Tag: احمد شاہ بخاری

  • ہیمر شولڈ نے احمد بخاری کو کیسا پایا؟

    ہیمر شولڈ نے احمد بخاری کو کیسا پایا؟

    یہ احمد شاہ بخاری کا تذکرہ ہے جنھیں اردو ادب میں پطرس بخاری کے نام سے پہچان اور مقبولیت ملی۔ وہ بطور مزاح نگار نام ور ہوئے اور ادیب، نقاد، معلّم، ماہرِ نشریات اور سفارت کار کی حیثیت سے بھی خود کو منوایا۔ پطرس کی پیشہ ورانہ قابلیت، ان کی ذہانت اور دور اندیشی کے ساتھ ان کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں کا احاطہ کرتی ایک تحریر ہم یہاں نقل کررہے ہیں جو اپنے وقت کی ایک مدبر و دانش ور شخصیت ہیمر شولڈ کے قلم سے نکلی۔ ڈیگ ہیمر شولڈ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بنے تو وہاں ان کی ملاقات احمد بخاری المعروف پطرس بخاری سے ہوئی۔ ہیمر شولڈ احمد شاہ سے بہت متاثر ہوئے جس کا اظہار اپنی تحریر میں کیا ہے۔

    احمد شاہ بخاری اقوامِ متحدہ میں ان دنوں پاکستان کے نمائندے کے طور پر موجود تھے اور اقوامِ متحدہ میں انھیں اہم ذمہ داریاں تفویض کی گئی تھیں‌۔ تعریف و توصیف پر مبنی ہیمر شولڈ کی یہ تحریر ۲۵ جون ۱۹۵۹ء کی ہے۔ وہ لکھتے ہیں:

    احمد بخاری سے میری پہلی ملاقات اس وقت ہوئی جب مجھے سیکرٹری جنرل کا عہدہ سنبھالے کوئی زیادہ مدت نہیں گزری تھی۔ اس وقت وہ اقوام متحدہ میں پاکستانی وفد کے رئیس تھے اور اپنی حاضر جوابی اور شگفتہ بیانی کی بدولت عظیم شہرت کے مالک تھے۔

    اس کے علاوہ وہ اپنے ملک کے بدرجہ غایت مؤثر اور با وقار ترجمان ہونے کے اعتبار سے بڑے احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ ہماری پہلی گفتگو نے ان جذبات و احساسات میں کسی قدر اضافہ ضرور کیا۔ لیکن یہ اضافہ ان کی اس خیالی تصویر سے چنداں مختلف نہ تھا جس کے لیے وہ باہر کی دنیا میں معروف تھے۔

    مجھے یاد ہے کہ کس طرح اس موقع پر انہوں نے اقوام متحدہ کے عالمی مسائل سے زیادہ انگریزی زبان کے ماورائی شعراء کے بارے میں اپنی دل چسپی کا اظہار کیا تھا۔

    کم و بیش ایک سال کے بعد جب مجھے اس ادارے کے لیے عالم اسلام کے ایک اعلیٰ نمائندے کی جستجو ہوئی تو قدرتی طور پر میرا ذہن بخاری کی طرف متوجہ ہوا اور مجھے یہ معلوم کر کے مزید مسرت ہوئی کہ وہ ہمارے عملے میں شرکت کے لیے رضامند ہیں۔ یوں پہلے پہل ان کی خود سپردگی کسی قدر اچنبے کی بات تھی۔

    جنوری ۱۹۵۵ء میں وہ میرے ہمراہ پیکنگ گئے جہاں مجھے ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ہوا بازوں کی ایک جماعت کو رہا کرانے کے لیے بات چیت کرنی تھی۔ کچھ شک نہیں کہ وہ بڑے ہوش مند اور زیرک مشیر تھے لیکن اپنے فرائض منصبی کی بجا آوری کے ساتھ جس بات پر انہیں زیادہ تسکین حاصل ہوئی وہ یہ تھی کہ انہیں مشرقی ایشیا کی تہذیب سے رابطہ پیدا کرنے کا اولین موقع ہاتھ آیا تھا۔ یہ تہذیب مغربی ایشیا کی ثقافت کے متوازی اوصاف رکھتی تھی کہ جس رنگ میں وہ خود رنگے ہوئے تھے۔

    اس کے بعد مشرق وسطیٰ کے دوروں میں مجھے چند موقعوں پر ان کی رہنمائی سے استفادہ کا شرف حاصل ہوا۔ ان ہی سفروں کے دوران، میں نے ان کی قدر و قیمت کا اندازہ لگا کر یہ محسوس کیا کہ ان کی شخصیت پر ان کے عہد شباب کے تجربوں اور خاص کر ان کی خاندانی روایات کی کتنی گہری چھاپ ہے۔ ان کے تمام رفقاء اور احباب جانتے ہیں کہ ان کی قدرتی گرم جوشی اور سادگی میں حیا داری کس قدر رچی بسی ہوئی تھی۔ ان مرکب اوصاف کے پیچھے ان کے عمیق شریفانہ اطوار کارفرما تھے۔ دراصل وہ ایک احساس فخر بھی رکھتے تھے۔ جس کا اظہار انہوں نے میرے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے دو موقعوں پر کیا۔ ان میں سے ایک ان طنزیہ الفاظ سے بھی مترشح ہے کہ "میری پرورش و تربیت اونٹ کے کوہان پر ہوئی۔”

    میں نے اس جگہ روایات کے اس پس منظر پر خاص زور دیا ہے جس سے انہیں واقعی دل بستگی تھی۔ دوسرے اصحاب بلاشبہ ان کی علمی فضلیت اور مغربی اقدار پر ان کی بصیرت کا ذکر کریں گے۔ فی الواقع انہیں انگریزی زبان اور اپنے علاقے کی زبانوں پر زبردست قدرت حاصل تھی اور وہ غیر معمولی طور پر مغربی ادب کے بھی بلند پایہ نقاد تھے۔

    قدرتی طور پر میرے لیے لازم ہے کہ احمد بخاری کے اوصاف و کمال کے بارے میں جو کچھ میں نے کہا ہے اسے چند لفظوں میں سمیٹ کر یہ بیان کروں کہ ان کی یہ خصوصیات ایک سیاسی سفیر کی حیثیت میں کس طرح ظاہر ہوتیں اور اپنا اثر ڈالتی تھیں۔ یہ کام میں جیقس برزون (Jacques Barzun) کی تازہ تصنیف دی ہاؤس آف انٹی لیکٹ کا ایک اقتباس پیش کر کے بخوبی انجام دے سکتا ہوں۔ وہ لکھتے ہیں "حکمت عملی (سفارت) کا تقاضہ ہے کہ دوسرے کے افکار و اذہان سے آگاہی حاصل ہو، یہ انشاء پرداز کا بھی ایک امتیازی وصف ہے مگر اس سے دوسرے درجے پر کہ وہ دوسروں کے دلائل کا جواب کس ہوش مندی اور واضح استدلال کے ساتھ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ ایک ‘حاضر دماغ’ سفیر اور ایک ‘پریشان خیال’ سفیر اصلاح میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔”

    احمد بخاری حقیقت میں ان اوصاف پر پورے اترنے والے سفیر تھے جو مندرجہ بالا اقتباس میں بیان کئے گئے ہیں۔

  • ایک نظامِ زندگی کی پابند قوم!

    ایک نظامِ زندگی کی پابند قوم!

    میں نے بخاری صاحب کو پہلی مرتبہ نومبر 1921ء میں دیکھا تھا۔ ترکِ موالات یا لا تعاون کی تحریک اوجِ شباب پر تھی اور اس کے اوجِ شباب کی کیفیت دیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔ لفظوں میں اس کا صحیح نقشہ پیش کرنا مشکل ہے۔ بس اتنا سمجھ لیجیے کہ صاف نظر آرہا تھا کہ حکومتِ برطانیہ کے قصرِ اقتدار میں ایک خوفناک زلزلہ آگیا ہے اور یہ قصر تھوڑی ہی دیر میں زمیں بوس ہوجائے گا۔

    سالک صاحب ’’زمیندار‘‘ کے مدیر کی حیثیت میں گرفتار ہو چکے تھے۔ مقدمہ چل رہا تھا اور اس کا فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ شفاعت الله خاں مرحوم ’’زمیندار‘‘ کے منیجر تھے اور انتظام کے علاوہ تحریر کا زیادہ تر کام بھی وہی انجام دیتے تھے۔ ان کی ہی تحریک پر سید عبد القادر شاہ مرحوم نے مجھے ادارہٴ تحریر کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے بلایا تھا۔ مرتضیٰ احمد خاں مکیش مرحوم بھی اس وقت ’’زمیندار‘‘ ہی سے وابستہ تھے۔ خبروں اور مختلف مضامین کا ترجمہ ان کے ذمے تھا۔

    ’’زمیندار‘‘ کا دفتر دہلی دروازے کے باہر اس بڑی عمارت میں تھا جو جہازی بلڈنگ کے نام سے مشہور تھی۔ ایک روز شام کے وقت دو گورے چٹے جوان نہایت عمدہ سوٹ پہنے ہوئے آئے۔ بادی النظر میں صاحب لوگ معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے کھڑے کھڑے شفاعت الله خاں سے باتیں کیں۔ غالباً اس روز سالک کے مقدمے کی پیشی ہوئی تھی۔ اسی کی کیفیت پوچھتے رہے اور چلے گئے۔ شفاعت الله خاں نے مجھے بعد میں بتایا کہ ان میں سے ایک احمد شاہ بخاری تھے اور دوسرے سید امتیازعلی تاج۔ میں ان دونوں سے ناواقف تھا اور محض نام سن کر میری معلومات میں کیا اضافہ ہو سکتا تھا۔ میں نے ان کے متعلق کچھ پوچھنا بھی ضروری نہ سمجھا، البتہ اس بات پر تعجب ہوا کہ قومی تحریک کے نہایت اہم مرحلے پر بھی بعض مسلمان انگریزوں کی سی وضع قطع قائم رکھنے میں کوئی برائی محسوس نہیں کرتے۔

    چند روز بعد میں گھر واپس چلا گیا اور ’’زمیندار‘‘ کے ساتھ تعلق قائم نہ رکھ سکا اس ليے کہ میرے اقربا خصوصاً والدہ مرحومہ کو یہ تعلق منظور نہ تھا۔ دو تین مہینے کے بعد شفاعت الله خاں اور مرتضیٰ احمد خاں مکیش خود میرے گاؤں پہنچے جو جالندھر شہر سے چار پانچ میل کے فاصلے پر تھا اور اقربا کو راضی کر کے مجھے دوبارہ ’’زمیندار‘‘ میں لے آئے۔ اس وقت سے مستقل طور پر میری اخبار نویسی کی ابتدا ہوئی۔ سالک صاحب کو ایک سال قید کی سزا ہو چکی تھی اور وہ لاہور سے میانوالی جیل میں منتقل ہوچکے تھے۔

    بخاری اور امتیاز وقتاً فوقتاً سالک صاحب کی صحت و عافیت دریافت کرنے کی غرض سے ’’زمیندار‘‘ کے دفتر آتے رہتے تھے۔ اس زمانے میں ان سے شناسائی ہوئی اور یہ بھی معلوم ہوگیا کہ وہ سالک صاحب کے نہایت عزیز دوست ہیں۔

    1922ء کے اواخر میں سالک صاحب رہا ہو کر آگئے اور ان سے وہ برادرانہ تعلق استوار ہوا جسے زندگی کا ایک عزیز ترین سرمایہ سمجھتا ہوں۔ ان کی وجہ سے بخاری اور امتیاز کے ساتھ بھی ایک خصوصی علاقہ پیدا ہوگیا۔ بخاری صاحب اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور اس علاقہ میں آخری وقت تک کوئی خلل نہ آیا۔ امتیاز صاحب کو خدا تا دیر سلامت رکھے، ان کے ساتھ یہ علاقہ آج بھی اسی طرح قائم ہے جس طرح آج سے تیس پینتیس سال پیشتر قائم تھا۔

    پھر بخاری صاحب سے زیادہ مفصل ملاقاتیں اس زمانے میں ہوتی رہیں جب منشی نعمت الله صاحب مرحوم دہلی مسلم ہوٹل چلا رہے تھے اور بخاری صاحب نے اسی ہوٹل میں اپنے ليے ایک یا دو کمرے لے ليے تھے۔ یہ ہوٹل اسی جگہ تھا جہاں اب اس نام کا ہوٹل موجود ہے لیکن اس کی عمارت بالکل بدل گئی ہے۔

    بخاری صاحب کی باتیں اس زمانے میں بھی سب سے نرالی ہوتی تھیں۔ ہم لوگوں کے دل و دماغ کا ریشہ ریشہ لا تعاون اور آزادی کے جوش سے معمور تھا۔ بخاری صاحب گورنمنٹ کالج میں پروفیسر تھے۔ ایک روز انہوں نے خاص احساسِ ذمہ داری کے ساتھ فرمایا کہ آزادی کے ليے جو کچھ ہوسکتا ہے ضرور کرنا چاہیے مگر یہ حقیقت بھی پیشِ نظر رکھیے کہ جس قوم کا لباس ایک نہیں، جس کے کھانے کے اوقات مقرر نہیں، جس میں یکسانی اور یکجہتی کا کوئی بھی پہلو نظر نہیں آتا، وہ آزادی سے کیا فائدہ اٹھائے گی؟ کوشش کرو کہ اس سرزمین میں بسنے والے لوگ واقعی ایک ایسی قوم بن جائیں جو ایک نظامِ زندگی کی پابند ہو۔

    اس وقت یہ سن کر احساس ہوا کہ بخاری صاحب کا دل آزادی کے جذبے سے بالکل خالی ہے لیکن جب بنیادی حقائق کے صحیح اندازے کا شعور پیدا ہوا تو پتہ چلا کہ یہ ارشاد ان کے بلوغِ نظر کی ایک روشن دستاویز تھا۔

    اسی طرح مجھ سے انہوں نے بارہا کہا کہ آپ اخبار میں ایک چوکھٹا مستقل طور پر لگاتے رہیں جس کے اندر جلی حروف میں یہ عبارت مرقوم ہو کہ ’’بائیں ہاتھ چلو۔‘‘ روزانہ یہ چوکھٹا چھپتا رہے گا تو یقین ہے کہ ہزاروں آدمیوں کو بائیں ہاتھ چلنے کی اہمیت کا احساس ہوتا جائے گا۔

    میں خود ماضی پر نظر بازگشت ڈالتا ہوں۔

    (صاحبِ اسلوب ادیب، مؤرخ، نقاد اور مترجم غلام رسول مہر کی ایک تحریر)