Tag: اداکارہ شیاما

  • شیاما:‌ پُرکشش نین نقش کی مالک، باصلاحیت اداکارہ

    شیاما:‌ پُرکشش نین نقش کی مالک، باصلاحیت اداکارہ

    سید شوکت حسین رضوی تقسیمِ ہند سے قبل ہی ایک کام یاب فلم ساز اور ہدایت کار کے طور پر پہچان بنا چکے تھے۔ ’’زینت‘‘ ان کی وہ فلم تھی جسے ہندوستان بھر میں کام یابی ملی۔ 1945ء میں جب سید شوکت حسین رضوی اپنی اس فلم کے لیے قوّالی پیش کرنے کا ایک منظر عکس بند کروا رہے تھے تو حاضرین میں اسکول کی چند طالبات میں خورشید اختر نام کی ایک لڑکی بھی شامل تھی۔ شوکت حسین رضوی کی نظر اس پر پڑی تو انھوں نے اسے بھی قوالی کے اسٹیج پر بٹھا دیا۔ وہ قوّالی بہت مقبول ہوئی اور خورشید اختر نے مستقبل میں شیاما کے نام سے بطور اداکارہ سفر شروع کیا اور خوب شہرت حاصل کی۔

    اس قوالی کے بول تھے، ’’آہیں نہ بھریں، شکوہ نہ کیا۔‘‘ اتفاقاً فلم کے ایک منظر کا حصہ بننے والی خورشید اختر کا لاہور شہر کے علاقہ باغبان پورہ سے تھا۔ شیاما کے فلمی نام سے اداکارہ نے 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں متعدد فلمیں کیں اور خوب شہرت پائی۔ وہ ایک متموّل آرائیں خاندان کی فرد تھیں۔ 1935ء میں‌ آنکھ کھولنے والی شیاما کا خاندان 1945ء میں ممبئی منتقل ہوگیا تھا اور وہیں انھیں‌ فلمی دنیا سے وابستہ ہونے کا موقع ملا۔

    فلم ‘پتنگا’ 1949ء میں ریلیز ہوئی تھی جس میں شیاما نے بھی اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔ یہ اپنے دور کی چند کام یاب اور مشہور فلموں میں سے ایک تھی۔ شیاما نے نگار سلطانہ، یعقوب اور گوپ جیسے منجھے ہوئے فن کاروں کے درمیان بڑے اعتماد سے اپنا کردار نبھا کر فلم سازوں کو متاثر کیا تھا۔ خورشید اختر کو شیاما کا نام معروف ہدایت کار وجے بھٹ نے 1953ء میں دیا۔ بعد میں وہ اسی نام سے پہچانی گئیں۔ اداکارہ شیاما پُرکشش، اور خوب صورت نین نقش کی حامل ہی نہیں‌ ذہین اور پُراعتماد بھی تھیں۔ فلم بینوں کے دل جیتنے والی شیاما نے اپنے دور کے کام یاب فلم سازوں کو بھی متاثر کیا اور یہی وجہ تھی کہ انھیں بمبئی میں مسلسل کام ملتا رہا۔ نام وَر ہدایت کار اے آر کاردار اور گرو دَت بھی ان لوگوں میں شامل تھے جو شیاما کی صلاحیتوں کے معترف رہے۔ گرو دَت نے شیاما کو اپنی فلم ‘آر پار’ میں کاسٹ کیا اور اس فلم نے شیاما کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ 1954ء میں ریلیز ہونے والی یہ فلم اپنے نغمات کی وجہ سے بھی کام یاب ثابت ہوئی اور شیاما کی اداکاری کو بھی شائقین نے بے حد سراہا۔

    فلمی دنیا کی ایک معروف اور قابل شخصیت ضیا سرحدی نے فلم ‘ہم لوگ’ بنائی تھی جو 1951ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں اداکارہ شیاما نے کام کیا تھا۔ اس اداکارہ پر فلمائے گئے گیت ‘چھن چھن چھن باجے پائل موری’ کو بہت پسند کیا گیا۔ شیاما کی فلموں کی تعداد 200 سے زائد ہے۔ ان کی مشہور فلموں میں برسات کی رات، ترانہ، ساون بھادوں، پائل کی جھنکار، اجنبی، نیا دن نئی رات، تقدیر، بھابی و دیگر شامل ہیں۔ 1957ء کی فلم ‘شاردا’ کے لیے شیاما کو بہترین معاون اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔

    اداکارہ شیاما 1953ء میں ایک سنیماٹو گرافر سے رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئیں۔ اداکارہ آخری مرتبہ فلم ‘ہتھیار’ میں نظر آئی تھیں۔ 82 سال کی عمر میں‌ انتقال کرنے والی شیاما ممبئی کے ایک قبرستان میں ابدی نیند سورہی ہیں۔ وہ 14 نومبر 2017ء کو انتقال کرگئی تھیں۔

  • خورشید اختر کا تذکرہ جنھیں ’’زینت‘‘ نے ’’شیاما‘‘ بنا دیا

    خورشید اختر کا تذکرہ جنھیں ’’زینت‘‘ نے ’’شیاما‘‘ بنا دیا

    پاکستانی فلم انڈسٹری کے معروف فلم ساز، ہدایت کار اور اداکار سید شوکت حسین رضوی کی فلم ’’زینت‘‘ کے لیے اسٹوڈیو میں قوّالی کا ایک منظر عکس بند کیا جارہا تھا۔ یہ 1945ء کی بات ہے۔ تقسیمِ ہند سے قبل شوکت صاحب کی اس فلم کو ہندوستان بھر میں‌ کام یابی ملی تھی۔

    اس موقع پر حاضرین میں اسکول کی چند طالبات کے ساتھ ایک لڑکی خورشید اختر بھی موجود تھی۔ شوکت حسین رضوی نے اسے قوّالی میں شامل کرلیا۔ فلم کی وہ قوّالی بہت مقبول ہوئی۔ اس کے بول تھے، ’’آہیں نہ بھریں، شکوہ نہ کیا۔‘‘ بعد کے برسوں‌ میں خورشید اختر نے بطور اداکارہ اپنے فلمی نام شیاما سے ہندوستان میں‌ شہرت اور مقبولیت پائی۔

    شیاما، 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں متعدد فلموں میں جلوہ گر ہوئیں اور کام یاب اداکارہ ثابت ہوئیں۔ ان کا تعلق باغ بان پورہ، لاہور سے تھا۔ وہ ایک متموّل آرائیں خاندان کی فرد تھیں۔ 1935ء میں‌ پیدا ہونے والی شیاما کا خاندان 1945ء میں ممبئی منتقل ہوگیا تھا جہاں انھیں‌ فلمی دنیا سے وابستہ ہونے کا موقع ملا۔

    شیاما کی ایک فلم ‘پتنگا’ 1949ء میں ریلیز ہوئی تھی جو اپنے زمانے کی کام یاب ترین اور مشہور فلموں میں سے ایک تھی۔ اس میں شیام، نگار سلطانہ، یعقوب اور گوپ جیسے منجھے ہوئے فن کاروں کے درمیان اداکارہ شیاما نے بڑے اعتماد سے کام کیا اور فلم سازوں کو متاثر کرنے میں کام یاب رہیں۔

    خورشید اختر کو شیاما کا نام معروف ہدایت کار وجے بھٹ نے 1953ء میں دیا تھا اور وہ اسی نام سے پہچانی گئیں۔ اداکارہ شیاما پُرکشش، اور خوب صورت نین نقش کی حامل ہی نہیں‌ ذہین اور پُراعتماد بھی تھیں۔ انھوں نے اپنی عمدہ اداکاری سے جہاں فلم بینوں کے دل جیتے، وہیں فلم سازوں کو بھی متاثر کیا اور انڈسٹری میں‌ انھیں کام ملتا رہا۔ ان فلم سازوں‌ میں‌ اپنے زمانے کے باکمال اور نام وَر ہدایت کار اے آر کار دار اور گرو دَت بھی شامل تھے۔ گرو دَت نے شیاما کو اپنی فلم ‘آر پار’ میں کاسٹ کیا جس کی کام یابی نے شیاما کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ 1954ء میں ریلیز ہونے والی اس فلم کے گیت بہت مقبول ہوئے اور شیاما کی اداکاری کو شائقین نے بے حد سراہا۔

    فلمی دنیا کی ایک معروف اور قابل شخصیت ضیا سرحدی نے فلم ‘ہم لوگ’ بنائی تھی جو 1951ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں اداکارہ شیاما نے کام کیا تھا۔ اس اداکارہ پر فلمائے گئے گیت ‘چھن چھن چھن باجے پائل موری’ کو بہت پسند کیا گیا۔ شیاما کی فلموں کی تعداد 200 سے زائد ہے۔ ان کی مشہور فلموں میں برسات کی رات، ترانہ، ساون بھادوں، پائل کی جھنکار، اجنبی، نیا دن نئی رات، تقدیر، بھابی و دیگر شامل ہیں۔

    1957ء کی فلم ‘شاردا’ کے لیے شیاما کو بہترین معاون اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ شیاما نے 1953ء میں ایک سنیماٹو گرافر سے شادی کی تھی۔ وہ آخری بار سلور اسکرین پر فلم ‘ہتھیار’ میں نظر آئی تھیں۔ اداکارہ شیاما 82 سال کی عمر میں‌ 14 نومبر 2017ء میں وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ وہ ممبئی میں‌ مقیم تھیں اور وہیں‌ ایک قبرستان میں‌ آسودۂ خاک ہوئیں۔

  • یومِ وفات: خورشید اختر کا تذکرہ جنھیں فلمی پردے پر شیاما کے نام سے شہرت ملی

    یومِ وفات: خورشید اختر کا تذکرہ جنھیں فلمی پردے پر شیاما کے نام سے شہرت ملی

    سید شوکت حسین رضوی اپنی فلم ’’زینت‘‘ کی عکس بندی کررہے تھے اسٹوڈیو میں قوّالی کا منظر عکس بند کیا جارہا تھا۔ وہاں ایک اسکول کی چند طالبات بھی موجود تھیں جن میں خورشید اختر بھی شامل تھی۔ یہ 1945ء کی بات ہے۔

    شوکت حسین رضوی نے خورشید اختر کو قوّالی میں شامل کرلیا۔ ریلیز کے بعد اس فلم نے ہندوستان بھر میں زبردست کام یابی سمیٹی اور وہ قوّالی بہت مقبول ہوئی۔ اس کے بول تھے، ’’آہیں نہ بھریں، شکوہ نہ کیا۔‘‘ اسی فلم نے خورشید اختر کو شیاما کے نام سے بڑے پردے پر نام و مقام بنانے کا موقع دیا۔

    شیاما نے 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں متعدد فلموں میں اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے اور شہرت پائی۔ ان کا تعلق باغ بان پورہ، لاہور سے تھا۔ وہ ایک متموّل آرائیں خاندان کی فرد تھیں۔ 1935ء میں‌ پیدا ہونے والی شیاما کا خاندان 1945ء میں ممبئی منتقل ہوگیا تھا جہاں انھوں‌ نے فلم نگری میں‌ بحیثیت اداکارہ خوب شہرت پائی۔

    شیاما کی ایک فلم ‘پتنگا’ 1949ء میں ریلیز ہوئی تھی جو اپنے زمانے کی کام یاب ترین اور مشہور فلموں میں سے ایک تھی۔ اس میں شیام، نگار سلطانہ، یعقوب اور گوپ جیسے منجھے ہوئے فن کاروں کے ساتھ شیاما نے بڑے اعتماد سے کام کیا اور فلم سازوں کو متاثر کرنے میں کام یاب رہیں۔

    ہدایت کار وجے بھٹ نے خورشید اختر کو 1953ء میں شیاما کا فلمی نام دیا تھا اور بعد میں وہ اسی نام سے جانی گئیں۔

    شیاما پُرکشش، اور خوب صورت نین نقش کی حامل ہی نہیں‌ ذہین اور پُراعتماد بھی تھیں۔ انھوں نے اپنی عمدہ اداکاری سے جہاں فلم بینوں کے دل جیتے، وہیں اپنے اعتماد اور ذہانت کے سبب فلم سازوں کو بھی متاثر کرنے میں کام یاب ہوگئیں۔ ان میں‌ اپنے زمانے کے باکمال اور نام وَر ہدایت کار اے آر کار دار اور گرو دَت بھی شامل تھے۔ گرو دَت نے شیاما کو اپنی فلم ‘آرپار’ میں کاسٹ کیا جس کی کام یابی نے شیاما کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا۔ 1954ء کی اس فلم کے گیت بہت مقبول ہوئے جب کہ شیاما کی اداکاری کو شائقین نے بے حد سراہا۔

    شیاما کی ایک کام یاب ترین فلم ضیا سرحدی کی ‘ہم لوگ’ تھی جو سال 1951ء میں ریلیز ہوئی۔ اس فلم میں ان پر فلمائے گئے گیت ‘چھن چھن چھن باجے پائل موری’ کو بہت سراہا گیا۔ اداکارہ شیاما نے 200 سے زائد فلموں میں کام کیا۔

    ان کی مشہور فلموں میں برسات کی رات، ترانہ، ساون بھادوں، پائل کی جھنکار، اجنبی، نیا دن نئی رات، تقدیر، بھابی و دیگر شامل ہیں۔

    1957ء کی فلم ‘شاردا’ کے لیے شیاما کو بہترین معاون اداکارہ کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا تھا۔ شیاما نے 1953ء میں ایک سنیماٹو گرافر سے شادی کی تھی۔ وہ آخری بار سلور اسکرین پر فلم ‘ہتھیار’ میں نظر آئی تھیں۔ انھوں نے 82 سال کی عمر پائی اور 14 نومبر 2017ء کو خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ وہ ممبئی میں‌ مقیم تھیں اور وہیں‌ ایک قبرستان میں‌ ان کی تدفین کی گئی۔