Tag: اداکارہ روزینہ

  • روزینہ: فلمی دنیا کا بھولا بسرا نام

    روزینہ: فلمی دنیا کا بھولا بسرا نام

    ساٹھ کی دہائی میں پاکستانی فلمی صنعت اپنا عروج دیکھ رہی تھی، تب روزینہ نے معاون اداکارہ کے طور پر اپنا سفر شروع کیا تھا۔ 1972ء میں فلم بشیرا ریلیز ہوئی جس میں روزینہ کا ادا کردہ ایک فلمی مکالمہ بے حد مشہور ہوا۔ فلم میں روزینہ بات بات پر کہتی ہے، ’او میں ٹوٹے کر دیواں گی۔‘‘ یہ مکالمہ ایک زمانے تک ہر ایک کی زبان پر رہا۔

    آج روزینہ ایک بھولی بسری اداکارہ اور فراموش کردہ نام ہے لیکن روزینہ کو اپنے دور کی ایک گلیمرل گرل کے طور پر جانا جاتا تھا۔ اس دور کا فلمی ریکارڈ بتاتا ہے کہ روزینہ کے کیریئر کا آغاز کراچی میں بننے والی فلم ’’ہمیں بھی جینے دو‘‘ سے ہوا تھا۔ 1963ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم سے اداکار حنیف (مرحوم) نے بھی اپنے کیریئر کا آغاز کیا تھا۔ روزینہ اس فلم میں معاون ادکارہ تھیں۔ بہ طور سولو ہیروئن روزینہ کی پہلی فلم ’’چوری چُھپے‘‘ تھی۔ اداکارہ کی آخری فلم مشرق و مغرب تھی، جو 1985ء میں ریلیز ہوئی۔ اداکارہ روزینہ کا فلمی کیریئر 22 سل پر محیط رہا جس میں ان کی کُل 90 فلمیں ریلیز ہوئیں جن میں اردو فلموں کی تعداد 58 اور دیگر پنجابی زبان کی فلمیں تھیں۔ انھوں نے ایک پشتو فلم بھی کی۔

    فلم ایکٹریس روزینہ کی جائے پیدائش کراچی تھا۔ وہ 21 ستمبر 1950ء میں ایک عیسائی گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ اُن کا نام آئی وی سنتھیا تھا اور فلمی دنیا میں انھوں نے روزینہ کے نام سے کیریئر شروع کیا۔ کراچی کے سینٹ جوزف اسکول سے میٹرک کرنے کے بعد اسی کالج سے انٹر تک تعلیم حاصل کی۔ روزینہ کو اداکاری کا شوق اپنی بہن کو دیکھ کر ہوا تھا جو کراچی میں اسٹیج کی معروف رقاص اور اداکارہ تھیں۔ روزینہ نے رقص کی تربیت انہی سے حاصل کی۔ لیکن فلمی دنیا میں‌ بطور اداکارہ معروف ہوئیں۔ بعد میں وہ ساؤنڈ ریکارڈسٹ رفعت قریشی کی شریکِ‌ حیات بنیں‌ اور ان کا نام عائشہ قریشی ہوگیا۔ روزینہ نے معروف کمپنیوں کے برانڈ کی اشتہاری مہم میں بہ طور ماڈل بھی کام کیا۔

    وحید مراد کی رومانوی اور نغماتی فلم ارمان میں 1966ء میں روزینہ اداکارہ زیبا اور ترنم کی چھوٹی بہن کا کردار ادا کرکے نمایاں ہوئیں۔ روزینہ نہایت خوب صورت بھی تھیں اور اس فلم میں جب اداکار نرالا ایک گیت کے ساتھ ان سے عشق کا اظہار کرتے ہیں تو روزینہ مسکراتے ہوئے شائقین کو بہت بھلی لگتی ہیں۔ اسی سال روزینہ فلم ’’جوش‘‘ میں وحید مراد کے مقابل ہیروئن کاسٹ ہوئی، اس فلم میں چھ ہیروئنز اور چھ ہیرو پہلی بار ایک ساتھ پردے پر آئے تھے۔ فلم ’’اکیلے نہ جانا‘‘ میں انھوں نے محمد علی کی بہن کا کردار ادا کیا۔ 1967ء میں کمال اور دیبا کی فلم میرے بچّے میری آنکھیں میں روزینہ نے سائیڈ ہیروئن کا کردار کیا تھا۔ اسی طرح فلم احسان میں بھی روزینہ نرالا کے ساتھ سائیڈ ہیروئن کے طور پر جلوہ گر ہوئیں۔ سنگ دل 1968ء میں ریلیز ہونے والی ایک کام یاب فلم تھی جس میں روزینہ نے دیبا کے مقابل سائیڈ کردار ادا کیا۔ انھوں‌ نے اس فلم میں لاجواب اداکاری کی۔ 1969ء میں وحید مراد کی بطور فلم ساز، ہدایت کار کہانی نویس اور گلوکار یادگار فلم ’’اشارہ‘‘ ریلیز ہوئی جس میں روزینہ نے ناقابل فراموش اداکاری کی تھی۔ یہی وہ فلم تھی جس کے بعد روزینہ کو پہلی بار ایک بہترین اداکارہ تسلیم کیا گیا۔ انھیں بہترین اداکارہ کا خصوصی نگار ایوارڈ دیا گیا۔ اسی سال ’’تم ہی ہو محبوب میرے‘‘ میں روزینہ نے پھر لاجواب اداکاری کی۔ اور اس برس بہ طور سولو ہیروئن ان کی دو فلمیں اسلام و علیکم اور پیار کی جیت ریلیز ہوئیں جو ناکام رہیں۔ اداکارہ روزینہ نے ہدایت کار لقمان کی فلم افسانہ میں پہلی بار ویمپ کا کردار نبھایا۔ اور اس فلم کے بعد وہ پنجابی فلموں میں بھی نظر آنے لگیں۔ روزینہ کی پہلی پنجابی فلم پردیسی تھی جس میں اداکار اعجاز کا ڈبل رول تھا اور روزینہ اور عالیہ فلم کی ہیروئن تھیں۔ 1971ء میں روزینہ اور وحید مراد فلم رم جھم میں جلوہ گر ہوئے، اس فلم میں روزینہ کی کردار نگاری بڑی لاجواب تھی۔ وہ اندھی لڑکی کے کردار میں دیکھی گئیں اور شائقین نے انھیں سراہا۔ اداکارہ روزینہ نے وحید مراد کے علاوہ ندیم جیسے بڑے اداکار کے مقابل بھی ہیروئن کا رول ادا کیا۔

    1972ء میں ہدایت کار اسلم ڈار کی مشہور فلم بشیرا ریلیز ہوئی تھی جس نے سلطان راہی کو سپر اسٹار بنا دیا تھا۔ اسی فلم میں‌ روزینہ اداکار حبیب کے مقابل ہیروئن تھیں اور ان کا ڈائیلاگ مشہور ہوا تھا۔ بابل ڈاکو بہ طور ہیروئن روزینہ کی آخری فلم تھی، جو 1976ء میں ریلیز ہوئی۔ پشتو میں ریلیز ہونے والی 1988ء کی فلم بدگمان اس اداکارہ کی آخری فلم تھی۔

    فلمی ریکارڈ کے مطابق سنگ دل نے روزینہ پر فلمی صنعت کے دروازے کھول دیے تھے جس کی ایک خاص بات پاکستان یہ تھی کہ سیاست داں آصف علی زرداری نے اس میں بطور چائلڈ اسٹار کام کیا تھا۔