Tag: احمد فراز

  • اور فرازؔ چاہییں کتنی محبتیں تجھے!

    اور فرازؔ چاہییں کتنی محبتیں تجھے!

    فراز جیسے سخن طراز کا تذکرہ ہو تو ان کا وہ مشہور کلام بھی سماعتوں میں رس گھولنے لگتا ہے جسے پاکستان کے بڑے گلوکاروں نے گایا۔ فراز کی غزلیں ہوں یا نظمیں اور فلموں میں‌ شامل کی گئی وہ شاعری جو نور جہاں اور مہدی حسن کی آواز میں ریکارڈ کی گئی، آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنی جاتی ہے۔ فراز کے مجموعہ ہائے کلام کے کئی ایڈیشن بازار میں آئے اور فروخت ہوگئے۔ احمد فراز اردو کے صفِ اوّل کے شاعر اور اپنے دور کے مقبول ترین شعرا میں سے ایک تھے۔ ان کی شاعری میں رومانویت اور مزاحمت کا عنصر نمایاں ہے۔

    یہ پارہ جمیل یوسف کی کتاب "باتیں کچھ ادبی’ کچھ بے ادبی کی” سے لیا گیا ہے جو بطور شاعر احمد فراز کی اہمیت اور مقبولیت کو اجاگر کرتا ہے۔ جمیل یوسف نے شاعری اور ادبی تنقید کے ساتھ شخصی خاکے بھی لکھے ہیں۔ ان کے قلم سے نکلا یہ واقعہ ملاحظہ کیجیے۔

    جمیل یوسف لکھتے ہیں، ”شاعروں میں جو شہرت، عزت اور دولت احمد فراز نے کمائی وہ اپنی مثال آپ ہے۔ کسی اور شاعر کو زندگی میں وہ بے پناہ محبت اور والہانہ عقیدت نہیں ملی جو احمد فراز کے حصے میں آئی۔ اقبال اور فیض کی بات الگ ہے۔ وہ بلاشبہ احمد فراز کے مقابلے میں کہیں زیادہ بڑے شاعر تھے، ان کی زندگی میں بھی ان کی شہرت اور مقبولیت کچھ کم نہ تھی مگر ان کی پذیرائی اور ان کی اہمیت کی سطح کچھ مختلف نوعیت کی تھی۔ پھر ان کی شہرت اور مقبولیت کا دائرہ اتنا وسیع اور بے کراں نہیں تھا۔ مثلاً فراز کی زندگی میں ان کے شعری مجموعے جس کثیر تعداد میں فروخت ہوئے اس کی کوئی مثال اردو شاعری کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ پھر جتنی محفلوں اور مشاعروں میں احمد فراز کو سنا گیا اس کی بھی کوئی نظیر اردو شاعری کی تاریخ میں موجود نہیں۔

    جمیل یوسف مزید لکھتے ہیں، ایک مشاعرے کے دوران ظفر اقبال نے احمد فراز سے کہا کہ ” فراز! جس طرح کی شاعری تم کرتے ہو، کیا تمہارا خیال ہے کہ تمہارے مرنے کے بعد یہ زندہ رہے گی؟”

    احمد فراز نے جواب دیا، ”ظفر اقبال! جتنی عزت، لوگوں کی محبت اور شہرت مجھے مل گئی ہے وہ میرے لیے کافی ہے۔ مجھے اس سے غرض نہیں کہ میری شاعری میرے مرنے کے بعد بھی زندہ رہتی ہے یا نہیں۔”

  • جب احمد فراز مشاعرے کے پنڈال سے اٹھ کر باہر نکل گئے

    جب احمد فراز مشاعرے کے پنڈال سے اٹھ کر باہر نکل گئے

    کوثر نیازی پاکستان کے نامی گرامی سیاست داں تھے جن کا دور بطور مشیر اور وزیر کئی اعتبار سے ہنگامہ خیز اور متنازع بھی رہا، لیکن وہ صرف سیاست کے میدان میں متحرک نہیں رہے بلکہ ایک عالمِ دین، ادیب و شاعر اور عوام میں ایک زبردست مقرر کے طور بھی پہچانے گئے۔ پاکستان کے مقبول ترین شاعر احمد فراز اس دور میں آمریت کے خلاف اپنی مزاحمتی شاعری کی وجہ سے حکومتوں کے معتوب تھے۔ ان کی مولانا کوثر نیازی سے نہیں‌ بنتی تھی۔

    اس زمانے میں سرکاری اداروں اور حکومتی مالی امداد سے مختلف ادبی تنظمیوں کے پلیٹ فارم مشاعروں کا انعقاد کرتے تھے یہ ایک ایسے ہی مشاعرے کا دل چسپ احوال ہے جس میں کوثر نیازی اور احمد فراز نے اپنا کلام سنایا تھا۔ یہ معروف انشا پرداز اور ادیب منشا یاد کی کتاب ’’حسبِ منشا‘‘ سے لیا گیا ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    گردیزی صاحب چیئرمین سی ڈی اے اور میں ان کا پی آر اوتھا۔ سی ڈی اے ہر سال یوم آزادی کے سلسلے میں ایک کل پاکستان مشاعرہ منعقد کرتا تھا جس میں فیض احمد فیض، احمد فراز اور حبیب جالب کو مدعو نہیں کیا جاتا تھا اور فراز تو ویسے بھی ان دنوں خود ساختہ جلاوطنی کے بعد لندن میں مقیم تھے۔ تاہم مجھے ان شعرا کی کمی بہت محسوس ہوتی لیکن یہ ایک سرکاری ادارہ تھا، اس لیے ہم حکومتی پالیسی کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے تھے۔

    اس مشاعرے میں ان تینوں کے سوا دوسرے شہروں سے تقریباً سبھی اہم شعرا جیسے حفیظ جالندھری، احمد ندیم قاسمی، جمیل الدین عالی، احسان دانش، ظہور نظر، قتیل شفائی، منیر نیازی، وزیر آغا، پروین شاکر، خاطر غزنوی، دلاور فگار، شریف کنجاہی، شہزاد احمد، ظفر اقبال، عارف عبدالمتین، عاصی کرنالی، امجد اسلام امجد، عطاء الحق قاسمی، اسلم انصاری، نوشابہ نرگس، مظفر وارثی، ریاض مجید، ارشد ملتانی، محسن احسان، جوگی جہلمی، جانباز جتوئی، حمایت علی شاعر، چانگ شی شوئن (انتخاب عالم)، نصیر ترابی اور بعض دیگر شعرا شامل ہوتے رہے۔ لیکن فیض، فراز اور حبیب جالب کی کمی محسوس ہوتی تھی۔ لیکن یہ دور اور جنرل ضیاء الحق کے گزر جانے کے بعد جب سی ڈی اے کا مشاعرہ منعقد ہوا اور احمد فراز شہر میں موجود تھے تو میں نے انہیں مشاعرے میں شرکت کے لیے فون کیا۔

    انہوں نے صدر اور مہمانِ خصوصی وغیرہ کے بارے میں استفسار کیا تو میں نے بتایا کہ سید ضمیر جعفری صدارت کریں گے اور مولانا کوثر نیازی مہمانِ خصوصی ہوں گے۔ اس پر فراز صاحب نے مشاعرے میں شرکت کرنے سے معذرت کر لی۔میں نے بہت اصرار کیا مگر وہ نہ مانے۔ میں نے اپنے افسران کو بتا دیا کہ فراز نہیں مان رہے۔ لیکن مولانا اسلام آباد سے سینیٹر تھے اور سی ڈی اے کے کچھ مالی مفادات ان سے وابستہ تھے اس لیے انہیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔

    ادھر احمد فراز کے بغیر مشاعرے کا کچھ لطف نہ آتا۔ ان دنوں ناصر زیدی، احمد فراز کے بہت قریب تھے اور یوں بھی وہ مشاعروں کے انتظامات اور رابطوں کے ماہر تصور کئے جاتے تھے۔ میں نے ان سے سفارش کرائی مگر فراز پھر بھی نہ مانے۔ جب میں نے بہت مجبور کیا تو اس شرط پر راضی ہوئے کہ وہ مولانا کے ساتھ اسٹیج پر نہیں بیٹھیں گے۔ ان کو پڑھوانے کا الگ انتظام کیا جائے۔ میں نے ان کی یہ شرط مان لی اور وہ آگئے۔ یہ مشاعرہ مقامی ہوٹل کے سوئمنگ پول کے کنارے ہو رہا تھا۔ میں خود انتظامی امور میں مصروف تھا اس لیے میں نے پروین شاکر سے نظامت کے لیے کہا۔ مگر وہ دیر سے آئیں اور میں نے ایک ایک کر کے شعرا کو اسٹیج پر بلایا اور مشاعرہ شروع کرا دیا۔ احمد فراز حسبِ وعدہ سامعین میں بیٹھ گئے۔ میں نے اشاروں سے ان کی منت سماجت کی کہ وہ اسٹیج پر آجائیں مگر وہ نہ مانے۔

    تھوڑی دیر میں پروین شاکر آگئیں تو میں نے نظامت ان کے حوالے کی اور ان سے کہا کہ وہ فراز صاحب سے کہیں کہ اسٹیج پر آجائیں کیوں کہ لوگ انہیں اسٹیج پر نہ دیکھ کر پریشان ہو رہے تھے بلکہ چہ میگوئیاں کر رہے تھے۔ پروین نے بھی انہیں اشاروں سے اسٹیج پر آنے کے لیے اصرار کیا۔ میرا خیال تھا کہ وہ اس کی بات نہیں ٹالیں گے مگر احمد فراز اپنی ضد پر قائم رہے۔ پھر جب ان کی باری آئی تو روسٹرم اسٹیج سے نیچے لایا گیا اور انہوں نے ’’سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں…‘‘ والی غزل پہلی بار اس مشاعرے میں سنائی جو بعد میں بہت مشہور ہوئی۔

    لطف کی بات یہ ہے کہ مولانا صاحب اس پر داد دیتے اور سر ہلاتے رہے لیکن جب مولانا صاحب کے پڑھنے کی باری آئی تو احمد فراز سگریٹ سلگا کر منہ سے دھواں نکالتے ہوئے مشاعرے سے اٹھ کر چلے گئے اور ان کے پڑھ لینے کے بعد اسی طرح منہ سے دھواں نکالتے کہیں سے نمودار ہو گئے۔

  • احمد فراز: جذبوں کی شدت کا شاعر

    احمد فراز: جذبوں کی شدت کا شاعر

    جدید شاعری میں احمد فراز کا شمار اردو کے مقبول شعرا میں کیا جاتا ہے۔ بلاشبہ فراز نے ایک عہد کو متأثر کیا اور جو پذیرائی ان کے حصّے میں آئی، بہت کم شعرا کا مقدر بنی ہے۔ اس عدیم النّظیر شاعر کی رومانوی شاعری ہی نہیں مزاحمی اور انقلابی نظمیں بھی نوجوانوں میں بہت مقبول ہیں۔ فراز ہر عمر اور ہر طبقۂ عوام کے پسندیدہ شاعر رہے ہیں۔

    احمد فراز 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ علی تھا اور شعر و ادب کی دنیا میں احمد فراز کے نام سے لازوال شہرت پائی۔ احمد فراز کا خاندان پشاور منتقل ہوگیا تھا جہاں انھوں نے ایڈورڈز کالج میں تعلیم حاصل کی۔ اور بعد میں پشاور یونیورسٹی سے ہی اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران فیض احمد فیض اور علی سردار جعفری جیسے بڑے شعرا سے احمد فراز کا جو تعلق بنا، اس نے فراز کو بہت متاثر کیا اور ان کی شاعری انقلابی نظموں اور ترانوں میں ڈھلنے لگی۔ احمد فراز نے پشاور یونیورسٹی ہی میں لیکچرار کی حیثیت سے اپنے فرائض سرانجام دیے۔

    احمد فراز کی شاعری کا ایک نمایاں وصف ان کا سادہ اندازِ تحریر اور وہ سلاست ہے جس میں حد درجہ نزاکت اور لطافت پائی جاتی ہے۔ ان کے اشعار عام آدمی بھی بڑی آسانی سے سمجھ لیتا ہے اور لطف اندوز ہوتا ہے۔ احمد فراز نے پہلا شعر کب کہا، اس حوالے سے ایک دل چسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ان کے والد عید کے کپڑے لائے۔ فراز کو یہ کپڑے پسند نہیں آئے بلکہ انھیں اپنے بھائی کے لیے خریدا گیا کپڑا زیادہ پسند آیا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ شعر کہا تھا:

    سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
    لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے

    احمد فراز کی شاعری میں مزاحمتی رویے بھی بڑی شدت سے ملتے ہیں۔ انھوں نے ملک میں آمریت اور فوجی اقتدار کے خلاف کھل کر لکھا۔ ضیا دور میں فراز کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بعد میں فراز نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی تھی۔ چھے سال تک برطانیہ، کینیڈا اور یورپ میں مقیم رہنے کے بعد وہ 1988ء میں پاکستان آئے جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن چکی تھیں۔ فراز کو اکادمی ادبیات پاکستان کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور بعد میں وہ کئی سال تک نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چیئرمین کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

    احمد فراز کے شعری مجموعوں میں ’’جاناں جاناں، نایافت، تنہا تنہا، سب آوازیں میری ہیں اور بے آواز گلی کوچوں میں‘‘ شامل ہیں جو بہت مقبول ہوئے۔ جدید لب و لہجے کے اس خوب صورت شاعر کے کلام میں رومانوی موضوعات کے علاوہ سماجی اور سیاسی عوامل کے زیر اثر جنم لینے والے‌ خیالات اور جذبات بھی ملتے ہیں۔ وہ سماجی اقدار کے بہت بڑے علم بردار تھے اور اس حوالے سے اپنی فکر اور نظریات کا شاعری میں بھی اظہار کیا ہے۔ احمد فراز کی چند غزلوں کو فلموں میں شامل کیا گیا اور وہ بہت مقبول ہوئیں۔ خاص طور پر فلم ’’انگارے‘‘ اور ’’محبت‘‘ میں ان کی جو غزلیں شامل کی گئیں وہ کلاسک کا درجہ اختیار کر گئیں۔ مہدی حسن کی آواز میں ان کی یہ غزل کس نے نہیں‌ سنی ہوگی:

    اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

    یہ مشہور غزل بھی مہدی حسن کی آواز میں بہت مقبول ہوئی

    رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے آ
    آپھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے آ

    25 اگست 2008ء کو احمد فراز وفات پاگئے تھے۔ آج ان کی برسی ہے۔

    احمد فراز کے چند مشہور اشعار ملاحظہ کیجیے۔

    اب کے تجدیدِ وفا کا نہیں امکاں‌ جاناں
    یاد کیا تجھ کو دلائیں تیرا پیماں جاناں

    سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے
    ورنہ اتنے تو مراسم تھے کہ آتے جاتے

    تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہوئے فرازؔ
    دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا

    شکوۂ ظلمتِ شب سے ہے تو کہیں بہتر ہے
    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جائے

  • احمد فرازؔ: اپنے عہد کا ایک مقبول شاعر

    احمد فرازؔ: اپنے عہد کا ایک مقبول شاعر

    احمد فراز کی رومانوی شاعری ہی نہیں، نوجوانوں‌ میں‌ ان کی انقلابی اور مزاحمتی شاعری بھی بہت مقبول تھی، فراز کے کلام میں جذبات کی جو شدت پائی جاتی ہے، اس میں تہذیبی رچاؤ نمایاں‌ ہے۔ آج اس شاعرِ بے مثل کا یومِ وفات ہے۔

    احمد فراز کو کئی ادبی اعزازات سے نوازا گیا اور ان کی مقبولیت سرحد پار بھی ہر اس جگہ تھی جہاں‌ اردو سمجھنے والے بستے ہیں۔ 25 اگست 2008ء کو اردو زبان کے اس مقبول شاعر نے اپنی آنکھیں‌ ہمیشہ کے لیے موند لی تھیں۔

    شاعر اور سماجی کارکن حارث خلیق کے مطابق میر سے لے کر غالب اور اس کے بعد فیض، راشد اور جوش ملیح آبادی، ان سب کا فراز صاحب کے ہاں عکس نظر آتا ہے۔ ’وہ روایت سے جڑے شاعر تھے۔‘ حارث خلیق کے مطابق مزاحمتی شاعری کی طرف ان کا رجحان پاکستان کے سیاسی حالات کی وجہ سے بڑھا اور وہ ایک رومانوی شاعر سے انقلابی شاعر بنے۔ ’اردو شاعری اور ترقی پسند تحریک میں رومان اور انقلاب کا امتزاج ہوا اور لوگوں نے انقلاب کو اپنے محبوب کی طرح دیکھنا شروع کیا۔ میرے خیال میں فراز بھی اسی روایت کے شاعر تھے۔‘

    معروف صحافی اور ادیب انور سِن رائے کو انٹرویو دیتے ہوئے فراز نے بتایا تھا کہ پہلی مرتبہ انھوں نے کیا شعر لکھا تھا، میں نویں سے دسویں میں تھا اور میرے بڑے بھائی محمود دسویں سے کالج میں داخل ہوئے تھے تو والد صاحب ہمارے لیے کچھ کپڑے لائے تھے۔ اس کے لیے تو سوٹ لائے اور میرے لیے کشمیرے کا پیس، کوٹ کے لیے لے آئے، تو وہ مجھے بالکل کمبل سا لگا۔ چیک تھا، آج کل تو بہت فیشن ہے لیکن اس وقت وہ مجھے کمبل سا لگا اور میں نے ایک شعر لکھا جو یہ تھا:

    سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
    لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے

    تو بعد میں یہ میرا بنیادی شعر اس اعتبار سے بھی ہوا کہ کلاس کا جو فرق تھا وہ میرے ذہن سے چپک کر رہ گیا تھا اور جب ہم فیملی سے ہٹ کر دنیا کے اور مسائل میں آئے تو پتہ چلا کہ بڑا کنٹراڈکشن (تضاد) ہے تو اسی طرح شاعری بھی میں نے شروع کی، دو طرح کی۔ ایک تو اسی زمانے میں وہ بھی ہوا جسے عشق کہتے ہیں اور ایک یہ بلا بھی تھی۔ اسی انٹرویو میں‌ وہ اپنی زندگی اور اپنے تخلیقی سفر کے بارے میں بتاتے ہیں کہ ‘اس طرح میری زندگی دو چیزوں کے گرد گھومتی رہی۔ پھر ہم سوشلزم کی تحریکوں میں رہے، کمیونزم اور کیپیٹلزم پڑھا۔ کالج میں جب تھے تو جب سے ہی پڑھنا شروع کیا۔ پھر کمیونسٹ لیڈر تھے رائٹر بھی تھے نیاز احمد صاحب، تب تک ہمیں کچھ سمجھ نہیں تھی کہ کمیونسسٹ کیا ہوتے ہیں۔ ہم شام کو نیاز حیدر کے پاس جا کر بیٹھتے تھے۔ وہ شام کو اخبار بیچتے تھے اور بہت سادہ زندگی گزارتے تھے۔ تو ہمیں لگا کہ ٹھیک ٹھاک لوگ ہوتے ہیں۔ خیر پھر وہ انڈیا چلے گئے۔ اس کے بعد ہم ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے لیکن میں کوئی ڈسپلنڈ (منظم) آدمی نہیں تھا، جلسہ ہوتا تھا تو میں اس وقت پہنچتا تھا جب جلسہ ختم ہونے والا ہوتا حالانکہ میں جوائنٹ سیکرٹری تھا۔ فارغ بخاری اس وقت سیکرٹری تھے اور رضا ہمدانی وغیرہ تھے۔ اور مجھے اس لیے جوائنٹ سیکرٹری بنایا گیا تھا کہ نوجوان ہے تو انرجیٹک ہو گا۔ اس کے بعد ریڈیو ملازمت کر لی اس میں بھی سیکھا بہت کچھ۔ میری پہلی اپائنٹمنٹ اسکرپٹ رائٹر کے طور پر ہوئی، کراچی میں۔

    احمد فرازؔ 1931ء میں کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ نام سید احمد شاہ تھا اور فرازؔ تخلص کیا۔ انھوں نے ایڈورڈز کالج سے تعلیم حاصل کی، اردو اور فارسی میں ایم۔ اے۔ کیا۔ دورانِ تعلیم انھوں نے پاکستان ریڈیو کے لیے فیچرز لکھے اور شاعری کا سفر بھی شروع ہوچکا تھا۔ ان کا پہلا مجموعۂ کلام’’تنہا تنہا‘‘ اُس وقت شائع ہوا جب وہ بی۔اے۔ کررہے تھے۔ تعلیم مکمل ہوتے ہی یونیورسٹی میں لیکچرر کی ملازمت کرنے کا موقع مل گیا اور تب ان کا دوسرا شعری مجموعہ’’دردِ آشوب‘‘ شائع ہوا۔ اس ملازمت کے بعد ’’پاکستان نیشنل سینٹر‘‘ پشاور، میں ڈائریکٹر کے منصب پر فائز ہوئے۔ اور پھر ’’اکادمی ادبیات پاکستان‘‘ کے پہلے منتظمِ اعلیٰ بنے اور بعد میں متعدد فن و ثقافت کی تنظیموں اور اداروں میں‌ عہدوں‌ پر فائز رہے۔

    احمد فراز ؔ کو 1966 میں پاکستان رائٹرز گلڈذ کی جانب سے اعزاز دیا گیا اور پھر ’’آدم جی ادبی ایوارڈ‘‘ اپنے دوسرے شعری مجموعے پر حاصل کیا۔ بھارت میں انھیں 1988 میں ’’فراق گورکھپوری ایوارڈ‘‘ دیا گیا۔ حکومت پاکستان نے انھیں‌ ’’ ستارہ امتیاز’’ اور ’’ہلال امتیاز‘‘ سے نوازا تھا جب کہ 2010 میں بعد از مرگ ان کے لیے ’’ہلال پاکستان‘‘ کا اعلان کیا۔

    احمد فراز نے عوام اور جمہوریت کے حق میں‌ نہ صرف قلم کے ذریعے آواز اٹھائی بلکہ دورِ‌ آمریت میں‌ جلاوطنی بھی سہنا پڑی۔ وہ ملازمتوں سے بھی فارغ کیے گئے اور مشکل وقت بھی دیکھا۔ فراز کے کئی اشعار زباں زدِ عام ہوئے اور ان کا کلام نام ور گلوکاروں‌ نے گایا۔ مہدی حسن کی آواز میں‌ رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ… اور اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں‌ میں‌ ملیں….ہی نہیں ان کی غزلیں بھی پاکستان اور بھارت کے مشہور گلوکاروں‌ کی آواز میں مقبول ہوئیں۔ پاک و ہند مشاعروں کے ساتھ دنیا بھر میں‌ جہاں‌ بھی اردو کی محفل سجی اور مشاعرے کا انعقاد کیا گیا فراز کو مدعو کیا جاتا تھا۔

  • عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز کی برسی

    عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز کی برسی

    حسن و عشق کے قصّے ہوں یا ساغر و بادہ میں ڈوبے ہوئے صبح و شام کا تذکرہ، واعظ سے الجھنا اور اس پر طنز کرنا ہو یا محبوب سے بگڑنے کے بعد طعنہ زنی اور دشنام طرازی کا معاملہ ہو فراز نے سخن وَری میں کمال کردیا، اور رومانوی شاعر کے طور ہر عمر اور طبقے میں مقبول ہوئے، لیکن وہ ایک ایسے شاعر بھی تھے جس نے ناانصافی، جبر اور آزادیِ اظہار پر پابندیوں کے خلاف انقلابی ترانے لکھ کر باشعور اور سنجیدہ حلقوں کو متوجہ کیا اور اردو ادب میں ممتاز ہوئے۔ آج احمد فراز کی برسی ہے۔

    سن ساٹھ کی دہائی میں پہلے شعری مجموعے سے اردو ادب کے افق پر جگمگانے والا یہ ستارہ 2008ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا، لیکن اس کی روشنی آج بھی باقی ہے۔

    احمد فراز کا اصل نام سیّد احمد شاہ تھا۔ وہ 14 جنوری 1931ء کو صوبۂ سرحد کے شہر کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ پشاور میں ایڈورڈ کالج اور پشاور یونیورسٹی سے تعلیم حاصلی کی، دورانِ طالبِ علمی ہی ان کی شاعری اور شہرت کا آغاز ہوچکا تھا اور جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ‘تنہا تنہا’ شایع ہوا تو وہ بی اے کے طالبِ علم تھے۔

    احمد فراز نے عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان میں اسکرپٹ رائٹر کے طور پر کیا اور پھر پشاور یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔

    جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں انھوں نے آمریت کے خلاف لب کشائی کی اور اپنے کلام کے ذریعے جبر کو مسترد کیا تو اس کی پاداش میں کئی برس بیرونِ ملک جلا وطنی کاٹنے پر مجبور کردیے گئے۔

    احمد فراز کو ادبی خدمات پر ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا، لیکن انھوں نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات پر احتجاجاً یہ اعزاز واپس کر دیا تھا۔

    احمد فراز کو ان کے ادبی سفر کے دوران شہرت اور دنیا بھر میں محبت کے ساتھ ساتھ متعدد ممالک میں سرکاری سطح پر جب کہ امن و فلاح و بہبودِ انسانی کی مختلف تنظیموں اور ادبی پلیٹ فارمز سے کئی اعلیٰ اعزازات سے نوازا گیا۔

    احمد فراز کا کلام برِصغیر کے مشہور غزل گائیکوں نے گایا اور خوب صورت آوازوں نے ان کی شاعری کو سامعین میں مزید مقبول بنایا۔

    مہدی حسن نے فراز کی کئی غزلوں کو اپنی آواز کا سحر عطا کیا جس میں ‘رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ’ بہت پسند کی گئی اور آج بھی اس کی مقبولیت برقرار ہے۔ ملکۂ ترنم میڈم نور جہاں نے فراز کی غزل ‘سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے’ گا کر شائقینِ غزل کے دل جیتے۔

    پڑوسی ملک ہندوستان میں لتا منگیشکر نے ان کی کئی غزلیں اور گیت گائے۔ ان کے علاوہ جگجیت سنگھ نے بھی فراز کی کئی غزلیں گائی ہیں۔

    فراز کے شعری مجموعوں میں سب آوازیں میری ہیں، نایافت، میرے خواب ریزہ ریزہ، خوابِ گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں شامل ہیں۔ فراز کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے جو امید و جستجو کا استعارہ بن گئے اور ان میں ہمارے لیے خوب صورت پیغام موجود ہے۔ ایک ایسا ہی شعر ملاحظہ کیجیے۔

    شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
    اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

  • سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں

    سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں

    احمد فراز اپنے عہد کے مقبول ترین شاعروں میں سے ایک ہیں جن کی آج برسی منائی جارہی ہے۔

    احمد فراز کا رومانوی کلام اور مزاحمتی شاعری ان کی وجہِ شہرت ہے۔ ان کے مقبولِ عام کلام سے چند اشعار باذوق قارئین کی نذر ہیں۔

    سنا ہے لوگ اسے آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
    سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے ربط ہے اس کو خراب حالوں سے
    سو اپنے آپ کو برباد کر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے درد کی گاہک ہے چشمِ ناز اس کی
    سو ہم بھی اس کی گلی سے گزر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے اس کو بھی ہے شعر و شاعری سے شغف
    سو ہم بھی معجزے اپنے ہنر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں
    یہ بات ہے تو چلو بات کر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے رات اسے چاند تکتا رہتا ہے
    ستارے بام فلک سے اتر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے دن کو اسے تتلیاں ستاتی ہیں
    سنا ہے رات کو جگنو ٹھہر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے حشر ہیں اس کی غزال سی آنکھیں
    سنا ہے اس کو ہرن دشت بھر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے اس کی سیہ چشمگی قیامت ہے
    سو اس کو سرمہ فروش آہ بھر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے اس کے لبوں سے گلاب جلتے ہیں
    سو ہم بہار پہ الزام دھر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے آئنہ تمثال ہے جبیں اس کی
    جو سادہ دل ہیں اسے بن سنور کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے اس کے بدن کی تراش ایسی ہے
    کہ پھول اپنی قبائیں کتر کے دیکھتے ہیں

    بس اک نگاہ سے لٹتا ہے قافلہ دل کا
    سو رہروانِ تمنا بھی ڈر کے دیکھتے ہیں

    سنا ہے اس کے شبستاں سے متصل ہے بہشت
    مکیں ادھر کے بھی جلوے ادھر کے دیکھتے ہیں

    رکے تو گردشیں اس کا طواف کرتی ہیں
    چلے تو اس کو زمانے ٹھہر کے دیکھتے ہیں

    کہانیاں ہی سہی سب مبالغے ہی سہی
    اگر وہ خواب ہے تعبیر کر کے دیکھتے ہیں

    اب اس کے شہر میں ٹھہریں کہ کوچ کر جائیں
    فرازؔ آؤ ستارے سفر کے دیکھتے ہیں

  • "جانے دیجیے، یہ تصوف کا معاملہ ہے!”

    "جانے دیجیے، یہ تصوف کا معاملہ ہے!”

    ریڈیو پاکستان کے رائٹرز یونٹ میں چراغ حسن حسرت کی سربراہی میں احمد فراز بھی کام کرتے تھے۔

    حسرت صاحب نے احمد فراز سے کہا کہ مولانا، داتا گنج بخش پر فیچر تیار کیجیے۔

    احمد فراز نے فیچر لکھنے کی تیاری شروع کی۔ دوسرے دن حسرت صاحب نے پوچھا۔ مولانا، کچھ ہوا؟

    احمد فراز بولے کہ جی ہاں کچھ ہوا تو ہے۔

    یہ سن کر حسرت صاحب سوچ میں پڑ گئے۔ سگریٹ کا لمبا کش لیا اور بولے۔

    ”مولانا جانے دیجیے۔ یہ تصوف کا معاملہ ہے اور آپ ٹھہرے ترقی پسند، آپ کا کیا اعتبار خدا کو خدا صاحب لکھ دیں گے۔

    احمد فراز نے اس فیچر میں تو خدا کو خدا صاحب نہیں لکھا تھا، مگر اپنی شاعری میں وہ کچھ نہ کچھ تو کرتے ہوں گے کہ لوگ بھڑک اٹھتے ہیں۔

    مولانا چراغ حسن حسرت عالم آدمی تھے۔ فارسی و اردو کلاسیکی ادب سے گہری دل چسپی تھی۔ لفظوں کے پارکھ ۔ اس لیے یہ تو ممکن نہیں کہ وہ یہ نہ جانتے ہوں کہ ماضی میں اسم خدا اور اللہ کے ساتھ صاحب کا لفظ مستعمل رہا ہے۔ بس ان کا خیال ہوگا کہ اب اس لفظ کے استعمال سے اجتناب بہتر ہے۔

    (ممتاز ادیب انتظار حسین کی کتاب ”ملاقاتیں“ سے انتخاب)

  • احمد فراز نے تمغہ امتیاز کا ایوارڈ کیوں واپس کیا تھا؟

    احمد فراز نے تمغہ امتیاز کا ایوارڈ کیوں واپس کیا تھا؟

    تمغہ امتیاز، ہلال پاکستان اور نگارایوارڈز کے حامل شاعر احمد فراز کو مداحوں سے بچھڑے 11 برس بیت گئے۔

    اردو زبان اور غزل کو آفاقی شہرت بخشنے والے شاعراحمد فراز کی کو جہانِ فانی سے کوچ کیے گیارہ برس گزر گئے مگر آج بھی اُن کا شمار شمار عصر حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہی ہوتا ہے۔

    احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد سید محمد شاہ برق کا شمارکوہائی فارسی کے ممتاز شعراء میں ہوا کرتا تھا۔

    احمد فراز اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری کے حامل تھے اور انہوں نے ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔ ریڈیو پاکستان کے بعد احمد فراز کو پشاور یونیورسٹی میں بطور لیکچرار ملازمت ملی۔

    بعد ازاں انہیں پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات پاکستان کے اولین ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان نیشنل بک فاﺅنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدوں پر بھی فائز ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔

    اردو ادب کی خدمت کرنے والے شاعر کا شمار عہد حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ آپ کی عمومی شناخت رومانوی شاعری کے حوالے سے ہے لیکن انہوں معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف ہر دور میں اشعار اور نظموں کے ذریعے صدائے احتجاج بلند کیا جس کی پاداش میں انہیں مختلف پابندیاں جھیلنی اور جلاوطنی بھی اختیار کرنا پڑی۔

    آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

    کیا عجب کل وہ زمانےکو نصابوں میں ملیں

    احمد فراز کے مجموعہ ہائے کلام میں ’تنہا تنہا‘، ’درد آشوب‘، ’نایافت‘، ’شب خون‘، ’مرے خواب ریزہ ریزہ‘، ’جاناں جاناں‘، ’بے آواز گلی کوچوں میں‘، ’نابینا شہر میں آئینہ‘، ’سب آوازیں میری ہیں‘، ’پس انداز موسم‘، ’بودلک‘، ’غزل بہانہ کروں‘ اور ’اے عشق جنوں پیشہ‘شامل ہیں۔

    اب کے ہم بچھڑےتوشاید کبھی خوابوں میں ملیں

    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

    احمد فراز کے کلام کی کلیات بھی ’’شہر سخن آراستہ ہے‘‘ کے نام سے شائع ہوئی۔ اردو ادب کی خدمت کرنے پر انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔

    احمد فراز نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں ہلال امتیاز کا اعزاز پالیسیوں کی وجہ سے واپس کردیا تھا۔ اُن کی وفات 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں ہوئی اور شہرِ اقتدار میں ہی انہیں آسودہ خاک کیا گیا۔

    شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

  • شہرہ آفاق شاعراحمد فرازکو بچھڑے10 برس بیت گئے

    شہرہ آفاق شاعراحمد فرازکو بچھڑے10 برس بیت گئے

    تمغہ امتیاز، ہلال پاکستان اور نگارایوارڈز کے حامل شاعر احمد فراز کو مداحوں سے بچھڑے 10 برس بیت گئے۔

    اردو زبان اور غزل کو آفاقی شہرت بخشنے والے شاعراحمد فراز کی آج دسویں برسی ہے آپ کا شمار عصر حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔

    احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا اور وہ 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے تھے، ان کے والد سید محمد شاہ برق کا شمارکوہائی فارسی کے ممتاز شعراء میں ہوا کرتا تھا۔

    احمد فراز اردو، فارسی اور انگریزی ادب میں ماسٹرز کی ڈگری کے حامل تھے اور انہوں نے ریڈیو پاکستان سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا۔

    ریڈیو پاکستان کے بعد احمد فراز پشاور یونیورسٹی سے بطور لیکچرار منسلک ہوگئے۔ وہ پاکستان نیشنل سینٹر پشاور کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر، اکادمی ادبیات پاکستان کے اولین ڈائریکٹر جنرل اور پاکستان نیشنل بک فاﺅنڈیشن کے منیجنگ ڈائریکٹر کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔

    احمد فراز کا شمار عہد حاضر کے مقبول ترین شعراء میں ہوتا ہے۔ ان کی عمومی شناخت ان کی رومانوی شاعری کے حوالے سے ہے لیکن وہ معاشرے کی ناانصافیوں کے خلاف ہر دور میں صدائے احتجاج بلند کرتے رہے جس کی پاداش میں انہیں مختلف پابندیاں جھیلنی پڑیں اور جلاوطنی بھی اختیار کرنی پڑی۔

    آج ہم دار پہ کھینچے گئے جن باتوں پر

    کیا عجب کل وہ زمانےکو نصابوں میں ملیں

    احمد فراز کے مجموعہ ہائے کلام میں ’تنہا تنہا‘، ’درد آشوب‘، ’نایافت‘، ’شب خون‘، ’مرے خواب ریزہ ریزہ‘، ’جاناں جاناں‘، ’بے آواز گلی کوچوں میں‘، ’نابینا شہر میں آئینہ‘، ’سب آوازیں میری ہیں‘، ’پس انداز موسم‘، ’بودلک‘، ’غزل بہانہ کروں‘ اور ’اے عشق جنوں پیشہ‘ کے نام شامل ہیں۔

    اب کے ہم بچھڑےتوشاید کبھی خوابوں میں ملیں

    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

    احمد فراز کے کلام کی کلیات بھی شہر سخن آراستہ ہے کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کے نام سرفہرست ہیں۔ ہلال امتیاز کا اعزاز انہوں نے جنرل پرویز مشرف کی پالیسیوں سے اختلاف کی وجہ سے واپس کردیا تھا۔ انہیں جامعہ کراچی نے پی ایچ ڈی کی اعزازی ڈگری بھی عطا کی گئی تھی۔

    احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں وفات پاگئے۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

    شکوہ ظلمت شب سے تو کہیں بہتر تھا

    اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے

  • ایک عہد ساز شخصیت، احمد فراز کا آج 86 واں یوم پیدائش ہے

    ایک عہد ساز شخصیت، احمد فراز کا آج 86 واں یوم پیدائش ہے

    کراچی : احمد فرازمرحوم شاعری کی دنیا میں نام پیدا کرنے والی ایک مشہور و معروف شخصیت تھے۔ ان کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں، احمد فراز کا اصل نام سید احمد شاہ تھا لیکن وہ اپنے تخلص ”فراز“ سے مشہور ہیں۔ احمد فراز جنوری 14 سال 1931 کو صوبہ سرحد ( پختون خوا ) کے شہر کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ احمد فراز کے والد کا نام برق کوہاٹی ہے۔ احمد فراز کے والد بھی مشہور شاعر تھے۔

    احمد فراز نے فارسی اوراردو میں ایم اے پشاور یونیورسٹی سے کیا۔ اس کے بعد اپنی عملی زندگی کا آغاز کیا اور ریڈیو پاکستان میں اسکرپٹ رائٹر کی حیثیت سے مقرر ہوئے۔ ایڈورڈ کالج ( پشاور ) میں تعلیم کے دوران ریڈیو پاکستان کے لیے فیچر لکھنے شروع کیے۔

    جب ان کا پہلا شعری مجموعہ "” تنہا تنہا "” شائع ہوا تو وہ بی اے میں تھے ۔ تعلیم کی تکمیل کے بعد ریڈیو سے علیحدہ ہو گئے اور یونیورسٹی میں لیکچر شپ اختیار کرلی ۔ اسی ملازمت کے دوران ان کا دوسرا مجموعہ "” درد آشوب "”چھپا جس کو پاکستان رائٹرزگلڈ کی جانب سے ” آدم جی ادبی ایوارڈ "” عطا کیا گیا۔

    احمد فراز کے کلام کی کلیات بھی شہر سخن آراستہ ہے کے نام سے اشاعت پذیر ہوچکی ہے۔ انہیں متعدد اعزازات سے نوازا گیا جن میں آدم جی ادبی انعام، کمال فن ایوارڈ، ستارہ امتیاز اور ہلال امتیازاوربھارت سے ملنے والا ”گورکھ پوری ایوارڈ“  سرفہرست ہیں۔

    یونیورسٹی کی ملازمت کے بعد پاکستان نیشنل سینٹر (پشاور) کے ڈائریکٹر مقرر ہوئے۔ اسلام آباد میں نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چیئرمین بھی رہے۔ انہیں 1976 ء میں اکادمی ادبیات پاکستان کا پہلا سربراہ بنایا گیا، بعد ازاں جنرل ضیاء کے دور میں انہیں مجبوراً جلا وطنی اختیار کرنی پڑی۔

    احمد فراز کی شاعری کے مختلف مشہور زبانوں میں ترجمے بھی ہوئے جن میں فرنگی، پنجابی ،روسی ، فرانسی اور جرمن سر فہرست ہیں۔ ان کو سب سے زیادہ شہرت ضیاء الحق کے مار شل لاء کے خلاف شاعری کر نے پر ملی۔ انہوں نے سال 2000 میں ”ہلال امتیاز“ کا ایوارڈ بھی جیتا جو انہوں نے جنرل مشرف کے دور میں واپس لوٹا دیا۔

    faraz-post-1

    احمد فرز کے کلاموں میں آئینوں کے شہر میں نابینا ، سخن آراستہ ، تنہا تنہا ، جان جاناں ، نایافت ، اے عشق جنون مشہور و معروف ہیں۔

    انہوں نے متعدد ممالک کے دورے کیے، ان کا کلام علی گڑھ یونیورسٹی اور پشاور یونیورسٹی کے نصاب میں شامل ہے جامعہ ملیہ (بھارت ) میں ان پر پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا گیا جس کا موضوع "” احمد فراز کی غزل "” ہے۔

    بہاولپورمیں بھی "” احمد فراز ۔ فن اور شخصیت "” کے عنوان سے پی ایچ ڈی کا مقالہ تحریر کیا گیا، احمد فراز نے کئی نظمیں لکھیں جنہیں عالمی سطح پر سراہا گیا۔ ان کی غزلیات کو بھی بہت شہرت ملی۔

    احمد فراز کی بے شمار مشہور غزلوں میں سے ایک غزل قارئین کی نذر

    سنا ہے لوگ اس کو آنکھ بھر کے دیکھتے ہیں
    سو اس کے شہر میں کچھ دن ٹھہر کے دیکھتے ہیں

    احمد فراز 25 اگست 2008ء کو اسلام آباد میں قضائے الہٰی سے وفات پاگئے۔ وہ اسلام آباد کے مرکزی قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔