Tag: احمد ندیم قاسمی

  • احمد ندیم قاسمی: کاروانِ ادب کی ایک بلند پایہ شخصیت

    احمد ندیم قاسمی: کاروانِ ادب کی ایک بلند پایہ شخصیت

    احمد ندیم قاسمی کی ادبی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہے اور ان کی ادبی شخصیت کی کئی جہتیں بھی ہیں۔ قاسمی صاحب نے کئی قابل اور باصلاحیت اہلِ قلم کو ادبی دنیا میں‌ متعارف کروایا اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔ اردو دنیا میں قاسمی صاحب کو بطور ادیب، شاعر اور نقّاد بے حد پذیرائی ملی۔ انھیں عہد ساز شخصیت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

    احمد ندیم قاسمی ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے۔ انھوں نے مقدمات کا سامنا بھی کیا اور دو مرتبہ گرفتار بھی ہوئے۔ قاسمی صاحب 10 جولائی 2006ء کو وفات پاگئے تھے۔ اردو ادب کے لیے ان کی خدمات نصف صدی سے زائد عرصہ پر محیط ہیں۔ آج بھی ان کی کہانیاں‌، افسانے اور شاعری ذوق و شوق سے پڑھی جاتی ہے۔ قاسمی صاحب کو سرکاری سطح پر اور کئی ادبی تنظیموں کی جانب سے اعزازات سے نوازا گیا۔

    قاسمی صاحب نے 20 نومبر 1916ء کو سرگودھا کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی۔ پرائمری تک تعلیم اور والد کے انتقال کے بعد وہ کیمبل پور منتقل ہو گئے تھے، جو بعد میں اٹک کہلایا۔ وہیں احمد ندیم قاسمی نے میٹرک تک پڑھا۔ دیہاتی ماحول میں‌ پروان چڑھنے والے قاسمی صاحب کا اصل نام احمد شاہ تھا جو فطرت سے بے حد قریب رہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی کہانیوں‌ اور فکشن میں‌ دیہات کی منظر کشی اور وہاں کی سادہ زندگی کو بڑی خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے۔ قاسمی صاحب کا گہرا مشاہدہ اور جزئیات نگاری ان کی کہانیوں کو شاہ کار بناتی ہیں۔

    اٹک میں احمد ندیم قاسمی اپنے چچا کی سرپرستی میں نوعمری کے دن گزار رہے تھے کہ ان کا تبادلہ شیخو پورہ ہوگیا۔ قاسمی صاحب نے اپنے بچپن اور گھر کے حالات کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے: ’میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کے افراد اپنی روایتی وضع داری نباہنے کے لیے ریشم تک پہنتے تھے اور خالی پیٹ تک سو جاتے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسے جانے سے پہلے میرے وہ آنسو بڑی احتیاط سے پونچھے جاتے تھے جو اماں سے محض ایک پیسہ حاصل کرنے میں ناکامی پر بہہ نکلتے تھے لیکن میرے لباس کی صفائی، میرے بستے کا ٹھاٹ اور میر ی کتابوں کی ’’گیٹ اپ‘‘ کسی سے کم نہ ہوتی تھی۔ گھر سے باہر احساسِ برتری طاری رہتا تھا اور گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سارے آبگینے چُور ہو جاتے تھے جنہیں میری طفلی کے خواب تراشتے تھے۔ پیاز، سبز مرچ یا نمک مرچ کے مرکب سے روٹی کھاتے وقت، زندگی بڑی سفاک معلوم ہونے لگتی تھی۔ والد گرامی پیر تھے۔ یادِ الہیٰ میں کچھ ایسی استغراق کی کیفیتیں طاری ہونے لگیں کہ مجذوب ہوگئے اور جن عزیزوں نے ان کی گدی پر قبضہ جمایا، انہوں نے ڈیڑھ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کیا۔ تین پیسے روزانہ کی اس آمدن میں اماں مجھے روزانہ ایک پیسہ دینے کے بجائے میرے آنسو پونچھ لینا زیادہ آسان سمجھتی تھیں۔ گھرانے کی اس عزّت کے احساس نے مجھے وقت سے پہلے حساس بنا دیا اور ممکن ہے اسی گداز نے مجھے فن کار بنایا ہو۔ اگر بچپن میں مجھے ماں کی محبت نہ ملتی تو ممکن ہے آج میں نہایت کلبی و قنوطی ہوتا۔ لیکن عالم یہ تھا کہ جب ہم بہن بھائی اپنی اماں کا ہاتھ بٹاتے، وہ چرخہ کاتتیں اور ہم پُونیاں بناتے، وہ چکی پیستیں اور ہم مل کر گیت گاتے، وہ کوٹھے کی لپائی کرتیں اور ہم سیڑھی سے چمٹے کھڑے رہتے۔ وہ زیرِ لب کوئی آیتِ کریمہ پڑھتیں اور ہم تینوں (بڑی بہن، بڑا بھائی اور ندیمؔ ) پر ’’چُھو‘‘ کرتیں اور یہ ’’چُھو‘‘ ہوتے ہی زندگی کی ڈالیاں پھولوں سے لد جاتیں۔‘‘

    1931ء میں‌ تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا محمد علی جوہر کے لندن میں انتقال کرجانے پر احمد ندیم قاسمی نے ایک نظم لکھی، جو لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ’سیاست‘ نے پورے صفحے پر شائع کر دی۔ اس نظم کے طفیل قاسمی صاحب کا نام ادبی حلقوں اور عام قارئین تک پہنچا اور ان کی خوب حوصلہ افزائی ہوئی۔ قاسمی صاحب کو دیہات کی زندگی اور مسائل نے بہت کچھ سکھایا تھا۔ شاعری کے ساتھ رسائل اور ادبی جرائد کا مطالعہ کرتے ہوئے انھوں نے افسانے اور مضامین بھی خوب پڑھے اور پھر کہانی لکھنے کی طرف مائل ہوگئے۔ ’بے گناہ‘ وہ افسانہ تھا جسے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں جگہ ملی تو مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے پڑھنے کے بعد اختر شیرانی سے رابطہ کیا اور مصنّف کی تعریف کی۔ بعد میں منٹو سے قاسمی صاحب کا رابطہ خط کے ذریعے ہوا۔ منٹو ہی کی دعوت پر قاسمی صاحب نئی دہلی گئے جہاں دونوں کے درمیان دوستی کا تعلق اُستوار ہوا۔

    قاسمی صاحب کو علم و ادب کی دنیا میں پہچان ہی نہیں‌ عزّت اور بڑی پذیرائی ملی۔ کئی ملکوں میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے منعقدہ تقاریب اور میلوں میں قاسمی صاحب کو مدعو کیا جاتا رہا جہاں‌ ان کے مداح انھیں سنتے اور سراہتے۔ وہ اردو کے ایک سفیر کی حیثیت سے ملکوں ملکوں‌ گھومے پھرے اور خوب لکھا۔ قاسمی صاحب نے سرکاری نوکریاں‌ بھی کیں۔ پھر ریڈیو سے وابستہ ہوئے لیکن اسے بھی ترک کردیا۔ وہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر لاہور آچکے تھے جہاں‌ اردو ادب کے کئی بڑے نام موجود تھے جو فلم یا اخبار و ادبی جرائد سے وابستہ تھے۔ قاسمی صاحب نے یہاں ایک ادبی جریدہ فنون کی بنیاد رکھی جو ملک بھر میں مقبول ہوا۔

    فنون کی ادارت سنبھال کر قاسمی صاحب نے معیاری ادب کو فروغ دیا اور نئے لکھنے والوں کو سراہتے ہوئے ان کی معیاری تخلیقات کو فنون میں‌ جگہ دی۔ احمد ندیم قاسمی کو امتیاز علی تاج نے اپنے ماہ نامہ رسالے پھول کی ادارت بھی سونپی تھی۔ پھول بچوں کا رسالہ تھا اور قاسمی صاحب بچّوں کا ادب تخلیق کرنے میں‌ بھی پیچھے نہ رہے، انھوں نے بچّوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں اور کہانیاں بھی۔ ان کی پچاس سے زائد نثری اور شعری کتابیں شایع ہوئیں۔ شاعری اور فکشن نگاری کے علاوہ قاسمی صاحب نے تنقیدی مضامین اور تراجم بھی کیے۔ ان کی تصانیف میں افسانہ اور کہانیوں پر مشتمل چوپال، بگولے، طلوع و غروب جب کہ شعری مجموعے دھڑکنیں، رِم جھم، جلال و جمال، شعلۂ گل، دشتِ وفا کےعلاوہ تحقیق و تنقید کے موضوعات پر کتابیں‌ شامل ہیں۔ میرے ہم قدم ان کے تحریر کردہ شخصی خاکوں کا مجموعہ تھا۔ اس کے علاوہ احمد ندیم قاسمی کے فکاہیہ کالم اور مضامین بھی کتابی صورت میں‌ شایع ہوئے۔ قاسمی صاحب کے افسانوں اور کہانیوں کو ڈرامے کی شکل میں بھی پیش کیا گیا اور فلم کے لیے بھی کہانی اخذ کی گئی۔ 1947ء میں ریڈیو پاکستان پشاور کے لیے قومی و ملّی نغمات کے علاوہ فیچر اور ڈرامے تحریر کیے جب کہ تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی شب کو انہی کا تحریر کردہ اوّلین قومی نغمہ ریڈیو پاکستان سے نشر ہوا تھا۔

  • احمد ندیم قاسمی:‌ فکر و فن کی دنیا کی ایک معتبر شخصیت

    احمد ندیم قاسمی:‌ فکر و فن کی دنیا کی ایک معتبر شخصیت

    احمد ندیم قاسمی دنیائے ادب کے ایسے قد آور تھے جن کی ادبی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہے اور اس کی کئی جہتیں بھی ہیں۔ آج اردو زبان کے بے مثل شاعر، ادیب، محقّق، مدیر اور اپنے وقت کے مقبول کالم نویس احمد ندیم قاسمی کی برسی ہے۔

    احمد ندیم قاسمی ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور دو مرتبہ انھیں گرفتار بھی کیا گیا۔ 10 جولائی 2006ء کو وفات پانے والے احمد ندیم قاسمی ان شخصیات میں سے تھے جو اپنے فکر و فن کے ساتھ نصف صدی سے زائد عرصے تک ادب کی دنیا پر چھائے رہے۔

    قاسمی صاحب نے 20 نومبر 1916ء کو سرگودھا کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی۔ پرائمری تک تعلیم پانے کے بعد وہ کیمبل پور منتقل ہو گئے تھے، جو بعد میں اٹک کہلایا۔ وہیں احمد ندیم قاسمی نے میٹرک تک پڑھا۔ ان کا اصل نام احمد شاہ تھا جو دیہاتی ماحول میں رہے اور اسی نے ان کے اندر فطرت سے لگاؤ اور خوب صورت مناظر میں دل چسپی پیدا کردی تھی جس کی جھلک ہم ان کے افسانوں اور فکشن میں‌ بھی دیکھتے ہیں۔ قاسمی صاحب نے دیہات اور وہاں کی سادہ زندگی کو بڑی خوب صورتی سے اپنی کہانیوں میں سمویا ہے۔ ان کا مشاہدہ اور جزئیات نگاری ان کی کہانیوں کو شاہ کار بناتی ہیں۔

    والد کا انتقال ہوچکا تھا اور اٹک میں احمد ندیم قاسمی اپنے سرپرست چچا کے ہاں مقیم تھے، جن کا تبادلہ شیخو پورہ ہوا تو وہ بھی شیخو پورہ چلے گئے اور وہاں ہائی اسکول میں میٹرک میں داخلہ لیا۔ قاسمی صاحب نے اپنے بچپن اور گھر کے حالات کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے: ’میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کے افراد اپنی روایتی وضع داری نباہنے کے لیے ریشم تک پہنتے تھے اور خالی پیٹ تک سو جاتے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسے جانے سے پہلے میرے وہ آنسو بڑی احتیاط سے پونچھے جاتے تھے جو اماں سے محض ایک پیسہ حاصل کرنے میں ناکامی پر بہہ نکلتے تھے لیکن میرے لباس کی صفائی، میرے بستے کا ٹھاٹ اور میر ی کتابوں کی ’’گیٹ اپ‘‘ کسی سے کم نہ ہوتی تھی۔ گھر سے باہر احساسِ برتری طاری رہتا تھا اور گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سارے آبگینے چُور ہو جاتے تھے جنہیں میری طفلی کے خواب تراشتے تھے۔ پیاز، سبز مرچ یا نمک مرچ کے مرکب سے روٹی کھاتے وقت، زندگی بڑی سفاک معلوم ہونے لگتی تھی۔ والد گرامی پیر تھے۔ یادِ الہیٰ میں کچھ ایسی استغراق کی کیفیتیں طاری ہونے لگیں کہ مجذوب ہوگئے اور جن عزیزوں نے ان کی گدی پر قبضہ جمایا، انہوں نے ڈیڑھ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کیا۔ تین پیسے روزانہ کی اس آمدن میں اماں مجھے روزانہ ایک پیسہ دینے کے بجائے میرے آنسو پونچھ لینا زیادہ آسان سمجھتی تھیں۔ گھرانے کی اس عزّت کے احساس نے مجھے وقت سے پہلے حساس بنا دیا اور ممکن ہے اسی گداز نے مجھے فن کار بنایا ہو۔ اگر بچپن میں مجھے ماں کی محبت نہ ملتی تو ممکن ہے آج میں نہایت کلبی و قنوطی ہوتا۔ لیکن عالم یہ تھا کہ جب ہم بہن بھائی اپنی اماں کا ہاتھ بٹاتے، وہ چرخہ کاتتیں اور ہم پُونیاں بناتے، وہ چکی پیستیں اور ہم مل کر گیت گاتے، وہ کوٹھے کی لپائی کرتیں اور ہم سیڑھی سے چمٹے کھڑے رہتے۔ وہ زیرِ لب کوئی آیتِ کریمہ پڑھتیں اور ہم تینوں (بڑی بہن، بڑا بھائی اور ندیمؔ ) پر ’’چُھو‘‘ کرتیں اور یہ ’’چُھو‘‘ ہوتے ہی زندگی کی ڈالیاں پھولوں سے لد جاتیں۔‘‘

    یہ 1931ء کی بات ہے جب تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا محمد علی جوہر لندن میں انتقال کر گئے اور ان کو فلسطین میں سپردِ خاک کیا گیا۔ احمد ندیم قاسمی نے مولانا جوہر پر ایک نظم لکھی، جو لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ’سیاست‘ نے اپنے پورے صفحے پر شائع کی۔ اس طرح سے قاسمی صاحب کا نام ادبی حلقوں اور عام قارئین تک پہنچا۔ شاعری کے ساتھ اُسی دور میں وہ افسانہ نگاری کی طرف بھی آگئے۔ ’بے گناہ‘ وہ افسانہ تھا جسے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں جگہ ملی تو مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے پڑھنے کے بعد اختر شیرانی سے رابطہ کر کے اس کے مصنّف کی تعریف کی اور پھر منٹو سے قاسمی صاحب کا رابطہ خط کے ذریعے ہوگیا۔ منٹو ہی کی دعوت پر قاسمی صاحب نئی دہلی گئے جہاں دونوں کے درمیان دوستی کا تعلق اُستوار ہوا۔

    قاسمی صاحب کو علم و ادب کی دنیا میں پہچان ہی نہیں‌ عزّت اور بڑی پذیرائی ملی اور وہ کئی ملکوں میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے منعقدہ تقاریب اور میلوں میں شریک ہوتے رہے۔ امریکا، جرمنی اور چین سمیت دنیا کے کئی ملکوں کے سفر کرنے والے قاسمی صاحب نے ابتدائی زمانے میں سرکاری نوکریاں‌ بھی کیں۔ پھر ریڈیو سے وابستہ ہوگئے لیکن یہ نوکری بھی چھوڑ دی۔ وہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر لاہور آچکے تھے۔ قاسمی صاحب نے نقوش کی بنیاد رکھی اور یہ ادبی رسالہ بھی ملک بھر میں مقبول ہوا۔

    پاکستان میں فنون جیسے مشہور اور مقبول ادبی جریدے کی ادارت کرتے ہوئے قاسمی صاحب نے نئے لکھنے والوں کو بہت سراہا اور ان کی معیاری تخلیقات کو فنون میں‌ جگہ دی۔ احمد ندیم قاسمی کو امتیاز علی تاج نے اپنے ماہ نامہ رسالے پھول کی ادارت بھی سونپی تھی۔ پھول بچوں کا رسالہ تھا اور قاسمی صاحب بچّوں کا ادب تخلیق کرنے میں‌ بھی پیچھے نہ رہے، انھوں نے بچّوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں اور کہانیاں بھی۔

    وہ پچاس سے زائد نثری اور شعری کتابوں کے خالق تھے۔ شاعری اور فکشن نگاری کے علاوہ انھوں نے تحقیقی اور تنقیدی کام بھی کیا اور تراجم کی طرف بھی توجہ دی۔ ان کی کتابوں کی فہرست طویل ہے جن میں‌ چند نام یہ ہیں:‌ افسانہ اور کہانیوں پر مشتمل چوپال، بگولے، طلوع و غروب جب کہ شعری مجموعے دھڑکنیں، رِم جھم، جلال و جمال، شعلۂ گل، دشتِ وفا اور تحقیق و تنقید کے موضوعات پر کتابوں‌ میں تہذیب و فن، ادب اور تعلیم کے رشتے، علّامہ محمد اقبال اور اسی طرح‌ میرے ہم قدم شخصی خاکے کا مجموعہ تھا جب کہ فکاہیہ کالم اور مزاحیہ مضامین بھی کتابی صورت میں‌ شایع ہوئے۔ بلاشبہ احمد ندیم قاسمی نے اپنی شخصیت اور فن کی بدولت اردو زبان و ادب پر اپنا گہرا نقش چھوڑا۔

  • احمد ندیم قاسمی: شخصیت اور فن کے آئینے میں

    احمد ندیم قاسمی: شخصیت اور فن کے آئینے میں

    احمد ندیم قاسمی کی ادبی شخصیت کے بہت سے رنگ ہیں اور ان کی ادبی خدمات کا دائرہ بھی وسیع ہے بلکہ اس کی کئی جہتیں ہیں۔ ادبی دنیا میں‌ احمد ندیم قاسمی کی توجہ، حوصلہ افزائی اور شفقت کی بدولت کئی نام بطور ادیب، شاعر اور نقّاد آج پہچان رکھتے ہیں اور اکثر نے ادب اور فنونِ لطیفہ میں بڑا مقام و مرتبہ پایا۔ آج احمد ندیم قاسمی کا یومِ وفات ہے۔

    احمد ندیم قاسمی ایک بے مثل شاعر، ادیب، محقّق، مدیر اور کالم نویس تھے جو ترقی پسند تحریک سے وابستہ رہے اور اس زمانے میں‌ انھیں‌ دو مرتبہ گرفتار بھی کیا گیا۔ اُن کا انتقال 10 جولائی 2006ء کو ہوا تھا۔ وہ ان شخصیات میں سے ایک تھے جو اپنے فکر و فن کے ساتھ نصف صدی سے زائد عرصے تک ادب کی دنیا پر چھائے رہے۔

    قاسمی صاحب نے 20 نومبر 1916ء کو سرگودھا کے قریب ایک گاؤں میں آنکھ کھولی۔ پرائمری تک تعلیم پانے کے بعد وہ کیمبل پور منتقل ہو گئے تھے، جو بعد میں اٹک کہلایا۔ وہیں احمد ندیم قاسمی نے میٹرک تک پڑھا۔ ان کا اصل نام احمد شاہ تھا جو دیہاتی ماحول میں رہے اور اسی نے ان کے اندر فطرت سے لگاؤ اور خوب صورت مناظر میں دل چسپی پیدا کردی تھی جس کی جھلک ہم ان کے افسانوں اور فکشن میں‌ بھی دیکھتے ہیں۔ قاسمی صاحب نے دیہات اور وہاں کی سادہ زندگی کو بڑی خوب صورتی سے اپنی کہانیوں میں سمویا ہے۔ ان کا مشاہدہ اور جزئیات نگاری ان کی کہانیوں کو شاہ کار بناتی ہیں۔

    والد کا انتقال ہوچکا تھا اور اٹک میں احمد ندیم قاسمی اپنے سرپرست چچا کے ہاں مقیم تھے، جن کا تبادلہ شیخو پورہ ہوا تو وہ بھی شیخو پورہ چلے گئے اور وہاں ہائی اسکول میں میٹرک میں داخلہ لیا۔ قاسمی صاحب نے اپنے بچپن اور گھر کے حالات کا نقشہ کچھ اس طرح کھینچا ہے:

    ’میں نے ایک ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جس کے افراد اپنی روایتی وضع داری نباہنے کے لیے ریشم تک پہنتے تھے اور خالی پیٹ تک سو جاتے تھے مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ مدرسے جانے سے پہلے میرے وہ آنسو بڑی احتیاط سے پونچھے جاتے تھے جو اماں سے محض ایک پیسہ حاصل کرنے میں ناکامی پر بہہ نکلتے تھے لیکن میرے لباس کی صفائی، میرے بستے کا ٹھاٹ اور میر ی کتابوں کی ’’گیٹ اپ‘‘ کسی سے کم نہ ہوتی تھی۔ گھر سے باہر احساسِ برتری طاری رہتا تھا اور گھر میں داخل ہوتے ہی وہ سارے آبگینے چُور ہو جاتے تھے جنہیں میری طفلی کے خواب تراشتے تھے۔ پیاز، سبز مرچ یا نمک مرچ کے مرکب سے روٹی کھاتے وقت، زندگی بڑی سفاک معلوم ہونے لگتی تھی۔ والد گرامی پیر تھے۔ یادِ الہیٰ میں کچھ ایسی استغراق کی کیفیتیں طاری ہونے لگیں کہ مجذوب ہوگئے اور جن عزیزوں نے ان کی گدی پر قبضہ جمایا، انہوں نے ڈیڑھ روپیہ ماہانہ وظیفہ مقرر کیا۔ تین پیسے روزانہ کی اس آمدن میں اماں مجھے روزانہ ایک پیسہ دینے کے بجائے میرے آنسو پونچھ لینا زیادہ آسان سمجھتی تھیں۔ گھرانے کی اس عزّت کے احساس نے مجھے وقت سے پہلے حساس بنا دیا اور ممکن ہے اسی گداز نے مجھے فن کار بنایا ہو۔ اگر بچپن میں مجھے ماں کی محبت نہ ملتی تو ممکن ہے آج میں نہایت کلبی و قنوطی ہوتا۔ لیکن عالم یہ تھا کہ جب ہم بہن بھائی اپنی اماں کا ہاتھ بٹاتے، وہ چرخہ کاتتیں اور ہم پُونیاں بناتے، وہ چکی پیستیں اور ہم مل کر گیت گاتے، وہ کوٹھے کی لپائی کرتیں اور ہم سیڑھی سے چمٹے کھڑے رہتے۔ وہ زیرِ لب کوئی آیتِ کریمہ پڑھتیں اور ہم تینوں (بڑی بہن، بڑا بھائی اور ندیمؔ ) پر ’’چُھو‘‘ کرتیں اور یہ ’’چُھو‘‘ ہوتے ہی زندگی کی ڈالیاں پھولوں سے لد جاتیں۔‘‘

    یہ 1931ء کی بات ہے جب تحریکِ آزادی کے عظیم راہ نما مولانا محمد علی جوہر لندن میں انتقال کر گئے اور ان کو فلسطین میں سپردِ خاک کیا گیا۔ احمد ندیم قاسمی نے مولانا جوہر پر ایک نظم لکھی، جو لاہور سے شائع ہونے والے اخبار ’سیاست‘ نے اپنے پورے صفحے پر شائع کی۔ اس طرح سے قاسمی صاحب کا نام ادبی حلقوں اور عام قارئین تک پہنچا۔ شاعری کے ساتھ اُسی دور میں وہ افسانہ نگاری کی طرف بھی آگئے۔ ’بے گناہ‘ وہ افسانہ تھا جسے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں جگہ ملی تو مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے پڑھنے کے بعد اختر شیرانی سے رابطہ کر کے اس کے مصنّف کی تعریف کی اور پھر منٹو سے قاسمی صاحب کا رابطہ خط کے ذریعے ہوگیا۔ منٹو ہی کی دعوت پر قاسمی صاحب نئی دہلی گئے جہاں دونوں کے درمیان دوستی کا تعلق اُستوار ہوا۔

    قاسمی صاحب کو علم و ادب کی دنیا میں پہچان ہی نہیں‌ عزّت اور بڑی پذیرائی ملی اور وہ کئی ملکوں میں اردو زبان و ادب کے حوالے سے منعقدہ تقاریب اور میلوں میں شریک ہوتے رہے۔ امریکا، جرمنی اور چین سمیت دنیا کے کئی ملکوں کے سفر کرنے والے قاسمی صاحب نے ابتدائی زمانے میں سرکاری نوکریاں‌ بھی کیں۔ پھر ریڈیو سے وابستہ ہوگئے لیکن یہ نوکری بھی چھوڑ دی۔ وہ اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر لاہور آچکے تھے۔ قاسمی صاحب نے فنون کی بنیاد رکھی اور یہ ادبی رسالہ بھی ملک بھر میں مقبول ہوا۔

    پاکستان میں فنون جیسے مشہور اور مقبول ادبی جریدے کی ادارت کرتے ہوئے قاسمی صاحب نے نئے لکھنے والوں کو بہت سراہا اور ان کی معیاری تخلیقات کو فنون میں‌ جگہ دی۔ احمد ندیم قاسمی کو امتیاز علی تاج نے اپنے ماہ نامہ رسالے پھول کی ادارت بھی سونپی تھی۔ پھول بچوں کا رسالہ تھا اور قاسمی صاحب بچّوں کا ادب تخلیق کرنے میں‌ بھی پیچھے نہ رہے، انھوں نے بچّوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں اور کہانیاں بھی۔

    وہ پچاس سے زائد نثری اور شعری کتابوں کے خالق تھے۔ شاعری اور فکشن نگاری کے علاوہ انھوں نے تحقیقی اور تنقیدی کام بھی کیا اور تراجم کی طرف بھی توجہ دی۔ ان کی کتابوں کی فہرست طویل ہے جن میں‌ چند نام یہ ہیں:‌ افسانہ اور کہانیوں پر مشتمل چوپال، بگولے، طلوع و غروب جب کہ شعری مجموعے دھڑکنیں، رِم جھم، جلال و جمال، شعلۂ گل، دشتِ وفا اور تحقیق و تنقید کے موضوعات پر کتابوں‌ میں تہذیب و فن، ادب اور تعلیم کے رشتے، علّامہ محمد اقبال اور اسی طرح‌ میرے ہم قدم شخصی خاکے کا مجموعہ تھا جب کہ فکاہیہ کالم اور مزاحیہ مضامین بھی کتابی صورت میں‌ شایع ہوئے۔

    پاکستان اور بھارت کے علاوہ دنیا بھر سے ممتاز علمی و ادبی شخصیات نے احمد ندیم قاسی کے سانحۂ ارتحال پر تعزیتی پیغامات میں‌ کہا کہ فنون و ادب کی دنیا میں ان کے جانے سے جو خلاء پیدا ہوا ہے، وہ کبھی پُر نہیں‌ ہوسکے گا۔ بلاشبہ احمد ندیم قاسمی اپنی شخصیت اور فن کی بدولت اردو زبان و ادب پر اپنا گہرا نقش چھوڑ گئے، جو ہمیشہ ان کی یاد دلاتا رہے گا۔

  • محمد طفیل کا تذکرہ جن کی مساعی سے’’نقوش‘‘ ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوا

    محمد طفیل کا تذکرہ جن کی مساعی سے’’نقوش‘‘ ہر خاص و عام میں‌ مقبول ہوا

    ’’نقوش‘‘ وہ ادبی جریدہ تھا جس کا اجرا محمد طفیل نے مارچ 1948ء میں کیا اور کئی برس بعد اس کی ادارت بھی سنبھالی اور اس جریدے کے متعدد شاہکار نمبر نکالے۔‌ محمد طفیل ایک کام یاب رسالے کے مالک اور مدیر ہی نہیں تھے بلکہ انھوں نے مصنّف اور خاکہ نگار کی حیثیت سے بھی جہانِ ادب میں‌ پہچان بنائی۔ حکومتِ پاکستان نے محمد طفیل کو ستارۂ امتیاز عطا کیا تھا۔

    ممتاز فکشن نگار انتظار حسین لکھتے ہیں: "مدیر کی حثییت سے طفیل مرحوم کا سب سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ انہوں نے ایک ادبی رسالہ کو ادبی قارئین کے دائرے سے نکال کر ہر خاص و عام کی پسند کی چیز بنا دیا اور یہ یقیناً ادب کی بہت بڑی خدمت ہے۔”

    محمد طفیل کے بارے میں‌ پروفیسر مرزا محمد منور لکھتے ہیں: "محمد طفیل صاحب نے تن تنہا جتنی اردو کی خدمت کی ہے شاید ہی کسی فردِ واحد کے زیرِ انتظام کسی ادارے نے کی ہو۔”

    ’’نقوش‘‘ کے مدیر محمد طفیل 5 جولائی 1986ء کو وفات پاگئے تھے۔ اداریہ نویسی کرتے ہوئے محمد طفیل ادبی تذکرے، مضامین اور خاکہ نگاری کی طرف متوجہ ہوئے اور علمی و ادبی شخصیات سے ان کی خط کتابت کا سلسلہ بھی شروع ہوا جو بہت اہمیت کے حامل ہیں، یہ نامے اور جوابی مکتوب اردو ادب میں ایک تاریخ اور سند کی حیثیت رکھتے ہیں جن سے اپنے وقت کے بلند قامت اور نام وَر مصنّفین اور ادیبوں‌ کے خیالات اور حالات جاننے کا موقع ملتا ہے۔

    محمد طفیل 14 اگست 1923ء کو لاہور میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے استاد اور نام وَر خطّاط تاج الدین زرّیں رقم سے خوش نویسی کی تربیت حاصل کی۔ 1944ء میں محمد طفیل نے ادارۂ فروغِ اردو کے نام سے ایک طباعتی ادارہ قائم کیا اور 1948ء میں ماہ نامہ نقوش کا اجرا کیا۔ یہ جریدہ لاہور سے شایع ہوتا تھا جس کے اوّلین مدیر احمد ندیم قاسمی تھے جب کہ بعد میں یہ ذمہ داری خود محمد طفیل نے سنبھال لی۔

    ان کی ادارت میں نقوش کا کام یابی سے اشاعت کا سلسلہ جاری رہا اور یہ ہر لحاظ سے معیاری اور معاصر جرائد میں مقبول جریدہ ثابت ہوا۔ اس میں اپنے وقت کے بلند پایہ اور نام وَر شعرا اور نثّار کی تخلیقات شایع ہوتی تھیں اور ملک بھر میں‌ نقوش کے قارئین بڑی تعداد میں‌ موجود تھے۔

    نقوش کے تحت غزل و افسانہ پر خصوصی شماروں کے علاوہ شخصیات نمبر، خطوط نمبر، آپ بیتی، طنز و مزاح نمبر شایع ہوئے جب کہ منٹو، میر، غالب، اقبال، انیس جیسی نابغہ روزگار شخصیات کی تخلیقات اور تذکروں پر مبنی شمارے اور مختلف ادبی موضوعات پر خصوصی اجرا شامل ہیں۔ یہ سلسلہ پاک و ہند میں پسند کیا گیا اور اس کی نظیر اس سے پہلے نہیں‌ ملتی۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ محمد طفیل نے جب غالب نمبر کے لیے مرزا غالب ہی کے ہاتھ کا لکھا ہوا مسودہ اپنے جریدے نقوش کی زینت بنایا تو اردو دنیا میں تہلکہ مچ گیا اور بھارت میں‌ بھی یہ کہا گیا کہ اگر یہ مسودہ بھارت میں دریافت ہوا ہے تو پاکستان کیسے پہنچا اور کیسے پاکستان کے ایک مدیر نے اسے شائع بھی کر دیا۔

    محمد طفیل نے خاکہ نگاری کے متعدد مجموعے صاحب، جناب، آپ، محترم، مکرّم، معظّم، محبّی اور مخدومی کے نام سے شائع کروائے۔ ان کی خود نوشت بعد از مرگ ناچیز کے عنوان سے شایع ہوئی اور رسالہ نقوش نے محمد طفیل نمبر جاری کیا۔ محمد طفیل میانی صاحب کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • شاہ صاحب سے ملاقاتیں

    شاہ صاحب سے ملاقاتیں

    محمد کاظم ایک قد آور علمی و ادبی شخصیت تھے قدیم اور جدید عربی ادب پر گہری نظر رکھنے والے محمد کاظم ایک شاعر، بلند پایہ محقق، نقّاد اور مترجم کی حیثیت سے پہچانے گئے۔

    اردو زبان و ادب، تاریخ و فلسفہ کے شیدا اور باذوق قارئین سیّد علی عباس جلال پوری کے نام سے بھی واقف ہوں گے، جو ایک نادرِ‌ روزگار شخصیت تھے۔ سیّد علی عباس جلال پوری بھی ایک محقّق، مؤرخ اور نقّاد تھے اور فلسفہ کے ماہر اور استاد کے طور پر ممتاز ہوئے۔ محمد کاظم کی یہ تحریر اسی نابغۂ روزگار سے متعلق ہے۔ ملاحظہ کیجیے۔

    "سیّد علی عباس جلال پوری سے میرا غائبانہ تعارف اردو رسالے ”ادبی دنیا“ کے صفحات پر ہوا۔”

    "مولانا صلاح الدّین احمد کی زیرِ ادارت نکلنے والے اس رسالے میں خاصے معیاری علمی مضامین اور ادب شائع ہوتا تھا اور اس کے ٹائٹل پر دی ہوئی عبارت کے مطابق یہ اس وقت ”دنیا کا سب سے ارزاں اور اردو کا سب سے درخشاں“ رسالہ تھا۔ یہ بات بڑی حد تک صحیح تھی، اس لیے کہ تین ساڑھے تین سو صفحات کے اس رسالے کی قیمت صرف ایک روپیہ تھی۔ اس رسالے میں علّامہ اقبال پر، نیز فلسفے اور خرد افروزی کے موضوع پر سید علی عباس کے بیشتر مضامین پڑھ کر میرے ذہن پر ان کے مطالعے کی وسعت اور ان کے علمی تبحّر کا گہرا نقش بیٹھا۔”

    ” ”ادبی دنیا“ ابھی اپنے آخری دور میں تھا کہ ادھر جناب احمد ندیم قاسمی نے اپنا ادبی رسالہ ”فنون“ جاری کیا۔ (رسالے کا اجرا یقیناً کسی ساعتِ سعید میں ہوا ہو گا کہ بہت سے نشیب و فراز اور مالی دشواریوں کے باوجود یہ اللہ کے فضل سے ابھی تک زندہ ہے۔) اب شاہ صاحب ”فنون“ میں لکھنے لگے اور زیادہ عرصہ نہ گزرا کہ ”فنون“ کے دفتر میں ان سے گاہے بگاہے ملاقات بھی رہنے لگی۔ ”

    "میں نے جب ان کو پہلی بار دیکھا تو ان کی شخصیت مجھے ان کے مقالات کی طرح سنجیدہ، رکھ رکھاؤ والی اور گمبھیر لگی۔ وہ عموماً کوٹ پتلون پہنتے اور ٹائی لگاتے اور سَر پر گہرے چاکلیٹی رنگ کی قراقلی ٹوپی رکھتے تھے۔ گندمی رنگت اور موزوں ناک نقشے کے ساتھ وہ جوانی میں خاصے قبول صورت رہے ہوں گے۔ ان کے نقوش میں سب سے نمایاں ان کی غلافی آنکھیں تھیں جو ان کے چہرے کو پُرکشش تو بناتی ہی تھیں، اس کے ساتھ ان کے وقار میں بھی اضافہ کرتی تھیں۔ نکلتے ہوئے قد اور اکہرے تنے ہوئے جسم کے ساتھ وہ تیر کی طرح سیدھا چلتے تھے۔ ان کی آواز میں نئے سکّے کی سی کھنک تھی اور ان کے بات کرنے کے انداز میں ایسا تیقّن اور اعتماد ہوتا تھا کہ ان کے منہ سے نکلی ہوئی کوئی بات بھی ہلکی یا بے مقصد نہیں لگتی تھی۔ وہ اگر روزمرہ کی گپ شپ بھی کر رہے ہوتے تو یوں لگتا جیسے ان کی بات سوچ کے عمل سے گزر کر باہر آئی ہے۔”

    "”فنون“ کا دفتر جب تبدیل ہو کر انار کلی کے اندر بمبئی کلاتھ ہاؤس کے سامنے ایک چوبارے پر آگیا تو یہاں رسالے میں لکھنے والے ادیبوں اور شاعروں کی محفل جمنے لگی۔ یہ پہلے تو کچھ بے قاعدہ رہی، پھر یہ باقاعدگی کے ساتھ ہر جمعہ کے روز ہونے لگی۔ اس روز دفتروں اور کالجوں میں آدھے دن کی چھٹی ہوا کرتی تھی اور ہم سب ”فنون“ کے دفتر میں آجاتے۔”

    "مدیر ”فنون“ کی ایک بڑی سی جہازی میز کے بائیں طرف کرسیوں پر سید علی عباس جلالپوری، رشید ملک، راقمُ الحروف، محمد خالد اختر اور کبھی کبھی پروفیسر شریف کنجاہی بیٹھے ہوتے۔ میز کے سامنے بھی آٹھ دس نشستیں ہوتی تھیں، جن پر شعراء و ادباء کی نئی نسل کے افراد ٹکے رہتے۔ ادیبوں اور شاعروں کی اس محفل میں ہر طرح کے موضوع زیرِ بحث آتے، جدید و قدیم ادب پر اظہارِ خیال ہوتا۔ ”فنون“ میں اور دوسرے رسالوں میں چھپنے والی چیزوں پر رائے زنی ہوتی اور شاہ صاحب کی موجودگی اس بات کی ضمانت ہوتی کہ مجلس میں سنجیدگی کا اعتبار قائم رہے گا۔ اگر کسی متنازع معاملے میں تبادلۂ خیالات کرتے ہوئے حاضرین میں اختلافات کی صورت پیدا ہو جاتی اور بحث میں کچھ گرمی آجاتی تو لوگ شاہ صاحب کی طرف دیکھتے اور وہ اپنی رائے ایسے اِذعان و یقین کے ساتھ دیتے کہ مسئلہ زیرِ بحث پر مزید کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہ رہتی…. سہ پہر کو جب یہ محفل برخاست ہوتی تو نیچے اتر کر شاہ صاحب میری گاڑی میں اگلی نشست سنبھال لیتے اور ہم لوگ ان کو چھوڑنے کرشن نگر سے گزر کر ساندہ جا نکلتے، جہاں ان کا گھر تھا۔ شاہ صاحب کے ساتھ ہفتہ وار ملاقات کا یہ سلسلہ کئی برس تک جاری رہا۔”

    "ہمارے اس ملک میں صحیح معنوں میں کثیرُالمطالعہ لوگ انگلیوں پر گنے جاسکتے ہیں۔ ان میں سے کچھ کو ہم جانتے ہیں اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کا انکشاف ہمیں ان کی تحریریں پڑھ کر ہوتا ہے۔ کوئی شک نہیں کہ سیّد علی عباس جلال پوری ان کثیرُالمطالعہ لوگوں کی اقلیت سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے بہت پڑھا تھا اور جو پڑھا تھا اس کے بارے میں سوچ بچار کیا تھا ور اس کو ہضم کر کے اپنی ذہنی و فکری وجود کا جزو بنایا تھا۔”

  • زندگی کے پُر تموّج سمندر میں ایک تھکا ہارا تیراک

    زندگی کے پُر تموّج سمندر میں ایک تھکا ہارا تیراک

    فنون وہ ادبی مجلّہ تھا جو ممتاز ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی کے زیرِ ادارت پاکستان بھر میں مقبول ہوا اور اس مجلّے کی بدولت کئی تخلیق کار اور اہلِ قلم سامنے آئے۔ اس مجلّے کو شروع ہی سے صف اوّل کے ادیبوں اور شاعروں کا تعاون حاصل رہا اور قاسمی صاحب نے بڑی فراخ دلی سے نئے لکھنے والوں کو بھی اس میں جگہ دی۔

    محمد خالد اختر اردو کے معروف ادیب ہیں‌ جو اپنے ناول چاکیواڑہ میں وصال کی وجہ سے شہرت رکھتے ہیں۔ یہاں ہم احمد ندیم قاسمی سے ان کی رفاقت اور اپنے تخلیقی سفر سے متعلق محمد خالد اختر کی یادوں سے ایک پارہ نقل کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    ’’1962ء میں ایک روح فرسا ملازمت کی بیڑیاں پہنے جن کے لیے میں بالکل نااہل تھا۔ صحّت، امنگ اور ذوقِ زیست میں لٹا ہوا، شدید خود رحمی اور خوف کا شکار، زندگی کے پُر تموج سمندر میں ایک تھکا ہارا تیراک، میں لاہور آیا۔

    ندیم سے ملاقاتیں ہونے لگیں، گو آغازِ دوستی کا وہ پہلا والہانہ شعلہ پھر نہ جلا۔ ندیم اپنی معاش کی کٹھن آزمائشوں کے باوجود میرے بارے میں حقیقتاً مُشَوَّش تھا۔ وہ ہر ممکن طور پر میرے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتا۔ وہ میری حالت پر افسوس کرتا اور رحم کا اظہار کرتا۔ کوئی آدمی کتنا ہی تباہ و برباد ہو، رحم کھایا جانا پسند نہیں کرتا اور اپنے اس ہمدرد، حوصلہ مند اور خلیق دوست کا میرے لیے تردّد مجھے بعض اوقات ناگوار گزرتا۔ ایسا رحم، میں سمجھتا ہوں، ایک طرح کی بے رحمی ہے۔

    یہاں میرے بھارت بلڈنگ کے دفتر میں ایک دن ندیم میرے پاس آیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس نے ایک ادبی مجلّہ ”فنون“ نکالنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کا ڈیکلریشن لے لیا گیا ہے۔ دفتر کے کمرے کا بندوبست بھی ہو گیا ہے اور اس کا پہلا نمبر دو مہینے کے اندر اندر اشاعت پذیر ہو جائے گا۔ اس نے مجھ سے ”فنون“ کے لیے کچھ لکھنے کی فرمائش کی۔ میں کچھ سوچ میں پڑ گیا۔ پچھلے پانچ چھے سال اپنی گھونٹ دینے والی مایوسی میں، میں نے اردو کی ایک سطر نہیں لکھی تھی۔ خط تک نہیں۔ اپنے فیک (fake) ہونے کو جانتے ہوئے میں نے مصنّف بننے کی خواہش کسی افسوس کے بغیر ترک کر دی تھی، لیکن اتنے اچھے ہمدم سے میں کیونکر انکار کرتا، جب کہ یہ اس کی دلی خواہش تھی کہ میں ”فنون“ کے لیے لکھوں۔

    میں نے اس سے کچھ لکھنے کا وعدہ کرلیا۔ اس وقت سے میں باقاعدگی سے ”فنون“ میں لکھتا رہا ہوں۔ تبصرے، مزاحیہ مضمون، کہانیاں، اور اس مجلّے کے چند ہی شمارے ایسے ہوں گے جن میں میرا نام نہ چھپا ہو۔ ندیم نے ہمیشہ اپنی تعریف سے میری ہمّت بندھائی اور جو چیز بھی میں نے ”فنون“ کے لیے بھجوائی، اس میں شائع ہوئی۔ ان تبصروں اور مضامین کو کوئی دوسرا ایڈیٹر آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا، وہ ایک مربیانہ انداز اختیار کرتا اور زبان و بیان کی خامیوں کی طرف میری توجہ دلاتے ہوئے انہیں لوٹا دیتا۔ ”فنون“ میں میں جو چاہتا تھا لکھتا تھا۔ میرے بعض تبصرے ندیم کو اچھے اور متوازن نہیں لگے ہوں گے۔ تاہم وہ کسی قطع و برید اور ایک لفظ کے حذف کے بغیر چھپے۔ اس طرح میرے ادبی کیریئر کا پھر سے آغاز ہوا۔ میں اپنے فیک ہونے کی دل شکستگی کو بھول گیا۔ اپنے نام کو چھپا ہوا دیکھنے کی مسرّت کافی تھی۔

    میری صحت اسی طرح خراب تھی، میرے معدے کا نظامِ ہضم درست نہ ہوا۔ مگر ندیم کے ”فنون“ نے مجھے منزل بہ منزل گرنے اور اپنے فطری ملکے (instinct) کی مکمل معدومی سے بچا لیا۔‘‘

  • ایک اُسترے کی کہانی

    ایک اُسترے کی کہانی

    اگر میں چاہوں تو اس کہانی کو ایک ہزار سال پہلے سے شروع کر دوں۔ چاہوں تو آج سے۔ اس لیے کہ یہ کہانی ہر زمانے میں سچّی ہے۔ میں نے یہ کہانی اپنی نانی سے سنی تھی جنہوں نے اپنی نانی جان سے سنی ہو گی اور انہوں نے اپنی نانی جان سے۔

    یہ اتنی پرانی کہانی اتنی نئی کیوں ہے؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں ایک سچائی بیان کی گئی ہے اور سچائی پرانی ہوتی ہے نہ نئی۔ سچائی صرف سچائی ہوتی ہے۔

    وہ لوگ جو محنت نہیں کرتے، جو ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، جنھیں لمبی تان کر لیٹنے اور دیر تک لیٹے رہنے میں لطف آتا ہے، اس اُسترے کی طرح ہیں جس کی یہ کہانی ہے۔

    یہ استرا ایک گاؤں کے نائی کا تھا۔ وہ اس چمکتے ہوئے تیز استرے سے کسانوں کی حجامت بناتا تھا۔ کسانوں کے چہرے پر نہ کریمیں لگتی ہیں اور نہ لوشن۔ اس لیے ان کے بال موٹے موٹے اور سخت ہوتے ہیں۔ گاؤں کے نائی حجامت بنانے سے پہلے بالوں پر نہ صابن ملتے ہیں نہ برش چلاتے ہیں۔ وہ تو چٹکیوں کو پانی سے بھگو کر لوگوں کے چہروں کی چٹکیاں لیتے ہیں جن کی انہیں حجامت بنانی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس استرے کو دِن بھر بہت محنت کرنا پڑتی تھی۔ اس کی دھار کو لوہے کے تار ایسے بالوں میں سے گزرنا پڑتا تھا اور وہ تھک جاتی تھی۔ مگر نائی بڑا سیانا اور بہت نرم دل تھا۔ وہ ایک پتھر یا لکڑی کے ایک ٹکڑے کو پانی سے بھگو کر اُسترے کو دائیں بائیں تھپکیاں دیتا تھا۔ یوں استرے کی چمک بھی اٹھتی تھی اور تازہ دم بھی ہو جاتی تھی۔ پھر جب نائی دن بھر کا کام ختم کر لیتا تھا تو اُسترے کو بند کر دیتا تھا۔ استرا اپنے دستے کے بستر پر سو جاتا تھا اور رات بھر کے آرام کے بعد صبح کو پھر محنت مزدوری شروع کر دیتا تھا۔

    ایک دن گاؤں کا یہ نائی اپنی کسوت لیے کہیں جا رہا تھا۔ کسوت پھٹی ہوئی تھی۔ اُسترے نے جو باہر کھسکنے کا راستہ دیکھا تو اپنے دستے سے الگ ہونے کے لیے خوب زور لگایا۔ آخر وہ اپنی کوشش میں کام یاب ہو گیا۔ دستہ کسوت میں رہ گیا اور استرے کا پھل نرم نرم گھاس پر آ گرا۔

    نائی بے چارے کو کیا پتا تھا کہ اس کا پیارا استرا اس سے بے وفائی کر گیا ہے۔ وہ اپنی راہ چلتا رہا۔ ایک جگہ اسے ایک کسان کی حجامت بنانا تھی۔ اس نے کسوت کو کھول کر استرا نکالنا چاہا تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ دستہ پڑا ہے اور اُسترا غائب ہے۔ اس کا کُل سرمایہ یہی ایک استرا تھا۔ وہ دن بھر اس راستے پر بھٹکتا رہا جہاں سے گزرا تھا۔ ایک بار اس کا پاؤں بھاگتے ہوئے استرے کے بالکل پاس پڑا۔ ڈر کے مارے استرے کی جان ہی تو نکل گئی۔ مگر پھر نائی آگے بڑھ گیا اور استرا دھوپ میں ہنسنے لگا۔
    خوب ہنس لینے کے بعد اُسترے نے اپنے جسم کو دیکھا تو یہ معلوم کر کے اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی کہ اس کے انگ انگ سے کرنیں پھوٹ رہی ہیں۔ سورج آسمان پر چمک رہا تھا اور اُسترے کی چمکتی دمکتی سطح پر اس کا عکس پڑ رہا تھا۔ اپنی دھار دیکھ کر تو استرے کو ایسا لگا جیسے تارا ٹوٹ رہا ہے۔ اپنے جسم پر جہاں بھی اس کی نظر پڑتی تھی کئی سورج جگمگاتے ہوئے دکھائی دیتے تھے۔

    اس نے سوچا۔ ’’ارے! میں تو بڑا ہی خوب صورت ہوں کہ مجھے دیکھ کر خود سورج کی آنکھیں چندھیا رہی ہوں گی۔ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ نائی کی قید سے بھاگ آیا ہوں۔ وہاں مجھے اتنی محنت کرنی پڑتی تھی کہ دانتوں پسینا آ جاتا تھا۔ مجھے اتنا وقت ہی نہیں ملتا تھا کہ میں اپنے آپ کو دیکھ سکوں۔ یہاں میں کتنے آرام میں ہوں۔ نہ کام ہے نہ کاج۔ مزے سے لمبا لمبا لیٹا ہوا ہوں۔ سورج میرے جسم میں اپنی صورت دیکھ رہا ہے۔ ہوا میری سطح پر کھیل رہی ہے۔ آس پاس کی گھاس جھک جھک کر مجھ میں جھانکتی ہے۔ ابھی ابھی کتنی پیاری سی تتلی مجھے آئینہ سمجھ کر پَر سنوارتی رہی۔ کوئی اُٹھانے والا نہ بند کرنے والا۔ میری تو دُعا ہے کہ قیامت تک یہیں پڑا رہوں۔ آرام ملا تو خوب موٹا تازہ ہو جاؤں گا اور بڑے مزے آئیں گے۔

    یہ کہنے کے بعد اُسترے نے سوچا کہ اگر میں یہاں پڑا رہا تو ہو سکتا ہے کبھی کوئی آدمی میری چمک دمک کو دیکھ لے، مجھے اٹھا کر گھر لے جائے اور وہاں مجھے قید کر دے۔ اس لیے وہ وہاں سے کھسکا۔ ایک بِل میں گھس گیا اور برسوں کی تھکن دور کرنے کے لیے سو گیا۔

    استرا چھے سات مہینے تک سوتا رہا۔ بارشیں ہوئیں۔ پانی اس کے بل میں گھس آیا مگر جب بھی اس کی آنکھ نہ کھلی۔ کئی کیڑے مکوڑے اس پر سے گزرے مگر اسے کھجلی تک محسوس نہ ہوئی۔ اس نے کروٹ تک نہ بدلی۔ جس رُخ سویا تھا اسی رُخ اٹھا۔ سوچا، چلو ذرا سی ہوا خوری کر لیں۔ آ کر پھر سو رہیں گے۔ آخر ہمیں اور کون سا کام کرنا ہے!

    وہ بل میں سے کودا اور باہر آ گیا۔ سورج اسی طرح چمک رہا تھا۔ ہوا اسی طرح چل رہی تھی۔ گھاس کی پتّیاں اسی طرح ہل رہی تھیں۔ اُسترے نے مسکرانے کی کوشش کی مگر اس کے ہونٹ جڑ گئے تھے۔ اس نے گھبرا کر اپنے جسم پر نظر دوڑائی تو وہاں اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔ سَر سے لے کر پاؤں تک اس پر زنگ چڑھ چکا تھا۔ سورج کی کرنیں اس سے دور رہتیں۔ اُس کی تمام چمک ماند پڑ چُکی تھی۔

    اس نے سوچا کہ گھاس مجھ سے ڈر ڈر کر دوسری طرف دیکھنے لگتی ہے۔ سورج کی کرن مجھے چھوتے ہی بھاگ کھڑی ہوتی ہے۔ کاش! میرا نائی ایک بار ادھر سے گزرے اور میں اچھل کر اس کی کسوت میں جا بیٹھوں اور خوب محنت کروں اور میری چمک دمک مجھے واپس مل جائے، لیکن ایسا نہ ہوا اور وہ استرا وہیں پڑا گلتا سڑتا رہا۔

    وہ لوگ جو محنت نہیں کرتے، جو ہاتھ پاؤں ہلائے بغیر زندگی گزارنا چاہتے ہیں، جنھیں لمبی تان کر لیٹنے اور دیر تک لیٹے رہنے میں لطف آتا ہے، ان کا انجام ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی لیے تو کہتے ہیں؛ محنت میں عظمت ہے۔

    (اس نصیحت آموز کہانی کے مصنّف اردو کے ممتاز ادیب، صحافی، شاعر اور افسانہ نگار احمد ندیم قاسمی ہیں)

  • ایک ہزار روپیہ

    ایک ہزار روپیہ

    ’’حضرت احسان دانش کون تھے؟ کیا تھے؟ نئی نسل کو یہ بتانے، جتانے کے لیے ’دوڑ پیچھے کی طرف اے گردشِ ایام تُو‘ کہنا پڑ رہا ہے۔ احسان دانش شاعر تھے، ادیب تھے، محقق تھے، نقاد تھے، لُغت نویس تھے، ماہرِ لسانیات تھے، صاحبِ فن تھے۔ وہ استادوں کے استاد تھے۔

    یہ سطور ناصر زیدی کے سوانحی کالم سے لی گئی ہیں، وہ مزید لکھتے ہیں، ’’احسان دانشؔ ادب کی دنیا میں، اس مقام بلند پر پہنچے جس کی ہر شاعر حسرت، تمنّا ، خواہش ہی کرسکتا ہے۔‘‘

    احسان دانش برصغیر پاک و ہند کے مایۂ ناز، کہنہ مشق، پُر گو، صاحبِ فن شاعر تھے، اس عظیم مرتبے اور آفاقی شہرت کے حامل شاعر کو بے پناہ مقبولیت اور پذیرائی بیٹھے بٹھائے حاصل نہیں ہوئی۔ اس کے لیے انہوں نے بڑی جدوجہد کی، بڑے پاپڑ بیلے، اس مقامِ عظمت تک پہنچنے کی مختصر روداد انہوں نے یوں بیان کی:

    ’’میں تو صرف محبت کا بندہ ہوں اور خلوص کو انسانیت کا زیور گردانتا ہوں، یہی میری کام یابی کا راز ہے۔ میں نہیں جانتا کہ میں کام یاب ہوں بھی یا نہیں یہ فیصلہ بہرحال قارئین کے کرنے کا ہے۔ بحمدِاللہ نہ تو مَیں کہیں ملازم ہوں نہ مجھے کوئی سرکاری وظیفہ ملتا ہے۔ نہ کوئی خطاب، نہ سند اور نہ کوئی ایسی جائیداد جو میرے کنبے کی کفالت کر سکے، لیکن وہ ذاتِ پاک جو ہر شے کو اس کی مختلف حالتوں میں ضرورتوں کے مطابق نشوونما دے کر اسے اپنے حدِ کمال تک پہنچاتی ہے، وہی میری نگہبان ہے۔ میرا قلم میری کفالت کررہا ہے۔ ہر چند کہ مَیں افلاس کے اونچے نیچے ٹیلوں میں بھٹک رہا ہوں لیکن مایوسی کا سایہ تک مجھ پر نہیں پڑتا شاید اس لیے کہ میں نے مشکل سے مشکل وقت میں بھی اپنی صداقت کو داغ دار نہیں کیا اور میری پوری زندگی قرض کی ندامت سے پاک ہے۔ حافظے میں فاقوں کے بے شمار نشان دھندلی دھندلی صورت میں موجود ہیں جو مجھ سے شکر گزاری کا تقاضا کرتے ہیں۔‘‘

    احسان دانش کی اسی بے لوث محبّت، ان کے اخلاص اور درد مندی کو اردو کے ممتاز ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے بھی رقم کیا ہے جو ناصر زیدی کی پیشِ نظر تحریر کو تقویت بخشتا ہے۔ قاسمی صاحب لکھتے ہیں:

    ’’یہ 1949ء کا ذکر ہے جب میرے ایک عم زاد محمد حیات، دق کے مرض میں مبتلا ہو کر لاہور تشریف لائے۔ نہایت پیارے اور خوب صورت انسان تھے۔ میں نے جی بھر کر ان کی خدمت کی مگر آخر وہ جاں بَر نہ ہو سکے اور میری ہی قیام گاہ (نسبت روڈ) پر ان کا انتقال ہو گیا۔‘‘

    ’’میں جب ان کی میّت کو اپنے گاؤں انگہ (ضلع خوشاب) میں دفنا کر لاہور واپس آیا تو ایک ڈاکٹر نے میری چھاتی کی اسکریننگ کرتے ہوئے کہا کہ تمہارے پھیپھڑوں پر ایک دو داغ سے دکھائی دے رہے ہیں۔ یہ شاید دِق کے ایک مریض کے ساتھ شب و روز گزارنے کا نتیجہ ہے۔ اس کا واحد علاج یہ ہے کہ تم فوراً مری یا ایبٹ آباد یا کوئٹہ چلے جاؤ، وہاں دو تین ماہ کے قیام کے بعد یہ داغ مٹ جائیں گے۔ بہ صورتِ دیگر یہ داغ دِق میں بھی بدل سکتے ہیں۔‘‘

    ’’میں اُن دنوں بالکل بیکار تھا۔ اپنے افسانوں کا ایک مجموعہ مکتبۂ اُردو کے مالک کے حوالے کر رکھا تھا اور اس کی طرف سے معاوضے کا منتظر تھا ورنہ میرے لیے کسی صحت افزا مقام کا رُخ کرنا مشکل تھا۔‘‘

    ’’نجانے میری اس دشواری کی اطلاع احسان صاحب تک کیسے پہنچی۔ ایک صبح کو میرے گھر کی گھنٹی بجی۔ کھڑکی میں سے جھانکا تو گلی میں حضرت احسان دانش کھڑے نظر آئے۔ میں نے جلدی سے دروازہ کھولا اور احسان صاحب سے اندر آنے کو کہا مگر انہوں نے فرمایا، ’نہیں ندیم! یہیں گلی میں میری بات سن لو۔ مجھے معلوم ہوا ہے کہ ڈاکٹر نے تمہیں مری یا کوئٹہ جانے کا مشورہ دیا ہے مگر تمہاری جیب خالی ہے۔ میرے پاس اس وقت ایک ہزار روپیہ ہے۔ یہ لو اور فوراً کسی صحّت افزا مقام پر چلے جاؤ اور یاد رکھو، تمہارا وجود نہایت قیمتی ہے۔‘…..“

    ’’میں احسان صاحب کی اس پیش کش پر حیران رہ گیا۔ میں ان کا عقیدت مند ضرور تھا مگر ہمارے درمیان ابھی محبت کا وہ رشتہ قائم نہیں ہوا تھا جس کے نتیجے میں ایک غریب شاعر اس والہیت سے دوسرے غریب شاعر کی مدد کو پہنچتا۔ میں نے احسان صاحب کو بتایا کہ مکتبۂ اردو میرے افسانوں کا مجموعہ شائع کر رہا ہے اور آج کل میں مجھے اس مجموعے کا معاوضہ ملنے والا ہے۔ اگر نہ ملا تو میں خود آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے یہ ایک ہزار روپیہ وصول کر لوں گا۔ تب احسان صاحب نے فرمایا، ”دیکھو ندیم! اگر تمہیں اپنی کتاب کا معاوضہ ملتا ہے تو ٹھیک ہے۔ میں پرسوں تک انتظار کروں گا۔ اس کے بعد تمہیں یہ رقم لینا ہی ہو گی۔“ میں نے احسان صاحب کی تائید کی۔‘‘

    ’’دوسرے روز مجھے معاوضہ مل گیا تو میں احسان صاحب کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہیں معاوضے کی رقم دکھائی تو ان کی تسلّی ہوئی اور مجھے سینے سے لگا کر اور میرے ماتھے کو چوم کر مجھے رخصت کیا۔ میں اس محبت کے نشے میں چُور یہ سوچتا ہوا واپس آیا کہ احسان نے بے لوث پیار کی کتنی بلیغ مثال قائم کر دی ہے!‘‘

  • حکیم صاحب کا مطب اور ماہ نامے کا دفتر

    حکیم صاحب کا مطب اور ماہ نامے کا دفتر

    ماہ نامہ فنون کا دفتر اب تو خیر انار کلی ہی میں اور جگہ چلا گیا ہے۔ پہلے گرجا کے سامنے ایک چوبارے میں تھا۔

    اسی میں حکیم حبیب اشعر صاحب مطب بھی کیا کرتے تھے۔ سامنے کے برآمدے میں احمد ندیم قاسمی صاحب تشریف رکھتے اور اہلِ ذوق کا مجمع چائے کے خم لنڈھاتا۔ دوسرے میں حکیم صاحب قارورے دیکھتے اور دوائیں دیتے۔ راستہ بہر صورت ندیم صاحب ہی کے کمرے میں سے جاتا تھا۔ لوگ پہلے آکر انہی کے پاس بیٹھتے۔ وقفے وقفے سے ندیم صاحب اعلان کر دیتے کہ جو حضرات کھانسی زکام وغیرہ کے سلسلے میں آئے ہیں دوسرے کمرے میں‌ تشریف لے جائیں۔ ان کے پاس فقط ادب کے مریض رہ جاتے۔

    ایک روز کی بات ہے کہ بہت سے لوگ تو یہ اعلان سن کر اندر چلے گئے۔ ایک صاحب اجنبی صورت بیٹھے رہ گئے۔ قاسمی صاحب نے فرمایا، آپ شاید کوئی غزل یا نظم لے کر آئے ہیں۔ اس پرچے میں تو گنجائش نہیں، اگلے پرچے کے لیے غور کریں گے۔ اگر آپ کاتب ہیں تو نمونہ چھوڑ جائیے اور اگر ایجنٹ ہیں تو بتائیے آپ کے شہر میں کتنے فنون کی کھپت ہوسکتی ہے اور اگر آپ مالک مکان کی طرف سے کرایہ وصول کرنے آئے ہیں تو ایک مہینے کی مہلت اور دیجیے۔

    قاسمی صاحب نے اپنی دانست میں اس شخص کی منطقی ناقہ بندی کردی تھی۔ لیکن وہ مردِ شریف سنی ان سنی کر کے ان کے کان کے پاس منہ لا کر بولا، حکیم صاحب دو روز سے دست آرہے ہیں۔ ان کے بند کرنے کی کوئی ترکیب کیجیے۔

    اُدھر حکیم اشعر صاحب کو شکایت ہے کہ ندیم صاحب اپنے مریضوں کو میرے پاس بھیج دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں کہ ایک روز ایک بزرگ میرے پاس تشریف لائے۔ میں نے ان کی نبض پر ہاتھ رکھا اور کہا زبان دکھائیے۔ اس نے کہا جناب میری زبان پر آپ حرف نہیں رکھ سکتے’ میرے گھرانے کی زبان سے ایک دنیا سند لیتی ہے۔ یہ غزل میں لایا ہوں، آپ خود ہی اندازہ کر لیں گے۔

    حکیم صاحب نے کہا، غزل کی تو مجھے معلوم نہیں لیکن آپ کو قبض معلوم ہوتی ہے۔ یہ نسخہ لے جائیے۔ نہار منہ طباشیر کے ساتھ استعمال کیجیے۔ انشاء اللہ صحّت ہوگی۔ حکیم صاحب کا کہنا ہے کہ شفا اللہ کے ہاتھ میں ہے، لیکن اس مریض کو واقع ہی صحّت ہوگئی۔ اس کے بعد اس نے کوئی غزل نہیں لکھی۔

    ("آپ سے کیا پردہ” از ابنِ انشا)

  • ایک تھکا ہارا تیراک جو لاہور آیا

    ایک تھکا ہارا تیراک جو لاہور آیا

    ’’1962ء میں ایک روح فرسا ملازمت کی بیڑیاں پہنے جن کے لیے میں بالکل نا اہل تھا، صحّت، امنگ اور ذوقِ زیست میں لٹا ہوا، شدید خود رحمی اور خوف کا شکار، زندگی کے پُر تموّج سمندر میں ایک تھکا ہارا تیراک، مَیں لاہور آیا۔

    ندیم (احمد ندیم قاسمی) سے ملاقاتیں ہونے لگیں، گو آغازِ دوستی کا وہ پہلا والہانہ شعلہ پھر نہ جلا۔ ندیم اپنی معاش کی کٹھن آزمائشوں کے باوجود میرے بارے میں حقیقتاً مُشَوَّش تھا۔ وہ ہر ممکن طور پر میرے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش کرتا۔ وہ میری حالت پر افسوس کرتا اور رحم کا اظہار کرتا۔

    کوئی آدمی کتنا ہی تباہ و برباد ہو، رحم کھایا جانا پسند نہیں کرتا اور اپنے اس ہمدرد، حوصلہ مند اور خلیق دوست کا میرے لیے تردّد مجھے بعض اوقات ناگوار گزرتا۔ ایسا رحم، میں سمجھتا ہوں، ایک طرح کی بے رحمی ہے۔

    یہاں میرے بھارت بلڈنگ کے دفتر میں ایک دن ندیم میرے پاس آیا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس نے ایک ادبی مجلّہ ”فنون“ نکالنے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ اس کا ڈیکلریشن لے لیا گیا ہے۔ دفتر کے کمرے کا بندوبست بھی ہو گیا ہے اور اس کا پہلا نمبر دو مہینے کے اندر اندر اشاعت پذیر ہو جائے گا۔ اس نے مجھ سے ”فنون“ کے لیے کچھ لکھنے کی فرمائش کی۔

    میں کچھ سوچ میں پڑ گیا۔ پچھلے پانچ چھے سال اپنی گھونٹ دینے والی مایوسی میں، مَیں نے اردو کی ایک سطر نہیں لکھی تھی۔ خط تک نہیں۔ اپنے فیک (fake) ہونے کو جانتے ہوئے میں نے مصنف بننے کی خواہش کسی افسوس کے بغیر ترک کردی تھی لیکن اتنے اچھے ہمدم سے میں کیونکر انکار کرتا، جب یہ اس کی دلی خواہش تھی کہ میں ”فنون“ کے لیے لکھوں۔ میں نے اس سے کچھ لکھنے کا وعدہ کر لیا۔ اس وقت سے میں باقاعدگی سے ”فنون“ میں لکھتا رہا ہوں۔ تبصرے، مزاحیہ مضمون، کہانیاں، اور اس مجلّے کے چند ہی شمارے ایسے ہوں گے جن میں میرا نام نہ چھپا ہو۔

    ندیم نے ہمیشہ اپنی تعریف سے میری ہمت بندھائی اور جو چیز بھی میں نے ”فنون“ کے لیے بھجوائی، اس میں شائع ہوئی۔ ان تبصروں اور مضامین کو کوئی دوسرا ایڈیٹر آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھتا، وہ ایک مربیانہ انداز اختیار کرتا اور زبان و بیان کی خامیوں کی طرف میری توجہ دلاتے ہوئے انہیں لوٹا دیتا۔

    ”فنون“ میں، میں جو چاہتا تھا لکھتا تھا۔ میرے بعض تبصرے ندیم کو اچھے اور متوازن نہیں لگے ہوں گے۔ تاہم وہ کسی قطع و برید اور ایک لفظ کے حذف کے بغیر چھپے۔ اس سے مجھے خیال ہوتا ہے کہ وہ اتنا پروڈ نہیں۔ اس طرح میرے ادبی کیریئر کا پھر سے آغاز ہوا۔ میں اپنے فیک ہونے کی دل شکستگی کو بھول گیا۔ اپنے نام کو چھپا ہوا دیکھنے کی مسرت کافی تھی۔

    میری صحت اسی طرح خراب تھی، میرے معدے کا نظامِ ہضم درست نہ ہوا۔ مگر ندیم کے ”فنون“ نے مجھے منزل بہ منزل گرنے اور اپنے فطری ملکے (instinct) کی مکمل معدومی سے بچا لیا۔‘‘

    (اردو کے نام وَر افسانہ و ناول نگار محمد خالد اختر کی تحریر سے انتخاب)