی کو ہاتھوں ہاتھ کمرے میں لاکر صوفے پر بٹھاتے، کسی کو کمرے کے باہر فٹ پاتھ پر کھڑے رہنے کا حکم دیتے۔ انتظام کے ساتھ ساتھ باتیں بھی کرتے جاتے۔ ایک صاحب بولے،

    ’’کیوں نہ ہو بھائی! ٹیسٹ کا معاملہ ہے۔ خدا کے فضل سے پہلا ٹیسٹ ہم جیت چکے ہیں۔ اس بار بھی شان کریمی کے صدقے میں چھکے نہ چھڑوا دیے تو کوئی بات نہ ہوئی۔ اگر محب وطن ہمارے کھلاڑیوں کی کامیابی کے لیے گڑگڑا کر بارگاہِ رب العزت میں دعا مانگیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ میدان ہمارے ہاتھ نہ رہے۔ پھر اس میں شرم کی کیا بات ہے۔ دعا تو رستم بھی مقابلے سے پہلے مانگتا تھا، اور غالب بھی آتا تھا۔‘‘

    ان کے مخاطب اپنی سفید براق نورانی داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے آمین کہہ کر بولے، ’’بھائی دو رکعت شکرانہ تو میں نے بھی مانی ہے۔‘‘

    ہمارے میر صاحب پر اس وقت باقاعدہ ’’کرکٹیریا‘‘ کے دورے پڑ رہے تھے۔ بندے کا یہ عالم تھا کہ ان سے جس موضوع پر بھی بات کرتا اس کا جواب وہ کرکٹ کی بامحاورہ زبان میں دیتے۔

    حضرات علم اور تجربے کے سلسلے میں ایک دوسرے پر رعب جمانے کے لیے اپنی اپنی عمریں ایک دوسرے سے بڑھا چڑھا کر بتا رہے تھے۔ ان میں سے ایک صاحب پوچھ بیٹھے، ’’میر صاحب آپ تو ان کے ہم عمر ہیں، بھلا بتائیے آپ کی عمر کیا ہوگی؟‘‘

    میر صاحب نے کہا، ’’اگلے ننانوے سال بعد بھی خاکسار ننانوے ناٹ آؤٹ ہی رہے گا۔‘‘

    جب بات باپ دادا تک پہنچی تو میر صاحب نے دخل در معقولات کرتے ہوئے کہا، ’’بھائیو! میرے بڑوں کو کچھ نہ کہو، کیوں کہ ایک نہ ایک دن ہم سبھی کو ملک الموت کے ہاتھوں کیچ ہونا ہے۔‘‘

    اس کے بعد بے ثباتی عالم پر تبصرہ کرتے ہوئے بولے، ’’یہ دنیا ایک ٹیسٹ میچ ہے۔ اس کے اوپننگ بیٹس مین بابا آدم اور ماما حوّا تھے۔ اس میچ کی پہلی اننگ چل رہی ہے اور دوسری میدان حشر میں ہوگی۔‘‘

    کسی نے پوچھا، ’’کیا قیامت آنے کے لیے روس اور امریکا میں جنگ ہونا ضروری ہے۔‘‘

    بولے، ’’بالکل! مگر قیامت سے پہلے دونوں میں ایٹمی ٹیسٹ میچ ضرور ہوگا۔‘‘

    اتنے میں فٹ پاتھ سے نعرے لگنے لگے کہ وقت ہوگیا ریڈیو کھولیے!

    ایک صاحب ترکاری کا جھولا لیے کمنٹری سن رہے تھے۔ ان کی باتوں سے معلوم ہوا کہ دفتر سے چھٹی لیے ہوئے ہیں اور ترکاری ابھی خریدی نہیں ہے۔

    ایک صاحب زادے بغل میں بستہ دبائے اپنے ماسٹر کے ساتھ کھڑے کمنٹری سن رہے تھے۔ ماسٹر نے چلتے وقت شاگرد رشید سے اسکور پوچھا۔

    اس میچ میں ہمارے ایک امریکی دوست مل گئے۔ ساتھ ہی ان کی فرم کے اسسٹنٹ بھی تھے۔ میں نے پوچھا، ’’آپ انہیں کام کے وقت میں کمنٹری سننے سے نہیں روکتے؟‘‘

    وہ بے بسی کے انداز میں بولے، ’’بھئی کسی کے مذہبی مشاغل میں مخل ہونے کی ذمہ داری کون اپنے سَر لے۔‘‘

    ہم اپنے کسی دوست کے ساتھ چائے پینے ایک ہوٹل میں پہنچے۔ ہوٹل میں بڑے زور شور سے کمنٹری سنی جارہی تھی۔ لہٰذا چائے تو جاتے ہی مل گئی لیکن جگہ آخر تک نہ مل سکی۔ کمنٹری سمجھ میں نہیں آرہی تھی۔ ریڈیو اور ہوٹل دونوں کی کمنٹری ایک ساتھ چل رہی تھی اور اس قسم کی آوازیں کانوں میں پڑرہی تھیں،

    ’’دو چائے کارڈلے ٹورنس۔ ایک آملیٹ، چار سلائس ایک کافی ٹوٹل گوز ٹو۔ بیس آنے۔ ایک انڈا لگ آؤٹ۔ ۔ ۔ وغیرہ۔‘‘

    اتنے میں ہوٹل والے نے پوچھا، ’’کارڈلے اب تک کھیل رہا ہے؟‘‘

    ’’ہاں!‘‘

    ہوٹل والے نے غصہ میں آپے سے باہر ہوکر چیختے ہوئے کہا، ’’اگر کارڈلے اب بھی کھیل رہا ہے تو ریڈیو بند کر دو۔‘‘

    اس کے بعد ہوٹل سے نکل کر اپنے غیر ملکی دوست کے ساتھ ان کے دفتر تک گیا۔

    دفتر والے برادر فون پر اسکور پوچھ رہے تھے۔

    ایک صاحب نے فون کیا، ’’ہلو۔ ہلو۔‘‘

    ’’یس ریلوے انکوائری۔‘‘

    ’’کیا اسکور ہے۔‘‘

    ’’یہ ریلوے انکوائری ہے بابا۔‘‘

    ’’تو آپ کو اسکور تک نہیں معلوم؟‘‘

    ’’جی بالکل نہیں۔‘‘

    ’’افوہ! حکومت نے بھی کیسے کیسے لوگ رکھ چھوڑے ہیں جو اسکور تک نہیں بتا سکتے۔ بھلا یہ حکومت چل سکتی ہے؟‘‘

    صاحب اسی طرح جو میں ایک دن دفتر سے گھر پہنچا تو بیگم نے اسکور پوچھا۔

    میں نے کہا، ’’آج بالائی آمدنی میں صرف دس روپے ملے ہیں۔‘‘

    اس پر بیگم صاحبہ نے بڑے زور سے ڈانٹا، ’’میں آمدنی نہیں میچ کا اسکور پوچھ رہی ہوں۔‘‘

    چنانچہ جناب اسکور معلوم کرنے کے لیے الٹے پاؤں پنواڑی کی دکان تک جانا پڑا۔

    ( ستم ایجاد کرکٹ اور میں بیچارہ کے عنوان سے یہ تحریر معروف طنز و مزاح نگار احمد جمال پاشا کی ہے)

  • دفتر میں نوکری

    دفتر میں نوکری

    ہم نے دفتر میں کیوں نوکری کی اور چھوڑی، آج بھی لوگ پوچھتے ہیں مگر پوچھنے والے تو نوکری کرنے سے پہلے بھی پوچھا کرتے تھے!

    ’’بھئی، آخر تم نوکری کیوں نہیں کرتے؟‘‘

    ’’نوکری ڈھونڈتے نہیں ہو یا ملتی نہیں؟‘‘

    ’’ہاں صاحب، ان دنوں بڑ ی بے روز گاری ہے۔‘‘

    ’’بھئی، حرام خوری کی بھی حد ہوتی ہے!‘‘

    ’’آخر کب تک گھر بیٹھے ماں باپ کی روٹی توڑو گے۔‘‘

    ’’لو اور سنو، کہتے ہیں، غلامی نہیں کریں گے۔‘‘

    ’’میاں صاحبزادے! برسوں جوتیاں گھسنی پڑیں گی، تب بھی کوئی ضروری نہیں کہ۔۔۔‘‘ غرض کہ صاحب گھر والوں، عزیز رشتے داروں، پڑوسیوں اور دوستوں کے دن رات کے تقاضوں سے تنگ آکر ہم نے ایک عدد نوکری کر لی۔ نوکری تو کیا کی، گھر بیٹھے بٹھائے اپنی شامت مول لے لی۔ وہی بزرگ جو اٹھتے بیٹھتے بے روزگاری کے طعنوں سے سینہ چھلنی کیے دیتے تھے، اب ایک بالکل نئے انداز سے ہم پر حملہ آور ہوئے؟‘‘

    ’’اماں، نوکری کر لی؟ لاحول ولا قوۃ!‘‘

    ’’ارے، تم اور نوکری؟‘‘

    ’’ہائے، اچھے بھلے آدمی کو کولہو کے بیل کی طرح دفتر کی کرسی میں جوت دیا گیا۔‘‘

    ’’اگر کچھ کام وام نہیں کرنا تھا تو کوئی کاروبار کرتے اس نوکری میں کیا رکھا ہے۔‘‘

    لیکن ملازمت کا پرُسہ اور نوکری پر جانا دونوں کام جاری تھے۔ ایسے حضرات اور خواتین کی بھی کمی نہ تھی جن کی نظروں میں خیر سے ہم اب تک بالکل بے روزگار تھے۔ لہٰذا ان سب کی طرف سے نوکری کی کنویسنگ بھی جاری تھی۔ روزگار کرنے اور روزگار نہ کرنے کا بالکل مفت مشورہ دینے والوں سے نبٹ کر ہم روزانہ دفتر کا ایک چکر لگا آتے۔

    یہاں چکر لگانے، کا لفظ میں نے جان بوجھ کر استعمال کیا ہے کیونکہ اب تک ہم کو نوکری مل جانے کے باوجود کام نہیں ملا تھا۔ بڑے صاحب دورے پر گئے ہوئے تھے۔ ان کی واپسی پر یہ طے ہونا تھا کہ ہم کس شعبے میں رکھے جائیں گے۔ دفتر ہم صرف حاضری کے رجسٹر پر دستخط کرنے کی حد تک جاتے تھے۔ فکر اس لیے نہ تھی کہ ہماری تنخواہ جڑ رہی تھی، یعنی پیسے دودھ پی رہے تھے۔ پریشانی اس بات کی تھی کہ اس ’باکار‘ ’بے کاری‘ کے نتیجے میں ہم کہیں ’حرام خور‘ نہ ہو جائیں۔ بے روزگاری کے تقاضوں سے ہم اس قدر تنگ آچکے تھے کہ اب کسی پر یہ ظاہر کرنا نہ چاہتے تھے کہ باوجود روزگار سے لگے ہونے کے ہم بالکل بے روزگار ہیں اور بے روز گا ر بھی ایسے کہ جس سے کار تو کار، بے گار تک نہیں لیا جارہا ہے۔

    روزانہ ہم گھر سے دفتر کے لیے تیار ہو کر نکلتے اور راستے میں سائیکل آہستہ کر کے دفتر کے پھاٹک پر کھڑے چپراسی سے پوچھتے، ’’اماں آیا؟‘‘

    جواب ملتا، ’’ابھی نہیں آیا۔‘‘

    اس کے بعد ہم دفتر میں جا کر حاضری لگا الٹے قدموں باہر آتے، سائیکل اٹھاتے اور شہر کے باہر دیہات، باغوں اور کھیتوں کے چکر لگا لگا کر دل بہلاتے اور وقت کاٹتے۔

    لیکن دو چار دن میں، جب دیہات کی سیر سے دل بھر گیا، تو شہر کے نکڑ پر ایک چائے خانے میں اڈا جمایا۔ پھر ایک آدھ ہفتے میں اس سے بھی طبیعت گھبرا گئی۔ اب سوال یہ کہ جائیں تو جائیں کہاں؟ ایک ترکیب سوجھ گئی۔ گھر میں کہہ دیا، چھٹی لے لی ہے۔ دو چار دن بڑے ٹھاٹھ رہے آخر جھک مار کر وہی دفتری آوارہ گردی شروع کر دی۔

    اس کے بعد دو ایک دن دفتر میں سوانگ رچایا۔ ایک دن دفتر میں چھٹی کی وجہ یہ بتائی کہ ہمارے افسر ایک مختصر علالت کے بعد آج وفات پاگئے۔ مگر یہ خوش آگیں لمحات بھی مدتِ وصل کی طرح جلد ختم ہوگئے۔ اب کیا کریں۔ اسکول کے زمانے میں ہم نے چھٹی حاصل کرنے کے لیے ایک ایک کر کے تقریباً اپنے پورے خاندان کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

    غیر حاضری کا یہ عذر پیش کرتے۔ ’’دادا جان پر اچانک ڈبل نمونیہ کا حملہ ہوا اور وہ ایک ہی دن میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔‘‘

    نوبت یہاں تک آپہنچی کہ ماسٹر صاحب نے بید کھڑکاتے ہوئے کڑک کر پوچھا، ’’کل کہاں تھے؟‘‘

    رونی صورت بنا کر عرض کیا، ’’والد صاحب کا انتقال ہوگیا۔‘‘

    دروغ گو را حافظہ نہ باشد۔ ہم والد مرحوم کی وفاتِ حسرت آیات کی تفصیل میں جانے کے لیے مصائب پر آنے ہی والے تھے کہ ماسٹر صاحب گرجے، ’’تمہارے والد کا تو پچھلے مہینے انتقال ہو چکا ہے۔‘‘

    جلدی سے بات بناتے ہوئے کہا، ’’ابّا سے مراد بڑے ابّا۔ جنہیں ہم ابّا کہتے تھے۔ ہمارے بڑے ابّا!‘‘

    ماسٹر صاحب ہماری اس تازہ ترین یتیمی سے بے حد متاثر ہوئے۔ اس موقع پر تو خیر ہم بالکل بال بال بچ گئے۔ لیکن جب ہم نے اپنی بھاوج کے تیسری بار انتقال کی خبر سنائی تو ماسٹر صاحب کھٹک گئے۔ ہم سے بہ ظاہر رسمی ہمدردی کی مگر شام کو بید لے کر تعزیت کے لیے ہمارے گھر آئے، جہاں ہمارے خاندان کے ہر مرحوم سے انہوں نے ذاتی طور پر ملاقات کرنے کے بعد ہم کو ہمارے گھر نما قبرستان میں بید سے مارتے مارتے زندہ درگور کر دیا۔

    چنانچہ اب جو دفتر سے بچنے کے سلسلے میں زمانۂ طالب علمی میں چھٹی کے ہتھکنڈوں پر نظر دوڑائی اور طبیعت گدگدائی تو بجائے دفتر جانے کے گھر میں اعلان کر دیا۔

    ’’ڈائریکٹر صاحب کا آج انتقال ہو گیا۔‘‘ رفتہ رفتہ وقت گزاری سے اتنے عاجز آگئے کہ ایک دن یہ سوچ کر کہ نہ رہے گا بانس اور نہ بجے گی بانسری، استعفیٰ جیب میں رکھ کر دفتر پہنچے لیکن ہماری بدقسمتی ملاحظہ فرمائیے کہ قبل اس کے کہ ہم استعفیٰ پیش کرتے ہمیں یہ خوش خبری سنادی گئی کہ فلاں شعبے سے ہم کو وابستہ کر دیا گیا ہے، جہاں ہم کو فلاں فلاں کام کرنے ہوں گے۔

    اب ہم روزانہ بڑی پابندی سے پورا وقت دفتر میں گزارنے لگے۔ دن دن بھر دفتر کی میز پر جمے ناول پڑھتے، چائے پیتے اور اونگھتے رہتے۔

    جب ہم اپنے انچارج سے کام کی فرمائش کرتے تو وہ بڑی شفقت سے کہتے ایسی جلدی کیا ہے، عزیزم زندگی بھر کام کرنا ہے۔

    ایک دن ہم جیسے ہی دفتر پہنچے تو معلوم ہوا کہ جن ڈائریکٹر صاحب کو ہم اپنے گھر میں مرحوم قرار دے چکے تھے، وہ ہم کو طلب فرما رہے ہیں۔ فوراً پہنچے۔بڑے اخلاق سے ملے۔ دیر تک اِدھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد بولے، ’’اچھا!‘‘

    ’’آپ نے شاید مجھے کسی کام سے یاد فرمایا تھا۔‘‘

    ’’اوہ! ٹھیک ہے۔ سیکریٹری صاحب سے مل لیجیے۔ وہ آپ کو سمجھا دیں گے۔‘‘

    سیکریٹری صاحب سے ایک ہفتے بعد کہیں ملاقات ہوسکی۔ انہوں نے اگلے دن بلایا اور بجائے کام بتانے کے ڈپٹی سیکریٹری کا پتہ بتا دیا۔ موصوف دورے پر تھے۔ دو ہفتے بعد ملے۔ بہت دیر تک دفتری نشیب و فراز سمجھانے کے بعد ہمیں حکم دیا کہ اس موضوع پر اس اس قسم کا ایک مختصر سا مقالہ لکھ لائیے، آدھے گھنٹے کے اندر تیار کر دیا۔

    خوشی کے مارے ہم پھولے نہ سمائے کہ ہم بھی دنیا میں کسی کام آسکتے ہیں۔ دو صفحے کا مقالہ تیار کرنا تھا جو ہم نے بڑی محنت کے بعد آدھے گھنٹے کے اندر تیار کر دیا۔ موصوف نے مقالہ بہت پسند کیا۔

    مزید کام کے لیے ہم ان کے کمرے کا رخ کرنے ہی والے تھے کہ اس دفتر کے ایک گھاگ افسر نے ہمارا راستہ روکتے ہوئے ہمیں سمجھایا، بھیّا اپنی نوکری سے ہاتھ دھونا چاہتے ہو یا ہم لوگوں کی نوکریاں ختم کرانا چاہتے ہو؟ آخر تمہارا مطلب کیا ہے؟ جو کام تم کو دیا گیا تھا، اسے کرتے رہو، ہم لوگ دفتر میں کام کرنے نہیں بلکہ اپنے آپ کو مصروف رکھنے کے لیے آتے ہیں۔

    اگلے دن اتوار کی چھٹی تھی۔ ناشتہ کرتے وقت اخبار کے میگزین سیکشن پر جو نظر دوڑائی تو وہی مقالہ ہمارے ایک صاحب کے صاحب کے صاحب کے صاحب کے نام نامی اور اسم گرامی کے دم چھلّے کے ساتھ بڑے نمایاں طور پر چھپا ہوا نظر آ گیا۔

    ہمارے حساب سے اب اگلا آدھ گھنٹے کا کام دو تین مہینے کی دوڑ دھوپ کے بعد دفتر میں مل سکتا تھا، جس پر لعنت بھیجتے ہوئے بجائے دفتر جانے کے ہم نے اپنا استعفیٰ بھیج دیا، جس کو منظور ہونے میں اتنے دن لگے جتنے دن ہم نے دفتر میں کام بھی نہیں کیا تھا۔

    شاید آپ پوچھیں کہ ملازمت کر کے ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا۔ تو میں عرض کروں گا کہ نوکری کھوئی اور دن میں اونگھنے، سونے اور ناول پڑھنے اور وقت گزاری کی عادت پائی۔ ہمیں اور کیا چاہیے؟

    (بھارت سے تعلق رکھنے والے معروف مزاح نگار اور صحافی احمد جمال پاشا کی کتاب ستم ایجاد سے ایک شگفتہ تحریر)

  • ہمیں جیل ہوجائے!

    ہمیں جیل ہوجائے!

    کہتے ہیں ڈھونڈے سے خدا بھی مل جاتا ہے۔ ضرور مل جاتا ہے، لیکن لاکھ لاکھ تلاش کے باوجود مکان نہیں ملتا۔

    اسی چکّر میں یہ طے کر کے نکلے کہ یا مکان تلاش کر لیں گے ورنہ خود ہی لاپتا ہوجائیں گے! لیکن ہوا یہ کہ نہ مکان مل سکا اور نہ خود جیتے جی لامکاں ہوسکے! لیکن ہر مکان کو خالی سمجھ کر اس پر لپکنے کے چکّر میں کئی بار پولیس کے ہتھے چڑھتے چڑھتے ضرور بچے!

    جب سارے شہر میں ایک بھی’’ٹولٹ‘‘ کا بورڈ نہ ملا اور نہ کسی نے بتایا کہ کسی کا کوئی مکان کہیں خالی ہے تو ہم نے اخباروں اور رسالوں میں ’’مکان چاہیے، مکان!‘‘ کے اشتہار نکلوائے۔ احباب کو دھمکی دی کہ اگر مکان نہ ملا تو مع سامان کے تمہارے یہاں دھرنا دیں گے، لیکن اس طرح مکان یا اس کا اتا پتا تو نہ ملا البتہ دوستوں کی بھیڑ ضرور چھٹ گئی۔

    جب ہم کسی خالی مکان میں تالا لگا دیکھتے تو اس خیال کے تحت اس کے چکّر لگانے لگتے کہ یہ ضرور خالی ہوگا۔ جس سے پاس پڑوس والوں کو شک ہونے لگتا کہ کہیں ان کا ارادہ قفل شکنی کا تو نہیں؟ لیکن یہاں قفل شکنی تو کُجا کسی کی دل شکنی بھی نہیں کرسکتے اور اسی مروّت کے مارے آج مکان کی تلاش میں زمین کا گز بنے ہوئے ہیں۔

    ہوا یہ کہ جس مکان میں ہم رہتے تھے اس کے مالک نے ہمیں بڑے سبز باغ دکھائے کہ ’’اگر ہم کچھ دن کے لیے کہیں اور چلے جائیں تو وہ اس ٹوٹے ہوئے مکان کو توڑ کر نئی بلڈنگ کھڑی کردیں گے، جس میں ہمیں بجلی اور پانی کے پائپ وغیرہ کی خاص سہولتیں بالکل مفت حاصل ہوں گی۔‘‘ ہم نے ان کی باتوں میں آکر اپنے دوست خاں صاحب کے یہاں ڈیرا جمایا۔

    مالک مکان نے مکان بنوانے کی بجائے اسی کھنڈر کا پیشگی کرایہ اور پگڑی لے کر ایک نیا کرایہ دار بسالیا جبھی سے ہم مکان ڈھونڈتے اور خاں صاحب سے آنکھیں چراتے پھرتے ہیں۔

    ہمارے ایک دوست جو مکان تلاش کرنے میں ہماری کافی مدد کررہے تھے، سخت بیمار پڑگئے۔ ہم نے بہت جی لگا کر ان کی تیمار داری کی تاکہ وہ جلد از جلد اچّھے ہوکر ہمارے لیے مکان ڈھونڈ سکیں، لیکن جوں جوں ان کا علاج کیا، حالت بگڑتی گئی۔ یہاں تک کہ آخر ان کا انتقال ہوگیا۔ ہم نے اپنے دوست کا کفن دفن اور تیجا، چالیسواں اس خیال سے کر دیا کہ پگڑی اور پیشگی کرایہ نہیں دیا، مرحوم کی آخری رسوم ادا کر دیں اور ہم مرحوم کے مکان منتقل ہوگئے، لیکن ابھی ہم نے اچھی طرح سامان بھی نہ جمایا تھا کہ پولیس نے ہمیں نکال باہر کیا، کیوں کہ مرحوم کے پس ماندگان نے مکان اپنے نام الاٹ کرا لیا تھا۔

    اس بار خاں صاحب نے بھی ہمیں پناہ نہ دی۔ مجبوراً ہم نے سامان اسٹیشن کے لگج روم میں جمع کروایا اور پلیٹ فارم پر رات کو سونے کے ساتھ ساتھ دن کو مکان کی تلاش کا سلسلہ جاری رکھا۔ اس تلاش کے باوجود کچھ دنوں میں گھر تو نہ ملا، لیکن ایک عدد گھر والی ضرور مل گئی۔ جس کی وجہ سے رات بسر کرنے کے لیے کرایہ پر رات میں ’’رین بسیرے‘‘ میں جگہ مل جاتی، لیکن مکان کے بارے میں ہماری مایوسی یہاں تک بڑھ گئی کہ ہم سوچنے لگے، کیوں نہ ہم دونوں کوئی ایسا جرم کر ڈالیں کہ ہمیں جیل ہوجائے اور اس طرح رہنے کا سہارا ہوجائے۔

    (معروف مزاح نگار احمد جمال پاشا کی تحریر سے چند شگفتہ پارے)