Tag: اداکارہ برسی

  • مینا شوری کا تذکرہ جو لارا لپا گرل مشہور ہوئیں

    مینا شوری کا تذکرہ جو لارا لپا گرل مشہور ہوئیں

    فلمی ستاروں کے جھرمٹ میں خورشید جہاں کو مینا شوری کے نام سے پہچان اور فلم ایک تھی لڑکی کے گیت لارا لپا، لارا لپا لائی رکھدا کے سبب پاکستان بھر میں‌ شہرت ملی تھی۔ آج اس اداکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔ سرطان کے مرض میں‌ مبتلا مینا شوری 2 ستمبر 1989ء کو ہمیشہ کے لیے یہ دنیا چھوڑ گئی تھیں۔

    1921ء میں رائے ونڈ کے ایک گھرانے میں‌ آنکھ کھولنے والی خورشید جہاں نے اپنے فلمی کیریئر کا آغاز بمبئی سے کیا تھا۔ سہراب مودی جیسے باکمال فلم ساز اور پروڈیوسر نے اپنی فلم سکندر میں مینا شوری کو ایک کردار سونپا تھا جس میں شائقین نے انھیں بہت پسند کیا اور اس کے ساتھ ہی فلمی صنعت کے دروازے بھی اداکارہ پر کھلتے چلے گئے۔ انھیں فلم پتھروں کا سوداگر، شہر سے دور، پت جھڑ، چمن اور ایک تھی لڑکی کی بدولت شہرت اور مقبولیت کی منازل طے کرنے کا موقع ملا۔ ’لارا لپا، وہ گیت تھا جس نے اداکارہ کو ہندوستان بھر میں لارا لپا گرل مشہور کردیا۔

    تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان ہجرت کرنے والی مینا شوری نے یہاں سب سے بڑے شہر کراچی میں‌ قیام کیا اور پھر وہ لاہور منتقل ہوگئیں۔ من موہنی صورت والی مینا شوری نے پانچ شادیاں کی تھیں۔

    اس اداکارہ کی مشہور فلموں میں سرفروش، جگا، جمالو، بڑا آدمی، ستاروں کی دنیا، گل فروش، بچہ جمہورا، گلشن، تین اور تین، پھول اور کانٹے، موسیقار، خاموش رہو، مہمان کے نام شامل ہیں۔ مجموعی طور پر اداکارہ نے 83 فلموں میں کام کیا تھا۔ پاکستان آنے کے بعد انھوں نے 54 فلمیں کیں۔ حسین و جمیل مینا شوری لاہور کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہی ہیں۔

  • شیلا، بمبئی سے خاص طور پر ’’انوکھی‘‘ کے لیے پاکستان آئی تھیں!

    شیلا، بمبئی سے خاص طور پر ’’انوکھی‘‘ کے لیے پاکستان آئی تھیں!

    وہ لوگ جو عمرِ عزیز کی ستّر سے زائد بہاریں‌ دیکھ چکے ہیں، اگر سنیما کا شوق رکھتے تھے تو شیلا رامانی کی یہ فلم ضرور دیکھی ہو گی، جس کا ایک گیت آج بھی بہت ذوق و شوق سے سنا جاتا ہے۔ اس کے بول ہیں، ’’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے ہلکے، کہیں‌ دل کا جام نہ چھلکے…‘‘

    ماضی میں پاکستان میں‌ بننے والی کئی فلمیں‌ ایسی تھیں جن میں ٹائٹل رول نبھانے والے اداکاروں‌ کا تعلق بھارت یا دوسرے ممالک سے تھا۔ اس ضمن میں سب سے پہلے بنائی گئی پاکستانی فلم ’’انوکھی‘‘ تھی جس کے ہدایت کار شاہ نواز تھے۔ اس فلم کی ہیروئن ’’شیلا رامانی‘‘ تھیں‌ جو تقسیم ہند سے قبل صوبۂ سندھ کے ایک شہر میں پیدا ہوئیں، لیکن بھارت جانے کے بعد وہاں‌ فلمی صنعت سے وابستہ ہو گئی تھیں۔

    اس فلم میں ان کے مقابل ہیرو اداکار شاد تھے۔ فلم ’’انوکھی‘‘ کے لیے شیلا رامانی کو خصوصی طور پر بمبئی سے بلوایا گیا تھا۔ یہ فلم 1956 میں نمائش کے لیے پیش کی گئی جس میں شیلا رامانی نے اپنے کردار کو نہایت خوبی سے نبھایا اور ان کی پرفارمنس یادگار رہی، جب کہ ان پر فلمایا گیا گیت ’’گاڑی کو چلانا بابو ذرا ہلکے ہلکے کہیں دل کا جام نہ چھلکے….‘‘ بے حد مقبول ہوا۔ اس فلمی گیت کو سرحد پار بھی مقبولیت حاصل ہوئی۔ تاہم یہ فلم باکس آفس پر ناکام ثابت ہوئی۔

    اپنے وقت کی اس مشہور اداکارہ نے 2015ء میں آج ہی کے دن وفات پائی۔ وہ 2 مارچ 1932ء کو پیدا ہوئیں۔ چیتن آنند نے انھیں بولی وڈ میں متعارف کرایا اور 1954ء میں جب اداکارہ کی فلم ٹیکسی ڈرائیور نمائش کے لیے پیش کی گئی تو شیلا رامانی کو شائقین نے بہت پسند کیا اور یہی فلم ان کی وجہِ شہرت بنی۔ شیلا رامانی کی ایک سندھی فلم ابانا بھی ان کے کیریئر میں شان دار اضافہ ثابت ہوئی۔

    اس اداکارہ نے زیادہ تر فلموں میں امیر گھرانے کی لڑکی کا کردار نبھایا۔ وہ شادی کے بعد امریکا منتقل ہوگئی تھیں۔ تاہم ان کی زندگی کے آخری ایّام مدھیہ پردیش میں گزرے۔

    انھوں نے بمبئی فلم انڈسٹری کے لیے ٹیکسی ڈرائیور، سرنگ، ریلوے پلیٹ فارم، مینار، جنگل کنگ، آوارہ لڑکی اور دیگر فلموں میں کام کر کے شائقین سے اپنی شان دار اداکاری پر خوب داد سمیٹی۔

  • کار ڈرائیور کی بیٹی ناصرہ جس نے "رانی” کے نام سے شہرت حاصل کی

    کار ڈرائیور کی بیٹی ناصرہ جس نے "رانی” کے نام سے شہرت حاصل کی

    رانی کا اصل نام ناصرہ تھا جو اپنے وقت کی مشہور گلوکارہ مختار بیگم کے ڈرائیور کی بیٹی تھی۔ رانی کو مختار بیگم نے پالا اور ان کے ساتھ رہتے ہوئے رانی نے رقص سیکھا اور بطور اداکارہ فلمی دنیا میں قدم رکھا جہاں شہرت اور مقبولیت اس کا مقدر بنی، لیکن رانی اپنی ازدواجی زندگی کے دکھوں اور صدمات سے ایسی نڈھال ہوئی کہ کینسر جیسے موذی مرض میں مبتلا ہوگئی اور زندگی کا سفر تمام کیا۔

    1941 میں‌ لاہور میں‌ پیدا ہونے والی رانی اردو اور پنجابی فلموں کی مصروف اداکارہ تھی۔ اردو فلموں کی بات کریں تو بطور اداکارہ رانی کی پہلی فلم ہدایت کار انور کمال پاشا کی فلم محبوب تھی جس میں وہ شمیم آرا کے مقابل ثانوی رول میں نظر آئی تھی۔ یہ 1962 کی بات ہے اور اس کے بعد کئی فلموں‌ میں مختلف کردار ادا کیے، لیکن دیور بھابھی جو 1967 میں سنیما کی زینت بنی تھی، وہ مشہور فلم تھی، جس نے اداکارہ کو فلم انڈسٹری کی "رانی” بنا دیا۔ اس فلم میں وحید مراد اور لیجنڈ اداکارہ صبیحہ خانم نے ٹائٹل رولز کیے تھے۔ بعد میں رانی نے دل میرا دھڑکن تیری، بہن بھائی، دیا اور طوفان، شمع اور پروانہ، بہارو پھول برساؤ، امراؤ جان ادا، اک گناہ اور سہی، خون اور پانی جیسی کام یاب فلموں میں‌ اداکاری کے جوہر دکھا کر شائقین کے دل موہ لیے۔

    پنجابی فلموں کی بات کریں تو رانی کو فلم چن مکھناں سے بریک تھرو ملا تھا جب کہ دوسری بڑی پنجابی فلموں میں سجن پیارا، جند جان، مکھڑا چن ورگا، دنیا مطلب دی، ٹیکسی ڈرائیور اور سونا چاندی قابلِ ذکر ہیں۔ اردو فلموں میں کمال، وحید مراد اور شاہد کے ساتھ رانی کو بہت پسند کیا گیا۔

    رانی نے 27 مئی 1993ء کو یہ دنیا ہمیشہ کے لیے چھوڑ دی تھی۔ اداکارہ کی ازدواجی زندگی سکون اور راحت سے محروم رہی۔ انھوں نے تین شادیاں کی تھیں۔ اداکارہ پر فلمائے ہوئے تمام ہی گیتوں نے مقبولیت حاصل کی۔ انھوں نے ٹیلی ویژن کے ڈراموں میں‌ بھی اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان میں‌ خواہش اور فریب بہت مشہور ہیں۔ پاکستانی فلم انڈسٹری کی اس مشہور اداکارہ کو لاہور میں مسلم ٹاؤن کے قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا۔

  • روپ کی رانی مدھو بالا کا تذکرہ جو صرف 36 سال زندہ رہ سکیں!

    روپ کی رانی مدھو بالا کا تذکرہ جو صرف 36 سال زندہ رہ سکیں!

    شہناز، نرگس اور نوتن کے بعد قسمت کی دیوی مدھو بالا پر مہربان ہوئی اور انھوں نے فلم مغلِ‌ اعظم میں انار کلی کا کردار نبھا کر اسے لازوال بنا دیا۔‌

    ہندوستانی سنیما کی تاریخ میں اس اداکارہ کو ان کی خوب صورتی کی وجہ سے ‘وینس آف انڈین سینیما’ بھی کہا جاتا ہے۔ آج مدھو بالا کی برسی ہے جن کا اصل نام ممتاز تھا۔

    وہ ممتاز کے نام سے پہلی مرتبہ بڑے پردے پر فلم ‘بسنت’ میں نظر آئی تھیں۔یہ 1942ء کی بات ہے۔ اس زمانے کی ایک معروف اداکارہ دیویکا رانی نے ان کی اداکاری سے متاثر ہوکر انھیں اپنا نام مدھو بالا رکھنے کا مشورہ دیا تھا۔

    یہاں یہ بات قابلِ‌ ذکر ہے کہ مغلِ اعظم میں جن دنوں اداکارہ اپنا مشہورِ زمانہ کردار نبھا رہی تھیں، بے حد بیمار تھیں، لیکن وہ برصغیر کے نام وَر فلم ساز، کے آصف کی توقعات پر پوار اتریں۔ کہتے ہیں کلاسک کا درجہ رکھنے والی اس فلم کے لیے میں انار کلی کے کردار کے لیے فلم ساز کو جیسا حسن اور روپ، بانکپن، غرور اور دل کش لب و لہجہ چاہیے تھا، وہ سب مدھو بالا میں تھا۔

    مدھو بالا فلم انڈسٹری کی وہ اداکارہ تھیں جن کا چہرہ آنکھوں میں بَس جاتا اور وہ دل میں اتر جاتیں۔ روپ کی اس رانی نے شہرت اور نام و مقام تو بہت بنایا مگر عمر تھوڑی پائی۔ انھیں زندگی کی صرف 36 بہاریں نصیب ہوئیں جس میں نو برس ایسے تھے جب وہ اپنے گھر میں اپنی بیماری سے لڑتے ہوئے تنہا وقت گزار رہی تھیں۔ 1969ء میں‌ آج ہی کے دن وہ ہمیشہ کے لیے دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔

    مدھو بالا 14 فروری کو دہلی میں پیدا ہوئیں۔ پیدائش کے بعد ڈاکٹروں نے والدین کو بتایا کہ ان کی بیٹی کے دل میں سوراخ ہے جس میں انھیں آرام کی ضرورت ہوگی، لیکن کم عمری ہی میں وہ فلم نگری میں‌ چلی آئیں جہاں مسلسل کام اور شوٹنگ کی وجہ سے اکثر تھکن محسوس کرتی تھیں۔

    خوب صورت اور خوش ادا ممتاز کے بارے میں‌ کہا جاتا ہے کہ انھیں 9 سال کی عمر میں اپنے 11 بہن بھائیوں اور والدین کے لیے روزی روٹی کمانے کے لیے فلمی دنیا میں‌ بھیج دیا گیا تھا۔ ان کے والد لاہور میں ایک ٹوبیکو کمپنی میں کام کرتے تھے، جو نوکری چھوڑ کر دہلی چلے گئے اور وہاں سے بمبئی اس امید کے ساتھ پہنچے کہ ان کی خوب صورت بیٹی کو فلموں میں کام ضرور ملے گا اور وہ اس کی کمائی ان کی زندگی بدل دے گی۔ ہُوا تو یہی، مگر اس بھاگ دوڑ میں خود ان کی زندگی کے دن گھٹ گئے۔

    بولی وڈ کی اس اداکارہ اور دلیپ کمار کے درمیان رومانس کی خبر بھی اس زمانے میں خوب گرم رہی، اور بعد میں ان کے مابین دوریوں کا چرچا بھی ہوا، لیکن 1960ء میں وہ مشہور گلوکار کشور کمار کی دلہن بن گئیں۔ کشور کمار کو مدھو بالا کی بیماری کا علم تو تھا لیکن اس کی سنگینی کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ اپنی بیوی کو علاج کے لیے لندن لے گئے، لیکن وہاں ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ وہ اس دنیا میں چند سال کی مہمان ہیں۔ کشور کمار انھیں میکے میں چھوڑ کر اپنی دنیا میں مصروف ہوگئے اور دو تین ماہ میں ایک بار ان سے ملاقات کے لیے جاتے تھے۔

    ہندوستانی فلم انڈسٹری میں اپنی تخلیقی صلاحیتوں اور بے مثال کام کے علاوہ کمال امروہوی عاشق مزاج اور حُسن پرست بھی مشہور تھے۔

    انیس امروہوی نے اداکارہ مدھو بالا اور کمال امروہوی کے درمیان ملاقات سے متعلق ایک واقعہ یوں بیان کیا ہے، ایک بار ایک دوست نے کمال امروہی کو کھانے پر مدعو کیا جہاں ممتاز نام کی ایک خوب صورت لڑکی سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ کھانے کی میز پر وہ لڑکی کمال امروہی کے بالکل سامنے بیٹھی تھی۔

    جب وہ کسی کام سے میز سے اُٹھ کر گئی تو کمال صاحب نے اپنے دوست سے دریافت کیا کہ کیا یہ لڑکی فلموں میں کام کرنا چاہتی ہے؟

    اُن دنوں کمال صاحب کو فلم ’محل‘ کے لیے ہیروئن کی تلاش تھی۔ دوست نے بتایا کہ ممتاز کئی فلموں میں کام کر چکی ہے اور اس دعوت کا مقصد بھی یہی تھا کہ ممتاز (مدھو بالا کا اصلی نام) کو آپ سے ملوایا جائے۔ اس طرح چھوٹی فلموں کی اداکارہ ممتاز بڑی فلم ’محل‘ کی ہیروئن مدھوبالا بن گئی۔

    اس میں کوئی شک نہیں کہ فلم ’محل‘ میں مدھوبالا بے حد خوب صورت دکھائی دی ہے اور اعلیٰ درجے کی فلموں میں وہ اسی فلم سے اپنی پہچان بنا سکی۔

    مدھو بالا کی مشہور فلموں میں محل، دلاری، دولت، اپرادھی، نادان، ساقی، سنگدل، امر، نقاب، پھاگن، کلپنی، بارات کی رات، مغلِ اعظم، شرابی اور جوالا سرِ فہرست ہیں۔ انھوں نے اپنے وقت کے باکمال اداکاروں اور مقبول ترین ناموں کے ساتھ کام کیا۔ مدھو بالا نے صرف 66 فلموں میں کردار نبھائے تھے۔

    آج بہت سے فلم اسٹارز اپنے ساتھ باڈی گارڈ رکھتے ہیں۔ کہتے ہیں بولی وڈ میں یہ سلسلہ مدھو بالا نے شروع کیا تھا۔ اداکارہ کو ممبئی کے ایک قبرستان میں سپردِ‌ خاک کیا گیا تھا۔

  • صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی

    صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی

    پاکستان ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی 8 فروری 1989ء کو وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ تقسیم ہند سے قبل انھیں فلم انڈسٹری میں‌ رینوکا دیوی کے نام سے پہچان ملی تھی۔

    بیگم خورشید مرزا کا تعلق علی گڑھ کے ایک تعلیم یافتہ اور باشعور گھرانے سے تھا۔ ان کے والد اسلام قبول کرنے کے بعد شیخ عبداللہ کے نام سے جانے گئے جو ایک بیدار مغز اور سوسائٹی میں نہایت فعال اور متحرک تھے۔ یہی نہیں‌ بلکہ ان کی تمام اولادیں کسی نہ کسی صورت میں‌ علم و ادب اور فنونِ لطیفہ سے وابستہ رہیں۔ خود شیخ عبداللہ کا شمار ان شخصیات میں ہوتا ہے جنھوں نے علی گڑھ میں مسلم گرلز کالج کی بنیاد رکھی۔ شیخ عبداللہ نے 4 مارچ 1918ء کو پیدا ہونے والی اپنی بیٹی کا نام خورشید جہاں رکھا تھا۔ ان کی بڑی بیٹی کا نام ڈاکٹر رشید جہاں تھا اور وہ انجمن ترقی پسند مصنّفین کے بانیوں میں شامل تھیں۔ اسی طرح خورشید جہاں بھی فن اور ادب کی دنیا میں معروف ہوئیں۔ ان کے بھائی بھی فلم انڈسٹری سے وابستہ تھے۔

    بیگم خورشید مرزا 17 برس کی تھیں جب وہ اکبر حسین مرزا سے رشتۂ ازدواج میں‌ منسلک ہوگئیں جو پولیس افسر تھے۔ اسی نسبت وہ خورشید جہاں سے بیگم خورشید مرزا مشہور ہوئیں۔ ان کے بھائی محسن عبداللہ بھی متحدہ ہندوستان میں مشہور فلمی ادارے بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے۔ انہی کے توسط سے خورشید جہاں کو فلم جیون پربھات، بھابی، نیا سنسار اور غلامی میں اداکاری کرنے کا موقع ملا اور قیامِ پاکستان کے بعد وہ یہاں‌ آئیں تو ریڈیو اور بعد میں ٹیلی وژن پر اپنی صلاحیتوں کا اظہار کیا۔

    انھوں نے متعدد مشہور ڈراموں میں اپنی اداکاری پر داد پائی اور ریڈیو کے لیے انھیں صدا کار کی حیثیت سے شہرت حاصل ہوئی۔ بیگم خورشید مرزا کے ٹی وی ڈراموں میں کرن کہانی، زیر زبر پیش، انکل عرفی، پرچھائیں، رومی، افشاں اور انا شامل ہیں جو اپنے وقت کے مقبول ترین کھیل تھے۔

    1984ء میں حکومتِ پاکستان نے انھیں صدارتی تمغا برائے حسنِ کارکردگی عطا کیا گیا تھا۔بیگم خورشید مرزا کی سوانح عمری A Woman of Substance کے نام سے سامنے آئی تھی جو ان کی صاحبزادی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔ اپنے وقت کی اس سینئر اداکارہ کو لاہور کے قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا۔

  • ‘ہیر’ کے کردار سے لازوال شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ فردوس بیگم کا تذکرہ

    ‘ہیر’ کے کردار سے لازوال شہرت حاصل کرنے والی اداکارہ فردوس بیگم کا تذکرہ

    دراز قد اور دل کش خد و خال کی مالک، نشیلی آنکھوں‌ والی فردوس نے فلم ‘ہیر رانجھا’ میں ‘ہیر’ کا کردار نبھا کر لازوال شہرت حاصل کی اور اپنے بحیثیت اداکارہ مقبولیت حاصل کرنے کے ساتھ خود کو بہترین کلاسیکی رقاصہ ثابت کیا۔

    اداکارہ فردوس نے بھرپور زندگی گزاری۔ وہ خوش مزاج، ملن سار اور زندہ دل خاتون تھیں۔

    ان کا فلمی سفر 1960ء کے اوائل میں بہ طور رقاصہ شروع ہوا تھا۔ بعد میں انھوں نے بڑے پردے پر اداکاری کے جوہر دکھائے۔ وارث شاہ کی مشہورِ زمانہ عشقیہ داستان اور اس کے دو مرکزی کرداروں کو جب ’ہیر رانجھا‘ کے نام سے فلمی پردے پر پیش کیا گیا تو اسے بہت پذیرائی ملی اور یہ فلم آنے والے برسوں میں کلاسک کا درجہ اختیار کرگئی۔ فلم کی کام یابی نے فردوس کی شہرت کو بھی گویا پَر لگا دیے۔

    پاکستانی فلم ’ہیر رانجھا‘ 1970ء میں‌ نمائش کے لیے پیش کی گئی تھی جس کے بعد فردوس بیگم پاکستان میں ہیر مشہور ہوگئیں۔ ان کے ساتھ ’رانجھا‘ کا کردار اعجاز درانی نے نبھایا تھا۔

    فردوس بیگم 73 برس کی عمر میں پچھلے سال 16 دسمبر کو دارِ فانی سے کوچ کرگئیں۔ انھیں برین ہیمبرج ہوا تھا۔ وہ 4 اگست 1947ء کو لاہور میں پیدا ہوئیں۔ اُن کا اصل نام پروین تھا۔ بطور کلاسیکل ڈانسر فلم ’فانوس‘ سے انھوں نے جس سفر کا آغاز کیا تھا، اس میں فلم ملنگی، ہیر رانجھا، انسانیت، آنسو، ضدی، دلاں دے سودے سمیت 150 سے زائد فلمیں ان کی شہرت اور مقبولیت کا باعث بنیں‌ اور فلمی گیتوں پر ان کا رقص بہت پسند کیا گیا۔ اداکارہ فردوس نے 130 سے زائد پنجابی، 20 اردو اور 3 پشتو فلموں میں‌ کام کیا۔

    انھیں بہترین اداکارہ کا نگار ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ فردوس بیگم نے اس دور کے تقریباً تمام ہیروز کے ساتھ کام کیا جن میں اکمل، اعجاز درانی، حبیب، سدھیر اور یوسف خان کے نام قابلِ ذکر ہیں۔

  • شوکت کیفی کا دوپٹے رنگنے اور چُننے کا شوق!

    شوکت کیفی کا دوپٹے رنگنے اور چُننے کا شوق!

    جب میری عمر تیرہ سال کی تھی اور میں چھٹی جماعت میں پڑھتی تھی، حیدرآباد میں حالی پیسہ چلتا تھا۔

    چھے پیسے کا ایک آنہ ہوتا تھا۔ ہندوستان کے دیگر حصّوں میں کلدار سکّے کا رواج تھا جہاں چار پیسوں کا ایک آنہ ہوتا تھا۔ اسی طرح حیدرآباد میں مہینوں کے نام بھی الگ طرح کے ہوا کرتے تھے مثلاً: آذر، دئے، بہمن، اسفندار، فروردی، ارضی، بہشت، خور داد، تیر، امرداد، شہر ور، مہر، آبان۔

    مجھے دوپٹے رنگنے اور چُننے کا بے پناہ شوق تھا۔ میں بڑی آسانی سے اپنے کرتے کے رنگوں اور ڈیزائنوں کو اپنے دوپٹے پر اتار لیا کرتی تھی۔ مجھ میں یہ قدرتی دین تھی کہ میں کوئی سا بھی رنگ بڑی آسانی سے دو تین رنگوں کو ملا کر بنا لیا کرتی تھی۔

    میرا یہ شوق دیکھ کر میری ماں نے مجھے ایک تخت دے دیا تھا۔ رنگوں کا ڈبہ، برش، گوند گویا ہر وہ چیز جس کی مجھے رنگنے میں ضرورت محسوس ہوتی تھی منگوا دیا کرتی تھیں۔

    حیدرآباد کی ایک خوبی یہ تھی کہ نظام نے حیدرآباد میں اردو کی بہت خدمت کی تھی۔ ایک تو عثمانیہ یونیورسٹی قائم کی۔ ہر اسکول میں اردو لازمی قرار دی گئی تھی۔ حتّٰی کہ سرکاری زبان بھی اردو ہی ہوا کرتی تھی۔

    حیدرآباد میں رنگوں کے نام انگریزی میں نہیں لیے جاتے تھے۔ اردو میں ان کے اپنے خوب صورت نام ہوتے تھے مثلاً: زعفرانی، کاسنی، پیازی ، کتھئی، اودا، ترئی کے پھول کا رنگ، سبز رنگ، موتیا کا رنگ، آسمانی، سرمئی، شفتالو، کاہی، عنابی، لال رنگ، مور کنٹھی کا رنگ، بیگنی، صندلی۔ تمام نام اب تو مجھے پوری طرح یاد بھی نہیں ہیں۔

    میرے دوپٹے اس قدر خوب صورت رنگوں کے ہوتے تھے کہ اسکول میں لڑکیاں میری کلاس میں جھانک جھانک کر دیکھتی تھیں کہ آج میں نے کون سے رنگ کا دوپٹہ اوڑھا ہے۔

    (شوکت کیفی کی خود نوشت ‘یاد کی رہ گزر’ سے ایک پارہ، 22 نومبر 2019ء کو وفات پانے والی شوکت کیفی مشہور اداکارہ اور نام وَر شاعر کیفی اعظمی کی اہلیہ تھیں)

  • یومِ وفات: خورشید اختر کا تذکرہ جنھیں فلمی پردے پر شیاما کے نام سے شہرت ملی

    یومِ وفات: خورشید اختر کا تذکرہ جنھیں فلمی پردے پر شیاما کے نام سے شہرت ملی

    سید شوکت حسین رضوی اپنی فلم ’’زینت‘‘ کی عکس بندی کررہے تھے اسٹوڈیو میں قوّالی کا منظر عکس بند کیا جارہا تھا۔ وہاں ایک اسکول کی چند طالبات بھی موجود تھیں جن میں خورشید اختر بھی شامل تھی۔ یہ 1945ء کی بات ہے۔

    شوکت حسین رضوی نے خورشید اختر کو قوّالی میں شامل کرلیا۔ ریلیز کے بعد اس فلم نے ہندوستان بھر میں زبردست کام یابی سمیٹی اور وہ قوّالی بہت مقبول ہوئی۔ اس کے بول تھے، ’’آہیں نہ بھریں، شکوہ نہ کیا۔‘‘ اسی فلم نے خورشید اختر کو شیاما کے نام سے بڑے پردے پر نام و مقام بنانے کا موقع دیا۔

    شیاما نے 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں متعدد فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور شہرت پائی۔ ان کا تعلق باغ بان پورہ، لاہور سے تھا۔ وہ ایک متموّل آرائیں خاندان کی فرد تھیں۔ 1935ء میں‌ پیدا ہونے والی شیاما کا خاندان 1945ء میں ممبئی منتقل ہوگیا تھا جہاں انھوں‌ نے فلم نگری میں‌ بحیثیت اداکارہ خوب شہرت پائی۔

    شیاما کی ایک فلم ‘پتنگا’ 1949ء میں ریلیز ہوئی تھی جو اپنے زمانے کی کام یاب ترین اور مشہور فلموں میں سے ایک تھی۔ اس میں شیام، نگار سلطانہ، یعقوب اور گوپ جیسے منجھے ہوئے فن کاروں کے ساتھ شیاما نے بڑے اعتماد سے کام کیا اور فلم سازوں کو متاثر کرنے میں کام یاب رہیں۔

    ہدایت کار وجے بھٹ نے خورشید اختر کو 1953ء میں شیاما کا فلمی نام دیا تھا اور بعد میں وہ اسی نام سے جانی گئیں۔

    شیاما پُرکشش، اور خوب صورت نین نقش کی حامل ہی نہیں‌ ذہین اور پُراعتماد بھی تھیں۔ انھوں نے اپنی عمدہ اداکاری سے جہاں فلم بینوں کے دل جیتے، وہیں اپنے اعتماد اور ذہانت کے سبب فلم سازوں کو بھی متاثر کرنے میں کام یاب ہوگئیں۔ ان میں‌ اپنے زمانے کے باکمال اور نام وَر ہدایت کار اے آر کار دار اور گرو دَت بھی شامل تھے۔ گرو دَت نے شیاما کو اپنی فلم ‘آرپار’ میں کاسٹ کیا جس کی کام یابی نے شیاما کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ 1954ء کی اس فلم کے گیت بہت مقبول ہوئے جب کہ شیاما کی اداکاری کو شائقین نے بے حد سراہا۔

    شیاما کی ایک کام یاب ترین فلم ضیا سرحدی کی ‘ہم لوگ’ تھی جو سال 1951ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں ان پر فلمائے گئے گیت ‘چھن چھن چھن باجے پائل موری’ کو بہت سراہا گیا۔ اداکارہ شیاما نے 200 سے زائد فلموں میں کام کیا۔

    ان کی مشہور فلموں میں برسات کی رات، ترانہ، ساون بھادوں، پائل کی جھنکار، اجنبی، نیا دن نئی رات، تقدیر، بھابی و دیگر شامل ہیں۔

    1957ء کی فلم ‘شاردا’ کے لیے شیاما کو بہترین معاون اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ شیاما نے 1953ء میں ایک سنیماٹو گرافر سے شادی کی تھی۔ وہ آخری بار سلور اسکرین پر فلم ‘ہتھیار’ میں نظر آئی تھیں۔ انھوں نے 82 سال کی عمر پائی اور 14 نومبر 2017ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ وہ ممبئی میں‌ مقیم تھیں اور وہیں‌ ایک قبرستان میں‌ ان کی تدفین کی گئی۔