Tag: اخوان المسلمون

  • حسن البنا:‌ اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والے مقبول لیڈر جنھیں قتل کر دیا گیا

    حسن البنا:‌ اسلامی نظام کا مطالبہ کرنے والے مقبول لیڈر جنھیں قتل کر دیا گیا

    دنیا کی تاریخ میں کئی سیاسی اور انقلابی تحریکوں اور کسی مقصد کے لیے جدوجہد کرنے والی شخصیات ایسی ہیں جن کو زندگی میں‌ بھرپور پذیرائی اور عوامی تائید نصیب ہوئی اور بعد از مرگ بھی ان کی مقبولیت کئی دہائیوں تک برقرار رہی۔ ان کا تذکرہ آج بھی حسبِ موقع ضرور کیا جاتا ہے، اور حسن البنا انہی میں‌ سے ایک ہیں۔

    بیسویں صدی میں حسن البنا کا نام اسلامی دنیا کے مشہور ملک مصر کے ایک مقبول لیڈر کے طور پر گونجا۔ یہ وہ صدی تھی جس میں دنیا نے کئی انقلاب دیکھے اور بہت سی تحریکوں نے سَر اٹھایا۔ مصر میں‌ ایک تحریک کا مقصد اپنے معاشرے کو خالص اسلامی نظام میں ڈھالنا تھا اور ’اخوانُ المسلمین‘ وہ تنظیم تھی جس نے مسلمانوں کو دینی، سیاسی شعور دینے اور ان میں‌ مسلم ثقافت کا تصور اجاگر کرنے کے لیے بڑی سرگرمی سے کام کیا۔ اس تنظیم کی بنیاد 1928 میں وہاں کے ایک معلّم حسنُ البنا نے رکھی تھی۔ اس وقت ان کی عمر 22 سال تھی۔ یہ وہ دور تھا جب خلافت کے بعد عرب دنیا میں کئی آزاد ریاستیں بن چکی تھیں۔ اس وقت اگرچہ نوآبادیاتی نظام خطرے سے دوچار تھا، لیکن ایشیا، مشرقِ وسطیٰ، افریقہ میں کئی ریاستیں اور علاقہ فرانس، اٹلی، برطانیہ اور دوسری طاقتوں کے زیر تسلط تھیں۔ حسن البنا نے عالمی جنگ سے لے کر خلافتِ عثمانیہ کے بکھر جانے تک بہت سیاسی اور سماجی تبدیلیاں‌ دیکھی تھیں۔ مصر میں ان کی تنظیم نے قیام کے بعد نہ صرف تعلیم یافتہ بلکہ عام لوگوں کو بھی جلد اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ اس تحریک نے مذہب اور سیاست کو یکجا کرنے کا جو تصور دیا تھا اس سے لوگ بہت متاثر تھے۔

    شیخ حسن البنا 14 اکتوبر 1906 کو مصر کی محمودیہ نامی بستی میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے شیخ عبدالوہاب حصافی سے تعلیم و تربیت حاصل کی اور سنہ 1927 میں فارغ التحصیل ہونے کے بعد ایک اسکول سے بطور مدرس وابستہ ہو گئے۔ اس دور میں یہ بات پھیلی کہ نہر سویز کا کنٹرول سنبھالنے والی برطانوی کمپنیاں مصری کارکنوں کے ساتھ ناانصافی کر رہی ہیں۔ حسن البنا نے طبقاتی اونچ نیچ اور برطانوی انجینئروں اور ان کمپنیوں کے یورپین منیجروں کو عالی شان اور پرآسائش مکانوں میں عیش اڑاتے دیکھا جب کہ مصری باشندے اور ان کمپنیوں‌ کے ساتھ کام کرنے والے مفلوک الحال اور کچے گھروں میں رہنے پر مجبور تھے۔ انھیں یہ بھی محسوس ہوا کہ مصر میں‌ اسلامی اقدار کو اہمیت نہیں‌ دی جارہی۔ اس نے حسن البنا کو اخوان المسلمین کی بنیاد رکھنے پر آمادہ کیا جس کا نصب العین اسلامی تعلیمات کا نفاذ اور بیرونی غلبے کے خلاف آواز بلند کرنا تھا۔ صرف چند برس بعد یہ تنظیم ملک کے طول و عرض میں پھیل گئی۔ مصر کے طول و عرض میں اخوان المسلمین کی شاخیں قائم ہوئیں‌ اور اس کے بینر تلے طلبا اور مزدوروں کو منظم کیا گیا اور عورتوں کے لیے ایک علیحدہ شعبہ قائم کیا گیا۔ اس تنظیم کے تحت مدارس قائم کیے گئے اور رفاہ عامہ کے کئی کام انجام دیے جانے لگے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ایک ایسا نظام بنایا گیا جس کے تحت تنظیم کے کارکن بہترین مسلمان بن سکیں۔ اس کے علاوہ حسن البنا نے اسلامی حکومت کے قیام اور اسلامی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کردیا۔ رسائل اور اخبارات کے ساتھ مختلف موضوعات پر کتابچوں کے ذریعے انھوں نے اپنے اغراض و مقاصد کی پُر زور تبلیغ کی اور اسلام کو راہ نما مذہب ثابت کیا۔

    حسن البنا نے عملی سیاست میں حصہ لینے کا آغاز کیا تو دیگر سلطنت کے مسلمان حکم رانوں سے بھی رابطہ کیا۔ انھیں اپنی فکر اور مقصد سے آگاہ کیا اور سنہ 1936 میں مصر کے بادشاہ اور دیگر عرب حکمرانوں کو بذریعہ مکتوب اسلامی نظام کے نفاذ کی طرف متوجہ کیا۔ اس کے دو سال بعد انھو‌ں نے مصر میں سیاسی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے وہاں کے عوام کو برطانوی تسلط کے خلاف صف آرا کر دیا۔ حسن البنا نے سنہ 1948 میں فلسطین سے برطانیہ کے انخلا کے بعد جہاد فلسطین میں عملی حصہ لیا اور اخوان رضا کاروں نے بھی مقابلے میں شجاعت کا مظاہرہ کیا۔ اس سے اخوان کی مقبولیت میں بے انتہا اضافہ ہوا۔ 1948ء میں مصری حکومت نے تنظیم کے خلاف برطانوی دباؤ پر آپریشن شروع کر دیا اور اس کے ہزاروں کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا۔

    اس کے تین ہفتے بعد مصر کے وزیر اعظم نقراشی پاشا کا قتل ہو گیا اور کہا جاتا ہے کہ اسی کے جواب میں ایک کارروائی میں 12 فروری 1949ء کو حسن البنا ایک نامعلوم قاتل کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ شہادت کے وقت ان کی عمر صرف 43 برس تھی۔

  • کیا بورس جانسن اخوان المسلمون سے متعلق برطانوی پالیسی تبدیل کریں گے؟

    کیا بورس جانسن اخوان المسلمون سے متعلق برطانوی پالیسی تبدیل کریں گے؟

    لندن :برطانیہ میں حکومت کی تبدیلی کے ساتھ ہی ذرائع ابلاغ میں یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آیا نومنتخب وزیراعظم بورس جانسن اور ان کی جماعت کنزر ویٹیو پارٹی عرب دنیا کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت اخوان المسلمون کے بارے میں اپنیپالیسی تبدیل کرے گی؟

    تفصیلات کے مطابق برطانیہ کی ایک نیوز ویب سائٹ کی رپورٹ میں بورس جانسن کی زندگی، ان کے نظریات، مذہبی جماعتوں کے بارے میں ان کے افکارپرروشنی ڈالی گئی ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ بورس جانسن کا سیاسی پس منظر ان کے خاندانی واقعات سے کم دلچسپ نہیں۔

    بورس جانسن ایک مصنف اور دانشور بھی ہیں جو خطے اور علاقائی وعالمی سیاست پربھی گہری دست رست رکھتے ہیں،انہوں نے سنہ2006ءمیں رومن سلطنت کے حوالے سے ایک کتاب تالیف کی۔

    انہوں نے اس میں لکھا کہ دنیا کے بعض خطوں میں ترقیاتی عمل میں رکاوٹ کا ایک سبب اسلام سمجھا جاتا تھا، اس کے نتیجے میں اسلام کی مظلومیت کی بات کی گئی اور یہی تاثر دنیا میں جنگوں کا موجب بن گیا۔

    عرب ٹی وی کے مطابق بورس جانسن نے اپنی کتاب”جانسن اور روم کا خواب“ میں اسلام کے حوالے سے جوموقف اختیار کیا اس پرانہیں سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

    انہوں نے لکھا کہ مغرب کی نسبت اسلام مادی ترقی میں مسلمان ممالک کی پسماندگی کا سبب بنا اور یہ سلسلہ صدیوں سے جاری رہا، بورس جانسن کے اسلام کے حوالے سے نظریات اخبار نے بھی شائع کیے تھے۔

    برطانیہ کی طرف سے اخوان المسلمون کے حوالے سے اپنائے گئے مؤقف پر بھی بہت سے سوالیہ نشان ہیں۔ کئی ممالک جن میں مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور دوسرے ملکوں میں اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ہے۔ ایسے میں بعض ممالک اخوان کو پناہ اور تحفظ فراہم کرتے ہیں۔

    اخوان کے رہ نماﺅں اور ارکان کی بڑی تعداد قطر، ترکی اور برطانیہ میں موجود ہے اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جاتی کیونکہ یہ ممالک اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار نہیں دیتے۔

    مبصرین کا خیال ہے کہ برطانیہ کی کنزر ویٹیو پارٹی کے اخوان المسلمون کے ساتھ مضبوط تعلقات قائم ہیں۔ اخوان نے برطانوی کنزر ویٹیو پارٹی کو متعدد انتخابات میں کامیابی کےلیے مدد فراہم کی۔

    اخوان کے حامی لوگوں نے کنزر ویٹیو پارٹی کے امیداروں کو ووٹ دیے۔ اس کے علاوہ برطانوی سیکیورٹی ادارے مشرق وسطیٰ کے بعض ممالک پر دباؤ کےلیے اخوان المسلمون کو ایک آلہ کارکے طورپر استعمال کرتے ہیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ جانسن سبکدوش ہونے والی برطانوی وزیراعظم تھریسا مے کی نسبت اخوان المسلمون اور اس کے مالیاتی نیٹ ورک کے بارے میں ایک نیا موقف اختیار کرسکتے ہیں۔برطانیہ میں موجود اخوان المسلمون کی قیادت کو بھی خدشہ لاحق ہے کہ بورس جانسن کے دور حکومت میں اخوان پرعرصہ حیات تنگ کیا جاسکتا ہے۔

  • کویتی پولیس نے اخوان المسلمون کا ’دہشت گرد گروہ‘ گرفتار کرلیا

    کویتی پولیس نے اخوان المسلمون کا ’دہشت گرد گروہ‘ گرفتار کرلیا

    کویت سٹی : کویتی پولیس نے اخوان المسلمون سے وابستہ دہشت گروہ کو گرفتارکرلیا، زیر حراست تمام افراد مصری عدالتوں کی طرف سے اشتہاری قرار دیے گئے تھے۔

    تفصیلات کے مطابق خلیجی ریاست کویت کی وزارت داخلہ نے کہاہے کہ پولیس نے ایک کارروائی کے دوران اخوان المسلمون سے وابستہ دہشت گرد نیٹ ورک کا پتا چلایا ہے۔ اب تک اس نیٹ ورک سے وابستہ آٹھ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کا کہنا تھا کہ گرفتار ہونے والے افراد مصری عدالتوں کی طرف سے اشتہاری قرار دیے گئے تھے اور ان میں سے بعض کو 15 سال قید کی سزائیں بھی سنائی گئی ہیں۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق کویتی وزارت داخلہ کی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ گرفتار عناصر مصری حکام سے فرار کے بعد کویت آ گئے تھے، جہاں وہ خفیہ طور پر اخوان کی سرگرمیوں میں ملوث رہے۔ کویتی پولیس اور دیگر سیکیورٹی اداروں نے ان پر نظر رکھی ہوئی تھی۔

    خبر رساں ادارے کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ کویت میں اخوان عناصر پر مشتمل اس سیل کے خلاف بروقت کارروائی کرکے ملک کو انارکی سے بچا لیا گیا۔کویت کے متعلقہ اداروں نے دوران تفتیش ملزمان سے دوسرے ساتھیوں کے مختلف جگہوں پر بنائے ٹھکانوں کی بابت معلوم کیا اور پھر وہاں پیشگی چھاپہ مار کارروائی کر کے گرفتاریاں کیں۔

    غیر ملکی میڈیا کا کہنا تھا کہ گرفتار ملزموں نے اعتراف کیا کہ وہ دہشت گرد کارروائیاں کرتے رہے ہیں۔ نیز مصری سرزمین پر وہ مختلف مقامات پر دہشت گرد کارروائیوں کا ارتکاب کر چکے ہیں،انہیں کس نے اتنی دیر پناہ دی اور کون کون ان لوگوں کے رابطے میں تھے اور کون انہیں تعاون فراہم کر رہے تھے، سب کی تحقیقات ہو رہی ہیں۔

    کویتی وزارت داخلہ نے خبردار کیا کہ دہشت گردی کے اس نیٹ ورک سے معاملات کرنے والوں کے کسی کوئی رو رعایت نہیں کی جائے گی۔ کویت کی سلامتی کو نقصان پہنچانے والوں کے ساتھ آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا۔

  • مصر: الاخوان کے 6 ارکان کو سنائی گئی سزائے موت کا معاملہ مفتیِ اعظم کے سپرد

    مصر: الاخوان کے 6 ارکان کو سنائی گئی سزائے موت کا معاملہ مفتیِ اعظم کے سپرد

    قاہرہ: مصر کی ایک فوجداری عدالت نے کالعدم مذہبی سیاسی جماعت الاخوان المسلمون کے چھ ارکان کو قتل اور دہشت گردی کے الزامات میں قصور وار قرار دے کر سنائی گئی سزائے موت کا معاملہ غیر پابند حتمی رائے کے لیے ملک کے مفتیِ اعظم کو بھیج دیا ہے۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق قاہرہ کی فوجداری عدالت نے کہا کہ یہ تمام چھ مدعاعلیہان ایک پولیس اہلکار سمیت تین افراد کی ہلاکت اور دوسرے الزامات میں قصور وار پائے گئے تھے اور انھیں اس مقدمے میں سزائے موت سنائی گئی تھی۔

    اس مقدمے میں کل 70 مدعاعلیہان کو ماخوذ کیا گیا تھا۔ وہ اس فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدالت میں اپیل دائر کرسکتے ہیں۔ واضح رہے کہ مصر کی عدالتوں نے جولائی 2013ء میں ملک کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی برطرفی کے بعد سے الاخوان المسلمون کے مرشد عام محمد بدیع سمیت سیکڑوں رہ نماؤں اور کارکنان کو تھوک کے حساب سے قید اور پھانسی کی سزائیں سنائی ہیں۔

    وہ اس وقت مختلف جیلوں میں قید بھگت رہے ہیں لیکن اب تک کسی بڑے رہ نما کو تختہ دار پر نہیں لٹکایا گیا ہے۔ قاہرہ کی فوجداری عدالت نے گذشتہ سال الاخوان کے 75 ارکان کو 2013ء میں احتجاجی دھرنوں اور تشدد کے واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات میں قصور وار قرار دے کر سزائے موت کا حکم دیا تھا۔

    لیبیا کی پارلیمان نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا

    عدالت نے محمد بدیع سمیت سینتالیس افراد کو ان ہی الزامات میں عمرقید کی سزائیں سنائی تھیں۔ ان پر ریاست کے خلاف حملوں کی منصوبہ بندی کرنے اور تشدد کی شہ دینے کے الزامات بھی عاید کیے گئے تھے۔

  • لیبیا کی پارلیمان نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا

    لیبیا کی پارلیمان نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا

    طرابلس: طبرق میں قائم لیبیا کی پارلیمان نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا۔

    تفصیلات کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھی اخوان المسلمون کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے اعلان کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔

    غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق لیبی پارلیمان نے یہ فیصلہ ایوان میں پیش کی جانے والی ایک قرارداد کو اکثریتی ووٹ ملنے کے بعد کیا۔

    پارلیمنٹ کی نیشنل دفاع وسلامتی کمیٹی کے رکن طارق الجروشی نے بتایا کہ لیبیا نیشنل آرمی کے پاس اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ اخوان المسلمون کے رہنما ترکی اور قطر میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔

    لیبی پارلیمنٹ کی ویب سائٹ پر جاری ایک بیان کے مطابق اخوان المسلمون کے ایک رکن محمد مرغم نے وڈیو بیان میں ترکی سے لیبیا میں فوجی مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا جس پر ان کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے گی۔

    خیال رہے کہ امریکا میں بھی اخوان المسلمون کوعالمی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی کوششیں کئی سال سے جاری ہیں۔ امریکا اخوان اور اس کے ساتھ منسلک دیگر اداروں، شخصیات اور تنظیموں کے مالی سوتے خشک کرنے کے لیے قانون سازی کے لیے کوشاں ہے۔

    امریکا نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قراردینے کی تیاریاں تیزکردیں

    ٹرمپ انتظامیہ کے سینئر عہدیداروں کی جانب سے رواں ماہ بتایا گیا تھا کہ اخوان المسلمون جماعت امریکا کی سلامتی کے خطرے کا موجب بن سکتی ہے۔ اسی خدشے کے پیش نظر اخوان المسلمون کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی کوششیں جاری ہیں۔

  • امریکا نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قراردینے کی تیاریاں تیزکردیں

    امریکا نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد قراردینے کی تیاریاں تیزکردیں

    واشنگٹن: امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ اور کانگریس میں ان کے اتحادیوں کی طرف سے اخوان المسلمون کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کے اعلان کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق کے مطابق امریکا میں اخوان المسلمون کوعالمی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی کوششیں کئی سال سے جاری ہیں۔ امریکا اخوان اور اس کے ساتھ منسلک دیگر اداروں، شخصیات اور تنظیموں کے مالی سوتے خشک کرنے کے لیے قانون سازی کے لیے کوشاں ہے۔

    امریکی اخبار کے مطابق امریکی کانگریس میں صدر ٹرمپ اور ان کے اتحادیوں کی جانب سے رکن کانگریس ایڈم کریڈو کی تحقیق کی روشنی میں اخوان المسلمون کو عالمی دہشت گرد گروپ قرار دینے کی کوششوں کو حتمی شکل دی جا رہی ہے۔

    ٹرمپ انتظامیہ کے سینئر عہدیداروں کی جانب سے رواں ہفتے کو بتایا گیا تھا کہ اخوان المسلمون جماعت امریکا کی سلامتی کے خطرے کا موجب بن سکتی ہے۔ اسی خدشے کے پیش نظر اخوان المسلمون کو عالمی دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی کوششیں جاری ہیں۔

    امریکی سینٹر ٹیڈ کروز نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی کوششوں کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس میں اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی کوششیں تیز کر دی گئی ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ اخوان المسلمون کی سرگرمیوں کے حوالے سے کی جانے والی تحقیق میں جماعت اور اس کی قیادت کو دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث پایا گیا ہے۔ذرائع کا کہنا ہے کہ کانگریس میں ہونے والی قانون سازی ٹرمپ انتظامیہ کے لیے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کی راہ ہموار کرے گی۔ان کا کہنا تھا کہ اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قراردینے کی کوششیں دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والے ایران جیسے ملکوں اور حزب اللہ جیسی تنظیموں کے خلاف کارروائی کا حصہ ہے۔

    حال ہی میں امریکی انتظامیہ نے ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا۔ اس میں پاسداران انقلاب کے سمندر پار آپریشنل یونٹ فیلق القدس بھی شامل ہے۔ اب اگلے مرحلے میں اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا جا رہا ہے۔

    ایک سینئر امریکی عہدیدار نے اپنے بیان میں کہا کہ صدر ٹرمپ کی پہلی ترجیح امریکیوں کے جان ومال کا تحفظ یقینی بنانا ہے۔ وہ کسی بھی دہشت گردی کو سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ انہوں نے جرات کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایران کے پاسداران انقلاب کو بھی دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا ہے۔

  • امریکا نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا فیصلہ کرلیا

    امریکا نے اخوان المسلمون کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا فیصلہ کرلیا

    واشنگٹن: امریکا کی ٹرمپ انتظامیہ مصر کی قدیم مذہبی وسیاسی، مگر کالعدم جماعت الاخوان المسلمون کو ایک غیرملکی دہشت گرد تنظیم قرار دینے پر کام کررہی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق امریکا کی جانب سے فیصلہ کیا گیا ہے کہ اخوان المسلمون کو جلد دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا جائے گا، اس کے بعد یہ مصری تحریک امریکی پابندیوں کی زد میں آجائے گی۔

    غیرملکی خبررساں ادارے کے مطابق وائٹ ہاﺅس کی پریس سیکریٹری سارہ سینڈرس نے ایک بیان میں کہا کہ صدر ٹرمپ نے اپنی قومی سلامتی کی ٹیم اور خطے میں اپنے ہم خیال لیڈروں سے اس موضوع پر مشاورت کی ہے۔

    اب الاخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دینے کے لیے داخلی سطح پر کام جاری ہے۔

    واضح رہے کہ عبدالفتاح السیسی نے مسلح افواج کے سربراہ کی حیثیت سے جولائی 2013 میں الاخوان المسلمون سے تعلق رکھنے والے ملک کے پہلے منتخب صدر ڈاکٹر محمد مرسی کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور اس کے ردعمل میں احتجاج کرنے والے اسلام پسندوں کے خلاف کئی ماہ تک سخت کریک ڈان کیا تھا۔

    اس کے ایک سال بعد عبدالفتاح السیسی پہلی مرتبہ ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے، خیال رہے کہ الاخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دینے کے لیے داخلی سطح پر کام جاری ہے۔

    امریکا کی پولیٹیکل سیکیورٹی سینیٹر کی جانب سے ایرانی پاسداران انقلاب کو دہشت گرد قرار دینے کے فیصلے کی تائید کرتے ہوئے گذشتہ ماہ ٹرمپ سے اخوان المسلمون کو بھی دہشت گرد قرار دینےکا مطالبہ کیا تھا۔

    امریکا کی پولیٹیکل سیکیورٹی سینیٹر کا اخوان کو دہشت گرد تنظیم قرار دینے کا مطالبہ

    یاد رہے کہ دسمبر 2013 میں مصری کی عبوری حکومت نے سابق صدر محمد مرسی کی جماعت اخوان المسلمون کو دہشت گرد قرار دے دیا تھا، عبوری حکومت کی جانب سے اخوان المسلمون کو حکومت مخالف مظاہروں، بم دھماکوں اور دیگر تشدد کے واقعات کے بعد دہشت گرد جماعت قرار دیا گیا تھا۔

  • اخوان المسلمون نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا، ان کے خلاف شواہد موجود ہیں: سعودی عرب

    اخوان المسلمون نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا، ان کے خلاف شواہد موجود ہیں: سعودی عرب

    ریاض: سعودی وزیر برائے مذہبی امور ڈاکٹر شیخ عبد الطیف نے کہا ہے کہ اخوان المسلمون نے اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچایا، دہشت گردی میں ملوث ہونے کے شواہد بھی موجود ہیں۔

    ان خیالات کا اظہار انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا، ڈاکٹر شیخ عبد الطیف کا کہنا تھا کہ اخوان المسلمون نے سعودی عرب میں بھی بغاوت کے بیج بونے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔

    انہوں نے کہا کہ ان کے خلاف ثبوت موجود ہے کہ یہ کس طرح دوسرے ممالک میں تخریبی کارروائیاں کرتے تھے، سعودی عرب کو اللہ پاک نے محفوظ رکھا۔


    القاعدہ کے سربراہ ڈاکٹر ایمن الظواہری اخوان المسلمون کے حق میں سامنے آگئے


    سعودی وزیر برائے مذہبی امور کا کہنا تھا کہ ہمارے علماء اور دانشور قیادت شہریوں کے ساتھ یکجا اور متحد رہے جس کی بدولت ہم استحکام اور اتحاد کی جانب آگے بڑھنے میں کامیاب رہے ہیں۔

    ان کا کہنا تھا کہ اخوان المسلمون نے قرآن وسنت کے منافی انتہا پسندانہ نظریات کی تبلیغ کی اور سخت گیر نقطہ نظر کی تشہیر کی، اور لوگوں کو انتہا پسندی پر اکسایا اور انھیں نقصان پہنچایا۔

    دوسری جانب گذشتہ ماہ ایک مصری عدالت نے کم از کم 75 افراد کو موت کی سزا سنائی تھی جن میں اخوان المسلمون کے اعلیٰ سطح قیات کے متعدد رکن بھی شامل ہیں، ان افراد کو پانچ سال قبل ایک دھرنے میں شریک ہونے کے بعد پرتشدد حالات پیدا کرنے کے الزامات کا سامنا تھا۔

  • اسلامی اسکالرطارق رمضان پر جنسی ہراسگی کے الزام میں فرد جرم عائد

    اسلامی اسکالرطارق رمضان پر جنسی ہراسگی کے الزام میں فرد جرم عائد

    پیرس : آکسفورڈ یونیورسٹی میں کلیہ اسلامی اور شعبہ عصر حاضر کے مذاہب کے پروفیسر، معروف اسلامی اسکالر طارق رمضان پر خاتون کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں فرد جرم عائد کردی گئی ہے۔

    تفصیلات کے مطابق دو خواتین کو جنسی طور پر ہراساں کرنے کے الزام میں پیرس کی جیل میں قید پروفیسر طارق رمضان پر جمعہ کے روز فرد جرم عائد کردی گئی ہے تاہم انہوں نے الزامات کی کھلے الفاظ میں تردید کی ہے۔

    ذرائع کے مطابق پیرس کی عدالت میں تین رکنی ججز کے بنچ نے اس حساس مقدمے کی سماعت کی جس کے دوران پروفیسر طارق رمضان کے وکلاء نے ضمانت کی درخواست بھی دائر کی تاہم اس پر فیصلہ موخر کردیا گیا چنانچہ انہیں مزید ایک ہفتے جیل میں رہنا ہوگا۔

    دورانِ سماعت 45 سالہ نومسلمہ فرانسیسی خاتون نے اپنا بیان قلم بند کراتے ہوئے جنسی طور پر ہراساں کرنے کا الزام عائد کیا، خاتون کا طارق رمضان سے بالمشافہ ملاقات اور بعد ازاں اسکائپ پر گفتگو کا حوالہ دیتے ہوئے کہنا تھا کہ میں ان سے مختلف امور پر رہنمائی لیا کرتی تھی اور اسی دوران پروفیسر طارق رمضان نے مجھے شادی کی پیشکش بھی کی اور اسکائپ پر عارضی نکاح کا وعدہ بھی کیا۔

    خاتون نے اپنے بیان میں مزید بتایا کہ مذہبی اسکالر طارق رمضان نے لیون میں اسلامو فوبیا اور فلسطین کے موضوع پر ہونے والی ایک کانفرنس میں مجھے بھی مدعو کیا تھا جہاں پہلی مرتبہ بالمشافہ ملاقات ہوئی تاہم لاؤنج میں گفتگو کے دوران انہوں نے مجھے کمرے میں چلنے کو کہا اور وہاں مجھ پر جنسی حملہ کیا۔

    نو مسلمہ فرانسیسی خاتون کی جانب سے عدالت میں قلم بند کرائے گئے کوئی ساڑھے تین گھنٹے پر محیط بیان کے موقع پر طارق رمضان کے وکلاء یاسین بوذر اور جولی گرینیر اور متاثرہ عورت کا وکیل ایرک موریان بھی موجود تھے۔

    غیرملکی میڈیا کے مطابق پروفیسر طارق رمضان نے عدالت کے سامنے مذکورہ خاتون کے بیان کی تردید کرتے ہوئے بیان پر دستخط کرنے سے انکار کردیا تاہم انہوں نے خاتون سے پسندیدگی اور شادی کے وعدے کااعتراف اور ہوٹل میں ملاقات کے وقت مصافحہ و گلے ملنے کا اعتراف کیا۔


     اسی سے متعلق : معروف اسلامی اسکالر پروفیسر طارق زیادتی کے الزام میں گرفتار


    خیال رہے کہ طارق رمضان کے خلاف جنسی ہراسانی کا ایک اور مقدمہ 2017 کے آخر میں انسانی حقوق کی نمائندہ کارکن ہندہ عیاری نے دائر کیا تھا جسے طارق رمضان نے یکسر مسترد کرتے ہوئے اُن کی شہرت کو نقصان پہنچانے کی مذموم کوشش قرار دیا تھا۔

    یاد رہے انسانی حقوق کی کارکن اور نومسلمہ فرانسیسی خاتون کی جانب سے شکایات درج کرانے کے بعد پروفیسر طارق رمضان جو کہ اسلامی تنظیم اخوان المسلمون کے بانی حسن البنا کی صاحبزادی وفا البنا کے صاحبزادے بھی ہیں کو یکم فروری کو حراست میں لیا تھا

    پروفیسر طارق رمضان نے سوئٹزرلینڈ میں ہی گریجویشن کی اور پھر فلسفہ اور فرانسیسی ادب کی تعلیم حاصل کی جس کے بعد عربی اور مطالعہ علوم اسلامی کی تعلیم جامعۃ الازہر سے حاصل کی اور درس و تدریس کو اپنا اوڑنا بچھونا بنایا، وہ عراق پر اتحادی فوجوں کے حملے کے سخت ناقد بھی تھے۔


    اگر آپ کو یہ خبر پسند نہیں آئی تو برائے مہربانی نیچے کمنٹس میں اپنی رائے کا اظہار کریں اور اگر آپ کو یہ مضمون پسند آیا ہے تو اسے اپنی فیس بک وال پر شیئر کریں۔

  • اردن،غزہ میں اسرائیلی جارحیت کےخلاف احتجاجی ریلی

    اردن،غزہ میں اسرائیلی جارحیت کےخلاف احتجاجی ریلی

    عمان:غزہ میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف اورفلسطینیوں کےساتھ یکجہتی کیلئے اردن میں ہزاروں لوگوں نےریلی نکالی۔

    اسرائیل کےخلاف نکالی جانےوالی ریلی میں اخوان المسلمون کےارکان نےمطالبہ کیا کہ عمان میں قائم اسرائیلی سفارتخانےکو فوری طورپربندکیاجائے۔

    ریلی میں مظاہرین نےاخوان المسلمون،اردن اور فلسطین کے جھنڈے اور بینرزاٹھارکھےتھے۔

    مظاہرین نے عرب ممالک کےحکمرانوں پرزوردیا کہ وہ فلسطین کوآزاد کرانے میں اپنا کردارادا کریں۔