Tag: اختر حسین جعفری

  • اختر حسین جعفری:‌ بیسویں صدی کا غالب

    اختر حسین جعفری:‌ بیسویں صدی کا غالب

    اختر حسین جعفری کو اردو کے بیسویں صدی کا غالب کہا گیا ہے۔ اختر حسین جعفری اُن معدودے چند شعرا میں سے تھے جن کو بحیثیت نظم گو جو شہرت اور مقام ملا، وہ بلاشبہ اس کے حق دار تھے۔

    ’اختر حسین جعفری اپنی روشن خیالی اور انسان دوستی کے حوالے سے آمریت، فسطائیت اور مطلق العنانیت کا غیر مشروط دشمن ہے۔ اسے انسان کی فکر و نظر کی مکمل آزادی بے حد عزیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خود کو اپنے اہلِ وطن کی ذہنیتوں کی تہذیب پر مقرر کر رکھا ہے۔’ یہ احمد ندیم قاسمی کے الفاظ ہیں جو جدید اردو نظم کے اس بلند پایہ اور نہایت معتبر شاعر کی فکر و شخصیت کا گہرا اور پُرتاثر خاکہ ذہن کے پردے پر ابھارتے ہیں۔

    اختر حسین جعفری 3 جون 1992ء کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ انھوں نے لاہور شہر میں‌ زندگی کے آخری ایام گزارے۔ اختر حسین جعفری کے شعری مجموعہ آئینہ خانہ کو اردو شاعری میں فکری اور فنی پختگی کے ساتھ اپنے حسین لسانی پیکروں کے لیے جدید اردو شاعری کا بیش قیمت سرمایہ کہا جاتا ہے۔ اردو زبان و ادب کے ساتھ غیرملکی ادب میں دل چسپی لینے والے اختر حسین جعفری نے اپنی شاعری میں تازہ فکر اور ندرتِ خیال کا اہتمام کیا۔ ان کی شاعری میں استعارے نہایت خوبی سے اور جا بجا بکھرے ہوئے ہیں جو ان کی شاعری کو سحر انگیز بناتے ہیں۔

    اختر حسین جعفری کا تعلق ضلع ہوشیار پور سے تھا۔ 15 اگست 1932 کو دنیا میں آنکھ کھولنے والے اختر حسین کی ابتدائی تعلیم ان کے ضلع کی درس گاہ سے مکمل ہوئی اور وظیفے کا امتحان پاس کرکے وہ گجرات آگئے۔ یہاں بھی تعلیمی سلسلہ جاری رہا اور عملی زندگی کا آغاز سرکاری ملازمت سے ہوا۔ اسی ملازمت میں ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ حاصل کیا۔

    اختر حسین جعفری نے اپنے تخلیقی سفر میں اردو شاعری کو نئی جہت سے روشناس کروایا اور خوب داد سمیٹی۔ وہ ممتاز نظم گو شاعر شمار کیے گئے۔ اختر حسین جعفری کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ کے علاوہ جہاں دریا اترتا ہے بھی بہت مقبول ہوا۔ آئینہ خانہ کی اشاعت پر اسے آدم جی ایوارڈ دیا گیا تھا۔ 2002 میں اس شاعر کو صدارتی تمغا برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا تھا۔

    اختر حسین جعفری کا یہ شعر دیکھیے

    اس کی خوش بُو کے تعاقب میں نکل آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

    یہ نظم ملاحظہ کیجیے

    "آخری پیڑ کب گرے گا”
    زمیں کی یہ قوس جس پہ تو مضطرب کھڑی ہے
    یہ راستہ جس پہ میں ترے انتظار میں ہوں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر قطار اندر قطار لمحات کے پرندے
    ہمارے حصے کے سبز پتے سنہری منقار میں لیے جاگتی خلاؤں میں
    اڑ رہے ہیں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر ہے نا بسر کردہ زندگی کی وہ فصل جس کا
    ہمیں ہر ایک پیڑ کاٹنا ہے
    یہ چاند جس پر قدم ہے تیرا
    یہ شہد جس پر زباں ہے میری
    یہ سبز لمحے یہ کرمک شب اسی گلستاں کے موسم ابر کے ثمر ہیں
    جہاں ہواؤں کے تیز طوفان منتظر ہیں کہ آخری پیڑ
    کب گرے گا

  • اختر حسین جعفری: پُرشکوہ نظموں کا خالق

    اختر حسین جعفری: پُرشکوہ نظموں کا خالق

    اردو ادب میں یوں تو مختلف اصنافِ سخن کو ہر دور میں‌ موضوعات، اسلوب اور ہیئت کے اعتبار سے شکلیں بدلنے اور تجربات سے گزرنے کا موقع ملا، لیکن بالخصوص اردو نظم نے نئے تجربات کے ساتھ اپنا عروج و زوال دیکھا ہے۔ اختر حسین جعفری اُن شعراء میں سے ایک ہیں جنھوں نے جدید نظم نگاری میں بڑا نام پایا اور اپنے ہم عصر شعرا میں امتیاز حاصل کیا۔ اختر حسین جعفری کو اردو کے بیسویں صدی کا غالب بھی کہا گیا اور بعض نقادوں نے انھیں بیدل کے بعد ایک بلند پایہ تخلیق کار گردانا ہے۔

    اردو نظم میں عہد بہ عہد مختلف تحریکات و رجحانات کے تحت میں موضوعاتی اور ہیئت کے اعتبار سے جو تبدیلیاں رونما ہوئیں، اس کے زیرِ‌ اثر اپنے مطالعہ اور تخلیقی قوّت کے زور پر اختر حسین نے اپنی نظموں کو پُرشکوہ استعاروں اور خاص اسلوب سے اس طرح سجایا کہ وہ اپنے معنی اور مفہوم کی وسعت کے ساتھ مقصدیت سے بھرپور دکھائی دیتی ہیں۔ احمد ندیم قاسمی جیسے بڑے ادیب اور شاعر لکھتے ہیں، ’اختر حسین جعفری اپنی روشن خیالی اور انسان دوستی کے حوالے سے آمریت، فسطائیت اور مطلق العنانیت کا غیر مشروط دشمن ہے۔ اسے انسان کی فکر و نظر کی مکمل آزادی بے حد عزیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خود کو اپنے اہلِ وطن کی ذہنیتوں کی تہذیب پر مقرر کر رکھا ہے۔’

    3 جون 1992ء کو اختر حسین جعفری یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ لاہور میں‌ زندگی کا سفر تمام کرنے والے اختر حسین جعفری اُن معدودے چند شعرا میں سے تھے جن کو بحیثیت نظم گو جو شہرت اور مقام حاصل ہوا، وہ بلاشبہ اس کے حق دار تھے۔ ان کا شعری مجموعہ آئینہ خانہ اردو شاعری میں فکری اور فنی پختگی کے ساتھ اپنے حسین لسانی پیکروں کے لیے جدید اردو شاعری کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اردو زبان و ادب کا مطالعہ اور غیرملکی ادب میں دل چسپی لینے کے ساتھ اختر حسین جعفری نظریات اور نئے خیالات سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور اپنی شاعری میں تازہ فکر، ندرتِ خیال کا اہتمام نہایت خوب صورتی سے کیا۔ ان کی شاعری میں استعارے نہایت خوبی سے اور جابجا بکھرے ہوئے ہیں جو ان کی شاعری کو سحر انگیز بناتے ہیں۔

    اختر حسین جعفری کا تعلق ضلع ہوشیار پور سے تھا۔ انھوں نے 15 اگست 1932 کو دنیا میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم اپنے ضلع کی درس گاہ سے حاصل کی اور وظیفے کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ گجرات آگئے جہاں تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔ تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی میں قدم رکھنے والے اختر حسین جعفری نے سرکاری ملازمت کے دوران ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ حاصل کیا۔ اس عرصے میں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا۔ اختر حسین جعفری نے اردو شاعری کو نئی جہت سے روشناس کیا اور خوب داد سمیٹی۔

    اردو کے اس ممتاز نظم گو شاعر کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے شامل ہیں۔ آئینہ خانہ وہ مجموعۂ کلام ہے جسے آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے 2002 میں ان کے لیے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کا اعلان کیا تھا۔

    اختر حسین جعفری کا یہ شعر دیکھیے

    اس کی خوش بُو کے تعاقب میں نکل آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

    یہ نظم ملاحظہ کیجیے

    "آخری پیڑ کب گرے گا”
    زمیں کی یہ قوس جس پہ تو مضطرب کھڑی ہے
    یہ راستہ جس پہ میں ترے انتظار میں ہوں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر قطار اندر قطار لمحات کے پرندے
    ہمارے حصے کے سبز پتے سنہری منقار میں لیے جاگتی خلاؤں میں
    اڑ رہے ہیں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر ہے نا بسر کردہ زندگی کی وہ فصل جس کا
    ہمیں ہر ایک پیڑ کاٹنا ہے
    یہ چاند جس پر قدم ہے تیرا
    یہ شہد جس پر زباں ہے میری
    یہ سبز لمحے یہ کرمک شب اسی گلستاں کے موسم ابر کے ثمر ہیں
    جہاں ہواؤں کے تیز طوفان منتظر ہیں کہ آخری پیڑ
    کب گرے گا

    احمد ندیم قاسمی اختر حسین جعفری کے فنِ شاعری اور ان کی نظم گوئی کے بڑے معترف رہے ہیں اور فنون وہ شمارہ تھا جس میں اختر حسین جعفری کا کلام باقاعدگی سے شایع ہوا کرتا تھا۔ اختر نے غزلیں بھی کہیں اور خوب کہیں مگر نظم کے حوالے سے ان کا نام ہمیشہ لیا جاتا ہے۔ قاسمی صاحب لکھتے ہیں، ان دنوں میں نے نیا نیا فنون جاری کیا تھا۔ فنون کے پتے پر مجھے ان کی ایک نظم ملی تو اس نظم کے موضوع اور پھر اس کی ڈکشن اور اس میں آباد استعاروں کی ایک دنیا دیکھ کر مجھے حیرت ہوئی کہ یہ غزل گو اگر اب نظم نگاری کی طرف راغب ہوا ہے تو کس شان سے راغب ہوا ہے۔ اس کے بعد تو فنون کا شاید ہی کوئی شمارہ ایسا ہو جس میں اختر حسین جعفری اپنی کسی نہ کسی نظم کے جمال و جلال کے ساتھ موجود نہ ہوں۔

  • اختر حسین جعفری، جنھیں فکر و نظر کی مکمل آزادی عزیز تھی!

    اختر حسین جعفری، جنھیں فکر و نظر کی مکمل آزادی عزیز تھی!

    ’اختر حسین جعفری اپنی روشن خیالی اور انسان دوستی کے حوالے سے آمریت، فسطائیت اور مطلق العنانیت کا غیر مشروط دشمن ہے۔ اسے انسان کی فکر و نظر کی مکمل آزادی بے حد عزیز ہے۔ یوں لگتا ہے جیسے اس نے خود کو اپنے اہلِ وطن کی ذہنیتوں کی تہذیب پر مقرر کر رکھا ہے۔’ احمد ندیم قاسمی کے مضمون سے یہ اقتباس جدید اردو نظم کے بلند پایہ اور نہایت معتبر شاعر کی فکر اور شخصیت کا گہرا اور پُرتاثر خاکہ ذہن کے پردے پر ابھارتا ہے۔ اختر حسین جعفری کو اردو کے بیسویں صدی کا غالب بھی کہا گیا اور بعض نقادوں نے انھیں بیدل کے بعد ایک بلند پایہ تخلیق کار گردانا ہے۔

    اختر حسین جعفری 3 جون 1992ء کو یہ دنیا چھوڑ گئے تھے۔ لاہور میں‌ آخری سانسیں‌ لینے والے اختر اُن معدودے چند شعرا میں سے تھے جن کو بحیثیت نظم گو جو شہرت اور مقام حاصل ہوا، وہ بلاشبہ اس کے حق دار تھے۔ ان کا شعری مجموعہ آئینہ خانہ اردو شاعری میں فکری اور فنی پختگی کے ساتھ اپنے حسین لسانی پیکروں کے لیے جدید اردو شاعری کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ اردو زبان و ادب کا مطالعہ اور غیرملکی ادب میں دل چسپی لینے کے ساتھ اختر حسین جعفری نظریات اور نئے خیالات سے متأثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے اور اپنی شاعری میں تازہ فکر، ندرتِ خیال کا اہتمام نہایت خوب صورتی سے کیا۔ ان کی شاعری میں استعارے نہایت خوبی سے اور جابجا بکھرے ہوئے ہیں جو ان کی شاعری کو سحر انگیز بناتے ہیں۔

    اختر حسین جعفری کا تعلق ضلع ہوشیار پور سے تھا، انھوں نے 15 اگست 1932 کو دنیا میں آنکھ کھولی۔ ابتدائی تعلیم اپنے ضلع کی درس گاہ سے حاصل کی اور وظیفے کا امتحان پاس کرنے کے بعد وہ گجرات آگئے جہاں تعلیمی سلسلہ جاری رہا۔ تعلیم مکمل کرکے عملی زندگی میں قدم رکھنے والے اختر حسین جعفری نے سرکاری ملازمت کے دوران ترقی کرتے ہوئے ڈپٹی کلکٹر کا عہدہ حاصل کیا۔ اس عرصے میں ان کا تخلیقی سفر جاری رہا۔ اختر حسین جعفری نے اردو شاعری کو نئی جہت سے روشناس کیا اور خوب داد سمیٹی۔

    ممتاز نظم گو شاعر اختر حسین جعفری کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے شامل ہیں۔ آئینہ خانہ وہ مجموعۂ کلام ہے جسے آدم جی ایوارڈ دیا گیا۔ حکومتِ پاکستان نے 2002 میں ان کے لیے صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی کا اعلان کیا تھا۔

    اختر حسین جعفری کا یہ شعر دیکھیے

    اس کی خوش بُو کے تعاقب میں نکل آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

    یہ نظم ملاحظہ کیجیے

    "آخری پیڑ کب گرے گا”
    زمیں کی یہ قوس جس پہ تو مضطرب کھڑی ہے
    یہ راستہ جس پہ میں ترے انتظار میں ہوں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر قطار اندر قطار لمحات کے پرندے
    ہمارے حصے کے سبز پتے سنہری منقار میں لیے جاگتی خلاؤں میں
    اڑ رہے ہیں
    زمیں کی اس قوس پر افق پر ہے نا بسر کردہ زندگی کی وہ فصل جس کا
    ہمیں ہر ایک پیڑ کاٹنا ہے
    یہ چاند جس پر قدم ہے تیرا
    یہ شہد جس پر زباں ہے میری
    یہ سبز لمحے یہ کرمک شب اسی گلستاں کے موسم ابر کے ثمر ہیں
    جہاں ہواؤں کے تیز طوفان منتظر ہیں کہ آخری پیڑ
    کب گرے گا

  • اختر حسین جعفری: تشبیہ اور تلمیح کے خورشید سے آراستہ نظموں کے خالق کی برسی

    اختر حسین جعفری: تشبیہ اور تلمیح کے خورشید سے آراستہ نظموں کے خالق کی برسی

    اردو کے جدید نظم نگاروں میں‌ ایک معتبر اور ممتاز نام اختر حسین جعفری کا ہے جو 3 جون 1992ء کو وفات پاگئے تھے۔ ان کا شمار بیسویں صدی کے اہم شعرا میں کیا جاتا ہے۔

    اختر حسین جعفری ان معدودے چند شعرا میں سے تھے جنھیں بحیثیت نظم گو جو شہرت اور پذیرائی ملی، انھوں نے خود کو اس کا حق دار بھی ثابت کیا اور اپنی منفرد تخلیقات سے اردو ادب کو مالا مال کیا۔

    وہ 15 اگست 1932ء کو ضلع ہوشیار پور میں پیدا ہوئے تھے۔ اختر حسین جعفری نے شاعری کا آغاز کیا تو غزل اور نظم دونوں اصنافِ‌ سخن میں طبع آزمائی کی اور بعد کے برسوں‌ میں نظم گو شاعر کے طور پر مشہور ہوئے۔ اختر کو ایک اہم شاعر کا درجہ حاصل ہے جنھوں نے اردو شاعری اور بالخصوص نظم کو نئی جہات سے روشناس کیا۔

    ان کے شعری مجموعوں میں آئینہ خانہ اور جہاں دریا اترتا ہے شامل ہیں۔ آئینہ خانہ وہ شعری مجموعہ تھا جس میں شامل تخلیقات کو نقّادوں نے حسین لسانی پیکروں سے آراستہ اور جدید شاعری کا سرمایۂ افتخار قرار دیا۔

    حکومتِ پاکستان نے اختر حسین جعفری کو ان کی ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر 2002ء میں صدارتی تمغہ برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا تھا جب کہ کتاب آئینہ خانہ پر انھیں آدم جی ادبی انعام بھی دیا گیا۔ ان کی ایک غزل ملاحظہ کیجیے۔

    سب خیال اس کے لیے ہیں سب سوال اس کے لیے
    رکھ دیا ہم نے حسابِ ماہ و سال اس کے لیے

    اس کی خوشبو کے تعاقب میں نکلا آیا چمن
    جھک گئی سوئے زمیں لمحے کی ڈال اس کے لیے

    شاخِ تنہائی سے پھر نکلی بہارِ فصلِ ذات
    اپنی صورت پر ہوئے ہم پھر بحال اس کے لیے

    وصل کے بدلے میں کیا داغِ ستارہ مانگنا
    اس شبِ بے خانماں سے کر سوال اس کے لیے

    لاہور میں‌ وفات پانے والے اختر حسین جعفری شادمان کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہوئے۔