Tag: اختر شیرانی کی برسی

  • اختر شیرانی: شاعرِ رومان جو خرابات کی نذر ہو گیا

    اختر شیرانی: شاعرِ رومان جو خرابات کی نذر ہو گیا

    محمد داؤد خان کو جہانِ شعروسخن میں اختر شیرانی کے نام سے شہرت اور رومانوی نظموں کی بدولت بے انتہا مقبولیت حاصل ہوئی۔ وہ مولانا تاجور نجیب آبادی کے شاگرد تھے۔

    ’’اے عشق کہیں لے چل‘‘ ، ’’او دیس سے آنے والے بتا‘‘ اور ’’ اے عشق ہمیں برباد نہ کر‘‘ وہ نظمیں تھیں جنھوں نے اختر شیرانی کو شاعرِ رومان مشہور کردیا۔

    اختر شیرانی 4 مئی 1905ء کو ریاست ٹونک (راجستھان) میں پیدا ہوئے۔ وہ اردو کے نام وَر محقّق اور عالم فاضل شخصیت جناب حافظ محمود خان شیرانی کے فرزند تھے۔ اختر شیرانی کی زندگی کا بیشتر حصّہ لاہور میں بسر ہوا۔ انھوں نے کئی ادبی جرائد کی ادارت کے ساتھ اپنی شاعری کی بدولت اردو ادب میں نام و مقام بنایا۔

    انھوں نے شاعری کے ساتھ نثر بھی لکھی، کئی کالم اور حکایات کے تراجم کے علاوہ اختر شیرانی نے بچّوں کا بھی ادب تخلیق کیا جس سے ان کا افادی ادب سے متعلق فکر اور رجحان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔

    اختر شیرانی عشق اور مے نوشی کے سبب بدنام بھی بہت ہوئے۔ والد کی خواہش تھی کہ وہ پڑھ لکھ کر معاشرے میں مقام اور کوئی باعزّت پیشہ و ملازمت اختیار کریں، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ کثرتِ شراب نوشی ہی ان کی ناگہانی موت کا باعث بنی۔ وہ کم عمری میں دنیا چھوڑ گئے۔

    اختر شیرانی کا پہلا مجموعہ کلام "پھولوں کے گیت” بچّوں کی نظموں پر مشتمل تھا۔ دوسرے مجموعہ کلام ” نغمۂ حرم” میں عورتوں اور بچّوں کے لیے نظمیں شامل ہیں۔ بڑی محنت اور تحقیق سے مختلف حکایات کو اردو کا جامہ پہنایا۔ ترکی کے ایک نگار کی کہانی کا ضحاک کے نام سے اردو ترجمہ کیا۔

    اختر شیرانی نے ہیئت میں بھی تجربات کیے۔ انھوں نے پنجابی سے ماہیا، ہندی سے گیت اور انگریزی سے سانیٹ کو اپنی شاعری میں کثرت سے برتا۔ رباعیات بھی کہیں، اور غزلیں بھی تاہم ان کی نظموں کو زیادہ پڑھا اور پسند کیا گیا۔

    رومانی نظم نگار کی حیثیت سے مشہور ہونے والے اختر شیرانی کے شعری مجموعوں میں غزلوں کی بھی کمی نہیں۔ تاہم انھیں غزل شاعر کے طور پر نہیں جانا جاتا۔

    ان کے شعری مجموعوں میں اخترستان، شعرستان، شہناز، جہاں ریحانہ رہتی ہے، صبحِ بہار، طیور آوارہ اور لالۂ طور سرِفہرست ہیں۔

    اختر شیرانی 9 ستمبر 1948ء کو وفات پاگئے تھے۔ انھیں لاہور میں میانی صاحب کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

    ان کا یہ شعر خیال آفرینی کی بہترین مثال ہے۔

    چمن میں رہنے والوں سے تو ہم صحرا نشیں اچّھے
    بہار آ کے چلی جاتی ہے ویرانی نہیں جاتی

  • 9 ستمبر 1948:‌ "شاعرِ رومان” راہیِ ملکِ عدم ہوئے

    9 ستمبر 1948:‌ "شاعرِ رومان” راہیِ ملکِ عدم ہوئے

    دنیائے سخن میں‌ اختر شیرانی شاعرِ رومان مشہور ہیں۔ غزل اور نظم دونوں اصنافِ سخن میں‌ طبع آزمائی کرنے اختر شیرانی نے 9 ستمبر 1948 کو ہمیشہ کے لیے آنکھیں‌ موند لی تھیں۔ آج اردو کے اس معروف شاعر کا یومِ وفات ہے۔

    اختر شیرانی اردو زبان و ادب کے نام وَر محقق حافظ محمود خان شیرانی کے فرزند تھے۔ 4 مئی 1905 کو ریاست ٹونک (راجستھان) میں پیدا ہونے والے اختر شیرانی کی زندگی کا بیشتر حصہ لاہور میں گزرا اور وہیں‌ مدفون ہیں۔

    اختر شیرانی متعدد ادبی جرائد کے مدیر رہے۔ وہ اپنی نظم نگاری کے لیے زیادہ مشہور ہوئے اور روایتی رومانوی مضامین کے باوجود ان کا براہِ راست محبوب سے خطاب ان کی شہرت کا ایک سبب ہے۔

    اختر ایک رندِ بلاخیز تھے اور اسی کثرتِ شراب نوشی نے انھیں‌ زندگی سے محروم کردیا۔انھوں نے اپنی نظموں‌ کا موضوع اپنی محبوب شہناز، ریحانہ، عذرا، سلمیٰ کو بنایا اور ان سے براہِ راست خطاب کرنے کے ساتھ منظوم خطوط سے بھی دل دہی اور دل داریاں‌ کیں۔

    اختر شیرانی کی نظموں‌ میں‌ خوب صورت استعارے اور تراکیب ملتی ہیں‌ اور شعری لطافتوں اور نزاکتوں کا اہتمام بھی نظر آتا ہے۔ اختر نے رباعیاں اور ماہیے بھی کہے اور غزل بھی جن کے مضامین خمریات سے بھرے ہیں۔

    اختر شیرانی کے شعری مجموعوں میں اخترستان، شعرستان، شہناز، جہاں ریحانہ رہتی ہے، صبحِ بہار، طیورِ آوارہ اور لالۂ طور شامل ہیں۔