Tag: اختر شیرانی

  • اختر شیرانی: شباب، شراب اور شاعری

    اختر شیرانی: شباب، شراب اور شاعری

    عاشق فوٹو گرافر کی آواز گو بہت پتلی تھی لیکن وہ ‘اے عشق کہیں لے چل’ بڑے سوز سے گایا کرتا تھا۔ میں نے جب بھی اس کے منہ سے یہ نظم سنی مجھ پر بہت اثر ہوا۔ اس زمانے میں چونکہ طبیعت میں انتشار تھا۔ اس لیے یہ نظم مجھے اپنے کندھوں پراٹھا کر دور، بہت دور اَن دیکھے جزیروں میں لے جاتی تھی۔

    خدا معلوم کتنے برس گزر چکے ہیں۔ حافظہ اس قد ر کمزور ہے کہ نام، سن اور تاریخ کبھی یاد ہی نہیں رہتے۔ امرتسر میں غازی عبدالرحمٰن صاحب نے ایک روزانہ پرچہ ’مساوات’ جاری کیا۔ اس کی ادارت کے لیے باری علیگ (مرحوم)اور ابو العلاء چشتی الصحافی (حاجی لق لق) بلائے گئے۔

    ان دنوں میری آوارہ گردی اپنی معراج پر تھی۔ بے مقصد سارا دن گھومتا رہتا تھا۔ دماغ بے حد منتشر تھا۔ اس وقت تو میں نے محسوس نہیں کیا تھا لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ یہ دماغی انتشار میرے لیے کوئی راستہ تلاش کرنے کے لیے بے تاب تھا۔

    جیجے کے ہوٹل (شیراز) میں قریب قریب ہر روز گپ بازی کی محفل جمتی تھی۔ بالا، انور پینٹر، عاشق فوٹو گرافر، فقیر حسین سلیس اور ایک صاحب جن کا نام میں بھول گیا ہوں، باقاعدگی کے ساتھ اس محفل میں شریک ہوتے تھے۔ ہرقسم کے موضوع زیر بحث لائے جاتے تھے۔ بالا بڑا خوش گو اور بذلہ سنج نوجوان تھا، اگر وہ غیر حاضر ہوتا تو محفل سونی رہتی۔ شعر بھی کہتا تھا۔ اس کا ایک شعر ابھی تک مجھے یاد ہے۔

    اشک مژگاں پہ ہے اٹک سا گیا
    نوک سی چبھ گئی ہے چھالے میں

    جیجے سے لے کر انور پینٹر تک سب موسیقی اور شاعری سے شغف رکھتے تھے۔ وہ صاحب جن کا نام میں بھول گیا تھا کیپٹن وحید تھے۔ نیلی نیلی آنکھوں والے، لمبے تڑنگے، مضبوط جسم، آپ کا محبوب مشغلہ گوروں سے لڑنا تھا۔ چنانچہ کئی گورے ان کے ہاتھوں پِٹ چکے تھے۔ انگریزی بہت اچھی بولتے تھے اور طبلہ ماہر طبلچیوں کی طرح بجاتے تھے۔

    ان دنوں جیجے کے ہوٹل میں ایک شاعر اختر شیرانی کا بہت چرچا تھا۔ قریب قریب ہر محفل میں اس کے اشعار پڑھے یا گائے جاتے تھے۔ جیجا (عزیز) عام طور پر ‘میں اپنے عشق میں سب کچھ تباہ کرلوں گا’ ( بہت ممکن ہے کہ یہ مصرع غلط ہو) گایا کرتا تھا۔ یہ نئے قسم کا جذبہ سب کے ذہن پرمسلط ہوگیا تھا۔ معشوق کو جو دھمکی دی گئی تھی، سب کو بہت پسند آئی تھی۔

    جیجا تو اختر شیرانی کا دیوانہ تھا۔ کاؤنٹر کے پاس کھڑا گاہک سے بل وصول کر رہا ہے اور گنگنا رہا ہے، ‘اے عشق کہیں لے چل…’ مسافروں کو کمرے دکھا رہا ہے اور زیر لب گا رہا ہے، ‘کیا بگڑ جائے گا رہ جاؤ یہیں رات کی رات۔’

    اختر صاحب غالباً دس دن امرتسر میں رہے۔ اس دوران میں جیجے کے پیہم اصرار پر آپ نے شیراز ہوٹل پر ایک نظم کہی۔ جیجے نے اسے باری صاحب کی وساطت سے بڑے کاغذ پر خوشخط لکھوایا اور فریم میں جڑوا کر اپنے ہوٹل کی زینت بنایا۔ وہ بہت خوش تھا کیوں کہ نظم میں اس کا نام موجود تھا۔ اختر صاحب چلے گئے تو جیجے کے ہوٹل کی رونق غائب ہوگئی۔

    کچھ عرصے کے بعد میں بمبئی چلا گیا۔ اختر صاحب سے اتنے مراسم نہیں تھے کہ خط و کتابت ہوتی۔ لیکن جب انہوں نے رسالہ’رومان’ جاری کیا تو میں نے انہیں مبارکباد کا خط لکھا۔ اب میں افسانہ نگاری کے میدان میں قدم رکھ چکا تھا۔

    کئی برس گزر گئے۔ ملک کی سیاست نے کئی رنگ بدلے حتیٰ کہ بٹوارہ آن پہنچا۔ اس سے پہلے جو ہلڑ مچا اس سے آپ سب واقف ہیں۔ اس دوران میں اخباروں میں خبر چھپی کہ اختر صاحب ٹونک سے پاکستان آرہے تھے کہ راستے میں بلوائیوں نے ان کو شہید کر دیا، بہت افسوس ہوا۔

    میں عصمت اور شاہد لطیف دیر تک ان کی باتیں کرتے اور افسوس کرتے رہے۔ کئی اخباروں میں ان کی موت پر مضامین شائع ہوئے۔ ان کی پرانی نظمیں چھپیں۔ لیکن کچھ عرصے کے بعد ان کی موت کی اس خبر کی تردید ہوگئی۔ معلوم ہوا کہ وہ بخیر و عافیت لاہور پہنچ گئے۔ اس سے بمبئی کے ادبی حلقے کو بہت خوشی ہوئی۔

    (اقتباسات، ماخوذ گنجے فرشتے از سعادت حسن منٹو)

  • اختر شیرانی: شاعرِ رومان جو خرابات کی نذر ہو گیا

    اختر شیرانی: شاعرِ رومان جو خرابات کی نذر ہو گیا

    محمد داؤد خان کو جہانِ شعروسخن میں اختر شیرانی کے نام سے شہرت اور رومانوی نظموں کی بدولت بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ مولانا تاجور نجیب آبادی کے شاگرد تھے۔

    ’’اے عشق کہیں لے چل‘‘ ، ’’او دیس سے آنے والے بتا‘‘ اور ’’ اے عشق ہمیں برباد نہ کر‘‘ وہ نظمیں تھیں جنھوں نے اختر شیرانی کو شاعرِ رومان مشہور کردیا۔

    اختر شیرانی 4 مئی 1905ء کو ریاست ٹونک (راجستھان) میں پیدا ہوئے۔ وہ اردو کے نام وَر محقّق اور عالم فاضل شخصیت جناب حافظ محمود خان شیرانی کے فرزند تھے۔ اختر شیرانی کی زندگی کا بیشتر حصّہ لاہور میں بسر ہوا۔ انھوں نے کئی ادبی جرائد کی ادارت کے ساتھ اپنی شاعری کی بدولت اردو ادب میں نام و مقام بنایا۔

    انھوں نے شاعری کے ساتھ نثر بھی لکھی، کئی کالم اور حکایات کے تراجم کے علاوہ اختر شیرانی نے بچّوں کا بھی ادب تخلیق کیا جس سے ان کا افادی ادب سے متعلق فکر اور رجحان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    اختر شیرانی عشق اور مے نوشی کے سبب بدنام بھی بہت ہوئے۔ والد کی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر معاشرے میں مقام اور کوئی باعزّت پیشہ و ملازمت اختیار کریں، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ کثرتِ شراب نوشی ہی ان کی ناگہانی موت کا باعث بنی۔ وہ کم عمری میں دنیا چھوڑ گئے۔

    اختر شیرانی کا پہلا مجموعہ کلام "پھولوں کے گیت” بچّوں کی نظموں پر مشتمل تھا۔ دوسرے مجموعہ کلام ” نغمۂ حرم” میں عورتوں اور بچّوں کے لیے نظمیں شامل ہیں۔ بڑی محنت اور تحقیق سے مختلف حکایات کو اردو کا جامہ پہنایا۔ ترکی کے ایک نگار کی کہانی کا ضحاک کے نام سے اردو ترجمہ کیا۔

    اختر شیرانی نے ہیئت میں بھی تجربات کیے۔ انھوں نے پنجابی سے ماہیا، ہندی سے گیت اور انگریزی سے سانیٹ کو اپنی شاعری میں کثرت سے برتا۔ رباعیات بھی کہیں، اور غزلیں بھی تاہم ان کی نظموں کو زیادہ پڑھا اور پسند کیا گیا۔

    رومانی نظم نگار کی حیثیت سے مشہور ہونے والے اختر شیرانی کے شعری مجموعوں میں غزلوں کی بھی کمی نہیں۔ تاہم انھیں غزل شاعر کے طور پر نہیں جانا جاتا۔

    ان کے شعری مجموعوں میں اخترستان، شعرستان، شہناز، جہاں ریحانہ رہتی ہے، صبحِ بہار، طیور آوارہ اور لالۂ طور سرِفہرست ہیں۔

    اختر شیرانی 9 ستمبر 1948ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    ان کا یہ شعر خیال آفرینی کی بہترین مثال ہے۔

    چمن میں رہنے والوں سے تو ہم صحرا نشیں اچّھے
    بہار آ کے چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

  • محمد عوفی، سلطان طمغاج اور قصائی

    محمد عوفی، سلطان طمغاج اور قصائی

    تاریخ و سیرت، سفر نامے، احوال و تذکرۂ اقوام، واقعات اور قصائص عام طور پر سبھی کی دل چسپی اور توجہ کا باعث بنتے ہیں۔ ہم نے زیادہ تر قدیم حکایات اور داستانیں فارسی سے اردو میں ترجمہ کی ہیں اور ’’جوامعُ الحکایات و لوامع الرّوایات‘‘ بھی ایک ایسی ہی کتاب ہے جس کے مصنّف محمد عوفی ہیں۔ یہ فارسی زبان میں ان کی تحریر کردہ حکایات کی نادر اور مقبول کتاب ہے جس کی منتخب حکایات کا ترجمہ اختر شیرانی نے کیا تھا۔

    اختر شیرانی کا یہ ترجمہ 1943ء میں انجمنِ ترقی اردو سے شایع ہوا تھا۔ اختر شیرانی نے محمد عوفی کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کے مفصّل حالات کسی کتاب اور تذکرے میں نہیں ملتے، یہ بھی نہیں معلوم کہ ان کا سنِ پیدائش کیا ہے اور انھوں نے کب وفات پائی۔ ان کا نام محمد اور لقب سدید الدین ہے۔ وہ مشہور صحابی حضرت عبدالرحمنؓ بن عوف کی اولاد میں سے تھے اور اسی نسبت سے عوفی کہلائے۔

    محمد عوفی کا وطن بخارا تھا جہاں انھوں نے تعلیم و تربیت پائی۔ ایک زمانہ تھا جب بخارا علم و فنون اور نابغہ روزگار شخصیات کا وطن تھا۔ اختر شیرانی لکھتے ہیں، ’’ایسا معلوم ہوتا ہے کہ بخارا کا تعلیمی دور ختم ہونے پر عوفی نے علمی، تعلیمی اور ادبی مذاق کی نشوونما کی خاطر، نیز کسی معقول ذریعہ معاش کی جستجو میں ماوراءُ النہر اور خراسان کے مختلف دیار و احصار مثلاً سمر قند، آموسی، خوارزم، نیشا پور، ہرات، سجتان اور فرہ کا سفر کیا اور ہر زمین کے علما، آئمہ، فضلا، مشائخ اور خاص کر شعرا کی صحبت سے فیض حاصل کیا۔ آئمہ سے روایتِ حدیث کی اجازت حاصل کی اور شعرا سے ان کا کلام سنا۔ ان سیّاحتوں کے دوران وعظ و تذکرہ کا مشغلہ جاری رہا۔ اسی مشغلے کے ذریعے امرا و سلاطین کی خدمت میں رسائی حاصل ہوتی رہی اور انعام و اکرام ملتا رہا۔ ‘‘

    اختر شیرانی لکھتے ہیں کہ خراسان سے عوفی سندھ اور ملتان کے حکم راں، ناصر الدین قباچہ کے دربار میں چلے گئے۔ یہ وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ عوفی کب سندھ پہنچے لیکن یہ یقینی ہے کہ وہ 617 ہجری (1220ء) سے پہلے یہاں آگئے تھے۔ وہ چند سال قباچہ کے ساتھ رہے۔ انھوں نے اپنی پہلی کتاب ’’لبابُ الالباب‘‘ لکھی اور دوسری ’’جوامع الحکایات‘‘ کی تالیف اور ترتیب بھی شروع کر دی۔

    یہ کتاب تاریخی، مذہبی اور اخلاقی روایتوں اور فارسی لطائف کا مجموعہ ہے۔ خصوصاً اس میں ساتویں صدی ہجری کے واقعات و روایتیں بکثرت موجود ہیں۔ نیز معاصر دنیائے اسلام، بالخصوص ایران کے تاریخی و تمدنی حالات کا بھی ذکر ہے۔ انہی خصوصیات نے اسے بعد کے مصنفین کا مقبول ماخذ بنایا۔ فارسی میں محمد عوفی کی کتاب کی چار جلدیں ہیں جو ایک سو ابواب پر منقسم اور دو ہزار ایک سو تیرہ حکایاتوں پر مشتمل ہیں۔

    محمد عوفی اور ان کی اس مشہور کتاب کے مختصر تعارف کے ساتھ یہاں ہم اسی کتاب سے ایک ایسا واقعہ نقل کررہے ہیں جسے حکایت کی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔

    اس حکایت کا عنوان ہے، ’’قصائی یا رعایا‘‘

    مصنف نے کچھ یوں بیان کیا ہے کہ سمر قند کے سلطان طمغاج خان کی خدمت میں ایک مرتبہ شہر کے قصائیوں نے درخواست کی کہ گوشت کے موجودہ نرخوں میں ہمیں زیادہ فائدہ نہیں ہوتا، کام زیادہ ہے۔ محنت کے مقابلے میں آمدنی بہت کم ہے، اگر بادشاہ گوشت مہنگا کرنے کی اجازت دیں تو ہم نذر کے طور پر ایک ہزار دینار خزانے میں پہنچا سکتے ہیں۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ خزانے میں رقم پہنچائی جائے اور گوشت کے نرخ میں اضافہ کر دیا جائے۔

    جب قصائی ایک ہزار دینار شاہی خزانے میں داخل کر کے گوشت کا نرخ بڑھا چکے تو بادشاہ نے شہر میں منادی کرائی کہ جو شخص قصائیوں سے گوشت خریدے گا اسے سزا دی جائے گی چناں چہ لوگوں نے گوشت خریدنا بند کر دیا اور چار چار، چھے چھے آدمی مل کر بکرا خریدنے اور گوشت آپس میں تقسیم کرنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ قصائیوں کی آمدن کا دروازہ بند ہو گیا اور وہ ہاتھ پر ہاتھ دھر کے بیٹھ گئے۔

    آخر تھک ہار کر انھوں نے ایک رقم اور خزانے میں داخل کی اور اسی پچھلے نرخ پر گوشت فروخت کرنے کی ہامی بھری تب بادشاہ نے اپنا حکم واپس لیا اور قصائیوں کی جان اس مصیبت سے چھوٹی۔ کسی نے پوچھا تو طمغاج نے کہا،’’یہ اچھی بات نہ تھی کہ میں اپنی رعایا کو ایک ہزار دینار میں قصائیوں کے ہاتھ بیچ دیتا۔‘‘

  • 9 ستمبر 1948:‌ "شاعرِ رومان” راہیِ ملکِ عدم ہوئے

    9 ستمبر 1948:‌ "شاعرِ رومان” راہیِ ملکِ عدم ہوئے

    دنیائے سخن میں‌ اختر شیرانی شاعرِ رومان مشہور ہیں۔ غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں‌ طبع آزمائی کرنے اختر شیرانی نے 9 ستمبر 1948 کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ آج اردو کے اس معروف شاعر کا یومِ وفات ہے۔

    اختر شیرانی اردو زبان و ادب کے نام وَر محقق حافظ محمود خان شیرانی کے فرزند تھے۔ 4 مئی 1905 کو ریاست ٹونک (راجستھان) میں پیدا ہونے والے اختر شیرانی کی زندگی کا بیشتر حصہ لاہور میں گزرا اور وہیں‌ مدفون ہیں۔

    اختر شیرانی متعدد ادبی جرائد کے مدیر رہے۔ وہ اپنی نظم نگاری کے لیے زیادہ مشہور ہوئے اور روایتی رومانوی مضامین کے باوجود ان کا براہِ راست محبوب سے خطاب ان کی شہرت کا ایک سبب ہے۔

    اختر ایک رندِ بلاخیز تھے اور اسی کثرتِ شراب نوشی نے انھیں‌ زندگی سے محروم کردیا۔انھوں نے اپنی نظموں‌ کا موضوع اپنی محبوب شہناز، ریحانہ، عذرا، سلمیٰ کو بنایا اور ان سے براہِ راست خطاب کرنے کے ساتھ منظوم خطوط سے بھی دل دہی اور دل داریاں‌ کیں۔

    اختر شیرانی کی نظموں‌ میں‌ خوب صورت استعارے اور تراکیب ملتی ہیں‌ اور شعری لطافتوں اور نزاکتوں کا اہتمام بھی نظر آتا ہے۔ اختر نے رباعیاں اور ماہیے بھی کہے اور غزل بھی جن کے مضامین خمریات سے بھرے ہیں۔

    اختر شیرانی کے شعری مجموعوں میں اخترستان، شعرستان، شہناز، جہاں ریحانہ رہتی ہے، صبحِ بہار، طیورِ آوارہ اور لالۂ طور شامل ہیں۔