Tag: اداکارہ زیبا

  • شہنشاہِ جذبات محمد علی کی برسی

    شہنشاہِ جذبات محمد علی کی برسی

    آج پاکستان فلم انڈسٹری کے باکمال اور صاحبِ طرز اداکار محمد علی کی برسی منائی جارہی ہے۔ اداکار محمد علی 19 مارچ 2006ء کو ہمیشہ کے لیے دنیا چھوڑ گئے تھے۔ فلم نگری پر تین دہائیوں سے زائد عرصے تک راج کرنے والے محمد علی کو شہنشاہِ جذبات بھی کہا جاتا ہے۔

    محمد علی کا تعلق رام پور سے تھا۔ وہ 19 اپریل 1931ء کو پیدا ہوئے تھے۔ ان کے والد سیّد مرشد علی امام مسجد تھے۔ قیامِ پاکستان کے بعد ان کے خاندان نے ہجرت کرکے پہلے ملتان اور پھر حیدرآباد کو اپنا مستقر بنایا۔ محمد علی نے سٹی کالج حیدرآباد سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کیا۔ ان کے بڑے ارشاد علی ریڈیو پاکستان سے بطور براڈ کاسٹر وابستہ تھے۔ انہی کے توسط سے محمد علی کو ریڈیو پاکستان کے مختلف ڈراموں میں کام ملا۔

    1960ء کی دہائی کے آغاز پر محمد علی کو ہدایت کار قمر زیدی نے اپنی فلم آنکھ اور خون میں کاسٹ کیا، لیکن یہ فلم مکمل نہ ہوسکی۔ 1962ء میں فلم چراغ جلتا رہا ریلیز ہوئی جس میں‌ محمد علی نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ یہ ان کی پہلی فلم تھی، جب کہ بطور ہیرو پہلی نمائش پذیر فلم شرارت تھی۔ اس فلم کے ہدایت کار رفیق رضوی تھے۔ اس سے قبل محمد علی مسٹر ایکس نامی جاسوسی فلم میں ہیرو کے طور پر کام کرچکے تھے، لیکن اس کی نمائش تاخیر سے ہوئی اور یوں پہلی بار شائقین نے انھیں فلم شرارت میں‌ ہیرو کے روپ میں دیکھا تھا۔

    "خاموش رہو” وہ فلم تھی جس نے محمد علی کو شہرت اور مقبولیت دی۔ اس فلم نے مصروف ترین اداکار بنا دیا۔ ان کی کئی فلمیں نمائش پذیر ہوئیں۔ محمد علی نے اداکارہ زیبا سے شادی کی اور دونوں نے فلم نگری میں عزّت، وقار اور نام و مقام پایا۔ محمد علی اور زیبا کی مشترکہ فلموں کی تعداد 70 ہے جن میں پچاس سے زائد فلموں میں وہ ہیرو، ہیروئن کے طور پر نظر آئے۔ 29 ستمبر 1966ء وہ فلم "تم ملے پیار ملا” کی عکس بندی میں مصروف تھے جب انھوں نے شادی کا فیصلہ کیا۔

    محمد علی نے مجموعی طور پر 268 فلموں میں کام کیا جن میں اردو فلموں کی تعداد 251 تھی۔ لیجنڈ اداکار محمد علی نے مجموعی طور پر 9 نگار ایوارڈ بھی اپنے نام کیے۔

    جذباتی مکالمات کی ادائیگی، آواز کا اتار چڑھاؤ اور تاثرات پر کمال دسترس اور حقیقت سے قریب تر اداکاری محمد علی کو اپنے زمانے کے اداکاروں میں ممتاز کرتی ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ناقدین انھیں ایشیا میں سلور اسکرین کے عظیم فن کاروں میں شمار کرتے ہیں۔

    محمد علی کو ان کی شان دار پرفارمنس اور بے مثال اداکاری پر حکومت پاکستان کی جانب سے تمغہ حسن کارکردگی اور تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔

  • ’’ڈبل کردار‘‘ نبھانے والی مشہور اداکارائیں

    ’’ڈبل کردار‘‘ نبھانے والی مشہور اداکارائیں

    پاکستانی فلموں میں اپنے وقت کی مشہور اور مقبول اداکاراؤں نے ڈبل رول نبھا کر نہ صرف سنیما کے شائقین سے داد اور ستائش سمیٹی بلکہ بڑے پردے کے ناقدین نے بھی انھیں سراہا اور ان کی صلاحیتوں کا اعتراف کیا۔

    فلم انڈسٹری کی مشہور ہیروئنوں میں شبنم، صبیحہ خانم، شمیم آرا، رانی، زیبا بیگم اور بابرہ شریف نے متعدد فلموں‌ میں‌ ڈبل رول نبھائے اور سنیما بینوں‌ کی توجہ حاصل کی۔

    ماضی کی سپر اسٹار شبنم سے آغاز کریں‌ تو انھوں نے فلم ’’آبرو‘‘ کا ڈبل رول اس خوبی سے نبھایا کہ نہ صرف ان کے پرستاروں نے اسے پسند کیا، بلکہ فلمی ناقدین نے بھی انھیں بہت سراہا اور انھیں‌ زبردست پزیرائی ملی۔

    شمیم آرا کو پاکستان کی فلم انڈسٹری میں‌ اداکارہ ہی نہیں کام یاب ہدایت کارہ کے طور پر بھی پہچانا جاتا ہے۔ انھوں‌ نے اپنے وقت کے مشہور اور نہایت باصلاحیت اداکاروں‌ کے ساتھ کام کرکے خود کو منوایا اور ان کی فلمیں سپرہٹ ثابت ہوئیں۔ شمیم آرا نے فلم’’ہمراز‘‘ میں ڈبل کردار نبھا کر فلم بینوں سے خوب داد سمیٹی۔

    انجمن پاکستان کی فلمی صنعت کا ایک نمایاں اور قابلِ ذکر نام ہے جنھیں‌ سنیما کے شائقین نے کئی فلموں‌ میں‌ دیکھا اور ان کی پرفارمنس کو سراہا۔ اداکارہ انجمن نے فلم ’’دُلاری‘‘ میں ڈبل رول ادا کرکے شائقین سے خوب داد سمیٹی تھی۔

    پاکستانی سنیما کی مشہور اور مقبول ترین اداکارہ بابرہ شریف کی سپر ہٹ فلموں اور ان کی شان دار اداکاری نے اپنے وقت کے نام ور ہدایت کاروں اور قابلِ ذکر ناموں کو اپنا معترف اور شیدا بنا دیا تھا۔ اس اداکارہ کا اپنی ایک کام یاب فلم ’’سلاخیں‘‘ میں ڈبل کردار بہت پسند کیا گیا جب کہ مِس ہانگ کانگ، شبانہ اور بیٹی بھی وہ فلمیں تھیں جن میں بابرہ شریف نے مختلف روپ اپنائے اور عمدہ پرفارمنس سے شائقین کے دل جیتے۔

    ’’پرچھائیں‘‘ اور ’’چوری چوری‘‘ وہ فلمیں ہیں‌ جن میں زیبا بیگم نے ڈبل کردار نبھائے اور فلم نگری میں اپنی صلاحیتوں‌ کو آزماتے ہوئے شائقین کے دل جیت لیے۔

    پاکستانی فلموں کی مشہور اداکارہ اور فلم بینوں‌ میں مقبول صبیحہ خانم نے ’’پاک دامن‘‘ اور ’’مسکراہٹ ‘‘ جیسی فلموں میں دو مختلف کردار نبھا کر نہ صرف شائقین بلکہ ناقدین سے بھی داد و تحسین سمیٹی۔ صبیحہ خانم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے کرداروں میں حقیقت کا رنگ بھرنا جانتی تھیں۔

    فلم کی کام یابی یا ناکامی الگ بات ہے، لیکن اداکارہ رانی پاکستان کی فلم انڈسٹری کا وہ چہرہ تھا جسے مداحوں‌ نے ہر بار اور ہر روپ میں بے حد سراہا اور پسندیدگی و قبولیت کی سند بخشی۔ اس اداکارہ نے فلم ’’ناگ منی‘‘ اور ’’ایک گناہ اور سہی‘‘ میں ڈبل کردار ادا کیے تھے۔

    ماضی کی ایک اور اداکارہ ممتاز نے بھی ایک فلم میں ڈبل کردار نبھا کر خوب داد سمیٹی تھی۔ انھوں نے فلم انڈسٹری میں اپنے وقت کے سپر اسٹارز کے ساتھ کام کیا اور ’’خوشبو‘‘ وہ فلم تھی جس میں ممتاز کو ڈبل کردار نبھانے کا موقع ملا اور وہ شائقین کی توجہ حاصل کرنے میں کام یاب رہیں۔

  • فلمیں جو لولی وڈ کی شاہ کار، سنیما کی تاریخ میں یادگار ٹھہریں

    فلمیں جو لولی وڈ کی شاہ کار، سنیما کی تاریخ میں یادگار ٹھہریں

    یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کی فلم نگری اور سنیما کے شائقین پچھلی دہائیوں کے دوران موضوع اور عکس بندی کے اعتبار سے معیاری فلموں سے محروم رہے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ ہمارے یہاں بھی اکثریت، خاص طور پر نوجوان ہالی وڈ اور ہندی فلمیں‌ دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ تاہم ماضی میں پاکستان میں بڑے پردے پر کئی ایسی فلمیں‌ پیش کی گئی‌ ہیں‌ جو ہر لحاظ سے کام یاب اور یادگار تھیں۔

    آج ہم ان چند اردو فلموں کا تذکرہ کررہے ہیں جنھیں اب بھی اپنے موضوع، جان دار اسکرپٹ اور عمدہ مکالموں کے ساتھ اداکاروں کی شان دار پرفارمنس، موسیقی اور گلوکاری کے لحاظ سے منفرد اور قابلِ ذکر مانا جاتا ہے۔

    اس ضمن میں "کوئل” کو سرفہرست رکھا جائے تو خواجہ خورشید انور کی سحر انگیز موسیقی، مسعود پرویز کی شان دار اداکاری اور ملکہ ترنم نور جہاں کی گلوکاری نے اس فلم کو زبردست اور کام یاب بنایا۔

    میڈم نور جہاں نے اس فلم میں ایک کردار بھی نبھایا تھا، ان کے علاوہ اسلم پرویز، علاﺅالدین، اداکار نذر اور نیلو کی شان دار پرفارمنس آج بھی دیکھنے والوں کو یاد ہے۔

    1956 میں فلم "انتظار” ریلیز ہوئی جسے لالی وڈ کی کام یاب ترین فلم کہا جاتا ہے۔ اس فلم کی موسیقی خواجہ خورشید انور نے ترتیب دی تھی اور گیت قتیل شفائی نے لکھے تھے۔ فلم کے ہدایت کار مسعود پرویز تھے۔

    کہتے ہیں اس فلم کی فوٹو گرافی کمال کی تھی اور اس میں نور جہاں، سنتوش کمار، آشا پوسلے اور غلام محمد نے اپنی اداکاری سے شائقین کے دل موہ لیے۔

    فلم بینوں کو سنتوش کمار کا ڈبل رول بہت پسند آیا اور انتظار نے گولڈن جوبلی مکمل کی۔ اعلیٰ درجے کی شاعری اور شان دار موسیقی کے ساتھ جان دار اداکاری کی وجہ سے پڑوسی ملک میں‌ بھی اس فلم کا خوب چرچا ہوا۔

    1966 کی فلم "ارمان” پاکستان کی پہلی پلاٹینم جوبلی فلم ہے۔ وحید مراد اس کے فلم ساز اور ہدایت کار پرویز ملک تھے۔ اسے پاکستان بھر میں‌ سنیما بینوں نے پسند کیا اور اس فلم نے زبردست بزنس کیا۔

    اس فلم کے گیت مسرور انور نے لکھے تھے جب کہ نام ور موسیقار سہیل رانا نے اس دھنیں‌ ترتیب دی تھیں۔ اداکارہ زیبا کے علاوہ فلم میں وحید مراد، نرالا اور ترنم نے اداکاری کے جوہر دکھائے اور شائقین کو متوجہ کیا۔

    یہ رومانوی فلم تھی جس کے بعد وحید مراد کو ”شہنشاہ رومانس“ کہا جانے لگا۔ یہ لالی وڈ کی بہترین فلموں میں سے ایک ثابت ہوئی۔

    اسی طرح آئینہ، زرقا اور امراؤ جان ادا نے شائقین ہی کے دل نہیں‌ جیتے بلکہ بزنس کے اعتبار سے بھی شان دار ثابت ہوئیں اور ان فلموں‌ میں کام کرنے والے اداکاروں نے ملک بھر میں نام کمایا۔