Tag: اداکارہ برسی

  • شمیم آرا: پاکستانی فلموں کی مقبول اداکارہ اور کام یاب ہدایت کار

    شمیم آرا: پاکستانی فلموں کی مقبول اداکارہ اور کام یاب ہدایت کار

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں شمیم آرا کو ان کے فن اور پروقار شخصیت کی بدولت مقبولیت ہی نہیں بے پناہ عزت اور احترام بھی ملا۔ وہ اپنے وقت کی مقبول ترین فلمی ہیروئن تھیں جن کا کیریئر 30 سال پر محیط ہے۔ آج شمیم آرا کی برسی منائی جارہی ہے۔

    اداکارہ شمیم آرا نے ہیروئن کے بعد بطور کریکٹر ایکٹریس بھی بڑی شان سے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا اظہار کیا۔ انھوں نے بعد میں بطور ہدایت کار بھی خود کو منوایا تھا۔

    شمیم آرا کا تعلق بھارت کے شہر علی گڑھ سے تھا جو ایک علمی و تہذیبی مرکز رہا ہے۔ وہ علی گڑھ سے پاکستان منتقل ہوگئی تھیں۔ شمیم آرا کا اصل نام ’’پتلی بائی‘‘ تھا جنھیں پاکستانی فلموں میں فلم ساز و ہدایت کار نجم نقوی نے شمیم آرا کے نام سے متعارف کروایا۔ وہ اردو فلم’’ کنواری بیوہ‘‘ میں پہلی مرتبہ بطور اداکار نظر آئیں جو ایک ناکام فلم ثابت ہوئی مگر شمیم آرا نے اپنی ابتدائی دور کی ناکامیوں کے باوجود انڈسٹری سے تعلق برقرار رکھا اور پھر وہ لاہور چلی گئیں۔ شمیم آرا کو لاہور میں نام ور ہدایت کار ہمایوں مرزا نے اپنی فلم ’’ہم راز‘‘ میں اداکارہ مسرت نذیر کے ساتھ کاسٹ کیا اور سائیڈ رول شمیم آرا نے بھرپور پرفارمنس سے فلم بینوں کو اپنی جانب متوجہ کرلیا۔ فلم سازوں کو اداکارہ کے مکالمے ادا کرنے کا سادہ انداز اور بہترین اردو کا تلفظ اچھا لگا اور رفتہ رفتہ شمیم آرا کے فن و شخصیت میں نکھار آتا گیا۔

    اداکارہ کو اصل شہرت اردو زبان میں میں بننے والی فلم ’’بھابی‘‘ سے ملی۔ اس کے بعد ’’سہیلی‘‘ اور ’’فرنگی‘‘ وہ فلمیں ثابت ہوئیں جنھوں نے شمیم آرا کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اردو فلم ’’لاکھوں میں ایک‘‘ میں شمیم آرا کی پرفارمنس بہت جاندار رہی اور اس فلم نے شان دار کامیابی حاصل کی۔ اس فلم کے بعد شمیم آرا فلم انڈسٹری کی مصروف ترین اداکار بن گئیں۔ شمیم آرا نے مشہور رنگین فلم ’’نائلہ‘‘ میں اپنے وقت کے مقبول ہیرو اور باکمال اداکار سنتوش کمار کے ساتھ مرکزی کردار ادا کیا۔ ان کی جوڑی بہت پسند کی گئی۔بعد میں شمیم آرا نے کمال، محمد علی، ندیم اور وحید مراد کے ساتھ بھی کام کرکے فلم بینوں کے دل جیتے۔ شمیم آرا کو فلموں میں مختلف نوعیت کے کردار ادا کرنے کا بے حد شوق تھا۔ پھر ایک وقت آیا کہ شمیم آرا نے اداکاری کے ساتھ بطور ہدایت کار اور فلم ساز بھی کام کیا۔

    اداکارہ شمیم آرا کی ذاتی زندگی میں کئی پریشان کن موڑ آئے۔ ان کی کوئی شادی بھی کام یاب نہ ہوسکی۔ اس وقت اداکار کمال اور شمیم آرا کے درمیان محبت اور شادی کا چرچا بھی ہوا۔ لیکن شمیم آرا کی نانی کی وجہ سے بات آگے نہ بڑھ سکی۔ شمیم آرا کی شادی فلم ساز فرید احمد سے ہوئی جنھوں نے ’عندلیب‘، ’بندگی‘، ’سہاگ‘، ’خواب اور زندگی‘ اور ’زیب انسا‘ جیسی کام یاب فلمیں بنائیں۔ پھر شمیم آرا فلم ساز و تقسیم کار اے مجید کی دلہن بنیں۔ آخری شادی تقریباً بڑھاپے میں دبیرالحسن نامی فلمی رائٹر سے کی تھی۔ جب شمیم آرا کا فلم انڈسٹری میں وقت ختم ہوا تو دبیر الحسن نے بھی ان کا ساتھ چھوڑ دیا اور تب وہ اپنے بیٹے کے پاس لندن چلی گئیں۔ لندن ہی میں 5 اگست 2016ء کو وفات پائی اور وہیں آسودۂ خاک ہوئیں۔

    فلم کی دنیا میں شمیم آرا نے ’ہمراز، سہیلی، دوراہا، صاعقہ، مجبور، زمانہ کیا کہے گا، سہاگ، فرنگی، چنگاری، سالگرہ سمیت 86 فلموں میں اداکاری کی۔ ان کی مشہور فلموں میں قیدی، اک تیرا سہارا، انسان بدلتا ہے، آنچل، لاکھوں میں ایک، دل بیتاب، خاک اور خون، پرائی آگ، دوسری ماں، فیصلہ، بھابھی، پلے بوائے شامل ہیں۔

    شمیم آرا انتہائی خوش اخلاق اور مؤدب خاتون مشہور تھیں اور ساتھی فن کاروں کے مطابق انھیں بہت کم غصہ آتا تھا۔ شمیم آرا انتہائی حساس طبیعت کی مالک تھیں۔ ابتدائی عمر میں ہی ماں کی شفقت سے محروم ہوگئی تھیں اور نانی کے زیر تربیت رہیں جن کے فیصلوں کے آگے وہ بے بس تھیں۔ شمیم آرا کی پیشہ ورانہ زندگی پر ان کی نانی کی گرفت سخت رہی۔ اداکارہ کی پیدائش 1940ء کی تھی۔ قیام پاکستان کے فوراً بعد پاکستان کے شہر کراچی آگئی تھیں اور یہاں سے لاہور منتقل ہوگئیں جو فلمی مرکز بنا ہوا تھا۔

    اداکارہ کو 1960ء میں صدارتی ایوارڈ دیا گیا تھا جب کہ بہترین نگار ایوارڈ فلم ’’فرنگی پر ملا تھا۔ شمیم آرا کو اس لیے بھی یاد کیا جاتا ہے کہ انھوں نے اپنی فلموں میں عورت کو طاقت ور اور بہادر دکھایا ہے جس کی مثال ’مس ہانگ کانگ‘، ’مس کولمبو‘، ’مس سنگاپور‘ اور ’مس بینکاک‘ جیسی فلمیں ہیں جن میں ہیروئن اور خاتون کردار کو انھوں نے ظالم اور بدمعاش سے لڑتے ہوئے پیش کیا۔

  • آشا پوسلے: ایک ناکام اداکارہ جو پہلی پاکستانی فلم کی ہیروئن تھیں

    آشا پوسلے: ایک ناکام اداکارہ جو پہلی پاکستانی فلم کی ہیروئن تھیں

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کی پہلی فلم تیری یاد 1948ء میں عید کے دن ریلیز ہوئی۔ اس کی ہیروئن آشا پوسلے تھیں۔ اداکارہ کا نام فلمی تاریخ میں پہلی پاکستانی ہیروئن کے طور پر رقم ہوا۔ تاہم آشا پوسلے متاثر کن اور قابلِ ذکر اداکارہ نہیں تھیں۔ کہا جاتا ہے کہ تیری یاد میں بھی انھیں فلم ساز کی سفارش پر ہیروئن کاسٹ کیا گیا تھا۔

    پاکستان کی سب سے پہلی فلم تیری یاد کی کہانی میں‌ ایک امیر شخص اپنی تمام جائیداد، اپنی نومولود بیٹی اور اپنے ایک عزیز دوست کے نومولود بیٹے کے نام کر کے دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے۔ امیر شخص کی موت کے بعد اس کا دوست لالچ میں آجاتا ہے اور اب اس کی نظریں‌ مرحوم کی ساری جائیداد پر ہوتی ہیں۔ وہ جائیداد ہتھیانے کے لیے اس کی نومولود بچی کو دودھ میں زہر ملا کر دے دیتا ہے جس سے بچی ہلاک ہو جاتی ہے۔ امیر شخص کی بیوہ اور اس بچی کی ماں کو اس کا علم ہونے پر وہ ایک ڈاکٹر کی مدد سے اس لالچی انسان کو سزا کا خوف دلاتی ہے اور اسے ڈرا دھمکا کر شہر سے بھاگنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ پھر وہ ایک یتیم بچی کو گود لے کر اسے اپنی بیٹی ظاہر کرتی ہے اور اس کا مقصد بھی اپنے مرحوم شوہر کی وصیت کے مطابق جائیداد حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اسی یتیم بچی کی جوانی کا کردار اداکارہ آشا پوسلے نے نبھایا ہے۔

    فلم تیری یاد کی ہیروئن بننے سے پہلے آشا پوسلے لاہور میں بنائی گئی درجن بھر فلموں میں کام کرچکی تھیں۔ لیکن بطور ہیروئن وہ کبھی کام یاب نہیں ہوئی تھیں۔ اس کی ایک وجہ اداکارہ کا سپاٹ اور خاص پنجابی لہجہ بھی تھا جو اردو فلموں کے مکالموں کی ادائیگی کے لیے موزوں نہیں تھا۔ آشا پوسلے رقص میں ماہر تھیں اور یہی فن انھیں‌ وراثت میں ملا تھا۔ کہتے ہیں‌ کہ وہ تیری یاد کی ہیروئن بھی نہیں بنتیں اگر پنچولی فلم اسٹوڈیوز کے مالک اور معروف فلم ساز دیوان سرداری لال سے ان کا خاص تعلق نہ ہوتا۔ آشا پوسلے لاہور کے نگار خانوں میں بطور ہیروئن اور معاون اداکارہ ناکام ضرور رہی تھیں لیکن انھیں پاکستان کی ایسی فلم ایکٹریس بھی کہا جاتا ہے جنھوں نے سائیڈ ہیروئن کے علاوہ ویمپ اور کامیڈی کرداروں میں سنیما بینوں‌ کو متاثر کیا۔ آشا پوسلے نے سائیڈ ہیروئن کے طور پر متعدد فلموں میں عمدہ پرفارمنس دی۔

    آج آشا پوسلے کی برسی ہے۔ 26 مارچ 1998ء کو وفات پانے والی آشا پوسلے کا اصل نام صابرہ بیگم تھا۔ ان کے والد عنایت علی ناتھ بطور موسیقار فلمی دنیا سے منسلک تھے اور انہی کے توسط سے آشا پوسلے تقسیمِ ہند سے قبل فلم نگری میں‌ متعارف ہوئی تھیں۔ وہ بھارتی پنجاب کی ریاست پٹیالہ میں 1927ء میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد عنایت علی ناتھ نے دہلی ریڈیو پر بھی بطور موسیقار کام کیا تھا اور اسی زمانے میں آشا پوسلے کو بطور گلوکارہ بھی متعارف کروایا تھا اور بعد میں‌ بھی آشا پوسلے نے فلموں‌ کے لیے گانے گائے لیکن اس شعبہ میں بھی ناکامی ان کا مقدر بنی۔ آشا پوسلے نے تیری یاد کے علاوہ فلم غلط فہمی کے بھی چند گیت گائے تھے۔ فلمی ریکارڈ کے مطابق آشا پوسلے کا آخری گیت 1965ء میں فلم من موجی میں شامل تھا۔

    1960ء کی دہائی میں جب پاکستان میں فلمی صنعت اپنا عروج دیکھ رہی تھی تو فلم ساز بھی نئے اور باصلاحیت اداکاروں کو موقع دے رہے تھے اور آشا پوسلے معمولی اور غیر اہم کردار قبول کرنے لگی تھیں۔ آشا پوسلے نے تقسیم سے قبل 1946ء میں فلم ‘کملی’ سے اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ آشا پوسلے نے زندگی کے آخری ایّام انتہائی کس مپرسی کے عالم میں بسر کیے اور لاہور کے علاقہ گڑھی شاہو میں انتقال کیا۔

  • مدھو بالا:‌ روپ کی رانی جو عین جوانی میں زندگی سے محروم ہوگئی

    مدھو بالا:‌ روپ کی رانی جو عین جوانی میں زندگی سے محروم ہوگئی

    مدھو بالا نے فلم ‘مغلِ اعظم’ میں ‘انار کلی’ کا کردار قبول کر کے شہرت اور مقبولیت کے ہفت آسمان گویا راتوں رات طے کر لیے۔ حسین اور دل کش سراپے کی مالک مدھو بالا ہندوستانی سنیما پر چھا گئیں اور انھیں ‘وینس آف انڈین سنیما’ کہا جانے لگا۔ آج اداکارہ مدھو بالا کی برسی ہے۔‌

    تاریخ کے اوراق الٹیں‌ تو مغلیہ دور کی ایک کنیز انار کلی کے بارے میں مشہور ہے کہ اسے بادشاہ کے حکم پر دیوار میں‌ زندہ چنوا دیا گیا تھا۔‌ فلم میں‌ یہ کردار اداکارہ شہناز، نرگس اور نوتن کو آفر ہوا تھا، لیکن ان کی قسمت میں ‘انار کلی’ بننا نہیں لکھا تھا اور یوں لازوال شہرت اداکارہ مدھو بالا کا مقدر بنی۔‌

    فلمی دنیا کی مدھو بالا کا اصل نام ممتاز تھا۔ اسی نام سے وہ پہلی مرتبہ بڑے پردے پر فلم ‘بسنت’ میں نظر آئی تھیں۔ یہ 1942ء کی بات ہے۔ مشہور ہے کہ اسی دور کی ایک معروف اداکارہ دیویکا رانی کے کہنے پر ممتاز نے فلمی پردے کے لیے اپنا نام مدھو بالا رکھا تھا۔ فلمساز اور ہدایت کار کیدار شرما نے 1947ء میں انھیں اپنی پہلی فلم نیل کمل میں بطور ہیروئن سائن کیا تھا۔ اس وقت مدھو بالا کی عمر صرف تیرہ سال تھی۔ بعد میں وہ سب سے زیادہ معاوضہ لینے والی اداکارہ بنیں اور پھر مغلِ اعظم میں لاجواب اداکاری کے ساتھ ان کے حسن وجمال کا بھی ہر طرف چرچا ہونے لگا۔ یہاں یہ بات قابلِ‌ ذکر ہے کہ مغلِ اعظم کی عکس بندی کے دوران مدھو بالا بیمار تھیں، لیکن انھوں نے شوٹنگ جاری رکھی۔ ہندوستانی سنیما میں یہ فلم آج بھی ایک کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ اس کنیز کا کردار نبھانے کے لیے مدھو بالا کا رنگ روپ، بانکپن، تمکنت اور دل کش لب و لہجہ فلم ساز کو بہت موزوں نظر آیا تھا اور واقعتاً مدھو بالا کے. آصف کی توقعات پر پورا اتریں اور بیماری کے باوجود اپنا کردار بہت عمدگی سے نبھایا۔

    لاکھوں دلوں‌ کی دھڑکن اور روپ کی رانی مدھو بالا نے عمر بہت تھوڑی پائی۔ وہ صرف 36 زندہ رہ سکیں اور اس عرصہ میں بھی 9 سال وہ تھے جب مدھو بالا بیماری کی وجہ سے اپنے گھر میں بستر تک محدود تھیں۔ مدھو بالا کے دل میں سوراخ تھا اور معالجین کا کہنا تھا کہ انھیں زیادہ سے زیادہ آرام کرنا ہوگا۔ 14 فروری کو دہلی میں پیدا ہونے والی ممتاز کے والدین کو ڈاکٹروں نے کہا تھاکہ اس کے آرام کا خاص خیال رکھنا ہوگا، ان کی بیٹی بہت زیادہ کام نہیں‌ کرسکتی اور عام آدمی کی طرح‌ مسلسل جسمانی سرگرمی اس کے لیے مسئلہ بن سکتی ہے۔

    ممتاز جس کنبے کی فرد تھی وہ والدین اور گیارہ بہن بھائیوں پر مشتمل تھا۔ ممتاز کے والد عطاء اللہ لاہور میں ایک ٹوبیکو کمپنی کے ملازم تھے، جو نوکری چھوڑ کر دہلی منتقل ہوگئے اور اپنی بیٹی ممتاز کو چھوٹی عمر میں‌ فلم نگری میں‌ کام دلوانے میں کام یاب رہے۔ بمبئی میں‌ مقیم ممتاز کو آرام کرنے کا موقع کم ملتا تھا۔ وہ مسلسل شوٹنگ کی وجہ سے اکثر تھکن محسوس کرتی تھیں۔ لیکن عطاء اللہ کو بیٹی کی صحت سے زیادہ اس کی کمائی سے غرض تھی۔ ممتاز بڑی ہورہی تھی اور فلم کی دنیا میں اس کے حسن کا جادو چل چکا تھا اور پھر وہ وقت آیا جب عطاء اللہ کے گھر گویا ہن برسنے لگا۔

    دیکھا جائے تو مدھو بالا کے فلمی سفر کا آغاز، اپنے حسن اور دل کش سراپے کی بدولت فلم سازوں‌ کی نظر میں آنا اور پھر کام یابیاں‌ سمیٹتے چلے جانا ایک قابلِ‌ ذکر کہانی ہے، لیکن اس کا الم ناک پہلو مدھو بالا کی بیماری، فلمی دنیا میں عشق اور شادی کے بعد بھی رنج و آلام اور روح پر لگنے والے زخم ہیں، جن کے بعد وہ تیزی سے موت کی طرف بڑھ گئی۔ مدھو بالا 1969ء میں‌ آج ہی کے دن دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ ان کی زندگی کے آخری ایّام آنسو بہاتے ہوئے گزرے۔

    اداکارہ مدھو بالا اور دلیپ کمار کے عشق کی داستان بھی فلمی دنیا میں بہت مشہور ہوئی تھی۔ کہتے ہیں کہ ایک وقت آیا جب یوسف خان المعروف دلیپ کمار اداکارہ پر نکاح کے لیے دباؤ ڈالنے لگے، لیکن مدھو بالا اپنے باپ کے خوف سے ایسا کوئی قدم اٹھانے کو فی الوقت تیّار نہ تھی۔ مدھو بالا کو کچھ وقت چاہیے تھا، لیکن دلیپ نہ مانے اور مدھو بالا سے ناتا توڑ لیا۔ دلیپ کمار سے مایوس، گھر کے حالات، اپنے والد کی لالچی اور خود غرضانہ طبیعت اور اپنی بیماری سے پریشان مدھو بالا نے یہ سوچ کر اس وقت کشور کمار کا ہاتھ تھام لیا کہ وہ اسے زندگی کی طرف لوٹا سکے گا۔ 1960 میں ان کی شادی ہوئی۔ لیکن گلوکار کشور کمار بھی مدھو بالا کو خوشیاں نہ دے سکے۔ انھیں مدھو بالا کی بیماری کا علم تو تھا لیکن وہ یہ نہیں سمجھ سکے تھے کہ بیماری کس حد تک ان کی نوبیاہتا کو متاثر کرچکی ہے۔ بہرحال، وہ اپنی بیوی کو علاج کے لیے لندن لے گئے، لیکن ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ وہ چند سال ہی زندہ رہ سکیں‌ گی۔ کشور کمار نے ایک بیمار عورت کے ساتھ زندگی گزارنے کے بجائے اپنی ذات اور سکون کو ترجیح دی اور مدھو بالا کو اس کے والدین کے گھر چھوڑ دیا۔ وہ دو، تین ماہ میں ایک بار اپنی بیوی کی خیریت دریافت کرنے چلے آتے تھے۔ کشور کمار کے اس سلوک نے شکستہ دل مدھو بالا کو مزید ہلکان کردیا۔ پرستار لاکھوں، آگے پیچھے پھرنے والے ہزاروں، فلم انڈسٹری اور باہر کی دنیا میں ہر ایک مدھو بالا کے حسن و جمال اور ان کے فنِ اداکاری کا قائل تھا، مگر مدھو بالا کو حقیقی خوشیاں اور سکھ نصیب نہ ہوسکا۔

    فلم انڈسٹری کی معروف شخصیت کمال امروہوی بھی عاشق مزاج اور حُسن پرست مشہور تھے جن کی مدھو بالا سے پہلی ملاقات کا ایک واقعہ انیس امروہوی نے یوں بیان کیا ہے۔

    ایک بار ایک دوست نے کمال امروہی کو کھانے پر مدعو کیا جہاں ممتاز نام کی ایک خوب صورت لڑکی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر وہ لڑکی کمال امروہی کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔ جب وہ کسی کام سے میز سے اُٹھ کر گئی تو کمال صاحب نے اپنے دوست سے دریافت کیا کہ کیا یہ لڑکی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے؟

    اُن دنوں کمال صاحب کو فلم ’محل‘ کے لیے ہیروئن کی تلاش تھی۔ دوست نے بتایا کہ ممتاز کئی فلموں میں کام کر چکی ہے اور اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ممتاز (مدھو بالا کا اصلی نام) کو آپ سے ملوایا جائے۔ اس طرح چھوٹی فلموں کی اداکارہ ممتاز بڑی فلم ’محل‘ کی ہیروئن مدھوبالا بنی۔

    اداکارہ مدھو بالا نے 66 فلموں میں کردار ادا کیے۔ ان کی مشہور فلموں میں دلاری، دولت، اپرادھی، نادان، ساقی، سنگدل، امر، نقاب، پھاگن، کلپنی، بارات کی رات، مغلِ اعظم، شرابی اور جوالا سرِ فہرست ہیں۔ کہتے ہیں کہ بولی وڈ میں ذاتی محافظ رکھنے کا آغاز مدھو بالا نے کیا تھا۔ اداکارہ کی آخری آرام گاہ ممبئی میں ہے۔

  • نوتن: فلمی دنیا کا ایک ناقابلِ فراموش نام

    نوتن: فلمی دنیا کا ایک ناقابلِ فراموش نام

    بولی وڈ کی فلمی صنعت کا ایک ناقابلِ فراموش نام نوتن کا ہے جنھوں نے فلمی دنیا میں اپنے انمٹ نقش چھوڑے۔ انھیں ایک عظیم ہندوستانی اداکار کہا جاتا ہے جس کی فطری اداکاری اور مکالموں کی ادائیگی فلم بینوں کو آج بھی یاد ہے۔

    نوتن نے ممبئی میں تقسیمِ ہند سے قبل 1936ء میں آنکھ کھولی۔ پہلی مرتبہ وہ 14 سال کی عمر میں فلمی پردے پر دکھائی دیں۔ اس فلم کے بعد 1951ء میں انھیں نگینہ اور ہم لوگ جیسی فلموں میں کام کرنے کا موقع ملا اور نوتن نے اپنی صلاحیتوں کا بخوبی اظہار کیا۔ بعد کے برسوں میں نوتن کو ایسی بے مثال اداکار کے طور پر پہچانا گیا جس نے مشکل اورغیر روایتی کرداروں کو بہت عمدگی سے ادا کیا اور سب پر اپنے فن کی دھاک بٹھا دی۔

    اداکارہ نوتن کا اصل نام نوتن سمرتھ تھا۔ اداکارہ کی پہلی فلم ان کی والدہ شوبھانا سمرتھ کی ہدایت کاری کا ثمر تھی۔ لیکن ضیا سرحدی کی فلم ہم لوگ اپنے اسکرپٹ اور مکالموں کی وجہ سے بہت پسند کی گئی۔ اس فلم میں نوتن کے ساتھ بلراج ساہنی تھے جو اپنے وقت کے بہترین اداکاروں میں سے ایک ہیں۔ نوتن نے بھی اس فلم میں اچھا کام کیا تھا۔ 1955ء میں نوتن کی فلم سیما ریلیز ہوئی۔ اس میں بھی ان کے ساتھ بلراج ساہنی تھے۔ اس فلم میں نوتن نے غضب کی اداکاری کی اور فلم بینوں کو بہت متاثر کیا۔ اداکارہ کو اس پر فلم فیئر ایوارڈ دیا گیا۔ 1960ء کی دہائی میں نوتن نے فلموں میں مرکزی کردار ادا کیے۔ ان میں ’’سجاتا، بندنی اور ملن‘‘ شامل ہیں۔ فلم سجاتا میں نوتن ایک اچھوت لڑکی کا کردار نہایت شان دار طریقے سے نبھایا اور پھر وہ غیر روایتی کرداروں میں کاسٹ‌ کی جانے لگیں۔ وہ ہندوستان کے فلمی ناقدین کی نظر میں اپنے وقت کی باکمال اور بے مثال اداکارہ تھیں۔ ان کی دیگر قابل ذکر فلموں میں ’’اناڑی، پے انگ گیسٹ، سونے کی چڑیا، چھلیا، تیرے گھر کے سامنے، سرسوتی چندرا، انوراگ، زندگی یا طوفان، سوداگر، میری جنگ اور ساجن کی سہیلی‘‘ شامل ہیں۔

    بولی وڈ کی اس مشہور اداکارہ نے 70 سے زیادہ فلموں میں کام کیا۔ نوتن کا کیریئر 40 سال پر محیط رہا جس میں اداکارہ نے چھے فلم فیئر ایوارڈ اپنے نام کیے۔ نوتن 1980ء کے بعد کیریکٹر ایکٹریس کے طور پر فلموں‌ میں دکھائی دیں اور اپنے کرداروں کو اسی طرح نبھایا جیسے وہ جوانی میں ڈوب کر اداکاری کیا کرتی تھیں۔ 1974ء میں بھارتی حکومت نے نوتن کو پدم شری ایوارڈ دیا جب کہ فلمی دنیا کے کئی دوسرے معتبر ایوارڈ بھی نوتن کے نام ہوتے رہے۔ یہ ان کی صلاحیتوں اور فن و کمال کا اعتراف تھا۔ 1959ء میں رجیش بہل سے نوتن کی شادی ہوئی تھی۔ اداکارہ نے زیادہ تر دیوآنند، راج کپور اور سنیل دت کے ساتھ کام کیا جو اپنے وقت کے مقبول ہیرو اور کام یاب اداکار تھے۔

    فلمی ناقدین کے مطابق نوتن کی سب سے بڑی خوبی مکالموں کی ادائیگی کا جداگانہ انداز اور چہرے کے تاثرات تھے۔ اس دور میں سماجی موضوعات پر بننے والی فلموں میں نوتن کی اداکاری کو بہت پسند کیا جاتا تھا اور یہی وجہ ہے کہ وہ کئی بڑے ہدایت کاروں کے ساتھ آرٹ سنیما کی فلموں میں نظر آئیں۔ 1986ء میں ہدایت کار سبھاش گھئی نے نوتن کو اپنی فلم ’’میری جنگ‘‘ میں انیل کپور کی ماں کے کردار میں کاسٹ کیا۔ باکس آفس پر یہ فلم بہت کام یاب رہی اور جذباتی مناظر میں نوتن نے بے حد متاثر کن اداکاری کی جس پر چھٹے فلم فیئر ایوارڈ کی حق دار قرار پائیں۔ نوتن کی فنی عظمت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ کئی کام یاب اور مقبول اداکاراؤں نے کہا کہ وہ نوتن کی اداکاری سے بہت متاثر ہیں۔

    اداکارہ نوتن 1991ء میں پھیپھڑوں کے سرطان کے سبب انتقال کرگئی تھیں۔ فلم ’’نصیب والا‘‘ اور’’ انساینت‘‘ نوتن کی وفات کے بعد ریلیز ہوئی تھیں۔

  • عذرا شیروانی: پی ٹی وی کی بے مثال اداکارہ

    عذرا شیروانی: پی ٹی وی کی بے مثال اداکارہ

    قیامِ پاکستان کے بعد جب ملک میں ریڈیو اور پھر ٹیلی وژن نشریات کا آغاز ہوا تو جو فن کار سامنے آئے اور اپنی خداداد صلاحیتوں کی بدولت اپنی الگ پہچان بنائی، ان میں‌ عذرا شیروانی بھی شامل ہیں۔ ان کی منفرد آواز، لب و لہجہ اور مکالموں کی ادائیگی میں مہارت نے انھیں فن کاروں کے جھرمٹ میں نمایاں کیا۔

    19 دسمبر 2005ء کو پی ٹی وی کی مایہ ناز اداکار عذرا شیروانی انتقال کرگئی تھیں۔ وہ امریکا میں مقیم تھیں اور وہیں ان کی تدفین عمل میں‌ لائی گئی۔ پی ٹی وی کی تاریخ کے متعدد یادگار ڈراموں میں عذرا شیروانی نے اپنے فن کے جوہر دکھائے اور ناظرین میں مقبول ہوئیں۔ آج ماضی کی اس مقبول اداکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔ ایک دور تھا جب پی ٹی وی کے ڈرامے اور مختلف پروگرام اس شوق سے دیکھے جاتے تھے کہ لوگ ہر کام چھوڑ کر اپنے گھروں میں ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ ٹی وی پر تفریحی پروگرام نشر ہوتے تو شہر کی سڑکیں ویران ہوجایا کرتی تھیں۔ عذرا شیروانی ٹی وی کے اسی سنہرے عہد میں اسکرین پر یوں ‘ڈرامہ’ کرتی تھیں کہ ان کے کرداروں پر حقیقت کا گمان ہوتا تھا۔ ان کی فطری اور بے ساختہ اداکاری نے انھیں ملک گیر شہرت دی۔ عذرا شیروانی نے اپنے وقت کے مقبول ترین ڈرامے انکل عرفی میں غازی آپا کا کردار نبھایا تھا۔ یہ کردار بھی انھوں نے اپنی بے مثال اداکاری سے یادگار بنا دیا۔ تنہائیاں وہ ڈرامہ تھا جس میں انھیں ایک سخت گیر خاتون کے طور پر دیکھا گیا جنھیں گھر میں سب آپا بیگم پکارتے تھے۔ دھوپ کنارے میں انھوں فضیلت کا کردار ادا کر کے ناظرین کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ تنہائیاں حسینہ معین کا تحریر کردہ وہ ڈرامہ تھا جس میں آپا بیگم کا کردار بلاشبہ عذرا شیروانی کے کیریئر کا سب سے بہترین اور مشہور کردار تھا۔ اس ڈرامے میں جمشید انصاری کے کردار کے ساتھ ان کے مکالمے بہت پسند کیے گئے۔

    آنگن ٹیڑھا میں اداکارہ عذرا شیروانی نے مرکزی کردار محبوب احمد (اداکار شکیل) کی ساس عرف سلیہ بیگم کا کردار نہایت خوبی سے ادا کیا۔ عذرا شیروانی نے اپنے وقت کے ایک اور مقبول کھیل ستارہ اور مہرالنّساء میں بھی ماں کا کردار نبھایا تھا۔ انا، افشاں، گھر اک نگر جیسے ڈراموں میں بھی ان کی پرفارمنس کو بہت سراہا گیا۔ اس دور میں‌ لاہور اور کراچی میں ٹی وی اسٹیشنوں کے درمیان معیاری ڈرامے اور شان دار پرفارمنس سے ناظرین کے دل جیتنے کے لیے گویا ایک دوڑ لگی رہتی تھی۔ اسی دور میں عذرا شیروانی نے اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    وہ 1940ء میں متحدہ ہندوستان کے شہر میرٹھ میں پیدا ہوئی تھیں۔ عذرا شیروانی نے 35 سال تک ٹی وی سے تعلق جوڑے رکھا۔ بعد میں وہ اپنے بیٹے کے پاس امریکا چلی گئی تھیں۔

  • فردوس بیگم: ‘ہیر’ کے کردار سے فلمی دنیا میں عروج پانے والی اداکارہ

    فردوس بیگم: ‘ہیر’ کے کردار سے فلمی دنیا میں عروج پانے والی اداکارہ

    فردوس بیگم کو پاکستانی فلموں کی ‘ہیر’ کے روپ میں مدتوں فراموش نہیں کیا جاسکا اور آج بھی یہی کردار ان کی پہچان ہے۔ آج فردوس بیگم کی برسی ہے۔ عرصۂ دراز تک گوشۂ گم نامی میں رہنے والی فردوس بیگم 16 دسمبر 2020ء میں انتقال کرگئی تھیں۔

    19 جون 1970ء کو فلم ہیر رانجھا ریلیز ہوئی تھی جس نے مقبولیت کا ریکارڈ قائم کیا اور اسی فلم سے ہیر کا مرکزی کردار نبھا کر فردوس بیگم نے بے پناہ شہرت حاصل کی۔ اسی فلم کے بعد فردوس اور اعجاز درانی کے معاشقے کا بھی چرچا ہوا تھا اور ان کی شادی کی افواہیں بھی گردش میں‌ رہیں۔ فردوس کا اصل نام پروین بتایا جاتا ہے۔ ان کا سنہ پیدائش 1947ء تھا۔ کہتے ہیں کہ فردوس بیگم لاہور کے مشہور علاقہ ہیرا منڈی میں پیدا ہوئی تھیں۔ وہیں نوعمری میں رقص اور موسیقی کی تربیت حاصل کرنے کے بعد اپنے فن کا مظاہرہ کرنے والی فردوس بیگم کو بالآخر فلم میں کام کرنے کا موقع ملا۔ اس زمانے میں ہیرا منڈی میں پاکستانی فلم ساز اور ہدایت کار نئے چہروں کی تلاش میں آتے جاتے رہتے تھے۔ انہی میں ایک بابا قلندر بھی تھے۔ انھوں نے پروین کا رقص دیکھا تو اسے اپنی پنجابی فلم کی ہیروئن بننے کی پیشکش کر دی۔ پروین نامی نوجوان رقاصہ کی یہ فلم مکمل تو نہ ہوسکی۔ لیکن بعد میں اس لڑکی کو فلم ‘گل بکاؤلی‘ میں ایک معمولی کردار دے دیا گیا، مگر یہ فلم ناکام رہی۔ پھر شباب کیرانوی کی فلم ‘انسانیت‘ میں وہ اداکارہ زیبا اور وحید مراد کے ساتھ ایک اور معمولی کردار میں نظر آئیں اور ایک فلم ساز کے کہنے پر اپنا نام تبدیل کر کے فردوس رکھ لیا۔

    فردوس بیگم دراز قد تھیں۔ ان کی غلافی آنکھوں‌ اور خوب صورت نین نقش کی وجہ سے انھیں فلم ‘ہیر رانجھا’ میں ‘ہیر’ کا کردار دے دیا گیا اور پھر اُن کی شہرت اور مقبولیت کو بھی پَر لگ گئے۔ فلم کے ہیرو اعجاز درانی تھے۔ فردوس بیگم اپنی اداکاری اور رقص کی بدولت فلم سازوں اور ہدایت کاروں کی نظروں میں اہمیت اختیار کر گئیں اور فلم بین ان کے مداح بن گئے۔ پنجابی زبان میں وارث شاہ کی اس عشقیہ داستان پر مبنی یہ فلم ایک کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔ اداکارہ فردوس کو اس فلم میں عمدہ پرفارمنس پر نگار ایوارڈ دیا گیا تھا۔ 1973ء میں فردوس بیگم نے پنجابی فلم ‘ضدی‘ کے لیے بھی بہترین اداکارہ کا ایوارڈ حاصل کیا مگر اس کے بعد ان شہرت کا سفر جیسے تھم گیا۔ فلم انڈسٹری میں نئے چہروں کے درمیان فردوس بیگم کو نظرانداز کیا جانے لگا اور اداکارہ اسکرین سے دور ہوتی چلی گئیں۔ ان کی فلموں کی مجموعی تعداد 192 بتائی جاتی ہے۔ ان میں 155 فلمیں پنجابی، 29 اردو اور 8 فلمیں پشتو زبان میں تھیں۔ اداکارہ کی آخری فلم ‘دہ جرمونو بادشاہ‘ تھی جو 1991 میں پشتو زبان میں تیار ہوئی تھی۔

    فردوس بیگم کو انڈسٹری اور ان کے حلقۂ احباب میں ایک خوش مزاج، ملن سار اور زندہ دل خاتون کے طور پر یاد کیا جاتا ہے۔ اداکارہ کا انتقال برین ہیمرج کی وجہ سے ہوا اور وہ لاہور میں آسودۂ خاک ہوئیں۔ انھوں نے اپنے وقت کے کام یاب فلمی ہیرو اکمل سے شادی کی تھی۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کی اس اداکارہ نے اپنے زمانے کے تقریباً تمام مشہور ناموں کے ساتھ کام کیا جن میں اکمل، اعجاز درانی، حبیب، سدھیر اور یوسف خان قابلِ ذکر ہیں۔

  • شیاما:‌ پُرکشش نین نقش کی مالک، باصلاحیت اداکارہ

    شیاما:‌ پُرکشش نین نقش کی مالک، باصلاحیت اداکارہ

    سید شوکت حسین رضوی تقسیمِ ہند سے قبل ہی ایک کام یاب فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر پہچان بنا چکے تھے۔ ’’زینت‘‘ ان کی وہ فلم تھی جسے ہندوستان بھر میں کام یابی ملی۔ 1945ء میں جب سید شوکت حسین رضوی اپنی اس فلم کے لیے قوّالی پیش کرنے کا ایک منظر عکس بند کروا رہے تھے تو حاضرین میں اسکول کی چند طالبات میں خورشید اختر نام کی ایک لڑکی بھی شامل تھی۔ شوکت حسین رضوی کی نظر اس پر پڑی تو انھوں نے اسے بھی قوالی کے اسٹیج پر بٹھا دیا۔ وہ قوّالی بہت مقبول ہوئی اور خورشید اختر نے مستقبل میں شیاما کے نام سے بطور اداکارہ سفر شروع کیا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    اس قوالی کے بول تھے، ’’آہیں نہ بھریں، شکوہ نہ کیا۔‘‘ اتفاقاً فلم کے ایک منظر کا حصہ بننے والی خورشید اختر کا لاہور شہر کے علاقہ باغبان پورہ سے تھا۔ شیاما کے فلمی نام سے اداکارہ نے 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں متعدد فلمیں کیں اور خوب شہرت پائی۔ وہ ایک متموّل آرائیں خاندان کی فرد تھیں۔ 1935ء میں‌ آنکھ کھولنے والی شیاما کا خاندان 1945ء میں ممبئی منتقل ہوگیا تھا اور وہیں انھیں‌ فلمی دنیا سے وابستہ ہونے کا موقع ملا۔

    فلم ‘پتنگا’ 1949ء میں ریلیز ہوئی تھی جس میں شیاما نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ یہ اپنے دور کی چند کام یاب اور مشہور فلموں میں سے ایک تھی۔ شیاما نے نگار سلطانہ، یعقوب اور گوپ جیسے منجھے ہوئے فن کاروں کے درمیان بڑے اعتماد سے اپنا کردار نبھا کر فلم سازوں کو متاثر کیا تھا۔ خورشید اختر کو شیاما کا نام معروف ہدایت کار وجے بھٹ نے 1953ء میں دیا۔ بعد میں وہ اسی نام سے پہچانی گئیں۔ اداکارہ شیاما پُرکشش، اور خوب صورت نین نقش کی حامل ہی نہیں‌ ذہین اور پُراعتماد بھی تھیں۔ فلم بینوں کے دل جیتنے والی شیاما نے اپنے دور کے کام یاب فلم سازوں کو بھی متاثر کیا اور یہی وجہ تھی کہ انھیں بمبئی میں مسلسل کام ملتا رہا۔ نام وَر ہدایت کار اے آر کاردار اور گرو دَت بھی ان لوگوں میں شامل تھے جو شیاما کی صلاحیتوں کے معترف رہے۔ گرو دَت نے شیاما کو اپنی فلم ‘آر پار’ میں کاسٹ کیا اور اس فلم نے شیاما کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ 1954ء میں ریلیز ہونے والی یہ فلم اپنے نغمات کی وجہ سے بھی کام یاب ثابت ہوئی اور شیاما کی اداکاری کو بھی شائقین نے بے حد سراہا۔

    فلمی دنیا کی ایک معروف اور قابل شخصیت ضیا سرحدی نے فلم ‘ہم لوگ’ بنائی تھی جو 1951ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں اداکارہ شیاما نے کام کیا تھا۔ اس اداکارہ پر فلمائے گئے گیت ‘چھن چھن چھن باجے پائل موری’ کو بہت پسند کیا گیا۔ شیاما کی فلموں کی تعداد 200 سے زائد ہے۔ ان کی مشہور فلموں میں برسات کی رات، ترانہ، ساون بھادوں، پائل کی جھنکار، اجنبی، نیا دن نئی رات، تقدیر، بھابی و دیگر شامل ہیں۔ 1957ء کی فلم ‘شاردا’ کے لیے شیاما کو بہترین معاون اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

    اداکارہ شیاما 1953ء میں ایک سنیماٹو گرافر سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ اداکارہ آخری مرتبہ فلم ‘ہتھیار’ میں نظر آئی تھیں۔ 82 سال کی عمر میں‌ انتقال کرنے والی شیاما ممبئی کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہی ہیں۔ وہ 14 نومبر 2017ء کو انتقال کرگئی تھیں۔

  • اداکارہ نیّر سلطانہ کا تذکرہ جنھیں ملکۂ جذبات کہا جاتا تھا

    اداکارہ نیّر سلطانہ کا تذکرہ جنھیں ملکۂ جذبات کہا جاتا تھا

    پاکستان فلم انڈسٹری میں اداکارہ نیّر سلطانہ کو ملکۂ جذبات کے لقب سے یاد کیا جاتا تھا، لیکن آج وہ ایک فراموش کردہ نام ہیں تاہم فلم انڈسٹری کی تاریخ میں ان کا نام ضرور محفوظ ہے۔ نیّر سلطانہ نے ہیروئن سے لے کر کریکٹر ایکٹریس تک ہر کردار نہایت خوبی سے نبھایا اور وہ اپنے دور کی مقبول اداکارہ تھیں۔

    آج اداکارہ نیّر سلطانہ کی برسی ہے۔ نیر سلطانہ 1937ء میں علی گڑھ (بھارت) میں پیدا ہوئیں۔ ان کا اصل نام طیبہ بانو تھا۔ وومین کالج علی گڑھ میں تعلیم حاصل کی اور قیام پاکستان کے بعد ان کا خاندان کراچی شفٹ ہو گیا۔ ایک موقع پر نیر سلطانہ کی لاہور میں نام ور ہدایت کار انور کمال پاشا سے ملاقات ہوئی اور ان کے کہنے پر نیر سلطانہ نے فلم میں کام کرنے کا آغاز کیا۔ نیر سلطانہ حسن و جمال کے ساتھ اردو ادب میں دل چسپی رکھتی تھیں اور ان کی زبان بہت شستہ تھی۔ انور کمال پاشا نے نیر سلطانہ کو اپنی فلم ’’قاتل‘‘ میں کاسٹ کیا۔ 1955 میں ہمایوں مرزا کی فلم ’’انتخاب‘‘ میں نیر سلطانہ کو کام کرنے کا موقع ملا اور اس کے بعد وہ 40 برس تک فلمی دنیا میں ہیروئن اور دوسرے کردار ادا کرتی رہیں۔

    70ء کی دہائی کے آغاز سے نیر سلطانہ کریکٹر ایکٹریس کی حیثیت سے اپنی اداکاری سے فلم بینوں کو محظوظ کرتی رہیں۔ انھیں المیہ اور طربیہ دونوں طرح کرداروں‌ کو نبھانے میں کمال حاصل تھا۔ اور اسی لیے وہ ملکۂ جذبات مشہور ہوئیں۔ پاکستانی فلمی صنعت کے سنہرے دور میں ان کی مشہور فلموں میں ’’اولاد، ایاز، خیبر میل، پہچان، باجی، دیو داس، کورا کاغذ اور گھونگھٹ‘‘ شامل ہیں۔ نیر سلطانہ نے مجموعی طور پر 216 فلموں میں کام کیا جن میں اردو میں 140 فلمیں، 49 پنجابی زبان کی فلمیں شامل ہیں۔ ان کی یادگار فلموں کی فہرست دیکھی جائے تو اس میں سہیلی، ماں کے آنسو اور ایک مسافر ایک حسینہ کے نام سامنے آئیں‌ گے۔

    نیّر سلطانہ نے پاکستان کے مشہور اداکار درپن سے شادی کی تھی۔ نیر سلطانہ کو سرطان کا مرض لاحق ہوگیا تھا اور 27 اکتوبر 1992ء کو وہ اس جہانِ فانی سے رخصت ہو گئیں۔

  • دردانہ بٹ: وہ اپنے مزاحیہ کرداروں کی بدولت ناظرین میں مقبول ہوئیں

    دردانہ بٹ: وہ اپنے مزاحیہ کرداروں کی بدولت ناظرین میں مقبول ہوئیں

    پاکستان ٹیلی وژن کی سینئر اداکارہ دردانہ بٹ نے سنجیدہ اور مزاحیہ دونوں کرداروں کو بخوبی نبھایا وہ اپنے کیریئر کے دوران ٹی وی ہی نہیں اسٹیج اور فلم میں بھی کام کر کے اپنی پہچان بنائی۔ ان کی ناظرین میں‌ مقبولیت کا سبب ٹیلی وژن کے وہ ڈرامے ہیں جن میں انھوں نے کامیڈی کردار ادا کیے۔

    کینسر کے مرض میں مبتلا ہونے کے بعد اداکارہ 12 اگست 2021 کو انتقال کرگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ دردانہ بٹ 9 مئی 1938ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ ابتدائی تعلیم برطانیہ میں‌ حاصل کی جہاں ان کے والد پاکستان کے سفارت خانے میں تعلیمی اتاشی تھے۔ وہ گیارہ سال کی تھیں جب والد کا پاکستان تبادلہ ہوگیا اور یہاں لاہور میں‌ سکونت اختیار کرنے کے بعد دردانہ بٹ کو ان کے والد نے مری کے مشنری اسکول میں داخل کروا دیا۔ اس کے بعد ان کا کانووینٹ لاہور میں داخلہ ہوا۔

    1967ء میں دردانہ بٹ کی شادی سعید احمد خان سے ہوئی جو ان کے ننھیالی عزیز بھی تھے، لیکن ڈیڑھ سال کے بعد ان کے شوہر کی وفات ہوگئی۔ انھوں نے مزید پڑھنے کا فیصلہ کیا اور کالج سے گریجویشن کرنے کے دوران وہاں اسٹیج ڈراموں میں بھی حصہ لینے لگیں۔ اس کے بعد وہ فرانس چلی گئیں جہاں فرینچ میں ڈپلوما حاصل کیا اور واپس آکر ایک نجی اسکول میں پی ٹی ٹیچر کے طور پر ملازمت اختیار کر لی۔

    اداکارہ دردانہ بٹ نے بطور کمرشل پائلٹ کچھ عرصہ ہوا بازی بھی کی، لیکن نظر کم زور ہونے کی وجہ سے یہ سلسلہ جاری نہیں رکھ سکیں۔ وہ جوڈو کراٹے اور آتشیں اسلحے کا استعمال بھی جانتی تھیں۔ تھیٹر اور اسٹیج سے اداکاری نے انھیں پی ٹی وی تک پہنچا دیا اور یہاں دردانہ بٹ کو منور ظریف اور معین اختر جیسے بڑے ناموں کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔ وہ مزاحیہ خاکوں پر مشتمل پروگرام ’ففٹی ففٹی‘ میں نظر آئیں اور ناظرین میں‌ پہچان بنائی۔ پی ٹی وی پر انھوں نے معین اختر کے ساتھ نوکر چاکر، آنگن ٹیڑھا جیسے ڈراموں میں‌ کردار نبھائے اور تنہائیاں میں بی بی کے روپ میں زبردست پذیرائی اور شہرت حاصل کی، بعد میں پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی نشریات کا آغاز ہوا تو انھیں بھی مختلف ڈراموں میں‌ کردار نبھانے کا موقع ملا۔

    انھوں نے آخری مرتبہ 2019 میں ڈرامہ رسوائی میں ایک کردار نبھایا تھا۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ اداکارہ کو ماہرِ تعلیم کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے حکومت پاکستان نے دردانہ بٹ کو ‘تمغائے امیتاز سے نوازا تھا۔

  • نورین بٹ کا تذکرہ جو پاکستانی فلمی صنعت میں نِمو کے نام سے مشہور ہوئی

    نورین بٹ کا تذکرہ جو پاکستانی فلمی صنعت میں نِمو کے نام سے مشہور ہوئی

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں کئی حسین اور خوب صورت چہروں نے اس اعتماد کے ساتھ بھی قدم رکھا کہ آج نہیں تو کل وہ ضرور کام یاب ہوں گے اور فلمی ہیرو یا ہیروئن کے طور پر مستقبل میں نام بنا لیں گے۔ بلاشبہ یہ خوب صورت اور باصلاحیت فن کار بھی تھے، اور فلم سازوں نے انھیں موقع بھی دیا، لیکن ان کی فلمیں بری طرح پِٹ گئیں۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ ان نئے فن کاروں کی قسمت نے ان کا ساتھ نہیں دیا۔ اگر بات کی جائے اداکاراؤں کی تو ان میں بعض خوب صورت چہرے ایسے بھی تھے، جو فلمی دنیا میں کام یاب تو رہے لیکن یہ کام یابی انھیں ثانوی کرداروں یا سائیڈ ہیروئن کے کردار سے آگے نہ لے جاسکی۔

    ستّر کی دہائی کی ایک اداکارہ ’’نمو‘‘ بھی ان میں سے ایک ہے جس نے پاکستانی فلمی صنعت میں شہرت تو حاصل کی، مگر ثانوی نوعیت کے کرداروں اور سائیڈ ہیروئن کے طور پر ہی اسے دیکھا جاسکا۔

    یہ نورین بٹ تھی جو 3 اگست 1950ء کو لاہور میں پیدا ہوئی، نورین بٹ کے والد شہزادہ محمود متحدہ ہندوستان کے ایک ایسے اداکار اور مصنّف تھے جنھیں راج پال کے نام سے پہچانا جاتا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد شہزادہ محمود کراچی آگئے اور بعد میں لاہور منتقل ہوگئے۔ نورین بٹ کو فلم میں کام کرنے کا شوق والد کی وجہ سے ہوا اور وہ قسمت آزمانے کے لیے نگار خانوں کے چکر لگانے لگی۔ موقع ملا تو نورین بٹ نے اسکرین ٹیسٹ دیے، مگر مسترد کر دی گئی۔ حالاںکہ نورین بڑی بڑی آنکھوں والی اور تیکھے نقوش کی لڑکی تھی، مگر فلم سازوں اسے کام دینے کو تیار نہیں تھے۔ نمو مسلسل قسمت آزماتی رہی اور پھر شباب پروڈکشنز کی فلم ‘فسانہ دل’ میں اسے اداکار ندیم کے مدِمقابل نِمو کا نام دے کر بہ طور ہیروئن کاسٹ کر لیا گیا۔ اداکارہ نورین کو یہ نام شباب کیرانوی نے دیا تھا اور اس فلم میں سائن کرتے وقت شباب کیرانوی نے یہ شرط رکھی تھی کہ نمو پانچ سال تک کسی اور فلم ساز کی فلم میں کام نہیں کرے گی۔ یہ بات نمو کو پسند نہ آئی اور اس نے شباب کیرانوی کو انکار کردیا جس کا نتیجہ کاسٹ سے اسے الگ کیے جانے کی صورت میں نکلا۔ بعد میں نمو کی جگہ دیبا بیگم کو اس فلم کی ہیروئن کاسٹ کیا گیا۔

    یہ ایک بڑی بات تھی کہ وہ لڑکی جسے ابھی انڈسٹری میں کوئی کام نہیں دے رہا اور شباب کیرانوی جیسے بڑے فلم ساز کی آفر کو اس نے یوں قبول کرنے سے انکار کردیا ہے، تو دوسرے فلم ساز بھی اس کی طرف متوجہ ہوئے۔ بظاہر تو نمو نے اپنے پیروں پر گویا کلہاڑی مار لی تھی لیکن اس کی یہ جرأت ایک چانس بن گئی۔ فلم ساز اور ہدایت کر اسلم ڈار نے اسے اپنی فلم ’’سخی لٹیرا‘‘ میں کاسٹ کرلیا۔ سخی لٹیرا میں اداکارہ نے بہ طور سائیڈ ہیروئن کام کرکے شائقین کی توجہ حاصل کرلیا۔ یہ کام یاب فلم 1971ء میں پیش کی گئی۔ فلم ’’سخی لٹیرا‘‘ کے بعد اسلم ڈار کی سسپنس سے بھرپور فلم ’’مجرم کون‘‘ میں نِمو کو ایک اہم کردار میں پیش کیا گیا۔ یہ فلم اگست 1971ء میں کراچی کے ریگل سنیما میں نمائش پذیر ہوئی۔ وہ اسلم ڈار کی فلموں سے شہرت پانے لگی۔ اداکار سلطان راہی کو بامِ عروج پر پہنچانے والی فلم بشیرا تھی۔ اس میں اداکارہ نِمو کو سلطان راہی کی لڑاکا بیوی کا کردار نہایت عمدگی سے نبھاتے ہوئے دیکھا گیا۔ اردو فلم زرق خان میں نمو نے زبردست اداکاری کی۔ 1974ء میں اسلم ڈار کی رومانوی نغماتی اردو فلم ’’دل لگی‘‘ میں اداکارہ شبنم، ندیم، نیر سلطانہ اور دیگر بڑے ناموں کے درمیان اداکارہ نِمو نے بھی اپنی برجستہ اداکاری سے فلم بینوں کے دل جیتے۔ اس فلم میں نمو نے اپنی بڑی بڑی اور گہری آنکھوں سے خوب کام لیا کہ جب جب یہ کردار خاموش رہتا تو فلم بینوں کو اس کی آنکھیں بولتی دکھائی دیتیں‌۔

    اداکارہ نمو نے اپنے کیریئر میں 113 فلموں میں مختلف کردار نبھائے۔ اردو کے علاوہ نمو نے پنجابی اور چند پشتو فلموں میں بھی اداکاری کی۔ نمو نے زیادہ تر ثانوی اور سیکنڈ ہیروئن کے رول کیے اور انھیں اکثر ماڈرن اور گلیمر کرداروں میں پسند کیا گیا۔ 1977ء میں ہدایت کار نذرُ الاسلام کی بلاک بسٹر اردو فلم ’’آئینہ‘‘ میں اداکارہ نمو نے ایک نہایت ماڈرن اور ہائی سوسائٹی کی عورت کا رول کیا تھا جس کا شوہر تاش اور شراب کی محفلوں میں اسے ساتھ رکھتا ہے۔ اداکارہ نمو نے چاہت، ننھا فرشتہ، فرض اور مامتا، شیریں فرہاد، نیک پروین، سنگم، پیار کا وعدہ، آواز، قربانی، دو دل اور دیگر فلموں‌ میں کام کرکے شہرت پائی۔ اس کی پنجابی فلموں میں حشر نشر، کل کل میرا ناں، ڈنکا، دادا، انتقام دی اگ، خون دا دریا، شرابی، بابل صدقے تیرے، ہتھکڑی، میڈم باوری شامل ہیں۔

    اداکارہ نے فلمی دنیا میں نام بنانے کے بعد شادی کی تھی لیکن ان کے مطابق وہ خود غرض اور لالچی شخص تھا جس سے انھوں نے علیحدگی حاصل کر لی تھی۔ بعد میں‌ دوسری شادی کرکے وہ فلمی دنیا سے کنارہ کش ہوگئیں۔ 16 دسمبر 2010ء کو نورین بٹ المعروف نمو لاہور میں وفات پاگئی تھیں۔