Tag: اداکارہ وفات

  • ‘ببّو’ جسے اب یاد کرنے والا کوئی نہیں!

    ‘ببّو’ جسے اب یاد کرنے والا کوئی نہیں!

    عشرت سلطانہ عرف ببّو کسی زمانے میں ساگر فلم کمپنی کی مشہور ہیروئن ہوا کرتی تھی۔ 1914ء میں دلّی میں پیدا ہوئی تھی۔ طبیعت بچپن سے اداکاری، رقص و موسیقی کی جانب مائل تھی اس لیے فلم لائن میں چلی گئی۔ اچھی اداکارہ ہونے کے ساتھ اچھی سنگر بھی ثابت ہوئی۔ ہیروئن اور ویمپ کا کردار یکساں خوبی کے ساتھ نبھایا کرتی تھی۔

    اُن دنوں بھی بہت ہنس مکھ تھی، جس محفل میں جاتی اُسے زعفران زار بنا دیا کرتی تھی۔ پہلی بار فلم ’دوپٹہ‘ میں ایک چھوٹا سا رول ملا تھا جو اس نے خوش اسلوبی سے نبھا دیا۔ پھر بڑے کردار ملنے لگے اور فلمیں کامیاب ہوتی چلی گئیں۔ جسم تھوڑا بھاری تھا لیکن اس کی سُریلی آواز نے لوگوں کو دیوانہ بنا رکھا تھا۔

    ’جاگیردار‘ اور ’گرامو فون سنگر‘ فلموں کے باعث بڑی مشہور ہو گئی۔ اس کا یہ گانا بچّے بچّے کی زبان پر تھا ’’پجاری میرے مندر میں آؤ‘‘ ایک اور نغمہ تمھیں نے مجھ کو پریم سکھایا….سوئے ہوئے ہردے کو جگایا، بہت پاپولر ہوا تھا۔

    ایک بار اس کی ایک فلم دیکھ کر بمبئی کے گورنر نے اس کی تعریف کی تھی جس کی وجہ سے وہ مغرور ہو گئی اور اس کے نخرے بڑھنے لگے۔ اپنے وفا شعار شوہر کو چھوڑ کر چلتے پھرتے تعلقات پر یقین کرنے لگی۔ بالآخر حسن ڈھلنے کے دن آ گئے اور مٹاپا جسم پر چھا گیا تو سب نے آنکھیں پھیر لیں، کام ملنا بند ہو گیا۔ ملک کا بٹوارہ ہو گیا تو قسمت آزمائی کے لیے لاہور چلی گئی اور وہاں پاکستان کی فلم انڈسٹری میں مقام پیدا کرنے کی کوشش کی۔ چند فلموں میں کام کرنے کے بعد وہاں بھی مارکیٹ ختم ہو گئی۔ کام حاصل کرنے کی کوشش میں وہ اسٹوڈیوز کے چکّر کاٹتی رہتی تھی۔ فلم ’مغلِ اعظم‘ میں سنگ تراش کا کردار عمدگی سے نبھانے کے باوجود جب اداکار کمار کو بھی اداکاری کے میدان میں دشواری محسوس ہونے لگی تو وہ بھی پاکستان چلا گیا۔

    ایک دن اُس کا کسی اسٹوڈیو میں اپنی پرانی ہیروئن ببّو سے سامنا ہوا تو دونوں گلے ملے۔ کمار بار بار ’’میری ببّو، میری ببّو‘‘ کہہ کر پرانے دنوں کی یاد تازہ کرتا رہا۔ دونوں کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے۔ بمبئی میں تب کیسے اچھے دن تھے اور اب کتنا مایوس کر دینے والا ماحول تھا۔ ببّو کے پاؤں جب فلم انڈسٹری سے اکھڑ گئے اور کوشش بسیار کے باوجود کام نہ ملا تو اُس نے شراب کی ناجائز درآمد اور برآمد کا دھندا شروع کر دیا، پکڑی گئی تو نہ گھر کی رہی نہ گھاٹ کی۔ آخر کار گمنام موت نصیب ہوئی۔ اب اُسے یاد کرنے والا کوئی نہیں۔

    (از قلم وشو ناتھ طاؤس)

  • یومِ‌ وفات: من موہنی صورت والی مینا شوری لارا لپّا گرل مشہور تھیں

    یومِ‌ وفات: من موہنی صورت والی مینا شوری لارا لپّا گرل مشہور تھیں

    مینا شوری پاکستان فلم انڈسٹری کی ایک مشہور اداکارہ تھیں جن کا اصل نام خورشید جہاں تھا۔ آج اس اداکارہ کی برسی منائی جارہی ہے۔

    مینا شوری 2 ستمبر 1989ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ انھیں سرطان کا مہلک مرض لاحق تھا۔

    خورشید جہاں نے 1921ء میں رائے ونڈ میں آنکھ کھولی۔ انھوں نے اپنا فلمی کیریئر بمبئی سے شروع کیا اور سہراب مودی کی فلم سکندر میں شان دار پرفارمنس نے ان پر فلمی صنعت کے دروازے کھول دیے۔

    اس کے بعد مینا شوری کو فلم پتھروں کا سوداگر، شہر سے دور، پت جھڑ، چمن اور ایک تھی لڑکی نے مزید کام یابیاں‌ دیں۔

    فلم ایک تھی لڑکی کا وہ گیت جس کے بول ’لارا لپا، لارا لپا، لائی رکھدا‘ تھے، بہت مشہور ہوا۔ یہ مینا شوری پر فلمایا گیا گیت تھا جس کے بعد ہندوستان بھر میں ہر جگہ انھیں لارا لپا گرل کے نام سے پکارا جانے لگا۔

    تقسیم کے بعد مینا شوری نے ہجرت کی اور کراچی میں‌ قیام کے بعد لاہور میں سکونت اختیار کرلی۔ مینا شوری بہت پیاری اور من موہنی صورت کی مالک تھیں، انھوں نے پانچ شادیاں کی تھیں۔

    اس اداکارہ کی مشہور اور کام یاب فلموں میں سرفروش، جگا، جمالو، بڑا آدمی، ستاروں کی دنیا، گل فروش، بچہ جمہورا، گلشن، تین اور تین، پھول اور کانٹے، موسیقار،خاموش رہو، مہمان شامل ہیں۔ اداکارہ مینا شوری لاہور کے ایک قبرستان میں آسودہ خاک ہیں۔

  • کیتھرین ہیپبرن: ہالی وڈ اداکارہ جسے ‘آئیکون’ کا درجہ حاصل تھا

    کیتھرین ہیپبرن: ہالی وڈ اداکارہ جسے ‘آئیکون’ کا درجہ حاصل تھا

    ہالی وڈ، فیشن اور اسٹائل کی دنیا پر ایک عرصے تک راج کرنے والی اداکارہ کیتھرین ہیپبرن امریکی معاشرے اور ثقافت میں ایک بااثر خاتون کی حیثیت سے بھی شہرت رکھتی ہیں۔

    29 جون 2003ء کو ہمیشہ کے لیے اس دنیا سے رخصت ہوجانے والی ہیپبرن کو غیر روایتی انداز کی حامل آزاد اور خود مختار خاتون کہا جاتا ہے جس نے اپنی مرضی کے مطابق زندگی بسر کی۔

    کیتھرین ہیپبرن کو ہالی وڈ میں 66 سالہ کیریئر کے دوران کئی ایوارڈز سے نوازا گیا جن میں آسکر بھی شامل ہے۔ ہالی وڈ کی اس اداکارہ نے 4 آسکر ایوارڈ اپنے نام کیے اور فلم نگری کے اس معتبر ترین ایوارڈ کے لیے 12 مرتبہ نام زد کی گئی۔
    آسکر کے علاوہ فلمی صنعت کے متعدد ایوارڈ حاصل کرنے والی اس اداکارہ نے فیشن اور اسٹائل کی دنیا سے بھی اعزازات سمیٹے۔

    ہیپبرن خوب صورت اور سحر انگیز شخصیت کی مالک تھی جس نے فیشن اور اپنے منفرد انداز کے سبب بھی شہرت حاصل کی۔ اس کا نام بیسویں صدی عیسوی کی ان خواتین کی فہرست میں‌ شامل رہا ہے جنھوں‌ نے اپنے فن اور کارناموں کے سبب دنیا کی معاشرت اور امریکا کی ثقافت پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ یہ فہرست شوبزنس اور فیشن انڈسٹری سے متعلق اپنے وقت کے متعدد مشہور رسائل اور معتبر جرائد نے شایع کی تھی۔

    امریکی ثقافت میں بے حد پذیرائی کے سبب اسے ایک ‘آئیکون’ کا درجہ حاصل ہوگیا جب کہ 1999ء میں امریکی فلم انسٹیٹیوٹ نے ہیپبرن کو عظیم اداکارہ قرار دیا تھا۔

    کیتھرین ہیپبرن کو یہ یقین تھا کہ موت کے بعد اسے ضرور یاد رکھا جائے گا۔ اس نے کئی مواقع پر اس بات کا اظہار بھی کیا۔

    کیتھرین ہیپبرن کا تعلق امریکا کے ایک امیر اور خوش حال گھرانے سے تھا۔ وہ 12 مئی 1907ء کو پیدا ہوئی۔ والد مشہور سرجن تھے جب کہ والدہ کو امریکا میں انسانی حقوق کی علم بردار اور سماجی کارکن کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا۔

    ہیپبرن اپنے والدین کی چھٹی اولاد تھی اور اس کی پرورش ایک ایسے ماحول میں ہوئی تھی جہاں بولنے اور سوال کرنے کی آزادی تھی اور صلاحیتوں کا اظہار کرنے پر بچّوں حوصلہ افزائی کی جاتی تھی۔ اس ماحول کی پروردہ ہیپبرن بھی پُراعتماد اور باہمّت تھی۔

    گریجویشن کے بعد اسے اسٹیج کی دنیا میں قدم رکھنے کا موقع ملا اور یوں اس کے شوبز کیریئر کا آغاز ہوا۔ نیو یارک کے مشہور براڈوے تھیٹر سے منسلک رہتے ہوئے اس نے متعدد ڈراموں میں چھوٹے بڑے کردار نبھائے اور پہچان بناتی چلی گئی۔ اس نے 1928ء میں شادی کی تھی لیکن چند سال بعد یہ تعلق ختم کردیا۔

    کیتھرین نے اپنی اداکاری سنیما کے شائقین کو ہی نہیں ناقدین کو بھی متاثر کیا۔ اس کی پہلی فلم 1932ء میں پردے پر پیش کی گئی۔ اداکاری کے ابتدائی ایّام میں اس نے حقوقِ نسواں کی علم بردار عورت کے مختلف کردار نبھائے اور پھر ہالی وڈ کی فلموں میں مختلف کردار قبول کرکے خود کو منوانے میں کام یاب رہی۔ اداکارہ نے جہاں فیچر فلموں میں‌ اپنی اداکاری سے شائقین کے دل جیتے، وہیں‌ اسٹیج اور ٹیلی ویژن پر کام کر کے بھی خود کو منوایا۔

    کیتھرین ہیپبرن کی چند مشہور فلموں میں مارننگ گلوری، فلاڈلفیا اسٹوری، دی افریقن کوئین، لٹل وومن، ہالی ڈے، وومن آف دی ایئر شامل ہیں۔ فلاڈلفیا اسٹوری کو ہالی وڈ کی کلاسیکی فلموں میں شمار کیا جاتا ہے۔

    ہیپبرن نے 96 سال کی عمر میں‌ زندگی سے اپنا ناتا توڑا تھا۔

  • یومِ‌ وفات: بالی جٹّی کا تذکرہ جنھیں لوگ "ببر شیرنی” کہتے تھے

    یومِ‌ وفات: بالی جٹّی کا تذکرہ جنھیں لوگ "ببر شیرنی” کہتے تھے

    ایک زمانے میں جب آج کی طرح تفریح کے ذرایع میّسر نہ تھے تو لوگ میلوں ٹھیلوں میں عوامی تھیٹر سے وابستہ آرٹسٹوں کی پرفارمنس سے محظوظ ہوتے تھے۔ یہ میلہ بڑے میدان اور کھلی جگہ پر منعقد ہوتا تھا۔ سن اسّی کی دہائی تک خصوصاً پنجاب کے چھوٹے شہروں اور دیہات میں‌ میلوں ٹھیلوں کا یہ سلسلہ جاری رہا جن میں عوامی تھیٹر تفریح کا ایک مقبول ذریعہ تھا۔

    پاکستان میں‌ شہروں شہروں مجمع لگانے اور عوامی تھیٹر کو اپنی پرفارمنس سے سجانے والے مرد فن کاروں میں عالم لوہار، عنایت حسین بھٹی اور عاشق جٹ کے علاوہ بھی کئی نام لیے جاسکتے ہیں، لیکن بالی جٹّی اور دیگر آرٹسٹوں کا نام شاذ ہی لیا جاتا ہے۔

    یہاں‌ ہم بالی جٹّی کا تذکرہ کررہے ہیں جو 8 جون 1996ء کو دنیا سے رخصت ہوگئی تھیں۔ آج ان کی برسی ہے۔ عوامی تھیٹر کی اس باکمال آرٹسٹ کا اصل نام عنایت بی بی تھا۔ وہ 1937ء میں ساہیوال میں پیدا ہوئیں۔ 1958ء میں پنجاب کے لوک تھیٹروں کا حصّہ بن کر اپنے فن کا مظاہرہ کرنے لگیں اور متعدد ڈراموں میں پرفارم کیا۔ وہ گلوکارہ بھی تھیں اور ان کی آواز میں‌ گائے ہوئے پنجاب کے لوک گیت آج بھی عوام میں مقبول ہیں۔

    بالی جٹّی نے 1967ء کی ایک پنجابی فلم منگیتر میں بھی کردار ادا کیا تھا۔ اس فلم میں‌ وہ اپنے وقت کے مشہور اداکار منور ظریف کے ساتھ نظر آئی تھیں۔

    بالی جٹّی کے ڈراموں میں ہیر رانجھا، سسی پنوں، سوہنی مہینوال، مرزا صاحباں، لیلیٰ مجنوں، شیریں فرہاد، سلطانہ ڈاکو اور نورِ اسلام سرفہرست ہیں۔ وہ ڈراموں میں اداکاری کے ساتھ ساتھ گلوکاری بھی کرتی تھیں۔ اس زمانے میں عوامی تھیٹر کے ان آرٹسٹوں کی شہرت اور مقبولیت میلوں ٹھیلوں کے شرکا کے دَم سے قائم رہتی تھی۔ بالی جٹّی بھی اپنی عمدہ پرفارمنس کے سبب پنجاب بھر میں‌ مشہور تھیں۔ کہتے ہیں ان کی گرج دار آواز نے بھی انھیں تھیٹر کی دنیا میں‌ دیگر فن کاروں سے ممتاز کیا جب کہ تھیٹر کے شائقین نے انھیں ببر شیرنی کا خطاب دیا تھا۔

    عوامی تھیٹر کی یہ مقبول اداکارہ اور گلوکارہ لاہور کے ایک قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔

  • بالی وڈ کی باکمال اداکارہ کی ایک غزل!

    بالی وڈ کی باکمال اداکارہ کی ایک غزل!

    مینا کماری کو ملکۂ غم کہا جاتا ہے جس کا سبب فلموں میں نبھائے گئے ان کے وہ المیہ اور حزنیہ کردار ہیں‌ جو ان کے کمالِ فن کی یادگار ہیں۔ مہ جبین ان کا اصل نام تھا، لیکن فلم انڈسٹری اور اپنے لاکھوں پرستاروں میں مینا کماری کے نام سے مشہور ہوئیں۔

    اس اداکارہ کی ذاتی زندگی بھی رنج و غم اور دکھوں سے بھری پڑی تھی۔ وہ ازدواجی سفر میں‌ ناکامی کے بعد کئی پریشانیوں اور ذہنی الجھنوں‌ کا شکار رہیں جو 1972ء میں ان کے موت کے ساتھ ہی تمام ہوسکیں۔

    قدرت نے ماہ جبین کو بے پناہ صلاحیتوں سے نوازا تھا۔ وہ باکمال اداکارہ تو تھی ہیں، ان کی آواز بھی بہت دل نشیں تھیں، لیکن یہ بات بہت کم لوگ جانتے ہیں‌ کہ وہ شاعرہ بھی تھیں۔ مینا کماری کا تخلّص ناز تھا۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ یہاں‌ ہم چار دہائی قبل دنیا سے ناتا توڑ لینے والی مینا کماری کی ایک غزل پیش کررہے ہیں۔ ملاحظہ کیجیے۔

    عیادت ہوتی جاتی ہے، عبادت ہوتی جاتی ہے
    مرے مرنے کی دیکھو سب کو عادت ہوتی جاتی ہے

    تیرے قدموں کی آہٹ کو یہ دل ہے ڈھونڈتا ہر دَم
    ہر اک آواز پر اک تھرتھراہٹ ہوتی جاتی ہے

    یہ کیسی یاس ہے، رونے کی بھی اور مسکرانے کی
    یہ کیسا درد ہے کہ جھنجھناہٹ ہوتی جاتی ہے

    کبھی تو خوب صورت اپنی ہی آنکھوں میں ایسے تھے
    کسی غم خانہ سے گویا محبّت ہوتی جاتی ہے

    خود ہی کو تیز ناخونوں سے ہائے نوچتے ہیں اب
    ہمیں اللہ خود سے کیسی الفت ہوتی جاتی ہے

  • پاکستان کی پہلی فلم کی ہیروئن آشا پوسلے کی برسی

    پاکستان کی پہلی فلم کی ہیروئن آشا پوسلے کی برسی

    26 مارچ 1998ء کو پاکستان کی پہلی فلم ‘تیری یاد’ میں ہیروئن کا کردار نبھانے والی آشا پوسلے وفات پاگئی تھیں۔ آج ان کی برسی منائی جارہی ہے۔ آشا پوسلے کا اصل نام صابرہ بیگم تھا جن کے والد موسیقار کی حیثیت سے فلمی دنیا سے منسلک تھے۔

    آشا پوسلے کا تعلق پٹیالہ سے تھا جہاں انھوں نے 1927ء میں آنکھ کھولی تھی۔ تقسیم سے قبل 1946ء میں فلم ‘کملی’ سے اپنے کیریئر کا آغاز کرنے والی آشا پوسلے نے ہیروئن کے علاوہ بڑے پردے پر کئی فلموں میں منفی کردار بھی ادا کیے۔ آشا پوسلے کے والد ماسٹر عنایت علی ناتھ ہی نہیں‌ ان کی ایک بہن رانی کرن بھی اداکارہ اور دوسری کوثر پروین بطور گلوکارہ فلمی دنیا سے منسلک رہیں۔

    7 اگست 1948ء کو لاہور کے پربت تھیٹر میں نمائش کے لیے پیش کی گئی ملک کی پہلی فلم میں ہیروئن کا کردار نبھانے والی آشا پوسلے نے زندگی کے آخری ایّام انتہائی کس مپرسی کے عالم میں بسر کیے اور گڑھی شاہو، لاہور میں انتقال کیا۔ انھیں‌ متعدد اعزازات سے نوازا گیا تھا جن میں خصوصی نگار ایوارڈ بھی شامل تھا۔

  • فلم، ریڈیو اور ٹی وی کی ممتاز اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی

    فلم، ریڈیو اور ٹی وی کی ممتاز اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی

    آج پاکستان ٹیلی ویژن کی معروف اداکارہ بیگم خورشید مرزا کی برسی ہے وہ 8 فروری 1989ء کو وفات پاگئی تھیں۔ بیگم خورشید مرزا کا تعلق علی گڑھ کے ایک تعلیم یافتہ اور باشعور گھرانے سے تھا۔

    4 مارچ 1918ء کو پیدا ہونے والی بیگم خورشید مرزا کا اصل نام خورشید جہاں تھا۔ان کے والد شیخ عبداللہ نے علی گڑھ میں مسلم گرلز کالج کی بنیاد رکھی تھی اور ان کی بڑی بہن ڈاکٹر رشید جہاں انجمن ترقی پسند مصنّفین کی بانیوں میں شامل تھیں۔ خورشید جہاں 17 برس کی عمر میں اکبر حسین مرزا سے رشتہ ازدواج میں‌ منسلک ہوئی تھیں‌ جو پولیس افسر تھے۔ خورشید جہاں کے بھائی محسن عبداللہ مشہور فلمی ادارے بمبئی ٹاکیز سے وابستہ تھے۔ انہی کے توسط سے خورشید جہاں نے ہندوستان میں فلم جیون پربھات، بھابی، نیا سنسار اور غلامی میں اداکاری کی۔

    قیامِ پاکستان کے بعد ریڈیو اور بعد میں ٹیلی وژن کے متعدد ڈراموں میں اداکاری کی اور ایک صدا کار کی حیثیت سے بھی شہرت حاصل کی۔ بیگم خورشید مرزا کے ٹی وی ڈراموں میں کرن کہانی، زیر زبر پیش، انکل عرفی، پرچھائیں، رومی، افشاں اور انا شامل ہیں جو اپنے وقت کے مقبول ترین کھیل تھے۔

    1984ء میں حکومتِ پاکستان نے بیگم خورشید مرزا کو صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیا تھا۔ ان کی سوانح عمری A Woman of Substance کے نام سے شایع ہوچکی ہے جو ان کی صاحبزادی کے زورِ قلم کا نتیجہ ہے۔

    بیگم خورشید مرزا لاہور کے قبرستان میں آسودۂ خاک ہیں۔