Tag: اداکارہ برسی

  • نرگس کا تذکرہ جنھیں ‘مدر انڈیا’ نے لازوال شہرت ہی نہیں وفادار جیون ساتھی بھی دیا!

    نرگس کا تذکرہ جنھیں ‘مدر انڈیا’ نے لازوال شہرت ہی نہیں وفادار جیون ساتھی بھی دیا!

    فلم ‘راکی’ کی نمائش 7 مئی 1981ء کو ہونا تھی اور کینسر کے مرض میں مبتلا نرگس دَت اپنے بیٹے کی پہلی فلم کے پریمیئیر میں ہرحالت میں‌ شرکت کرنا چاہتی تھیں‌، لیکن اجل نے انھیں مہلت نہیں دی۔ 3 مئی کو نرگس کا انتقال ہوگیا۔

    بولی وڈ اداکارہ نرگس دَت اپنے ایک مضمون میں لکھتی ہیں، "مجھے اپنی زندگی میں‌ ہمیشہ اطمینان رہا کیوں کہ جس چیز کی میں نے خواہش کی وہ حاصل ہوگئی۔ میں نے زندگی کے مختلف روپ دیکھے ہیں اور طرح طرح کے تجربات جمع کیے ہیں۔ غم اور خوشی دونوں کو میں نے پرکھا ہے اور اس سے مجھ میں‌ حیات کا عرفان پیدا ہوا ہے۔ جب زمانے کے ستائے اور درد کے ماروں سے واسطہ پڑا تو ان سے میں نے یہ سیکھا کہ مشکلات اور مصائب کا سامنا کس پامردی سے کیا جاتا ہے۔ لیکن اس کے لیے اپنے اندر بھی ایک روحانی طاقت کا پایا جانا شرط ہے۔ اور یہ روحانی طاقت یقیناً اپنی ماں سے مجھے ورثہ میں‌ ملی ہے جس نے میرے ذہن و مزاج کی تشکیل میں ایک اہم کردار ادا کیا اور مجھے اس قابل بنایا کہ میں ایک بامقصد اور کام یاب زندگی گزار سکوں۔

    نرگس کا اصل نام فاطمہ رشید تھا جو سنیل دَت کی شریکِ سفر بنیں۔ سنیل دت بولی وڈ میں اداکاری کے ساتھ فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر بھی مشہور ہوئے۔ نرگس تو ڈاکٹر بننا چاہتی تھیں، لیکن فلمی دنیا نے انھیں یہ موقع نہیں دیا۔ وہ پہلی فلم کے بعد چاہتے ہوئے بھی آفرز پر انکار نہ کرسکیں۔ لیکن بعد میں انھوں‌ نے سیاست کی دنیا میں‌ ضرور قدم رکھا اور اپنی وفات تک راجیہ سبھا کی رکن رہیں۔

    نرگس اپنے ایک مضمون میں رقم طراز ہیں: قسمت کے فیصلے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ میں نے ہمیشہ شدّت سے چاہا تھا کہ ڈاکٹر بنوں لیکن فلم تقدیر کے بعد پانسے ہی پلٹ گئے۔ یکے بعد دیگرے میری فلمیں کام یاب ہوتی گئیں اور ڈاکٹر بننے کا پھر کبھی خیال نہیں‌ آیا، کیوں‌ کہ ایک اداکارہ جنم لے چکی تھی جو تیزی سے سرگرمِ سفر تھی۔

    نرگس دَت کی فلموں میں آمد، حسن و جمال اور ذاتی زندگی پر فلموں سے وابستہ کئی بڑے ناموں اور اہلِ قلم نے مضامین اور کتابیں‌ لکھیں۔ انہی میں اردو کے ممتاز ترقی پسند شاعر اور مصنّف علی سردار جعفری بھی شامل ہیں۔ علی سردار جعفری لکھتے ہیں‌، نرگس دَت موسمِ بہار کی کلی تھی۔ شہرت اور مقبولیت کی ایک خرابی بتاتے ہوئے مصنّف نے فلمی ستاروں‌ کے بارے میں لکھا، وہ اپنا توازن کھو دیتے ہیں اور فن اور زندگی کے دوسرے شعبوں کی بڑی ہستیوں کو خاطر میں نہیں لاتے اور جب ان کے عروج کا زمانہ ختم ہو جاتا ہے تو احساسِ کمتری میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ لیکن نرگس کا مزاج یہ نہیں تھا۔ اس نے اپنی انتہائی مقبولیت کے زمانے میں بھی اپنے ذہنی توازن کو برقرار رکھا اور اپنی شخصیت کے وقار کو باقی رکھا۔

    آج نرگس دَت کا یومِ‌ وفات ہے اور ہندی سنیما کی یہ معروف فن کار فلم انڈسٹری میں صرف نرگس کے نام سے پہچانی گئیں۔ یکم جون 1929 کو نرگس کلکتہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ نرگس چھے سات برس کی تھیں‌ جب بطور چائلڈ آرٹسٹ کیمرے کا سامنا کیا اور وہ فلم ’’تلاشِ حق‘‘ تھی۔ نرگس کی ماں کا نام جدن بائی تھا جو کلاسیکی موسیقار اور گلوکار تھیں اور ان کا تعلق بنارس کے ایک خاندان سے تھا جب کہ والد موہن چند ایک امیر خاندان کے فرد تھے اور کہا جاتا ہے کہ وہ ایک نو مسلم تھے۔ نرگس کو 14 سال کی عمر میں محبوب خان کی فلم ’’تقدیر‘‘ میں بطور ہیروئن کام کرنے کا موقع ملا اور ان کی جوڑی راج کپور اور دلیپ کمار کے ساتھ آنے والے برسوں‌ میں بے حد مقبول ہوئی۔ راج کپور اور دلیپ کمار دونوں‌ ہی اپنے دور کے مقبول ہیرو تھے۔ نرگس نے ان کے ساتھ فلم’’ انداز‘‘، ’’آوارہ‘‘ اور ’’چوری چوری‘‘ میں بہترین اداکاری کی۔ مگر ان کا کیریئر 1942ء میں فلم “تمنا“ سے شروع ہوتا ہے۔ اداکارہ نرگس نے زیادہ تر خودمختار اور آزاد عورت کے کردار نبھائے اور اپنے فنِ اداکاری کے سبب ہدایت کاروں میں اہمیت حاصل کی۔ آدھی رات (1950ء)، بے وفا (1952ء)، انہونی (1952ء)، آہ (1953ء) اور دیگر فلموں میں ان کی اداکاری کو شائقین نے بہت پسند کیا۔ ایک وقت تھا جب وہ راج کپور جیسے بڑے ہندوستانی فن کار کے قریب ہوگئی تھیں‌، لیکن پھر ان میں‌ اَن بَن ہوگئی اور نرگس نے اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے پر توجہ مرکوز کردی تاہم یہی وہ موڑ بھی تھا جس نے نرگس کو سنیل دت کی محبّت میں مبتلا کر دیا۔ نرگس نے راج کپور سے علیحدگی کے بعد پہلی فلم مدر انڈیا سائن کی تھی۔ اس فلم میں نرگس نے اپنی زندگی کی بہترین اداکاری کی۔ یہ فلم ایک عورت کی نوجوان بیوی سے بڑھاپے تک کے سفر کی کہانی ہے، جس میں رومانس تو ہے ہی لیکن ساتھ ساتھ عورت کی استقامت بھی بیان کی گئی ہے جس میں ایک ماں اپنے ہی بیٹے کو گولی مارنے سے گریز نہیں کرتی۔ اس فلم نے انھیں‌ ملک گیر شہرت دی اور مدر انڈیا کے بعد نرگس کے لیے ہر کردار چھوٹا ہو گیا۔ یہ ہندوستانی سنیما کی شاہ کار فلموں میں سے ایک تھی۔ اسی فلم میں‌ سنیل دت نے بھی کردار نبھایا تھا اور وہ دونوں ایک دوسرے کے قریب آئے۔

    اس فلم کی زیادہ تر شوٹنگ مہاراشٹرا اور گجرات میں کی گئی تھی اور اسی دوران ایک حادثہ انھیں قریب لے آیا۔ گجرات میں مدر انڈیا کے ایک سین میں بھوسے کے ڈھیر کو آگ لگائی جانی تھی جس میں‌ چھپے سنیل دت باہر آتے۔ اس موقع پر نرگس جلتے ہوئے بھوسے کے ڈھیر سے گزر رہی تھیں تو شعلوں میں پھنس گئیں۔ سنیل دت نے یہ دیکھا تو شعلوں‌ میں‌ کود کر نرگس کو بچا لیا۔ وہ اس دوران خود بھی جل گئے تھے۔ نرگس اسپتال میں ان کے ساتھ رہیں اور بہت خیال رکھا۔ بعد میں سنیل دت نے انھیں شادی کی پیشکش کی اور پھر دونوں نے زندگی بھر ایک دوسرے کا ساتھ نبھایا۔ اداکار سنجے دت انہی کی اولاد ہیں۔

    شادی کے بعد اداکارہ نرگس نے فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیا اور اپنا رخ سماجی کاموں کی طرف کرلیا۔ نرگس نے ایک اچھی بیوی کی طرح نہ صرف سنیل دت کو سنبھالا بلکہ ان کے خاندان کو بھی ایک کیے رکھا۔ وہ سیاست کی دنیا میں بھی سرگرم ہوئیں اور نرگس کو راجیا سبھا کے لیے نامزد کیا گیا۔

    علی سردار جعفری لکھتے ہیں، نرگس کے چہرے میں وہ چیز نہیں تھی جس کو عام فلمی زبان میں گلیمر (GLAMOUR) کہا جاتا ہے۔ اس کی پوری شخصیت میں ایک سنجیدگی اور وقار تھا جس کی وجہ سے لوگ احترام کرنے پر مجبور ہو جاتے تھے۔ نرگس کے فن کے پرستاروں میں جواہر لال نہرو اور ترکی کے شاعر ناظم حکمت جیسی عظیم شخصیتیں تھیں۔

    میں نے نرگس کو ایک اچھی اداکارہ کی حیثیت سے سب سے پہلے قریب سے احمد عباس کی فلم ‘انہونی’ میں دیکھا جس کا ایک گیت "دل شاد بھی ہے ناشاد بھی ہے” میں نے لکھا تھا۔ اس میں نرگس کا رول دہرا تھا اور اس نے اپنے فن کے کمال کا پہلا بڑا مظاہرہ کیا تھا۔ اس نے دو لڑکیوں کا کردار ادا کیا تھا جن میں سے ایک "شریف زادی” ہے اور دوسری "طوائف”۔ خواجہ احمد عباس نے اس کہانی میں ماحول کے اثر پر زور دیا تھا۔ یہ فلم عباس کی بہترین فلموں میں شمار کی جاتی ہے۔ اور اس کا شمار نرگس کی بھی بہترین فلموں میں کیا جائے گا۔

    نرگس کے فن میں کیا جادو تھا اس کا مظاہرہ میں نے 1953ء میں دیکھا۔ اکتوبر یا نومبر 1953ء میں پہلا فلمی ڈیلیگیشن ہندوستان سے سوویت یونین گیا۔ ڈیلیگیشن کے لیڈر خواجہ احمد عباس تھے۔ اور اراکین میں بمل رائے، راج کپور، نرگس بلراج ساہنی وغیرہ تھے۔ وہاں راج کپور کی فلم ‘آوارہ’ دکھائی گئی جس کی کہانی خواجہ احمد عباس نے لکھی تھی۔ اس فلم نے سارے سوویت یونین کا دل جیت لیا۔ راج کپور اور نرگس، نرگس اور راج کپور۔ یہ دو نام ہر دل کے ساتھ دھڑک رہے تھے۔ اور ہر طرف فلم کا گانا ‘آوارہ ہوں…ٔ گایا جا رہا تھا۔

    جب میں دسمبر 1953ء میں سوویت یونین گیا تو لوگ مجھ سے پوچھتے تھے آپ نرگس کو جانتے ہیں۔ آپ راجک پور سے ملے ہیں؟ اور جب میں ہاں کہتا تو ان کی نظروں میں میرا وقار بڑھ جاتا تھا۔ ابھی دو تین ماہ پہلے جب میں سوویت یونین گیا تو تقریباً تیس سال بعد بھی نئی نسل کے نوجوان نرگس کے نام سے واقف تھے۔

    نرگس کی آخری اور شاہ کار فلم ‘مدر انڈیا’ ہے۔ اس میں نرگس کے فن نے اپنی آخری بلندیوں کو چھو لیا ہے۔ ماں کے کردار کے لیے محبوب خاں کی نگاہِ انتخاب نرگس پر پڑی اور وہ سب سے زیادہ صحیح انتخاب تھا۔ اور نرگس نے بھی کمال کر دیا۔ اپنی معراج پر پہنچنے کے بعد نرگس نے فلمی کام ہمیشہ کے لیے ترک کر دیا۔ اس فیصلے میں بھی نرگس کی عظمت جھلکتی ہے۔ وہ چیز جس کو "موہ مایا” کہا جاتا ہے نرگس اس سے بہت بلند تھی۔

    علی سردار جعفری کے مضمون کا یہ آخری پارہ ہے جس میں انھوں نے نرگس اور سنیل دت کی جوڑی کی تعریف کی ہے، وہ لکھتے ہیں: مدر انڈیا نے نرگس کو عظمت کی جو بلندی عطا کی اس کے ساتھ ایک وفادار اور محبت کرنے والا شوہر بھی دیا۔ نرگس کی بیماری کے آخری زمانے میں سنیل دَت نے جس طرح اپنے تن من دھن کے ساتھ نرگس کی خدمت کی ہے اس کی تعریف کرنے کے لیے ہماری زبان میں الفاظ نہیں ہیں۔ نرگس اور سنیل دَت کا فن ان کے بیٹے کو ورثے میں ملا ہے اور اگر سنجے دَت نے اپنی اس وراثت کا احترام کیا تو ایک دن وہ بھی عظمت کی بلندیوں کو چُھو لے گا۔

  • طاہرہ واسطی: ‘افشاں’ اور ‘آخری چٹان’ سے غیرمعمولی شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ

    طاہرہ واسطی: ‘افشاں’ اور ‘آخری چٹان’ سے غیرمعمولی شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ

    طاہرہ واسطی کا شمار پاکستان ٹیلی ویژن کے ان اداکاروں‌ میں ہوتا ہے جن کی ہر پرفارمنس یادگار ثابت ہوئی۔ پُر وقار اور با رعب شخصیت کے باعث طاہرہ واسطی کو اُن کرداروں‌ کے لیے منتخب کیا جاتا تھا، جو شاہانہ کرّوفر اور رعب و دبدبہ کے متقاضی تھے۔ ڈرامہ سیریل افشاں میں اداکارہ نے ایسا ہی ایک کردار نبھا کر غیرمعمولی شہرت حاصل کی۔ آج طاہرہ واسطی کی برسی ہے۔

    پاکستان ٹیلی ویژن کی تاریخ کے لازوال اور نہایت مقبول ڈراموں میں ایک افشاں بھی تھا جس میں طاہرہ واسطی نے یہودی تاجر کی بیٹی کا کردار نبھایا۔ آخری چٹان وہ ڈرامہ تھا جس میں طاہرہ واسطی ملکہ ازابیل کے روپ میں اسکرین پر نظر آئیں اور دونوں ہی کرداروں نے انھیں غیرمعمولی شہرت دی۔ طاہرہ واسطی 1980ء اور 1990ء کے عشرے میں پاکستان ٹیلی ویژن کے ناظرین میں بے حد بہت مقبول تھیں۔ 2012ء میں اداکارہ آج ہی کے دن اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    1968ء میں طاہرہ واسطی نے پاکستان ٹیلی ویژن سے اداکاری کا آغاز کیا۔ ان کا پہلا ڈرامہ سیریل ’جیب کترا‘ تھا جو بہت مشہور ہوا۔ یہ اردو کے نام ور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی کہانی پر مبنی سیریل تھا۔ طاہرہ واسطی نے 1944ء میں‌ سرگودھا میں‌ آنکھ کھولی۔ وہیں ابتدائی تعلیم مکمل کی اور بعد میں لاہور کی درس گاہ میں داخلہ لیا۔ ان کی شادی رضوان واسطی سے ہوئی جو معروف ٹی وی اداکار اور انگریزی نیوز کاسٹر تھے۔ ان کی صاحبزادی لیلیٰ واسطی بھی ٹیلی ویژن پر اداکاری کرچکی ہیں۔

    پی ٹی وی کی معروف اداکارہ طاہرہ واسطی کے تاریخی کہانیوں پر مبنی ڈراموں میں غرناطہ، شاہین، ٹیپو سلطان کے علاوہ شمع اور دلدل شامل ہیں جو اپنے وقت کے مقبول ترین اور یادگار ڈرامے ثابت ہوئے۔

    وہ ایک منجھی ہوئی اداکارہ ہی نہیں قابل رائٹر بھی تھیں۔ طاہرہ واسطی نے چند ڈرامے بھی تحریر کیے اور سائنس فکشن بھی لکھا۔ ایڈز کے موضوع پر ان کا تحریر کردہ ایک کھیل بعنوان کالی دیمک بہت پسند کیا گیا تھا۔

  • آسیہ:‌ پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک مقبول اداکارہ

    آسیہ:‌ پاکستانی فلم انڈسٹری کی ایک مقبول اداکارہ

    70 کی دہائی میں آسیہ کا نام پاکستانی فلم انڈسٹری کی مصروف اداکارہ کے طور پر لیا جاتا تھا اور وہ مقبولیت کی بلندیوں کو چھو رہی تھی۔ صرف ایک دہائی میں آسیہ نے ڈیڑھ سو کے لگ بھگ فلموں میں کام کیا تھا اور جب اداکارہ نے فلمی دنیا کو خیرباد کہا تو اس کی چالیس کے قریب فلمیں زیرِ تکمیل تھیں۔

    آسیہ کی پہلی ریلیز ہونے والی فلم ہدایت کار شباب کیرانوی کی شاہکار فلم انسان اور آدمی تھی اور 1970 کی یہ فلم زیبا اور محمدعلی کی بھی بڑی فلم تھی۔ آسیہ کی جوڑی لیجنڈ ٹی وی اداکار طلعت حسین کے ساتھ بنی تھی جن پر رنگیلا کا گایا ہوا ایک گیت بھی فلمایا گیا تھا۔ اداکارہ آسیہ کی بطور ہیروئن پہلی سپرہٹ اردو فلم 1971ء میں ریلیز ہوئی تھی اور اسی سال اداکارہ کی چھ فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں سے بطور سولو ہیروئن اکلوتی فلم دل اور دنیا تھی۔ اس سپرہٹ فلم نے آسیہ کو صف اوّل کی اداکارہ بنا دیا تھا۔ 1973ء تک آسیہ پاکستانی فلموں کی ایک مصروف ترین اداکارہ بن چکی تھی۔ سوا درجن فلموں میں سے بیشتر پنجابی فلمیں تھیں۔ 1980ء کے بعد اداکارہ کی چالیس کے قریب فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں اتھراپتر 1981 جب کہ یہ آدم 1986 کی مشہور فلمیں ثابت ہوئیں۔ چن میرے 1991 میں آسیہ کی آخری فلم تھی۔

    پاکستانی فلم انڈسٹری کی ماضی کی یہ اداکارہ کراچی میں 1952ء میں پیدا ہوئی تھی۔ آسیہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا تعلق بازار حسن سے تھا۔ 9 مارچ 2013ء کو کینیڈا میں آسیہ کا انتقال ہوگیا تھا۔

  • ‘آہو چشم’ راگنی کا تذکرہ جس نے ایک معمولی مکان میں زندگی کے آخری دن بسر کیے

    ‘آہو چشم’ راگنی کا تذکرہ جس نے ایک معمولی مکان میں زندگی کے آخری دن بسر کیے

    پاکستانی فلم انڈسٹری میں راگنی ‘آہو چشم’ مشہور تھیں۔ روزناموں اور فلمی رسائل میں ان کا ذکر اسی لقب کے ساتھ کیا جاتا تھا۔ بطور اداکارہ راگنی کا مجموعی کیریئر اتنا متاثر کن نہیں رہا، لیکن خوب صورتی، اور ان کے نشیلے نینوں نے شائقینِ سنیما کو اُن کا دیوانہ بنا دیا تھا۔ راگنی 2007ء میں آج ہی کے دن وفات پاگئی تھیں۔ آج اداکارہ کی برسی ہے۔

    راگنی نے 1941ء میں مشہور پنجابی فلم دُلا بھٹی میں مرکزی کردار نبھایا تھا اور اسی فلم کے بعد وہ آہو چشم کے نام سے پکاری گئیں۔ ہدایت کار روپ۔ کے۔ شوری نے راگنی کو بطور اداکارہ فلم انڈسٹری میں متعارف کروایا تھا۔ فلم دُلا بھٹی کی نمائش کے موقع پر سنیماؤں پر جو تشہیری بورڈ اور پوسٹر آویزاں تھے، ان پر راگنی کی تصویر نے سنیما بینوں کو اپنی جانب متوجہ کر لیا تھا۔نشیلی آنکھوں والی اس خوب صورت ہیروئن کی فلم دُلا بھٹی کے متعدد نغمات فلم ریلیز ہونے سے پہلے ہی ہر خاص و عام میں مقبول ہوچکے تھے۔ جب فلم ریلیز ہوئی تو شائقین کی بڑی تعداد نے سنیماؤں‌ کا رخ کیا اور دُلا بھٹی کی شان دار کام یابی کے ساتھ راگنی بھی شہرت کی بلندیوں کو چھونے لگیں۔

    پاکستانی فلموں کی اس اداکارہ کا اصل نام شمشاد بیگم تھا۔ وہ 1923ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ راگنی کا خاندان بعد میں مشہور ہدایت کار کے ہمسائے میں جا بسا جہاں مسٹر شوری نے شمشاد بیگم کو دیکھا تو اسے فلم میں کام دینے کا ارادہ کیا اور ان کے والد سے اجازت مانگی۔ ان کے ہاں کرنے کی دیر تھی کہ نشیلی آنکھوں والی اس لڑکی کو فلم دُلا بھٹی میں ہیروئن کا کردار سونپ دیا گیا۔ یہ 1940ء کی بات ہے۔ فلم کے ہیرو لاہور کے ایک رنگین مزاج اور وجیہ صورت امیر زادے ایم۔ ڈی۔ کنور تھے جنھیں راگنی کے ساتھ فلمی پردے پر بہت پذیرائی ملی۔

    دُلا بھٹی کے بعد متعدد بڑے فلم سازوں نے راگنی کو اپنی فلموں میں‌ کاسٹ کرنا چاہا، لیکن اداکارہ نے اپنے والد کی اجازت سے فلم ’ہمّت‘ سائن کی۔ اس فلم کے ہدایت کار بھی روپ۔ کے۔ شوری تھے۔ یہ فلم بھی کام یاب رہی اور راگنی کو سنیما بینوں نے بہت سراہا۔ اس کے بعد اداکارہ نے فلم ’سہتی مُراد‘ میں مرکزی کردار ادا کیا جو دراصل پنجاب کی لوک کتھا پر مبنی کہانی تھی۔ اس میں‌ راگنی پر فلمایا ہوا ایک گیت انتہائی مقبول ہوا۔ خوب صورت آنکھوں والی اداکارہ راگنی نے 1941ء ہی میں تیسری کام یاب فلم ’میرا ماہی‘ میں‌ کام کیا اور پھر انھیں بمبئی سے فلم آفر ہوئی۔ لیکن اداکارہ نے انکار کردیا۔ وہ لاہور نہیں چھوڑنا چاہتی تھیں۔ لاہور کی فلمی دنیا میں‌ راگنی نے پونجی، پٹواری، داسی، من مانی، دھمکی، کیسے کہوں اور بِندیا جیسی فلموں میں کام کیا جو بہت کام یاب ثابت ہوئیں۔

    تقسیم سے قبل ایک اور فلم 1946ء میں فرض کے نام سے بنائی گئی جس میں راگنی کے مدمقابل ایک نئے ہیرو کو کاسٹ کیا گیا تھا۔ یہ اداکار سدھیر تھے جنھیں‌ بعد میں بے انتہا مقبولیت ملی اور وہ پاکستانی فلمی دنیا کے جنگجو ہیرو کہلائے۔ شہرت اور مقبولیت حاصل کرنے کے بعد راگنی نے بمبئی سے بھاری معاوضے پر فلم کی آفر قبول کرلی۔ یہ فلم شاہ جہان تھی جس کے ہدایت کار اے۔ آر کار دار تھے۔ راگنی کے حسن و جمال، سہگل کی آواز اور نوشاد کی موسیقی میں فلم شاہ جہان کو زبردست کام یابی نصیب ہوئی اور ہر طرف راگنی کا ڈنکا بجنے لگا۔ اداکارہ نے فلم کا معاوضہ اُس زمانے میں پچاس ہزار لیا تھا جب اتنی رقم میں پوری فلم پروڈیوس ہوجاتی تھی۔ یہ وہ فلم تھی جس نے راگنی کو پنجاب سے نکال کر ہندوستانی فلم انڈسٹری کے بڑے مراکز کلکتہ اور بمبئی کے ذریعہ ملک بھر میں‌ شہرت دی۔ مشہور ہے کہ ہدایت کار اے۔ آر۔ کاردار نے اگلی فلم کے لیے راگنی سے رابطہ کیا تو اداکارہ نے ایک لاکھ روپے طلب کیے۔ یوں متحدہ ہندوستان کے ایک بڑے فلمی مرکز میں اداکارہ کی پہلی فلم ہی آخری ثابت ہوئی۔ لیکن قیامِ پاکستان کے بعد وہ گمنام، مندری، بے قرار، کندن، غلام، شرارے، نوکر، انارکلی، زنجیر، صاعقہ اور نائلہ جیسی کام یاب پاکستانی فلموں میں نظر آئیں‌۔ پاکستان میں اُن کی یادگار فلم انارکلی ہے جس میں انھوں نے دِل آرام کا کردار ادا کیا تھا۔ راگنی نے اس کردار میں شائقین کے دل جیتے۔

    اداکارہ راگنی صاف گو مشہور تھیں۔ ان کے کھرے اور دو ٹوک لہجے نے کئی لوگوں کو ان سے بد دل بھی کیا۔ انھیں اکثر لوگ متکبر اور گھمنڈی سمجھنے لگے تھے۔ راگنی نے دو شادیاں‌ کیں۔ لیکن وقت بدلا تو یہ خوب صورت اور آہو چشم اداکارہ تنہائی کا شکار ہوگئی اور آخری ایّام میں‌ بڑی پریشانی اور تکلیف اٹھائی۔ یہ بھی قابلِ ذکر بات ہے کہ تقسیم سے پہلے وہ ہیروئن کے روپ میں‌ خاصی کام یاب رہیں، لیکن پاکستان میں‌ انھیں‌ زیادہ تر کیریکٹر رول میں ہی پسند کیا گیا اور بطور ہیروئن وہ آگے نہ آسکیں۔

    راگنی نے لاہور کے ایک اسپتال میں دَم توڑا۔ انھوں نے زندگی کے آخری ایّام لاہور کے محلّے میں معمولی گھر میں گزارے۔ وہ اپنی اولاد پر بوجھ نہیں‌ بننا چاہتی تھیں اور اسی لیے ان سے الگ ایک مکان میں منتقل ہوگئی تھیں۔

  • سچترا سین: پہلی ہندوستانی اداکارہ جس نے عالمی فلمی میلے میں ایوارڈ وصول کیا

    سچترا سین: پہلی ہندوستانی اداکارہ جس نے عالمی فلمی میلے میں ایوارڈ وصول کیا

    یہ اس اداکارہ کا تذکرہ ہے جس نے فلمی پردے پر اپنی غیرمعمولی مقبولیت کے زمانہ میں انڈسٹری کو چھوڑ دیا تھا اور 82 سال کی عمر میں‌ اپنی وفات تک وہ فلمی ستاروں کی کسی تقریب یا میڈیا کے سامنے نہیں آنے سے گریزاں رہیں۔

    سچترا سین بھارتی فلمی صنعت میں بنگالی اور ہندی فلموں کی مشہور اداکارہ تھیں۔ 17 جنوری 2014ء کو سچترا سین کی زندگی کا سفر تمام ہوا۔

    یہ 1978ء کی بات ہے جب سچترا سین نے فلموں اور عوامی زندگی سے کنارہ کشی اختیار کی، اور صحافیوں کو انٹرویو دینا بھی چھوڑ دیا۔ وہ اپنے مذہبی عقیدے کے مطابق ایک روحانی تنظیم سے وابستہ ہوگئی تھیں۔ سچترا سین اپنے فلمی زمانۂ عروج میں شوہر سے علیحدگی اختیار کرچکی تھیں۔ ان کی اکلوتی بیٹی، مون مون سین بھی فلمی اداکارہ ہے۔

    ’آندھی‘ وہ فلم تھی جس نے سچترا سین کو شہرت دی۔ گلزار صاحب کی ہدایت کاری میں بننے والی اس فلم میں وہ سنجیو کمار کے ساتھ نظر آئی تھیں۔ اس فلم کے گانے بہت مشہور ہوئے اور آج بھی بہت شوق سے سنے جاتے ہیں۔ فلم کام یاب بھی رہی اور اس پر کچھ تنازع بھی رہا۔ فلم میں ان کو ایک سیاسی لیڈر کے طور دکھایا گیا تھا۔ اس فلم کا نغمہ ’تیرے بنا زندگی سے شکوہ تو نہیں‘ اور تم آگئے ہو نور آگیا‘ سدا بہار نغموں کی فہرست میں شامل ہیں۔

    سچترا سین نے 1952ء میں بنگالی فلم سے اپنا کریئر شروع کیا تھا۔ فلم تھی ‘شیش کوتھائے’ مگر یہ پردے کی زینت نہیں‌ بن سکی۔ سچترا نے بنگالی کے ساتھ کئی کام یاب ہندی فلموں میں بھی کام کیا لیکن ان کی اصل شناخت بنگالی فلمیں ہی تھیں۔ سنہ 1955ء میں اداکارہ سچترا سین نے بمل رائے کی ہندی فلم دیو داس میں کام کیا۔ سال 1966ء میں وہ ہندی فلم بمبئی کا بابو میں سدا بہار ہیرو دیو آنند کے ساتھ نظر آئیں۔بنگلہ فلموں میں سچترا سین اور اتم کمار کی جوڑی خاصی مقبول ہوئی۔ ان دونوں نے ایک ساتھ "ہر نوسر، ساگریکا، چووا پووا اور اگنی پریکشا” جیسی فلمیں کیں۔ ان کی مشہور فلموں میں "دیپ جیلے جائی اور اترپھالگنی” شامل ہیں۔ 1961ء کی بنگالی زبان میں رومانوی اسٹوری "سپتپدی” کے نام سے آئی جس میں سچترا سین نے اپنی اداکاری سے شائقین کے دل جیت لیے۔ اسے بے حد پذیرائی ملی اور فلم 1963ء میں ماسکو کے فلمی میلے میں پہنچی۔ اداکارہ سچترا سین کو اس فلم کی بہترین اداکارہ کا ایوارڈ دیا گیا۔ وہ کسی بین الاقوامی سطح‌ کی فلمی تقریب میں ایوارڈ پانے والی پہلی ہندوستانی اداکارہ تھیں۔

    1963ء کی فلم بنگالی فلم سات پاکے باندھا میں بھی سچترا سین نے غضب کی اداکاری کی۔ یہ فلم بھی ماسکو فلم فیسٹیول میں پیش کی گئی اور اداکارہ سچترا سین کو ایوارڈ سے نوازا گیا۔

    1978 میں سچترا سین ایک بنگالی فلم کے بعد اسکرین اور عوامی تقریبات سے دور ہو گئی تھیں۔ کولکتہ میں رہائش پذیر سچترا سین کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ 2005ء میں دادا صاحب پھالکے ایوارڈ وصول کرنے کے لیے دعوت پر بھی اداکارہ انکار کر دیا تھا۔

    اداکارہ سچترا سین 1931ء میں مغربی بنگال کے بیربھوم ضلع کے ایک گاؤں پنا میں پیدا ہوئیں جو آج بنگلہ دیش کا حصّہ ہے۔ ان کا اصل نام اوما تھا۔ ہائی اسکول میں تعلیم کے بعد ہی 1947ء میں ان کی شادی کلکتہ کے ایک نوجوان دیباناتھ سین سے ہوگئی تھی۔

    اداکارہ نے ہندی فلم ’مسافر‘ اور ’چمپا کلی‘ میں بھی کام کیا تھا جو ناکام رہیں۔ وہ دلیپ کمار کے ساتھ بھی کام کرچکی تھیں۔

  • ’’انوکھی‘‘ کی شیلا رامانی کا تذکرہ

    ’’انوکھی‘‘ کی شیلا رامانی کا تذکرہ

    وہ لوگ جو عمرِ عزیز کی پچاس سے زائد بہاریں‌ دیکھ چکے ہیں، اور سنیما کے شوقین رہے ہیں تو اُنھوں‌ نے شیلا رامانی کی وہ فلم ضرور دیکھی ہو گی، جس کا یہ گیت آج بھی بہت شوق سے سنا جاتا ہے، ’’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے ہلکے، کہیں‌ دل کا جام نہ چھلکے…‘‘

    ماضی میں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں‌ اپنے فن اور صلاحیتوں کا اظہار کرنے والوں‌ میں‌ کئی ایسے چہرے بھی تھے جن کا تعلق بھارت یا دوسرے ممالک سے تھا۔ انھوں‌ نے ہر قسم کے کردار ادا کیے اور پاکستانی فلموں‌ میں ٹائٹل رول بھی نبھائے۔ اس ضمن میں پاکستانی فلم ’’انوکھی‘‘ کی بات کریں تو اس کے ہدایت کار شاہ نواز تھے۔ فلم کی ہیروئن کا نام ’’شیلا رامانی‘‘ تھا جو تقسیم ہند سے قبل صوبۂ سندھ کے ایک شہر میں پیدا ہوئی تھیں، اور بعد میں بھارت ہجرت کرگئیں جہاں انھوں نے ممبئی کی فلم نگری میں‌ خوب کام کیا۔

    فلم میں شیلا رامانی کے مدمقابل اداکار شاد تھے۔ فلم ’’انوکھی‘‘ کے لیے شیلا رامانی کو خصوصی طور پر بمبئی سے بلوایا گیا تھا۔ یہ فلم 1956 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی جس میں شیلا رامانی نے اپنے کردار کو نہایت خوبی سے نبھایا اور ان کی پرفارمنس یادگار رہی، جب کہ ان پر فلمایا گیا گیت ’’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے کہیں دل کا جام نہ چھلکے….‘‘ بے حد مقبول ہوا۔ یہ گیت سرحد پار بھی مقبول ہوا۔ تاہم فلم باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئی۔

    اپنے وقت کی اس مشہور اداکارہ نے 14 جولائی 2015ء کو وفات پائی۔ وہ 2 مارچ 1932ء کو پیدا ہوئی تھیں۔ چیتن آنند نے شیلا رامانی کو بالی وڈ میں متعارف کرایا تھا اور 1954ء میں جب اداکارہ کی فلم ٹیکسی ڈرائیور نمائش کے لیے پیش کی گئی تو شائقین نے ان کی اداکاری کو بہت پسند کیا۔ شیلا رامانی کی ایک سندھی فلم ابانا بھی ان کے کیریئر میں شان دار اضافہ ثابت ہوئی۔

    اس اداکارہ نے زیادہ تر فلموں میں امیر گھرانے کی لڑکی کا کردار نبھایا۔ شیلا رامانی شادی کے بعد امریکا منتقل ہوگئی تھیں۔ تاہم ان کی زندگی کے آخری ایّام مدھیہ پردیش میں گزرے۔

    انھوں نے بمبئی فلم انڈسٹری کے لیے ٹیکسی ڈرائیور، سرنگ، ریلوے پلیٹ فارم، مینار، جنگل کنگ، آوارہ لڑکی اور دیگر فلموں میں کام کر کے شائقین سے اپنی شان دار اداکاری پر خوب داد سمیٹی۔

  • پی ٹی وی کی سینئر اداکارہ ذہین طاہرہ کی برسی

    پی ٹی وی کی سینئر اداکارہ ذہین طاہرہ کی برسی

    ایک زمانہ تھا جب ملک میں‌ ریڈیو اور ٹیلی ویژن جیسے میڈیم نہ صرف معیاری تفریحی پروگراموں اور ڈراموں کی وجہ سے سامعین اور ناظرین میں‌ مقبول تھے بلکہ کنبے کا ہر فرد اُس دور کے فن کاروں سے مانوس ہوتا تھا۔ ذہین طاہرہ بھی پاکستان بھر میں‌ پہچانی جاتی تھیں اور ہر چھوٹا بڑا ان کا مداح تھا۔ آج ٹیلی ویژن کی منجھی ہوئی اور سینئر اداکارہ ذہین طاہرہ کی برسی ہے۔

    اداکارہ ذہین طاہرہ کئی دہائیوں تک فنِ اداکاری سے منسلک رہیں‌ اور لگ بھگ سات سو ڈراموں‌ میں کام کیا۔ ذہین طاہرہ نے اپنے کیریئر کا آغاز 1960ء میں بطور اداکارہ شروع کیا تھا۔ انھوں نے اسٹیج اور ریڈیو کے ساتھ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے کئی مقبول ڈراموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور ناظرین سے داد وصول کی۔

    ’خدا کی بستی‘ پی ٹی وی کا ریکارڈ ساز ڈرامہ سمجھا جاتا ہے جس میں 1974 میں ذہین طاہرہ نے مرکزی کردار ادا کر کے شہرت حاصل کی تھی۔ یہ ممتاز ناول نگار شوکت صدیقی کی کہانی پر مبنی تھا جسے پی ٹی وی کے سنہری دور میں‌ کلاسک کا درجہ حاصل ہوا۔ ذہین طاہرہ نے پاکستانی فلموں میں بھی اداکاری کی اور ٹیلی ویژن انڈسٹری میں بطور ہدایت کار اور پروڈیوسر بھی اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    ان کے مشہور ڈراموں میں منزل، مراد، آنگن ٹیڑھا، کرن کہانی، عروسہ، دستک، دیس پریس، وقت کا آسمان، شمع، وغیرہ شامل ہیں۔ ذہین طاہرہ کو 2013 میں تمغائے امتیاز سے بھی نوازا گیا تھا۔

    اداکارہ ذہین طاہرہ دل کا دورہ پڑنے کے باعث کراچی کے ایک نجی اسپتال میں زیرِ علاج تھیں جہاں طبیعت بگڑنے پر انھیں وینٹی لیٹر پر منتقل کردیا گیا تھا، لیکن 9 جولائی 2019ء کو وہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔

    ذہین طاہرہ کا تعلق لکھنؤ سے تھا جہاں انھوں نے 1930ء میں آنکھ کھولی اور تقسیمِ ہند کے بعد ہجرت کرکے آنے والا ان کا کنبہ کراچی میں سکونت پذیر ہوا۔

    ان کے زیادہ تر ڈرامے سماجی ناہمواریوں، معاشرتی رویوں اور عام گھریلو کہانیوں سے متعلق تھے جن میں سے بیشتر میں ذہین طاہرہ کا کردار بہت طاقت ور تھا۔ ذہین طاہرہ نے ان کرداروں کو بخوبی نبھایا اور اپنے فنِ اداکاری سے ان میں‌ حقیقت کا رنگ بھر دیا۔ ذہین طاہرہ گلوکاری کا بھی شوق رکھتی تھیں۔ انھوں نے کئی مواقع پر اپنے احباب کی فرمائش پر گیت گا کر انھیں محظوظ کیا۔

    حلقۂ احباب بالخصوص ساتھی فن کار ذہین طاہرہ کو انتہائی نفیس، شفیق اور شگفتہ مزاج خاتون کے طور پر یاد کرتے ہیں۔ اداکارہ کو ذاتی زندگی میں اپنی بیٹی کو کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہونے اور بہو کے انتقال کا دکھ جھیلنا پڑا تھا، لیکن انھوں نے ہمّت سے کام لیا۔ وہ نہایت بااخلاق اور اعلیٰ اقدار کی حامل خاتون تھیں جب کہ ساتھی فن کاروں‌ اور جونیئرز کے لیے خاص طور پر ایک ایسی سینئر اداکارہ تھیں‌ جن سے بہت کچھ سیکھا جاسکتا تھا۔

  • اداکارہ راگنی کا تذکرہ جنھیں‌ ‘آہو چشم’ کہا جاتا تھا!

    اداکارہ راگنی کا تذکرہ جنھیں‌ ‘آہو چشم’ کہا جاتا تھا!

    27 فروری 2007ء کو آہو چشم راگنی کی آنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔ آج پاکستان فلم انڈسٹری کی اس کام یاب اداکارہ کی برسی ہے۔

    فیض صاحب کی نظم کا ایک مشہور مصرع ہے؎

    تیری آنکھوں کے سوا دنیا میں رکھا کیا ہے

    شاید اس دور میں راگنی کو دیکھنے کے بعد اکثر لوگوں کو یہی خیال آتا ہو گا۔ بڑی بڑی آنکھوں والی اس لڑکی کو بڑی اسکرین پر اداکارہ کے طور پر متعارف کرانے والے ہدایت کار کا نام روپ۔ کے۔ شوری تھا جو معروف فلم ساز اور ہدایت کار روشن لال شوری کے صاحب زادے تھے۔ انھوں نے اپنی مشہور پنجابی فلم دُلا بھٹی میں راگنی کو مرکزی کردار دیا تھا اور 1941ء میں وہ اسی فلم کے بعد آہو چشم مشہور ہوئی تھیں۔

    فلم دُلا بھٹی کے لیے سنیماؤں کی عمارتوں جو تشہیری بورڈ اور چاکنگ کی گئی تھی، اس میں‌ نشیلی آنکھوں والی نئی ہیروئن کی تصویر نے شائقینِ سنیما کو اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا جب کہ فلم کے 17 گیتوں میں سے متعدد فلم کی ریلیز سے پہلے ہی مقبول ہوچکے تھے۔

    پاکستان کی اس مشہور فلمی اداکارہ کا اصل نام شمشاد بیگم تھا۔ وہ 1923ء میں گوجرانوالہ میں پیدا ہوئی تھیں۔ راگنی کا خاندان بعد میں مشہور ہدایت کار کے ہمسائے میں جا بسا جہاں جوہر شناس مسٹر شوری نے شمشاد بیگم کو دیکھا تو دل میں‌ ارادہ کیا اور ان کے والد سے اسکرین ٹیسٹ کی اجازت مانگی۔ جیسے اُن کے ہاں کرنے کی دیر تھی اور وہ ’راگنی‘ کے نام سے فلم دُلا بھٹی میں کاسٹ کر لی گئیں۔ اس فلم کے ہیرو لاہور کے ایک شوقین مزاج اور وجیہ صورت امیر زادے ایم۔ ڈی۔ کنور تھے جنھیں فلم میں راگنی کے ساتھ بہت پذیرائی ملی۔

    دُلا بھٹی کی کام یابی کے بعد کئی فلم سازوں نے راگنی کو کاسٹ کرنا چاہا لیکن اپنے والد کے مشورے سے راگنی نے فلم ’ہمت‘ میں کام کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس فلم کے ہدایت کار بھی روپ۔ کے۔ شوری تھے۔ یہ فلم بھی زبردست ثابت ہوئی اور راگنی کو بہت سراہا گیا، اس کے بعد اداکارہ نے فلم ’سہتی مُراد‘ میں مرکزی کردار ادا کیا جو دراصل پنجاب کی لوک کتھا پر مبنی کہانی تھی۔ اس میں‌ راگنی پر فلمایا ہوا شمشاد بیگم کی آواز میں ایک گیت انتہائی مقبول ہوا تھا۔ خوب صورت آنکھوں والی اداکارہ راگنی نے 1941ء ہی میں تیسری کام یاب فلم ’میرا ماہی‘ دی اور پھر انھیں بمبئی جانے اور فلموں میں کام کی آفر ہوئی۔ لیکن انھوں نے لاہور چھوڑنے سے انکار کر دیا۔ یہاں لاہور میں فلمی دنیا میں‌ راگنی نے پونجی، پٹواری، داسی، من مانی، دھمکی، کیسے کہوں اور بِندیا جیسی فلموں میں کام کیا جو بہت کام یاب ثابت ہوئیں۔

    1946ء میں راگنی کو فرض نامی فلم میں‌ ایک نئے ہیرو کے ساتھ کاسٹ کیا گیا۔ یہ اداکار سدھیر تھے جنھیں‌ بعد میں بے انتہا مقبولیت اور پذیرائی ملی اور وہ پاکستانی فلموں کے جنگجو ہیرو کہلائے۔ بعد میں راگنی نے بمبئی میں بھاری معاوضے پر فلم شاہ جہان سائن کی جس کے ہدایت کار اے۔ آر کاردار تھے۔ راگنی کے حسن و جمال، سہگل کی آواز اور نوشاد کی موسیقی میں اس فلم نے مقبولیت کی بلندیوں کو چھوا اور ہر جانب فلم شاہ جہان کا ڈنکا بجنے لگا۔

    اس فلم کا معاوضہ راگنی نے اس زمانے میں پچاس ہزار لیا تھا جب اتنی رقم میں پوری فلم پروڈیوس ہوجاتی تھی۔ یہ وہ فلم تھی جس نے راگنی کو پنجاب سے نکال کر ہندوستانی فلم انڈسٹری کے بڑے مراکز کلکتہ اور بمبئی کے ذریعہ ملک بھر میں‌ شہرت دی تھی اور جب ہدایت کار اے۔ آر۔ کاردار نے اگلی فلم کے لیے راگنی سے رابطہ کیا تو اداکارہ نے ایک لاکھ روپے طلب کیے۔ یوں پہلی ہی فلم متحدہ ہندوستان میں اداکارہ کی آخری فلم ثابت ہوئی لیکن قیامِ پاکستان کے بعد وہ گمنام، مندری، بے قرار، کندن، غلام، شرارے، نوکر، انارکلی، زنجیر، صاعقہ اور نائلہ جیسی کام یاب پاکستانی فلموں میں نظر آئیں‌۔ پاکستان میں اُن کی یادگار فلم انارکلی ہے جس میں انھوں نے دِل آرام کا کردار ادا کیا تھا۔ راگنی نے اپنے فنِ اداکاری سے اس کردار کو لافانی بنا دیا اور شائقین کا دل جیت لیا۔

    مشہور ہے کہ وہ ایک صاف گو خاتون تھیں اور ان کے کھرے اور بے باک لہجے نے کئی لوگوں کو ان سے بددل بھی کردیا تھا۔ انھیں اکثر لوگ متکبر اور گھمنڈی سمجھنے لگے تھے۔ انھوں نے دو شادیاں‌ کی تھیں۔ وقت کی ستم ظریفی دیکھیے کہ دہائیوں قبل دیگر ہیروئنوں کی نسبت کئی گنا زیادہ معاوضہ لینے والی وہ اداکارہ جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لیے کئی لوگ جمع ہو جایا کرتے تھے، اس نے آخری ایّام میں پریشانی دیکھی اور تنہائی کا شکار رہی۔ یہ بھی قابلِ ذکر بات ہے کہ تقسیم سے پہلے وہ ہیروئن کے روپ میں‌ خاصی کام یاب رہیں، لیکن پاکستان میں‌ انھیں‌ زیادہ تر کیریکٹر رول میں ہی پسند کیا گیا اور بطور ہیروئن وہ آگے نہ آسکیں۔

    متحدہ ہندوستان کی یہ معروف فلمی ہیروئن جنھوں نے پاکستان میں ابتدائی فلموں میں کریکٹر رول ادا کرکے شائقین کی توجہ حاصل کی تھی، لاہور کے ایک اسپتال میں وفات پائی۔ بدقسمتی سے ان کی زندگی کے آخری ایّام لاہور کے محلّے میں معمولی گھر میں گزرے، وہ اپنی اولاد پر بوجھ بننے کے بجائے الگ رہنے لگی تھیں۔

  • پی ٹی وی کی معروف اداکارہ عذرا شیروانی کی برسی

    پی ٹی وی کی معروف اداکارہ عذرا شیروانی کی برسی

    19 دسمبر 2005ء کو پاکستان ٹیلی وژن کی مایہ ناز اداکار عذرا شیروانی امریکا میں وفات پاگئی تھیں۔ پی ٹی وی کے یادگار ڈراموں میں عذرا شیروانی کے کردار ناظرین میں بے حد مقبول ہوئے۔ آج ماضی کی اسی مقبول اداکارہ کی برسی ہے۔

    ماضی میں جھانکیں تو پی ٹی وی کے ڈرامے اور مختلف پروگرام اس شوق سے دیکھے جاتے تھے کہ لوگ ہر کام چھوڑ کر اپنے گھروں میں ٹیلی ویژن اسکرین کے سامنے بیٹھ جاتے تھے۔ ٹی وی پر تفریحی پروگرام نشر ہوتے تو شہر کی سڑکیں ویران ہوجایا کرتی تھیں۔ عذرا شیروانی ٹی وی کے اسی سنہرے عہد میں اسکرین پر یوں ‘ڈرامہ’ کرتی تھیں کہ ان کے کرداروں پر حقیقت کا گمان ہوتا تھا۔ وہ اپنے وقت کے مقبول ترین ڈرامے انکل عرفی میں غازی آپا بنیں تو تنہایاں میں سخت گیر آپا بیگم کے روپ میں‌ دکھائی دیں۔ مقبولیت کا ریکارڈ قائم کرنے والے ڈرامے دھوپ کنارے میں انھوں فضیلت کا کردار ادا کر کے ناظرین کو محظوظ کیا۔

    تنہائیاں حسینہ معین کا تحریر کردہ وہ ڈرامہ تھا جس میں آپا بیگم کا کردار بلاشبہ عذرا شیروانی کے کیریئر کا سب سے بہترین اور مشہور کردار تھا۔ اس ڈرامے میں جمشید انصاری کے کردار کے ساتھ ان کے مکالمے بہت پسند کیے گئے۔

    آنگن ٹیڑھا میں انھوں نے مرکزی کردار محبوب احمد (اداکار شکیل) کی ساس عرف سلیہ بیگم کا کردار نہایت خوبی سے ادا کیا۔ عذرا شیروانی نے اپنے وقت کے ایک اور مقبول کھیل ستارہ اور مہرالنّساء میں بھی ماں کا کردار نبھایا تھا۔ انا، افشاں، گھر اک نگر جیسے ڈراموں میں بھی ان کی پرفارمنس کو بہت سراہا گیا تھا۔

    اس زمانے میں‌ لاہور اور کراچی میں ٹی وی اسٹیشنوں کے درمیان معیاری ڈرامے اور شان دار پرفارمنس سے ناظرین کے دل جیتنے کے لیے گویا ایک دوڑ لگی رہتی تھی۔ عذرا شیروانی نے اسی زمانے میں اپنی فن کارانہ صلاحیتوں کا لوہا منوایا۔

    1940ء کو متحدہ ہندوستان کے شہر میرٹھ میں پیدا ہونے والی عذرا شیروانی نے 35 سال تک شوبزنس سے تعلق جوڑے رکھا جس میں اپنے معیاری کام اور شان دار پرفارمنس کی بدولت نہ شہرت اور مقبولیت حاصل کی بلکہ لوگوں کا بہت سا پیار بھی سمیٹا۔ وہ ایک عرصے سے امریکا میں اپنے بیٹے کے ساتھ رہ رہی تھیں۔ انھیں امریکا ہی میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • فردوس بیگم: اُس ‘ہیر’ کا تذکرہ جو گوشۂ گم نامی میں چلی گئی تھی!

    فردوس بیگم: اُس ‘ہیر’ کا تذکرہ جو گوشۂ گم نامی میں چلی گئی تھی!

    عرصۂ دراز سے گوشۂ گم نامی میں زندگی بسر کرنے والی فردوس بیگم کو ہیر رانجھا میں ان کے فلمی کردار نے بے مثال شہرت عطا کی۔ یہ پاکستانی فلم 19 جون 1970ء کو بڑے پردے پر پیش کی گئی تھی۔ آج اس فلم کی ہیروئن فردوس بیگم کی برسی ہے۔ وہ 16 دسمبر 2020ء کو انتقال کر گئی تھیں۔

    ہیر رانجھا وہ فلم تھی جس کے بعد فردوس اور اعجاز درانی کے معاشقے کا چرچا ہوا اور شادی کی افواہیں بھی گردش میں‌ رہیں۔ فردوس کا اصل نام پروین بتایا جاتا ہے۔ ان کا سنہ پیدائش 1947 ہے۔ وہ لاہور کے مشہور علاقہ ہیرا منڈی میں پیدا ہوئی تھیں جہاں انھیں شروع ہی سے رقص اور موسیقی کی تربیت اور اپنے فن کے مظاہرے کا موقع ملا۔ ہیرا منڈی میں پاکستانی فلم ساز اور ہدایت کار نئے چہروں کی تلاش میں آتے جاتے تھے جن میں‌ بابا قلندر بھی شامل تھے۔ انھوں نے پروین کا رقص دیکھا تو اپنی پنجابی فلم کی ہیروئن بننے کی پیشکش کر دی۔ پروین نامی نوجوان رقاصہ کی یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ بعد میں وہ فلم ‘گل بکاؤلی‘ میں ایک معمولی کردار نبھاتی نظر آئیں، مگر فلم ناکام رہی۔ پھر شباب کیرانوی کی فلم ‘انسانیت‘ میں انھوں نے اداکارہ زیبا اور وحید مراد کے ساتھ ایک اور معمولی کردار نبھایا اور فلم ساز کے کہنے پر فلمی نام فردوس اپنا لیا۔

    فردوس بیگم دراز قد تھیں۔ غلافی آنکھیں‌ اور خوب صورت نین نقش والی فردوس بیگم کو ‘ہیر رانجھا’ میں ‘ہیر’ کا کردار ملا تو جیسے اُن کی شہرت اور مقبولیت کو بھی پَر لگ گئے۔ اس فلم کے ہیرو اعجاز درانی تھے۔ فردوس بیگم اپنی اداکاری اور رقص کی بدولت فلم سازوں اور ہدایت کاروں کی نظروں میں اہمیت اختیار کر گئیں اور شائقینِ سنیما ان کے پرستار ہوگئے۔ وارث شاہ کی اس عشقیہ داستان پر بننے والی یہ فلم کلاسک کا درجہ رکھتی ہے۔

    اداکارہ فردوس نے فلم ‘ہیر رانجھا‘ میں بہترین پرفارمنس پر نگار ایوارڈ بھی حاصل کیا تھا۔ 1973 میں پنجابی فلم ‘ضدی‘ کے لیے بھی بہترین اداکارہ کا ایوارڈ حاصل کیا مگر بعد میں ان شہرت کا سفر تھم گیا۔ نئے چہرے ان کے سامنے کام یابی کے زینے طے کرتے چلے گئے اور فردوس بیگم اسکرین سے دور ہوتی چلی گئیں۔

    ان کی فلموں کی مجموعی تعداد 192 بتائی جاتی ہے جن میں 155 فلمیں پنجابی، 29 اردو اور 8 فلمیں پشتو زبان میں تھیں۔ اداکارہ کی آخری فلم ‘دہ جرمونو بادشاہ‘ تھی جو 1991 میں پشتو زبان میں تیار ہوئی تھی۔

    اداکارہ فردوس نے بھرپور زندگی گزاری۔ وہ خوش مزاج، ملن سار اور زندہ دل خاتون مشہور تھیں۔ فردوس بیگم کو برین ہیمرج ہوا تھا۔ انھوں نے لاہور میں‌ 73 برس کی عمر میں وفات پائی۔

    فردوس بیگم نے اپنے زمانے کے تقریباً تمام مشہور مرد اداکاروں کے ساتھ کام کیا جن میں اکمل، اعجاز درانی، حبیب، سدھیر اور یوسف خان کے نام قابلِ ذکر ہیں۔