Tag: احمد سعید ناگی

  • احمد سعید ناگی: فنِ مصوّری کا ایک بڑا نام

    احمد سعید ناگی: فنِ مصوّری کا ایک بڑا نام

    پاکستان میں فنِ مصوّری میں نام و مقام بنانے والوں میں احمد سعید ناگی بھی شامل ہیں جو کو بانیِ پاکستان کا پورٹریٹ بنانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ آج احمد سعید ناگی کی برسی منائی جارہی ہے۔ وہ یکم ستمبر 2006ء کو وفات پاگئے تھے۔

    پاکستانی مصوّر احمد سعید ناگی کو عام طور پر اے ایس ناگی لکھا بھی جاتا ہے۔ وہ 1916ء میں متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر امرتسر میں پیدا ہوئے۔ احمد سعید ناگی 1944ء میں لاہور منتقل ہوگئے تھے۔ یہاں وہ مسلم لیگ کے شعبۂ تشہیر و تعلقات کے لیے کام کرتے رہے۔ تاہم چند برس بعد امرتسر چلے گئے اور وہاں شادی کر لی۔ لیکن اسی زمانے میں تقسیمِ‌ ہند کا اعلان ہوا اور قیامِ پاکستان کے بعد 1947ء میں اے ایس ناگی پاکستان آگئے۔ ہجرت کے بعد انھوں نے کراچی میں سکونت اختیار کی۔ احمد سعید ناگی نے دہلی کیمبرج اسکول دریا گنج کی استانی مس بکلے سے آرٹ کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی رقص بھی سیکھا۔ مجسمہ سازی شیخ احمد سے جب کہ ایس جی ٹھاکر سنگھ سے رنگوں کو برتنا سیکھا۔ بعدازاں‌ فرانس کے شہرۂ آفاق شہر پیرس چلے گئے جہاں‌ پورٹریٹ بنانے کا سلسلہ جاری رہا اور ان کے کام میں نکھار آتا چلا گیا۔ کراچی لوٹنے پر احمد سعید ناگی نے پاکستان کے دیہی ماحول اور ثقافتی پس منظر کو پینٹ کرنے کا مشغلہ اپنایا۔

    پاکستانی مصور احمد سعید ناگی نے ہڑپّہ، موہن جو دڑو، ٹیکسلا کو بھی فنِ مصوّری میں موضوع بنایا۔ پاکستان اور اس کی ثقافت سے دل چسپی رکھنے والے احمد سعید ناگی کو حکومت نے ہوائی اڈّوں اور ان کے وی آئی پی لاؤنجز کی تزئین و آرائش کا کام بھی سونپا۔ انھوں نے پلاسٹر آف پیرس اور دھاتوں سے مجسمہ سازی بھی کی۔ احمد سعید ناگی نے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک دوروں‌ میں‌ مشہور عمارتوں‌، دفاتر اور ہوٹلوں کی تزئین و آرائش کی اور میورلز بنائے۔ اے ایس ناگی اس پر نازاں رہے کہ قائد اعظم کی پہلی اور واحد پورٹریٹ انھوں نے بنائی تھی۔ یہ 1944ء کی بات ہے۔

    احمد سعید ناگی خوش لباس، ہنس مکھ، ملنسار اور محبّت والے انسان مشہور تھے۔ اس باکمال مصوّر کے فن پاروں کی نمائش ملک اور بیرونِ ملک بھی ہوئی جن میں پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت شامل ہیں جہاں شائقین اور ناقدینِ فن نے ان کے کام کو سراہا۔ احمد سعید ناگی کے بنائے ہوئے فن پارے زیارت ریذیڈنسی جب کہ کوئٹہ، کراچی، اور پشاور کے گورنر ہاؤس میں‌ سجائے گئے۔ ان کا کام موہٹہ پیلس، قصر ناز اور لاہور میں‌ پنجاب اسمبلی بلڈنگ میں‌ بھی دیکھا جاسکتا ہے۔ حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • اے ایس ناگی: قائدِ‌اعظم کا پورٹریٹ بنانے والے ممتاز پاکستانی مصوّر

    اے ایس ناگی: قائدِ‌اعظم کا پورٹریٹ بنانے والے ممتاز پاکستانی مصوّر

    پاکستان میں فنِ مصوّری کے میدان میں‌ اپنے کام کی بدولت شناخت بنانے والوں‌ میں‌ احمد سعید ناگی بھی شامل ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔ یکم ستمبر 2006ء میں وفات پانے والے احمد سعید ناگی کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ بانیِ پاکستان نے ان سے اپنا پورٹریٹ بنوایا۔

    وہ اے ایس ناگی کے نام سے بھی معروف تھے۔ 1916ء میں متحدہ ہندوستان کے مشہور شہر امرتسر میں پیدا ہونے والے احمد سعید ناگی 1944ء میں لاہور منتقل ہوگئے تھے۔ یہاں وہ مسلم لیگ کے شعبۂ تشہیر و تعلقات کے لیے کام کر رہے تھے۔ تاہم چند برس بعد امرتسر چلے گئے اور وہاں شادی کر لی۔ لیکن اسی زمانے میں تقسیمِ‌ ہند اور قیامِ پاکستان عمل میں‌ آیا اور یوں‌ 1947ء میں اے ایس ناگی پاکستان آگئے اور کراچی میں سکونت اختیار کی۔

    احمد سعید ناگی نے دہلی کیمبرج اسکول دریا گنج کی استانی مس بکلے سے آرٹ کی ابتدائی تعلیم حاصل کی اور ساتھ ہی رقص بھی سیکھا۔ مجسمہ سازی شیخ احمد سے جب کہ ایس جی ٹھاکر سنگھ سے رنگوں کو برتنا سیکھا۔ بعدازاں‌ فرانس کے شہرۂ آفاق شہر پیرس چلے گئے جہاں‌ پورٹریٹ بنانے کی مشق کی۔ کراچی لوٹنے پر احمد سعید ناگی نے پاکستان کے دیہی ماحول اور ثقافتی پس منظر کو پینٹ کرنے کا مشغلہ اپنایا۔

    پاکستانی مصور احمد سعید ناگی نے ہڑپّہ، موہن جو دڑو، ٹیکسلا کو بھی اپنے فنِ مصوّری کا موضوع بنایا۔ پاکستان اور اس کی ثقافت سے دل چسپی رکھنے والے احمد سعید ناگی کو حکومت نے ہوائی اڈّوں اور ان کے وی آئی پی لاؤنجز کی تزئین و آرائش کا کام بھی سونپا۔ انھوں نے پلاسٹر آف پیرس اور دھاتوں سے مجسمہ سازی بھی کی۔ احمد سعید ناگی نے اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک دوروں‌ میں‌ مشہور عمارتوں‌، دفاتر اور ہوٹلوں کی تزئین و آرائش کی اور میورلز بنائے۔ اے ایس ناگی اس پر نازاں رہے کہ قائد اعظم کی پہلی اور واحد پورٹریٹ انھوں نے بنائی تھی۔ یہ 1944ء کی بات ہے۔

    احمد سعید ناگی باکمال مصوّر تو تھے ہی، وہ خوش لباس شخصیت، ہنس مکھ، ملنسار اور محبّت کرنے والے انسان بھی مشہور تھے۔

    پاکستان کے اس باکمال مصوّر کے فن پاروں کی نمائش ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت میں‌ کی گئی جہاں شائقینِ فن اور ناقدین نے ان کے کام کو بہت پسند کیا۔

    احمد سعید ناگی کے بنائے ہوئے فن پارے زیارت ریذیڈنسی جب کہ کوئٹہ، کراچی، اور پشاور کے گورنر ہاؤسز میں‌ سجائے گئے اور موہٹہ پیلس، قصر ناز اور لاہور میں‌ پنجاب اسمبلی بلڈنگ میں‌ بھی موجود ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • یومِ وفات: مصوّر احمد سعید ناگی جن سے قائدِاعظم نے اپنا پورٹریٹ بنوایا

    یومِ وفات: مصوّر احمد سعید ناگی جن سے قائدِاعظم نے اپنا پورٹریٹ بنوایا

    یکم ستمبر 2006ء کو پاکستان کے نام و‌َر مصوّر احمد سعید ناگی کراچی میں وفات پاگئے تھے۔ انھیں قائدِ اعظم کو روبرو بٹھا کر ان کا پورٹریٹ بنانے کا اعزاز حاصل تھا۔

    احمد سعید ناگی باکمال مصوّر، ایک خوش لباس، ہنس مکھ، ملن سار اور محبّت کرنے والے فن کار مشہورتھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    احمد سعید ناگی لاہور سے معاش کی تلاش میں‌ کراچی آئے تھے اور زندگی کا سفر اسی شہر میں تمام کیا۔ وہ 2 فروری 1916ء کو امرتسر میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے امرتسر، لاہور، دہلی کی درس گاہوں سے تعلیمی مدارج طے کرنے کے بعد پیرس کا رخ کیا اور اعلیٰ تعلیم مکمل کر کے وطن لوٹے۔

    احمد سعید ناگی نے 1944 میں قائدِاعظم کا پورٹریٹ بنایا تھا۔

    پاکستان کے اس باکمال مصوّر کے فن پاروں کو ملک کے مختلف شہروں کے علاوہ پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت میں‌ نمائش کے لیے سجایا گیا جہاں شائقین اور ناقدین نے ان کے کام کو دیکھا اور سراہا۔

    احمد سعید ناگی کے مختلف فن پارے زیارت ریذیڈنسی، گورنر ہائوس کوئٹہ، گورنر ہائوس کراچی، موہٹہ پیلس، قصر ناز، گورنر ہائوس پشاور اور پنجاب اسمبلی بلڈنگ لاہور میں آویزاں ہیں۔

    حکومتِ پاکستان نے فنِ مصوری میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • بانی پاکستان کا پورٹریٹ بنانے والے احمد سعید ناگی کی برسی

    بانی پاکستان کا پورٹریٹ بنانے والے احمد سعید ناگی کی برسی

    احمد سعید ناگی پاکستان کے وہ نام ور اور باکمال مصور تھے جنھیں‌ قائدِ اعظم کو روبرو بٹھا کر ان کا پورٹریٹ بنانے کا اعزاز حاصل ہوا۔ انھیں‌ خوش لباس، ہنس مکھ، ملن سار اور محبت کرنے والا فن کار کہا جاتا ہے جس نے یکم ستمبر 2006 کو اس دنیا سے ہمیشہ کے لیے ناتا توڑ لیا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔

    کراچی میں وفات پانے والے احمد سعید ناگی لاہور سے معاش کی تلاش میں‌ کراچی آبسے تھے۔ وہ 2 فروری 1916 کو امرتسر میں پیدا ہوئے اور امرتسر، لاہور، دہلی کے بعد پیرس میں تعلیم حاصل کی۔

    احمد سعید ناگی نے 1944 میں قائداعظم کو روبرو بٹھا کر ان کا پورٹریٹ بنایا تھا۔

    پیرس، برطانیہ، امریکا، ایران، بھارت اور پاکستان کے مختلف شہروں‌ میں‌ احمد سعید ناگی کے فن پاروں‌ کی نمائش ہوئی اور ان کے کام کو سراہا گیا۔

    ناگی کی بنائی ہوئی پینٹنگز زیارت ریذیڈنسی، گورنر ہائوس کوئٹہ، گورنر ہائوس کراچی، موہٹہ پیلس، قصر ناز، گورنر ہائوس پشاور اور پنجاب اسمبلی بلڈنگ لاہور میں آویزاں ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے فنِ مصوری میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا۔

  • آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی….

    آپ سے تم، تم سے تُو ہونے لگی….

    ”میں اکثر اس کے پاس جاتا تھا۔ کبھی ہفتے میں ایک بار اور کبھی دو بار۔ گھنٹوں ہماری بیٹھک ہوتی اور رات گئے تک دنیا جہاں کی باتیں ہوتی تھیں۔

    یہ جانی پہچانی اور محبت بھری آواز یکم ستمبر 2006 کو ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئی اور اب مجھے اس کی یاد آتی ہے۔“

    ”احمد سعید ناگی ایک خوش لباس، ہنس مکھ، ملن سار اور محبت کرنے والا فن کار تھا، جس سے میرے دوستانہ تعلقات تھے۔ جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے میں نے ناگی کو پہلی بار 1946 میں دیکھا تھا۔

    یہ وہ زمانہ تھا جب میں دھرم پورہ، لاہور میں انجینئر اسٹور ڈپو میں سائن رائٹر پینٹر کی حیثیت سے ملازم تھا۔

    میرے ساتھ بی اے نجمی اور نذیر ضیغم بھی سائن رائٹر، پینٹر کی حیثیت سے ملازم تھے، مگر ہمیں تصویر کشی کا بھی شوق تھا اور اس سلسلے میں تینوں بے استادے تھے۔

    1946 میں ہم نے ایک ہندو دوست کے ساتھ اس وقت کے منٹگمری روڈ پر جہاں آج کل لاہور ٹیلی ویژن اسٹیشن واقع ہے، اس کے قریب ایک دکان کرائے پر لی اور سنیما وغیرہ کے بینر بنانے اور دکانوں، دفتروں کے بورڈ لکھنے کا کام شروع کیا تھا۔

    اس کا نام ”ماڈرن آرٹ سینٹر“ رکھا تھا، حالاں کہ اگر اس وقت ہم سے کوئی ماڈرن (Modern) کے معنی پوچھ لیتا تو ہم نہ بتاسکتے، اس لیے کہ اس دور میں ہمارے نزدیک آرٹ یا مصوری کے معنی سنیما کے بینر، فلموں کی تشہیر کے تصویری بورڈ اور تھیٹروں کے پردوں وغیرہ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔

    یہی نہیں بلکہ وہ پینٹر جو بورڈ وغیرہ لکھتے تھے، ہم ان سب کو مصوروں ہی کے زمرے میں شمار کرتے تھے اور اپنی جگہ خوش ہوتے تھے کہ ہم بھی مصور ہیں۔

    یوں بھی ان دنوں آج کل کی طرح نہ تو جگہ جگہ آرٹ گیلریاں تھیں اور نہ آئے دن آرٹ کی نمائشیں ہوتی تھیں۔ لہٰذا تصویر کشی کرنے والے عام فن کاروں کا ذریعہ معاش یا پینٹروں کی آمدنی کا ذریعہ سنیماﺅں کے بینر تیار کرنا یا پھر تھیٹروں کے پردے اور سیٹ بنانا ہوتا تھا۔

    اگر آپ ابتدائی دور کے مصوروں کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کریں تو بعض بڑے مصور اس دور میں تھیٹروں میں پیش کیے جانے والے ڈراموں کے پوسٹر، پردے اور سیٹ بنایا کرتے تھے۔ یہی کچھ جانتے ہوئے ہم نے دکان شروع کی تھی، مگر ہوتا یہ کہ ہم بیٹھے باتیں کرتے رہتے تھے کیوں کہ کوئی بورڈ لکھوانے اور بینر یا پوسٹر بنوانے نہیں آتا تھا۔

    اس لیے جیسے ہی دن ڈھلتا ہم مختلف سنیماﺅں کا چکر لگاتے اور ان کے آگے لگے ہوئے ایکٹروں کے بڑے بڑے بینر اور بورڈ بڑی حسرت سے دیکھتے رہتے۔ پھر شام ہوتے ہی رائل پارک کے چوک میں پہنچ جاتے جہاں ایک پینٹر کی دکان تھی۔ اس میں نئی فلموں کے لیے بینر اور بورڈ بنتے تھے اور ایک ساتھ تین چار لوگ بنا رہے ہوتے تھے۔

    اس دکان کا مالک ہمارا واقف تھا۔ یہاں ہم کام ہوتا ہوا بھی دیکھتے تھے اور اپنی محرومی کا وقت بھی گزارتے تھے۔ ایک روز ہم کھڑے آپس میں باتیں کررہے تھے کہ وہاں ایک تانگا آکر کھڑا ہوا جس میں سے ایک کِھلتے رنگ کا خوش لباس شخص نیچے اترا۔ اسے دیکھ کر دکان کا مالک اس کے پاس گیا۔ دونوں میں دو چار منٹ کچھ باتیں ہوئیں اور وہ شخص جس تانگے میں آیا تھا اُسی میں سوار ہو کے وہاں سے چلا گیا۔

    دکان والے نے ہمیں بتایا، یہ مشہور آرٹسٹ ہے اور اس کا نام ناگی ہے۔

    ”پھر جنوری 1950 میں جب میں لاہور سے نوکری کی تلاش میں کراچی آیا تو ناگی کے نام اور کام سے واقف ہوا۔ اگرچہ کراچی آکر میں نے مصوری سے عملی رشتہ ختم کردیا تھا اور صحافت ہی کا ہو کر رہ گیا تھا، مگر رنگوں کا اپنا ایک جادو ہوتا ہے جو واقعی سَر چڑھ کر بولتا ہے۔

    یہ میرا ابتدائی دور تھا اور لکھنے لکھانے کی بھی شروعات تھیں۔ اس لیے ناگی کا مجھے جاننا یا میرا اس سے تعارف ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اس کے باوجود میں ایک روز ”ناگی اسٹوڈیو“ چلا گیا،

    اس وقت وہ کینوس اِدھر اُدھر رکھ رہا تھا۔ اس نے خندہ پیشانی سے مجھے دیکھا اور پھر اندر آنے کو کہا۔ میں نے بتایا کہ ”مجھے آرٹ سے دل چسپی ہے اس لیے آیا ہوں؟“

    اس پر ناگی نے پوچھا۔

    ”کیا آرٹ سیکھنا چاہتے ہو۔“

    ”نہیں۔ میں صحافی ہوں، مجھے صرف آرٹ دیکھنے کا شوق ہے۔“

    میرے اس جواب پر ناگی کا کوئی ردعمل نہیں تھا۔ اس نے اپنی مصروفیت کو جاری رکھتے ہوئے کہا۔
    ”اچھا اچھا۔ یہ بات ہے، دیکھو دیکھو!“

    اس پہلی ملاقات کے بعد بھی میں چند ایک بار ناگی اسٹوڈیو گیا تھا، کیوں کہ اب اس سے تھوڑی بہت سلام دعا ہوگئی تھی۔

    اسی اسٹوڈیو میں مشہور مصورہ لیلیٰ شہزادہ سے ملاقات ہوئی تھی۔ اس وقت اسے نام وری حاصل نہیں ہوئی تھی بلکہ ابھی وہ تحصیل فن کے مراحل سے گزر رہی تھی۔“

    ”پہلی دو تین ملاقاتوں میں تو ناگی نے مجھ سے اردو زبان ہی میں بات کی، مگر جب ہماری واقفیت ہوگئی تو پھر اس نے کبھی مجھ سے اردو میں بات چیت نہیں کی۔ ہمیشہ پنجابی ہی میں گفتگو ہوتی تھی۔ پھر ہمارے دوستانہ تعلقات استوار ہوگئے اور تکلف کی جگہ بے تکلفی نے لے لی۔

    آپ سے گزر کر تم تک آئے اور پھر ایک دوسرے کو تُو سے مخاطب کرنے لگے۔“

    (پاکستان کے چند نام ور اور باکمال مصوروں‌ سے متعلق شفیع عقیل کی کتاب سے انتخاب)