Tag: احمد ندیم قاسمی

  • قاسمی صاحب کی کھڑاویں

    قاسمی صاحب کی کھڑاویں

    شہر لاہور کی خوبیوں اور خوب صورتی میں اردو کے دو بڑے ادیبوں کے دو ڈیرے بھی شامل رہے ہیں۔ ایک داستان سرائے ماڈل ٹاؤن میں جناب اشفاق احمد کا گھر اور دوسرا کلب روڈ پر مجلسِ ترقّیِ ادب میں جناب احمد ندیم قاسمی کا دفتر۔

    اشفاق صاحب کے ہاں ان کی کتابوں، سوچ اور ذات سے محبت کرنے والوں کا اکٹھ ہوتا، ادبی، علمی اور روحانی مسائل پہ محفل جمتی اور آنے والے عقیدت اور محبّت کی سرشاری لے کر لوٹتے۔

    اس عہد کے بڑے ادیب اور شاعر وہاں جمنے والی محفلوں، کھانوں، مکالموں میں موجود ہوتے۔ اکثر ان کو ان کی گفتگو کے ترازو میں تولتے، ان کا ادبی کام اور قد کاٹھ کہیں پیچھے ڈال دیتے، کئی تو موقع دیکھ کر ان کے بعض خیالات کی بے وجہ تردید کرنے لگتے۔

    یہ ڈیرہ اردو سائنس بورڈ میں بھی برسوں رہا، جمعرات کا لنگر بھی اس کا حصہ ہوتا جو بانو آپا کی نگرانی میں تیار ہوتا۔ اس سوچ کے گھنے سایے میں جوان ہونے والے بہر حال اسے کسی ادارے کی شکل نہ دے سکے اور اشفاق احمد کی پہچان ادیب سے زیادہ زاویے والے بابا جی کی بن کے رہ گئی۔

    1974ء میں مجلس ترقی ادب کے ڈائریکٹر بننے کے بعد احمد ندیم قاسمی کا ڈیرہ یوں آباد ہوا کہ 2006ء تک جب 10 جولائی کو وہ رخصت ہوئے اس ڈیرے کی رونق کم نہیں ہوئی۔ فنون کی ادارت لکھنے والوں کی مسلسل تربیت کی صورت ایک تنظیم میں ڈھلتی گئی۔

    آج 2013ء میں شاید کسی فرد کی شخصی محبت سے اوپر اٹھ کر جائزہ لینا اور انھیں یاد کرنا نسبتاً زیادہ آسان ہوگیا ہے کہ ادبی آسمان پر چھائی بدلیوں میں احمد ندیم قاسمی کا عکس ہے، یا ان کے نام پر برسنے والی بدلیاں بہت ہیں۔ یہ خوش نصیبی سب کے ہاتھ میں نہیں آتی۔

    بچپن میں ہی والد کی وفات کے صدمے نے بقول ان کے ’’بوڑھا‘‘ کر دیا تھا۔ اس صدمے نے انھیں آنے والی زندگی میں پختگی اور ذمہ داری عطا کر دی۔ 70 سال کے طویل ادبی کیریئر میں کم سے کم تین نسلوں کے شعرا اور ادیبوں نے ان سے فیض پایا۔

    یہ ان کی کمال خوبی تھی کہ نئے لکھنے والوں کو ظرف اور کمال شفقت سے اپنا لیتے، ان کو خط لکھتے، ملنے کے لیے آتے تو خوش دلی سے وقت دیتے، باتیں کرتے، لطیفے سناتے، اصلاح کرتے۔

    وہ کبھی بھی مصلح نہیں تھے بلکہ ایک عمدہ شاعر اور افسانہ نگار کے طور پر ان کی پہچان مسلَّم ہے۔ اس سے پہلے ان کا تعارف ایک فکاہیہ کالم نگار کا تھا، ہم تک آتے آتے وہ شاعروں کے پیش امام اور بڑے افسانہ نگاروں کے سرخیل بن چکے تھے۔

    البتہ کالم نگاری نے ان کا بہت قیمتی اور تخلیقی وقت لے لیا۔ میں نے دو ادیبوں کا قابلِ رشک بڑھاپا دیکھا۔ ’’اشفاق صاحب کا اور احمد ندیم قاسمی کا۔‘‘ قاسمی صاحب کی بیٹھی بیٹھی گھمبیر آواز کی مٹھاس آخر تک قائم رہی۔

    پاکستان میں شاید ہی کسی بوڑھے آدمی کی اتنی محبت اور شان سے سالگرہ منائی جاتی رہی ہو، بے شک سالگرہ کی یہ سالانہ تقریب ایک طرح کی لاہور کی مستقل ادبی روایت کا روپ دھار گئی تھی۔

    نوجوان، بزرگ، نئے، پرانے، کافی پرانے، ادبی، غیر ادبی ہر طرح اور ہر سطح کے لوگ ان سالگرہوں میں آتے اور قاسمی صاحب بار بار اپنی سیٹ سے اٹھ کر مہمانوں سے گلدستے اور خوبصورت تحفے وصول کرتے، میز پھولوں سے’’لبالب‘‘ بھر جاتے تو منصورہ احمد کچھ گلدستے پرے کر دیتیں۔

    میں نے ان مواقع پر جناب اشفاق احمد، عطاءُ الحق قاسمی، امجد اسلام امجد، اصغر ندیم سید، ڈاکٹر یونس جاوید سمیت آج کے ہر اہم اور مشہور شاعر اور ادیب کو وہاں شریک ہوتے اور اظہارِ خیال کرتے دیکھا۔

    جناب اشفاق احمد اور عطاءُ الحق قاسمی کی بعض گفتگوئیں جنھوں نے سماں باندھا مجھے آج بھی یاد ہیں۔ دل میں ممکن ہے سب کے ہو کہ کبھی ان کی بھی اسی طرح دھوم دھام سے سالگرہ منائی جائے مگر ایسے کام خواہشوں سے نہیں ان لوگوں کی محبت سے ہوتے ہیں جنھوں نے آپ سے فیض پایا ہو۔ آپ سے جُڑے رہے ہوں۔

    میرے ان سے تعارف اور تعلق میں کئی چھوٹی چھوٹی یادیں شامل ہیں۔ مارچ 1981ء ابوظہبی میں جشن قاسمی منایا گیا تو انہی دنوں بہاولپور میں صادق ایجرٹن کالج کے سو سال مکمل ہونے پر ہونے والے جشن کی کاغذی کارروائیاں زوروں پر تھیں۔

    مہمانوں کے بڑے بڑے ناموں میں احمد ندیم قاسمی صاحب کا نام بار بار آتا کہ وہ اس کالج کے گلِ سر سبد تھے۔ کالج کی اسٹوڈنٹس یونین میں ہونے کے باعث ایسی محفلوں میں شرکت کا موقع ملتا تو ان کو دیکھنے اور ملنے کا اشتیاق اور بھی گہرا ہوا۔

    اب اسے اتفاق ہی جانیے کہ لاہور آکر پنجاب یونیورسٹی میں پڑھنے کے دوران کوئی وقت ہی نہ بن پایا۔ فیروز سنز میں ایڈیٹر مطبوعات مقرر ہونے کے بعد لاہور اور بیرونِ لاہور ادیبوں اور شاعروں سے ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا تو ان سے پہلی ملاقات ہوئی۔ پھول کے علاوہ وہ تہذیبِ نسواں، ادبِ لطیف سویرا، امروز، نقوش اور فنون کے مدیر رہے۔

    یہاں حسنِ اتفاق سے مجھے ان کے نقوشِ پا پہ چلتے ہوئے دورِ نو کے پھول کی ادارت کا 13 سال اعزاز ملا۔ اب کے ان تفصیلی انٹرویو کا موقع ملا جو پھول کی زینت بنا، کئی دفعہ وہ نہ ملتے تو ڈاکٹر یونس جاوید بہت عمدہ میزبانی کرتے۔

    جناب انور سدید نے عربی کتاب ’’بہانے باز‘‘ کا دیباچہ لکھتے ہوئے جو جملے لکھے وہ جناب احمد ندیم قاسمی کے کام اور اس کی گہرائی کا بہت عمدہ اعتراف ہے، انھوں نے ’’لکھا جب جب اختر عباس کا ذکر آئے گا مجھے احمد ندیم قاسمی یاد آتے ہیں۔ قاسمی صاحب جب اختر عباس کی عمر کے تھے توہ وہ دارُالاشاعت لاہور سے مولوی ممتاز علی کی نگرانی میں رسالہ پھول نکالتے تھے جسے میری عمر کے بچّے اسکول کی لائبریری میں پڑھتے تھے۔

    بعد میں قاسمی صاحب بڑے ہوگئے جیسے ہر بچّہ بڑا ہوجاتا ہے مگر جس طرح انھوں نے صحافت سے ابتدا کی اور صحافت کے ساتھ عمر بھر کا سنجوگ قائم رکھا اسی طرح اختر عباس نے بھی ادب کا آغاز صحافت سے کیا ہے اور آہستہ آہستہ اسی سنجوگ کو پختہ اور مائل بہ ارتقا کر رہے ہیں۔ وہ خوش قسمت ہیں کہ انھوں نے پاؤں اس ’کھڑاواں‘ میں ڈالے ہیں جو کبھی قاسمی صاحب نے پہنی تھی۔

    پھر انھوں نے ایک دل چسپ اور انوکھی بات لکھی’’توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اس سفر میں مختلف فلیگ اسٹاپ‘‘ عبور کر کے مرکزِ ادب ہی نہیں، مرکزِ نگاہ بھی بن جائیں گے۔ اس وقت زندہ رہا تو اختر عباس کا ایک طویل خاکہ لکھوں گا اور اگر عقبیٰ کو چلا گیا تو وہاں سے کسی فرشتے کے ہاتھ اختر عباس کے پرچے میں اشاعت کے لیے بھجواؤں گا۔ مجھے خوشی ہے، پھول کے پہلے دور نے اردو ادب کو احمد ندیم قاسمی جیسا افسانہ نگار دیا اور دوسرے دور سے ایک اور بڑا کہانی نگار ابھر رہا ہے جس کی ابتدا میں مستقبل کی کام رانیاں نمایاں ہیں۔‘‘

    سچی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر انور سدید کی تحریر نے ایک بار تو حیران، پریشان بلکہ سوالیہ نشان ہی کردیا۔ جناب قاسمی کا ذکر ایک ایسے لیجنڈ کے طور پر کیا کہ جس کی کھڑاویں پہننا ہی نہیں چھُونا بھی اعزاز سے کم نہیں۔

    (صحافی اور ادیب اختر عبّاس کے قلم سے)

  • احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کا تعینِ قدر

    احمد ندیم قاسمی کے افسانوں کا تعینِ قدر

    قمر رئیس نے اپنے مضمون ”افسانہ نگار ندیم“ میں لکھا کہ ”اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ (ندیم) گڑیا، آنندی، موذیل یا لاجونتی کے مرتبے کی کوئی کہانی نہیں لکھ سکا….“ (عالمی اردوادب 1996)

    مجھے نہیں معلوم کہ اس دعوے کا شافی جواب دیا گیا ہے یا نہیں تاہم اس نے مجھے سوچنے پر ضرور مجبور کیا کہ قمر رئیس نے ایک ایسی بات کہہ دی ہے جس کی مختلف جہات کی طرف تاحال کسی بھی نقّاد نے سنجیدگی سے توجہ نہیں کی۔

    رئیس خانہ، کنجری، الحمدُللہ، پرمیشر سنگھ وغیرہ قاسمی صاحب کے وہ افسانے ہیں جو ان کے ادبی رجیم کی نمائندگی کرتے ہیں۔ ادب کے حوالے سے ان کا یہ نقطہ نظر بالکل سامنے تھا کہ یہ اپنی داخلی جمالیات پر استوار ہوتا ہے۔ مصنّف کی فکری وابستگی کی حیثیت ثانوی ہے۔ ترقی پسند ہونے کے ناطے یہ ان کی فنی و فکری زندگی کا بڑا تضاد رہا ہے، تاہم جس طرح وہ اپنی سماجی زندگی میں دھیمے مزاج اور انسانوں کو اپنے آپ میں جذب کرنے والے رویّے کے حامل تھے، اسی طرح ادبی زندگی میں بھی وہ فکری شدت پسندی کی طرف مائل نہ ہوسکے۔

    اس حد تک تو ٹھیک تھا لیکن جب وہ ترقی پسند فکر کی نمائندگی کرنے آئے تو یہاں ان کے مزاج اور معروضی حقیقت کے درمیان موجود تضاد کے مابین صلح کرتے ہوئے وہ ادبی رجیم کے اْس سرے کو نہ تھام سکے، جو اعلا ترین فن پاروں کی طرف لے کر جاتا ہے۔ قاسمی صاحب اپنے بارے میں لکھتے ہیں:

    ”آپ کو میرے نظریۂ فن کی ایک ہی بنیاد نظر آئے گی اور وہ انسان دوستی، انسان کا احترام اور انسان کا وقار اور اس کی عظمت ہے۔“

    اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ اپنی سماجی زندگی میں انسان دوست شخصیت رہے ہیں اور ان کے ہاں انسان دوستی کا فلسفہ مغرب سے درآمد شدہ نہیں تھا بلکہ یہ ان کے اندر اپنی ثقافت سے گہری جڑت کے نتیجے میں پیدا ہوا تھا۔ انسان دوستی کے اس جذبے کو انھوں نے فنی سطح پر برتنے کی بھرپور کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے ترقی پسند دوستوں سے ایک سطح پر خود کو ممتاز دیکھتے رہے۔ یہ ان کی زندگی کا بھی رومان تھا جو دیگر ترقی پسندوں سے مختلف تھا اور یہی رومان ان کے افسانوں میں بھی فنی سطح پر منتقل ہوتا رہا۔

    ان کے افسانے رومانیت پسندی اور سماجی حقیقت نگاری کے امتزاج سے ایسے فن پاروں میں منقلب ہوتے رہے جو پنجاب کی منفرد، بھرپور اور دل کش معاشرت کے اظہار کے ساتھ نمایاں تو تھے لیکن اپنے بنیادی موضوع میں منفرد اور متحرک آئیڈیا سے محرومی کا شکار ہوئے۔

    محمد حمید شاہد اپنے مضمون ”احمد ندیم قاسمی کا افسانہ: تخلیقی بنیادیں“ میں لکھتے ہیں: ”اس پر دوسری رائے تو ہو ہی نہیں سکتی کہ اس کے ہاں بنیادی قضیہ وہی طبقاتی تضاد بنتا ہے جو ترقی پسندوں کو حد درجہ مرغوب رہا مگر یہ بھی ماننا ہوگا کہ اجتماعیت نگاری اس کا بنیادی مسئلہ نہیں رہا اور شاید یہی سبب ہے کہ قاسمی کی ہر کہانی کے کردار بطور فرد بھی اپنی شناخت بناتے ہیں۔“

    قاسمی صاحب کے افسانوں کی ڈی کنسٹرکشن کے بعد معلوم ہوتا ہے کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ان متون میں طبقاتی تضاد کا قضیہ ایک ایسے حاشیے کی صورت ملتا ہے جس کی ابھی پہچان ہی نہیں کرائی گئی ہے۔ وہ جب پنجاب کی دیہی معاشرت کو فسانوی رنگ دیتے ہیں تو ان کے سامنے صرف ادبی جمالیات کا بنیادی قضیہ ہوتا ہے جسے رو بہ عمل لانا وہ اسی طرح ضروری سمجھتے تھے جس طرح مارکسیوں کی سنگت میں وہ خدا اور رسول سے جڑت ضروری سمجھتے تھے۔ اس تضاد کی وجہ سے ادب میں وہ اس انتہا پر چلے گئے جہاں کہانی میں فکر کا سرا انھیں دکھائی نہیں دیتا تھا۔

    ادب میں فکر سے عدم جڑت کی وجہ سے ان کے افسانے اسٹرائکنگ آئیڈیاز سے خالی رہ گئے۔ ”لارنس آف تھلیبیا“ میں دیہی زندگی کا بھرپور رومانس ملتا ہے جہاں زمیں داروں کا ظلم سہنا بھی رومانس سے خالی نہیں ہوتا۔ مزارع کی جوان لڑکی کی عزت لٹنا اور اس پر اس کا عجیب رد عمل سب کا سب ایک دیہی رومانس میں لپٹا ملتا ہے۔ قاسمی صاحب کے افسانوی کردار جب بطور فرد اپنی شناخت بناتے ہیں تو پس منظر میں تاریخی سماجی عمل نہیں بلکہ خالصتاً رومانیت پسندی کا اکھوا ملتا ہے۔

    ”رئیس خانہ“ کے، طبقاتی تضاد کے شکار کرداروں کے ساتھ ہونے والے عظیم فریب کو قاسمی صاحب کے افسانے میں دیکھتے ہوئے لطف آتا ہے۔ اسے طبقاتی تضاد کا اظہار کہنے کے لیے بھی اعلا قسم کی بے حسی چاہیے جسے فنی طور پر برتتے ہوئے ایسی لطافت سے ہم کنار کیا گیا ہے کہ اختتام پر من چلوں کا لطیفہ بنتا محسوس ہوتا ہے۔

    افسانہ ”الحمدللہ“ کے مولوی اور چوہدری کے تعلق پر نگاہ دوڑائیں۔ مولوی ایک غیر پیداواری انسان ہے اور چوہدری انسانی جذبے اور عقیدت کے احساس سے لبریز۔ طرفہ تماشا یہ کہ غیر پیداواری ہونے کے ساتھ ساتھ وہ سماج پر دھڑا دھڑ بچوں کا بوجھ بھی لادتا جارہا ہے۔ اس افسانے کا جنم بھی کسی طبقاتی تضاد کے تصور سے نہیں ہوا ہے بلکہ یہ ایک روایتی سماج کے روایتی کرداروں کا رومانوی سطح پر فنی اظہار ہے جس میں بلاشبہ کشش ہے۔

    کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی، سعادت حسن منٹو، عصمت چغتائی اور غلام عباس…احمد ندیم قاسمی کے ہم عصر تھے، لیکن بطور افسانہ نگار انھیں ان جیسی حیثیت نہیں ملی۔ کچھ لوگ اس کا اظہار بطور شکوہ کرتے ہیں اور کچھ بطور حیرت۔

    ہم سیاسی، ثقافتی اور ادبی طور پر مابعد جدید دور میں جی رہے ہیں۔ اس دور میں ہماری حیثیت کیا ہے، یہ ایک الگ سوال ہے۔ جغرافیائی سطح پر مابعد نو گیارہ کا دور ہمارے لیے دراصل اسی مابعد جدیدیت کی متعین کردہ صورت حال ہے جو بذاتِ خود فلسفیانہ سطح پر ہر قسم کے تعینات کو مسترد کرتی ہے۔ مابعد نو گیارہ کی مشرقی دنیا میں ہمارے لیے بھی یہ واضح راہ نمائی سامنے آئی ہے کہ ہیرو ازم اور شخصیات کے پیچھے اصل سیاسی متون کو درست سمت میں سمجھنے کے بعد ہی اپنے لیے کوئی مفید اور درست لائحہ عمل ترتیب دیا جانا ممکن ہے۔ بہ صورت دیگر سماجی و ثقافتی متون کی، اندر سے شکستگی کے عمل کو روکا جانا ممکن نہیں ہوتا۔ ادبی متون کو بھی درست سمت میں سمجھنے کے لیے متن کو توجہ کا مرکز بنانے کی ضرورت ہے۔

    قاسمی صاحب کے حوالے سے مندرجہ بالا شکوے یا حیرت نما سوال کا جواب ڈھونڈنا اس تناظر میں زیادہ مشکل امر نہیں ہے۔

    ایک ایسے دور میں جب اردو افسانہ پوری طاقت کے ساتھ سماجی سطح پر مکالمہ کررہا تھا، ادب کی جمالیات اس مکالمے کی زیریں سطحوں میں روبہ عمل تھی، انسانی ثقافتوں کے گہرے متون کو پیرایہ اظہار بنایا جارہا تھا، احمد ندیم قاسمی نے اپنے لیے دیہی معاشرت کے حسن کو پیرایۂ اظہار کے طور پر منتخب کیا۔ بطور انسان انھیں اپنی اس دیہی معاشرت سے بہت پیار تھا اس لیے بطور مصنف بھی انھوں نے اس معاشرت کی بدصورتی کو قبول نہیں کیا اور اسے حسن کے ایک درجے پر استوار کرلیا۔

    اپنی بنیاد ہی میں انھوں نے زندگی کی جدلیاتی سطح ہموار کرکے رکھ دی اور طبقاتی تضاد کے کسی تصور کے ابھرنے کا راستہ ہی بند کردیا۔ ادب اگر فکر کی بنیاد پر نہ بھی لکھا جائے تب بھی اگر وہ کسی اوریجنل فکر کے عنصر سے پاک رہ جائے تو معاشرے میں اس کے سرایت کرنے کے امکانات بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔

    قاسمی صاحب کے افسانے کا المیہ یہی ہے کہ یہ رومانیت پسند رجحان کے تعاقب میں اپنی اصل سے بچھڑ گیا۔ بقول انتظار حسین ”کرشن چندر نے اپنی حقیقت نگاری میں رومانیت کا چھینٹا دیا ہوا تھا“ لیکن وہ اپنی اصل سے جدا نہیں ہوئے تھے۔ یہ سب ادب کے جمالیاتی پہلو کی اچھی سمجھ اور پرکھ رکھنے والے لوگ تھے۔

    حقیقت نگاری جب افسانے کی صورت میں ہوتی ہے تو یہ دل کشی سے خالی نہیں ہوتی۔ نہ ہی رومانیت کا چھینٹا لگنے سے حقیقت نگاری کی دل کشی ماند پڑتی ہے۔ قاسمی صاحب کے ہاں رومانیت پسندی کا رجحان اتنا غالب ہوگیا ہے کہ ان کا افسانہ نہ صرف فکر سے کٹ کر رہ گیا ہے بلکہ بنیادی خیال بھی اپنی طاقت سے محروم ہوا ہے۔

    مرکزی خیال کا کرشمہ دیکھیں۔ منٹو کے افسانے ”کھول دو“ کی لڑکی ہجرت کے وقت باپ سے بچھڑکر بلوائیوں اور مسلمان رضاکاروں کے ہاتھوں پامال ہوتے ہوتے اسپتال پہنچتی ہے تو وہاں اس کا کلائمکس ہوتا ہے۔ اس پر جو قیامتیں گزرتی ہیں، ان کا ذکر موجود نہیں ہے لیکن ان قیامتوں نے اس کے معصوم دماغ پر ”کھول دو“ کے جو الفاظ مرتسم کردیے ہیں، اس کا نتیجہ دوسروں کے لیے قیامت خیز نکلتا ہے۔ منٹو اگر رومانیت پسندی کے رجحان کے تحت اس افسانے کو لکھتے تو جلتے روم کے مناظر میں ہزار دل کشی پیدا کردیتے۔ لیکن مرکزی خیال کی یہ قیامت خیزی ان کے ہاتھوں سے لازماً چھوٹ جاتی۔

    اب قاسمی صاحب کا افسانہ ”الحمدُ للہ“ دیکھیں۔ مولوی ابل اپنی جوان ہوتی بیٹیوں کے رشتوں کے لیے اس حد تک پریشان ہے کہ زبانی توکل تو اللہ پر کرتا ہے لیکن دل و دماغ میں چوہدری پر تکیہ کیے ہوئے ہے۔ بڑی بیٹی کی شادی کا اتنا بھاری بوجھ سر پر ہے کہ اٹھائے نہیں اٹھ رہا، اللہ پر حقیقی توکل سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا ہے۔ لیکن قیامت جتنے اس بڑے امتحان سے وہ نہایت آسانی سے نکل آتا ہے اور پھر نواسے کی پیدایش پر کپڑے کھلونے وغیرہ لے جانے کی معمولی رسم اس کے لیے اتنی بڑی قیامت بن جاتی ہے کہ جوانی کی دہلیز پر پاؤں دھرتی دوسری بیٹیاں بھی ذہن سے اوجھل ہوجاتی ہیں اور چوہدری جیسے واحد آسرے کی موت پر چند روپے ملنے کا یقین اسے ناقابلِ یقین حد تک کچھ دیر کے لیے خوشی سے دیوانہ کردیتا ہے۔

    قاسمی صاحب نے اس افسانے میں دیہی زندگی کی جزیات کو نہایت دل چسپ انداز میں بیان کیے ہیں لیکن مرکزی خیال کو زیب داستاں بناتے بناتے پلاٹ کمزور تعمیر کرلیا۔ افسانہ پڑھتے ہوئے بار بار محسوس ہوتا ہے کہ کوئی بہت بڑا المیہ رونما ہونے والا ہے‘ لیکن قاسمی صاحب نے حقیقی زندگی کے حقیقی المیے رقم کرنا کبھی پسند نہیں کیا۔ وہ اگر کسی افسانے میں کسی حد تک المیہ رقم کرسکے ہیں تو وہ ہے ”کنجری۔“

    قاسمی صاحب کے بعض افسانوں کے مرکزی خیال دیکھ کر ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے انھوں نے یا تو اپنے دور کے آس پاس لکھے گئے موضوعات کو اپنے مخصوص ماحول اور انداز میں لکھا ہے جیسا کہ ”الحمد للہ“، اس خیال پر مبنی ایک ایرانی افسانہ لیل و نہار میں چھپا تھا۔ ”فقیر سائیں کی کرامات“ ایک دیہی حکایت پر مبنی ہے۔

    ”لارنس آف تھلیبیا“ کا موضوع بھی اسی دور کا مرغوب موضوع ہے، یعنی مزارع کے گھر کی عزت بھی جاگیردار کی ملکیت میں شامل ہوتی ہے۔ رئیس خانہ اپنے مرکزی خیال میں من چلوں کا لطیفہ بن گیا ہے کہ ایک افسر ایک غریب عورت کی عزت پر ہاتھ صاف کرنے کے لیے کئی عورتوں کے ساتھ رات گزار کر اپنی پارسائی کا ڈھونگ رچاتا ہے اور آخر کار اس عورت کو اپنی خلوت گاہ تک لے آتا ہے۔ ”ہٰذا من فضل ربّی“ کا مرکزی خیال متمول مرد و خواتین کا بہ یک وقت کئی کئی پارٹنرز کے ساتھ گلچھرے الڑانے پر مبنی ہے لیکن اس میں بھی قاسمی صاحب کا مخصوص دل چسپ انداز ملتا ہے اور اختتام پر افسانہ ایک لطیفے جیسا لطف دیتا ہے۔

    ”کنجری“ میں پیشہ کرنے والی عورت کی بیٹی کا المیہ رقم ہے جو اس دور میں بھی کوئی نیا چونکادینے والا خیال نہیں تھا۔ اس موضوع پر بہت اور اچھا لکھا جارہا تھا۔ قاسمی صاحب نے اس کے المیاتی اختتام کو تحلیل تو نہیں کیا ہے۔ تاہم باقی سارا فسانہ انھوں نے رومانیت پسندی کے رجحان کے تحت بُنا ہے حتیٰ کہ اختتام پر باپ کے مکروہ کردار کی کراہت بھی زائل کردی ہے۔

    ”گنڈاسا“ میں مرکزی کردار اپنے دشمن کو اس لیے چھوڑ دیتا ہے کہ وہ اس کو پسند آنے والی لڑکی کا منگیتر ہے۔ بین میں مزار پر شاہ جی کے ہاتھوں عزت سے جانے والی کنواری لڑکی کا فسانہ ہے جو خود کلامی کے انداز میں لکھا گیا ہے اور ممکن ہے یہ اس وقت کا ایک اچھا تجربہ رہا ہو۔

    ”پرمیشر سنگھ“ تقسیم کے موضوع پر ان کا بہت مشہور افسانہ ہے۔ اس میں بھی انھوں نے المیے کو المیہ نہیں رہنے دیا ہے بلکہ رومانیت پسندی کے رجحان کے تحت انسان دوستی کے احساس کو ابھارنے کی کوشش کی ہے۔ ایک سکھ جس سے اس کا بیٹا کھو گیا ہے، کے ہاتھ ایک مسلمان لڑکا لگتا ہے۔ وہ اسے اپنے بیٹے کی طرح پیار کرتا ہے۔ لیکن پھر اسے پاکستانی سرحد پر چھوڑنے آتا ہے اور فوجی کی گولی سے زخمی ہوجاتا ہے۔

    معلوم یہی ہوتا ہے کہ قاسمی صاحب نے آئیڈیاز کی شدت کو رومانیت پسندی کی تہہ چڑھا کر ہمیشہ کم کیا ہے جس کے سبب ان کے افسانے اس زمانے میں لکھے جانے والے افسانوں کی سطح کو کبھی چھو نہیں پائے، نہ ہی انھیں ویسی مقبولیت ملی۔ منٹو جب تقسیم کے المیے پر انسانی جذبے کو موضوع بناتا ہے تو ”موذیل“ جیسا شاہ کار جنم لیتا ہے۔ غلام عباس جب پیشہ ور عورتوں کو موضوع بناتا ہے تو ”آنندی“ جیسا لازوال افسانہ جنم لیتا ہے۔ تقسیم ہی کے المیے پر بیدی ”لاجونتی“ جیسے آئیڈیا کو افسانوی کینوس پر لاتا ہے تو یادگار بن جاتا ہے۔ یہ آئیڈیاز اور آئیڈیاز کے بطن میں موجود یہ شدت قاسمی صاحب کے ہاں مفقود ہے۔

  • ’’کیا آپ میرا ماڈل بننا پسند کریں گے؟‘‘

    ’’کیا آپ میرا ماڈل بننا پسند کریں گے؟‘‘

    کمال الدین بہزاد ایران کا نام وَر مصوّر تھا جس کے فن کا برصغیر ہی نہیں‌ دنیا بھر میں‌ شہرہ ہوا۔ اس کا سنِ پیدائش 1450 بتایا جاتا ہے۔ بہزاد نے متعدد درباروں سے وابستگی کے دوران شاہانِ وقت اور امرا سے اپنے فنِ مصوّری کی داد وصول کی اور ان کی سوانح و تواریخ کو اپنے فن سے آراستہ و زیبا کیا۔

    اردو کے نام وَر ادیب اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے اس باکمال مصوّر کو ایک کردار کے طور پر پیش کرتے ہوئے فنِ مصوّری اور تخلیق سے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کیا ہے، ملاحظہ کیجیے۔

    استاد بہزاد جب آرٹ گیلری میں داخل ہوا تو اس کا پہلا تاثر روحانی آسودگی کا تھا۔ چار طرف رنگوں اور خطوں کی چھاؤنی چھا رہی تھی اور رنگ اور خط ہی تو ایک مصور کا سرمایہ حیات ہوتے ہیں۔ پھر اس نے گیلری کے وسط میں رکھے ہوئے ایک بنچ پر ابتدائی انسان کا ایک مجسمہ رکھا دیکھا۔ اللہ اللہ! گزشتہ صدیوں میں آرٹ نے کتنی بے حدود ترقی کی ہے! اِس مجسمے میں اتنی زندگی ہے جیسے یہ ابھی اُٹھ کر چلنے لگے گا اور بہزاد دم بخود رہ گیا جب ابتدائی انسان کا یہ مجسمہ سچ مچ اُٹھ کر چلنے لگا۔

    جلد ہی بہزاد نے اپنی حیرت پر قابو پایا اور سوچا کہ یہ وہ صدی ہے جس میں آوازیں پورے کرۂ ارض کا سفر کر کے مشرق و مغرب کے گھر گھر میں سنی جا سکتی ہیں اور جس میں چلتی پھرتی تصویریں ہوا کا سفر کرتی ہوئی آتی ہیں اور گھروں میں سجے ہوئے شیشے کے پردوں پر منعکس ہو جاتی ہیں۔

    اگر ایسی صدی میں آرٹسٹ کا تراشا ہوا ایک مجسمہ، عام انسانوں کی طرح چلنے پھرنے لگے تو اس پر حیرت کا اظہار اپنی جہالت کا اعلان ہو گا۔ پھر استاد بہزاد نے دیکھا کہ ابتدائی انسان کا وہ مجسمہ پلٹا اور اس کے پاس آ کر اس کے سامنے رک گیا اور بولا۔

    ’’کیا آپ میرا ماڈل بننا پسند کریں گے؟‘‘ تو یہ مجسمہ نہیں ہے، آرٹسٹ ہے! حسن کے اس تخلیق کار نے اپنی شخصیت کو حسن سے کیوں محروم کر رکھا ہے؟ اس کے بال اتنے بے ہنگم کیوں ہیں؟ کیا اسے معلوم نہیں کہ انسان نے جب کھیتی باڑی کرنا سیکھا تھا تو وہ حجامت بنانا بھی سیکھ گیا تھا! آخر آج کا آرٹسٹ، تصویر بنانے سے زیادہ اپنے آپ کو بنانے میں اتنا وقت کیوں ضائع کرتا ہے؟ اس مصور کے بالوں اور لباس کی یہ بے ترتیبی ایک سوچے سمجھے منصوبے کا نتیجہ معلوم ہوتی ہے۔ یہ بے ترتیبی اس نے بڑی ترتیب سے پیدا کی ہے تاکہ وہ مصوّر نظر آئے۔

    مصوّر جب مصوّر دکھائی دینے کی، اور شاعر، شاعر دکھائی دینے کی کوشش کرنے لگے تو سمجھ لینا چاہیے کہ اس کی مصوّری اور شاعری میں کوئی ایسی کمی ہے جس کا خود مصور اور شاعر کو بھی احساس ہے۔ بہزاد نے سوچا کہ مصور اور شاعر اپنی اس کمی کو دور کرنے کی بجائے اسے اپنی شخصیت کی رومانیت میں کیوں چھپاتا ہے؟ اس طرح تو وہ دوسروں کو دھوکا دینے کی کوشش میں اپنے آپ کو دھوکا دیتا ہے اور اپنے آپ کو دھوکا دینے والا انسان تو کبھی بڑا آرٹسٹ نہیں بن سکتا۔

    مصوّر نے اپنے سوال کو دہرایا تو استاد بہزاد بولا ’’میں پرانے خیال کا آدمی ہوں۔ صدیوں کی فصلیں کاٹ کر یہاں تک پہنچا ہوں۔ مجھے کچھ اندازہ نہیں کہ آج کے آرٹ کا اسلوب کیا ہے۔ میں آپ کا ماڈل بننے کو تیار ہوں مگر پہلے مجھے اس آرٹ گیلری کی سیر تو کرائیے تاکہ میرے دل میں یہ اعتماد پیدا ہو سکے کہ آپ کا ماڈل بن کر آپ کا اور اپنا وقت ضائع نہیں کروں گا۔‘‘

    مصور نے بہزاد کو بازو سے پکڑا اور ایک تصویر کے پاس لے گیا۔ تصویر پر مصور نے اپنے دستخط بھی انگریزی میں کیے تھے اور نیچے ایک گوشے میں تصویر کا نام بھی انگریزی میں درج تھا۔ بہزاد حواس باختہ سا نظر آیا تو مصور سمجھ گیا کہ بدنصیب کو انگریزی نہیں آتی، چنانچہ اس نے تصویر کے نام کا ترجمہ کرتے ہوئے کہا ’’ذات کی شکست۔‘‘

    ’’مگر یہ بنائی کس نے ہے؟‘‘ بہزاد نے پوچھا۔ مصوّر تن کر بولا ’’میں نے۔ مگر نہیں۔ میں نے اسے بنایا نہیں ہے بلکہ اس نے خود کو مجھ سے بنوایا ہے۔ میرے اندر کوئی ایسی قوت ہے جسے آپ میری چھٹی حس کہہ لیجیے۔ وہی مجھ سے یہ تصویریں بنواتی ہے۔ اس میں میرا شعور، میرا ارادہ قطعی شامل نہیں ہوتا۔ ایک بار آدھی رات کو میری آنکھ کھلی تو میں نے محسوس کیا کہ اگر میں یہ تصویر نہیں بناؤں گا تو مر جاؤں گا، چنانچہ تصویر آپ کے سامنے ہے۔‘‘

    بہزاد نے تصویر کو بغور دیکھا۔ پھر مصوّر کی طرف دیکھ کر بولا ’’معذرت چاہتا ہوں مگر فن کی دیانت مجھے یہ کہنے پر مجبور کر رہی ہے کہ کاش اس رات آپ مر ہی گئے ہوتے تاکہ فن اس آلودگی سے محفوظ رہتا جو آپ نے اس تصویر کی صورت میں فن کے منہ پر دے ماری ہے۔ اوّل تو آپ نے اس تصویر کے اوپر سے نیچے اور دائیں سے بائیں تک ریت کے اڑتے ہوئے جو ذرات دکھائے ہیں، وہ ذرات کی بجائے مکئی اور جوار کے دانے معلوم ہوتے ہیں۔ پھر اس میں سے ’’ذات‘‘ غائب ہے۔ صرف شکست ہی شکست ہے، اور شکست کو تو مثبت ہونا چاہیے کیونکہ جب کچھ ٹوٹتا ہے تو کچھ بنتا بھی ہے۔

    اور آپ نے ذات کو توڑنے تاڑنے کے بعد اس پر اپنے دستخط جڑ دیے ہیں، یہ جو تصویر کے کونے میں ایک لمبا سا کیڑا پڑا بل کھا رہا ہے تو یہ آپ کے دستخط ہی ہیں نا؟ اور یہ بھی انگریزی ہی میں ہیں نا؟ پھر جب آپ اپنی زبان میں دستخط تک نہیں کر سکتے تو اپنی بے چاری ذات کے ساتھ کیا انصاف کریں گے۔ معاف کیجیے گا، میں آپ کا ماڈل بننے کو تیار نہیں ہوں، قدرت نے مجھے ایک خاص سلیقے سے بنایا ہے۔ میں آپ کے سپرد ہو کر قدرت کے معیاروں کی ہتک کا ارتکاب نہیں کروں گا۔ بہزاد نے یہ کہا اور مصوّر کو وہیں چھوڑ کر آگے بڑھ گیا۔

  • پاکستانی بچوں کو کس نوع کا مواد پڑھنے کو مل رہا ہے؟

    پاکستانی بچوں کو کس نوع کا مواد پڑھنے کو مل رہا ہے؟

    یہ کہنا تو شاید صحیح نہ ہو کہ پاکستان میں بچوں کی کتابیں بہت کم تعداد میں شائع ہوتی ہیں۔ البتہ یہ طے ہے کہ ادب کے نام پر پاکستانی بچوں کے ساتھ شدید بدسلوکی روا رکھی جا رہی ہے اور انہیں عموماً ایسی کتابیں پڑھنے کو مل رہی ہیں جن کے بغیر وہ زیادہ بہتر شہری بن سکتے ہیں۔

    اب یہ کہنا درست نہیں ہے کہ بچوں کے ادب کی طرف توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ توجہ تو بہت زیادہ دی جا رہی ہے مگر اس توجہ کا رخ سرے سے غلط ہے۔ ذرا ان دکانوں میں جا کر جھانکیے جہاں بچوں کی کتابیں پانچ پانچ، دس دس پیسے کے عوض کرایے پر دی جاتی ہیں۔ یہ دکانیں بچوں کی کتابوں سے اٹی پڑی ہیں، مگر آپ کو ان کے ناموں اور ان کے ٹائٹلوں ہی سے اندازہ ہو جائے گا کہ پاکستانی بچوں کو کس نوع کا مواد پڑھنے کو مل رہا ہے۔

    یہ کتابیں عموماً جنوں بھوتوں، دیوؤں، روحوں، ڈاکوؤں اور قزاقوں سے متعلق ہوتی ہیں اور ان کے سرورق انسانی چہرے میں سے نکلے ہوئے لمبے نکیلے دانتوں، چلتے ہوئے ریوالوروں اور بہتے ہوئے خون سے آراستہ ہوتے ہیں۔

    کیا کبھی کسی نے اس نکتے پر غور فرمانے کی زحمت گوارا کی ہے کہ ایسا ادب ہم اس نسل کو پڑھنے کے لیے دے رہے ہیں جسے ربع صدی بعد پاکستان کی ترقی و تعمیر کا نگران بننا ہے۔

    ہمارے ہاں پہلے ہی جنوں، بھوتوں اور دیوؤں کی کہانیوں کی کمی نہ تھی۔ اس پر ستم یہ ہوا کہ مغرب کے "کومکس” کے زیرِ اثر انسانوں نے ہی دیوؤں اور جنوں کا کردار ادا کرنا شروع کر دیا اور ان کی دیکھا دیکھی ہمارے ہاں بھی مار دھاڑ اور قتل و غارت کی کہانیاں لکھی جانے لگیں۔ اسی ذہنیت کا نتیجہ تھا کہ ہمارے بچوں کے ایک مقبول رسالے میں بھوپت ڈاکو کی کہانی بالاقساط شائع ہوتی رہی اور بچے اسے شوق سے پڑھتے رہے۔

    بچے غیر معمولی واقعات سے بھری ہوئی کہانیاں ہمیشہ شوق سے سنتے اور پڑھتے ہیں کیوں کہ اس طرح ان کی بے پناہ قوتِ تخیل کو تسکین ملتی ہے، مگر اس نوع کی کہانیاں بچوں کی نفسیات اور کردار پر جو اثر مرتب کرتی ہیں ان کے بارے میں ان مصنفینِ کرام اور ناشرینِ عظام نے شاذ ہی سوچا ہو۔

    نتیجہ یہ ہے کہ آج بازاروں میں بچوں کی جو کہانیاں دھڑا دھڑ بک رہی ہیں یا کرائے پر پڑھی جا رہی ہیں وہ ہماری نئی نسل کو ذہنی طور پر بگاڑنے کا کام تیزی سے انجام دے رہی ہیں۔ ہم حیران ہوتے ہیں کہ ہماری نئی نسل کو یکایک کیا ہو گیا ہے۔ اور وہ اپنے سے پہلی نسل سے اتنی ناگوار حد تک مختلف کیوں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس تفاوت کے دوسرے اسباب کے علاوہ ایک سبب یہ بھی ہے کہ دونوں نسلوں کو بچپن میں جو ادب پڑھنے کو ملتا رہا ہے وہ موضوع و مواد کے معاملے میں ایک دوسرے سے قطعی مختلف ہے۔

    حیرت ہے کہ اس صورتِ حال سے متعلق اِکا دکا بیانات نظر سے ضرور گزرتے رہتے ہیں مگر حکامِ تعلیم یا مصنفین یا ناشرین نے اجتماعی طور پر اس صورت کی اصلاح کے لیے کوئی قدم نہیں اٹھایا۔

    ناشرین اپنے حقوق کے لیے تو متفق ہو جاتے ہیں اور یہ بہت اچھی بات ہے۔ اپنے حقوق کا تحفظ دراصل اس امر کی علامت ہے کہ ہمیں اپنی آزادی اور اس آزادی سے ملنے والی سہولتوں کا شعور حاصل ہے، چنانچہ ناشرین کو اپنے حقوق کی یقیناً حفاظت کرنی چاہیے، مگر حقوق کے علاوہ ہر آزاد شہری کے فرائض بھی تو ہوتے ہیں۔

    اب تو ناشرین میں ماشاءاللہ بڑے پڑھے لکھے اور با شعور افراد شامل ہیں، اگر وہ طے کر لیں کہ وہ بچوں کا ایسا ادب نہیں چھاپیں گے جو بچوں کی ذہنی تعمیر کی بجائے ان کی تخریب کرے اور اگر وہ ایسے ناشرین کا مقاطعہ کرنے کا فیصلہ کریں جو محض معمولی سی مالی منفعت کی خاطر پاکستان کی پوری نسل کو اور یوں بالواسطہ طور پر پاکستان کے مستقبل کو تباہ کر رہے ہیں تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ بچوں کا جو خطرناک ادب ان دنوں شائع ہو رہا ہے اس کا کماحقہ تدارک ہو جائے گا۔

    (اردو کے معروف ادیب، افسانہ نگار، شاعر، صحافی اور مدیر احمد ندیم قاسمی کی نسلِ نو کی تعلیم و تربیت سے متعلق ایک چشم کُشا اور فکر انگیز تحریر سے اقتباس)

  • ممتاز شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی کی برسی

    ممتاز شاعر اور ادیب احمد ندیم قاسمی کی برسی

    اردو زبان کے نام ور افسانہ نگار، شاعر، محقق اور ناقد احمد ندیم قاسمی کی آج 14 ویں برسی منائی جارہی ہے۔

    ان کا اصل نام احمد شاہ تھا۔ وہ 20 نومبر 1916 کو پیدا ہوئے 10 جولائی 2006 کو لاہور میں انتقال کیا۔

    احمد ندیم قاسمی ہمہ جہت ادبی شخصیت تھے جنھوں نے ہر صنفِ ادب میں طبع آزمائی کی۔ ان کے افسانوں، شعری تخلیقات اور تنقیدی مضامین پر مجموعے اور شخصی خاکوں کی کتابیں‌ منظر عام پر آئیں۔ احمد ندیم قاسمی کا شمار انجمن ترقی پسند مصنّفین کے بانیوں میں ہوتا تھا۔

    وہ صحافی بھی تھے اور کئی اہم ادبی جرائد کے مدیر رہے جن میں فنون بھی شامل ہے۔

    حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی، ستارہ امتیاز اور نشان امتیاز سے نوازا تھا۔ تین مرتبہ آدم جی ادبی انعام اور کمال فن ایوارڈ بھی اپنے نام کیا، انھیں پنجاب کا پریم چند بھی کہا جاتا تھا۔

  • منٹو کے ساتھ گزرے دس دن

    منٹو کے ساتھ گزرے دس دن

    اردو ادب میں سعادت حسن منٹو اور احمد ندیم قاسمی کا بنیادی حوالہ ان کی افسانہ نگاری ہے، لیکن مختلف موضوعات پر ان دونوں ادیبوں کے علمی و تحقیقی مضامین، کالم اور خاکے بھی اس دور کے قارئین میں مقبول ہوئے۔

    سعادت حسن منٹو اور احمد ندیم قاسمی ہم عصر تخلیق کار ہی نہیں دوست بھی تھے۔ ان دونوں ادیبوں میں شناسائی کی وجہ اور ان دس دنوں کی روداد پڑھیے جنھوں اپنے وقت کے ان عظیم لکھاریوں کو دوستی کے تعلق میں باندھ دیا۔

    1931 میں تحریکِ آزادی کے نام ور راہ نما مولانا محمد علی جوہر لندن میں انتقال کر گئے، جہاں وہ ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ مولانا محمد علی جوہر نے کہا تھاکہ وہ ایک غلام ملک یعنی ہندوستان واپس نہیں جائیں گے۔

    آزادی کے ہیرو مولانا جوہر کی اس خواہش کا احترام کیا گیا اور انہیں فلسطین میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    ممتاز افسانہ نگار اور شاعر احمد ندیم قاسمی نے مولانا جوہر پر ایک نظم لکھی، جو لاہور سے نکلنے والے اخبار ’سیاست‘ میں شایع ہوئی۔ اس نظم کو قاسمی صاحب اپنے شعری سفر کا آغاز کہتے تھے۔

    اسی دور میں انہوں نے افسانے بھی لکھنا شروع کر دیے۔ ان کا ایک افسانہ ’بے گناہ‘ معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں شایع ہوا، جسے پڑھنے کے بعد اس زمانے کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اختر شیرانی سے رابطہ کیا اور اس افسانے کی تعریف کی۔

    قاسمی صاحب کے بقول اِس کے بعد ان کی منٹو سے خط و کتابت شروع ہو گئی۔

    منٹو ہی کی دعوت پر وہ نئی دہلی گئے، جہاں دس دن تک منٹو کے ساتھ رہے۔ یہی دس دن ان دنوں کے درمیان گہری دوستی کی بنیاد بنے۔

    اردو زبان کے ان دو نام ور افسانہ نگاروں کے درمیان مراسم منٹو کے انتقال تک قائم رہے۔

  • فقیر محمد فقیر: پنجابی زبان اور ادب کا روشن حوالہ

    فقیر محمد فقیر: پنجابی زبان اور ادب کا روشن حوالہ

    روزنامہ امروز کی ادارت کے دنوں میں ڈاکٹر فقیر صاحب سے آئے دن میری ملاقات رہتی تھی۔

    وہ ایک وجہیہ انسان تھے اور ان کے باطن میں لہریں لیتی ہوئی محبت، ان کے چہرے پر ایک مستقل میٹھی مسکراہٹ کی صورت میں موجود رہتی تھی۔

    جب میں نے ان کی زبان سے ان کا کلام سنتا تو اندازہ ہوتا کہ یہ شخص کیسے ڈوب کر شعر کہتا ہے اور اس کے منہ سے نکلا ہوا ہر لفظ بلاغت کی شعاعیں بکھیرتا محسوس ہوتا ہے۔

    پنجابی ہونے کے باوجود مجھے ان کے اشعار کے بعض الفاظ کے معنیٰ سمجھنے میں دقت ہوتی تھی اور میں برملا اپنی اس مشکل کا اظہار کر دیتا تھا۔

    وہ کھل کر مسکراتے اور مجھے ان الفاظ کے معنیٰ بتاتے اور ساتھ ہی یہ بھی واضح کرتے چلے جاتے تھے کہ یہ لفظ گوجرانوالہ کے علاقے میں تو اسی طرح بولا جاتا ہے جیسا میں نے استعمال کیا ہے، مگر شیخوپورہ، سیالکوٹ، گجرات، لائل پور (فیصل آباد)، جھنگ اور منٹگمری (ساہیوال) اور ملتان میں اس کا تلفظ بھی مختلف ہے اور اس کے معنیٰ میں بھی ہلکا ہلکا پیاز کے چھلکے کے برابر اختلاف ہے۔

    کسی ایک لفظ کے بارے میں میرا استفسار ان سے پنجابی زبان اور روز مرہ سے متعلق باقاعدہ ایک بلیغ تقریر برآمد کروا لیتا تھا اور مجھے اپنی معلومات میں اس اضافے سے تسکین محسوس ہوتی تھی۔

    مولانا عبدالمجید سالک جیسے اردو کے اتنے بڑے ادیب اور اخبار نویس اور شاعر کی پنجابی دوستی کا اصل محرک ڈاکٹر فقیر محمد فقیر کی شخصیت تھی۔

    ڈاکٹر صاحب کے پا س پنجابی الفاظ کا بے حد ذخیرہ تھا۔ وہ جب بھی گفتگو فرماتے تھے یا اپنا کلام مجھے سناتے تو مجھے سید وارث شاہ کا شاہ کار یاد آجاتا۔

    (ممتاز ادیب، شاعر اور محقق فقیر محمد فقیر کو خاص طور پر پنجابی ادب اور زبان کے حوالے سے ہمیشہ یاد رکھا جائے گا، ان کے بارے میں یہ سطور مشہور شاعر احمد ندیم قاسمی کے ایک مضمون سے منتخب کی گئی ہیں)

  • فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کے کاروبار

    فیض احمد فیض اور احمد ندیم قاسمی کے کاروبار

    ایک دن فیض صاحب مجھے اپنی گاڑی میں عبدالرحمٰن چغتائی صاحب کے ہاں لے جارہے تھے۔

    نسبت روڈ پر سے گزرے تو انھیں سڑک کے کنارے ”قاسمی پریس“ کا ایک بڑا سا بورڈ دکھائی دیا۔ مجھے معلوم نہیں یہ کن صاحب کا پریس تھا، مگر بہرحال، قاسمی پریس کا بورڈ موجود تھا۔

    فیض صاحب کہنے لگے، ”آپ چپکے چپکے اتنا بڑا کاروبار چلا رہے ہیں؟“ اس پر ہم دونوں ہنسے، تھوڑا آگے گئے تو میو اسپتال کے قریب مجھے ایک بورڈ نظر آیا۔

    میں نے کہا، ”فیض صاحب! کاروبار تو آپ نے بھی خوب پھیلا رکھا ہے، وہ بورڈ دیکھیے۔“

    بورڈ پر فیض ہیئر کٹنگ سیلون کے الفاظ درج تھے۔

    فیض صاحب اتنا ہنسے کہ انھیں کار سڑک کے ایک طرف روک لینا پڑی۔

    (احمد ندیم قاسمی کی کتاب ”میرے ہم سفر“ سے خوشہ چینی)

  • احمد ندیم قاسمی کو گزرے 13 برس بیت گئے

    احمد ندیم قاسمی کو گزرے 13 برس بیت گئے

    اردو ادب کے نامور شاعر اورادیب احمد ندیم قاسمی کی آج تیرویں برسی منائی جارہی ہے، آپ لاہور میں مختصر علالت کے بعد انتقال کرگئے تھے۔

     احمد ندیم قاسمی 20 نومبر 1916ء کو پنجاب میں پیدا ہوئے تھے۔ آپ  پاکستان کے ایک معروف ادیب، شاعر، افسانہ نگار، صحافی، مدیر اور کالم نگار تھے۔ افسانہ اور شاعری میں شہرت پائی۔ ترقی پسند تحریک سے وابستہ نمایاں مصنفین شمار ہوتا تھا اور اسی وجہ سے دو مرتبہ گرفتار کیے گئے۔ انہوں نے نے طویل عمر پائی اور لگ بھگ نوّے سال کی عمر میں انھوں نے پچاس سے زائد کتابیں تصنیف کیں۔

    احمد ندیم قاسمی مغربی پنجاب کی وادی سون سکیسر کے گاؤں انگہ ضلع خوشاب میں پیدا ہوئے، اصل نام احمد شاہ تھا اور اعوان برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ ندیم ان کا تخلص تھا۔

    قاسمی صاحب کی ابتدائی زندگی کافی مشکلات بھری تھی۔ جب وہ اپنے آبائی گاؤں کو خیرباد کہہ کر لاہور پہنچے تو ان کی گزر بسر کا کوئی سہارا نہ تھا۔ کئی بار فاقہ کشی کی بھی نوبت آ گئی لیکن ان کی غیرت نے کسی کو اپنے احوال سے باخبر کرنے سے انھیں باز رکھا۔ انھی دنوں ان کی ملاقات اختر شیرانی سے ہوئی۔وہ انھیں بے حد عزیز رکھنے لگے اور ان کی کافی حوصلہ افزائی بھی کی۔

    یہاں تو اپنی صدا کان میں نہیں پڑتی

    وہاں خدا کا تنفس سنائی دیتا ہے

    انھی دنوں احمد ندیم قاسمی کی ملاقات امتیاز علی تاج سے ہوئی جنھوں نے انھیں اپنے ماہانہ رسالے ’پھول‘ کی ادارت کی پیش کش کی جو انھوں نے قبول کر لیِ، پھول بچوں کا رسالہ تھا اس کی ایک سالہ ادارت کے زمانے میں قاسمی صاحب نے بچوں کے لیے بہت سی نظمیں لکھیں جو بچوں میں بہت پسند کی گئیں۔

    قاسمی صاحب کی شاعری کی ابتدا 1931 میں ہوئی تھی جب مولانا محمد علی جوہر کے انتقال پر ان کی پہلی نظم روزنامہ ’سیاست‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوئی اور یہ ان کے لیے بہت بڑا اعزاز تھا۔ یہی نہیں بعد میں بھی 1934 اور 1937 کے دوران ان کی متعدد نظمیں روزنامہ ’انقلاب‘ لاہوراور ’زمیندار‘ لاہور کے سرورق پر شائع ہوتی رہیں اور اس سے انھیں عالمِ جوانی میں ہی غیر معمولی شہرت حاصل ہوئی۔

    اُسی دور میں اُنہوں نے افسانے بھی لکھنا شروع کر دیے تھے۔ اُن کا ایک افسانہ ’بے گناہ‘ اُس دور کے معروف شاعر اختر شیرانی کے جریدے ’رومان‘ میں شائع ہوا، جسے پڑھنے کے بعد اُس زمانے کے مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو نے اختر شیرانی سے رابطہ قائم کیا اور اس افسانے کی تعریف کی۔ قاسمی صاحب کے بقول اِس کے بعد اُن کی منٹو سے خط و کتابت شروع ہو گئی۔

    ان کے شعری مجموعات میں میں بے گناہ، رم جھم، دھڑکنیں، جلال وجمال، لوح وخاک اوردشتِ وفا بے حد معروف ہیں جبکہ افسانوں میں چوپال، آنچل، آبلے درو دیواراور برگ حنا بے پناہ شہرت کے حامل ہیں۔

    احمد ندیم قاسمی 10 جولائی 2006ء کو مختصرعلالت کے بعد حرکت قلب بند ہونے سے قریباً 90 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ہفتہ 8 جولائی 2006ء کو انہیں سانس کی تکلیف کے سبب پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل کروایا گیا جہاں انہیں عارضی تنفس فراہم کیا گیا  ، تاہم وہ جاں بر نہ ہوسکے اور پیر 10 جولائی 2006ء کی صبح کو انتقال ہوگیا۔

    کون کہتا ہے کہ موت آئی تو مر جاؤں گا

    میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جاؤں گا