Tag: احمد حسن دانی

  • احمد حسن دانی:‌ علمِ‌ بشریات اور آثارِ قدیمہ کے عالمی شہرت یافتہ ماہر

    احمد حسن دانی:‌ علمِ‌ بشریات اور آثارِ قدیمہ کے عالمی شہرت یافتہ ماہر

    عالمی شہرت یافتہ علمِ بشریات اور آثارِ قدیمہ کے ماہر احمد حسن دانی ایک نادرِ روزگار شخصیت تھے جنھیں پاکستان میں ایک دانش ور اور ماہرِ لسانیات کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ آج پروفیسر احمد حسن دانی کی برسی ہے۔

    وہ تیس سے زیادہ کتابوں کے مصنّف ‌تھے اور ان کی آخری تصنیف تاریخِ پاکستان کے نام سے وفات سے کچھ عرصہ قبل ہی منظرِ عام پر آئی تھی۔ شمالی پاکستان اور وسط ایشیا کی قدیم تاریخ سے متعلق احمد حسن دانی کی علمی اور تحقیقی کتب بڑا سرمایہ ہیں۔ انھوں نے ساسانی بادشاہت پر بھی تحقیقی کام کیا اور جے پی موہن کے ساتھ مل کر تاریخِ انسانیت نامی انسائیکلو پیڈیا کی تیسری جلد مرتب کی تھی۔ سینئر صحافی عارف وقار لکھتے ہیں، وہ شمالی علاقہ جات کی مختلف بولیوں بلتی، شِنا اور بروشسکی وغیرہ سے تو واقفیت رکھتے ہی تھے لیکن جن چودہ زبانوں پر انھیں مکمل عبور حاصل تھا اُن میں اردو، ہندی، بنگالی، پنجابی، سندھی، فارسی، ترکی، پشتو، سرائیکی، کشمیری، مراٹھی، تامل، فرانسیسی اور سنسکرت جیسی متنوع زبانیں شامل تھیں۔

    20 جون 1920ء کو کشمیر کے ایک گاؤں میں آنکھ کھولنے و الے احمد حسن دانی نے تعلیم کے ابتدائی مدارج طے کیے تو ان کے والد کا تبادلہ ناگ پور ہوگیا۔ اردو عربی اور فارسی تو اسی زمانہ میں سیکھ لی تھیں، اور پھر ناگ پور میں اسکول میں ہندی اور سنسکرت بھی سیکھنے کا موقع مل گیا۔ اس سے ان کے اندر زباں فہمی کا شوق پیدا ہوا اور بعد میں انھوں نے مرہٹی زبان پر بھی عبور حاصل کیا۔ احمد حسن دانی کو اسی خصوصیت کی بنا پر ماہرِ لسانیات بھی کہا جاتا ہے۔ تاریخ اور آثارِ قدیمہ کے شعبے میں ان کی کتابیں سند کا درجہ رکھتی ہیں۔

    1944ء میں گریجویشن کے بعد ایم اے کی ڈگری حاصل کرنے والے احمد حسن دانی کی قابلیت اور ان کی تاریخ و ثقافت میں گہری دل چسپی کو دیکھتے ہوئے حکومت نے انھیں محکمۂ آثارِ قدیمہ میں عہدہ تفویض کردیا۔ اس زمانے میں مشہور انگریز ماہر ٹیمر ویلر بنارس یونیورسٹی گئے تو وہاں ان کی ملاقات نوجوان احمد حسن دانی ہوئی اور وہ ان کے علم اور لگن سے بہت متاثر ہوئے۔ ویلر انھیں اپنے ساتھ دہلی لے گئے۔ بعد میں اس انگریز ماہر کے زیرِ نگرانی احمد حسن دانی نے ٹیکسلا اور موہنجو دڑو کی سائٹ پر کام کیا اور دریافت و تحقیق میں حصّہ لیا۔ بعد ازاں برٹش انڈیا کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں تعینات کیے گئے۔ حکومت نے احمد حسن دانی کو ہندوستان کی شہرۂ آفاق عمارت تاج محل میں تعینات کر دیا۔ پروفیسر دانی سمجھتے تھے کہ آثارِ قدیمہ سے متعلق معلومات عوام تک پہنچانے کے لیے عجائب گھروں کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ 1950ء میں انھوں نے وریندر میوزیم راج شاہی کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد جب انھیں ڈھاکہ میوزیم کا ناظم مقرر کیا گیا تو انھوں نے بنگال کی مسلم تاریخ کے بارے میں کچھ نادر نشانیاں دریافت کیں جو آج بھی ڈھاکہ میوزیم میں دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    برصغیر کی تقسیم کے بعد احمد حسن دانی پاکستان آگئے اور ان کی پہلی تقرری مشرقی پاکستان میں ہوئی۔ 1948ء میں انھوں نے سر مور ٹیمر کے ساتھ مل کر ایک کتاب تصنیف کی جس کا نام ’’پاکستان کے پانچ ہزار سال‘‘ تھا۔

    1947ء سے 1949ء تک پروفیسر احمد حسن دانی محکمۂ آثارِ قدیمہ میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے اور بعد میں محکمے کے سپرنٹنڈنٹ انچارج بنائے گئے۔ انھوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبے میں تدریسی فرائض بھی سَر انجام دیے۔ جنرل محمد ایوب خان کے دور میں پشاور یونیورسٹی میں شعبۂ آثارِ قدیمہ کی بنیاد رکھی گئی تو پروفیسر احمد حسن دانی کو سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس دور میں انھوں نے پشاور، وادیٔ سوات اور دیگر علاقوں میں بعض مقامات پر کھدائی کا کام کروایا اور بہت سے نوادرات اور آثار وہاں سے برآمد ہوئے جن سے بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔

    ڈاکٹر حسن دانی نے لاہور اور پشاور کے عجائب گھروں کو بہتر بنانے کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ وہ مختلف ادوار میں ذمہ داریاں ادا کرتے ہوئے 1980ء میں ریٹائر ہوئے۔ریٹائرمنٹ کے بعد انھیں پتھروں پر کندہ قدیم تحریروں میں دل چسپی پیدا ہوگئی اور اواخرِ عمر تک وہ گلگت اور بلتستان کے علاقوں میں، آثارِ قدیمہ کے جرمن ماہرین کی معاونت سے قدیم حجری کتبوں کے صدیوں سے سربستہ راز کھولنے کی کوشش میں مصروف رہے۔

    ڈاکٹر احمد حسن دانی 1971 میں اسلام آباد منتقل ہوگئے تھے اور وہاں قائدِاعظم یونیورسٹی میں شعبۂ علومِ عمرانی کا شعبہ قائم کرکے ریٹائرمنٹ تک اسی سے وابستہ رہے۔ اسلام آباد ہی میں 26 جنوری 2009ء کو ان کا انتقال ہوگیا۔

    ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی کی تحقیقی و علمی مساعی کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا۔ حکومت پاکستان نے اپنے شعبہ جات میں احمد حسن دانی کی اعلٰی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں ستارۂ امتياز اور ہلالِ امتياز دیا جب کہ امریکا، برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا کے علاوہ جرمنی اور اٹلی میں بھی انھیں جامعات کی سطح پر اعلیٰ تعلیمی اور شہری اعزازات سے نوازا گیا تھا۔

    احمد حسن دانی کو آکسفورڈ سمیت دنیا کے کئی ممالک نے تعلیمی اداروں سے وابستہ ہونے اور شہریت دینے کی پیشکش کی، لیکن انھوں نے پاکستان نہیں چھوڑا۔ مختلف کتب کے علاوہ احمد حسن دانی کے مضامین اور مقالہ جات بھی بہت اہمیت کے حامل ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے شریک مصنّف بھی رہے۔

  • ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی کی برسی

    علمِ بشریات اور آثارِ قدیمہ کے ماہر کی حیثیت سے احمد حسن دانی کا شمار عالمی شہرت یافتہ شخصیات میں ہوتا ہے۔ ایک دانش ور اور ماہرِ لسانیات کے طور پر بھی ان کا نام پاکستان میں‌ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس نابغۂ روزگار شخصیت کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    احمد حسن دانی 20 جون 1920ء کو کشمیر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے اردو، عربی اور فارسی زبان سیکھنے کے ساتھ اپنی تعلیم کے ابتدائی مدارج طے کیے تو والد کا تبادلہ ناگ پور ہوگیا۔ وہاں‌ اسکول میں ہندی اور سنسکرت بھی سیکھنے کا موقع ملا۔ اس نے ان کے اندر زباں فہمی کا شوق اور دل چسپی کو بڑھایا اور بعد میں احمد حسن دانی نے مرہٹی زبان پر بھی عبور حاصل کیا۔ اسی خصوصیت کی بنا پر انھیں ماہرِ لسانیات بھی کہا جاتا ہے۔ احمد حسن دانی کو تاریخ اور آثارِ قدیمہ کے شعبے میں سند کا درجہ رکھتے ہیں۔

    پروفیسر احمد حسن دانی نے 1944ء میں گریجویشن کے بعد ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور ان کی دل چسپی اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے انھیں محکمۂ آثارِ قدیمہ کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کر دیا گیا۔ اس زمانے میں مشہور انگریز ماہر ٹیمر ویلر بنارس یونیورسٹی گئے تو وہاں ان کی ملاقات نوجوان احمد حسن دانی ہوئی جو ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنے ساتھ دہلی لے گئے۔ انھوں نے اس انگریز ماہر کے زیرِ نگرانی ٹیکسلا اور موہنجو دڑو کی کھدائی میں حصّہ لیا۔ اس کے بعد برٹش انڈیا کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں تعینات کیے گئے۔ حکومت نے ان کی دل چسپی اور کام میں مہارت کو دیکھتے ہوئے انھیں شہرۂ آفاق عمارت تاج محل میں تعینات کر دیا۔ تعلیم و تربیت کے ابتدائی مراحل ہی میں پروفیسر دانی نے محسوس کر لیا تھا کہ آثارِ قدیمہ سے متعلق معلومات عوام تک پہنچانے کے لیے عجائب گھروں کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ 1950ء میں انھوں نے وریندر میوزیم راج شاہی کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد جب انھیں ڈھاکہ میوزیم کا ناظم مقرر کیا گیا تو انھوں نے بنگال کی مسلم تاریخ کے بارے میں کچھ نادر نشانیاں دریافت کیں جو آج بھی ڈھاکہ میوزیم میں دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    برصغیر کی تقسیم ہوئی تو احمد حسن دانی پاکستان آگئے اور ان کی پہلی تقرری مشرقی پاکستان میں ہوئی۔ 1948ء میں انھوں نے سر مور ٹیمر کے ساتھ مل کر ایک کتاب تصنیف کی: ’’پاکستان کے پانچ ہزار سال۔‘‘

    ڈاکٹر دانی 1947ء سے 1949ء تک محکمۂ آثارِ قدیمہ میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے اور بعد میں محکمے کے سپرنٹنڈنٹ انچارج بنائے گئے۔ انھوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبے میں تدریسی فرائض بھی سَر انجام دیے۔

    پھر جنرل محمد ایوب خان کے دور میں پشاور یونیورسٹی میں شعبۂ آثارِ قدیمہ بنایا گیا تو اس کی سربراہی پروفیسر احمد حسن دانی کو دی گئی۔ اس حیثیت میں انھوں نے پشاور اور وادیٔ سوات میں اور دیگر علاقوں میں کھدائی کا کام کروایا اور یہاں سے نوادرات اور آثار برآمد کیے۔

    ڈاکٹر حسن دانی نے لاہور اور پشاور کے عجائب گھروں کو بہتر بنانے کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ وہ مختلف ذمہ داریاں ادا کرتے رہے اور 1980ء میں ریٹائر ہو گئے۔

    انھوں نے ساری عمر سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور کئی مقامی زبانوں اور لہجوں پر عبور رکھتے تھے۔ 26 جنوری 2009ء کو ڈاکٹر حسن دانی اسلام آباد میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

    ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی ستائش کی تمنّا اور صلے کی پروا کے بغیر اپنے کام میں مگن رہے، ان کی تحقیقی و علمی مساعی کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا۔ احمد حسن دانی کو ان کی اعلٰی خدمات کے صلے ميں حکومت پاکستان نے ستارۂ امتياز اور ہلالِ امتياز سے نوازا جب کہ اُن کے علم و بصیرت کا شہرہ مغربی دنیا میں ہوا تو امریکا، برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا کے علاوہ جرمنی اور اٹلی میں بھی انھیں اعلیٰ ترین تعلیمی، تدریسی اور شہری اعزازات سے نوازا گیا۔

    احمد حسن دانی کو آکسفورڈ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں رہتے ہوئے وہاں کام کرنے اور پڑھانے کی پیشکش کی گئی، لیکن وطن کی محبت میں انھوں نے انکار کردیا۔

    ان کی تصانیف پچاس سے زائد اور ان کے مضامین ان گنت ہیں جن میں ہسٹری آف ناردرن ایریاز آف پاکستان، رومانس آف دی خیبر پاس، چلاس: دی سٹی آف نانگا پربت، ٹھٹھہ: اسلامک آرکیٹکچر شامل ہیں۔ ڈاکٹر حسن دانی کئی کتابوں کے شریک مصنّف بھی رہے۔

  • ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی کا تذکرہ

    ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی کا تذکرہ

    احمد حسن دانی ماہرِ‌ آثارِ قدیمہ و علمِ بشریات تھے۔ انھوں نے تاریخ داں اور دانش وَر کی حیثیت سے عالمی شہرت حاصل کی۔ آج اس نابغۂ روزگار کا یومِ وفات ہے۔

    وہ 20 جون 1920ء کو کشمیر کے ایک گاؤں میں پیدا ہوئے۔ اردو، عربی اور فارسی کی تعلیم حاصل کی۔ والد کا تبادلہ ناگ پور ہوا تو اسکول میں ہندی اور سنسکرت بھی سیکھنے کا موقع ملا اور بعد میں مرہٹی زبان پر بھی عبور حاصل کیا۔ انھیں اسی خصوصیت کی بنا پر ماہرِ لسانیات بھی کہا جاتا ہے۔ انھیں‌ لسانیات، تاریخ اور آثار قدیمہ کے مضامین میں سند سمجھا جاتا ہے۔

    پروفیسر احمد حسن دانی نے 1944ء میں گریجویشن کے بعد ایم اے کی ڈگری حاصل کی اور ان کی دل چسپی اور قابلیت کو دیکھتے ہوئے انھیں محکمۂ آثارِ قدیمہ کا ڈائریکٹر جنرل مقرر کردیا گیا۔ اس زمانے میں مشہور انگریز ماہر ٹیمر ویلر بنارس یونیورسٹی گئے تو وہاں ان کی ملاقات نوجوان احمد حسن دانی ہوئی جو ان سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنے ساتھ دہلی لے گئے۔ انھوں نے اس انگریز ماہر کے زیرِ نگرانی ٹیکسلا اور موہنجو دڑو کی کھدائی میں حصّہ لیا۔ اس کے بعد برٹش انڈیا کے آرکیالوجی ڈیپارٹمنٹ میں تعینات کیے گئے۔ حکومت نے ان کی دل چسپی اور کام میں مہارت کو دیکھتے ہوئے انھیں شہرۂ آفاق عمارت تاج محل میں تعینات کر دیا۔ تعلیم و تربیت کے ابتدائی مراحل ہی میں پروفیسر دانی نے محسوس کر لیا تھا کہ آثارِ قدیمہ سے متعلق معلومات عوام تک پہنچانے کے لیے عجائب گھروں کی تعمیر انتہائی ضروری ہے۔ چنانچہ 1950ء میں انھوں نے وریندر میوزیم راج شاہی کی بنیاد رکھی۔ کچھ عرصہ بعد جب انھیں ڈھاکہ میوزیم کا ناظم مقرر کیا گیا تو انھوں نے بنگال کی مسلم تاریخ کے بارے میں کچھ نادر نشانیاں دریافت کیں جو آج بھی ڈھاکہ میوزیم میں دیکھنے والوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔

    برصغیر کی تقسیم ہوئی تو وہ پاکستان آگئے اور ان کی پہلی تقرری مشرقی پاکستان میں ہوئی۔ 1948ء میں انھوں نے سر مور ٹیمر کے ساتھ مل کر ایک کتاب تصنیف کی: ’’پاکستان کے پانچ ہزار سال۔‘‘

    ڈاکٹر دانی 1947ء سے 1949ء تک محکمۂ آثارِ قدیمہ میں اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ کے طور پر ذمہ داریاں ادا کرتے رہے اور بعد میں محکمے کے سپرنٹنڈنٹ انچارج بنائے گئے۔ انھوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں تاریخ کے شعبے میں تدریسی فرائض بھی سَر انجام دیے۔

    پھر جنرل محمد ایوب خان کے دور میں پشاور یونیورسٹی میں شعبۂ آثارِ قدیمہ بنایا گیا تو اس کی سربراہی پروفیسر احمد حسن دانی کو دی گئی۔ اس حیثیت میں انھوں نے پشاور اور وادیٔ سوات میں اور دیگر علاقوں میں کھدائی کا کام کروایا اور یہاں سے نوادرات اور آثار برآمد کیے۔

    ڈاکٹر حسن دانی نے لاہور اور پشاور کے عجائب گھروں کو بہتر بنانے کے لیے غیر معمولی خدمات انجام دیں۔ وہ مختلف ذمہ داریاں ادا کرتے رہے اور 1980ء میں ریٹائر ہو گئے۔

    انھوں نے ساری عمر سیکھنے کا سلسلہ جاری رکھا اور کئی مقامی زبانوں اور لہجوں پر عبور رکھتے تھے۔ 26 جنوری 2009ء کو ڈاکٹر حسن دانی اسلام آباد میں خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

    ماضی بازیافت کرنے والے احمد حسن دانی ستائش کی تمنّا اور صلے کی پروا کے بغیر اپنے کام میں مگن رہے، ان کی تحقیقی و علمی مساعی کا عالمی سطح پر اعتراف کیا گیا۔ احمد حسن دانی کو ان کی اعلٰی خدمات کے صلے ميں حکومت پاکستان نے ستارۂ امتياز اور ہلالِ امتياز سے نوازا جب کہ اُن کے علم و بصیرت کا شہرہ مغربی دنیا میں ہوا تو امریکا، برطانیہ، فرانس اور آسٹریلیا کے علاوہ جرمنی اور اٹلی میں بھی انھیں اعلیٰ ترین تعلیمی، تدریسی اور شہری اعزازات سے نوازا گیا۔

    احمد حسن دانی کو آکسفورڈ سمیت دنیا کے بہت سے ممالک میں رہتے ہوئے وہاں کام کرنے اور پڑھانے کی پیشکش کی گئی، لیکن وطن کی محبت میں انھوں نے انکار کردیا۔

    احمد حسن دانی کی تصانیف پچاس سے زائد اور ان کے مضامین ان گنت ہیں جن میں ہسٹری آف ناردرن ایریاز آف پاکستان، رومانس آف دی خیبر پاس، چلاس: دی سٹی آف نانگا پربت، ٹھٹھہ: اسلامک آرکیٹکچر شامل ہیں۔ وہ کئی کتابوں کے شریک مصنّف بھی تھے۔