Tag: احمد فراز کی برسی

  • مقبول ترین پاکستانی شاعر احمد فراز کا تذکرہ جو پائلٹ بننا چاہتے تھے!

    مقبول ترین پاکستانی شاعر احمد فراز کا تذکرہ جو پائلٹ بننا چاہتے تھے!

    جدید شاعری میں ایک بڑا نام احمد فراز کا ہے جو اردو کے مقبول ترین شاعر ہیں۔ فراز کی ستائش اور پذیرائی کا سلسلہ ان کی زندگی میں بھی جاری تھا اور آج بھی فراز کو ایک ایسا شاعر کہا جاتا ہے جس نے ایک عہد کو متأثر کیا۔ فراز کی رومانوی شاعری ہی نہیں ان کا مزاحمتی کلام بھی بہت مشہور ہے اور ایک زمانہ میں فراز کی نظمیں سیاسی و سماجی جبر، بندشوں اور ناانصافی کے خلاف نعرہ بن کر گونجتی رہی ہیں۔ احمد فراز خواص اور عوام دونوں میں یکساں مقبول تھے۔

    احمد فراز 12 جنوری 1931ء کو کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ ان کا اصل نام سید احمد شاہ علی تھا اور شعر و ادب کی دنیا میں احمد فراز کے نام سے لازوال شہرت پائی۔ احمد فراز کا خاندان پشاور منتقل ہوگیا تھا جہاں انھوں نے ایڈورڈز کالج میں تعلیم حاصل کی۔ اور بعد میں پشاور یونیورسٹی سے ہی اردو اور فارسی میں ایم اے کیا۔ کالج میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران فیض احمد فیض اور علی سردار جعفری جیسے بڑے شعرا سے احمد فراز کا جو تعلق بنا، اس نے فراز کو بہت متاثر کیا اور ان کی شاعری انقلابی نظموں اور ترانوں میں ڈھلنے لگی۔ احمد فراز نے پشاور یونیورسٹی ہی میں لیکچرار کی حیثیت سے اپنے فرائض سر انجام دیے۔ احمد فراز 25 اگست 2008ء کو وفات پاگئے تھے۔

    انھوں نے پی ٹی وی کواپنے ایک انٹرویو میں بتایا تھا،

    "زندگی کی کرشمہ سازیاں بھی عجیب ہوتی ہیں۔ انسان خواب بھی دیکھتا ہے، تعبیریں کچھ نکلتی ہیں۔ مجھے بھی شروع میں پائلٹ بننے کا شوق تھا۔ اس لیے کہ میں نے ایک شخص کو دیکھا پاکستانی پائلٹ کی یونی فارم میں، مجھے بہت اچھا لگا۔ تو میں نے سوچا کہ میں پائلٹ بنوں گا۔ جب میں فرسٹ ایئر میں پہنچا تو میں نے بھی جی ڈی پائلٹ کے لیے اپلائی کر دیا۔ انٹرویو ہوا، اس میں سلیکٹ ہوا۔ پھر میڈیکل بھی ہو گیا ٹھیک ٹھاک ۔ پھر مجھے بلاوا آ گیا۔ ان دنوں میرے بڑے بھائی نے آرمی جوائن کر لی تھی۔ تو میری والدہ کو ایک طرح کی پریشانی ہوئی۔ ایک بیٹا فوج میں چلا گیا، دوسرا بیٹا ایئر فورس میں جا رہا ہے۔ ظاہر ہے وہ بہت اداس اور غم گین ہو گئیں۔ بل کہ یہاں تک کہ جب بلاوے کا کال آئی تو انھوں نے میرے کاغذات پھاڑ دیے اور بعد میں مجھے بتایا کہ بیٹا تمھیں وہاں نہیں جانا۔ والدین کی سوچ اپنی جگہ ہوتی ہے، خاص طور سے ماؤں کی۔” وہ مزید کہتے ہیں شاید مجھے شاعر بن کر شہرت کمانا تھی تو یہی ہوا۔

    احمد فراز کی شاعری کا ایک نمایاں وصف ان کا سادہ اندازِ تحریر اور وہ سلاست ہے جس میں حد درجہ نزاکت اور لطافت پائی جاتی ہے۔ ان کے اشعار عام آدمی بھی بڑی آسانی سے سمجھ لیتا ہے اور لطف اندوز ہوتا ہے۔ احمد فراز نے پہلا شعر کب کہا، اس حوالے سے ایک دل چسپ واقعہ بیان کیا جاتا ہے کہ ایک مرتبہ ان کے والد عید کے کپڑے لائے۔ فراز کو یہ کپڑے پسند نہیں آئے بلکہ انھیں اپنے بھائی کے لیے خریدا گیا کپڑا زیادہ پسند آیا۔ اس موقع پر انہوں نے یہ شعر کہا تھا:

    سب کے واسطے لائے ہیں کپڑے سیل سے
    لائے ہیں میرے لیے قیدی کا کمبل جیل سے

    احمد فراز کی شاعری میں مزاحمتی رویے بھی بڑی شدت سے ملتے ہیں۔ انھوں نے ملک میں آمریت اور فوجی اقتدار کے خلاف کھل کر لکھا۔ ضیا دور میں فراز کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ بعد میں فراز نے خود ساختہ جلا وطنی اختیار کر لی تھی۔ چھے سال تک برطانیہ، کینیڈا اور یورپ میں مقیم رہنے کے بعد وہ 1988ء میں پاکستان آئے جب بے نظیر بھٹو وزیراعظم بن چکی تھیں۔ فراز کو اکادمی ادبیات پاکستان کا چیئرمین مقرر کیا گیا اور بعد میں وہ کئی سال تک نیشنل بک فاؤنڈیشن کے چیئرمین کے طور پر فرائض سرانجام دیتے رہے۔ انہیں کئی قومی اور بین الاقوامی ایوارڈز سے نوازا گیا۔

    احمد فراز کے شعری مجموعوں میں ’’جاناں جاناں، نایافت، تنہا تنہا، سب آوازیں میری ہیں اور بے آواز گلی کوچوں میں‘‘ شامل ہیں جو بہت مقبول ہوئے۔ جدید لب و لہجے کے اس خوب صورت شاعر کے کلام میں رومانوی موضوعات کے علاوہ سماجی اور سیاسی عوامل کے زیر اثر جنم لینے والے‌ خیالات اور جذبات بھی ملتے ہیں۔ وہ سماجی اقدار کے بہت بڑے علم بردار تھے اور اس حوالے سے اپنی فکر اور نظریات کا شاعری میں بھی اظہار کیا ہے۔ احمد فراز کی چند غزلوں کو فلموں میں شامل کیا گیا اور وہ بہت مقبول ہوئیں۔ خاص طور پر فلم ’’انگارے‘‘ اور ’’محبت‘‘ میں ان کی جو غزلیں شامل کی گئیں وہ کلاسک کا درجہ اختیار کر گئیں۔ مہدی حسن کی آواز میں ان کی یہ غزل آپ نے بھی سنی ہوگی:

    اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی خوابوں میں ملیں
    جس طرح سوکھے ہوئے پھول کتابوں میں ملیں

    فراز کی مشہور غزل کا مطلع جسے مہدی حسن نے گایا تھا

    رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے آ
    آپھر سے مجھے چھوڑ کے جانے کے آ

  • عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز کی برسی

    عالمی شہرت یافتہ شاعر احمد فراز کی برسی

    حسن و عشق کے قصّے ہوں یا ساغر و بادہ میں ڈوبے ہوئے صبح و شام کا تذکرہ، واعظ سے الجھنا اور اس پر طنز کرنا ہو یا محبوب سے بگڑنے کے بعد طعنہ زنی اور دشنام طرازی کا معاملہ ہو فراز نے سخن وَری میں کمال کردیا، اور رومانوی شاعر کے طور ہر عمر اور طبقے میں مقبول ہوئے، لیکن وہ ایک ایسے شاعر بھی تھے جس نے ناانصافی، جبر اور آزادیِ اظہار پر پابندیوں کے خلاف انقلابی ترانے لکھ کر باشعور اور سنجیدہ حلقوں کو متوجہ کیا اور اردو ادب میں ممتاز ہوئے۔ آج احمد فراز کی برسی ہے۔

    سن ساٹھ کی دہائی میں پہلے شعری مجموعے سے اردو ادب کے افق پر جگمگانے والا یہ ستارہ 2008ء میں آج ہی کے دن ہمیشہ کے لیے ڈوب گیا، لیکن اس کی روشنی آج بھی باقی ہے۔

    احمد فراز کا اصل نام سیّد احمد شاہ تھا۔ وہ 14 جنوری 1931ء کو صوبۂ سرحد کے شہر کوہاٹ میں پیدا ہوئے۔ پشاور میں ایڈورڈ کالج اور پشاور یونیورسٹی سے تعلیم حاصلی کی، دورانِ طالبِ علمی ہی ان کی شاعری اور شہرت کا آغاز ہوچکا تھا اور جب ان کا پہلا شعری مجموعہ ‘تنہا تنہا’ شایع ہوا تو وہ بی اے کے طالبِ علم تھے۔

    احمد فراز نے عملی زندگی کا آغاز ریڈیو پاکستان میں اسکرپٹ رائٹر کے طور پر کیا اور پھر پشاور یونیورسٹی میں اردو کے استاد مقرر ہوئے۔

    جنرل ضیاءُ الحق کے دور میں انھوں نے آمریت کے خلاف لب کشائی کی اور اپنے کلام کے ذریعے جبر کو مسترد کیا تو اس کی پاداش میں کئی برس بیرونِ ملک جلا وطنی کاٹنے پر مجبور کردیے گئے۔

    احمد فراز کو ادبی خدمات پر ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا، لیکن انھوں نے پرویز مشرف کے غیر آئینی اقدامات پر احتجاجاً یہ اعزاز واپس کر دیا تھا۔

    احمد فراز کو ان کے ادبی سفر کے دوران شہرت اور دنیا بھر میں محبت کے ساتھ ساتھ متعدد ممالک میں سرکاری سطح پر جب کہ امن و فلاح و بہبودِ انسانی کی مختلف تنظیموں اور ادبی پلیٹ فارمز سے کئی اعلیٰ اعزازات سے نوازا گیا۔

    احمد فراز کا کلام برِصغیر کے مشہور غزل گائیکوں نے گایا اور خوب صورت آوازوں نے ان کی شاعری کو سامعین میں مزید مقبول بنایا۔

    مہدی حسن نے فراز کی کئی غزلوں کو اپنی آواز کا سحر عطا کیا جس میں ‘رنجش ہی سہی دل ہی دکھانے کے لیے آ’ بہت پسند کی گئی اور آج بھی اس کی مقبولیت برقرار ہے۔ ملکۂ ترنم میڈم نور جہاں نے فراز کی غزل ‘سلسلے توڑ گیا وہ سبھی جاتے جاتے’ گا کر شائقینِ غزل کے دل جیتے۔

    پڑوسی ملک ہندوستان میں لتا منگیشکر نے ان کی کئی غزلیں اور گیت گائے۔ ان کے علاوہ جگجیت سنگھ نے بھی فراز کی کئی غزلیں گائی ہیں۔

    فراز کے شعری مجموعوں میں سب آوازیں میری ہیں، نایافت، میرے خواب ریزہ ریزہ، خوابِ گل پریشاں ہے، غزل بہانہ کروں، جاناں جاناں شامل ہیں۔ فراز کے کئی اشعار زبان زدِ عام ہوئے جو امید و جستجو کا استعارہ بن گئے اور ان میں ہمارے لیے خوب صورت پیغام موجود ہے۔ ایک ایسا ہی شعر ملاحظہ کیجیے۔

    شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
    اپنے حصّے کی کوئی شمع جلاتے جاتے