ہندوستان میں صحافت کی ابتدا، اردو کے اوّلین اخبار سے متعلق متعدد نام اور متضاد باتیں پڑھنے کو ملتی ہیں۔ اردو زبان کے پہلے اخبار کی اشاعت کا سہرا بھی محققین نے مختلف شخصیات کے سَر باندھا ہے، لیکن اکثریت نے پہلا اخبار ’جامِ جہاں نما‘ بتایا ہے جو 1822ء میں شایع ہوا تھا۔ اسی مناسبت سے 2022ء میں اردو صحافت کو دو سو برس مکمل ہوچکے ہیں۔ 25 ستمبر کو ہم یومِ اخبار بینی مناتے ہیں۔
گیلپ پاکستان کے مطابق 2004ء میں روزنامہ کی تعداد کے اعتبار سے ہمارا ملک دنیا کے 160 ممالک میں ساتویں نمبر پر تھا۔ 2009ء اور 2018ء کے درمیان میں شایع ہونے والے اخبارات و رسائل کی تعداد آدھی رہ گئی۔ اس کی مختلف وجوہ ہیں جن میں خبر اور معلومات کے دوسرے ذرایع اور روزناموں میں قارئین کی دل چسپی گھٹ جانا بھی شامل ہیں۔
ایک خیال یہ ہے کہ دنیا بھر میں لوگوں کو باخبر رکھنے کے جتنے بھی ذرائع ہیں، ان میں سب سے زیادہ قابلِ اعتبار روزنامے یا اخبارات ہی ہیں۔ آج پرنٹ میڈیا کے ساتھ الیکٹرانک میڈیا اور خاص طور پر ڈیجیٹل ذرایع ابلاغ (ویب سائٹس) کا زور ہے، لیکن لوگوں کی نظر میں یہ ذرایع کم اہمیت رکھتے ہیں یا وہ اسے زیادہ مستند اور قابل اعتبار نہیں سمجھتے۔
اخبار بینی کا یہ دن پاکستان میں بھی ہر سال منایا جاتا ہے جس کا آغاز 25 ستمبر 1690ء کو امریکہ کے ’’ملٹی پیپر اخبار‘‘ کی اشاعت کی مناسبت سے کیا گیا تھا۔ اس دن کو منانے کا مقصد پاکستان میں ہر خواندہ فرد اور خاص و عام کو اخبار کی اہمیت اور اس کے مطالعہ کی جانب راغب کرنا ہے۔
یومِ اخبار بینی کے اس پس منظر کے ساتھ متحدہ ہندوستان یا برطانوی راج میں صحافت کی تاریخ اور تقسیم ہند کے بعد اردو صحافت پر ایک سرسری نظر ڈالیں تو معلوم ہو گا کہ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی سے وابستہ ایک شخص نے ہیکز بنگال گزٹ کے نام سے ایک اخبار 1780ء میں جاری کیا جو چار صفات پر مشتمل تھا۔ اگلے سال ایک اخبار انڈیا گزٹ نکلا اور پھر یہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ مگر یہ اخبار انگریزی، فارسی، بنگالی زبانوں میں شایع ہورہے تھے۔
اردو کا پہلا اخبار ہفتہ وار تھا جس کا اوپر تذکرہ ہوچکا ہے۔ جام جہاں نما کلکتہ سے شائع ہوا لیکن اس میں فارسی زبان میں بھی مضمون شائع ہوتے تھے۔ جام جہاں نما کے مالک ہری ہردت ایڈیٹر جب کہ مدیر منشی سدا سکھ لال تھے۔ یہ پہلا مطبوعہ ہفت روزہ اخبار پانچ سال آٹھ ماہ جاری رہا اور 1828ء میں اس کی بندش کے لگ بھگ سات سال بعد ہندوستان سے پہلا مکمل اردو اخبار 1836ء میں شائع ہوا۔ اس کے مدیر مولوی محمد باقر تھے۔ انھیں غدر کے بعد صحافت کا پہلا شہید بھی کہا جاتا ہے۔ انگریز ان کی جرأت مندانہ صحافت کو نہیں جھیل سکے اور ان کو مار دیا گیا۔ یہ ایک عوامی اخبار تھا جس کی مقبولیت اور خبر و مضامین سے عوام میں جو جوش و ولولہ پیدا ہورہا تھا وہ انگریز سرکار کو ناقابل قبول تھا۔ متحدہ ہندوستان کے چند بڑے اور مقبول اخبارات یہ ہیں۔
اخباراودھ پنچ
منشی سجاد حسین نے ہفت روزہ اردو اخبار نکالا جو 1877ء میں لکھنؤ سے لندن پنچ کی طرز پرشائع ہوا تھا۔ اس کے مدیران میں رتن ناتھ سرشار، منشی سجاد حسین، مولانا عبدالحلیم شرر شامل ہیں۔ اردو کے مزاحیہ مضامین کی ابتدا بھی اسی اخبار اودھ پنچ سے ہوئی جو 1912ء تک شائع ہوتا رہا اور اس کی مقبولیت و طرز سے متاثر ہو کر کئی اخبار پنچ کے لاحقے کے ساتھ نکالے گئے۔
روزنامہ زمیندار
مولانا ظفر علی خاں اس کے مدیر تھے اور اپنے وقت کے بے مثل ادیب، جید صحافی تھے۔ان کے اداریے اور مضامین نے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ مولانا ظفر علی خاں معیاری صحافت کے بانی تھے اور آج بھی اردو صحافت کا علم اور اپنی ذمہ داریوں سے متعلق شعور و آگاہی حاصل کرنے کے لیے مولانا ظفر علی خاں کے طرز صحافت کا مطالعہ ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ روزنامہ زمیندار نے لوگوں میں اخبار بینی کا وہ شوق اور ایسی فضا پیدا کی جسے صحافت کی تاریخ میں فراموش نہیں کیا جاسکتا۔
رسالہ تہذیب الاخلاق
رسالہ تہذیب الاخلاق کا پہلا شمارہ 1870ء کو بنارس سے شائع ہوا۔ سرسید احمد علی خان کا رسالہ تہذیب الا خلاق تین مرتبہ بند ہوا۔ 1836 کو سر سید احمد خان کے بھائی سید محمد خان نے دہلی سے سید الاخبار کے نام سے اخبار نکالا تھا۔ تاہم سر سید احمد خان نے قیام لندن میں اخبار ایڈیشن اور اسٹیل نامی انگریزی اخباروں سے متاثر ہو کر اخبار تہذیب الاخلاق کا اجرا کیا تھا۔
ہفت وار صدق جدید
عبدالماجد دریاآبادی ہفت وار صدق جدید کے ایڈیٹر تھے جو ایک بلند پایہ ادیب، انشا پرداز اور نقاد مشہور تھے اور بعد میں انھوں نے صحافت میں بھی اپنی بے مثل طرز نگارش کی وجہ سے خوب نام پایا اور ہفت وار صدق جدید نے مقبولیت و پسندیدگی میں بڑا حصہ پایا کہ ان کی حق گوئی کے ساتھ حالات حاضرہ پر تبصرے ادبی و سیاسی دنیا میں انتہائی مقبول تھے۔
رسالہ الہلال
مولانا عبد الکلام آزاد اس کے مدیر تھے جس کی بندش کے بعد مولانا نے البلاغ نکالا اور وہ بھی حکومت برطانیہ کے حسد کا شکار ہو کر بند ہو گیا رسالہ الہلال کا پہلا شمارہ 13 جولائی 1912ء کو کلکتہ سے شائع ہوا۔ لیکن جلد ہی یعنی 1914 کو اس کا آخری شمارہ نکلا اور اسے پریس ایکٹ کے تحت بند کردیا گیا۔ رسالہ الہلال کی دوبارہ اشاعت 1927 میں ہوئی اور تقریبا سات ماہ تک پابندی سے شائع ہونے کے بعد پھر بند کر دیا گیا۔ ما قبل مولانا عبد الکلام آزاد نے 1915 کو البلاغ رسالہ جاری کیا تھا۔
ماہنامہ اردوئے معلّی
ماہنامہ اردوئے معلی حسرت موہانی نے جاری کیا تھا حسرت موہانی کا یہ معیاری ماہنامہ رسالہ عرصہ دراز تک نکلتا رہا، لیکن بغاوت کے جرم میں گرفتار ہوئے کیونکہ حسرت موہانی نے رسالہ اردوئے معلّی میں انگریزوں کی پالیسی کے خلاف ایک مضمون شائع کیا تھا۔ انگریز حکومت نے اس کو بغاوت تصور کیا۔
یہ وہ اخبار اور رسائل تھے جن سے ہندوستان میں اردو صحافت کی بنیاد پڑی اور بعد میں پاکستان اور بھارت میں بھی اردو صحافت کا سلسلہ جاری رہا۔ لیکن کئی نام اور بھی ہیں جن میں معارف، ریاض الاخبار، نیرنگ خیال، مخزن، پیسہ اخبار، روزنامہ رام پور، انقلاب، معاصر، امروز، پیام وغیرہ شامل ہیں۔
(ماخوذ از صحافت کی تاریخ، ہندوستان اور اردو اخبار)