Tag: احمد عقیل روبی

  • احمد عقیل روبی: فکر و فن کی دنیا کی باکمال اور بے مثال شخصیت

    احمد عقیل روبی: فکر و فن کی دنیا کی باکمال اور بے مثال شخصیت

    احمد عقیل روبی نے اردو ادب کو ناول، شخصی خاکے، ادبی تذکرے، سوانح، شعری مجموعے اور غیرملکی زبانوں کے اردو تراجم پر مشتمل تیس سے زائد کتابیں دیں اور خالص علمی خزانے کوچۂ علم و فنوں میں قدم رکھنے والوں کے لیے یادگار چھوڑ گئے۔ تخلیقی اور ادبی کاموں‌ کے ساتھ وہ درس و تدریس سے وابستہ رہے۔

    احمد عقیل روبی نے تمام عمر عقل و دانشِ یونان کی ترویج کی اور خاص طور پر یونانی فلاسفہ کے بارے میں لکھا ہے، جب کہ اپنے ناولوں، ڈراموں اور افسانوں میں بھی وہ یونانی فلسفے کو بیان کرتے نظر آتے ہیں۔ ادبی نقّاد، ڈرامہ نگار، فلمی کہانی نویس اور شاعر احمد عقیل روبی 23 نومبر 2014ء کو انتقال کرگئے تھے۔

    ان کا خاندان لدھیانہ کا تھا۔ احمد عقیل روبی 6 اکتوبر 1940ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم خانیوال میں مکمل کی۔ بعد ازاں لاہور سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہوئے۔ ان کا اصل نام غلام حسین تھا۔ اردو زبان و ادب کے معلّم کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے احمد عقیل روبی نے ادبی مشاغل اور تخلیقی کام بھی جاری رکھا۔ ان کی علمی و ادبی خدمات پر حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

    احمد عقیل روبی کی شاعری بھی بہت خوب صورت ہے اور فلمی دنیا کے لیے ان کے کئی گیت لازوال ثابت ہوئے۔ انھیں فلمی شاعری پر نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ احمد عقیل روبی نے اردو اور پنجابی فلموں کے لیے نغمات لکھے۔ وہ غیرملکی ادب کا وسیع مطالعہ رکھتے تھے اور فلسفہ و اساطیر پر ان کی گہری نظر تھی۔ یہی وجہ ہے کہ احمد عقیل روبی کی تحریروں سے بھی علمیت اور فکر و دانش کا اظہار ہوتا ہے۔ یونانی ادب ان کا مرغوب موضوع تھا۔ اس کے علاوہ روسی، فرانسیسی، امریکی، انگریزی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔

    احمد عقیل روبی میٹرک میں تھے اور شاعری کرتے تھے، لیکن جب ان کی ملاقات ممتاز شاعر قتیل شفائی سے ہوئی تو انھیں احساس ہوا کہ یہ شاعری بہت عام اور ان کے ناپختہ خیالات پر مبنی ہے۔ تب احمد عقیل روبی نے اپنا کلام ضایع کر دیا مگر مشقِ سخن جاری رکھی۔ بعد کے برسوں میں وہ ایک عمدہ شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ احمد عقیل روبی کہتے تھے کہ ایم اے کرنے لاہور آیا تو سجاد باقر رضوی، ناصر کاظمی جیسی شخصیات کی قربت نصیب ہوئی۔ انتظار حسین سے بعد میں قربت حاصل ہوئی اور ان شخصیات سے بہت کچھ سیکھا۔ یورپ اور مغربی مصنّفین پر احمد عقیل روبی نے خاصا کام کیا۔ ان کی سوانح اور ادبی کاموں پر مضامین رقم کیے جو احمد عقیل روبی کا یادگار کام ہے۔

    ان کی تصانیف میں سوکھے پتے، بکھرے پھول، ملی جلی آوازیں، آخری شام، سورج قید سے چھوٹ گیا، کہانی ایک شہر کی، دوسرا جنم، آدھی صدی کا خواب، چوتھی دنیا، ساڑھے تین دن کی زندگی، نصرت فتح علی خان، کرنیں تارے پھول، علم و دانش کے معمار، تیسواں پارہ، یونان کا ادبی ورثہ، دو یونانی کلاسک ڈرامے و دیگر شامل ہیں۔

  • ایوان ترگنیف: وہ ادیب جسے اپنی ماں سے نفرت ہوگئی تھی!

    ایوان ترگنیف: وہ ادیب جسے اپنی ماں سے نفرت ہوگئی تھی!

    ایوان ترگنیف روس کا عظیم ڈراما نویس، ناول اور افسانہ نگار تھا جس کی تحریروں سے اپنے وقت کے بڑے بڑے دانش ور اور اہلِ قلم متاثر نظر آتے ہیں۔ وہ ایسا ادیب تھا جسے اس کی تخلیقات ہی نہیں انسان دوستی اور افکار کی وجہ سے بھی سراہا گیا۔

    ترگنیف کا یہ تذکرہ ہے جو ہم یہاں نقل کررہے ہیں، احمد عقیل روبی کے قلم کی نوک سے نکلا ہے۔ وہ ایک باکمال ادیب، شاعر اور بہترین مترجم تھے جن کا غیرملکی ادب کا مطالعہ حیرت انگیز تھا۔ ایوان ترگنیف کی زندگی اور اس کے تخلیقی سفر کے بارے میں احمد عقیل روبی کی یہ تحریر پُرلطف اور دل چسپ ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ماں کی ممتا پر شک نہیں کیا جا سکتا۔ ماں بچے کو زندگی دیتی ہے، اسے بولنا، چلنا، زندگی کو ڈھنگ سے جینا سکھاتی ہے لیکن کبھی کبھی یہی ماں بچے کی راہ کی سب سے بڑی رکاوٹ بھی بن جاتی ہے۔ بچے کو اپنے ڈھنگ سے زندگی بسر نہیں کرنے دیتی۔ من مانی پر اتر آتی ہے اور یہ ہوتا ہے کہ ماں اور بچے کے درمیان فاصلے بڑھنے لگتے ہیں اور آخر کار بچہ بغاوت کر دیتا ہے، ایسا کئی بار ہوا ہے۔ اس کی ایک مثال انگریزی شاعر لارڈ بائرن کی ہے۔ ماں غصیلی تھی، چڑ چڑاپن اپنے عروج پر تھا۔ اس پر جب غصے کا بھوت سوار ہوتا تو وہ لارڈ بائرن کے بال نوچتی، اسے بری طرح مارتی، بائرن اس سے ہر پل خائف رہتا تھا۔ جب وہ اسکول میں پڑھتا تھا تو اس کے ساتھی اس سے اکثر پوچھتے تھے:’’کیا تمہاری ماں پاگل ہے؟‘‘ بائرن کو اس بات کا بڑا افسوس تھا۔ اسے بچپن میں ماں کا پیار نہ ملا۔ وہ ساری عمر اپنی محبوباؤں میں ماں کا پیار تلاش کرتا رہا۔ فرانسیسی ناول نگار گستاؤ فلابیئر کے ساتھ الٹا حساب ہوا۔ فلابیئر کی ماں نے اسے اتنا پیار دیا، اتنی توجہ دی کہ فلابیئر کی زندگی برباد کر دی اور ساری عمر ماں کی بغل میں سمٹ کر بیٹھا رہا۔ نہ کسی عورت سے شادی کر سکا، نہ کھل کے محبت کر سکا۔ اگر کبھی شادی کے لئے دل نے رضا مندی ظاہر بھی کی تو محبوبہ کو چھوڑ کر ماں کے پاس چلا آیا۔ ماں اس کی کمزوری بن گئی۔ کھانا، پینا، بیٹھنا، سونا، جاگنا، سب کچھ ماں کے اشارے پر کرتا تھا۔ گاؤں سے کبھی پیرس گیا، اپنی محبوبہ سے ملا۔ ماں یاد آ گئی تو پیرس سے بھاگ کر گاؤں چلا آیا۔ ایک بار اس کی شاعر محبوبہ نے اس سے کہا:’’تمہاری ماں تمہاری ایسے دیکھ بھال کرتی ہے جیسے تم کوئی کنواری لڑکی ہو۔‘‘ یہی حال ترگنیف کا تھا لیکن اس نے اپنی ماں سے کھل کر اختلاف کیا۔

    اس کی ماں بہت بڑی جاگیر کی وارث تھی۔ اس کی جاگیر میں 5000 غلام (Serfs) تھے۔ ان پر وہ دل کھول کر ظلم کرتی تھی۔ ہلکی سی غلطی پر انہیں کوڑوں سے مارتی۔ ترگنیف کو ماں کی اس عادت سے نفرت تھی۔ یہ نفرت ساری زندگی اس کے ساتھ رہی۔ وہ ماں سے اختلاف کرتا رہا۔ وہ اپنے غلاموں کو انسانی حقوق دینا چاہتا تھا۔ ماں اس پر رضامند نہ تھی۔ وہ اذیت پسند تھی۔ ترگنیف اس کی اس عادت سے بیزار رہتا تھا۔ 1834ء میں ترگنیف کا باپ مر گیا جو روسی فوج میں اعلیٰ افسر تھا۔ ترگنیف کی ماں کے لیے اب کھلا میدان تھا‘ اس نے جی بھر کے غلاموں پر تشدد کیا۔ ترگنیف نے کبھی دبے الفاظ میں ایسا نہ کرنے کے لیے کہا تو ماں نے اسے جائیداد سے عاق کرنے کی دھمکی دے دی۔ ترگنیف کا ایک چھوٹا بھائی بھی تھا‘ وہ خاموشی سے ماں کی بات مانتا رہا مگر ترگنیف نے ماں کے ظالمانہ سلوک کے خلاف احتجاج جاری رکھا۔

    18ء اکتوبر 1818ء کو (Oral) شہر میں ایک امیر خاندان کے گھر پیدا ہوا۔ اس کی ماں Varvara Petr شاعرانہ اور ادبی ذوق رکھنے والی ایک رئیس اور اذیت پسند خاتون تھی۔ترگنیف یورپ اور فرانس کے ادیبوں میں بہت مقبول تھا۔ فلابیئر کے ساتھ اس کے بہت گہرے مراسم تھے۔ ترگنیف اپنا زیادہ وقت فرانس ہی میں گزارتا تھا۔ روس کے ادیب، جن میں ٹالسٹائی بھی شامل تھا، اس کی اس حرکت کو اچھا نہیں سمجھتے تھے۔ روس کے ادیبوں اور نقادوں کا خیال تھا کہ ترگنیف کو روس سے کوئی دل چسپی نہیں، وہ ذہنی طور پر ’’یورپ زدہ‘‘ ہو کر رہ گیا ہے لیکن یہ بات درست نہ تھی۔ ترگنیف کی تحریروں سے واضح ہے کہ اسے روس سے بہت محبت تھی۔ روس کے کسانوں اور دیہات میں بسنے والے لوگوں کی حالت زار پر اس کا دل لہو روتا۔ روس کے ادیب صرف حسد میں یہ باتیں کرتے تھے کیونکہ یورپ اور دیگر ممالک میں ترگنیف اپنے تمام ہمعصر لکھنے والوں سے زیادہ مقبول تھا۔ ’’باپ اور بیٹے‘‘ (Fathers and Sons) ترگنیف کا عالمی شہرت یافتہ شاہکار ہے۔ یہ ناول 1862ء میں چھپا۔ اس ناول کا ہیرو بازووف 1860ء کی نسل کی نمائندگی کرتا ہے۔ یہ نوجوان Nihilist تحریک سے تعلق رکھتا ہے جو مذہب سمیت تمام پرانے عقائد اور اداروں کو رَد کرتی ہے۔ مغربی یورپ میں اسے پہلے روسی ناول نگار کی حیثیت سے تسلیم کیا گیا۔

    ترگنیف بحیثیت شاعر تو نا کام رہا لیکن بحیثیت ناول نگار اس کی اہمیت مسلم ہے۔ اسے ’’ناول نگاروں کا ناول نگار‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس ناول کا ہیرو بازووف ایک ایسی نسل کی نمائندگی کرتا ہے جو مر کر بھی زندہ رہی جس نے اپنے آپ کو اپنے خیالات کی بھینٹ چڑھا دیا، جس نسل کے خیالات ان کی بزرگ نسل نہ سمجھ سکی۔

    ترگنیف بلاشبہ ایک ایسا ناول نگار تھا جس نے ہمیں بتلایا کہ زندگی کیا ہے۔ انسان کی مختلف پرتیں کیا ہیں۔ وہ کیا ہے جو تاریخ کے پیچھے چھپا ہوا ہے۔ وہ بھید کیا ہے جو انسانوں کو الجھن میں ڈال دیتا ہے۔ قاری اگر ترگنیف کے ناولوں کا مطالعہ کریں تو ان کا ان تمام چیزوں سے تعارف ہوتا ہے۔

    (ادبی اقتباسات)

  • احمد عقیل روبی: شاعر، ادیب اور معلّم

    احمد عقیل روبی: شاعر، ادیب اور معلّم

    احمد عقیل روبی نے اردو ادب کو ناول، شخصی خاکے، سوانح اور تذکرے، شعری مجموعے اور غیرملکی ادیبوں کی تخلیقات کے تراجم پر مشتمل تیس سے زائد کتابیں دیں وہ درس و تدریس سے بھی وابستہ تھے۔

    آج احمد عقیل روبی کی برسی ہے۔ وہ ادبی نقّاد، ڈرامہ نگار، فلمی کہانی نویس اور شاعر تھے۔ 23 نومبر 2014ء کو احمد عقیل روبی نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    ان کا خاندان لدھیانہ کا تھا۔ احمد عقیل روبی 6 اکتوبر 1940ء کو پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم خانیوال میں مکمل کی۔ بعد ازاں لاہور سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور درس و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہوئے۔ ان کا اصل نام غلام حسین تھا۔ اردو زبان و ادب کے معلّم کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے احمد عقیل روبی نے ادبی مشاغل اور تخلیقی کام بھی جاری رکھا۔ ان کی علمی و ادبی خدمات پر حکومتِ پاکستان نے انھیں تمغائے امتیاز سے نوازا تھا۔

    احمد عقیل روبی ایک اچھے شاعر بھی تھے اور فلمی دنیا کے لیے کئی لازوال گیت تحریر کیے جس پر انھیں نگار ایوارڈ بھی دیا گیا۔ احمد عقیل روبی نے اردو اور پنجابی فلموں کے لیے نغمات لکھے۔ وہ غیرملکی ادب کا وسیع مطالعہ اور فلسفہ و اساطیر پر گہری نظر رکھتے تھے۔ احمد عقیل روبی کے قلم سے نکلی ہوئی تحریروں سے فکر و دانش اور ان کا وسیع مطالعہ جھلکتا ہے۔ یونانی ادب ان کا مرغوب موضوع تھا۔ اس کے علاوہ روسی، فرانسیسی، امریکی، انگریزی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔

    احمد عقیل روبی میٹرک میں تھے اور شاعری کرتے تھے، لیکن جب ان کی ملاقات ممتاز شاعر قتیل شفائی سے ہوئی تو انھیں احساس ہوا کہ یہ شاعری بہت عام اور ان کے ناپختہ خیالات پر مبنی ہے۔ تب احمد عقیل روبی نے اپنا کلام ضایع کر دیا مگر مشقِ سخن جاری رکھی۔ بعد کے برسوں میں وہ ایک عمدہ شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ احمد عقیل روبی کہتے تھے کہ ایم اے کرنے لاہور آیا تو سجاد باقر رضوی، ناصر کاظمی جیسی شخصیات کی قربت نصیب ہوئی۔ انتظار حسین سے بعد میں قربت حاصل ہوئی اور ان شخصیات سے بہت کچھ سیکھا۔ یورپ اور مغربی مصنّفین پر احمد عقیل روبی نے خاصا کام کیا۔ ان کی سوانح اور ادبی کاموں پر مضامین رقم کیے جو احمد عقیل روبی کا یادگار کام ہے۔

    شاعر، ادیب اور نقّاد احمد عقیل روبی کی تصانیف میں سوکھے پتے، بکھرے پھول، ملی جلی آوازیں، آخری شام، سورج قید سے چھوٹ گیا، کہانی ایک شہر کی، دوسرا جنم، آدھی صدی کا خواب، چوتھی دنیا، ساڑھے تین دن کی زندگی، نصرت فتح علی خان، کرنیں تارے پھول، علم و دانش کے معمار، تیسواں پارہ، یونان کا ادبی ورثہ، دو یونانی کلاسک ڈرامے و دیگر شامل ہیں۔

  • احمد عقیل روبی: معروف ادیب، شاعر اور مضمون نگار کا تذکرہ

    احمد عقیل روبی: معروف ادیب، شاعر اور مضمون نگار کا تذکرہ

    اردو ادب کو ناول، شخصی خاکے، سوانح اور تذکرے، شعری مجموعے اور غیرملکی ادب سے مختلف اصناف کے تراجم پر مشتمل تیس سے زائد کتابیں دینے والے احمد عقیل روبی کا ایک مستند حوالہ درس و تدریس بھی ہے۔ انھوں نے اپنے فکر و فن اور زورِ قلم سے ادبی نقّاد، ڈراما اور فلمی کہانی نویس اور گیت نگار کی حیثیت سے شہرت پائی۔ آج اس ادیب اور شاعر کی برسی منائی جارہی ہے۔ انھوں نے 23 نومبر 2014ء کو ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں موند لی تھیں۔

    پروفیسر احمد عقیل روبی 6 اکتوبر 1940ء کو لدھیانہ میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے ابتدائی تعلیم خانیوال میں مکمل کرنے کے بعد لاہور سے اعلیٰ تعلیمی مراحل طے کیے اور درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔ ان کا اصل نام غلام حسین تھا۔ پاکستان میں اردو زبان و ادب کے معلّم کی حیثیت سے ذمہ داریاں نبھاتے ہوئے انھوں نے ادبی مشاغل بھی جاری رکھے۔ حکومتِ پاکستان نے احمد عقیل روبی کو تمغا امتیاز سے نوازا تھا۔ فلمی دنیا میں اس ادیب اور شاعر کو لازوال گیت تخلیق کرنے پر نگار ایوارڈ دیا گیا۔ احمد عقیل روبی نے پنجابی اور اردو فلموں کے لیے گیت نگاری کی۔ غیرملکی ادب کا وسیع مطالعہ اور فلسفہ و اساطیر پر احمد عقیل روبی کی گہری نظر رہی جس کا اثر ان کی تخلیقات پر بھی پڑا۔ ان کے قلم سے نکلی ہوئی تحریروں میں ان کی فکر و دانش کا بھرپور اظہار ہے۔ یونانی ادب ان کا مرغوب موضوع تھا۔ اس کے علاوہ روسی، فرانسیسی، امریکی، انگریزی ادب پر ان کی گہری نظر تھی۔

    احمد عقیل روبی میٹرک میں تھے اور شاعری سے گہرا شغف رکھتے تھے، لیکن قتیل شفائی سے ملاقات نے انھیں‌ اپنے کلام پر نظرِ ثانی کرنے پر اکسایا اور اپنا کلام ضایع کردیا۔ بعد کے برسوں میں وہ ایک عمدہ شاعر کے طور پر سامنے آئے۔ وہ بتاتے تھے کہ ایم اے کرنے لاہور آیا تو سجاد باقر رضوی، ناصر کاظمی جیسی شخصیات کی قربت نصیب ہوئی۔ انتظار حسین سے بعد میں قربت حاصل ہوئی اور ان شخصیات سے بہت کچھ سیکھا۔ انھوں نے یورپ اور مغربی مصنّفین کے حوالے سے خاصا کام کیا۔ ان کی سوانح اور ادبی کاموں پر خوب صورت تحریریں‌ احمد عقیل روبی کی یادگار ہیں۔

    احمد عقیل روبی کی تصانیف میں سوکھے پتے، بکھرے پھول، ملی جلی آوازیں، آخری شام، سورج قید سے چھوٹ گیا، کہانی ایک شہر کی، دوسرا جنم، آدھی صدی کا خواب، چوتھی دنیا، ساڑھے تین دن کی زندگی، نصرت فتح علی خان، کرنیں تارے پھول، علم و دانش کے معمار، تیسواں پارہ، یونان کا ادبی ورثہ، دو یونانی کلاسک ڈرامے و دیگر شامل ہیں۔